۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء اور بعدازاں ۱۵ جنوری ۲۰۰۳ء کے انتخابی نتائج پاکستان میں تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ دینی جماعتوں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں اس تعداد میں حاصل ہوئیں کہ ملک کی قابل لحاظ قوت بن کر اُبھری ہیں اور توازنِ اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔
یہ تاریخی کامیابی جہاں تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے بے انتہا خوشی و مسرت کا باعث ہے‘ وہیں یہ لمحۂ فکریہ ہے اور نئی ذمہ داریوں اورمختلف النوع چیلنجوںکا پیش خیمہ بھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے‘ کبھی لے کر اور کبھی دے کر۔ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ ط (الانعام ۶:۱۶۵) ’’تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمایش کریں‘‘۔ آج کی یہ کامیابی بھی تحریکِ اسلامی کے لیے ایک امتحان اور آزمایش ہے۔ اس امتحان کے تقاضے کیا ہیں؟ اس آزمایش سے نبردآزما ہونے کے لیے کس زادِ راہ کی ضرورت ہے؟ افکار کی دنیا کو حقیقت میں کیسے بدلا جا سکتا ہے اوراس کے لیے کون سے اسباب (tools) درکار ہیں؟ یہ چند سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں۔ ان کا تنقیدی جائزہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ منزل کے نشانِ راہ واضح ہوں۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنوں سے اولین تقاضا ہمیشہ یہ ہوگا کہ وہ اُن مقاصد کو اپنے ذہن میں تازہ رکھیں جس کے لیے وہ میدانِ عمل میں اُترے ہیں۔ ہمارا مقصد محض ایک سیاسی نظام کو ایک دوسرے سیاسی نظام سے بدلنا نہیں‘ نہ ہمارا مقصد حکومت میں آنا یا پھر حکومت سے باہر بیٹھ کرنکتہ چینی اور عیب جوئی ہی ہے۔ یہ دونوں‘ حکومت سازی اور اپوزیشن میں بیٹھنا‘ ذرائع ہیں اُس ہمہ گیر انقلاب کو رونما کرنے کے لیے جس سے زندگی کے پورے نظام کو عدل و انصاف‘ محبت و اخوت‘ فلاح و ترقی اور مساوات و جمہوریت کے اُن اصولوں پر قائم کیا جاسکے جو اسلام کا طرئہ امتیاز ہیں۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اقامت ِ دین کا یہ کام ہی تحریکِ اسلامی کا مقصدِوجود اور فرضِ منصبی ہے۔ یہی رضاے الٰہی کا ذریعہ اور حصولِ جنت کا ضامن ہے۔ اس مقصد کی تذکیر‘ مختلف انداز سے‘ جس کی تفصیل ہمارے لٹریچر میں موجود ہے‘ ہر وقت ہوتی رہنی چاہیے۔
جہاں مقصد کا نگاہوں سے اوجھل ہوجانا اور رضاے الٰہی کی طلب ماند پڑ جانا ہماری اُخروی ہی نہیں دنیوی ناکامی کو یقینی بنا دیتا ہے‘ وہیں حالات و واقعات کا صحیح تجزیہ نہ کرپانا بھی تحریکِ اسلامی کے پیشِ نظرمقاصد کے لیے شکست کا باعث ہو جاتا ہے۔لہٰذا ماضی کے تجزیے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس نعرے ہیں‘ جذبہ ہے‘ محنت ہے‘ ہم قربانیاں دے سکتے ہیں لیکن اگر اخلاص حکمت و اجتہاد سے آراستہ نہ ہوتو اس اخلاص کا کوئی حاصل نہیں۔ اسلام اُن تمام چیزوں کا جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے ‘ اور مزید کا مطالبہ کرتا ہے ‘ مگر بغیر حکمت کے نہیں۔
۱- تبدیلی اللہ کی مرضی سے آتی ہے‘ نہ کہ مغرب یا کسی اور کی مرضی سے۔ ۲- مغرب اسلامی انتہاپسندی ہی سے نہیں ‘بلکہ اسلامی اعتدال پسندی سے بھی خائف ہے۔ ۳- ذرائع ابلاغ کا کردار نہایت اہم ہے۔ ۴- اسلامی نظام کے نفاذ کا تجربہ زمانہ قریب میں نہیں ملتا۔ ۵- اتحاد ہی کامیابی کی کلید ہے۔
یہ وہ پانچ بنیادی باتیں ہیں جن کا ادراک مستقبل کی حکمت ِ عملی وضع کرنے میں مفید ہوگا۔
۱- تبدیلی‘ اللّٰہ کی مرضی سے: احیاے اسلام کی جو لہر آج اُمت مسلمہ میں ہے‘ وہ جہاں تحریکِ اسلامی کی ان تھک محنت اور قربانیوں کے عملی ثمرات ہیں‘ وہیں حالات کی ناسازگاری کے باوجود اللہ کی نصرت و تائید اور اُس کی رحمت کا مظہر بھی ہے۔ یہ جملہ زبان زدعام ہے کہ ہماری حکومتیں امریکہ کے ایما پر بنتی اور بگڑتی ہیں۔ یقینا امریکہ اپنی چالیں چلتا ہے مگر درحقیقت وہ طاغوت کے لیے اللہ کی ڈھیل اور اہل ایمان کے لیے اللہ کی آزمایش ہوتی ہے۔تبدیلی اللہ ہی کی مرضی سے آتی ہے نہ کہ مغرب یا کسی اور کی مرضی سے۔ ۱۰ اکتوبر سے قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ دینی جماعتوں کو اتنی قوت حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ مرکز میں قائد حزبِ اختلاف کا کردار ادا کریں‘ سرحد میں اُن کا وزیراعلیٰ ہو اور بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم کریں‘ لیکن امریکہ اور باقی تمام اندرونی و بیرونی قوتوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا ہوا۔ اس سے قبل بھی استعماری طاقتیں بڑے ناموافق تغیرات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ انقلابِ چین و ایران کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ خود پاکستان کا قیام اور اُس کا وجود اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اگر مسلم عوام تحریکِ اسلامی کا ساتھ دیں تو طاغوتی طاقتیں (جس کا فی زمانہ امریکہ سرخیل ہے) اسلامی اصولوں پر قائم فلاحی ریاست کے خلاف کچھ نہیں کرسکتیں۔
۲- مغرب کا خوف: جہاں یہ ایک حقیقت ہے وہیں یہ بھی سمجھ لینا نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ مغربی دنیا اسلامی انتہا پسندی ہی نہیں بلکہ اسلامی اعتدال پسندی سے بھی خائف ہے۔ لہٰذا باطل نظام اور افکار ونظریات سے مداہنت کی جو آوازیں مختلف حلقوں سے اٹھائی جاتی رہتی ہیں وہ لاحاصل ہیں۔ ماضی قریب ہی کے تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ مغربی دنیا بالخصوص امریکہ کے مفادات پر ضرب نہ بھی لگے‘ تب بھی مسلمانوں کے خلاف اس کا ردعمل شدید رہا ہے۔حکومت جو بھی ہو‘ اسلامی یا غیر اسلامی‘ مغربی دنیا اُس کو صرف اس صورت میں برداشت کرسکتی ہے کہ وہ محض اُس کے مفادات ہی نہیں بلکہ اس کے افکار و نظریات اور احکامات کے بھی تابع رہے۔ ترکی میں رفاہ اور سوڈان میں اسلامی قوتوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ شاید متوقع تھا مگر آج پاکستان اور سعودی عرب جیسے حلیف و اتحادی ممالک جہاں پر تحریکِ اسلامی حکومت میں شامل نہیں اُن کے ساتھ بھی کوئی مختلف رویہ نہیں برتا جا رہا۔ پھر مداہنت کی پالیسی کا آخرکیا حاصل؟
۳- میڈیا کی طاقت: مغربی دنیا کی اسلام دشمنی جتنی شدید ہے اُتنی ہی یہ سطحی ہے۔ مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخالفانہ رویہ چند مخصوص وجوہات پر مبنی ہے جن کا تعلق مسلم مغرب تاریخ سے ہے۔ اس پر مستزاد‘ مسلمانوں کی بحیثیت مجموعی اپنے داعیانہ کردار سے بے اعتنائی نے طاغوتی طاقتوں کے مغرب کے شریف النفس عوام کے اندر اسلام سے متعلق تعصب پھیلانے کے مشن کو تقویت دی ہے۔ اسلام کی نشاتِ ثانیہ عالمی و مقامی ذرائع ابلاغ کے چیلنج کا سامنا کیے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس کی اہمیت واضح ہے اور اس کی طرف توجہ عصرِحاضر کی اہم ترین ضرورت۔ماضی قریب کے مسلم تجربات بھی اس کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے جدید میڈیا کی قوتوں کو مسخر کیا تو اُن کو خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ بڑی دل چسپ اور مطالعے کے لائق بات ہے کہ انقلابِ ایران کے تشکیلی دور میں اور بوقت ِ انقلاب امام خمینی ایران میں نہ تھے۔ اُن کی دعوت اور ان کا پیغام آڈیو کیسٹوں کے ذریعے عوام تک پہنچا جس سے ایک عظیم الشان تحریک برپا ہوئی۔
۴- نفاذِ اسلام کی حکمت عملی: اسلام معاشرے میںانقلاب لانے اور نظامِ حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے جو حکمت ِ عملی تجویز کرتا ہے وہ جامد نہیں بلکہ حرکی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو منکر کوہوتا دیکھے‘ اسے ہاتھ سے مٹا دے‘ اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے بُرا کہے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو پھر دل میں بُرا جانے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے‘‘(مسلم)۔ گویا جہاں درجہ بندیاں کر دیں وہیں گنجایش بھی دے دی‘ تاکہ موقع و محل کو مدنظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل وضع کیا جا سکے۔
رسولؐ اکرم کی حکمت ِ انقلاب میں تدریج و تحلیف کو بڑا دخل رہا۔ جہاں تک ممکن ہو سکا آںحضورؐ نے ایک سے زائد محاذ نہ کھولا۔ مقصدِتحریک کے مطابق ترجیحات قائم کیں اور قوت کے باوجود فروعی مسائل میں نہ اُلجھے۔ مشہور حدیث ہے کہ رسولؐ اللہ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ سے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ وہ کعبہ کی حضرت ابراہیم ؑ کے نقوش پر تعمیرنو کرنا چاہتے ہیں‘ جس میں حطیم کعبہ کا حصہ ہو‘ مگر ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ اس سے اُن کی قوم خوش نہ ہوگی۔
عصرِجدید میں نفاذِ اسلام کا ایسا کوئی عملی نمونہ نہیں جس کو سامنے رکھ کر تقلید کی جا سکے ۔ لہٰذا جو لوگ اِس کام کو کرنے کے لیے میدان میں اُتریں‘ اُن کے لیے یہ نہایت اہم ہے کہ وہ حکمت و دانش کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تدریج سے کام لیں۔ رسول رحمتؐ معاذ اللہ داروغہ نہ تھے‘ بلکہ اُن کو بشارت کے لیے مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اسلام پابندیاں لگانے نہیں آیا ۔ اسلام تو حریت کی اذان ہے۔ اسلام کے علم برداروں کے لیے یہی نقطۂ آغاز ہے اور یہی نقطۂ اختتام۔
۵- ا تحاد ، کلیدِ کامیابی: سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو کامیابی دینی جماعتوں کو نصیب ہوئی ہے وہ سراسر متحدہ مجلسِ عمل کے فیوض و برکات کا مظہر ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی جماعتوں میں اتحاد و یک جہتی کو مزید مستحکم کیا جائے بلکہ اس کے دائرے کو وسیع کرکے اُن تمام قوتوں کو شامل کیا جائے جو ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہیں۔ حتیٰ کہ مشترک مقاصد کے حصول کے لیے مخالفینِ تحریک اسلامی سے تعاون میں بھی تامل نہیں ہونا چاہیے۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ روزِمحشر اپنی اُمت کی تعداد اُن کے لیے افتخار کا سبب ہوگی۔ معیار (quality) یقینا ضروری ہے لیکن تعداد (quantity) کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ رسولؐ اللہ نے اپنی ۲۳سالہ نبوت میں اسلام میں داخلے کے لیے کوئی مخصوص شرائط نہیں رکھیں۔ جو آیا اُس کو اپنے ساتھ شامل کرلیا اور جہاں تک ممکن ہوسکا اُس کی تربیت کا سامان کیا۔ لیکن ہر انسان مختلف معیار اور صلاحیتوں سے متصف ہوتا ہے۔ تحریکِ اسلامی اگر کامیابی کی منازل طے کرنا چاہتی ہے تواُس کو دینی جدوجہد کے لیے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو جمع کرنا ہوگا۔ جو جس حد تک ساتھ دے اُس کو قبول کیا جائے اور مزید توفیق کے لیے دعا کی جائے۔ دینی جماعتوں کا اتحاد تو آغاز ہے۔ اتحاد کے اس دائرے کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک مرد و زن‘ بچے اور بوڑھے سبھی دین کی خدمت کے لیے متحد و مستعد نہ ہوں گے‘ اسلام کی سرفرازی ممکن نہیں۔
اقامت ِ دین کا کام محض ایک جماعت یا انجمن نہیں کرسکتی۔ جماعتیں شعور دے سکتی ہیں‘ افکار پھیلا سکتی ہیں‘ عوام کو منظم کرسکتی ہیں‘ لیکن جب تک عامۃ الناس ساتھ نہ دیں کچھ ممکن نہیں۔ ہم جب لوگوں کی عدالت میں پیش ہوں گے تبھی لوگ ہمارے ساتھ آئیں گے اور جب لوگ ہمارے ساتھ آئیں گے تو فتح و نصرت بھی آئے گی ۔اس کا نسخہ آج بھی وہی ہے جو کل تھا اور قیامت تک یہی نسخہ کامیابی کا ضامن ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ o اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ ج وَاِنْ یَّخْذُ لْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْم بَعْدِہٖط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹-۱۶۰) (اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ اِن کے قصور معاف کر دو‘ اِن کے حق میں دُعاے مغفرت کرو‘ اور دین کے کام میں اِن کو بھی شریک مشورہ رکھو‘ پھر جب تمھارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں‘ اور وہ تمھیں چھوڑدے‘ تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔