۱۹۴۲ء میں جب ہندستان Quit India کی کانگریسی تحریک کی لپیٹ میں تھا‘ راقم اس وقت دارالعلوم ندوۃ العلما میں زیرِ تعلیم تھا ۔ ندوہ کے اکثر طلبہ مولانا ابوالکلامؒ آزاد کے دلدادہ اور جمعیت علماے ہند کے زیر اثر تھے ۔ مگر طلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد قائدِ اعظم محمد علی جناح اورآل انڈیا مسلم لیگ کی ہم خیال اور پر زور مؤید بھی تھی ۔ دونوں گروہوں میں پر جوش مباحثے ہوتے‘ جب کہ کانگریس کے طرف دارطلبہ انگریزوں کے خلاف توڑ پھوڑ کے پروگرام بھی بناتے۔ اس انتہائی تنائو کے ماحول میں‘ تنہا میں ‘مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کی دعوت ’’حکومت الٰہیہ کی تاسیس کی دعوتــ‘‘ کو نہایت اعتماد کے ساتھ پیش کرتا اور دونوں کیمپوں کے پرجوش حامیوں کے مقابلے پر ڈٹا رہتا ۔
میرے اندریہ حوصلہ دراصل مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کی تحریروں اور ان مضامین کو پڑھنے سے پیدا ہوا تھا‘ جو مسلمان اور مو جودہ سیاسی کش مکش (سوم) میں شامل کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔ با لخصوص اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟کے عنوان سے مولانا کی وہ تقریر جو انھوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں کی تھی اس کو پڑھ کر تو دل میں ا یسا ایمان و ایقان اور جوش پیدا ہو گیا‘ جس کو ظاہری شعلہ زنی سے بے نیاز ‘مگر کبھی ٹھنڈی نہ ہونے والی آگ سے مشابہ قرار دینا صورت حال کی واقعی تعبیر ہو گی -
جب مسلمانوں کے تمام ممالک اور ملت میں شامل تمام اقوام‘ مغربی استعمار کا صید زبوں بنی ہوئی تھیں اور مغرب کی مادی برتری نے اس کی فکری بر تری کی بھی دھاک بٹھا رکھی تھی ‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس وقت برعظیم کے مسلمانوں کو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے نصب العین کی طرف دعوت دی ۔ یہ دعوت اس وقت دی گئی جب برعظیم کے وہ مسلمان لیڈر جو مغربی تہذیب و ثقافت کے پروردہ تھے ان کو تو چھوڑیے‘ بڑی بڑی دینی درس گاہوں کے سکہ بند بلکہ سکہ ساز علماے کرام بھی وطنی قومیت ‘ آزادی اور جمہوریت کے خالص مغربی تصورات کے مبلغ اور انھی تصورات کو سر بلند کرنے کی جد و جہد میں ’جہادی جذبے‘ کے ساتھ سر گرم عمل تھے ۔ حالت یہ تھی کہ اسی طبقہ علما سے تعلق رکھنے والے ایک محقق‘ مصنف اور شہرہ آفاق خطیب نے ’اسلام کے اقتصادی نظام‘ پر اپنی ایک محققانہ تصنیف میں اس رائے کا اظہار فرمایا : چونکہ اسلام کے اقتصادی نظام کو اس وقت بر سر کار لانا ممکن نہیں اس لیے اس ’’ قریب تر ‘‘ اشتراکی نظام کو قائم کرنے کی جد و جہد کرنی چاہیے ۔ یہ وہ وقت تھا جب ترکی سے خلافت کا خاتمہ کرنے و الے ‘ عربی رسم الخط کو ممنوع ‘ اسلامی قوانین کو منسوخ اور عربی میں اذان دینے پر پابندی لگانے والے کمال کو برعظیم کے مسلمان ’’ غازی مصطفی کمال ‘‘ کے معزز لقب سے یاد کرتے تھے۔
۱۹۴۲ء میں مولانا مودودیؒکی ایمان پرور اور انقلابی تحریریں پڑھ کرمیں اپنے طلبہ ساتھوں سے بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ ایک اسلامی ریاست میں اگر مجھے ایک چپراسی کی حیثیت سے خدمت کرنے کا موقع نصیب ہو جائے تو میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہو گا ۔
میں اپنے ساتھیوں کو تحریروں کے اقتباسات پڑھ پڑھ کر سنا تا تھا‘ مثلاً: ’’مسلمان کو صرف اس چیز سے بحث ہے کہ یہاں انسان کا سر حکم اللہ کے آگے جھکتا ہے یا حکم الناس کے آگے ۔ اگر حکم اللہ کے آگے جھکتا ہے تب تو’’ ہندستان ‘‘ کو اور زیادہ وسیع کیجیے‘ ہمالیہ کی دیوار کو بیچ سے ہٹایئے اور سمندر کو بھی نظر انداز کر دیجیے تاکہ ایشیا ‘ افریقہ ‘ یورپ اور امریکہ‘ سب ہندستا ن میں شامل ہو سکیں‘ اور اگر یہ حکم الناس کے آگے جھکتا ہے توجہنم میں جائے ہندستان اور اس کی خاک کا پرستار ‘‘ --- اور یہ کہ: ’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرے لیے اس مسئلے میں بھی کوئی دل چسپی نہیں ہے کہ ہندستان میں جہاں مسلمان کثیرالتعداد ہیں وہاں ان کی حکومت قائم ہو جائے ۔میرے نزدیک جو سوال سب سے اہم ہے وہ یہ کہ آپ کے اس پاکستان میں نظام حکومت کی اساس خدا کی حاکمیت پر رکھی جائے گی یا مغربی جمہوریت کے مطابق عوام کی حاکمیت پر ؟اگر پہلی صورت ہے تو یہ یقینا پاکستا ن ہو گا‘ ورنہ بصورت دیگر یہ ویسا ہی ’نا پاکستان‘ ہو گا جیسا ملک کا وہ حصہ ہو گا جہاں آپ کی اسکیم کے مطا بق غیرمسلم حکومت کریں گے‘‘۔
مولانا مودودیؒنے دلوںمیں نہ بجھنے والی جو آگ روشن کی تھی وہ محض اس قسم کی پر جوش عبارتوں سے روشن نہیں کی تھی‘ جس کی عمر ’’اگر ماند شبے دیگر نمی ماند‘‘ کی طرح بہت مختصر ہوتی ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ۱۹۲۴ء سے لے کر ۱۹۴۰ء تک تیار ہونے والا وہ فکری اور علمی لٹریچر تھا‘ جس نے اس زمانے میں اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے تمام اعتراضات اور شکوک و شبہات کا تارو پود بکھیر دیا تھا۔ الجہادفی الا سلام ‘ اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی‘ تفہیمات‘ تنقیحات‘ مسئلہ جبرو قدر ‘ پردہ ‘ حقوق الزوجین اور تجدید و احیاے دین جیسی بلند پایہ کتب میں ان مسائل پر بھی مفصل بحث کی گئی تھی جو مغربی تہذیب کی وجہ سے ذہنوں میں پیدا ہوگئے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام زندگی کے ہر پہلو کو بھی نہایت دل نشیں انداز میں مثبت طور پر سامنے لایا گیا تھا ۔
اس لٹریچر سے ہندستان کے طول و عرض میں بکھرے ایسے بہت سے افراد پیدا ہو گئے تھے‘ جو اسلام کی صداقت اور دور حاضر میں ممکن العمل سب سے بہتر نظام ہونے پر قلبی اطمینان اور ذہنی یکسوئی رکھتے تھے ۔ انھی بکھرے ہوئے لوگوں میں سے چند با ہمت افراد نے ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء کو لاہور میں جمع ہو کر جماعت اسلامی قائم کر دی ۔
جماعت اسلامی کی تاسیس کے بعد مولانا مودودیؒکی علمی اور تحقیقی کتب جو محض اپنی قوت سے مسلم ہندستان کے اہل فکر کے حلقوں میں پذیرائی حاصل کر رہی تھیں‘ ان کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہوگئی ۔ کیونکہ جماعت سے وابستہ ہر شخص ان کتابوں کی اچھی خا صی تعداد اپنے پاس رکھتا اور معاشرے میں ہمہ وقت ایسے اصحابِ ذوق کی تلاش میں رہتا جن کویہ کتب مطالعے کے لیے دی جا سکیں۔ اس سلسلے میں’’پہلے کون سی کتاب مناسب ہو گی‘‘، کا انتخاب مشکل کام ہوتا تھا۔ مگر دعوت کے جذبے سے سرشار جماعت کے کارکن اپنے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہر شخص کے ذہن کے مطابق کتاب کے انتخاب میں خا صی مہارت کا ثبوت دیتے تھے۔
۱۹۴۶ء میں جب کانگریس کی طرف میلان رکھنے والے مسلمانوں اور مسلم لیگی فکر رکھنے والوں کے درمیان گرما گرم مباحثے ہر سطح پر برپا رہتے تھے‘ لکھنؤ میں جماعت اسلامی کے ایک کارکن کے بڑے بھائی کانگریس کے بہت زیادہ طرف دار تھے۔ ہندئووں اور کانگریسیوں کے بعض متعصبانہ کاموں کے باعث وہ کانگریس سے بیزار ہوئے تو ان کے برادر خورد میرے پاس آئے کہ ان کو اس موقع کی مناسبت سے کوئی کتاب مطا لعے کو دی جائے۔ ابتداً میں نے کانگریس کے خلاف ان کے جذبات کو پختہ تر کرنے کے لیے مسلمان اور موجودہ سیا سی کش مکشحصہ دوم دی‘ مگر تھوڑی ہی دیر میں میری رائے تبدیل ہوئی‘ چنا نچہ میں نے ان کو حصہ دوم کی بجاے سیاسی کش مکش ‘ حصہ سوم دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حصہ دوم پڑھ کر ان کی کانگریس کے خلاف نفرت تو یقینا پختہ تر ہو جاتی‘ مگر شائد وہ جماعت کے کام کے لیے آگے نہ بڑھتے۔ چنانچہ حصہ سوم پڑھ کر میرے اندازے کے عین مطابق وہ جماعت اسلامی کے کارکن بن گئے۔
ان کتب کے انگریزی تراجم‘ نیز جنوبی ہندستان کی بعض علاقائی زبانوں میں بھی تراجم تیار ہو گئے‘ لیکن ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی ۔ جماعت اسلامی کے قیام کا دوسرا بڑا علمی فائدہ یہ ہوا کہ مذہبی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے جماعت کے خلاف اور با لخصوص مولانا مودودیؒکی فکر کے خلاف زبردست طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔ ہر طرف سے جماعت پر اعتراضات کی بو چھاڑ شروع ہو گئی ‘ مذہب اور بالخصوص اسلام دشمن حلقے اسلام اور مذہب کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ زور و شور سے گمراہ کن سوالات اٹھانے لگے۔ اس فضا میں بھلا قادیانی اور منکرین حدیث کیوں پیچھے رہتے۔ انھوں نے بھی اپنے ’’ علم کلام ‘‘ کے پٹاخوں سے فضا کو دھواں دھار بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایسے میں اٹھائے گئے ان اعتراضات کے مدلل جواب دینے کی ضرورت پیش آئی جو شاید عام حالات میں اس طرح سے سامنے نہ آتی۔ یوںاسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے علمی کام کا ایک موقع میسر آگیا۔
چنانچہ مولانا مودودیؒاس علمی چیلنج کا سامنے کرنے کے لیے کم ازکم۱۹۴۵ء تک با لکل تن تنہا اور اس کے بعد بھی ‘ جب کہ ان کو مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کی کمک میسر آ گئی تھی‘ زیادہ تر خود ہی تمام سوالات و اعتراضات کے جوابات اپنے مضامین کے ذریعے اور ترجمان القرآن میں ’’رسائل و مسائل‘‘ کے مستقل عنوان کے تحت بڑے اعتماد اور جی داری سے لکھتے رہے۔
مولانا مودودیؒ کے یہ جوابات رسائل مسائل کے نام سے پانچ حصوں میں شائع ہوچکے ہیں‘ حقیقتاً ایک با لکل نئے طرز تحریر کا اعلیٰ نمونہ ہیں ۔ ان کے اندر علمی وضاحت‘ تحقیقی متانت‘ منطقی استدلال اور ادبی جمال کے ساتھ لطیف مزاح اور ایسے طنز و تعریض کی آمیزش بھی ہے جس کا نشانہ بننے والا کبھی تو خود بھی لطف لیتا ہے اورکبھی اس کی کسک برسوں بلکہ زندگی بھر نہیں بھول پاتا ۔
ایک صاحب کو شکایت تھی کہ ان کی غیر شادی شدہ بہن مولانا مودودیؒکی کتب پڑھ کر اس درجہ اسلامی احکام اور پردے کی پابند ہو گئی ہے کہ وہ ایسی معاشرتی تقریبات سے بھی دور رہتی ہے‘ جو اس کے خیال میں اسلام کے خلاف ہیں اور اپنے لباس و معاشرت کے لحاظ سے وہ خاندانی روایات کو یکسر ترک کر چکی ہے‘ تو بتائیے کہ اب اس کا رشتہ آئے گا تو کہاں سے آئے گا؟ اس پر اپنی ’’ فریاد ‘‘ بیان کرنے کے بعد انھوں نے مولانا مودودیؒسے درخواست کی کہ وہ ان کی بہن کو سمجھائیں‘ تاکہ وہ کسی طرح اس طرز زندگی سے باز آ جائے۔ اس طویل فریاد کا جواب دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے صرف یہ لکھا :ــ ’’اس معاملے میں ‘ میں خود بھی بے بس ہو ں۔ آپ اپنے طور پر ہی کوشش کریں کہ آپ کی ہمشیرہ اسلام سے توبہ کر لیں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ دوم‘ ص ۴۲۷)
اس خوش گوار اور مقصدی طنز و تعریض کے ساتھ ساتھ جب کوئی علمی مسئلہ زیرِ بحث ہو‘ خواہ اسلام کے کسی حکم کے حوالے سے یا جدید سائنسی تحقیقات کے حوالے سے‘ تو زور استدلال کے ساتھ ایسا اجمال جس سے بات سمجھنے میں خلل واقع نہ ہو اور ایسی تفصیل جس کا کوئی حصہ ضرورت سے زیادہ نہ ہو‘ اس کی مثالیں رسائل و مسائل کے ہر صفحے پر مل جائیں گی۔ ایک جگہ الجامع الصحیح کی ایک حدیث پر ایک صاحب کے اعتراض کے جواب میں مولانا مودودیؒنے لکھا ہے: ’’اس (حدیث) میں دراصل جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ سورج ہر آن اللہ کے حکم کا تابع ہے ۔ اس کا طلوع بھی اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور اس کا غروب بھی ۔ سورج کا سجدہ کرنا ظاہر ہے کہ اس معنی میں نہیں ہے جس معنی میں ہم نماز میں سجدہ کرتے ہیں‘ بلکہ وہ اس معنی میں ہے جس میں قرآن دنیا کی ہر چیز کو خدا کے آگے سر بسجود قرار دیتا ہے‘ یعنی کلیتاً تابع امرِ رب ہونا ۔ پھر سورج کا مغرب ایک نہیں بلکہ قرآن کی رو سے بہت سے مغرب ہیں ۔ کیونکہ وہ ہر آن ایک خطۂ زمین میں غروب اور ہرآن دوسرے خطے میں طلوع ہوتا ہے ۔ اس لیے اجازت مانگ کر طلوع و غروب ہونے کا مطلب ہرآن امر الٰہی کے تحت ہونا ہے‘‘۔
حدیث سے زمین کے ساکن اور سورج کے گردش کرنے کا جو تاثر ملتا ہے‘ اس پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں: ’’ان (انبیا) کا کام یہ بتانا نہ تھا کہ زمین حرکت کرتی ہے یا سورج‘ ان کا کام تو یہ بتانا تھا کہ ایک ہی خدا زمین و سورج کا مالک و فرماںروا ہے اور ہر چیز ہر آن اسی کی بندگی کر رہی ہے‘‘۔
ایک دوسری مثال میں مولانا مودودیؒنے ذیل کی اس مختصر عبارت میں’’زکوٰۃ‘‘کی شرعی تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اعلیٰ مقاصد اور فرد و معاشرے پر اس کے تعمیری اثرات کو بیان فرمایا ہے: ’’زکوٰۃ‘‘ کے لغوی معنی طہارت اور نمو کے ہیں۔ انھی دونوں صفتوں کے لحاظ سے اصطلاح میں زکوٰۃ اس مالی عبادت کو کہتے ہیں جو ہر صاحب ِنصاب مسلمان پر اس لیے فرض کی گئی ہے کہ خدا اور بندوں کا حق ادا کر کے اس کا مال پاک ہو جائے اور اس کا نفس ‘ نیز وہ سو سائٹی جس میں وہ رہتا ہے بخل ‘ خود غرضی ‘ بغض وغیرہ جذبات و رویے سے پاک ہو اور اس میں محبت و احسان‘ فراخ دلی اور باہمی تعاون و مواساۃ کے اوصاف نشو و نما پائیں‘‘۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ دوم‘ ص ۹۴)
برعظیم کی حدود سے نکل کر مولانا مودودی ؒ کی تحریر عالم اسلام کے افق پر اس وقت طلوع ہوئی جب عرب دنیا میں بالعموم اور مصر میں با لخصوص اسلامی تحریک اخوان المسلمون کا دور شباب تھا ۔ ترکی میں بدیع الزمان سعید نورسی کی تحریک اور دیگر اسلامی تحریکیں زیر زمین سر گرمِ عمل تھیں اور ایران میں شاہ کے ظالمانہ دور حکومت میں علما اور مجتہدین نہایت خاموشی سے اسلامی فکر کی آبیاری کر رہے تھے ۔
یہی وہ وقت تھا جب استادِ محترم جناب مولانا مسعود عالم ندوی ؒ نے مرکز جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ’’دار العروبہ‘‘ کے نام سے ایک مستقل ادارہ قائم کیا۔ مولانا ندوی مرحوم سے عالم عرب کے ادیب‘ علما اور صحا فی پہلے ہی سے اچھی طرح آشنا تھے ۔ وہ عرب دنیا میں ’’ عین العروبہ ‘‘ کے لقب سے پہچانے جاتے تھے ۔ مر حوم کو اپنی صحت اور برعظیم کے پرا گندہ سیاسی حالات کی وجہ سے یکسوئی سے کام کا موقع کم ہی مل سکا‘ تاہم انھوں نے جالندھر میں تقسیم ہند سے ذرا قبل کام شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ مولانا مودودیؒ کے بعض اہم مضامین کا عربی میں ترجمہ کرنے کے علاوہ انھوں نے وسیع پیمانے پر خط و کتابت کے ذریعے عالم اسلام کی ممتاز شخصیات سے رابطہ کر کے ان کو جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ سے متعا رف کرایا۔ جالندھر میں ابھی کام کا آغاز ہی ہوا تھا کہ ملک کی تقسیم عمل میں آگئی اور مولانا ندویؒ اپنے رفیق کار عاصم الحداد مرحوم کے ساتھ نہایت بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان آ گئے۔ یہاں اپنے کام کو جلد از جلد منظم کرنے کے بعد وہ عاصم الحدادؒ کے ساتھ عرب ممالک کے دورے پر روانہ ہو گئے ۔ یہاں علما اور ادیبوں سے براہ راست طویل مذاکرات کیے ۔ اسی ز مانے میں مولانا مودودیؒ کے متعدد اہم مضامین اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟ ، اسلام کا نظریۂ سیاسی اوردین حقوغیر ہ کا تر جمہ عربی زبان میں شائع ہو چکا تھا ۔ ان تراجم کو عرب دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ۔ اخوان المسلمون کے رہنمائوں اور کارکنوں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ سیدقطب ‘ ان کے بھائی محمد قطب ‘ محمد الغزالی ‘ شیخ محمد محمود صواف‘ ڈاکٹر مصطفی سباعی اور بے شمار علما اور رہنما ان سے متاثر ہوئے ۔ اس کے بعد جب مولانا مودودی کی دیگر اہم کتب کا تر جمہ عربی میں شائع ہوا تو عرب دنیا میں مو لانا مودودی کی فکری قیادت با لخصوص اسلامی حلقوں میں مسلّم ہو گئی ۔
انھی عربی تراجم کی مدد سے چند اہم مضامین کے تر جمے فارسی میں ایران کے دینی مرکز ’’قم‘‘ سے شائع ہوئے ۔ انگریزی تراجم اور عربی تراجم کی مدد سے کئی مضامین کے ترجمے ترکی زبان میں بھی شائع ہوئے ۔ اس کام کے لیے چودھری غلام محمد مرحوم اور جناب خلیل احمد حامدی مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پھر خود مولانا مودودیؒ کے دوروں سے ‘ جو حج و عمرے کے علاوہ رابطہ عالم اسلامی ‘ مدینہ یونی ورسٹی اور دیگر علمی و دعوتی مقاصد کے لیے کیے گئے تھے‘ ان سے مولانا مودودیؒ کو عالم اسلام کے فکری قائد کا مرتبہ حاصل ہو چکا تھا ۔
راقم کو ۱۹۷۱ء سے لے کر اب تک دنیا کے بہت سے ملکوں کا سفر کرنے کا موقع ملا ۔ بالخصوص شرق اوسط کے ممالک: بحرین‘ کویت ‘ قطر ‘ متحدہ عرب امارات ‘ سعودی عرب تو بار بار جانا ہوا اور الحمدللہ عوام کے ساتھ ساتھ علما ‘ مشائخ ‘ صحافی‘ وزرا اور حکومت کے ذمہ داروں سے تبادلۂ خیال بھی ہوا۔ میں نے ان میں بھاری اکثریت ایسے لوگوں کی پائی ‘جو نہ صرف یہ کہ مولانا مودودیؒ کو اچھی طرح جانتے تھے‘ بلکہ ان کے علمی ‘ فکری اور تحریکی جد و جہد کے معترف اور قدر دان بھی تھے ۔
میری اس بات کو ہر گزمبالغہ نہ سمجھا جائے کہ اس وقت پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی اسلام کے لیے جد و جہد ہو رہی ہے‘ میرے مشاہدے کے مطابق‘ اس جدو جہد میںبلا واسطہ یا با لواسطہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے کام کا پر تو اور ان کی فکر کے اثرات واضح طور پر مو جود ہیں ‘ بلکہ جو افرا دیا تنظیمیں زبان سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی مخالفت کرنے کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں‘ وہ بھی شعوری یا غیر شعوری طور پرمولانا مودودی ؒ کی بتائی ہوئی راہ پر ہی چل رہے ہیں ۔ انھی کی اصطلاحیں استعمال کر رہے ہیں اور اپنی تحریر و تقریر میں مولانا مودودیؒ کی ہی فکر سے رہنمائی حا صل کر رہے ہیں ۔
تصویر کا یہ ایک دل کش پہلو ہے ‘ جس کی دل کشی کو میں کماحقہ بیان نہیں کر سکا‘ جس کی اصل وجہ توخود اپنی علمی اور فکری نا رسائی ہے‘ مگر اس کی دوسری وجہ یہاں (کینیڈا میں) ضروری کتب کا دستیاب نہ ہونا ہے ۔ مگر تصویر کا دوسرا دل فگار ر خ یہ ہے کہ مولانا مودودی ؒ نے جس ’’رخ دوست‘‘ کو دکھا کر کچھ ’’دیوانے ‘‘ یا ’’ نیم دیوانے ‘‘ جمع کیے تھے ‘ جو افتاں و خیزاں منزلِ محبوب کی طرف سر گرم سفر بھی ہو گئے تھے ‘ افسوس کہ]اب مجھے[ نہ تو کوئی اس دیوانہ بنانے والے ’’حَسن ‘‘کا جلوہ عام کرنے والا نظر آتا ہے‘ نہ اس ’’ حسن ‘‘ کے طالب عشاق کا قافلہ گرمِ سفر دکھائی دیتا ہے۔
پچھلی صدی اختتام پذیر ہوئی اور کوئی مانے یا نہ مانے‘ کسی کو اچھا لگے یا برا‘ اسلام کو زندہ اور تابندہ کرنے کے حوالے سے یہ صدی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی صدی تھی!