اکتوبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

یورپ میں اسلام ماضی‘ حال اور مستقبل

سید عرفان منور گیلانی | اکتوبر ۲۰۰۲ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

یورپ اور اسلام کا تعلق اُتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ اسلام کی تاریخ۔ حجاز سے اُٹھنے والی طوفانی تحریک نے یورپ کے چپے چپے پر اپنے نقوش ثبت کیے ہیں اورآج ۱۴۰۰ سال بعد اسلام اور مسلمان دونوں یورپ کے قلب میں پھل پھول رہے ہیں۔ مغربی یورپ ہی میں مسلمانوں کی تعداد کم و بیش ڈیڑھ کروڑ ہے اور تقریباً اِن تمام ممالک میں اسلام‘ عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔ اس آبادی کا بیشتر حصہ اُن تارکینِ وطن مسلمانوں اور اُن کی نسلوں پر مشتمل ہے جو گذشتہ صدی کے پیچیدہ معاشی و معاشرتی حالات کے باعث اپنے ممالک چھوڑ کر یورپ منتقل ہوئے۔ لیکن وقت کے ساتھ اب اس آبادی میں نومسلموں کی تعداد بھی متواتر بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

یورپ میں مسلمانوں کی اس کثرتِ تعداد سے اُمید کی جا سکتی تھی کہ اسلام اور مغرب کے باہمی تعلقات نفرت و عداوت کے بجاے محبت و الفت پر استوار ہوتے لیکن ایسا نہ ہوا‘ اور مستقبل قریب میں بھی بظاہر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس کی چندوجوہات ہیں:

۱- مسلمانوں کے ساتھ مغربی دنیا کی کش مکش کی طویل تاریخ‘ بالخصوص صلیبی جنگیں‘ ۱۰۹۹ء میں صلیبیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا یروشلم میں قتل عام‘۱۴۵۳ء میں قسطنطنیہ کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونا‘ ۱۴۹۲ء میں سرزمینِ اندلس سے مسلمانوں کا خروج وغیرہ جانبین میں باہمی دشمنی کو فروغ دینے کا باعث رہے ہیں۔

۲- مسلم معاشی و سیاسی قوت کا زوال اور بالآخر مغربی استعمارکا مسلم دنیا پر غالب آجانا جس کے نتیجے میں مغرب‘ بالخصوص یورپ کا‘ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل و برتر سمجھنا ‘ استشراق (orientalism) اور مسلمانوں کا دو کیفیات سے دوچار ہونا: ایک احساسِ کمتری ‘ جس نے مسلمانوں میں اپنی تہذیب وتمدن کے حوالے سے ایک معذرت خواہانہ رویے کو جنم دیا‘ اور دوسرے مغرب سے منسوب ہر چیز کو کفر تصور کرنا‘ جس کے باعث خود مسلمانوں کے مزاج کا عدل کے بجائے غلو‘ رجعت پسندی اور تعصب کی طرف مائل ہونا‘ جو اجتہاد کی صفت سے محروم ہے۔

۳-  مغرب کا اپنے فکری طلسم کو نہ توڑ پانا اور اپنے متکبرانہ مزاج کے موافق اسلام کی ایسی تحقیر آمیز تصویرکشی کرکے ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلانا‘ جس سے اسلام کے خلاف غلط فہمیاں عام ہوں اور مسلمانوں کا تشخص مجروح ہو۔

۴-  مسلمانوں کا بذاتِ خود اسلام کا صحیح فہم و شعور رکھنا‘ نہ اُس کو بطور دین تسلیم کرنا اور نہ مسلم اکثریتی معاشروں میں اسے عملاً نافذ کرنا‘ اس پر مستزاد مسلمانوںکا بغیر سیاسی اقتدار کے ‘بحیثیت اقلیت غیرمسلم اقوام و ممالک میں قیام پذیر ہونے کے حوالے سے ناتجربہ کار ہونا اور نتیجتاً اسلام کا درست اطلاق نہ کر پانا۔

۵-  مسلمانوں کا مغربی افکار ونظریات کو نہ سمجھ پانا‘ حکومتی پالیسیوں اور عوامی جذبات میں فرق نہ کرنا اور جذبۂ محبت و اصلاح اور وللّٰہ المشرق والمغرب سے بے گانہ ہونا۔

مختصراً یہ وہ پانچ بنیادی وجوہات ہیں جو یورپ اور بقیہ مغربی دنیا میں مسلمانوں کی بقا اور اسلام کے فروغ میں سدِراہ ہیں۔

مسلمانوں کے حالات

اگرچہ یورپ میں تارکینِ وطن آبادیوں کے حوالے سے مسائل کا آغاز اُن کی آمد کے دن ہی سے ہو گیا تھا‘ تاہم ۱۱ستمبر کے واقعے نے مسئلے کی نوعیت کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ اس سے قبل یورپ کی  مقامی آبادیاں‘ ذرائع ابلاغ اور حکومتیں‘صرف وضع قطع‘ زبان اور رسم و رواج کے اُس ظاہری فرق کو دیکھتے تھے   جو تارکینِ وطن اور مقامی آبادیوں کے مابین نظر آتا تھا۔ اسلام کا نام لیتے ہوئے ایک حجاب تھا اور بلاواسطہ نقد و تنقید کرتے ہوئے محتاط رہا جاتا تھا۔ اصل موضوع یک جہتی (integration) میں حائل عناصر ہوتے تھے جن میں سے ایک اسلام بھی تھا۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد مسئلہ تارکینِ وطن کی یک جہتی(integration) یا جذب ہونے (assimilation) کا نہیں رہا بلکہ اب اصل ایشو ہی اسلام اور مغربی دنیا کا باہمی تعلق ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ کوئی نئی بات نہیں البتہ زمانہ حاضر سے پہلے یہ تعلق مشرق و مغرب کی جغرافیائی حدود میں بآسانی تقسیم کر دیا جاتا تھامگر اب یورپ میں مسلم آبادی کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ اگر یورپ میں راے عامہ کا ایک موثر حصہ افغانستان و عراق کے ساتھ جنگ کے خلاف ہے یا مغربی عوام کی ہمدردیاں اسرائیل کے بجائے فلسطینیوں کے ساتھ ہیں تو اس میں یورپی ممالک میں مسلمانوں کی موجودگی کا بڑا عمل دخل ہے۔ بلادِ اسلامی کو مغلوب ومحکوم رکھنے کا مسئلہ محض بین الاقوامی سیاست سے متعلق نہیں رہا بلکہ یورپ کی داخلی سیاست اب اس بحث سے متاثر ہے۔ یورپ کے دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں جن پر پہلے سرد جنگ کا سایہ تھا‘ کمیونزم کے زوال کے بعد اُن کی دشمنی کا ہدف اسلام ٹھیرا جس کی عالمی قوت اور انقلابی نظریات سے وہ خوف زدہ تھے۔ ان کا اندازہ ہے کہ وقت کے ساتھ مسلمان مغربی تہذیب وثقافت کے لیے خطرے کا باعث ہوںگے۔ انقلاب ایران اورالجزائر‘ ترکی و سوڈان سمیت بوسنیا میں اسلام پسند قوتوں کے مقتدر ہونے نے اس تاثر کو مزید مستحکم کیا۔ اسی لیے تارکان وطن آبادیوں کی آڑ میں یورپ کی دائیں بازو کی قوتوں نے ایک زبردست تحریک کا آغاز کیا‘ جس کی لپیٹ میںآج پورا یورپ آچکا ہے۔

۹۰ کے عشرے میں سارا یورپ آہستہ آہستہ Islamophobia کے جال میں آتا گیا۔ دائیں بازو کی قوتوں نے اس جال کو بننے کی ابتدا دو محاذوں سے کی۔ ایک طرف تو انھوں نے بے روزگاری و معاشی ابتری کو تارکین وطن کی موجودگی سے منسوب کیا‘ تو دوسری جانب اسلام کی نظریاتی بنیادوں پر کاری ضرب لگائی۔ یورپ کی روایتی سیاسی جماعتیں سردجنگ کے خاتمے پر اپنی تعمیرنو اور مستقبل کی منصوبہ بندی میں مشغول تھیں۔ دائیں بازو کی جماعتوں نے اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور فوکویاما اورہن ٹنگٹن جیسے امریکی مفکرین سمیت امریکی حکومت کی بین الاقوامی پالیسی نے اِن لوگوں کو مواد و سازگار ماحول فراہم کیاجس کے نتیجے میں ان کی سیاسی قوت اور اثر و رسوخ میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ سارے یورپ میں ایک لہر دوڑ گئی۔ عوام بے روزگاری اور معاشی حالات سے بدظن تھے‘ انھوں نے اس معاشی تنگ دستی کی اصل تشخیص‘ یعنی ربا پر قائم معیشت کے بجاے جو سرماے کی غیر منصفانہ تقسیم پر مبنی ہے‘ دائیں بازو کی قوتوں کے اس تجزیے کو ترجیح دی کہ غیر ملکیوں نے ملازمتوں پر قبضہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مقامی آبادی کے باشندوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں اور جو تارکینِ وطن ملازمتوں اور کاروبار پر قابض نہیں‘ وہ گھر بیٹھ کر ہماری محنت کا پھل ریاستی بہبود (state welfare) کی شکل میں حاصل کر رہے ہیں اور ان کا اصل مقصد ہی یورپ آکر  ہمارے فلاحی نظام سے ناجائز فائدہ اُٹھانا ہے۔

اگرچہ ابتدا میں نشانہ خصوصی طور پر مسلمان نہ تھے مگر رفتہ رفتہ اشارے اسی جانب ہونے لگے۔ اس ساری بحث میں اسلام میں عورت کا مقام‘ اسلام اور عدل اجتماعی‘ اسلام اور جمہوریت‘ جہاد اور بالآخر دہشت گردی جیسے موضوعات اور ان سے متعلق سوالات جابجا اُٹھائے گئے اورمسلمانوں کو تنقیص کا نشانہ بنایا گیا۔ عام آبادی میںخوف‘ خطرے اورتعصب و تحقیرکے جذبات نے جڑپکڑی اور نتیجتاً آسٹریا میں ہائیڈر یورک (Haider Jorg) کی فریڈم پارٹی نے جس کی نازی ہمدردیاں مشہور ہیں‘ تارکان وطن دشمن (anti-immigration) پالیسی پر ۲۷ فی صد ووٹ حاصل کیے اور مخلوط حکومت قائم کی۔ یہی معاملہ ڈنمارک میں ڈینش پیپلز پارٹی کا ہوا جو ۱۲ فی صد ووٹ کے ساتھ ملک کی تیسری قوت بن کر اُبھری۔ بلجیم کی دائیں بازو کی پارٹی کو ۹.۹ فی صد‘ جرمنی میں ۳ فی صد‘ اٹلی میں ۴ فی صد‘ پرتگال میں ۹ فی صد‘ سوئٹزرلینڈ میں ۵.۲۲ فی صد ووٹ ملے۔ فرانس میں Jean-Marie Le Pen صدارتی انتخاب میں ۱۸ فی صد ووٹ لے کر دوسری پوزیشن پر آئے۔ ناروے میں پروگریس پارٹی نے پارلیمنٹ کی ۱۶۵ سیٹوں میں سے ۶۲ نشستیں حاصل کیں اور حکومت میں شریک ہوئی۔ اسی طرح ہالینڈ میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں دائیں بازو کی جماعت نے اپنی پہلی انتخابی مہم ہی میں ۲۶ نشستیں حاصل کیں۔ پارٹی لیڈر Pim Fortuyn نے انتخابی مہم کے دوران اسلام کو ایک رجعت پسند دین قرار دیا جو فرد کے حقوق کو سلب کرتا ہے۔

مستقبل؟

۱۱ستمبرکے واقعے نے اسلام کے خلاف ایسے برملا اظہارِخیال کو جواز مہیا کر دیاہے۔ ۱۱ستمبر کی ہولناکیوں کواسلام اور مسلمانوں کے ساتھ منسوب کرنے سے یورپ کی فضا میں اسلام کے لیے جو خیرسگالی کے جذبات تھے اُن میں واضح طور پر کمی واقع ہوئی ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ آیندہ انتخابات میں دائیں بازو کی تحریکوں کومزید کامیابی حاصل ہوگی۔ امریکہ بھی‘ جو بین الاقوامی سیاست کے دھارے کو متعین کرتا ہے‘ اسی جانب پیش قدمی کر رہا ہے جس سے ان تحریکوں کو تقویت ملے گی۔ ایسی صورت حال میں یورپ کے مسلمانوں کو تین طرح کی صورت حال (scenarios) پیش آسکتی ہے۔

ایک امکان یہ ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے گا۔ عوامی دبائوکے ذریعے مسلمانوں کو مجبور کیاجائے گا کہ اسلام سے برأت کا اعلان کریں۔ یہ بغاوت محض ارتداد کی شکل میں نہیں ہوگی بلکہ مختلف حربوں سے مجبور کیا جائے گا کہ خود اسلام میں تحریف کی جائے جس طرح عیسائیت میں کی گئی۔

دوسرا قوی امکان یہ ہے کہ جوں جوں بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے خلاف مہم زور پکڑے    توں توں تشدد کے ذریعے یورپ سے مسلمانوں کے اخراج کا سامان کیا جائے اور بالآخر مسلمانوں کو ایک قتل عام (holocaust) کا سامنا کرنا پڑے۔

تیسری صورت جو موجودہ صورت حال میں بظاہر تو بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے‘ مگر ناممکن بھی نہیں ہے‘ اور وہ ہے: وَھُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْم بَعْدِ مَا قَنَطُوْا  وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ ط(الشوریٰ ۴۲:۲۸) ’’وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے‘‘۔ اس نویدسے کچھ حوصلہ افزائی ملتی ہے کہ یورپ اسلام کی دعوت کو قبول کر کے اس کا قلعہ بنے گا۔

پہلی صورت اس پہلو سے بڑی خطرناک ہے کہ تاریخی اعتبار سے کسی بھی مسلم ریاست نے دین میں تحریف اور ارتداد کو برداشت نہیں کیا اور نہ آیندہ ہی ایسی تحریکوں کو مسلم ممالک میں کوئی قابلِ ذکر مقبولیت حاصل ہونے کی توقع ہے۔ خود پاکستان میں قادیانیت و انکارِ حدیث کے فتنوں کو تمام تر کوششوں کے باوجود عوامی تائید حاصل نہ ہونے پائی۔ لیکن یورپ جو غیر مسلم معاشرہ ہے‘وہاں یہ کام اسلام دشمن قوتوں کے تعاون و سرپرستی سے یا پھر احساسِ کمتری کا شکار ہوکر مسلمان ممالک میں برآمد کیے جانے کا خطرہ ہے۔ اس طرح نہ صرف یورپ میں بلکہ پوری دنیا میں اسلامی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا جائے گا اورمغربی استعمار کے ایک نئے دور کاآغاز ہوگا۔

اگرچہ اکثر و بیشتر مسلمان ۱۱ ستمبر سے قبل ’قتل عام‘ کا کوئی امکان نہ سمجھتے تھے لیکن اب ایسا معاملہ نہیں رہا۔ ماحول اس کے لیے سازگار بنایا جا رہا ہے۔ ابھی سے ہی جمہوریت اور انسانی حقوق کے اصولوں پربھی نظرثانی کی جارہی ہے تاکہ مسلمانوں کا خون حلال کیا جا سکے۔ ایسی صورت پیش آنے میں ابھی وقت ہے‘ تاہم اس خطرے کو نظراندازکرنا حماقت ہوگی کیونکہ یورپ کی تاریخ میں اس کی متعدد نظیریں موجود ہیں۔

تیسری صورت وہ ہے جس کی طرف حددرجہ غیر متوقع ہونے کے باوجود مسلمانوں کو پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ڈیڑھ‘دو کروڑ مسلمان یورپ سے ہجرت کر سکتے ہیں نہ مستقبل قریب ہی میں بلادِ اسلامی کو اتنی قوت حاصل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے کہ وہ یورپ میں مسلم اقلیت کے تحفظ کا سامان کرسکیں۔

مجوزہ لائحہ عمل

لہٰذا ۱۱ ستمبر کی روشنی میں‘تاریخ سے عبرت پکڑ کر اپنا محاسبہ کرتے ہوئے درپیش چیلنج کا جائزہ لینے کے بعد لائحہ عمل وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے راہنما خطوط یہ ہو سکتے ہیں:

۱-  مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ سیاسی اقتدار‘ عسکری قوت یا معاشی خوش حالی ہمارے مقاصد نہیں بلکہ تکمیلِ ایمان کے ذرائع ہیں۔مقصد اللہ کی رضا اور اُس کے ذریعے جنت کاحصول ہے۔

۲-  یہ بنیادی بات سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ اسلام کسی جغرافیائی حدود کا پابند نہیں۔ اسلام اور مغرب کے ناگزیرہونے کا تصور ہمارا نہیں‘ نہ ہمیں اس کی خواہش ہی ہونی چاہیے۔ اگر کوئی تصادم ناگزیرہے تو وہ اسلام اور کفر و جاہلیت اورظلم کاہے۔ اگر آج لاہورو بغداد مسلم ہیں تو کل تک دہلی و قرطبہ بھی مومن تھے‘ مگر آج نہیں۔ اسی طرح اگرآج کعبۃ اللہ توحید کا پیکرہے تو کبھی بت کدہ تھا۔ حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔

اسلام کسی ایک قوم‘ رنگ و نسل کی ملک نہیں۔ اسلام دلوں میں بستا ہے۔ جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہو سکتے ہیں وہ کل کو فاروق اعظمؓ بھی کہلا سکتے ہیں۔ ہمارا کام لوگوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچانا ہے نہ کہ اُن کا خاتمہ۔ اگر ہم اس بنیادی وکلیدی پہلو کو مدنظررکھیں اور اپنے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ ہم رسولِ رحمتؐ کے اُمتی ہیںتو ہمارے دین کا تقاضا ہے کہ مغرب کے تمام بش‘ بلیئر‘ پاول و کسنجر حلقہ بگوش اسلام ہوں۔ مگر یہ صرف اُسی جذبۂ محبت و اصلاح‘ عفو ودرگزر اورتڑپ سے ممکن ہے جوآنحضورؐ کا شیوہ تھا۔ اس فہم و شعور اور اس کے مقتضیات کوسمجھے بغیرتمام مساعی لاحاصل ہیں۔

۳-  اسلام عدل کا علم بردار ہے اورمسلمانوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ عدل کریں۔  یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَج (النساء ۴:۱۳۵) وہ امانت دار ہوں۔  اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاٰمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلط (۴:۵۸) اور معاشرے میں تعمیری و فعال کردار ادا کریں۔ یورپ کے مسلمانوں کے لیے یہ بات نہایت اہم ہے کیونکہ ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مسلم آبادی الگ تھلگ رہتی ہے اور تحفظ ایمانی کی آڑ میں مقامی باشندوں سے گھلنے ملنے سے گریزاں ہے۔ اس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور سوے ظن پھیلتا ہے۔ اس کیفیت سے نہ صرف یورپ کے مسلمانوں کو نقصان پہنچتاہے بلکہ مسلم ممالک کی آبادیاں بھی نقصان اٹھاتی ہیں۔ دوسری جانب مسلم ممالک میں بھی اس سے ملتی جلتی کیفیات پائی جاتی ہیں جو نوآبادیاتی دور کا منطقی نتیجہ ہے۔ مغرب سے تنفر کے جذبات اس نوعیت کے ہیں کہ مسلم ممالک کے عوام نے بحیثیت مجموعی ۱۱ ستمبرکے واقعے کے بعد مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرٍ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَانَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط (المائدہ ۵:۳۲)کے سبق کو بھلا دیا اور اس سانحے پر غم کے بجاے خوشی کااظہار کیا۔ تمام ممالک میں نکالے جانے والے مظاہروں اور جلوسوں میں مغرب کے خلاف جو جذباتی نعرہ بازی ہوتی ہے اورسیاسی رہنمائوں کے پتلوں کو نذرآتش کیا جاتا ہے‘ ایسے واقعات یورپ ہی نہیں بلکہ بقیہ ساری دنیا میں اسلام و مسلمانوں کو ایک غیرروادار شر تصور کرنے کا باعث بنتے ہیں اور اس کا خمیازہ سب سے بڑھ کر یورپ کے مسلمانوں اور فلسطین کے حریت پسندوں کو بھگتناپڑتا ہے۔ اگر سوچ محدود نہ ہو اور قومی مفاد سے بالاترہو تو اس تصور (image) اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے کافی حد تک نجات کی اُمید کی جا سکتی ہے۔

۴- بلادِ اسلامیہ کے مسلمانوں‘ مفکرین‘ صحافیوں‘ ریاستی و حکومتی ذمہ داروں اور اسلامی احیائی تحریکوں کے کارکنوں اور قیادت کوپالیسی سازی کے وقت اور بیانات دیتے ہوئے مغرب بالخصوص یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل و حالات کو ملحوظ خاطر رکھنے کی اور اُن سے مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ اسلام کی تعلیمات و تصورات کو بدعات وسیئات سے پاک کرکے پیش کرنے میں آسانی ہو۔

یہ وہ چار بنیادی اصول ہیں جن کو اپنا کر یورپ میں مسلمانوں کا تحفظ ہوسکتا ہے اور عالمی سطح پر اسلام کی نشات ثانیہ کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ موجودہ تہذیبی کش مکش میں یورپ کے مسلمانوں کا کردار کلیدی ہے اور اُن کو نظرانداز کرکے یہ معرکہ سر کرنا ناممکن ہے۔ یورپ کے عوام خود امریکہ کی بالادستی سے بیزار ہیں۔ اگراُن کی طرف ہاتھ بڑھایا جائے تو دعوت کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے جس سے بالآخر امریکہ کے رویے میں بھی تبدیلی آئے گی۔ وَلاَتَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمران ۳:۱۳۹)