سید عرفان منور گیلانی


رمضان کا مبارک مہینہ ایک مرتبہ پھر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آیا، غفرانِ عام کا مینہ برسا، اور ہم ابھی رحمتوں کی اس بہار سے بہرہ مند ہو ہی رہے تھے کہ یہ ہم سے رخصت بھی ہوگیا۔

زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ وقت ہے کہ تھمتا نہیں۔ نعمتوں کی بارش ہورہی ہو، خوشیوں کا دل کش موسم ہو، راحتوں و فرحتوں سے ہمارا آنگن بھر رہا ہو، یا پھر مصائب و مشکلات آن گھیریں اور دکھ درد، رنج و اندوہ کے اَبر چھا جائیں، حالات ایک جیسے کبھی نہیں رہتے۔ گزرتا ہرلمحہ، قرآن کی اس پکار کا امین ہے کہ والعصر، یعنی غور کرو وقت اور زمانے کے تیزی سے گزرنے اور بدلنے پر، تم خسارے میں ہو!

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی زندگی کا کوئی اور سچ ہو نہ ہو، اُس کی موت اُس کی زندگی کا سب سے بڑا سچ ہوتا ہے۔ یہ بات کہ دنیا فانی ہے، میں فانی ہوں،اس کو پہچاننا، اس کو مان جانا، اور واقعی مان جانا، ایمان کے لیے شرطِ لازم تو ضرور ہے، البتہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ ایمان کا اظہار ہی کافی ہے نہ صرف ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے بلکہ اپنے آپ کو دھوکا و فریب دینے کے مترادف ہے۔ یہ تو فلاح کی سیڑھی پر پہلا قدم ہے۔گویا پیدایش سے ہی خسارے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

 سورئہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ o وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ o    اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا ط سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ  o مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍط وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o (۲۹:۲-۵)  کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کرچکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔ اور کیا وہ لوگ جو بُری حرکتیں کر رہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگا رہے ہیں۔ جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے ہی والا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

 یہ دنیا کا قانون تو ہوسکتا ہے کہ اقرار باللسان سے جان خلاصی ہوجائے لیکن بارگاہِ ایزدی میں عدل کا تقاضا یہی ہے کہ کھرے اور کھوٹے میں امتیاز اعمال کی بنیاد پر ہی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ انسان پر روشنی ڈالتے ہوئے یہی مقصد تو بیان فرمایا کہ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط (الملک ۶۷:۲)، یعنی اُس نے موت پیدا کی تاکہ اُس کے آنے تک جو مہلتِ حیات ہمیں عطا کی گئی ہے وہ اس میں آزمائے کہ ہم میں سے کون کون بہترین اعمال کا مظاہرہ کرتا ہے۔اس امتحان میں اللہ رب العالمین ہمیں طرح طرح سے آزمائے گا۔ وہ فرماتا ہے:

وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِط (البقرہ ۲:۱۵۵) اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔

اس سے کوئی مفر نہیں۔ موت کو تو ہم دُور گردانتے ہیں اور اُس کو واقعی سمجھنا بھی شاید مشکل محسوس ہوتا ہے، مگر ان کیفیات و واقعات سے تو ہر وقت دوچار رہتے ہیں۔ تاہم، اس بات میں ہمارے لیے بڑی ڈھارس ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔    لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَاط (البقرہ ۲:۲۸۶)۔ ہم پر اس دنیا کی  بڑی سے بڑی آزمایش آئے، کٹھن سے کٹھن ابتلا ہو، ہمارے اندر وہ قوت پنہاں ہے جس سے ہم اس کا مقابلہ پامردی سے کرسکتے ہیں۔ ہم غور کریں تو رمضان کے روزے اسی احساس کو پروان چڑھانے کے لیے فرض کیے گئے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o  (البقرہ ۲:۱۸۳)، ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ   تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔

 یہ تقویٰ کیا ہے، اسی احساس کا نام ہے۔

ہم رمضان میں اپنے کھانے پینے کی بالکل جائز اور فطری ضروریات سے رُک گئے صرف اس لیے کہ اللہ نے ہم سے اس کا تقاضا کیا۔ خواہش کے باوجود، نہ کھلے نہ چھپے، نہ کھایا نہ پیا۔ وسائل موجود تھے،اُن پر اختیار بھی تھا، لیکن صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی رضا و خوشنودی کی خاطر   ہم نے اپنا ہاتھ روکے رکھا، یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارے اندر وہ قوتِ ارادی اور قوتِ برداشت  بدرجہ اتم موجود ہے جس سے ہم اُن کاموں سے رُک جائیں جو اللہ کو ناپسند ہیں اور اُن اعمال کی طرف دوڑیں جو اللہ کو محبوب ہیں۔ یہی احساس، کہ اللہ دیکھ رہا ہے، وہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے، جب پروان چڑھتا ہے تب ہی ہم قرآن کی ہدایت کے جس کا نزول رمضان المبارک میں ہوا، مستحق قرار پاتے ہیں۔

ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo (البقرہ۲:۲) یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے۔

آج ہرمحلے میں تراویح کی نماز ہوتی ہے، قریہ قریہ، نگر نگر فہم قرآن کلاسیں منعقد ہورہی ہیں، دروسِ قرآن کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے لیکن معاشرے میں اس کے اثرات مفقود نہ سہی تو محدود ضرور ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ قرآن انسان اور معاشرے میں حُریت فکر کا جو انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے، اُس کے بنیادی تقاضوں اور منازل سے قرآن کے سننے اور سنانے والے، پڑھنے اور پڑھانے والے، سبھی غافل ہیں، کجا کہ وہ جو قرآن کی دعوت کو لے کر اُٹھنے کے دعوے دار ہوں۔ وہ لوگ اگر آج مرجع خلائق نہیں تو اس کی بھی شاید یہی وجہ ہے۔ حاملِ قرآن ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔

لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ o (الحشر ۵۹:۲۱)، اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر) غور کریں۔

پس اگر ہم قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں، اُس کی دعوت کو لے کر اُٹھنا چاہتے ہیں، اپنے  آپ کو اور اپنے معاشرے کو اُس کی اقدار کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں، تو پھر اپنے اندر تقویٰ   اور وہ احساس و سوز پیدا کرنا، اور پروان چڑھانا ہوگا جو اس کے لیے شرطِ اوّل و لازم ہے، جس کی تعلیم و تربیت کے لیے رمضان آیا۔

یہ رمضان ہمیں کچھ زادِ راہ دے گیا ہے، تو اس پونجی کو روز بروز بڑھانے کی ضرورت ہے، تب ہی ہم قرآن و سنت کی دعوت لے کر اُٹھنے کے اہل ہوں گے اور تب ہی پوری دنیا پر اپنے اسلاف کی طرح چھا جائیں گے۔یہی مقصدِ حیات اور راہِ نجات ہے۔

۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء اور بعدازاں ۱۵ جنوری ۲۰۰۳ء کے انتخابی نتائج پاکستان میں تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ دینی جماعتوں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں اس تعداد میں حاصل ہوئیں کہ ملک کی قابل لحاظ قوت بن کر اُبھری ہیں اور توازنِ اقتدار بھی انھی کے ہاتھ میں ہے۔

یہ تاریخی کامیابی جہاں تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے بے انتہا خوشی و مسرت کا باعث ہے‘ وہیں یہ لمحۂ فکریہ ہے اور نئی ذمہ داریوں اورمختلف النوع چیلنجوںکا پیش خیمہ بھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے‘ کبھی لے کر اور کبھی دے کر۔ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ ط (الانعام ۶:۱۶۵) ’’تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمایش کریں‘‘۔  آج کی یہ کامیابی بھی تحریکِ اسلامی کے لیے ایک امتحان اور آزمایش ہے۔ اس امتحان کے تقاضے کیا ہیں؟ اس آزمایش سے نبردآزما ہونے کے لیے کس زادِ راہ کی ضرورت ہے؟ افکار کی دنیا کو حقیقت میں کیسے بدلا جا سکتا ہے اوراس کے لیے کون سے اسباب (tools) درکار ہیں؟ یہ چند سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں۔ ان کا تنقیدی جائزہ وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ منزل کے نشانِ راہ واضح ہوں۔

تحریکِ اسلامی کے کارکنوں سے اولین تقاضا ہمیشہ یہ ہوگا کہ وہ اُن مقاصد کو اپنے ذہن میں تازہ رکھیں جس کے لیے وہ میدانِ عمل میں اُترے ہیں۔ ہمارا مقصد محض ایک سیاسی نظام    کو ایک دوسرے سیاسی نظام سے بدلنا نہیں‘ نہ ہمارا مقصد حکومت میں آنا یا پھر حکومت سے باہر بیٹھ کرنکتہ چینی اور عیب جوئی ہی ہے۔ یہ دونوں‘ حکومت سازی اور اپوزیشن میں بیٹھنا‘ ذرائع ہیں اُس ہمہ گیر انقلاب کو رونما کرنے کے لیے جس سے زندگی کے پورے نظام کو عدل و انصاف‘ محبت و اخوت‘ فلاح و ترقی اور مساوات و جمہوریت کے اُن اصولوں پر قائم کیا جاسکے جو اسلام کا طرئہ امتیاز ہیں۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اقامت ِ دین کا یہ کام ہی تحریکِ اسلامی کا مقصدِوجود اور فرضِ منصبی ہے۔ یہی رضاے الٰہی کا ذریعہ اور حصولِ جنت کا ضامن ہے۔ اس مقصد کی تذکیر‘ مختلف انداز سے‘ جس کی تفصیل ہمارے لٹریچر میں موجود ہے‘ ہر وقت ہوتی رہنی چاہیے۔

جہاں مقصد کا نگاہوں سے اوجھل ہوجانا اور رضاے الٰہی کی طلب ماند پڑ جانا ہماری اُخروی ہی نہیں دنیوی ناکامی کو یقینی بنا دیتا ہے‘ وہیں حالات و واقعات کا صحیح تجزیہ نہ کرپانا بھی تحریکِ اسلامی کے پیشِ نظرمقاصد کے لیے شکست کا باعث ہو جاتا ہے۔لہٰذا ماضی کے تجزیے کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس نعرے ہیں‘ جذبہ ہے‘ محنت ہے‘ ہم قربانیاں دے سکتے ہیں لیکن اگر اخلاص حکمت و اجتہاد سے آراستہ نہ ہوتو اس اخلاص کا کوئی حاصل نہیں۔ اسلام اُن تمام چیزوں کا جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے ‘ اور مزید کا مطالبہ کرتا ہے ‘ مگر بغیر حکمت کے نہیں۔

انتخابی نتائج کی روشنی میں حالات و واقعات کا صحیح تجزیہ تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے خطوط کار طے کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس ضمن میں چند باتیں ذہن نشین کرلینے کی ضرورت ہے:

۱-  تبدیلی اللہ کی مرضی سے آتی ہے‘ نہ کہ مغرب یا کسی اور کی مرضی سے۔ ۲- مغرب اسلامی انتہاپسندی ہی سے نہیں ‘بلکہ اسلامی اعتدال پسندی سے بھی خائف ہے۔ ۳-  ذرائع ابلاغ کا کردار نہایت اہم ہے۔ ۴-  اسلامی نظام کے نفاذ کا تجربہ زمانہ قریب میں نہیں ملتا۔  ۵- اتحاد ہی کامیابی کی کلید ہے۔

یہ وہ پانچ بنیادی باتیں ہیں جن کا ادراک مستقبل کی حکمت ِ عملی وضع کرنے میں مفید ہوگا۔

۱-  تبدیلی‘ اللّٰہ کی مرضی سے: احیاے اسلام کی جو لہر آج اُمت مسلمہ میں ہے‘ وہ جہاں تحریکِ اسلامی کی ان تھک محنت اور قربانیوں کے عملی ثمرات ہیں‘ وہیں حالات کی ناسازگاری کے باوجود اللہ کی نصرت و تائید اور اُس کی رحمت کا مظہر بھی ہے۔ یہ جملہ زبان زدعام ہے کہ ہماری حکومتیں امریکہ کے ایما پر بنتی اور بگڑتی ہیں۔ یقینا امریکہ اپنی چالیں چلتا ہے مگر درحقیقت وہ طاغوت کے لیے اللہ کی ڈھیل اور اہل ایمان کے لیے اللہ کی آزمایش ہوتی ہے۔تبدیلی اللہ ہی کی مرضی سے آتی ہے نہ کہ مغرب یا کسی اور کی مرضی سے۔ ۱۰ اکتوبر سے قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ دینی جماعتوں کو اتنی قوت حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ مرکز میں قائد حزبِ اختلاف کا کردار ادا کریں‘ سرحد میں اُن کا وزیراعلیٰ ہو اور بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم کریں‘ لیکن امریکہ اور باقی تمام اندرونی و بیرونی قوتوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا ہوا۔ اس سے قبل بھی استعماری طاقتیں بڑے ناموافق تغیرات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ انقلابِ چین و ایران کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ خود پاکستان کا قیام اور اُس کا وجود اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اگر مسلم عوام تحریکِ اسلامی کا ساتھ دیں تو طاغوتی طاقتیں (جس کا فی زمانہ امریکہ سرخیل ہے) اسلامی اصولوں پر قائم فلاحی ریاست کے خلاف کچھ نہیں کرسکتیں۔

۲-  مغرب کا خوف: جہاں یہ ایک حقیقت ہے وہیں یہ بھی سمجھ لینا نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ مغربی دنیا اسلامی انتہا پسندی ہی نہیں بلکہ اسلامی اعتدال پسندی سے بھی خائف ہے۔ لہٰذا باطل نظام اور افکار ونظریات سے مداہنت کی جو آوازیں مختلف حلقوں سے اٹھائی جاتی رہتی ہیں وہ لاحاصل ہیں۔ ماضی قریب ہی کے تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ مغربی دنیا بالخصوص امریکہ کے مفادات پر ضرب نہ بھی لگے‘ تب بھی مسلمانوں کے خلاف اس کا ردعمل شدید رہا ہے۔حکومت جو بھی ہو‘ اسلامی یا غیر اسلامی‘ مغربی دنیا اُس کو صرف اس صورت میں برداشت کرسکتی ہے کہ وہ محض اُس کے مفادات ہی نہیں بلکہ اس کے افکار و نظریات اور احکامات کے بھی تابع رہے۔ ترکی میں رفاہ اور سوڈان میں اسلامی قوتوں کے برسرِاقتدار آنے کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ شاید متوقع تھا مگر آج پاکستان اور سعودی عرب جیسے حلیف و اتحادی ممالک جہاں پر تحریکِ اسلامی حکومت میں شامل نہیں اُن کے ساتھ بھی کوئی مختلف رویہ نہیں برتا جا رہا۔ پھر مداہنت کی پالیسی کا آخرکیا حاصل؟

۳-  میڈیا کی طاقت: مغربی دنیا کی اسلام دشمنی جتنی شدید ہے اُتنی ہی یہ سطحی ہے۔ مغرب کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخالفانہ رویہ چند مخصوص وجوہات پر مبنی ہے جن کا تعلق مسلم مغرب تاریخ سے ہے۔ اس پر مستزاد‘ مسلمانوں کی بحیثیت مجموعی اپنے داعیانہ کردار سے بے اعتنائی نے طاغوتی طاقتوں کے مغرب کے شریف النفس عوام کے اندر اسلام سے متعلق تعصب پھیلانے کے مشن کو تقویت دی ہے۔ اسلام کی نشاتِ ثانیہ عالمی و مقامی ذرائع ابلاغ کے چیلنج کا سامنا کیے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس کی اہمیت واضح ہے اور اس کی طرف توجہ عصرِحاضر کی اہم ترین ضرورت۔ماضی قریب کے مسلم تجربات بھی اس کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے جدید میڈیا کی قوتوں کو مسخر کیا تو اُن کو خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ بڑی  دل چسپ اور مطالعے کے لائق بات ہے کہ انقلابِ ایران کے تشکیلی دور میں اور بوقت ِ انقلاب امام خمینی ایران میں نہ تھے۔ اُن کی دعوت اور ان کا پیغام آڈیو کیسٹوں کے ذریعے عوام تک پہنچا جس سے ایک عظیم الشان تحریک برپا ہوئی۔

۴-  نفاذِ اسلام کی حکمت عملی: اسلام معاشرے میںانقلاب لانے اور نظامِ حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے جو حکمت ِ عملی تجویز کرتا ہے وہ جامد نہیں بلکہ حرکی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو منکر کوہوتا دیکھے‘ اسے ہاتھ سے مٹا دے‘ اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے بُرا کہے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو پھر دل میں بُرا جانے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے‘‘(مسلم)۔ گویا جہاں درجہ بندیاں کر دیں وہیں گنجایش بھی دے دی‘ تاکہ موقع و محل کو مدنظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل وضع کیا جا سکے۔

رسولؐ اکرم کی حکمت ِ انقلاب میں تدریج و تحلیف کو بڑا دخل رہا۔ جہاں تک ممکن ہو سکا آںحضورؐ نے ایک سے زائد محاذ نہ کھولا۔ مقصدِتحریک کے مطابق ترجیحات قائم کیں اور قوت کے باوجود فروعی مسائل میں نہ اُلجھے۔ مشہور حدیث ہے کہ رسولؐ اللہ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ سے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ وہ کعبہ کی حضرت ابراہیم ؑ کے نقوش پر تعمیرنو کرنا چاہتے ہیں‘ جس میں حطیم کعبہ کا حصہ ہو‘ مگر ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ اس سے اُن کی قوم خوش نہ ہوگی۔

عصرِجدید میں نفاذِ اسلام کا ایسا کوئی عملی نمونہ نہیں جس کو سامنے رکھ کر تقلید کی جا سکے ۔  لہٰذا جو لوگ اِس کام کو کرنے کے لیے میدان میں اُتریں‘ اُن کے لیے یہ نہایت اہم ہے کہ وہ  حکمت و دانش کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تدریج سے کام لیں۔ رسول رحمتؐ معاذ اللہ داروغہ نہ تھے‘ بلکہ اُن کو بشارت کے لیے مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اسلام پابندیاں لگانے نہیں آیا ۔ اسلام تو حریت کی اذان ہے۔ اسلام کے علم برداروں کے لیے یہی نقطۂ آغاز ہے اور یہی نقطۂ اختتام۔

۵-  ا تحاد ، کلیدِ کامیابی: سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو کامیابی دینی جماعتوں کو نصیب ہوئی ہے وہ سراسر متحدہ مجلسِ عمل کے فیوض و برکات کا مظہر ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی جماعتوں میں اتحاد و یک جہتی کو مزید مستحکم کیا جائے بلکہ اس کے دائرے کو وسیع کرکے اُن تمام قوتوں کو شامل کیا جائے جو ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہیں۔ حتیٰ کہ مشترک مقاصد کے حصول کے لیے مخالفینِ تحریک اسلامی سے تعاون میں بھی تامل نہیں ہونا چاہیے۔

رسول اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ روزِمحشر اپنی اُمت کی تعداد اُن کے لیے افتخار کا سبب ہوگی۔ معیار (quality) یقینا ضروری ہے لیکن تعداد (quantity) کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ رسولؐ اللہ نے اپنی ۲۳سالہ نبوت میں اسلام میں داخلے کے لیے کوئی مخصوص شرائط نہیں رکھیں۔ جو آیا اُس کو اپنے ساتھ شامل کرلیا اور جہاں تک ممکن ہوسکا اُس کی تربیت کا سامان کیا۔ لیکن ہر انسان مختلف معیار اور صلاحیتوں سے متصف ہوتا ہے۔ تحریکِ اسلامی اگر کامیابی کی منازل طے کرنا چاہتی ہے تواُس کو دینی جدوجہد کے لیے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو جمع کرنا ہوگا۔ جو جس حد تک ساتھ دے اُس کو قبول کیا جائے اور مزید توفیق کے لیے دعا کی جائے۔ دینی جماعتوں کا اتحاد تو آغاز ہے۔ اتحاد کے اس دائرے کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک مرد و زن‘ بچے اور بوڑھے سبھی دین کی خدمت کے لیے متحد و مستعد نہ ہوں گے‘ اسلام کی سرفرازی ممکن نہیں۔

اقامت ِ دین کا کام محض ایک جماعت یا انجمن نہیں کرسکتی۔ جماعتیں شعور دے سکتی ہیں‘ افکار پھیلا سکتی ہیں‘ عوام کو منظم کرسکتی ہیں‘ لیکن جب تک عامۃ الناس ساتھ نہ دیں کچھ ممکن نہیں۔ ہم جب لوگوں کی عدالت میں پیش ہوں گے تبھی لوگ ہمارے ساتھ آئیں گے اور جب لوگ ہمارے ساتھ آئیں گے تو فتح و نصرت بھی آئے گی ۔اس کا نسخہ آج بھی وہی ہے جو کل تھا اور قیامت تک یہی نسخہ کامیابی کا ضامن ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ o اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ ج وَاِنْ یَّخْذُ لْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْم بَعْدِہٖط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹-۱۶۰) (اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ اِن کے قصور معاف کر دو‘ اِن کے حق میں دُعاے مغفرت کرو‘ اور دین کے کام میں اِن کو بھی شریک مشورہ رکھو‘ پھر جب تمھارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسا کرو‘ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔ اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں‘ اور وہ تمھیں چھوڑدے‘ تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرسکتا ہو؟ پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔

یورپ اور اسلام کا تعلق اُتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ اسلام کی تاریخ۔ حجاز سے اُٹھنے والی طوفانی تحریک نے یورپ کے چپے چپے پر اپنے نقوش ثبت کیے ہیں اورآج ۱۴۰۰ سال بعد اسلام اور مسلمان دونوں یورپ کے قلب میں پھل پھول رہے ہیں۔ مغربی یورپ ہی میں مسلمانوں کی تعداد کم و بیش ڈیڑھ کروڑ ہے اور تقریباً اِن تمام ممالک میں اسلام‘ عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔ اس آبادی کا بیشتر حصہ اُن تارکینِ وطن مسلمانوں اور اُن کی نسلوں پر مشتمل ہے جو گذشتہ صدی کے پیچیدہ معاشی و معاشرتی حالات کے باعث اپنے ممالک چھوڑ کر یورپ منتقل ہوئے۔ لیکن وقت کے ساتھ اب اس آبادی میں نومسلموں کی تعداد بھی متواتر بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

یورپ میں مسلمانوں کی اس کثرتِ تعداد سے اُمید کی جا سکتی تھی کہ اسلام اور مغرب کے باہمی تعلقات نفرت و عداوت کے بجاے محبت و الفت پر استوار ہوتے لیکن ایسا نہ ہوا‘ اور مستقبل قریب میں بھی بظاہر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس کی چندوجوہات ہیں:

۱- مسلمانوں کے ساتھ مغربی دنیا کی کش مکش کی طویل تاریخ‘ بالخصوص صلیبی جنگیں‘ ۱۰۹۹ء میں صلیبیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا یروشلم میں قتل عام‘۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونا‘ ۱۴۹۲ء میں سرزمینِ اندلس سے مسلمانوں کا خروج وغیرہ جانبین میں باہمی دشمنی کو فروغ دینے کا باعث رہے ہیں۔

۲- مسلم معاشی و سیاسی قوت کا زوال اور بالآخر مغربی استعمارکا مسلم دنیا پر غالب آجانا جس کے نتیجے میں مغرب‘ بالخصوص یورپ کا‘ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل و برتر سمجھنا ‘ استشراق (orientalism) اور مسلمانوں کا دو کیفیات سے دوچار ہونا: ایک احساسِ کمتری ‘ جس نے مسلمانوں میں اپنی تہذیب وتمدن کے حوالے سے ایک معذرت خواہانہ رویے کو جنم دیا‘ اور دوسرے مغرب سے منسوب ہر چیز کو کفر تصور کرنا‘ جس کے باعث خود مسلمانوں کے مزاج کا عدل کے بجائے غلو‘ رجعت پسندی اور تعصب کی طرف مائل ہونا‘ جو اجتہاد کی صفت سے محروم ہے۔

۳-  مغرب کا اپنے فکری طلسم کو نہ توڑ پانا اور اپنے متکبرانہ مزاج کے موافق اسلام کی ایسی تحقیر آمیز تصویرکشی کرکے ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلانا‘ جس سے اسلام کے خلاف غلط فہمیاں عام ہوں اور مسلمانوں کا تشخص مجروح ہو۔

۴-  مسلمانوں کا بذاتِ خود اسلام کا صحیح فہم و شعور رکھنا‘ نہ اُس کو بطور دین تسلیم کرنا اور نہ مسلم اکثریتی معاشروں میں اسے عملاً نافذ کرنا‘ اس پر مستزاد مسلمانوںکا بغیر سیاسی اقتدار کے ‘بحیثیت اقلیت غیرمسلم اقوام و ممالک میں قیام پذیر ہونے کے حوالے سے ناتجربہ کار ہونا اور نتیجتاً اسلام کا درست اطلاق نہ کر پانا۔

۵-  مسلمانوں کا مغربی افکار ونظریات کو نہ سمجھ پانا‘ حکومتی پالیسیوں اور عوامی جذبات میں فرق نہ کرنا اور جذبۂ محبت و اصلاح اور وللّٰہ المشرق والمغرب سے بے گانہ ہونا۔

مختصراً یہ وہ پانچ بنیادی وجوہات ہیں جو یورپ اور بقیہ مغربی دنیا میں مسلمانوں کی بقا اور اسلام کے فروغ میں سدِراہ ہیں۔

مسلمانوں کے حالات

اگرچہ یورپ میں تارکینِ وطن آبادیوں کے حوالے سے مسائل کا آغاز اُن کی آمد کے دن ہی سے ہو گیا تھا‘ تاہم ۱۱ستمبر کے واقعے نے مسئلے کی نوعیت کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ اس سے قبل یورپ کی  مقامی آبادیاں‘ ذرائع ابلاغ اور حکومتیں‘صرف وضع قطع‘ زبان اور رسم و رواج کے اُس ظاہری فرق کو دیکھتے تھے   جو تارکینِ وطن اور مقامی آبادیوں کے مابین نظر آتا تھا۔ اسلام کا نام لیتے ہوئے ایک حجاب تھا اور بلاواسطہ نقد و تنقید کرتے ہوئے محتاط رہا جاتا تھا۔ اصل موضوع یک جہتی (integration) میں حائل عناصر ہوتے تھے جن میں سے ایک اسلام بھی تھا۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد مسئلہ تارکینِ وطن کی یک جہتی(integration) یا جذب ہونے (assimilation) کا نہیں رہا بلکہ اب اصل ایشو ہی اسلام اور مغربی دنیا کا باہمی تعلق ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ کوئی نئی بات نہیں البتہ زمانہ حاضر سے پہلے یہ تعلق مشرق و مغرب کی جغرافیائی حدود میں بآسانی تقسیم کر دیا جاتا تھامگر اب یورپ میں مسلم آبادی کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ اگر یورپ میں راے عامہ کا ایک موثر حصہ افغانستان و عراق کے ساتھ جنگ کے خلاف ہے یا مغربی عوام کی ہمدردیاں اسرائیل کے بجائے فلسطینیوں کے ساتھ ہیں تو اس میں یورپی ممالک میں مسلمانوں کی موجودگی کا بڑا عمل دخل ہے۔ بلادِ اسلامی کو مغلوب ومحکوم رکھنے کا مسئلہ محض بین الاقوامی سیاست سے متعلق نہیں رہا بلکہ یورپ کی داخلی سیاست اب اس بحث سے متاثر ہے۔ یورپ کے دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں جن پر پہلے سرد جنگ کا سایہ تھا‘ کمیونزم کے زوال کے بعد اُن کی دشمنی کا ہدف اسلام ٹھیرا جس کی عالمی قوت اور انقلابی نظریات سے وہ خوف زدہ تھے۔ ان کا اندازہ ہے کہ وقت کے ساتھ مسلمان مغربی تہذیب وثقافت کے لیے خطرے کا باعث ہوںگے۔ انقلاب ایران اورالجزائر‘ ترکی و سوڈان سمیت بوسنیا میں اسلام پسند قوتوں کے مقتدر ہونے نے اس تاثر کو مزید مستحکم کیا۔ اسی لیے تارکان وطن آبادیوں کی آڑ میں یورپ کی دائیں بازو کی قوتوں نے ایک زبردست تحریک کا آغاز کیا‘ جس کی لپیٹ میںآج پورا یورپ آچکا ہے۔

۹۰ کے عشرے میں سارا یورپ آہستہ آہستہ Islamophobia کے جال میں آتا گیا۔ دائیں بازو کی قوتوں نے اس جال کو بننے کی ابتدا دو محاذوں سے کی۔ ایک طرف تو انھوں نے بے روزگاری و معاشی ابتری کو تارکین وطن کی موجودگی سے منسوب کیا‘ تو دوسری جانب اسلام کی نظریاتی بنیادوں پر کاری ضرب لگائی۔ یورپ کی روایتی سیاسی جماعتیں سردجنگ کے خاتمے پر اپنی تعمیرنو اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں مشغول تھیں۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور فوکویاما اورہن ٹنگٹن جیسے امریکی مفکرین سمیت امریکی حکومت کی بین الاقوامی پالیسی نے اِن لوگوں کو مواد و سازگار ماحول فراہم کیاجس کے نتیجے میں ان کی سیاسی قوت اور اثر و رسوخ میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ سارے یورپ میں ایک لہر دوڑ گئی۔ عوام بے روزگاری اور معاشی حالات سے بدظن تھے‘ انھوں نے اس معاشی تنگ دستی کی اصل تشخیص‘ یعنی ربا پر قائم معیشت کے بجاے جو سرماے کی غیر منصفانہ تقسیم پر مبنی ہے‘ دائیں بازو کی قوتوں کے اس تجزیے کو ترجیح دی کہ غیر ملکیوں نے ملازمتوں پر قبضہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مقامی آبادی کے باشندوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں اور جو تارکینِ وطن ملازمتوں اور کاروبار پر قابض نہیں‘ وہ گھر بیٹھ کر ہماری محنت کا پھل ریاستی بہبود (state welfare) کی شکل میں حاصل کر رہے ہیں اور ان کا اصل مقصد ہی یورپ آکر  ہمارے فلاحی نظام سے ناجائز فائدہ اُٹھانا ہے۔

اگرچہ ابتدا میں نشانہ خصوصی طور پر مسلمان نہ تھے مگر رفتہ رفتہ اشارے اسی جانب ہونے لگے۔ اس ساری بحث میں اسلام میں عورت کا مقام‘ اسلام اور عدل اجتماعی‘ اسلام اور جمہوریت‘ جہاد اور بالآخر دہشت گردی جیسے موضوعات اور ان سے متعلق سوالات جابجا اُٹھائے گئے اورمسلمانوں کو تنقیص کا نشانہ بنایا گیا۔ عام آبادی میںخوف‘ خطرے اورتعصب و تحقیرکے جذبات نے جڑپکڑی اور نتیجتاً آسٹریا میں ہائیڈر یورک (Haider Jorg) کی فریڈم پارٹی نے جس کی نازی ہمدردیاں مشہور ہیں‘ تارکان وطن دشمن (anti-immigration) پالیسی پر ۲۷ فی صد ووٹ حاصل کیے اور مخلوط حکومت قائم کی۔ یہی معاملہ ڈنمارک میں ڈینش پیپلز پارٹی کا ہوا جو ۱۲ فی صد ووٹ کے ساتھ ملک کی تیسری قوت بن کر اُبھری۔ بلجیم کی دائیں بازو کی پارٹی کو ۹.۹ فی صد‘ جرمنی میں ۳ فی صد‘ اٹلی میں ۴ فی صد‘ پرتگال میں ۹ فی صد‘ سوئٹزرلینڈ میں ۵.۲۲ فی صد ووٹ ملے۔ فرانس میں Jean-Marie Le Pen صدارتی انتخاب میں ۱۸ فی صد ووٹ لے کر دوسری پوزیشن پر آئے۔ ناروے میں پروگریس پارٹی نے پارلیمنٹ کی ۱۶۵ سیٹوں میں سے ۶۲ نشستیں حاصل کیں اور حکومت میں شریک ہوئی۔ اسی طرح ہالینڈ میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں دائیں بازو کی جماعت نے اپنی پہلی انتخابی مہم ہی میں ۲۶ نشستیں حاصل کیں۔ پارٹی لیڈر Pim Fortuyn نے انتخابی مہم کے دوران اسلام کو ایک رجعت پسند دین قرار دیا جو فرد کے حقوق کو سلب کرتا ہے۔

مستقبل؟

۱۱ستمبرکے واقعے نے اسلام کے خلاف ایسے برملا اظہارِخیال کو جواز مہیا کر دیاہے۔ ۱۱ستمبر کی ہولناکیوں کواسلام اور مسلمانوں کے ساتھ منسوب کرنے سے یورپ کی فضا میں اسلام کے لیے جو خیرسگالی کے جذبات تھے اُن میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ آیندہ انتخابات میں دائیں بازو کی تحریکوں کومزید کامیابی حاصل ہوگی۔ امریکہ بھی‘ جو بین الاقوامی سیاست کے دھارے کو متعین کرتا ہے‘ اسی جانب پیش قدمی کر رہا ہے جس سے ان تحریکوں کو تقویت ملے گی۔ ایسی صورت حال میں یورپ کے مسلمانوں کو تین طرح کی صورت حال (scenarios) پیش آسکتی ہے۔

ایک امکان یہ ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے گا۔ عوامی دبائوکے ذریعے مسلمانوں کو مجبور کیاجائے گا کہ اسلام سے برأت کا اعلان کریں۔ یہ بغاوت محض ارتداد کی شکل میں نہیں ہوگی بلکہ مختلف حربوں سے مجبور کیا جائے گا کہ خود اسلام میں تحریف کی جائے جس طرح عیسائیت میں کی گئی۔

دوسرا قوی امکان یہ ہے کہ جوں جوں بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے خلاف مہم زور پکڑے    توں توں تشدد کے ذریعے یورپ سے مسلمانوں کے اخراج کا سامان کیا جائے اور بالآخر مسلمانوں کو ایک قتل عام (holocaust) کا سامنا کرنا پڑے۔

تیسری صورت جو موجودہ صورت حال میں بظاہر تو بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے‘ مگر ناممکن بھی نہیں ہے‘ اور وہ ہے: وَھُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْم بَعْدِ مَا قَنَطُوْا  وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ ط(الشوریٰ ۴۲:۲۸) ’’وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے‘‘۔ اس نویدسے کچھ حوصلہ افزائی ملتی ہے کہ یورپ اسلام کی دعوت کو قبول کر کے اس کا قلعہ بنے گا۔

پہلی صورت اس پہلو سے بڑی خطرناک ہے کہ تاریخی اعتبار سے کسی بھی مسلم ریاست نے دین میں تحریف اور ارتداد کو برداشت نہیں کیا اور نہ آیندہ ہی ایسی تحریکوں کو مسلم ممالک میں کوئی قابلِ ذکر مقبولیت حاصل ہونے کی توقع ہے۔ خود پاکستان میں قادیانیت و انکارِ حدیث کے فتنوں کو تمام تر کوششوں کے باوجود عوامی تائید حاصل نہ ہونے پائی۔ لیکن یورپ جو غیر مسلم معاشرہ ہے‘وہاں یہ کام اسلام دشمن قوتوں کے تعاون و سرپرستی سے یا پھر احساسِ کمتری کا شکار ہوکر مسلمان ممالک میں برآمد کیے جانے کا خطرہ ہے۔ اس طرح نہ صرف یورپ میں بلکہ پوری دنیا میں اسلامی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا جائے گا اورمغربی استعمار کے ایک نئے دور کاآغاز ہوگا۔

اگرچہ اکثر و بیشتر مسلمان ۱۱ ستمبر سے قبل ’قتل عام‘ کا کوئی امکان نہ سمجھتے تھے لیکن اب ایسا معاملہ نہیں رہا۔ ماحول اس کے لیے سازگار بنایا جا رہا ہے۔ ابھی سے ہی جمہوریت اور انسانی حقوق کے اصولوں پربھی نظرثانی کی جارہی ہے تاکہ مسلمانوں کا خون حلال کیا جا سکے۔ ایسی صورت پیش آنے میں ابھی وقت ہے‘ تاہم اس خطرے کو نظراندازکرنا حماقت ہوگی کیونکہ یورپ کی تاریخ میں اس کی متعدد نظیریں موجود ہیں۔

تیسری صورت وہ ہے جس کی طرف حددرجہ غیر متوقع ہونے کے باوجود مسلمانوں کو پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ڈیڑھ‘دو کروڑ مسلمان یورپ سے ہجرت کر سکتے ہیں نہ مستقبل قریب ہی میں بلادِ اسلامی کو اتنی قوت حاصل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے کہ وہ یورپ میں مسلم اقلیت کے تحفظ کا سامان کرسکیں۔

مجوزہ لائحہ عمل

لہٰذا ۱۱ ستمبر کی روشنی میں‘تاریخ سے عبرت پکڑ کر اپنا محاسبہ کرتے ہوئے درپیش چیلنج کا جائزہ لینے کے بعد لائحہ عمل وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے راہنما خطوط یہ ہو سکتے ہیں:

۱-  مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ سیاسی اقتدار‘ عسکری قوت یا معاشی خوش حالی ہمارے مقاصد نہیں بلکہ تکمیلِ ایمان کے ذرائع ہیں۔مقصد اللہ کی رضا اور اُس کے ذریعے جنت کاحصول ہے۔

۲-  یہ بنیادی بات سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ اسلام کسی جغرافیائی حدود کا پابند نہیں۔ اسلام اور مغرب کے ناگزیرہونے کا تصور ہمارا نہیں‘ نہ ہمیں اس کی خواہش ہی ہونی چاہیے۔ اگر کوئی تصادم ناگزیرہے تو وہ اسلام اور کفر و جاہلیت اورظلم کاہے۔ اگر آج لاہورو بغداد مسلم ہیں تو کل تک دہلی و قرطبہ بھی مومن تھے‘ مگر آج نہیں۔ اسی طرح اگرآج کعبۃ اللہ توحید کا پیکرہے تو کبھی بت کدہ تھا۔ حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔

اسلام کسی ایک قوم‘ رنگ و نسل کی ملک نہیں۔ اسلام دلوں میں بستا ہے۔ جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہو سکتے ہیں وہ کل کو فاروق اعظمؓ بھی کہلا سکتے ہیں۔ ہمارا کام لوگوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچانا ہے نہ کہ اُن کا خاتمہ۔ اگر ہم اس بنیادی وکلیدی پہلو کو مدنظررکھیں اور اپنے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ ہم رسولِ رحمتؐ کے اُمتی ہیںتو ہمارے دین کا تقاضا ہے کہ مغرب کے تمام بش‘ بلیئر‘ پاول و کسنجر حلقہ بگوش اسلام ہوں۔ مگر یہ صرف اُسی جذبۂ محبت و اصلاح‘ عفو ودرگزر اورتڑپ سے ممکن ہے جوآنحضورؐ کا شیوہ تھا۔ اس فہم و شعور اور اس کے مقتضیات کوسمجھے بغیرتمام مساعی لاحاصل ہیں۔

۳-  اسلام عدل کا علم بردار ہے اورمسلمانوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ عدل کریں۔  یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَج (النساء ۴:۱۳۵) وہ امانت دار ہوں۔  اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاٰمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلط (۴:۵۸) اور معاشرے میں تعمیری و فعال کردار ادا کریں۔ یورپ کے مسلمانوں کے لیے یہ بات نہایت اہم ہے کیونکہ ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مسلم آبادی الگ تھلگ رہتی ہے اور تحفظ ایمانی کی آڑ میں مقامی باشندوں سے گھلنے ملنے سے گریزاں ہے۔ اس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور سوے ظن پھیلتا ہے۔ اس کیفیت سے نہ صرف یورپ کے مسلمانوں کو نقصان پہنچتاہے بلکہ مسلم ممالک کی آبادیاں بھی نقصان اٹھاتی ہیں۔ دوسری جانب مسلم ممالک میں بھی اس سے ملتی جلتی کیفیات پائی جاتی ہیں جو نوآبادیاتی دور کا منطقی نتیجہ ہے۔ مغرب سے تنفر کے جذبات اس نوعیت کے ہیں کہ مسلم ممالک کے عوام نے بحیثیت مجموعی ۱۱ ستمبرکے واقعے کے بعد مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرٍ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَانَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط (المائدہ ۵:۳۲)کے سبق کو بھلا دیا اور اس سانحے پر غم کے بجاے خوشی کااظہار کیا۔ تمام ممالک میں نکالے جانے والے مظاہروں اور جلوسوں میں مغرب کے خلاف جو جذباتی نعرہ بازی ہوتی ہے اورسیاسی رہنمائوں کے پتلوں کو نذرآتش کیا جاتا ہے‘ ایسے واقعات یورپ ہی نہیں بلکہ بقیہ ساری دنیا میں اسلام و مسلمانوں کو ایک غیرروادار شر تصور کرنے کا باعث بنتے ہیں اور اس کا خمیازہ سب سے بڑھ کر یورپ کے مسلمانوں اور فلسطین کے حریت پسندوں کو بھگتناپڑتا ہے۔ اگر سوچ محدود نہ ہو اور قومی مفاد سے بالاترہو تو اس تصور (image) اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے کافی حد تک نجات کی اُمید کی جا سکتی ہے۔

۴- بلادِ اسلامیہ کے مسلمانوں‘ مفکرین‘ صحافیوں‘ ریاستی و حکومتی ذمہ داروں اور اسلامی احیائی تحریکوں کے کارکنوں اور قیادت کوپالیسی سازی کے وقت اور بیانات دیتے ہوئے مغرب بالخصوص یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل و حالات کو ملحوظ خاطر رکھنے کی اور اُن سے مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ اسلام کی تعلیمات و تصورات کو بدعات وسیئات سے پاک کرکے پیش کرنے میں آسانی ہو۔

یہ وہ چار بنیادی اصول ہیں جن کو اپنا کر یورپ میں مسلمانوں کا تحفظ ہوسکتا ہے اور عالمی سطح پر اسلام کی نشات ثانیہ کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ موجودہ تہذیبی کش مکش میں یورپ کے مسلمانوں کا کردار کلیدی ہے اور اُن کو نظرانداز کرکے یہ معرکہ سر کرنا ناممکن ہے۔ یورپ کے عوام خود امریکہ کی بالادستی سے بیزار ہیں۔ اگراُن کی طرف ہاتھ بڑھایا جائے تو دعوت کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے جس سے بالآخر امریکہ کے رویے میں بھی تبدیلی آئے گی۔ وَلاَتَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمران ۳:۱۳۹)