’’۱۱ستمبر کی ستم کاریاں‘‘ (ستمبر ۲۰۰۲ء) میں آپ نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ معلوم نہیں امریکہ کو کب اور کس طرح عقل آئے گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ساری دنیا کو خصوصاً مسلمانوں کو اپنا ایسا دشمن بنا رہا ہے کہ شاید امریکی عوام کئی نسلوں تک اس کے نتائج بھگتیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری قیادتیں خوابِ غفلت میں مبتلا ہیں۔ اگر ملّت اسلامیہ منصوبہ بندی کرے اور امریکہ اور مغرب میں مقیم لاکھوں مسلمان اسلام کی صحیح تصویر بن جائیں تو امریکہ اور مغرب کے عام انسان کی رائے میں تبدیلی بالکل ممکن ہے۔ خودہلاکتی کی جس راہ پر بش اپنی قوم کو لے جا رہا ہے اس کا توڑ یہی ہے کہ وہاں کے میڈیا اور عوام کی آنکھیں کھلیں اور وہ یہود کے پنجے سے آزاد ہوں۔ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں‘ سیکھ سکتے ہیں پھر جو کرنا چاہیے وہ واقعی کریں بھی۔ یہ دنیا تو عالم اسباب ہے۔
’’مولانا مودودی: زندگی کا ایک پُرآشوب دور‘‘ (ستمبر ۲۰۰۲ء) بلاشبہہ معلومات افزا مضمون تھا‘ تاہم اگر اس کا عنوان ’’ترجمان القرآن کا ایک پُرآشوب دور‘‘ ہوتا تو زیادہ موزوں تھا۔ اس مضمون میں اعجاز الحق قدوسی صاحب کے مضمون ’’وہ ایک شمع کہ جس کے دم سے‘‘ کی بنیاد پر‘ حامد عبدالرحمن الکاف صاحب نے جو اقتباس دیا تھا‘وہ ادھورا نقل ہوا۔ جس سے قرض کی واپسی کے مسئلے میں کوتاہی سامنے آئی۔ یہاں پر میں قدوسی صاحب کے مضمون سے اصل پیرا نقل کر رہا ہوں جس سے مذکورہ ابہام دور ہو جائے گا۔اعجاز الحق قدوسی صاحب لکھتے ہیں:
میں نے سرور خاں صاحب کو ]نعیم صدیقی صاحب کے دستخط والا[ مولانا ] مودودی[ کا خط سُنا دیا۔ پھر سرور خاں صاحب نے بھی کچھ نہیں کہا۔ جب جماعت اسلامی قائم ہو گئی اور مولانا جنوبی ہند کانفرنس مدراس میں شریک ہونے کے لیے حیدرآباد میں فروکش ہوئے تو میں مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ملاقات کے بعد پوچھا کہ آپ سرور خاں صاحب کا روپیہ بھی لائے ہیں۔ مولانا نے اٹیچی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ روپیہ اس میں ہے۔ سرور خاں صاحب کو نظام آباد تار دو کہ وہ آکر اپنا روپیہ لے لیں۔ سرور خاں صاحب تشریف لائے تو مولانا ] مودودی[ نے قرض کی ادایگی میں ]بوجوہ [ تاخیر پر بڑی معذرت کی اور ایک ہزار روپے سرور خاں صاحب کے حوالے کیے۔ سرور خاں صاحب نے ان میں سے دو سو روپے جماعت اسلامی کے چندے میں دے دیے اور آٹھ سو روپے اپنی جیب میں رکھے۔ (ملاحظہ کیجیے: تذکرہ سید مودودی‘ جلد سوم‘ ‘ ص ۳۰۲‘ ۱۹۹۸ء)
ترجمان القرآن میں ایک عرصے کے بعد افغانستان پر کوئی تحریر پڑھنے کو ملی۔ڈاکٹر محمد ساعد نے ’’افغانستان: امریکی جارحیت اور خانہ جنگی کے چنگل میں‘‘ (ستمبر ۲۰۰۲ء) اعداد و شمار اور حالات و واقعات کے ذریعے بڑی عمدگی سے افغانستان کی صورت حال کو واضح کیا ہے اور ایک بھرپور تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس سے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بہت سے سوالات کے جواب سامنے آتے ہیں۔
دو منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ Constitutional Law شائع ہونے والی ہے۔ یہ انگریزی میں مولویانہ کاوش ہے۔ چار جلدوں میں Legal Study of Sunnah پر کام کر رہا ہوں۔ تیسری جلد لکھ رہا ہوں۔ اگرچہ انگریزی کمزور ہوگی مگر بین الاقوامی طور پر احادیث سے استنباط احکام پر سادہ زبان میں کوئی کتاب نہ تھی۔ اس کے علاوہ The Story of the Quranلکھ رہا ہوں۔ ۴۰ سورتوں کی تلخیص ہو چکی ہے۔ اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا اسلام کی طرف متوجہ ہو گئی ہے۔ ان کے لیے ایک مختصر تشریح کے ساتھ ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کی تعلیمات کو پیش کیا جائے تاکہ ایک نظر میں قرآن‘ سیرت اور اسلامی تعلیمات قاری کے سامنے آجائیں۔ قبل اس کے کہ کارکردگی کی قوت جواب دے دے‘ میں ان منصوبوں کو مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
ایک طویل عرصے سے اخبارات و رسائل میں یا مختلف ٹی وی چینلوں پر جب بھی القدس کے حوالے سے کوئی خبر پیش کی جاتی ہے تو ایک سنہرے گنبد والی خوب صورت عمارت کو بطور مسجداقصیٰ پیش کیا جاتا ہے۔ اس تصویر کو بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں پھیلایا بھی گیا ہے جسے مسلمان بخوشی اپنے ڈرائنگ روم یا دفتر کی زینت بناتے ہیں۔ اس ہمہ گیر مہم کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی ایک بڑی تعداد بشمول مسلمان سنہرے گنبد والی اس عمارت کو مسجد اقصیٰ سمجھتی ہے اور فلسطین سے متعلق شائع ہونے والی کتب کا سرورق یہی عمارت ہوتی ہے۔ یہ عمارت مسجد اقصیٰ نہیں بلکہ مسجد صخرہ ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک حضورؐ نے معراج کا آغاز اسی مقام سے کیا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں جب بیت المقدس فتح ہوا اور ہیکل سلیمانی کے شکستہ کھنڈرات پر مسجد اقصیٰ تعمیر ہوئی تو صخرہ پر بھی مسجد تعمیر کی گئی۔ اسے مسجد صخرہ یا مسجد عمرؓ بھی کہتے ہیں۔ سب سے پہلے پانچویں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے صخرہ پر ایک شاندار گنبد تعمیر کروایا تھا۔ مسجد صخرہ دراصل مسجد اقصیٰ نہیں ہے۔ یہودیوں نے ایک سازش اور جعل سازی کے تحت مسجد صخرہ کو مسجد اقصیٰ کے طور پر متعارف کروایا ہے تاکہ کسی بھی وقت جب وہ اصل مسجد اقصیٰ کو شہید کریں تو لوگ اسی دھوکے میں رہیں کہ مسجد اقصیٰ قائم ہے۔ اس طرح وہ عالمی ردعمل سے بھی بچنا چاہتے ہیں اور اپنی خواہش کی تکمیل بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اس یہودی سازش کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔