اکتوبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

۱۰ اکتوبر کے قومی انتخابات _____ خدشات‘ خطرات اور امکانات

پروفیسر خورشید احمد | اکتوبر ۲۰۰۲ | اشارات

Responsive image Responsive image

۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء پاکستان کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ بن سکتا ہے۔ اب پوری قوم کے سامنے بالکل کھل کر آگیا ہے کہ کل کا سیاسی اور نظریاتی نقشہ کیا ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اصل ایشو یہ ہے کہ اس مرحلے پر قوم کی منزلِ سفر حقیقی اسلامی اور فلاحی جمہوریت ہوگی یا ایک ایسی ’’ٹیسٹ ٹیوب جمہوریت‘‘ جس میں فیصلہ کن اختیار فوج کے سربراہ کو حاصل ہوگا‘ خواہ اس نظام پر پارلیمنٹ کا ملمع ہی کیوں نہ چڑھایا گیا ہو۔

اس پہلو سے یہ انتخابات کچھ اسی قسم کی اہمیت اختیار کر گئے ہیں جیسے ملّت اسلامیہ پاک و ہند کی تاریخ میں ۱۹۴۶ء کے انتخابات اور پھر پاکستان کی تاریخ میں ۱۹۷۰ء کے انتخابات۔ اول الذکر میں قائداعظم کی قیادت میں قوم نے صحیح فیصلہ کیا اور انگریز حکمران اور کانگریس دونوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان کی آزاد اسلامی مملکت وجود میں آئی اور آخرالذکر میں غلط فیصلے کے نتیجے میں بالآخر قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوا اور آج تک ملک اندرونی کش مکش ‘ غربت اور قرضوں کی محتاجی اور سول بیورو کریسی‘ فوجی بیورو کریسی اور جاگیردار سرمایہ دار گٹھ جوڑ کی گرفت میں ہے۔

جنرل پرویز مشرف سیاسی قیادت کی خودغرضی‘ بے تدبیری اور عاقبت نااندیشی کا فائدہ اٹھا کر برسرِاقتدار آئے اور احتساب اور صاف ستھری جمہوریت کا عہد کر کے عدالت عالیہ کی بیساکھیوں کے سہارے تین سال سے حکومت کر رہے ہیں۔ جو وعدے انھوں نے قوم سے کیے تھے وہ ماضی کے حکمرانوں کے وعدوں سے زیادہ مختلف ثابت نہ ہوئے اور آہستہ آہستہ انھوں نے ایک ایسا سیاسی نقشہ وضع کر ڈالا جس کا مقصود ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے‘ اپنے اقتدار کو طول دینا‘ نظامِ حکومت کو اپنی منشا کے مطابق قطع و برید کا نشانہ بنانا اور فوج کو سیاسی نظام میں ایک مستقل کردار دے کر جمہوری قبا میں جرنیلوں کی حکومت کو دوام بخشنا بن گیا ہے۔

جنرل صاحب جس سمت میں اس ملک کو لے جانا چاہ رہے ہیں اس کے خدوخال پچھلے دو سال میں آہستہ آہستہ بالکل نمایاں ہوگئے ہیں۔ صدارت کا حصول‘ ریفرنڈم کا ڈھونگ‘ لیگل فریم ورک کی گل افشانیاں‘ وحدت حکم (unity of command) کا فلسفہ‘ احتساب کی جانب داریاں‘ کنگز پارٹی کی جولانیاں اور اب ۱۳ ستمبر کو نیویارک کے خطاب میں اس ارشاد کے بعد کہ ’’مجھے سات سال دیں‘ میں پاکستان میں سیاست کا نقشہ اور کلچر تبدیل کر دوں گا‘‘ (ڈان‘ ۱۴ ستمبر ۲۰۰۲ء) تو کوئی پردہ باقی رہا ہی نہیں ہے کہ وہ اس ملک و قوم کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ اس پورے عمل میں اگر کوئی امید کی کرن ہے تو وہ ۱۰اکتوبر کے انتخابات ہیں جب قوم کو انتخابی عمل کے حکمرانوں کے حسب منشا ’انتظام‘ کے خطرات کے باوجود کسی نہ کسی درجے میں یہ موقع مل رہا ہے کہ اس خطرناک سفر کو لگام دے دے اور ملک کو ایک ناقابل تلافی تباہی سے بچالے۔

پاکستان کی ۵۵ سالہ تاریخ اپنے اندر سب کے لیے عبرت کا بہت سامان رکھتی ہے۔ جہاں صرف سات سال کی تاریخ ساز جدوجہد کے نتیجے میں قائداعظم کی مخلصانہ قیادت نے ملّت اسلامیہ کے حقیقی مزاج‘ عزائم اور ارمانوں کے مطابق سیاسی تحریک کے ذریعے مسلم دنیا کے سب سے بڑے آزاد ملک کے قیام کے خواب کو حقیقت بنا کر دکھا دیا‘ وہاں خلوص اور صلاحیت سے عاری مفاد پرست سیاسی قیادت‘ سول بیوروکریسی اور جرنیلوں کی حکمرانی نے ملک و قوم کو ایک بحران کے بعد دوسرے بحران میں مبتلا کیا۔ غربت میں اضافہ ہو گیا‘ تعلیم اور خوش حالی کا خواب پریشاں تر ہو گیا۔ مشرقی پاکستان ہاتھ سے گیا اور کشمیر میں آگ اور خون کی ہولی جاری ہے‘ ملک پر قرضوں کا بار بڑھ رہا ہے اور اب تو آزادی اور خودمختاری کے بھی لالے پڑ رہے ہیں۔ قوم کی قسمت کے فیصلے بیرونی دبائو‘ دھمکیوں اور ’کوئی دوسرا راستہ نہیں‘ (no-option) کے تاریک سایوں کے تحت ہو رہے ہیں۔ سول حکمرانی کے ۲۸ سال اور فوجی حکمرانی کے ۲۷ سال دونوں اپنے اپنے انداز حکمرانی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ صحت‘ توانائی‘ معاشرتی عدل‘ قانون کی حکمرانی‘ اخلاقی استحکام‘ قومی سلامتی غرض جس پہلو سے بھی حالات کا جائزہ لیا جائے اور نفع و نقصان کا بے لاگ میزانیہ بنایا جائے توچند مثبت پہلوئوں کے باوجود منفی پہلوئوں اور بگاڑ اور فساد کا پلّا بھاری ہے۔ قراردادمقاصد‘ ۱۹۷۳ء کا دستور‘ نیوکلیر صلاحیت کا حصول سنگ میل ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر سول حکومت نے قوم کو مایوس کیا اور ہر فوجی حکمران نے حالات کو اور زیادہ بگاڑا ___ یہ دونوں تجربے اس لیے ناکام رہے کہ کسی نے بھی دستور کی پابندی‘ قانون کی بالادستی‘ انصاف کے قیام اور قواعد و ضوابط کے احترام کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ جو قیادت خود دستور اور قانون کو توڑنے کی مجرم ہو‘ وہ دوسروں سے دستوراور قانون کی پاسداری کا مطالبہ یا توقع کیسے کر سکتی ہے؟ ہماری ساری خرابیوں کی جڑ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی‘ دستور‘ قانون اور مسلمہ اصولوں سے انحراف‘ عوام اور ان کی ضرورتوں‘ خواہشوں اور تمنائوں سے روگردانی ‘مفادات اور ذاتی اغراض کے لیے قومی اور عوامی مصالح کی قربانی ہے اور احتساب کے نظام کا فقدان ہے۔ جمہوری عمل کو بار بار سبوتاژ کرنے کا نتیجہ یہی ہوسکتا تھا۔

ان حالات میں انتخابات کا انعقاد ایک ایسا موقع ہے جس سے عوام اپنے صحیح کردار کے ذریعے سیاسی عمل کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کی کامیاب کوشش کر سکتے ہیں۔

ان عمومی حالات کے پس منظر میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات نے غیر معمولی اہمیت اس لیے اختیار کر لی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے تین سالہ دور اور ان کے اگلے پانچ اور سات سالہ عزائم نے قوم کودرپیش خدشات اور خطرات کو ہزارچند کر دیا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کے اظہار میں کوئی باک نہیں کہ سول قیادتوں اور سیاسی جماعتوں نے‘ خصوصیت سے برسراقتدار نام نہاد بڑی جماعتوں نے‘ عوام کو بے حد مایوس کیا ہے اور ان کا ریکارڈ شرم ناک ہے۔ لیکن یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جرنیلوں کی حکومتوں نے اور سول اور ملٹری بیورو کریسی کے گٹھ جوڑ نے بھی اس سے کچھ بڑھ کر ہی مایوس کیا ہے۔ چونکہ فوج کے سیاست میں ملوث ہو کر ناکام ہونے سے سیاست اور معیشت ہی متاثر نہیں ہوتی‘ قومی سلامتی اور خود فوج کا غیر متنازع قومی کردار بھی بری طرح مجروح ہو جاتا ہے‘ اس لیے یہ سودا زیادہ ہی خسارے کا سودا ہے۔ اب قوم کو یکسو ہو جانا چاہیے کہ جمہوری سیاسی عمل ہی اپنی ساری خرابیوں کے باوجود بہتر طریق کار ہے۔ اسی راستے پر آگے بڑھنے اور اس کی خرابیوں کو دور کرنے میں ہی بھلائی اور سلامتی ہے‘ جمہوری سیاسی عمل کی بساط لپیٹ کر فوج کی قیادت کے سیاست کی باگ ڈور سنبھالنے یا سیاست کا حصہ بن کر یا پیچھے سے ڈور کھینچنے میں نہیں۔

پانچ اہم مسائل

اس وقت قوم کو جو گمبھیرصورت حال درپیش ہے اس کے پانچ پہلو اکتوبر کے انتخابات کو اہم تر بنادیتے ہیں:

فوج کا کردار: پہلا مسئلہ ملکی سیاست میں فوج کے کردار کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب اب کھل کر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوج کا ایک واضح کردار‘ بلکہ فیصلہ کن کردار ہونا چاہیے۔ ہماری نگاہ میں یہ تباہی کا راستہ ہے۔ ماضی میں سیاست دانوں نے جوبھی غلطیاں کی ہیں اور جس جس نے بھی بلاواسطہ یا بالواسطہ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کی وہ ایک عظیم غلطی تھی جو فوج کے مستقل کردار کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔فوجی حکومتوں کا ریکارڈ‘ بشمول جنرل پرویز مشرف کی حکومت‘ کچھ زیادہ ہی مایوس کن رہا ہے اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کا تجربہ یہ بتا رہا ہے کہ فوج کی قیادت‘ اپنی تربیت‘ صلاحیت کار‘ ذہنی ساخت اور تجربات کی بنا پر سیاسی نظام کو چلانے اور جمہوری طرزحکمرانی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہل نہیں ہوتی۔ اس سے اس کی توقع بھی عبث ہے۔ بلکہ ستم یہ ہے کہ اسے اس کا ادراک بھی نہیں ہو پاتا جس کا تازہ ترین ثبوت وہ واقعہ ہے جو جنرل پرویز مشرف کے امریکہ کے ۹ ستمبر کے ہاورڈ یونی ورسٹی کے خطاب کے دوران پیش آیا۔ جنرل صاحب نے وہاں کے اساتذہ اور طلبا کے سامنے فرمایا کہ:

I am extremely democratic, you have to  believe  me.

میں انتہائی جمہوریت پسند ہوں‘ آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا پڑے گا۔

جس پر پورا ہال قہقہہ سے گونج اٹھا۔ اس پر اس شعر سے بہتر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے جو اقبال نے بالِ جبریل میں سرفہرست رکھا ہے    ؎

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ فوج کا مزاج اور جمہوری نظام کا مزاج ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے اور اگر فوج کے لیے ’وحدت حکم‘ ضروری ہے تو جمہوریت کے لیے تنوع اور اختلاف رائے جوہر کا درجہ رکھتے ہیں۔ محض ڈنڈے سے نظام حکمرانی کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاست میں ملوث ہونے کے بعد فوج ایک اچھی فوج نہیں رہ سکتی۔ اس کی صلاحیت ِ کار (professionalism) بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ فوج پوری قوم کے اعتماد کا مرکز و محور نہیں رہ سکتی بلکہ سیاست میں آنے کے بعد متنازع بھی ہو جاتی ہے اورفطری طور پر تنقید و احتساب کا ہدف بھی بنتی ہے۔

ان انتخابات میں یہ بات طے ہو جانی چاہیے کہ فوج کا مقام سول نظام کے تحت ملک کا دفاع ہے‘ ملک کا نظام چلانا نہیں۔

ملک کا نظریاتی تشخص: دوسرا اہم مسئلہ ملک کے نظریاتی تشخص اور اخلاقی و تہذیبی شناخت کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور میں ’’کمال ازم‘‘ اور ’’سیکولرازم‘‘ سے لے کر ’’انتہا پسندی‘‘ کے خلاف جنگ‘ مدارس میں دراندازی‘ جہادی کلچر سے برأت اور ترقی پسندی اور لچک (flexibility) کے اظہار تک ایسی باتیں بار بار کہی گئی ہیں‘ اس تسلسل سے کہی گئی ہیں اور عملاً تعلیم‘ میڈیا‘ کلچر اور دوسرے میدانوں میں ایسے اقدام کیے گئے ہیں جن سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وہ اور ان کے قریبی رفقا ملک کو اس کی تاریخی اسلامی بنیادوں سے ہٹا کر مغربیت اور سیکولر کلچر کی راہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جو اس قوم کے مزاج اور عزائم‘ اس کی تاریخی جدوجہد اور اس کے اہداف اور اس کے ایمان کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ ان انتخابات کے ذریعے یہ بات بھی طے ہو جانی چاہیے کہ یہ قوم مسلمان ہے‘ اس کی منزل اسلامی فلاحی ریاست ہے اور یہ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے چلن کوعام کرنا چاہتی ہے۔ یہاں کوئی دوسرا نظام اور نظریہ کبھی نہیں چل سکتا‘ خواہ اس پر کیسے ہی پردے کیوں نہ ڈالے جا رہے ہوں۔

امریکہ کے عالمی استعماری عزائم: تیسرا اہم مسئلہ امریکہ کے عالمی استعماری عزائم کے باب میں ہمارا کردار اور مقام ہے۔ فوجی حکمرانی کے ہر دور میں پاکستان امریکہ سے قریب آیا ہے اور امریکہ نے ہمیشہ بے وفائی اور مطلب براری کا رویہ اختیار کیا ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد امریکہ نے عالمی تسلط کا جو پروگرام شروع کیا اس میں پاکستان ایک آلۂ کار بن گیا ہے اور یہ جنرل پرویز مشرف صاحب کی سیاست کا شاہکار ہے کہ انھوں نے امریکہ کو یہ حق دیا ہے کہ پاکستان کے کندھوں پر رکھ کر اپنی بندوق سے مسلمانوں کو نشانہ بنائے۔ جنرل صاحب سینے پر ہاتھ رکھ کر دعوے کر رہے تھے کہ افغانستان میں امریکہ کی کارروائی مختصر ہو گی‘ چند متعین اہداف تک محدود ہوگی اور جلد امریکہ واپس چلا جائے گا۔ آج یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ نہ یہ کارروائی مختصر ہونی تھی اور نہ محض افغانستان تک محدود۔ یہ ایک عالمی جنگ کا حصہ ہے اور اس کا سب سے بڑا ہدف مسلمان ممالک اور ملّت اسلامیہ بلکہ خود اسلام ہے۔ اب پاکستان کے ساتھ اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس جال سے کیسے نکلے۔ امریکہ سے ہماری کوئی جنگ نہیں اور ہم اس سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں بشرطیکہ ہماری آزادی‘ ہماری اقدار اور ہمارے مفادات محفوظ ہوں لیکن امریکہ کا آلہ کار بننا اور پھر امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے بارے میں پسپائی یہ قوم کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔ جنرل صاحب کے بیانات سے بھی ظاہر ہے کہ وہ ایک جال میں پھنس گئے ہیں اور نکلنے کا راستہ نہیں پارہے ہیں۔ ادھر امریکہ‘ جمہوریت اور فروغ جمہوریت کے بارے میں اپنے تمام دعوئوں کے باوجود آمریت سے سمجھوتے اور آمروں سے دوستی کا جو کھیل کھیل رہا ہے وہ جنرل صاحب کے مفید مطلب ہے۔ اس لیے وہ کشمیر پر اچھے بیانات کے ساتھ جو عملی اقدامات خارجہ پالیسی اور داخلی سیاست کے میدانوں میں کر رہے ہیں وہ امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرنے والے اور اس کے پائوں اس علاقے میں‘ بشمول پاکستان میں گاڑ دینے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے ان انتخابات میں یہ بھی طے ہونا ہے کہ امریکہ سے ہماری دوستی کی حدود کیا ہیں اور ہماری اپنی آزادی‘کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ اور باوقارحل اور اُمت مسلمہ کے مفادات کی حفاظت کے سلسلے میں پاکستان کا کردار کیا ہوگا۔

معیشت کی بحالی: چوتھا مسئلہ ملک کی معیشت اور اس کو ورلڈ بنک کے چنگل سے آزاد کرانے کا ہے۔ جنرل صاحب کے دور میں ہماری معیشت پر عالمی مالیاتی اداروں‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور بیرونی کارپوریشنوں کی گرفت مضبوط تر ہوئی ہے جس کے نتیجے میں غربت بڑھی ہے‘ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے‘ پیداواری عمل میں تیزی مفقود ہے‘ دولت کی عدم مساوات اور زیادہ غیرمنصفانہ ہوگئی ہے‘ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی نج کاری کے نام پر عوام کی زندگی تلخ تر ہو گئی ہے۔ کاشتکار اپنی پیداوار کی جائز قیمت سے محروم ہے۔ ملکی صنعت خودانحصاری سے دُور ہو رہی ہے اور مارکیٹ اکانومی کے نام پر بیرونی دنیا پر ہمارا انحصار بڑھ رہا ہے اور صنعتی استعداد محدود ہو رہی ہے‘ قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور ظلم و استحصال کا دور دورہ ہے۔ حکومت اور عوام‘ حکمران اور تاجر‘ کسان اور مزدور برسرِپیکار ہیں۔ ضروریات زندگی مہنگی ہو رہی ہیں اور بجلی‘ پانی‘ گیس‘ پٹرول وغیرہ جیسی ضروریات کی قیمت بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں مصارف زندگی اور مصارف پیداوار دونوں بڑھ رہے ہیں۔ ملک معاشی استحکام سے محروم ہے‘ عوام اور تاجر ٹیکسوں کی بھرمار سے جاں بلب ہیںاور ملک و قوم کی خود انحصاری کا خواب ایک پریشان خواب بنتا جا رہا ہے۔یہ انتخاب اس امر کا بھی موقع فراہم کر رہا ہے کہ قوم ورلڈ بنک اور اس کے ہرکاروں کی دست برد سے آزاد ہو اور ہم پاکستان کی معیشت کی خودانحصاری کی بنیاد پر ترقی اور عوام کی خوش حالی کے حصول کے لیے نئی معاشی حکمت عملی بنا سکیں۔ مسلم دنیا میں بیشتر ممالک کی صنعت ورلڈ بنک کے ہاتھوں گروی (mortgage) ہے اور اس سے نجات کے بغیر حقیقی معاشی اور سیاسی آزادی محال ہے۔ جنوبی امریکہ کے ایک زمانے کے ترقی پذیر ممالک امریکہ اور ورلڈ بنک کی حکمت عملی اور قرضوں کی سیاست کے نتیجے میں آج نشانِ عبرت بن گئے ہیں۔ یہی حال انڈونیشیا کا ہے۔ اس انجام سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ خود انحصاری کا راستہ ہے‘ پرویز مشرف اور شوکت عزیز کا مسلط کردہ راستہ نہیں۔

جمہوری اقدار کا احترام: پانچواں مسئلہ اندرونی اور نظام حکمرانی سے متعلق ہے۔ جمہوریت کے لیے انتخابات ایک ضروری اور ناگزیر شرط ہیں لیکن محض انتخابات کو جمہوریت کے لیے کافی (sufficient) قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دستور کا احترام‘ قانون کی پاسداری‘ بنیادی آزادیوں کی ضمانت‘ حقوق کا تحفظ‘ اختلاف کا حق اور موقع‘ عدالت کی آزادی اور بالادستی‘ فوج کی عدم مداخلت‘ کسی بھی فردِواحد کی دراندازیوں سے تحفظ‘ انتخابات میں سب کو برابر کے مواقع کا حصول‘ نیز انتخابات میں ہر قسم کی سرکاری مداخلت اور سرکاری سرپرستی میں ’’چہیتوں‘‘ اور ’’ہم خیالوں‘‘ کی حوصلہ افزائی سے محفوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ جنرل صاحب نے ریفرنڈم سے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے وہ نت نئی شکلوں میں جاری ہے۔ پھردستوری ڈھانچے کو تباہ کرنا‘ اختیارات کا اپنے ہاتھوں میں ارتکاز‘ کنگز پارٹی کا قیام‘ گورنروں‘ سیکرٹریوں اور آئی ایس آئی کا سیاست میں ملوث ہونا‘ یہ سب جمہوریت کے لیے سم ّ قاتل ہیں۔ جن افراد نے بھی قوم کے سرمایے کو لوٹا اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ان کا تعلق خواہ ارباب سیاست سے ہو‘ یا انتظامیہ سے‘ یا فوج اور عدالت سے‘ ان کا بے لاگ احتساب ضروری ہے‘ لیکن من مانا احتساب اور جزوی اور جانب دارانہ احتساب دراصل احتساب کی نفی اور کرپشن کی ایک بدترین شکل ہے۔ انتخابات کو اپنے عزائم کے مطابق منعقد (manage)کرنا جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے اور جنرل صاحب‘ ان کا احتساب بیورو‘ ان کا ادارہ قومی تعمیرنو‘ ان کے گورنر اور دوسرے اہل کار اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔ بلاشبہہ انتخابی نتائج پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے اور اس کے خلاف جتنا بھی احتجاج کیا جائے کم ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود انتخابات ہی وہ ذریعہ ہیں جن سے ان تمام کوششوں کے علی الرغم اس منہج کے خلاف جدوجہد ہو سکتی ہے۔ انتخابات کی اپنی حرکیات (dynamics) ہیں جو ساری تدبیروں کو بہا کر لے جا سکتی ہیں۔ ۱۰اکتوبر کے انتخابات کو اس پہلو سے بھی ایک سنگ میل بنایا جا سکتا ہے کہ سرکاری مداخلت کو ہمیشہ کے لیے رد کر دیا جائے اور حقیقی معنوں میں ’’سلطانیِ جمہور‘‘ کی راہ ہموار ہوسکے۔

یہ وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پرہماری نگاہ میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ہم پاکستانی قوم کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان انتخابات میں ۱۹۴۶ء والی حکمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں اور ۱۹۷۰ء والی غلطی سے ملک و ملّت کو محفوظ رکھنے کے لیے جان اور مال کی بازی لگا دیں۔

ووٹ کا حق اور اس کا استعمال

اکتوبر کے انتخابات کی اس خصوصی اہمیت کے ساتھ ہم یہ بات بھی قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ ووٹ کا صحیح استعمال ایک دینی‘ اخلاقی اور سیاسی فریضہ ہے اور ایک مسلمان قوم کے لیے تو اس کی اہمیت محض دنیاوی مقاصد و اہداف کے لیے نہیں بلکہ آخرت کی جواب دہی اور قضا و قدر کے اخلاقی اور آفاقی قانون کی پاسداری کے لیے بھی ضروری ہے۔ دینی اور اخلاقی اعتبار سے ووٹ اگر ایک شہادت اور گواہی ہے تو دوسری طرف ایک قومی امانت اور نظامِ حکومت کے چلانے کے لیے آپ کی طرف سے اپنا وکیل اور نمایندہ مقرر کرنے کی ذمہ داری ہے جس کے غلط استعمال کے نتائج صرف سیاسی اور دنیاوی اعتبار ہی سے  تباہ کن نہ ہوں گے بلکہ آخرت کی جواب دہی اور گناہ و ثواب کے باب میں بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنے ان تمام بھائیوں اور بہنوں کو جو ووٹ کا حق رکھتے ہیں‘ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع مرحوم کے اس شرعی فتوے کی یاد دہانی کرائیں جس میں انھوں نے اس حق کو استعمال کرنے کی فرضیت اور اس کے صحیح استعمال کے اصول و آداب کی نشان دہی کی ہے۔ ہر مسلمان تک اس پیغام کو پہنچانا چاہیے تاکہ وہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے کے لیے ووٹ کا صحیح استعمال کرے۔ مفتی محمد شفیع  ؒ نے لکھا ہے کہ:

انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے‘ جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام۔ اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام ہے۔ اس کو محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بھی بھاری غلطی ہے۔ آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیںشرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے‘ جس کام کے لیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کوسامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

                ۱- آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمایندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا‘ وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا برے اقدامات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے۔

                ۲- اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے‘ ثواب و عذاب بھی محدود۔ قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔ اس کا ادنیٰ نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے‘ اس لیے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔

                ۳- سچی شہادت کا چھپانا ازروے قرآن حرام ہے۔ اس لیے آپ کے حلقہ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریے کا حامل اور دیانت دار نمایندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی گناہ کبیرہ ہے۔

                ۴- جو امیدوار نظام اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے اس کوووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے‘ جو گناہ کبیرہ ہے۔

                ۵- ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے‘ اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کردینا‘ کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو‘ کوئی دانش مندی نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے۔ (جواہر الفقہ‘ ج ۲‘ ص ۳۰۰-۳۰۱‘ مکتبہ دارالعلوم‘ کراچی)

مفتی صاحب قبلہ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ گویا قرآن پاک کے ان احکام کی تشریح و توضیح ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِط اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا o (النساء۴:۵۸)

اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْاقف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۸)

اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو‘ کچھ شک نہیں کہ خدا تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ المستشار موتمن(جس سے مشورہ لیا جائے اسے امانت دار ہونا چاہیے۔  سنن ابی داؤد)۔ اسی طرح  بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں لوگوں سے کچھ بیان کر رہے تھے کہ ایک اعرابی آپؐ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے فرمایا:جس وقت امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ اس نے پوچھا: امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ صَدَقَ رَسُولؐ اللّٰہ!

ہم اپنی قوم کے ہر بھائی اور بہن سے سوال کرتے ہیں کہ آج ملک و ملّت جس قیامت کی گرفت میں ہے کیا وہ انھی احکام الٰہی کی خلاف ورزی کا نتیجہ نہیں؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم ۱۰ اکتوبر کے انتخابات کو تلافی مافات کا ذریعہ بنائیں۔

کارکنوں کی ذمہ داری

متحدہ مجلس عمل کے ہر کارکن سے ہم کہنا چاہتے ہیں کہ بلاشبہہ انتخابات ہمارے لیے سیاسی نظام کی اصلاح‘ تبدیلی ٔ قیادت اور ملک کو ظلم اور ناانصافی سے بچانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ خود ہمارے اور ہماری قوم کے لیے خوداحتسابی‘ اور دین کی تفہیم اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے عزم کی تجدید کا موقع ہیں۔ ہمارے لیے انتخابات دعوت کا بہترین موقع ہیں۔ ہمارا مقصد وجود پوری انسانیت کو اور خصوصیت سے اپنی قوم کو اللہ کے دین اور اس کے رسولؐ کے طریقے کی طرف بلانا ہے۔ انتخابات ہمیں یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ محض جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے نہیں بلکہ ایک ایک گھر تک رسائی حاصل کرکے اور ایک ایک فرد سے مل کر اسے اصلاح ذات کے ساتھ اصلاح نظام کی طرف بلائیں اور ووٹ کی اہمیت اورووٹ کے ذریعے تبدیلی کے لیے اس کو صحیح کردار ادا کرنے کی دعوت اور ترغیب دیں۔ ہمیں اپنی قوم میں یہ احساس بھی پیدا کرنا ہے کہ ہم محض خاموش تماشائی نہ بنیں بلکہ اپنی اور اپنے ملک کی قسمت کو بدلنے کے لیے عملی جدوجہد کریں۔ ہمیں ان کو یہ دعوت بھی دینی ہے کہ بگاڑ صرف سیاست اور اجتماعی نظام اور ادارے ہی میں نہیں خود ہم میں بھی ہے اور ہم سب کو اپنی اور اپنے ملک کے نظام کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ قومی احتساب کا بھی ایک بڑا اہم ذریعہ ہے تاکہ ہرقیادت یہ جان جائے کہ عوام محض کالانعام نہیں بلکہ رد و اختیار کا آخری حق ان کے پاس ہے جسے وہ موثر انداز میں استعمال کر کے حالات کی رو کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہی حقیقی جمہوریت ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اللہ کے عتاب سے بچ سکتے ہیں اور اس کی رحمتوں کے مستحق بن سکتے ہیں۔ اگر اس نیت اور جذبے سے ہم انتخابی مہم میں جان کھپا دیں تو یہ عبادت بھی ہے اور اصلاح احوال کا تیر بہدف نسخہ بھی۔ اللہ کی یاد‘ اس سے استعانت کی طلب اور اس کے بندوں کو خیر کی راہ پر لگانے اور حسنات کے حصول کی جدوجہد میں شریک کرنے کی نیت اور جذبے سے اگر آپ انتخابی مہم میں کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی اس جدوجہد پر اپنی برکتیں نازل فرمائے گا‘ دلوں کو آپ کی بات کے لیے کھول دے گا اور بند دروازے ان شاء اللہ وا ہو جائیں گے۔ یہی کامیابی کی راہ ہے۔

آپ کا فرض

آپ کا کام کوشش کرنا اور بھرپور انداز میں کوشش کرنا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان انتخابات کو متاثر کرنے اور مفید مطلب نتائج حاصل کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے جا رہے ہیں‘ کیا کیا منصوبے بنائے جارہے ہیں‘ کیا کیا کرتب دکھائے جائیں گے۔ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی ہم پر اثرانداز نہیں ہونی چاہیے۔ انسانوں میں خیر اور شر دونوں کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے۔ آپ ان کی نیکی کی صفت کو اپیل کریں اور اس زبان میں کریں جسے وہ سن سکیں اور سمجھ سکیں۔ آپ انسانوں کو دوستوں اور مخالفوں کی صفوں میں نہ بانٹیں بلکہ سب تک پہنچیں اور سب کو دعوت دیں کہ حق کا ساتھ دیں۔ آپ کا رویہ اور آپ کی ساری مہم ان اخلاقی حدود کے اندر ہو جو شریعت نے ہمارے لیے رکھی ہیں۔ آپ کوشش بھی کریں اور دعا بھی کریں‘ پھر دیکھیں کہ کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔ آپ کا رویہ خدمت اور بھلائی کا ہونا چاہیے اور آپ کو اپنی دعوت اور پیغام کو لوگوں کے حقیقی مسائل اور مصائب سے مربوط کر کے پیش کرنا چاہیے۔ آپ انھیں اللہ کی طرف بلائیں اور ساتھ ہی آپ انھیں بتائیں کہ اسلام محض ایک نظریہ یا خوش آیند خواب نہیں بلکہ ہماری مشکلات کا حقیقی حل بھی ہے۔

آپ اپنے علاقے کے خصوصی مسائل پر توجہ صرف کریں اور آپ کے نمایندے لوگوں کو بتائیں کہ ان کے سامنے آپ کی خدمت اور آپ کی مشکلات کو حل کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر شخص کو انصاف ملے‘ اس کی حقیقی ضروریات عزت کے ساتھ پوری ہوں‘ یہاں کوئی بھوکا‘ننگا اور بے سہارا نہ ہو۔ ہر بچے کو دینی اور دنیوی تعلیم ملے‘ ہر مریض کے لیے دوا دارو کا بندوبست ہو‘ ہر محنت کش کو اس کا حق ملے‘ ہر کسان کو اس کی پیداوار کی صحیح قیمت موصول ہو‘ ہر بیوہ اور یتیم کا کوئی ولی و وارث ہو۔ اس طرح بحیثیت مجموعی اس ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا بندوبست ہو‘ اسے قرضوں کی لعنت سے نجات ملے‘ یہ سود سے پاک ہو سکے‘ اس کے قومی دفاع کو مضبوط تر کیا جائے‘ کشمیر کی تحریک آزادی کی بھرپور حمایت و تائید ہو‘ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے اور ان کے خلاف صف آرا کرنے کی ہر سازش کا پردہ چاک کیا جائے اور قومی وقار اور آزادی کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے۔ نیز ملک کے تمام شہریوں کے درمیان‘ بلالحاظ رنگ و نسل و مذہب‘ رواداری‘ تعاون باہمی اور حقوق و فرائض کی ادایگی کا اہتمام ہو۔ نفرتیں ختم کی جائیں اور محبت کے ذریعے‘ جو فاتح عالم ہے‘ دلوں کو جوڑنے اور حقیقی بھائی چارا پیدا کرنے کی سعی کی جائے۔

متحدہ مجلس عمل کا منشور انھی اہداف کو قوم کے سامنے لایا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پیغام کو گھرگھر پہنچائیں اور اللہ کے بندوں کو ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل کریں اور ایسے لوگوں کو زمام کار سونپنے کے لیے قوم کو آمادہ کریں جو اپنی ذات کے مقابلے میں اپنی قوم ‘اپنے ملک اور اپنے دین کے مفاد کے حصول کے لیے ہر قربانی دینے کا داعیہ رکھتے ہوں۔ اگر ہمارے عوام زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ     ؎

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ان کے دکھ کے مداوے کے لیے اجتماعی جدوجہد کریں اور خود ان کو اس میں شریک کرنے کی کوشش کریں۔ انتخابات دراصل اسی جدوجہد کا ایک حصہ ہیں۔ ہماری نگاہ انتخابات پر بھی ہے‘ مگرانتخابات کے بعد بھی اسی جدوجہد کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔ نتائج خواہ کچھ ہوں‘ یہ کوشش خود اپنا انعام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم سچی نیت اور خدمت خلق کے جذبے سے‘ اصلاح احوال کے لیے‘ تن‘ من‘ دھن سے کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ بہتر نتائج ضرور نکلیں گے لیکن مومن کی نگاہ نتائج سے زیادہ مقاصد پر ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ :

یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا‘ ہارے بھی تو بازی مات نہیں

موثر انتخابی مہم

بلاشبہہ یہ انتخابات چند در چند تحدیدات (limitations) کے دائرے میں منعقد کیے جا رہے ہیں۔ وہ تمام حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جن سے انتخابات سے پہلے ہی پسندیدہ عناصر اور جماعتوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ اس میں حلقہ بندیوں سے لے کر نمایندوں کی منظوری اور نامنظوری اور انتخابی مہم کو موثر لہر نہ بننے دینے کے تمام اقدامات شامل ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود ہمارا فرض ہے کہ عوام تک پہنچیں‘ ووٹروں کو گھروں سے نکلنے اور اپنا حق استعمال کرنے اور انھیں صحیح فیصلے کرنے کے لیے ہر ممکن مدد و اعانت فراہم کریں۔ انھیں اصل ایشو سمجھانے‘ اصل خطرات سے آگاہ کرنے اور اصل امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لیے متحرک کریں۔ اس سلسلے میں ان باتوں کا خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہے:

۱-  ہمارا اپنا رویہ مثبت ہو جو اخلاقی اقدار کی پاسداری‘ مخالفت میں بھی حدود کے احترام اور عوام کی حقیقی خیرخواہی سے عبارت ہو۔

۲-  بینر‘ پوسٹر‘ جلسے‘ جلوس‘ سب اہم ہیں لیکن سب سے زیادہ اہم‘ نمایندے اور کارکنوں کا گھر گھر جاکر ایک ایک فرد تک پیغام پہنچانا ہے۔ بلالحاظ اس کے کہ وہ علاقہ یا گھرانہ کس سے وابستہ ہے اور کہاں تک ہمارا موید و معاون ہے‘ ہر شخص تک پہنچنا ہمارا ہدف ہونا چاہیے تاکہ دعوت کا حق ادا ہو سکے۔

۳-  اپنے نمایندے کی خدمات کا ذکر اچھے انداز میں ہو اور اس کے ساتھ پوری کوشش اپنے منشور اور پیغام اور ان انتخابات کی خصوصی اہمیت اور اس میں عوام کو اس بات پر آمادہ کرنے پر ہو کہ وہ پرانے اور آزمائے ہوئے لوگوں کی جگہ اچھی اور نئی قیادت کو سامنے لانے کی کوشش کریں۔

۴-  نمایندوں کا تعارف ضروری ہے لیکن ملک بھر میں کتاب کے نشان کو متعارف کرانا اور کتاب سے ووٹر کی وابستگی پیدا کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔ بیلٹ پیپر پر نمایندے کی تصویر نہیں ہوگی‘ نام اور کتاب کا نشان ہوگا۔ اس لیے کتاب کو نمایاں کرنا ضروری ہے۔

۵-  اپنے علاقے میں کام کا منصوبہ تقسیمِ کار کی بنیاد پر بنائیں اور انتخابی مہم کے آخری دن تک ہرفرد تک پہنچنے کی کوشش کریں۔

۶-  علاقے کے اہم افراد‘ دھڑوں‘ برادریوں‘ قبیلوں وغیرہ سے ربط قائم کریں اور ان کو اپنے ساتھ ملائیں۔ جہاں ضروری ہو نظم کے اعتماد اور رہنمائی کے ساتھ مقامی سطح پر معاملہ کریں۔

۷-  الیکشن کے دن ووٹر کو گھر سے پولنگ اسٹیشن پر لانے کا خاص اہتمام کریں۔ جو افراد گھر میں بیٹھے رہ جاتے ہیں وہ دراصل غلط افراد کے آگے آنے کے ذمہ دار ہیں۔ انھیں یہ احساس دلائیں کہ ان کا ایک ووٹ بھی فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔

۸-  الیکشن کے دن سے پہلے ہر پولنگ اسٹیشن کے لیے فعّال ایجنٹوں کا انتخاب‘ ان کی تربیت اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی مکمل منصوبہ بندی ضروری ہے۔ الیکشن اور پولنگ ایجنٹ کے لیے قواعد کا علم‘ علاقے اور اس کے افراد سے واقفیت‘ اپنے حقوق کا ادراک اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے حکمت اور جرأت سے کام کا سلیقہ ضروری ہے۔

۹-  الیکشن کے پورے عمل میں خواتین کی اہمیت مسلمہ ہے۔ پوری مہم کے دوران اس پر توجہ رہے۔ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ خواتین کا تعاون حاصل کیجیے خصوصاً پولنگ کے دن کے لیے ہر لحاظ سے اطمینان بخش منصوبہ بندی کیجیے۔

۱۰-  الیکشن میں غلط طریقوں کے استعمال کو روکنے اور رکوانے کے لیے مناسب تیاری کیجیے۔

۱۱-  الیکشن کے نتائج ضابطے کے مطابق حاصل کرنے اور آخری وقت تک موجود رہنے کا اہتمام کیجیے۔

۱۲-  باہر کے نظام سے ربط رکھیے اور ضروری معلومات کی ترسیل اور اگر ضرورت ہو تو نمایندے یا دوسرے اہم افراد سے مدد کے نظام کو موثر رکھیے۔

۱۳-  ہر اشتعال سے اپنے کو محفوظ رکھیے اور اپنے کام کو سلیقے سے انجام دینے اور سب کو قانون اور ضابطے کے احترام کے لیے ترغیب دینے کی کوشش کیجیے۔

۱۴-  ہر قسم کے نتائج کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی اور اجتماعی طور پر تیار رہیے۔ ہماری جدوجہد طویل ہے۔ انتخابات منزل نہیں‘ راہ کے سنگ میل ہیں۔ اس لیے ہماری حکمت عملی کو الیکشن سے پہلے‘ الیکشن کے دن اور الیکشن کے بعد کے تینوں مراحل پر محیط ہونا چاہیے۔

یہ چند امور بطور مثال پیش کیے گئے ہیں۔ الیکشن کے تمام تقاضوں کا ادراک اور ان کے لیے مناسب منصوبہ بندی آپ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تدبیر اور حکمت کو بھی اتنی ہی اہمیت دی ہے جتنی اصول اور نظریے کو۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انتخابات میں آپ کو صرف نظریاتی ووٹ ہی نہیں  ہرووٹ کی ضرورت ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیجیے۔

اس سب کے ساتھ سب سے اہم چیز اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط رکھنا‘ اس سے ہر لمحہ دعا کرنا اور اس کی اعانت کو اپنی اصل قوت سمجھنا تحریک اسلامی کے کارکنوں کی اصل پہچان اور ہمارے لیے اس جدوجہد کی جان ہے۔ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھیے‘ اس کی مدد پر یقین رکھیے‘ اپنی سی کوشش کر ڈالیے اور نتائج اس پر چھوڑ دیجیے۔ السعی منا والاتمام من اللّٰہ تعالٰی --- کوشش ہمارا کام ہے اور نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔


(تقسیم عام کے لیے دستیاب ہے‘ ۱۷۵ روپے سیکڑہ۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)