ترجمان القرآن (جولائی ۲۰۰۲ء) میں عزیز گرامی خورشید احمد ندیم کی طرف سے علامہ یوسف قرضاوی کے مضمون ’’سیاسی اسلام؟‘‘ (جون ۲۰۰۲ء) کے ایک چھوٹے سے اقتباس کو لے کر جومعترضانہ سوال اٹھایا گیا ہے اسے دیکھ کر تعجب تو بالکل نہیں ہوا کیونکہ فکر کے جس مکتب سے وہ فی زمانہ منسلک ہیں‘ اس مکتب کے لیے یہ پورا مضمون کونین کی انتہائی کڑوی گولی ہے جس کو یہ مکتب فکر کسی طرح حلق سے اتار نہیںسکتا۔ چنانچہ علمی انداز میں اس مضمون کا مدلل جواب دینے کے بجائے اپنی ’’بدمزگی‘‘ کو دُور کرنے کے لیے انھوں نے ایک چھوٹے سے اقتباس پر بظاہر ایک بہت بڑا اعتراض کر کے خود کو گویا تلخ کامی سے بچالیا۔
اس وقت اس مکتب فکر کے گمراہ کن افکار و خیالات کسی قسم کی مزاحمت کے بغیر گھاس کے اندر ہی اندر نہایت خاموشی سے پھیل رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دین کے بنیادی تصورات سے انحراف اور اسلام کو بھکشوؤں کا مذہب بنانے کا یہ کام جو بلامزاحمت جاری ہے اس کے تار و پود کو خالص علمی انداز میں بکھیردیا جائے تاکہ پھر جو اس راہ کی طرف جانا بھی چاہے وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر اس طرف نہ جائے بلکہ لِّیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْم بَیِّنَۃٍ (الانفال ۸:۴۲)’’جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو‘‘ والی صورت ہو۔
بدقسمتی سے ہمارے چند اصحاب علم و دانش بعض ذاتی اسباب یا کچھ مخصوص حالات کی بنا پر ’’معرکۂ شریعت‘‘ میں ’’جنگ دست بدست‘‘ کے میدان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پھر کش مکش زندگی سے اپنے گریز کو صاف صاف طور پر اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے سو بھیس بدل لینے والی عقل نے ان کو اس راہ پر ڈال دیا کہ دین کے اجتماعی اور سیاسی پہلو کے لیے جدوجہد ہی کو غیرضروری بلکہ دنیا پرستی سمجھنے لگے اور اظہار (غلبہ) دین کو اللہ رب العالمین کا کام سمجھ کر انھوں نے سب مسلمانوں کواس ذمہ داری سے فارغ کر دیا۔
میں ان کی اس سوچ کے بارے میں تو آگے چل کر کچھ عرض کروں گا۔ پہلے‘ معترض عزیز کے سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں۔
علامہ یوسف القرضاوی کا یہ دعویٰ کہ:
اسلام ہر مسلمان پر یہ سیاسی ذمہ داری عائد کرتاہے کہ وہ ایسی ریاست میں زندگی گزارے جس پر ایک امام کتاب اللہ کی رو سے حکومت کرتا ہو اور عوام نے اس کی بیعت کی ہو۔ اگر کوئی مسلمان ایسا نہیں کرتا تو وہ اہل جاہلیت میں سے ہے۔ صحیح حدیث میں ہے: جوشخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں امام کی بیعت کا قلاوہ نہیں ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم)
اعتراض کنندہ کی نگاہ میں یہ بات اس لیے قابل اعتراض ہے کہ اس کے ذریعے:
امریکہ‘ برطانیہ اور دوسرے غیر مسلم ممالک میں بسنے اورفوت ہو جانے والے مسلمانوں کے بارے میں جو فتویٰ صادر کیا گیا ہے وہ بہت خوف ناک ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے کیونکہ اس فتویٰ کی رو سے وہ سب اہل جاہلیت قرار پاتے ہیں۔
اب اسے خود معترض کی طرف سے جناب یوسف قرضاوی کے حق میں ایک فراخ دلانہ تسامح کہہ لیجیے یا کچھ اور نام دے لیجیے کیونکہ جناب قرضاوی کی زیرحوالہ عبارت اپنے عموم و شمول کے لحاظ سے اس سے کہیں زیادہ خوف ناک ہے جتنی خوف ناکی کا حوالہ دے کر جناب معترض نے اس پرسوال اٹھایا ہے۔ کیونکہ جناب قرضاوی کی شرائط پر پورا اُترنے والا تو دنیا میں اس وقت غالباً ایک ملک بھی موجود نہیں ہے جہاں کتاب اللہ کی رو سے حکومت کرنے والا امام موجود ہو اور عوام نے اس کی سمع و طاعت پر کاربند رہنے کی بیعت کی ہو۔
اس وقت دنیا کا کون سا ملک ان شرائط کو پورا کر رہا ہے کہ جناب قرضاوی کے فتوے کے مطابق مسلمان اس ملک میں جا کر بس جائیں اور اپنے دین و ایمان کی طرف سے بے خطر ہو کر چین کی زندگی بسر کرنے لگیں۔ پس سوال ’’صرف امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر غیر مسلم ممالک میں بسنے اور فوت ہو جانے والوں‘‘ تک محدد نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام مسلمان خواہ وہ کسی نام نہاد مسلم حکومت کی رعیت ہی کیوں نہ ہوں وہ سب کے سب ’’اہل جاہلیت‘‘ ہونے کے فتوے کی زد میں ہیں۔
میں تو کہتا ہوں سوال کوذرا اور پھیلایئے‘ آغاز نبوتؐ سے لے کر ہجرت مدینہ تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے عالی مرتبت صحابہؓ جو ’’السابقون الاولون‘‘ کے خطاب کے مستحق بھی قرار پائے‘ کیا وہ کسی اس قسم کی حکومت میں رہتے تھے جس کا ذکر جناب قرضاوی نے اپنی تحریر میں کیا ہے‘ اور جب مشرکین مکّہ کے مظالم سے تنگ آکر ان میں بہت سے اصحاب عزیمت نے سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی تو کیا وہاں قرآنی حکومت قائم تھی‘ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل جن صحابہؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی یا جن صحابہؓ کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت پھیلانے اور مسلمان ہونے والوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وہاں بھیجا‘ کیا ان کی ہجرت سے قبل ’’قرآن کی روسے حکومت کرنے والا کوئی امام‘‘ وہاں موجود تھا؟
یقینا جناب قرضاوی کی زیرتنقید عبارت اپنے عموم و شمول کے لحاظ سے ان تمام سوالات اور اعتراضات کا مورد قرار دی جا سکتی ہے مگر میرے معترض عزیز نے اس بات کی طرف ذرا بھی توجہ نہ دی کہ جناب قرضاوی مسلمانوں کو غلبۂ دین کی جدوجہد کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ان کے سامنے اس خوف ناک حقیقت کو واشگاف انداز میں بیان کر رہے ہیں کہ جومسلمان قرآن کے مطابق قائم کسی حکومت کے سایۂ عاطفت سے محروم ہو‘ اس کو اپنا ایمان بچانے کے لیے اور اہل جاہلیت میں شمار ہونے سے بچنے کے لیے اظہار ] غلبہ[ دین کی راہ میں سرگرم عمل ہونا چاہیے۔ پھر جدوجہد کے دوران اگر کسی بااختیار ’’امام‘‘ کی قیادت نصیب نہ بھی ہو تو اسے اپنے طور پر کسی شخص کواس اجتماعی جدوجہد کے لیے اپنا قائد اور رہنما بنا لینا چاہیے۔ اور جب بھی کوئی ایسی سرزمین میسر آجائے جہاں لوگ صرف اللہ کی بندگی کرنے کے لیے آزاد ہوں تو ہر سچے مسلمان کو اس سرزمین کی طرف اسی طرح ہجرت کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوناچاہیے‘ جس طرح ایک گمراہ معاشرے میں رہنے والا وہ مسلمان تھا جس کا ذکر ایک حدیث شریف میں تفصیل سے آیا ہے کہ وہ سو انسانوں کے قتل جیسے بھیانک جرم کے ارتکاب کے بعد ہجرت کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ مگر وہاں پہنچنے سے قبل اس کی مہلت عمل ختم ہو گئی۔ راستے ہی میں فرشتۂ اجل آن پہنچا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس کے سابق گناہ معاف فرما کر اس کو اپنی رحمت اور مغفرت کے وسیع دامن میں پناہ لینے کا مستحق قرار دے دیا‘ جیسا کہ قرآن حکیم میں بھی اللہ کا ارشاد موجود ہے:
وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْم بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا o (النساء ۴:۱۰۰)
اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف ہجرت کرنے نکلے پھر اس کو (راستے ہی میں) موت آجائے تو (اس کو معلوم رہنا چاہیے کہ) اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہو گیا اور اللہ تو بہت بخشنے والا مہربان ہے۔ (چنانچہ ہجرت سے قبل کے گناہوں کے بارے میں اسے فکرمند نہ ہونا چاہیے)۔
ایک صحیح حدیث میں بھی اس طرح کی بشارت موجود ہے:
ہجرت ان (گناہوں کو) منہدم کر دیتی ہے (جن کا ارتکاب) ہجرت سے پہلے کیا گیا تھا۔
اصل مسئلہ مسلمانوں کو ان کے ملّی منصب اور مقصدِحیات کی طرف دعوت دینا اور اس راہ میں سرگرم کرنا ہے۔ تکفیر اور جاہلیت کی موت کی قانونی اور فقہی بحث نہیں ہے۔
میرے اس بیان پر اگر یہ اعتراض اٹھایا جائے کہ دنیا میں ایک ارب سے زائد مسلمانوں میں ان لوگوں کی تعداد تو آٹے میں نمک کے بھی برابر نہیں ہے جو ’’اظہار دین‘‘ کے فرض کو پہچان کر اس کی ادایگی کے لیے تھوڑی بہت جدوجہد بھی کر رہے ہیں تو باقی مسلمانوں کے بارے میں شیخ قرضاوی کے اس فتوے کی روشنی میں کیا حکم لگایا جائے گا؟ تو میں آپ کے اس سوال نما اعتراض کو غلط نہیں بلکہ برمحل سمجھوں گا۔ لیکن میرے بھائی! فتوے کی جوکاٹ آپ مسلمانوں کے خلاف محسوس کر رہے ہیں اور جس کاٹ کو کند کرنے کے درپے ہیں آپ اسی کاٹ تک کیوں محدود رہتے ہیں؟ دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ جو انسان بستے ہیں کیا وہ اللہ کے بندے اور آدم ؑ کی اولاد نہیں؟ کیا یہ سب قرآن و سنت کی نصوص کے مطابق کافرومشرک نہیں اور کیا اس حالت میں ان میں سے جولاکھوں لوگ روزانہ فوت ہوتے ہیں‘ وہ کتاب و سنت کے فتوے کی زد میں نہیں؟ توآپ ان نصوص کی کاٹ کی وسعت اور شدت کی طرف بھی توجہ فرمائیں اور ان لاکھوں انسانوں کوجہنم کا ایندھن بننے سے بھی تو بچائیں۔ مگر آپ کی اس خواہش کے علی الرغم اللہ تعالیٰ کا ارشاد تو یہ ہے کہ جو انسان غفلت میں چوپایوں کے مانندہیں ان کے بارے میں وہ ارحم الراحمین قطعاً فکرمند نہیں ہے۔ یہ ’’سارا جہاں‘‘ جس کا ہے اگر اس کا فیصلہ ان کے بارے وہ ہے جو درج ذیل آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے تو پھر آخر ہم کیوں ’’فکرجہاں‘‘ میں خود کو گھلائیں‘مالکِ جہاں کا فیصلہ ملاحظہ ہو:
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِز لَھُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَھُوْنَ بِھَا ز وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِھَا ز وَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِھَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۷۹)
اور یقینا ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو پیدا ہی جہنم کے لیے کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں‘ ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں‘ ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ یہ لوگ توچوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ ہیں۔ یہی لوگ غفلت میں گم ہیں۔
تاہم اپنے بندوں کے بارے میں ان کے رب کی مشیت یا فیصلہ کچھ بھی ہو‘ اور کچھ بھی ہوسکتا ہے کسی کو اس کے بارے میں اعتراض کرنے کا حق نہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
لاَ یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ o (الانبیاء ۲۱:۲۳)
جو کچھ وہ کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔ (البتہ) ان (انسانوں) سے (ان کے اعمال کے بارے میں) سوال کیا جائے گا۔
مگر ہم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی مخلوق کو‘ جہاں تک ہم سے ہو سکے‘ جہنم میں گرنے سے بچائیں۔ چنانچہ اُمت مسلمہ کو ان سب انسانوں کے مفاد کے لیے اٹھایا گیا ہے کہ وہ ان کو خیر کی طرف آنے کی دعوت دے اور جہاں اس کا بس چلے وہاں ایسا معاشرہ وجود میں لائے جس کے اندر معروف کا حکم دیا جاتا ہو اور منکر سے روکا جاتا ہو‘ تاکہ ایسا ماحول پیدا ہو جائے جس کے اندر لوگ ’’خیر‘‘ کو بآسانی پہچان کراسے قبول کر لیں اور فکروعقیدے کی گمراہیوں سے خود اپنے اختیار کے تحت الگ ہوجائیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (آل عمران ۳:۱۰۴)
اور تمھاری ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جوخیر کی طرف دعوت دے‘ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روک دے اور یہی جماعت فلاح پانے والی ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
یہ اُمت کو اس اہتمام اور انتظام کی ہدایت فرمائی گئی ہے جو اعتصام بحبل اللہ پر قائم رہنے اور لوگوں کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ ہدایت ہوئی ہے کہ مسلمان اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں۔ وہ لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دے‘ معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے۔ معروف و منکر سے مراد شریعت اور سوسائٹی دونوں کے معروفات و منکرات ہیں اور ان کے لیے امر و نہی کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کا غالب قرینہ یہی ہے کہ یہ کام مجرد وعظ و تلقین ہی سے نہیں انجام دینا ہے اختیار و قوت سے اس کو نافذ بھی کرنا ہے جو بغیر اس کے ممکن نہیں کہ یہ گروہ اُمت کی طرف سے سیاسی اقتدار کا حامل ہو۔ اگر تنہا دعوت و تبلیغ ہی سے یہ کام لینا مدنظر ہوتا تو اس مطلب کو ادا کرنے کے لیے ’’یدعون الی الخیر‘‘کے الفاظ کافی تھے۔ یامرون بالمعروف (الایۃ) کی ضرورت نہ تھی‘‘۔ (تدبر قرآن‘ ج ۲‘ ص۱۵۴-۱۵۵)
ہمارے نزدیک اس آیت سے اس اُمت کے اندر خلافت کے قیام کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلا جو کام کیا وہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام تھا۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے استاذ اور مایہ ناز مفسر قرآن مولانا حمیدالدین فراہی رحمتہ اللہ علیہ نے فریضۂ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی وضاحت کرتے ہوئے درج ذیل آیت: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (آل عمران۳:۱۱۰) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جس کو (تمام)لوگوں کے فائدے کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکرسے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘، کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
اس سے معاملے کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمل صالح کریں۔ پھر ادائے حقوق کے بارے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اور چونکہ ادائے حقوق بغیر خلافت و سیاست ناممکن ہے اس لیے ضروری ہے کہ خلافت قائم کریں۔ (مجموعۂ تفاسیر فراہیؒ، ص ۳۴۴)
مگر ہمارے اس مکتب فکر کے علما اور دانش ور مدعی ہیں کہ خلافت قائم کرنے کی کوشش کرنا مسلمانوں پر فرض نہیں ہے۔ ہاں! اگر سیاسی اقتدار حاصل ہو ہی جائے تو مسلمان اپنے میں سے کچھ لوگوں کو اس کام پر بھی مقرر کریں۔ چنانچہ اُن کے ایک قائد لکھتے ہیں کہ:
دعوت کی دوسری صورت وہ ہے جس کا حکم سورئہ آل عمران (۳:۱۰۴) کی آیت: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ میں آیا ہے۔ اس حکم کا تعلق ارباب اقتدار سے ہے۔ اہل ایمان کے لیے ان کے پروردگار نے یہ بات لازم ٹھیرائی ہے کہ انھیں اگر کسی زمین میں سیاسی خودمختاری حاصل ہو جائے تو وہ اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کوخیر کی طرف بلائے‘ برائی سے روکے اور بھلائی کا حکم دے۔ (قانون دعوت‘ ص ۱۵)
گویا سیاسی خودمختاری کے حصول کی جدوجہد یا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کے لیے کسی کوشش کی ذمہ داری اُمت پر نہیں ہے۔ البتہ کسی منصوبے اور عملی جدوجہد کے بغیر اللہ تعالیٰ اگر (تکوینی) قدرت کے تحت مسلمانوں کو اقتدار عطا کر ہی دے تب مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ایک گروہ کو مقرر کر دیں اور بس ان کی ذمہ داری ختم۔
اس مکتب فکرکے علم برداروں کے نزدیک دنیا کے تمام چھوٹے بڑے کاموں میں سے ایک سیاسی خودمختاری اور باطل پرستوں سے اقتدار چھیننے کا کام وہ واحد کام ہے کہ جس کے لیے نہ کسی منصوبے کی ضرورت ہے نہ کسی جدوجہد کی۔ یہ چیز تو بس جب اللہ چاہے گا تب خود بخود حاصل ہوجائے گی۔
پھر قرآنی آیت کی تاویل کرتے ہوئے قانون دعوت کے مصنف نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ارباب اقتدار سے متعلق قرار دے کر اس باب میں عام مسلمانوں کی صرف یہ ذمہ داری بتائی ہے کہ اگر ان کو کہیں سے سیاسی خودمختاری مل جائے تو وہ اس ذمہ داری کی ادایگی کے لیے اپنے اندر سے ایک گروہ مقرر کر دیں‘ لیکن جس حدیث میں اس کام کو عمومیت کے ساتھ ہر مسلمان کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ انھوں نے اس طرح کیا ہے کہ حتی الوسع یہ ذمہ داری ’’بے ضرر‘ معصوم اور کم آزار‘‘ بن کر رہ جائے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کی یہ ذمہ داری اس طرح واضح کی ہے: من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذٰلک اضعف الایمان (مسلم‘ کتاب الایمان) ’’تم میں سے جو شخص اپنے دائرۂ اختیار میں کوئی برائی دیکھے اسے چاہیے کہ وہ ہاتھ سے اس کا ازالہ کر دے۔ پھر اگر اس کی ہمت نہ ہو تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل اسے ناگوار سمجھے اور یہ ایمان کا ادنیٰ ترین درجہ ہے‘‘۔ (قانون دعوت‘ ص ۱۱۴)
اس ترجمے میں جناب مترجم نے فلیغیرہ کا ترجمہ ایک جگہ ’’ازالہ کر دے‘‘ کیا ہے اور دوسری جگہ ’’ناگوار سمجھے‘‘ کیا ہے اور تیسری جگہ اور کوئی بات نہ بنی تو سرے سے ترجمے میں اسے غائب ہی کر دیا ہے۔ حالانکہ تغیر کے معنی ’’ازالہ‘‘ کرنا یا ’’ناگوار سمجھنا‘‘ نہیں بلکہ ایک چیز کو بدل کر اس کی جگہ دوسری چیز کو قائم کرنا ہے جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ’’منکر‘‘ کو ہٹا کر معروف کو اس کی جگہ قائم کر دینا اصلی ذمہ داری ہے۔ پھر چونکہ ہر شخص کے بارے میں یہ فرض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ منکر کو مٹا کر اس کی جگہ معروف کو قائم کر دے اس لیے حدیث شریف میں استثنا کے ذریعے گنجایش پیدا کی گئی کہ جو ایسا نہ کر سکے (فمن لم یستطع) لیکن جناب مترجم نے استطاعت (طاقت رکھنے) کو ہمت سے بدل کر اس کا ترجمہ ’’پھر اگر اس کی ہمت نہ ہو‘‘ کر دیا جو نہ صرف بالکل غلط ہے بلکہ خود مترجم نے اپنے ترجمے میں ’’اپنے دائرۂ اختیار میں‘‘ کی جو قید فرض کر لی تھی اس صورت میں ’’ہمت کا نہ ہونا‘‘ مطلقاً کوئی وجہ جواز بن ہی نہیں سکتا۔ جو کام کسی کے دائرۂ اختیار میں ہو‘ اس کو کرنے کی ہمت نہ ہونا ایک بے معنی سی بات ہے۔ پھر فبقلبہ چونکہ فلیغیرہ سے متعلق ہے اس لیے اس کے معنی دل سے اس کو بدلنا (یا بدلنے کا عزم رکھنا) ہوں گے نہ کہ محض ناگوار سمجھنا۔
اس نوعیت کی ایک آواز بھارت سے بھی اُٹھ رہی ہے اور اسلام کے عالمی مشن کی اسی طرح کی تاویلات کر کے اسلام کی دعوت کو غیرمسلموں کی نظروں میں اتنا معصوم اور بے ضرر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اب بھارت میں ہندو ان کو اپنی مذہبی کتھائوں میں اسلام کی اس بے ضرر دعوت کا بھاشن دینے کے لیے بلانے لگے ہیں۔ ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے مصنف نے بزعم خود ثابت کیا ہے کہ ’’اقامت دین‘‘ کا مطلب دین کو قائم کرنا‘ تعبیر کی غلطی ہے اس کی صحیح تعبیر دین کو سیدھا رکھنا یعنی اس پر ٹھیک ٹھیک طریقے پر عمل کرنا ہے۔
اسی طرح دین کو غالب کرنے کے جس کام کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہوا ہے: لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وہ مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں کہ جس کے لیے وہ سرگرم عمل ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کو اپنا کام بتایا ہے۔چنانچہ وہی اس کام کو اپنی قدرت کاملہ سے انجام دے دے گا۔
اسی طرح کی تاویلات لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵) میں بعثت انبیا کا مقصد لوگوں کا انصاف پر قائم ہونا جو بتایا گیا ہے اور کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ (النساء ۴:۱۳۵) یا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز (المائدہ ۵:۸) (انصاف کو لے کر اٹھنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے (یا) اللہ کے لیے اٹھنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو)‘ اسی طرح مظلومین کوظلم سے بچانے کے لیے قتال کا حکم اور دین کے مکمل طور پر اللہ کے لیے ہو جانے تک قتال کرنے کا حکم وغیرہ‘ بے شمار احکام کو تاویل کی خراد پر چڑھا کر اس مکتب فکر نے اسلام کو بھکشوؤں کا مذہب بنانے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔
یہ حضرات کہتے ہیں کہ ہمارا کام صرف دعوت پہنچانا اور آخرت کے عذاب سے ڈرانا ہے اور جب تک کوئی ہماری اس دعوت میں رکاوٹ نہ بنے اور ہمیں اس دعوت و انذار سے بذریعہ طاقت نہ روکے ہم کو طاقت استعمال کرنے کا حکم نہیں ہے۔ لیکن کوئی ان سے یہ پوچھے کہ اگر آپ کی دعوت مسرفین کی اطاعت چھوڑ کر رسولوں کی اطاعت اختیار کرنا نہیں ہے‘ اگر آپ کی دعوت غیراللہ کی بندگی چھوڑ کر اللہ کی بندگی اختیار کرنا نہیں ہے‘ اگر آپ کی دعوت غیراللہ کی حاکمیت کا انکار کر کے صرف اللہ کی حاکمیت کے سامنے سراطاعت جھکانا نہیں ہے تو آپ سے لڑنے آئے گا کون؟ اور آئے گا تو کیوں لڑنے آئے گا؟ لیکن اگر آپ کی دعوت فی الواقع وہی ہے جو انبیا علیہم السلام کی تھی تو اس کو سمجھ لینے کے بعد آپ کی اس دعوت کو ٹھنڈے پیٹوں بھلا کون برداشت کرے گا؟