مولانا سید وصی مظہر ندوی


۱۹۴۲ء میں جب ہندستان Quit India کی کانگریسی تحریک کی لپیٹ میں تھا‘ راقم اس وقت دارالعلوم ندوۃ العلما میں زیرِ تعلیم تھا ۔ ندوہ کے اکثر طلبہ مولانا ابوالکلامؒ آزاد کے دلدادہ اور جمعیت علماے ہند کے زیر اثر تھے ۔ مگر طلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد قائدِ اعظم محمد علی جناح اورآل انڈیا مسلم لیگ کی ہم خیال اور پر زور مؤید بھی تھی ۔ دونوں گروہوں میں پر جوش مباحثے ہوتے‘ جب کہ کانگریس کے طرف دارطلبہ انگریزوں کے خلاف توڑ پھوڑ کے پروگرام بھی بناتے۔ اس انتہائی تنائو کے ماحول میں‘ تنہا میں ‘مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کی دعوت ’’حکومت الٰہیہ کی تاسیس کی دعوتــ‘‘ کو نہایت اعتماد کے ساتھ پیش کرتا اور دونوں کیمپوں کے پرجوش حامیوں کے مقابلے پر ڈٹا رہتا ۔

میرے اندریہ حوصلہ دراصل مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کی تحریروں اور ان مضامین کو پڑھنے سے پیدا ہوا تھا‘ جو مسلمان اور مو جودہ سیاسی کش مکش (سوم) میں شامل کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ با لخصوص اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟کے عنوان سے مولانا کی وہ تقریر جو انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں کی تھی اس کو پڑھ کر تو دل میں ا یسا ایمان و ایقان اور جوش پیدا ہو گیا‘ جس کو ظاہری شعلہ زنی سے بے نیاز ‘مگر کبھی ٹھنڈی نہ ہونے والی آگ سے مشابہ قرار دینا صورت حال کی واقعی تعبیر ہو گی -

جب مسلمانوں کے تمام ممالک اور ملت میں شامل تمام اقوام‘ مغربی استعمار کا صید زبوں بنی ہوئی تھیں اور مغرب کی مادی برتری نے اس کی فکری بر تری کی بھی دھاک بٹھا رکھی تھی ‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس وقت برعظیم کے مسلمانوں کو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے نصب العین کی طرف دعوت دی ۔ یہ دعوت اس وقت دی گئی جب برعظیم کے وہ مسلمان لیڈر جو مغربی تہذیب و ثقافت کے پروردہ تھے ان کو تو چھوڑیے‘ بڑی بڑی دینی درس گاہوں کے سکہ بند بلکہ سکہ ساز علماے کرام بھی وطنی قومیت ‘ آزادی اور جمہوریت کے خالص مغربی تصورات کے مبلغ اور انھی تصورات کو سر بلند کرنے کی جد و جہد میں ’جہادی جذبے‘ کے ساتھ سر گرم عمل تھے ۔ حالت یہ تھی کہ اسی طبقہ علما سے تعلق رکھنے والے ایک محقق‘ مصنف اور شہرہ آفاق خطیب نے ’اسلام کے اقتصادی نظام‘ پر اپنی ایک محققانہ تصنیف میں اس رائے کا اظہار فرمایا : چونکہ اسلام کے اقتصادی نظام کو اس وقت بر سر کار لانا ممکن نہیں اس لیے اس ’’ قریب تر ‘‘ اشتراکی نظام کو قائم کرنے کی جد و جہد کرنی چاہیے ۔ یہ وہ وقت تھا جب ترکی سے خلافت کا خاتمہ کرنے و الے ‘ عربی رسم الخط کو ممنوع ‘ اسلامی قوانین کو منسوخ اور عربی میں اذان دینے پر پابندی لگانے والے کمال کو برعظیم کے مسلمان ’’ غازی مصطفی کمال ‘‘ کے معزز لقب سے یاد کرتے تھے۔

۱۹۴۲ء میں مولانا مودودیؒکی ایمان پرور اور انقلابی تحریریں پڑھ کرمیں اپنے طلبہ ساتھوں سے بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ ایک اسلامی ریاست میں اگر مجھے ایک چپراسی کی حیثیت سے خدمت کرنے کا موقع نصیب ہو جائے تو میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہو گا ۔

میں اپنے ساتھیوں کو تحریروں کے اقتباسات پڑھ پڑھ کر سنا تا تھا‘ مثلاً: ’’مسلمان کو صرف اس چیز سے بحث ہے کہ یہاں انسان کا سر حکم اللہ کے آگے جھکتا ہے یا حکم الناس کے آگے ۔ اگر حکم اللہ کے آگے جھکتا ہے تب تو’’ ہندستان ‘‘ کو اور زیادہ وسیع کیجیے‘ ہمالیہ کی دیوار کو بیچ سے ہٹایئے اور سمندر کو بھی نظر انداز کر دیجیے تاکہ ایشیا ‘ افریقہ ‘ یورپ اور امریکہ‘ سب ہندستا ن میں شامل ہو سکیں‘ اور اگر یہ حکم الناس کے آگے جھکتا ہے توجہنم میں جائے ہندستان اور اس کی خاک کا پرستار ‘‘ --- اور یہ کہ: ’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرے لیے اس مسئلے میں بھی کوئی دل چسپی نہیں ہے کہ ہندستان میں جہاں مسلمان کثیرالتعداد ہیں وہاں ان کی حکومت قائم ہو جائے ۔میرے نزدیک جو سوال سب سے اہم ہے وہ یہ کہ آپ کے اس پاکستان میں نظام حکومت کی اساس خدا کی حاکمیت پر رکھی جائے گی یا مغربی جمہوریت کے مطابق عوام کی حاکمیت پر ؟اگر پہلی صورت ہے تو یہ یقینا پاکستا ن ہو گا‘ ورنہ بصورت دیگر یہ ویسا ہی ’نا پاکستان‘ ہو گا جیسا ملک کا وہ حصہ ہو گا جہاں آپ کی اسکیم کے مطا بق غیرمسلم حکومت کریں گے‘‘۔

مولانا مودودیؒنے دلوںمیں نہ بجھنے والی جو آگ روشن کی تھی وہ محض اس قسم کی پر جوش عبارتوں سے روشن نہیں کی تھی‘ جس کی عمر ’’اگر ماند شبے دیگر نمی ماند‘‘ کی طرح بہت مختصر ہوتی ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ۱۹۲۴ء سے لے کر ۱۹۴۰ء تک تیار ہونے والا وہ فکری اور علمی لٹریچر تھا‘ جس نے اس زمانے میں اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے تمام اعتراضات اور شکوک و شبہات کا تارو پود بکھیر دیا تھا۔  الجہادفی الا سلام ‘ اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی‘ تفہیمات‘ تنقیحات‘ مسئلہ جبرو قدر ‘ پردہ ‘ حقوق الزوجین اور تجدید و احیاے دین جیسی بلند پایہ کتب میں ان مسائل پر بھی مفصل بحث کی گئی تھی جو مغربی تہذیب کی وجہ سے ذہنوں میں پیدا ہوگئے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام زندگی کے ہر پہلو کو بھی نہایت دل نشیں انداز میں   مثبت طور پر سامنے لایا گیا تھا ۔

اس لٹریچر سے ہندستان کے طول و عرض میں بکھرے ایسے بہت سے افراد پیدا ہو گئے تھے‘ جو اسلام کی صداقت اور دور حاضر میں ممکن العمل سب سے بہتر نظام ہونے پر قلبی اطمینان اور ذہنی یکسوئی رکھتے تھے ۔ انھی بکھرے ہوئے لوگوں میں سے چند با ہمت افراد نے ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء کو لاہور میں  جمع ہو کر جماعت اسلامی قائم کر دی ۔

جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد مولانا مودودیؒکی علمی اور تحقیقی کتب جو محض اپنی قوت سے مسلم ہندستان کے اہل فکر کے حلقوں میں پذیرائی حاصل کر رہی تھیں‘ ان کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہوگئی ۔ کیونکہ جماعت سے وابستہ ہر شخص ان کتابوں کی اچھی خا صی تعداد اپنے پاس رکھتا اور معاشرے میں ہمہ وقت ایسے اصحابِ ذوق کی تلاش میں رہتا جن کویہ کتب مطالعے کے لیے دی جا سکیں۔ اس سلسلے میں’’پہلے کون سی کتاب مناسب ہو گی‘‘، کا انتخاب مشکل کام ہوتا تھا۔ مگر دعوت کے جذبے سے سرشار جماعت کے کارکن اپنے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہر شخص کے ذہن کے مطابق کتاب کے انتخاب میں خا صی مہارت کا ثبوت دیتے تھے۔

۱۹۴۶ء میں جب کانگریس کی طرف میلان رکھنے والے مسلمانوں اور مسلم لیگی فکر رکھنے والوں کے درمیان گرما گرم مباحثے ہر سطح پر برپا رہتے تھے‘ لکھنؤ میں جماعت اسلامی کے ایک کارکن کے بڑے بھائی کانگریس کے بہت زیادہ طرف دار تھے۔ ہندئووں اور کانگریسیوں کے بعض متعصبانہ کاموں کے باعث وہ کانگریس سے بیزار ہوئے تو ان کے برادر خورد میرے پاس آئے کہ ان کو    اس موقع کی مناسبت سے کوئی کتاب مطا لعے کو دی جائے۔ ابتداً میں نے کانگریس کے خلاف ان کے جذبات کو پختہ تر کرنے کے لیے  مسلمان اور موجودہ سیا سی کش مکشحصہ دوم   دی‘ مگر تھوڑی ہی دیر میں میری رائے تبدیل ہوئی‘ چنا نچہ میں نے ان کو حصہ دوم کی بجاے سیاسی کش مکش ‘ حصہ سوم دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حصہ دوم پڑھ کر ان کی کانگریس کے خلاف نفرت تو یقینا پختہ تر ہو جاتی‘ مگر شائد وہ جماعت کے کام کے لیے آگے نہ بڑھتے۔ چنانچہ حصہ سوم پڑھ کر میرے اندازے کے عین مطابق وہ جماعت اسلامی کے کارکن بن گئے۔

ان کتب کے انگریزی تراجم‘ نیز جنوبی ہندستان کی بعض علاقائی زبانوں میں بھی تراجم تیار ہو گئے‘ لیکن ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی ۔ جماعت اسلامی کے قیام کا دوسرا بڑا علمی فائدہ یہ ہوا کہ مذہبی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے جماعت کے خلاف اور با لخصوص مولانا مودودیؒکی فکر کے خلاف زبردست طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔ ہر طرف سے جماعت پر اعتراضات کی بو چھاڑ شروع ہو گئی ‘ مذہب اور بالخصوص اسلام دشمن حلقے اسلام اور مذہب کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ زور و شور سے گمراہ کن سوالات اٹھانے لگے۔ اس فضا میں بھلا قادیانی اور منکرین حدیث کیوں پیچھے رہتے۔ انھوں نے بھی اپنے ’’ علم کلام ‘‘ کے پٹاخوں سے فضا کو دھواں دھار بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایسے میں اٹھائے گئے ان اعتراضات کے مدلل جواب دینے کی ضرورت پیش آئی جو شاید عام حالات میں اس طرح سے سامنے نہ آتی۔ یوںاسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے علمی کام کا ایک موقع میسر آگیا۔

چنانچہ مولانا مودودیؒاس علمی چیلنج کا سامنے کرنے کے لیے کم ازکم۱۹۴۵ء تک با لکل تن تنہا اور اس کے بعد بھی ‘ جب کہ ان کو مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کی کمک میسر آ گئی تھی‘ زیادہ تر خود ہی   تمام سوالات و اعتراضات کے جوابات اپنے مضامین کے ذریعے اور  ترجمان القرآن میں ’’رسائل و مسائل‘‘ کے مستقل عنوان کے تحت بڑے اعتماد اور جی داری سے لکھتے رہے۔

مولانا مودودیؒ کے یہ جوابات رسائل مسائل کے نام سے پانچ حصوں میں شائع ہوچکے ہیں‘ حقیقتاً ایک با لکل نئے طرز تحریر کا اعلیٰ نمونہ ہیں ۔ ان کے اندر علمی وضاحت‘ تحقیقی متانت‘ منطقی استدلال اور ادبی جمال کے ساتھ لطیف مزاح اور ایسے طنز و تعریض کی آمیزش بھی ہے جس کا نشانہ بننے والا کبھی تو خود بھی لطف لیتا ہے اورکبھی اس کی کسک برسوں بلکہ زندگی بھر نہیں بھول پاتا ۔

ایک صاحب کو شکایت تھی کہ ان کی غیر شادی شدہ بہن مولانا مودودیؒکی کتب پڑھ کر اس درجہ اسلامی احکام اور پردے کی پابند ہو گئی ہے کہ وہ ایسی معاشرتی تقریبات سے بھی دور رہتی ہے‘ جو اس کے خیال میں اسلام کے خلاف ہیں اور اپنے لباس و معاشرت کے لحاظ سے وہ خاندانی روایات کو یکسر ترک کر چکی ہے‘ تو بتائیے کہ اب اس کا رشتہ آئے گا تو کہاں سے آئے گا؟ اس پر اپنی ’’ فریاد ‘‘ بیان کرنے کے بعد انھوں نے مولانا مودودیؒسے درخواست کی کہ وہ ان کی بہن کو سمجھائیں‘ تاکہ وہ کسی طرح اس طرز زندگی سے باز آ جائے۔ اس طویل فریاد کا جواب دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے صرف یہ لکھا :ــ ’’اس معاملے میں ‘ میں خود بھی بے بس ہو ں۔ آپ اپنے طور پر ہی کوشش کریں کہ آپ کی ہمشیرہ اسلام سے توبہ کر لیں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ دوم‘ ص ۴۲۷)

اس خوش گوار اور مقصدی طنز و تعریض کے ساتھ ساتھ جب کوئی علمی مسئلہ زیرِ بحث ہو‘ خواہ اسلام کے کسی حکم کے حوالے سے یا جدید سائنسی تحقیقات کے حوالے سے‘ تو زور استدلال کے ساتھ ایسا اجمال جس سے بات سمجھنے میں خلل واقع نہ ہو اور ایسی تفصیل جس کا کوئی حصہ ضرورت سے زیادہ نہ ہو‘ اس کی مثالیں رسائل و مسائل کے ہر صفحے پر مل جائیں گی۔ ایک جگہ الجامع الصحیح کی ایک حدیث پر ایک صاحب کے اعتراض کے جواب میں مولانا مودودیؒنے لکھا ہے: ’’اس (حدیث) میں دراصل جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ سورج ہر آن اللہ کے حکم کا تابع ہے ۔ اس کا طلوع بھی اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور اس کا غروب بھی ۔ سورج کا سجدہ کرنا ظاہر ہے کہ اس معنی میں نہیں ہے جس معنی میں ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں‘ بلکہ وہ اس معنی میں ہے جس میں قرآن دنیا کی ہر چیز کو خدا کے آگے سر بسجود قرار دیتا ہے‘ یعنی کلیتاً تابع امرِ رب ہونا ۔ پھر سورج کا مغرب ایک نہیں بلکہ قرآن کی رو سے بہت سے مغرب ہیں ۔ کیونکہ وہ ہر آن ایک خطۂ زمین میں غروب اور ہرآن دوسرے خطے میں طلوع ہوتا ہے ۔ اس لیے اجازت مانگ کر طلوع و غروب ہونے کا مطلب ہرآن امر الٰہی کے تحت ہونا ہے‘‘۔

حدیث سے زمین کے ساکن اور سورج کے گردش کرنے کا جو تاثر ملتا ہے‘ اس پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں: ’’ان (انبیا) کا کام یہ بتانا نہ تھا کہ زمین حرکت کرتی ہے یا سورج‘ ان کا کام تو یہ بتانا تھا کہ ایک ہی خدا زمین و سورج کا مالک و فرماںروا ہے اور ہر چیز ہر آن اسی کی بندگی کر رہی ہے‘‘۔

ایک دوسری مثال میں مولانا مودودیؒنے ذیل کی اس مختصر عبارت میں’’زکوٰۃ‘‘کی شرعی تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اعلیٰ مقاصد اور فرد و معاشرے پر اس کے تعمیری اثرات کو بیان فرمایا ہے: ’’زکوٰۃ‘‘ کے لغوی معنی طہارت اور نمو کے ہیں۔ انھی دونوں صفتوں کے لحاظ سے اصطلاح میں زکوٰۃ اس مالی عبادت کو کہتے ہیں جو ہر صاحب ِنصاب مسلمان پر اس لیے فرض کی گئی ہے کہ خدا اور بندوں کا حق ادا کر کے اس کا مال پاک ہو جائے اور اس کا نفس ‘ نیز وہ سو سائٹی جس میں وہ رہتا ہے بخل ‘ خود غرضی ‘ بغض وغیرہ جذبات و رویے سے پاک ہو اور اس میں محبت و احسان‘ فراخ دلی اور باہمی تعاون و مواساۃ کے اوصاف نشو و نما پائیں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ دوم‘ ص ۹۴)

برعظیم کی حدود سے نکل کر مولانا مودودی ؒ کی تحریر عالم اسلام کے افق پر اس وقت طلوع ہوئی جب عرب دنیا میں بالعموم اور مصر میں با لخصوص اسلامی تحریک اخوان المسلمون کا دور شباب تھا ۔ ترکی میں بدیع الزمان سعید نورسی کی تحریک اور دیگر اسلامی تحریکیں زیر زمین سر گرمِ عمل تھیں اور ایران میں شاہ کے ظالمانہ دور حکومت میں علما اور مجتہدین نہایت خاموشی سے اسلامی فکر کی آبیاری کر رہے تھے ۔

یہی وہ وقت تھا جب استادِ محترم جناب مولانا مسعود عالم ندوی ؒ نے مرکز جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ’’دار العروبہ‘‘ کے نام سے ایک مستقل ادارہ قائم کیا۔ مولانا ندوی مرحوم سے عالم عرب کے ادیب‘ علما اور صحا فی پہلے ہی سے اچھی طرح آشنا تھے ۔ وہ عرب دنیا میں ’’ عین العروبہ ‘‘ کے لقب سے پہچانے جاتے تھے ۔ مر حوم کو اپنی صحت اور برعظیم کے پرا گندہ سیاسی حالات کی وجہ سے یکسوئی سے  کام کا موقع کم ہی مل سکا‘ تاہم انھوں نے جالندھر میں تقسیم ہند سے ذرا قبل کام شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ مولانا مودودیؒ کے بعض اہم مضامین کا عربی میں ترجمہ کرنے کے علاوہ انھوں نے وسیع پیمانے پر خط و کتابت کے ذریعے عالم اسلام کی ممتاز شخصیات سے رابطہ کر کے ان کو جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ سے متعا رف کرایا۔ جالندھر میں ابھی کام کا آغاز ہی ہوا تھا کہ ملک کی تقسیم عمل میں آگئی اور مولانا ندویؒ اپنے رفیق کار عاصم الحداد مرحوم کے ساتھ نہایت بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان آ گئے۔ یہاں اپنے کام کو جلد از جلد منظم کرنے کے بعد وہ عاصم الحدادؒ کے ساتھ عرب ممالک کے دورے پر روانہ ہو گئے ۔ یہاں علما اور ادیبوں سے براہ راست طویل مذاکرات کیے ۔ اسی ز مانے میں مولانا مودودیؒ کے متعدد اہم مضامین اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ ، اسلام کا نظریۂ سیاسی اوردین حقوغیر ہ کا تر جمہ عربی زبان میں شائع ہو چکا تھا ۔ ان تراجم کو عرب دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ۔ اخوان المسلمون کے رہنمائوں اور کارکنوں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ سیدقطب ‘ ان کے بھائی محمد قطب ‘ محمد الغزالی ‘ شیخ محمد محمود صواف‘ ڈاکٹر مصطفی سباعی اور بے شمار علما اور رہنما ان سے متاثر ہوئے ۔ اس کے بعد جب مولانا مودودی کی دیگر اہم کتب کا تر جمہ عربی میں شائع ہوا تو عرب دنیا میں مو لانا مودودی کی فکری قیادت با لخصوص اسلامی حلقوں میں مسلّم ہو گئی ۔

انھی عربی تراجم کی مدد سے چند اہم مضامین کے تر جمے فارسی میں ایران کے دینی مرکز ’’قم‘‘ سے شائع ہوئے ۔ انگریزی تراجم اور عربی تراجم کی مدد سے کئی مضامین کے ترجمے ترکی زبان میں بھی شائع ہوئے ۔ اس کام کے لیے چودھری غلام محمد مرحوم اور جناب خلیل احمد حامدی مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پھر خود مولانا مودودیؒ کے دوروں سے ‘ جو حج و عمرے کے علاوہ رابطہ عالم اسلامی ‘ مدینہ یونی ورسٹی اور دیگر علمی و دعوتی مقاصد کے لیے کیے گئے تھے‘ ان سے مولانا مودودیؒ کو عالم اسلام کے فکری قائد کا مرتبہ حاصل ہو چکا تھا ۔

راقم کو ۱۹۷۱ء سے لے کر اب تک دنیا کے بہت سے ملکوں کا سفر کرنے کا موقع ملا ۔ بالخصوص شرق اوسط کے ممالک: بحرین‘ کویت ‘ قطر ‘ متحدہ عرب امارات ‘ سعودی عرب تو بار بار جانا ہوا اور الحمدللہ عوام کے ساتھ ساتھ علما ‘ مشائخ ‘ صحافی‘ وزرا اور حکومت کے ذمہ داروں سے تبادلۂ خیال بھی ہوا۔ میں نے ان میں بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی پائی ‘جو نہ صرف یہ کہ مولانا مودودیؒ کو اچھی طرح جانتے تھے‘ بلکہ ان کے علمی ‘ فکری اور تحریکی جد و جہد کے معترف اور قدر دان بھی تھے ۔

میری اس بات کو ہر گزمبالغہ نہ سمجھا جائے کہ اس وقت پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی اسلام کے لیے جد و جہد ہو رہی ہے‘ میرے مشاہدے کے مطابق‘ اس جدو جہد میںبلا واسطہ یا با لواسطہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے کام کا پر تو اور ان کی فکر کے اثرات واضح طور پر مو جود ہیں ‘ بلکہ جو افرا دیا  تنظیمیں زبان سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی مخالفت کرنے کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں‘ وہ بھی شعوری یا غیر شعوری طور پرمولانا مودودی ؒ کی بتائی ہوئی راہ پر ہی چل رہے ہیں ۔ انھی کی اصطلاحیں استعمال کر رہے ہیں اور اپنی تحریر و تقریر میں مولانا مودودیؒ کی ہی فکر سے رہنمائی حا صل کر رہے ہیں ۔

تصویر کا یہ ایک دل کش پہلو ہے ‘ جس کی دل کشی کو میں کماحقہ بیان نہیں کر سکا‘ جس کی اصل وجہ توخود اپنی علمی اور فکری نا رسائی ہے‘ مگر اس کی دوسری وجہ یہاں (کینیڈا میں) ضروری کتب کا دستیاب نہ ہونا ہے ۔ مگر تصویر کا دوسرا دل فگار ر خ یہ ہے کہ مولانا مودودی ؒ نے جس ’’رخ دوست‘‘ کو دکھا کر کچھ ’’دیوانے ‘‘ یا ’’ نیم دیوانے ‘‘ جمع کیے تھے ‘ جو افتاں و خیزاں منزلِ محبوب کی طرف سر گرم سفر بھی ہو گئے تھے ‘ افسوس کہ]اب مجھے[ نہ تو کوئی اس دیوانہ بنانے والے ’’حَسن ‘‘کا جلوہ عام کرنے والا نظر آتا ہے‘ نہ اس ’’ حسن ‘‘ کے طالب عشاق کا قافلہ گرمِ سفر دکھائی دیتا ہے۔

پچھلی صدی اختتام پذیر ہوئی اور کوئی مانے یا نہ مانے‘ کسی کو اچھا لگے یا برا‘ اسلام کو زندہ اور تابندہ کرنے کے حوالے سے یہ صدی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی صدی تھی!

ترجمان القرآن (جولائی ۲۰۰۲ء) میں عزیز گرامی خورشید احمد ندیم کی طرف سے علامہ یوسف قرضاوی کے مضمون ’’سیاسی اسلام؟‘‘ (جون ۲۰۰۲ء) کے ایک چھوٹے سے اقتباس کو لے کر جومعترضانہ سوال اٹھایا گیا ہے اسے دیکھ کر تعجب تو بالکل نہیں ہوا کیونکہ فکر کے جس مکتب سے وہ فی زمانہ منسلک ہیں‘ اس مکتب کے لیے یہ پورا مضمون کونین کی انتہائی کڑوی گولی ہے جس کو یہ مکتب فکر کسی طرح حلق سے اتار نہیںسکتا۔ چنانچہ علمی انداز میں اس مضمون کا مدلل جواب دینے کے بجائے اپنی ’’بدمزگی‘‘ کو دُور کرنے کے لیے انھوں نے ایک چھوٹے سے اقتباس پر بظاہر ایک بہت بڑا اعتراض کر کے خود کو گویا تلخ کامی سے بچالیا۔

اس وقت اس مکتب فکر کے گمراہ کن افکار و خیالات کسی قسم کی مزاحمت کے بغیر گھاس کے اندر ہی اندر نہایت خاموشی سے پھیل رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دین کے بنیادی تصورات سے انحراف اور اسلام کو بھکشوؤں کا مذہب بنانے کا یہ کام جو بلامزاحمت جاری ہے اس کے تار و پود کو خالص علمی انداز میں بکھیردیا جائے تاکہ پھر جو اس راہ کی طرف جانا بھی چاہے وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر اس طرف نہ جائے بلکہ  لِّیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْم بَیِّنَۃٍ (الانفال ۸:۴۲)’’جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو‘‘ والی صورت ہو۔

بدقسمتی سے ہمارے چند اصحاب علم و دانش بعض ذاتی اسباب یا کچھ مخصوص حالات کی بنا پر ’’معرکۂ شریعت‘‘ میں ’’جنگ دست بدست‘‘ کے میدان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ پھر کش مکش زندگی سے اپنے گریز کو صاف صاف طور پر اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے سو بھیس بدل لینے والی عقل نے ان کو اس راہ پر ڈال دیا کہ دین کے اجتماعی اور سیاسی پہلو کے لیے جدوجہد ہی کو غیرضروری بلکہ دنیا پرستی سمجھنے لگے اور اظہار (غلبہ) دین کو اللہ رب العالمین کا کام سمجھ کر انھوں نے سب مسلمانوں کواس ذمہ داری سے فارغ کر دیا۔

میں ان کی اس سوچ کے بارے میں تو آگے چل کر کچھ عرض کروں گا۔ پہلے‘ معترض عزیز کے سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں۔

علامہ یوسف القرضاوی کا یہ دعویٰ کہ:

اسلام ہر مسلمان پر یہ سیاسی ذمہ داری عائد کرتاہے کہ وہ ایسی ریاست میں زندگی گزارے جس پر ایک امام کتاب اللہ کی رو سے حکومت کرتا ہو اور عوام نے اس کی بیعت کی ہو۔ اگر کوئی مسلمان ایسا نہیں کرتا تو وہ اہل جاہلیت میں سے ہے۔ صحیح حدیث میں ہے: جوشخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں امام کی بیعت کا قلاوہ نہیں ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (مسلم)

اعتراض کنندہ کی نگاہ میں یہ بات اس لیے قابل اعتراض ہے کہ اس کے ذریعے:

امریکہ‘ برطانیہ اور دوسرے غیر مسلم ممالک میں بسنے اورفوت ہو جانے والے مسلمانوں کے بارے میں جو فتویٰ صادر کیا گیا ہے وہ بہت خوف ناک ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے کیونکہ اس فتویٰ کی رو سے وہ سب اہل جاہلیت قرار پاتے ہیں۔

اب اسے خود معترض کی طرف سے جناب یوسف قرضاوی کے حق میں ایک فراخ دلانہ تسامح کہہ لیجیے یا کچھ اور نام دے لیجیے کیونکہ جناب قرضاوی کی زیرحوالہ عبارت اپنے عموم و شمول کے لحاظ سے اس سے کہیں زیادہ خوف ناک ہے جتنی خوف ناکی کا حوالہ دے کر جناب معترض نے اس پرسوال اٹھایا ہے۔ کیونکہ جناب قرضاوی کی شرائط پر پورا اُترنے والا تو دنیا میں اس وقت غالباً ایک ملک بھی موجود نہیں ہے جہاں کتاب اللہ کی رو سے حکومت کرنے والا امام موجود ہو اور عوام نے اس کی سمع و طاعت پر کاربند رہنے کی بیعت کی ہو۔

اس وقت دنیا کا کون سا ملک ان شرائط کو پورا کر رہا ہے کہ جناب قرضاوی کے فتوے کے مطابق مسلمان اس ملک میں جا کر بس جائیں اور اپنے دین و ایمان کی طرف سے بے خطر ہو کر چین کی زندگی بسر کرنے لگیں۔ پس سوال ’’صرف امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر غیر مسلم ممالک میں بسنے اور فوت ہو جانے والوں‘‘ تک محدد نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام مسلمان خواہ وہ کسی نام نہاد مسلم حکومت کی رعیت ہی کیوں نہ ہوں وہ سب کے سب ’’اہل جاہلیت‘‘ ہونے کے فتوے کی زد میں ہیں۔

میں تو کہتا ہوں سوال کوذرا اور پھیلایئے‘ آغاز نبوتؐ سے لے کر ہجرت مدینہ تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے عالی مرتبت صحابہؓ جو ’’السابقون الاولون‘‘ کے خطاب کے مستحق بھی قرار پائے‘ کیا وہ کسی اس قسم کی حکومت میں رہتے تھے جس کا ذکر جناب قرضاوی نے اپنی تحریر میں کیا ہے‘ اور جب مشرکین مکّہ کے مظالم سے تنگ آکر ان میں بہت سے اصحاب عزیمت نے سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی تو کیا وہاں قرآنی حکومت قائم تھی‘ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل جن صحابہؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی یا جن صحابہؓ کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت پھیلانے اور مسلمان ہونے والوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وہاں بھیجا‘ کیا ان کی ہجرت سے قبل ’’قرآن کی روسے حکومت کرنے والا کوئی امام‘‘ وہاں موجود تھا؟

یقینا جناب قرضاوی کی زیرتنقید عبارت اپنے عموم و شمول کے لحاظ سے ان تمام سوالات اور اعتراضات کا مورد قرار دی جا سکتی ہے مگر میرے معترض عزیز نے اس بات کی طرف ذرا بھی توجہ نہ دی کہ جناب قرضاوی مسلمانوں کو غلبۂ دین کی جدوجہد کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے ان کے سامنے اس خوف ناک حقیقت کو واشگاف انداز میں بیان کر رہے ہیں کہ جومسلمان قرآن کے مطابق قائم کسی حکومت کے سایۂ عاطفت سے محروم ہو‘ اس کو اپنا ایمان بچانے کے لیے اور اہل جاہلیت میں شمار ہونے سے بچنے کے لیے اظہار ] غلبہ[ دین کی راہ میں سرگرم عمل ہونا چاہیے۔ پھر جدوجہد کے دوران اگر کسی بااختیار ’’امام‘‘ کی قیادت نصیب نہ بھی ہو تو اسے اپنے طور پر کسی شخص کواس اجتماعی جدوجہد کے لیے اپنا قائد اور رہنما بنا لینا چاہیے۔ اور جب بھی کوئی ایسی سرزمین میسر آجائے جہاں لوگ صرف اللہ کی بندگی کرنے کے لیے آزاد ہوں تو ہر سچے مسلمان کو اس سرزمین کی طرف اسی طرح ہجرت کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوناچاہیے‘ جس طرح ایک گمراہ معاشرے میں رہنے والا وہ مسلمان تھا جس کا ذکر ایک حدیث شریف میں تفصیل سے آیا ہے کہ وہ سو انسانوں کے قتل جیسے بھیانک جرم کے ارتکاب کے بعد ہجرت کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ مگر وہاں پہنچنے سے قبل اس کی مہلت عمل ختم ہو گئی۔ راستے ہی میں فرشتۂ اجل آن پہنچا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس کے سابق گناہ معاف فرما کر اس کو اپنی رحمت اور مغفرت کے وسیع دامن میں پناہ لینے کا مستحق قرار دے دیا‘ جیسا کہ قرآن حکیم میں بھی اللہ کا ارشاد موجود ہے:

وَمَنْ یَّخْرُجْ مِنْم بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا  o (النساء ۴:۱۰۰)

اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف ہجرت کرنے نکلے پھر اس کو (راستے ہی میں) موت آجائے تو (اس کو معلوم رہنا چاہیے کہ) اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہو گیا اور اللہ تو بہت بخشنے والا مہربان ہے۔ (چنانچہ ہجرت سے قبل کے گناہوں کے بارے میں اسے فکرمند نہ ہونا چاہیے)۔

ایک صحیح حدیث میں بھی اس طرح کی بشارت موجود ہے:

والھجرۃ تھدم ما کان قبلھا

ہجرت ان (گناہوں کو) منہدم کر دیتی ہے (جن کا ارتکاب) ہجرت سے پہلے کیا گیا تھا۔

اصل مسئلہ مسلمانوں کو ان کے ملّی منصب اور مقصدِحیات کی طرف دعوت دینا اور اس راہ میں سرگرم کرنا ہے۔ تکفیر اور جاہلیت کی موت کی قانونی اور فقہی بحث نہیں ہے۔

میرے اس بیان پر اگر یہ اعتراض اٹھایا جائے کہ دنیا میں ایک ارب سے زائد مسلمانوں میں ان لوگوں کی تعداد تو آٹے میں نمک کے بھی برابر نہیں ہے جو ’’اظہار دین‘‘ کے فرض کو پہچان کر اس کی ادایگی کے لیے تھوڑی بہت جدوجہد بھی کر رہے ہیں تو باقی مسلمانوں کے بارے میں شیخ قرضاوی کے اس فتوے کی روشنی میں کیا حکم لگایا جائے گا؟ تو میں آپ کے اس سوال نما اعتراض کو غلط نہیں بلکہ برمحل سمجھوں گا۔ لیکن میرے بھائی! فتوے کی جوکاٹ آپ مسلمانوں کے خلاف محسوس کر رہے ہیں اور جس کاٹ کو کند کرنے کے درپے ہیں آپ اسی کاٹ تک کیوں محدود رہتے ہیں؟ دنیا میں مسلمانوں کے علاوہ جو انسان بستے ہیں کیا وہ اللہ کے بندے اور آدم ؑ کی اولاد نہیں؟ کیا یہ سب قرآن و سنت کی نصوص کے مطابق کافرومشرک نہیں اور کیا اس حالت میں ان میں سے جولاکھوں لوگ روزانہ فوت ہوتے ہیں‘ وہ کتاب و سنت کے فتوے کی زد میں نہیں؟ توآپ ان نصوص کی کاٹ کی وسعت اور شدت کی طرف بھی توجہ فرمائیں اور ان لاکھوں انسانوں کوجہنم کا ایندھن بننے سے بھی تو بچائیں۔ مگر آپ کی اس خواہش کے علی الرغم اللہ تعالیٰ کا ارشاد تو یہ ہے کہ جو انسان غفلت میں چوپایوں کے مانندہیں ان کے بارے میں وہ ارحم الراحمین قطعاً فکرمند نہیں ہے۔ یہ ’’سارا جہاں‘‘ جس کا ہے اگر اس کا فیصلہ ان کے بارے وہ ہے جو درج ذیل آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے تو پھر آخر ہم کیوں ’’فکرجہاں‘‘ میں خود کو گھلائیں‘مالکِ جہاں کا فیصلہ ملاحظہ ہو:

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِز لَھُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَھُوْنَ بِھَا ز وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِھَا ز وَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِھَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ o (الاعراف ۷:۱۷۹)

اور یقینا ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو پیدا ہی جہنم کے لیے کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں‘ ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں‘ ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ یہ لوگ توچوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ ہیں۔ یہی لوگ غفلت میں گم ہیں۔

تاہم اپنے بندوں کے بارے میں ان کے رب کی مشیت یا فیصلہ کچھ بھی ہو‘ اور کچھ بھی ہوسکتا ہے کسی کو اس کے بارے میں اعتراض کرنے کا حق نہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

لاَ یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ o (الانبیاء ۲۱:۲۳)

جو کچھ وہ کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔ (البتہ) ان (انسانوں) سے (ان کے اعمال کے بارے میں) سوال کیا جائے گا۔

مگر ہم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی مخلوق کو‘ جہاں تک ہم سے ہو سکے‘ جہنم میں گرنے سے بچائیں۔ چنانچہ اُمت مسلمہ کو ان سب انسانوں کے مفاد کے لیے اٹھایا گیا ہے کہ وہ ان کو خیر کی طرف آنے کی دعوت دے اور جہاں اس کا بس چلے وہاں ایسا معاشرہ وجود میں لائے جس کے اندر معروف کا حکم دیا جاتا ہو اور منکر سے روکا جاتا ہو‘ تاکہ ایسا ماحول پیدا ہو جائے جس کے اندر لوگ ’’خیر‘‘ کو بآسانی پہچان کراسے قبول کر لیں اور فکروعقیدے کی گمراہیوں سے خود اپنے اختیار کے تحت الگ ہوجائیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (آل عمران ۳:۱۰۴)

اور تمھاری ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جوخیر کی طرف دعوت دے‘ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روک دے اور یہی جماعت فلاح پانے والی ہے۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:

یہ اُمت کو اس اہتمام اور انتظام کی ہدایت فرمائی گئی ہے جو اعتصام بحبل اللہ پر قائم رہنے اور لوگوں کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ ہدایت ہوئی ہے کہ مسلمان اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں۔ وہ لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دے‘ معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے۔ معروف و منکر سے مراد شریعت اور سوسائٹی دونوں کے معروفات و منکرات ہیں اور ان کے لیے امر و نہی کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کا غالب قرینہ یہی ہے کہ یہ کام مجرد وعظ و تلقین ہی سے نہیں انجام دینا ہے اختیار و قوت سے اس کو نافذ بھی کرنا ہے جو بغیر اس کے ممکن نہیں کہ یہ گروہ اُمت کی طرف سے سیاسی اقتدار کا حامل ہو۔ اگر تنہا دعوت و تبلیغ ہی سے یہ کام لینا مدنظر ہوتا تو اس مطلب کو ادا کرنے کے لیے ’’یدعون الی الخیر‘‘کے الفاظ کافی تھے۔ یامرون بالمعروف (الایۃ) کی ضرورت نہ تھی‘‘۔ (تدبر قرآن‘ ج ۲‘ ص۱۵۴-۱۵۵)

ہمارے نزدیک اس آیت سے اس اُمت کے اندر خلافت کے قیام کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلا جو کام کیا وہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام تھا۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے استاذ اور مایہ ناز مفسر قرآن مولانا حمیدالدین فراہی رحمتہ اللہ علیہ نے فریضۂ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی وضاحت کرتے ہوئے درج ذیل آیت:  کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (آل عمران۳:۱۱۰) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جس کو (تمام)لوگوں کے فائدے کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکرسے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘، کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:

اس سے معاملے کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمل صالح کریں۔ پھر ادائے حقوق کے بارے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اور چونکہ ادائے حقوق بغیر خلافت و سیاست ناممکن ہے اس لیے ضروری ہے کہ خلافت قائم کریں۔ (مجموعۂ تفاسیر فراہیؒ، ص ۳۴۴)

مگر ہمارے اس مکتب فکر کے علما اور دانش ور مدعی ہیں کہ خلافت قائم کرنے کی کوشش کرنا مسلمانوں پر فرض نہیں ہے۔ ہاں! اگر سیاسی اقتدار حاصل ہو ہی جائے تو مسلمان اپنے میں سے کچھ لوگوں کو اس کام پر بھی مقرر کریں۔ چنانچہ اُن کے ایک قائد لکھتے ہیں کہ:

دعوت کی دوسری صورت وہ ہے جس کا حکم سورئہ آل عمران (۳:۱۰۴) کی آیت: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ میں آیا ہے۔ اس حکم کا تعلق ارباب اقتدار سے ہے۔ اہل ایمان کے لیے ان کے پروردگار نے یہ بات لازم ٹھیرائی ہے کہ انھیں اگر کسی زمین میں سیاسی خودمختاری حاصل ہو جائے تو وہ اپنے اندر سے ایک گروہ کو اس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کوخیر کی طرف بلائے‘ برائی سے روکے اور بھلائی کا حکم دے۔ (قانون دعوت‘ ص ۱۵)

گویا سیاسی خودمختاری کے حصول کی جدوجہد یا خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کے لیے کسی کوشش کی ذمہ داری اُمت پر نہیں ہے۔ البتہ کسی منصوبے اور عملی جدوجہد کے بغیر اللہ تعالیٰ اگر (تکوینی) قدرت کے تحت مسلمانوں کو اقتدار عطا کر ہی دے تب مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ایک گروہ کو مقرر کر دیں اور بس ان کی ذمہ داری ختم۔

اس مکتب فکرکے علم برداروں کے نزدیک دنیا کے تمام چھوٹے بڑے کاموں میں سے ایک سیاسی خودمختاری اور باطل پرستوں سے اقتدار چھیننے کا کام وہ واحد کام ہے کہ جس کے لیے نہ کسی منصوبے کی ضرورت ہے نہ کسی جدوجہد کی۔ یہ چیز تو بس جب اللہ چاہے گا تب خود بخود حاصل ہوجائے گی۔

پھر قرآنی آیت کی تاویل کرتے ہوئے  قانون دعوت کے مصنف نے امر بالمعروف اور نہی  عن المنکر کی ذمہ داری کو ارباب اقتدار سے متعلق قرار دے کر اس باب میں عام مسلمانوں کی صرف یہ   ذمہ داری بتائی ہے کہ اگر ان کو کہیں سے سیاسی خودمختاری مل جائے تو وہ اس ذمہ داری کی ادایگی کے لیے اپنے اندر سے ایک گروہ مقرر کر دیں‘ لیکن جس حدیث میں اس کام کو عمومیت کے ساتھ ہر مسلمان کی    ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ انھوں نے اس طرح کیا ہے کہ حتی الوسع یہ ذمہ داری ’’بے ضرر‘ معصوم اور کم آزار‘‘ بن کر رہ جائے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کی یہ ذمہ داری اس طرح واضح کی ہے: من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذٰلک اضعف الایمان (مسلم‘ کتاب الایمان) ’’تم میں سے جو شخص اپنے دائرۂ اختیار میں کوئی برائی دیکھے اسے چاہیے کہ وہ ہاتھ سے اس کا ازالہ کر دے۔ پھر اگر اس کی ہمت نہ ہو تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل اسے ناگوار سمجھے اور یہ ایمان کا ادنیٰ ترین درجہ ہے‘‘۔  (قانون دعوت‘ ص ۱۱۴)

اس ترجمے میں جناب مترجم نے فلیغیرہ کا ترجمہ ایک جگہ ’’ازالہ کر دے‘‘ کیا ہے اور دوسری جگہ ’’ناگوار سمجھے‘‘ کیا ہے اور تیسری جگہ اور کوئی بات نہ بنی تو سرے سے ترجمے میں اسے غائب ہی کر دیا ہے۔ حالانکہ تغیر کے معنی ’’ازالہ‘‘ کرنا یا ’’ناگوار سمجھنا‘‘ نہیں بلکہ ایک چیز کو بدل کر اس کی جگہ دوسری چیز کو قائم کرنا ہے جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ’’منکر‘‘ کو ہٹا کر معروف کو اس کی جگہ قائم کر دینا اصلی ذمہ داری ہے۔ پھر چونکہ ہر شخص کے بارے میں یہ فرض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ منکر کو مٹا کر اس کی جگہ معروف کو قائم کر دے اس لیے حدیث شریف میں استثنا کے ذریعے گنجایش پیدا کی گئی کہ جو ایسا نہ کر سکے (فمن لم یستطع) لیکن جناب مترجم نے استطاعت (طاقت رکھنے) کو ہمت سے بدل کر اس کا ترجمہ ’’پھر اگر اس کی ہمت نہ ہو‘‘ کر دیا جو نہ صرف بالکل غلط ہے بلکہ خود مترجم نے اپنے ترجمے میں ’’اپنے دائرۂ اختیار میں‘‘ کی جو قید فرض کر لی تھی اس صورت میں ’’ہمت کا نہ ہونا‘‘ مطلقاً کوئی وجہ جواز بن ہی نہیں سکتا۔ جو کام کسی کے دائرۂ اختیار میں ہو‘ اس کو کرنے کی ہمت نہ ہونا ایک بے معنی سی بات ہے۔ پھر فبقلبہ چونکہ فلیغیرہ سے متعلق ہے اس لیے اس کے معنی دل سے اس کو بدلنا (یا بدلنے کا عزم رکھنا) ہوں گے نہ کہ محض ناگوار سمجھنا۔

اس نوعیت کی ایک آواز بھارت سے بھی اُٹھ رہی ہے اور اسلام کے عالمی مشن کی اسی طرح کی تاویلات کر کے اسلام کی دعوت کو غیرمسلموں کی نظروں میں اتنا معصوم اور بے ضرر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اب بھارت میں ہندو ان کو اپنی مذہبی کتھائوں میں اسلام کی اس بے ضرر دعوت کا بھاشن دینے کے لیے بلانے لگے ہیں۔ ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے مصنف نے بزعم خود ثابت کیا ہے کہ ’’اقامت دین‘‘ کا مطلب دین کو قائم کرنا‘ تعبیر کی غلطی ہے اس کی صحیح تعبیر دین کو سیدھا رکھنا یعنی اس پر ٹھیک ٹھیک طریقے پر عمل کرنا ہے۔

اسی طرح دین کو غالب کرنے کے جس کام کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہوا ہے: لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وہ مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں کہ جس کے لیے وہ سرگرم عمل ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کو اپنا کام بتایا ہے۔چنانچہ وہی اس کام کو اپنی قدرت کاملہ سے انجام دے دے گا۔

اسی طرح کی تاویلات لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵) میں بعثت انبیا کا مقصد لوگوں کا انصاف پر قائم ہونا جو بتایا گیا ہے اور کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ (النساء ۴:۱۳۵) یا  کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز (المائدہ  ۵:۸)  (انصاف کو لے کر اٹھنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے (یا) اللہ کے لیے اٹھنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو)‘ اسی طرح مظلومین کوظلم سے بچانے کے لیے قتال کا حکم اور دین کے مکمل طور پر اللہ کے لیے ہو جانے تک قتال کرنے کا حکم وغیرہ‘ بے شمار احکام کو تاویل کی خراد پر چڑھا کر اس مکتب فکر نے اسلام کو بھکشوؤں کا مذہب بنانے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔

یہ حضرات کہتے ہیں کہ ہمارا کام صرف دعوت پہنچانا اور آخرت کے عذاب سے ڈرانا ہے اور جب تک کوئی ہماری اس دعوت میں رکاوٹ نہ بنے اور ہمیں اس دعوت و انذار سے بذریعہ طاقت نہ روکے ہم کو طاقت استعمال کرنے کا حکم نہیں ہے۔ لیکن کوئی ان سے یہ پوچھے کہ اگر آپ کی دعوت مسرفین کی اطاعت چھوڑ کر رسولوں کی اطاعت اختیار کرنا نہیں ہے‘ اگر آپ کی دعوت غیراللہ کی بندگی چھوڑ کر اللہ کی بندگی اختیار کرنا نہیں ہے‘ اگر آپ کی دعوت غیراللہ کی حاکمیت کا انکار کر کے صرف اللہ کی حاکمیت کے سامنے سراطاعت جھکانا نہیں ہے تو آپ سے لڑنے آئے گا کون؟ اور آئے گا تو کیوں لڑنے آئے گا؟ لیکن اگر آپ کی دعوت فی الواقع وہی ہے جو انبیا علیہم السلام کی تھی تو اس کو سمجھ لینے کے بعد آپ کی اس دعوت کو ٹھنڈے پیٹوں بھلا کون برداشت کرے گا؟