میرا خیال ہے کہ تقاریر اور تحریروں سے زیادہ ان کی تصویر‘ ان کا چہرہ ۔ بڑی بڑی سوچتی ہوئی‘ تھکی تھکی آنکھیں‘ بے پناہ عزم اور ذرا سا حزن۔چہرے پر سرخی اور سفیدی گھل گئی تھی۔ ایک ایسا آدمی جو کبھی اور کسی قیمت پر بھی ہار ماننے پر آمادہ نہیں تھا۔ سیدؒ صاحب مسکراتے تومعاًحزن اور تکان رخصت ہوجاتی‘ تب چہرہ ہی نہیں پورا پیکرکِھل اُٹھتا۔ گویا چودھویں کا چاند بدلیوں سے نکلے اور مسکرانے لگے اور ‘مسکراتا رہے ‘ حتیٰ کہ پورا ماحول بشاشت سے بھر جائے۔
سید صاحبؒ کو تصنّع اور ریا سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔ ریا‘ تصنع اور احساس کمتری برصغیر کے امراض ہیں۔ میں نے رجال اور اکابر میں بھی کم لوگوں کو ان امراض سے پوری طرح آزاد پایا ہے۔ سید صاحبؒ آزاد تھے‘سر سے پاؤں تک مردِ آزاد۔یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ وہ کبھی کسی سے متاثر نہ ہوئے کہ کسی بھی عہد کا کوئی فرزند اپنے عصرسے یکسربے نیاز نہیں ہوتا‘ لیکن ابوالاعلیؒ ان نادر و نایاب انسانوں میں سے ایک تھے جو زندگی کو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ البتہ رہن سہن‘ خوردو نوش‘ گفتگو کے انداز میں وہ دہلی کے طبقۂ شرفا میں سے تھے اوراس پر قانع بھی۔
اورنگ آباد میں ہوش کی آنکھ کھولنے والے لڑکے نے‘ جس کا خاندان عسرت اور امتحان میں مبتلا تھا مگر شرافت ‘ علم‘ روایات اور وضع داری کا اثاثہ رکھتا تھا ‘ آنکھ اٹھا کر دنیا کو دیکھا تو وہ کیا سوچتا تھا ؟ ایک مختصر سی عبارت میں ہم اس موضوع پر زیا دہ کلام نہیں کر سکتے۔ یہ بہت جلد واضح ہو گیا کہ وہ چیزوں کو چھاننے اور پھٹکنے کا قائل ہے۔ مرعو بیت نام کی کوئی چیز اسے چھو کر بھی نہیںگزری۔ خاندانی مقام اور افتخار اگر عُجب کی صورت اختیار نہ کرے تو گاہے مددگار بھی ہوتا ہے ‘اور ہم اللہ کی سنت سے واقف ہیں کہ وہ جنھیں مشعل عطا کرتا ہے‘ ان کے خاندان اکثر اجلے اور صورتیں زیبا ہوتی ہیں‘ تہمت سے پاک ‘ پاکیزگی کا ہالہ لیے۔ ثمربار ہونے والے شجر‘ زر خیز زمینوں اور موزوں موسموں میں اگتے ہیں‘ جہاں آسمان ابرِ رحمت کے لیے فیاض ہوتا ہے۔
کھجورکے باغوں سے بھرے اس خنک شہر میں ختم المرسلینؐ سے ان کے صحابی ؓنے پوچھا : ’یارسولؐ اللہ! کیا ہم آپؐ کے بھائی نہیں ؟‘۔ فرمایا : ’تم تو میرے رفیق ہو ‘ میرے بھائی تو میرے بعد آئیں گے‘۔ ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا :’میری امت کے علما بنی اسرائیل کے انبیا ؑ کی مانند ہیں‘۔
مؤرخین‘ امام ابن تیمیہ ؒکا حلیہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو لفظ کم پڑتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا تھا : ’زیبا صورت‘ چراغوں کی طرح دمکتی آنکھیں اور بارعب ‘ بے ریا‘ اجلی آواز کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے‘۔ سید صاحبؒ کو ابن تیمیہؒ سے ایک نسبت یہ بھی تھی کہ اپنے عہد کی ساری جہالتوں کے خلاف کمال بے خوفی کے ساتھ انھوں نے آواز بلند کی۔
۱۹۵۷ء میں جماعت اسلامی سے الگ ہو جانے والے بزرگوں میں سے ایک ‘ میاں محمد حفیظ سے میں نے پوچھا : ’کیا اخوان المسلمون پر ناصر کی یلغار کے بعد سید صاحبؒ اس خوف کا شکار ہوئے کہ کہیں جماعت اسلامی اسی انجام سے دوچار نہ ہو جائے‘ اور کیا اسی لیے وہ قانون کی پابندی پر ضرورت سے زیادہ زور نہ دینے لگے تھے؟‘۔سوال مکمل نہ ہوا تھا کہ بے ساختہ انھوں نے کہا : ’ـکیا کہتے ہو ‘ خوف اس شخص کی کھال میں کبھی داخل نہ ہوسکاـ‘ ۔
ابن تیمیہؒ سے ایک مشابہت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے عہد کے ہر علمی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ۔ـ الجہاد فی الاسلام ‘ پـردہ‘ تفہیمات اورـسود ایسی تصانیف آج بھی ان موضوعات پر حتمی حوالے کی حیثیت رکھتی ہیں اور پون صدی پہلے لکھی گئی ان کتب میں آج بھی کوئی اضافہ نہ ہوسکا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے بہت سے پیروکار بھی ان کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں۔ چشمہ آج بھی رواں ہے لیکن فیض پانے والے کم ہیں۔کہتے ہیں مطالعے اور تحقیق کا ذوق جاتا رہا اور سیاست غالب آ گئی ۔ زندگی کے آخری ایام میں ابوالاعلیٰؒ نے ملال کے ساتھ کہا تھا:’ علمی تحقیق کی روایت ان کے ساتھ قبر میں اتر جائے گی‘۔
جذبات کی غالب ہوتی لہر کو تھامنے کے لیے میں ایک پل کو رکتاہوں کہ جناب عبداللہ بن مسعودؓ یاد آتے ہیں۔ فاروق اعظمؓ کو مدینہ منورہ کی مٹی کے سپرد کیا جا چکا تو انھوں نے کہا تھا : ’آج علم کے دس میں سے نو حصے اٹھ گئے‘۔ علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سلامت تھے اور خود عبداللہ بن مسعودؓ سلامت تھے ۔جن کے لیے سرکار ؐ نے فہم دین کی دعا فرمائی تھی ۔ لیکن عمر ابن خطابؓ کا امتیاز اور ہی تھا !
فاروق اعظمؓ علم و عمل کا حسین امتزاج تھے ۔ وہ خیال کو فکر اور فکر کو ادارے میں ڈھالنے کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے ۔ لہٰذا ‘وہ سرکارؐ کے بعد انسانی تاریخ کے تیوروں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیت ثابت ہوئے۔ مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ جناب ابو بکر صدیقؓ ،انبیا علیہم السلام کے بعد بزرگ ترین شخصیت ہیں ‘ تقویٰ کے طفیل ‘ پاکیزگی کے سبب اور ختم المرسلینؐ کی ہم نشینی ‘ مزاج شناسی اور کامل پیروی کی بنا پر‘ لیکن یہ تو خود سرکارؐ نے فرمایا تھا کہ ’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے‘۔ سیدابوالاعلیؒ ،حضرت علی ابن ابی طالبؓ کی اولاد ہیں‘ لیکن اپنے مزاج میں وہ‘ فاروق اعظمؓ سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں ۔ یہ محض اتفاق تو نہیں کہ ـفاروق ـان کے سب صاحبزادوں کے نام کا ایک جزوہے ۔
سید صاحبؒ ادارے تشکیل دینے میں یقین رکھتے تھے اور انھوں نے ایسے کئی ادارے تشکیل دیے‘ زمانہ جن سے سیکھ سکتا ہے اور اکتساب نور کر سکتاہے ۔ مثال کے طور پر احتساب کا ادارہ ۔ امیر جماعت اسلامی سے لے کر صوبوں ‘اضلاع اور حلقوں تک ہر صاحب منصب کا خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا۔ میں نہیں جانتا کہ کسی دوسری مذہبی یا سیاسی جماعت میں احتساب کا ایسا نظام موجود ہو ‘ ان سے پہلے‘ ان کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی‘ مشرق سے لے کرمغرب تک۔ خوے غلامی کے مارے معاشرے کے اذہان استفادہ نہ کرسکیں تو یہ ایک الگ المیہ ہے۔
چار سال ہوتے ہیں ‘ اسلام ا ٓباد کے ایک ممتاز اسکالر سے سوال کیا کہ کیا ’آپ دیو بند کے فلاں بزرگؒ اور سید صاحبؒ کا تقابل کرنا پسند کریں گے؟‘ قدرے ناراضی کے ساتھ انھوں نے کہا: ’کیسا موازنہ ؟‘ پھر اس مفہوم کا جملہ کہا: ’چراغ کو سورج سے کیا نسبت!‘۔اتفاق دیکھیے کہ ٹھیک ۷۰برس پہلے سیدصاحبؒ نے کسرنفسی کی بنا پر یہی بات کہی تھی۔ البتہ بڑے احترام کے ساتھ ان کی قدامت پسندی کا ذکر کیا تھا ۔ ان اسکالر کے تبصرے نے مجھے موصوف کی تصنیفات کی طرف مائل کیا۔ دینی امور میں ان کی دوررس نگاہ اور انسان کی نفسیاتی کیفیات کے ادراک نے طالب علم کو مبہوت کر دیا؟۔تب ایک سوال ذہن میں ابھرا کہ ابوالاعلیٰ ؒسے فیض پانے والوں کی تعداد کتنی ہے‘ اور اس پورے مکتب فکر نے کتنے لوگوں کو دین کا رستہ دکھایا جن سے ان بزرگ کا تعلق تھا؟ حیرت سے میں نے دیکھا کہ صرف تفہیم القرآنکا مطالعہ کرنے والے کئی ملین ہوں گے۔ پاکستان میں ‘ بھارت ‘بنگلہ دیش‘سری لنکا‘ کشمیر‘ افغانستان‘ ایران‘ ترکی‘ وسط ایشیا اور شرق اوسط ہی نہیں‘ بلکہ امریکہ اور یورپ میں بسنے والے ۵۱ ملین مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد۔
اس لیے کہ سید صاحبؒ موضوع سے انصاف کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ ۴۰برس ہوتے ہیں‘ رحیم یار خاں میں کوئی صاحب‘ سید صاحبؒ کے خلاف چیخ رہے تھے۔ بڑھاپے کی وادی اترتا ہوا ایک نیک نام اخباری نامہ نگار ان کا ہدف تھا ۔ بہت دیر وہ خاموشی سے سنتا رہا ‘ پھر اس نے یہ کہا : ’میں آپ کی بات ماننا چاہتا ہوں مگر میں کیا کروں ‘ جب میں سیدمودودیؒ کی کوئی کتاب پڑھتا ہوں تو میری حالت ایک بچے کی سی ہو جاتی ہے‘ جو کسی مہربان بزرگ کی انگلی تھامے کشادہ راستے پر چلاجاتا ہو‘۔
لگ بھگ انھی دنوں کا قصہ ہے کہ میرے ماموں ڈاکٹر محمد نذیر مسلم‘ فاطمہ جناح کی حمایت کے سوال پرجماعت اسلامی سے الگ ہوگئے ۔ وہ دبنگ لہجے‘ راست گفتاری اور قرآن کریم سے اپنی محبت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بحث مباحثے اور بد گمانیوں کا سلسلہ اٹھ کھڑا ہوا‘ لیکن ڈاکٹر صاحب اپنے مزاج کے مطابق اپنی دھن میں مگن رہے۔ انھی دنوں اکابر پرست طبقے کا ایک گروہ ان سے ملنے آیا۔ ممکن ہے وہ گمان کرتے ہوں کہ عوامی زندگی کا عادی بہت دن الگ تھلگ نہ رہ سکے گا۔ شاید وہ ان کا ذہن ٹٹولنے آئے ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب ان کی بات سنتے رہے‘ لیکن جب اپنے مکتب فکر کے بزرگوں کی ستایش میں وہ مبالغے کی آخری حدود سے گزر گئے تو اس آزاد منش آدمی نے یہ کہا :’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے مجھے اختلاف ہوا اور میں ان سے الگ ہوگیا‘ لیکن اس اختلاف کے باوجود ‘ یہ بات میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ اگر اس زمانے کا کوئی امام ہے تو وہ ابوالاعلیٰ کے سوا کوئی اور نہیں‘۔ ڈاکٹر صاحب نے سید صاحبؒ سے محبت کا رشتہ استوار رکھا۔ میاں طفیل محمد نے ایک بار خوش گوار حیرت سے کہا : ’سید صاحبؒ تفہیم القرآن میں مصروف ہوں‘ تب بھی آپ کا خیر مقدم کرتے ہیں‘۔ میاں طفیل محمد سے زیادہ ابوالاعلیٰ کو کون جانتا تھا کہ اس یکسو اور نیک طینت آدمی نے اپنی پوری زندگی ان کی نذر کر دی ؎
حاصل عمر نثار رہ یارے کر دم
شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم
ٰؒلیکن سید صاحبؒ کی شایستگی اور وضع داری تو کبھی کبھی انھیں بہت قریب سے جاننے والوں کو بھی حیران کر دیتی۔
میں ایک درویش کی خدمت میں حاضر تھا ۔ سیرت رسول ؐ کے رموز سے آشنا وہ تصوف کے ایک نئے مکتب فکر کے بانی ہیں ۔ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے لاکھوں افراد ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق مسنون دعائیں پڑھتے اور اسماے ربانی کا ورد کرتے ہیں ۔ وہ اللہ سے محبت ‘ سنت کی پیروی اور مخلوق خدا سے خیر خواہی کے علاوہ ‘ توازن ‘ اعتدال اور فرقہ پرستی سے گریز پر زور دیتے ہیں ۔ حیرت انگیز فراست کے اس آدمی کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایک نظر میں آدمی کو پہچان لیتے اور فوراً ہی اس کی عادات و خصائل کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ میں‘ اپنے سوالات کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور وہ کمال شفقت سے ہر سوال کا جواب دیتے ہیں ۔ تین ماہ ہوتے ہیں ‘ میں نے بعضـ داعیان کے بارے میں پوچھا ۔ ایک آدھ سوال کا جواب دینے کے بعد انھوں نے کہا: ’ندی نالوں کے بارے میں کیا پوچھتے ہو‘ دریا کے بارے میں سوال کرو‘ ۔ عرض کیا:’ـ دریـا؟‘ فرمایا :’ سـید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ہم ان کی فکر سے متفق نہیں‘ مگر وہ اپنے عہد کے شایستہ ترین آدمی تھیـ‘۔ باباے اردو مولوی عبدالحق نے کہا تھا: ’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اردو زبان کو شایستگی عطا کی‘۔
کم ہوتا ہے کہ کسی شخص کی ذات میں شایستگی اور شجاعت اس طرح گھل مل جائیں جیسے سید صاحبؒ کی شخصیت میں ۔ کم ہی کسی شخص کی ذات میں اتنے اوصاف یکجا ہوتے ہیں ۔ اپنے عہد میں سب سے بڑی تعداد کو متاثر کرنے والا عالم دین ‘ سیاست کی آلودگیوں سے پاک ایک ممتاز سیاست دان ‘ ایک منفرد منتظم اور اپنے دور کا بے مثال نثر نگار اور خطابت میں ایک نئے انداز کا بانی۔ دو آدمی ہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں اردو زبان کو مالا مال کردیا: علامہ اقبالؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔
اقبالؒ پوری انسانی تاریخ میں کسی عصر پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے شاعر ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ انھوں نے ایسے موضوعات کو شعر کا قالب عطاکیا‘ کہ ان موضوعات پر کلام کی کبھی کسی کو جرأت نہ ہو سکی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انھی کے علم‘قوت متخیلہ اور وجدان کا آدمی یہ کارنامہ انجام دے سکتا تھا ۔
سید صاحبؒ اپنے دور کے عظیم ترین نثر نگار تھے اور خود اقبالؒ نے ۳۵سالہ ابوالاعلیٰ ؒسے امید استوار کی‘ حالانکہ ابھی ان کا چرچا محدود تھا۔ اس کے باوجود ان سے مل کر ایک نیا اور منفرد ادارہ تخلیق کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ یہ سید صاحب کے علم کا اعتراف تھا ‘ حسن نیت اورہنر کا بھی۔ اقبالؒ کی طرح ابوالاعلیٰ ؒکا اعجاز ان کے لہجے کا مردانہ پن ہے۔ ایک سچا‘ کھرا اور دوٹوک انداز۔ ان کے حسن کلام کا جادو یوں تو ہر کہیں نظر آتا ہے‘ لیکن سب سے بڑھ کر تفہیم القرآن میں۔ دوسرے تراجم سے موازنہ کیا جائے تو فوراً ہی آشکار ہوتا ہے کہ قلم پہ جیسی قدرت اورابلاغ کا جیساحُسن سیدؒ کو عطا ہوا تھا‘ کسی اور کو نہ ہوا تھا۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ ہیں‘ جن سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن ‘ حدیث ‘تاریخ اور عصری علوم میں وہ یگانہ اور ممتاز مانے جاتے تھے اور جوشِ کردار کا ایک نمونہ بھی۔ مداحوں کی ایک بڑی تعداد انھوں نے پیدا کی‘ دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر ان کے ذکر سے گونجنے لگا۔ ابوالکلامؒ اور ابو الاعلیٰ ؒکے ترجمۂ قرآن کا بیک وقت مطالعہ کیجیے تو تعین آسان ہو جاتا ہے ۔ پھر یہ بھی کہ ساری عظمت کے باوجود ابوالکلامؒ کی تحریر تصنّع اور اہتمام سے کم ہی پاک ہوتی ہے۔ ابوالاعلیؒ کے ہاں بلاغت زیادہ ہے اور تصنع کا نام و نشان تک نہیں ۔ ایک عالم ان کی زبان دانی کا اعتراف کرے گا اور ایک عامی مفہوم کو پوری طرح پالے گا۔
ادب کی تاریخ شہادت دیتی ہے کہ ممتاز اہل قلم کی جولانیِ طبع تا دیر قائم نہیں رہتی ۔ امیرتیمور کے ذکر میںہیرالڈلیم کا قلم تصاویر بناتا ہے اورالفاظ موتیوں کی طرح جڑتا ہے۔ لیکن جب اس نے صلاح الدین ایوبی اور اس کے عہد کی کہانی لکھی تو اپنے موضوع سے انصاف کر سکا اور نہ اس دور کے تاریخی کرداروں سے عدل۔ ناول نگاری میں انیسویں اور بیسویں صدی کے روسیوں کا کوئی ہم سر نہیں۔ لیکن دوستوفسکی اور ٹالسٹائی کی سب تحریروں کا معیار یکساں نہیں ۔ خود ابوالکلامؒ کا حال بھی مختلف نہیں ۔
سید صاحبؒ کا عجیب و غریب امتیاز یہ ہے کہ معیار کبھی متاثر نہیں ہوتا۔ ہزاروں صفحات ‘ ان گنت موضوعات اور نصف صدی کا سفر‘ مگر شہسوار کے تیور ہمیشہ ایک سے رہے۔ اردو زبان اور ادب کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ بات میں پورے وثوق سے عرض کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص صرف سید صاحبؒ کی تصانیف کا مطالعہ کرے تو وہ زبان و بیان پر دسترس کے لیے اپنے مقصود کو پالے گا۔ سید صاحبؒ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دل سے زیادہ دماغٖ کو پکارتے ہیں۔ دلیل ان کی تلوار ہے اور اس شمشیر سے انھوں نے لاکھوں دلوں کو شکار کیا۔ کوئی تعجب نہیں کہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی اختیار کرنے والوں کی اکثریت ان کے قلم سے دعوت و تزکیے کے دائرے میں داخل ہوئی ۔ کیا کسی دوسرے ادیب کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟
برصغیر کی تاریخ میں ابوالاعلیٰ ؒسے بڑھ کے شاید ہی کسی شخص کی کردار کشی کی گئی ہو اور یہ کارنامہ علماے کرام کے ایک طبقے نے انجام دیا‘ اور پھر سبھی مکاتب فکر نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ غزالیؒنے سوال کیا تھا : ’جب قرآن مجید کا ایک درس دینے والا دوسرے کو دیکھتا ہے تو نا خوش کیوں ہوتا ہے؟ اسے تو خوش ہونا چاہیے کہ روشنی کے فروغ میں کوئی اور بھی مددگار ہے‘۔ پھر خود ہی جواب دیا : ’اس لیے کہ دل حب جاہ سے بھرے ہوتے ہیں۔ مقصود مقبولیت ہوتی ہے اور اپنے گروہ کا فروغ‘۔
ابوالاعلیٰ ؒفرشتے نہ تھے کہ ان سے اختلاف نہ کیا جاتا اور پیغمبر نہ تھے کہ ان پر ایمان لازم ہوتا لیکن علمی اختلاف شایستگی اور قرینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ افسوس کہ ابو الاعلیؒ کے مخالفین کی عظیم اکثریت ان تقاضوں کا ادراک نہ کر سکی اور سب سے بڑا سبب وہ تعصب تھا‘ جس نے دلوں کو زنگ لگا دیا‘ دماغوں کو جکڑ لیا اور تناظر کو محدود کر دیا تھا‘ یا حسد کہ جو پہاڑ جیسے آدمی کے مقابل انھیں کمتری کے احساس میں مبتلا کرتا تھا۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک افسوس ناک باب ہے۔ ایک آدھ نہیں ‘ بہت سے علماے کرام نے ابوالاعلیٰؒ کو عالم دین تسلیم کرنے سے انکار کردیا ‘اور ان میں سے ایک نے پھبتی کسی کہ وہ کسی دارالعلوم کے فارغ ا لتحصیل ہیں اور نہ کسی یونی ورسٹی کے گریجویٹ۔
یہ۱۹۲۴ء کی بات ہے ۔ ایک اخبار نویس ‘صاحب ِطرز ادیب اور ایک عالم دین کی حیثیت سے ابوالاعلیؒ کے چرچے کا آغاز ہو چکا تھا۔ لیکن رات کے تیسرے پہر وہ جاگتے اور شاہجہان کے دور سے آباد دلی کے قدیم گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے مولانا عبدالسلام نیازیؒ کے دروازے پر جا دستک دیتے ۔ بوڑھا استاد ایک الگ ہی مزاج کا آدمی تھا۔ عمر بھر اسے کسی دارالعلوم سے واسطہ رہا اور نہ مکتب فکر سے کوئی علاقہ۔ وہ عطر بنا کے رزق کماتا اور اسے خانقاہوں میں قوالیاں سنتے ہوئے دیکھا جاتا۔ ایک زاہد شب زندہ دار ‘ من موجی اور آزاد۔ کہا جاتا تھا کہ اس عہد کے ہندستان میں کوئی شخص قدیم علوم میں اس کا ہمسر نہ تھا۔ وہ تعلیم و تدریس کا ایک الگ دبستان اور تدریس کا منفرد اسلوب رکھتا تھا ۔ قرآن مجید کے منفرد مفسر مولانا حمید الدین فراہیؒ کی طرح وہ ایک ایک سطر پڑھانے کے بجاے ‘ طالب علموں کو خود سے پڑھنے پر مائل کرتا ۔ مشکل مقامات میں وہ ان کی مدد کرتا اور قرینہ یہ تھا کہ کسی بھی مضمون میں وہ صرف ایک کتاب کا درس دیتا۔ باقی تمام مباحث وہ اسی کتاب پر بحث کے دوران سمیٹ دیتا ۔ وہ تعلیم و تدریس کا کوئی معاوضہ قبول نہ کرتا اور صرف غیر معمولی طالب علم ہی اس کے ہاں بار پا سکتے تھے۔ سید صاحبؒ نے اپنے بڑے بھائی سید ابوالخیرؒکے ساتھ بچپن میں اسی عظیم استاد سے تعلیم پائی تھی۔
سید صاحبؒ کی اپنی روایت یہ ہے : ’مولانا عبدالسلام صاحب فلسفہ و معقولات کے ماہر تھے۔ نہایت شیوہ بیان اور طلیق اللسان کہ گھنٹوں ان کی تقریر سن کر بھی آدمی سیر نہیں ہوتا تھا۔ میرے والدماجد کے بہت عقیدت مند تھے۔ والد صاحب مرحوم نے میرے بچپن ہی میں ان سے کہہ دیا تھا کہ اسے عربی پڑھانا۔ چنانچہ بچپن میں بھی میں نے ان سے پڑھا۔ پھر الجمعیۃ ‘دہلی کی ادارت کے زمانے میں جب ان سے عرض کیا کہ کچھ کتابیں رہ گئی ہیں‘ انھیں پڑھنا چاہتاہوں‘ تو فوراً مان گئے۔ فرمایا: صبح کی اذان کے وقت میرے مکان پر آجایا کرو۔ ان کا مکان ہمارے مکان سے تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔ میں باقاعدگی سے صبح کی اذان کے ساتھ ہی ان کے دروازے پر موجود ہوتا۔ کسی روز اگر ان کی طبیعت آمادہ نہ ہوتی تو اندر ہی سے فرما دیا کرتے: ’سید بادشاہ‘ آج طبیعت حاضر نہیں ہے‘۔ مرحوم سلسلۂ چشتیہ سے وابستگی رکھتے تھے۔ ’نیازی‘ کی نسبت بھی ایک بزرگ نیازاحمد بریلوی سے عقیدت کی بنا پر تھی۔ وہ بزرگ چشتی تھے۔ ہمارا خاندان‘ہندستان میں سلسلۂ چشتیہ کا پیش رو ہے۔ اس بنا پر وہ سن رسیدگی اور استاد ہونے کے باوجود میری بہت عزت کرتے اور اسی بنا پر مجھے ’سید بادشاہ‘ کہہ کر پکارتے‘۔
آخر شب کا یہ منظر ہمارے ذہن میں ایک سوال پیدا کرتا ہے ۔ ۲۲سالہ ابوالاعلیٰؒ اردو‘ انگریزی اور عربی زبان پہ دسترس رکھتے تھے ۔ وہ ایک بڑے اخبار کے مدیر تھے ۔ ایک عالم اور منفرد انشا پرداز کی حیثیت سے ابھررہے تھے۔ اگر ان کے ذہن میں قیادت کا سودا ہوتا تو آخر شب کی اس ریاضت کے بجاے کیا وہ اظہارکی راہ اختیار نہ کرتے ۔ غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور اہل تعصب کی آنکھوں اور کانوں کے لیے پردے۔
کبھی کبھی طالب علم یہ سوچتا ہے کہ کیا قدرت کاملہ نے اس منفرد استاد عبدالسلام نیازیؒ کو صرف اس لیے جہان آب و گل میں بھیجا تھا کہ طلب علم میں ابوالاعلیؒ کی رہنمائی کرے کہ جسے دیوبند اور علی گڑھ میں سے کسی ادارے کا رخ نہ کرنا تھا ۔ اپنے نو دریافت شدہ مذہبی احساس کی وجہ سے ان کے والد علی گڑھ سے دور جا چکے تھے‘ جہاں کبھی انھوں نے تعلیم پائی تھی اور ذاتی مجبوریوں یا معاشرتی رجحانات کی بناپر وہ دیوبند سے بھی دُور تھے ۔ دیوبند حریت کیش تھا لیکن اپنی حدود میں مقید‘ اور پھر استعمار کے خلاف حد سے بڑھی ہوئی نفرت اسے گانگریس کے اتنا قریب لے گئی کہ وہ مسلمانوں کے قومی مفادات سے بیگانہ ہو گیا۔ اقبالؒ کو اسی لیے دیوبند سے اختلاف تھا ۔ اسی لیے وہ قائد اعظمؒ کو اس پر ترجیح دیتے ‘ حالانکہ مولانا سید انور شاہ کاشمیریؒ سے انھیں ایک گونہ تعلق تھا اور پنجاب مسلم لیگ کی تنظیم کے سوال پر انھیں محمد علی جناحؒ سے رنج بھی پہنچا‘ لیکن دور تک دیکھنے والا آدمی نا خوش ہونے کے باوجود ان کے ساتھ کھڑا رہا۔ طالب علم کا گمان یہ ہے کہ سید صاحبؒ کے ساتھ محبت کا رشتہ استوار کرنے میں یہ پہلو اقبال ؒکے مد نظر تھا ۔ وہ الجہاد فی الاسلام اور ترجمان القرآن کی تحریروں سے متوجہ اور متاثر ہوئے اور انھیں پنجاب منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔
اقبالؒ اور ابوالاعلیؒ کے تعلق میں ‘ ہم سید صاحبؒ کی بے ریا ‘سیر چشم اور بے باک شخصیت کی ایک جھلک دیکھتے ہیں ۔ لاہور میں وہ اقبالؒ سے ملے اور ـدارالاسلامـ کے منصوبے پر اتفاق رائے ہوچکا تو ان سے عرض کیا:’میری ایک بات آپ مان لیجیے‘ سـرکا خطاب واپس کردیجیے کہ یہ آپ کو جچتا نہیں‘۔ بعد میں ایک ذاتی دوست کو ابوالاعلیؒ نے بتایا کہ یہ بات سن کر اقبالؒ کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں ۔ سیدؒ کو ملال ہوا کہ انھوں نے اقبالؒ کو رنجیدہ کر دیا۔ کیا اقبالؒ اس بات پر رنجیدہ تھے کہ ۳۴سالہ ا سکالر نے‘ جسے انھوں نے معنوی پدر کی نگاہ سے دیکھا تھا اس کمزوری کا ذکر کیا‘ یا اس پر کہ انھیں اس خطاب کو قبول کرنے کی یاد نے دل گرفتہ کر دیا تھا؟
اہل تعصب طعنہ زن رہے لیکن ابوالاعلیؒ کی زندگی ہی میں ان کے علم کا اعتراف کر لیا گیا۔ وہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے لیے ایک نمونۂ عمل تھے اور درحقیقت ایک اعتبار سے ان سب کے رہنما۔ ۱۳ برس ہوتے ہیں ‘ ٹھیک یہی دن تھے جب برف سے ڈھکے ایک پہاڑ کی چوٹی پر میں نے گلبدین حکمت یار کے مطالعے کی حدود متعین کرنے کی کوشش کی ۔ حکمت یار کے جواب کا ایک حصہ یہ تھا : ’ـمیں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کے تمام آثار کا مطالعہ کیا ہے‘۔ پھر ایک لمحہ توقف کے بعد انھوں نے کہا: ’زـندگی کے سب اسرار میں نے قرآن سے سیکھے ہیںـ‘۔ سارے زمانے سے برسر جنگ اس جاںباز نے تفہیم القرآن کا تفصیل سے مطالعہ کیا تھا ۔
مصر ‘ شام ‘ سعودی عرب ‘لبنان‘ امارات میں اخوان المسلمون کے قارئین کا وسیع حلقہ موجود تھا۔ ایران میں ان کی کتابیں شائع کرنے والوں میں ایران کے موجودہ ولایت فقیہ خامنہ ای بھی شامل تھے ۔ انڈونیشیا سے ترکی تک‘ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں نے ان سے فیض پایا۔ اس سارے معاملے کا ایک عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ سید صاحبؒ نے عالم اسلام میں اپنی حیرت انگیز مقبولیت کا کبھی حوالہ نہ دیا۔ جو لوگ اپنے مقاصد کے لیے جیتے ہیں وہ ان چیزوں سے بھی بے نیاز ہوجاتے ہیں جو دوسروں کی نگاہ خیرہ کردے۔
۱۹۷۴ء کی ایک شام اتفاق سے میں ۵اے ذیلدار پارک میں موجود تھا‘ جب اردن کے فرماں روا شاہ حسین نے فون پر ان سے رابطہ کیا۔ اگلی شام کسی نے پوچھا تو قدرے بیزاری کے ساتھ انھوں نے جواب دیا: ’ان لوگوں کو زیادہ اہمیت نہ دیا کیجیے‘۔ میری اخباری زندگی کے ۳۵ برس سیاست دانوں کے درمیان گزرے ہیں ۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ موقع پرستی کے معاملے میں سیاست دان تاجروں سے بھی زیادہ حریص ہوتے ہیں ۔ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اخبار میں خبر چھپوانے کا اہتمام کرتا لیکن سید صاحبؒ کو یہ ذکر تک گوارا نہ تھا۔ جولائی ۱۹۷۷ء میں ایک شخص برسراقتدار آیا‘ جوترجمان القرآن کا قاری تھا اور جس نے تفہیم القرآنسمیت ان کے لٹریچر کے بڑے حصے کا مطالعہ کر رکھا تھا ۔ ابوالاعلیؒ اس سے بھی بے نیاز رہے۔ وہ حکومت اور حکمرانوں سے دور رہنا پسند کرتے تھے‘ سیاسی موقع پرستی سے وہ بہت بلند تھے۔
سیاست دان کی حیثیت سے ابوالاعلیؒ کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ سیاست کی آلایشوں سے پاک رہے۔ انھوں نے زمانے کی رو میں بہنے سے انکار کر دیا اور ہنگامی عوامی رجحانات سے فائدہ اٹھانے کی کبھی کوشش نہ کی ۔ ان کے مختلف اور منفرد انداز خطابت کا راز یہی ہے۔ جس برصغیر میں انھوں نے ہوش کی آنکھ کھولی‘ وہ ابوالکلامؒ ‘ محمد علی جوہرؒاور بعد ازاں عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی آگ بھڑکا دینے والی خطابت سے گونج رہا تھا ۔ ایک اعتبار سے تحریک آزادی کو اس انداز خطابت کی ضرورت بھی بہت تھی۔ ابوالکلامؒ تو خیر کانگریس سے متاثر تھے اور سید عطا ء اللہ شاہ بخاریؒ دیوبند کی طرف مائل تھے‘ لیکن محمد علی جوہرؒ کے تو وہ بہت مداح بھی تھے‘ اس کے باوجود ابوالاعلیؒ کے غور و فکر نے انھیں قائل کر دیا کہ آخری تجربے میں جذبات سے اپیل کرنے والی خطابت اُمت اور اسلام کے مفاد میں نہیں؛لہٰذا سوچ سمجھ کر انھوں نے تحریر اور تقریر کا ایک الگ اسلوب اختیار کیا جو دل نہیں‘ دماغ سے خطاب کرتا ہے ۔ وہ قاری کو اپنی دلیل سے فتح کرتے اور اپنے ساتھ کھڑا ہونے پر آمادہ کرتے ہیں۔ تاہم وہ اس گمان میں کبھی مبتلا نہ ہوئے کہ انھیں اپنے زمانے کی قیادت کرنی ہے ۔
مولانا امین احسن اصلاحیؒ دارالاسلام پہنچے اور ان کا سامان تانگے سے اتارا جا رہا تھا ۔ جذبات سے مغلوب نہ ہونے والے ابوالاعلیؒ اس منظر کو دیکھتے رہے‘ معاً ان کی آنکھوں میں نمی آگئی اور انھوں نے کہا: ’’آج تک میں ایک تھا اور اب دو ہو گیا ہوں‘‘۔ ادھر مولانا امین احسنؒ کا مزاج یہ تھا کہ دارالاسلام میں ان کے درس قرآن کے دوران ایک بار جب کسی نے یہ کہا کہ ابوالاعلیؒ کی رائے اس باب میں مختلف ہے‘۔ تو ان کا جواب یہ تھا : ’’اـنھیں کیا پتا؟‘‘ـ ابوالاعلیؒ اس پر مسکرا دیے۔ انھی برسوں میں سید صاحبؒ نے تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا تو ایک روایت کے مطابق مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے انھیں اس کا م میں ہاتھ نہ ڈالنے کا مشورہ دیا ۔ مولانا امین احسنؒ یقینا ایک بڑے عالم تھے اور انھوں نے قرآن کریم پر غوروفکر اور تدبر کا سلیقہ اپنے عہد کے عظیم اسکالر مولانا حمیدالدین فراہیؒ سے سیکھا تھا۔ لیکن ایک بات وہ سمجھ نہ سکے کہ ابوالاعلیؒ کتنی ریاضت کے آدمی ہیں اور اللہ نے انھیں کیسا دماغ عطا کیا ہے ۔ مسلمانوں نے سرور عالم ؐ کے اس ارشاد پر بہت کم غور کیا ہے کہ اگر آدمی زہد اختیار کرے تو اسے یوں علم عطا کیا جائے گا جس طرح کنویں سے پانی نکلتا ہے ۔
سیاست دان کے طور پر میں سید صاحبؒ کے کردار پہ گفتگو کرنا چاہتا ہوں لیکن بات بھٹک کر دور نکل جاتی ہے ۔ ہثت پہلو ہیرا ہے ‘ جو نگاہ خیرہ کیے رکھتا ہے۔ دارالاسلام سے لاہور پہنچنے کے ایک دو روز بعد ہی انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب افتخار حسین ممدوٹ سے کہا کہ صرف ایک بٹالین فوج کو حرکت دے کر مشرقی پنجاب سے کشمیر جانے والا راستہ بندکیا جا سکتا ہے۔ اقتدار کے نشے سے سرشار وزیراعلیٰ کا جواب تھا :’مولوی صاحب‘ آپ اپنا کام کیجیے اور ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے‘۔ـ مولوی صاحب ـتو خیر اپنا کام کرتے رہے لیکن مسلم لیگ کی قیادت اس باب میں ناکام ہو گئی ۔ قائداعظم علیہ الرحمہ نے انگریز کمانڈر انچیف کوجب کشمیر میں پاکستانی فوج کی پیش رفت کا حکم دیا تو اس نے انکار کر دیا ۔ باقی کہانی تاریخ کا حصہ ہے ۔ قائد اعظمؒ دل پر کشمیر کا زخم لے کر دنیا سے رخصت ہوئے۔
اگلے ۳۲سال ہم سید صاحبؒ کو پاکستان میں اسلام اور جمہوریت کا مقدمہ لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ لیکن ایک منفرد طرز سیاست اور طے شدہ ترجیحات کے ساتھ ۔ یہ طرز سیاست ان کی ذات کے گرد گھومتی ہے اور نہ ان کی ترجیحات۔ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل اس سیاست دان کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ مسلسل سیاسی مصروفیت کے باوجود وہ نہ صرف اپنے علمی کام میں محو رہا‘ بلکہ اپنے عصر کے کسی بھی عالم دین سے بڑھ کر لکھا۔شورش کاشمیری نے تعجب کے ساتھ لکھا تھا : صفحات کی تعداد عمر کے دنوں سے زیادہ ہے۔سید صاحبؒ کی سب سے بڑی ترجیح تو ظاہر ہے ریاست میں اسلام کا فروغ ہی تھا۔ اسی لیے ان کے ناقد یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسلام کے سیاسی پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دیا۔ تاہم‘ انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے حوالے سے ان کا کردار کسی بھی پاکستانی سیاست دان سے زیادہ ہے ۔ اس لیے عتاب بھی سب سے زیادہ انھی پر آیا۔ ان کے لیے پھانسی کی سزا کا اعلان ہوا اور طویل عرصہ انھوں نے زندان میں گزار دیا۔ لیاقت علی خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک ہر حکومت درپے آزار رہی ۔ ۱۹۷۲ء میں سید صاحبؒ جماعت اسلامی کی امارت سے الگ ہوچکے تھے‘ لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کے پرچم تلے بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک چلانے والے طلبہ پر‘جاوید ہاشمی جن کے سرخیل تھے ‘ پولیس نے وحشیانہ تشدد کیا تو سید صاحبؒ کو میں نے مضطرب پایا ۔ وہ بوڑھے اور بیمار تھے اور درد کُش ادویہ نے ان کی توانائی چاٹ لی تھی‘ لیکن اس مرحلے پر انھوں نے کہہ دیا : ’طلبہ کے ساتھ اگر یہی سلوک جاری رہا تو میں جلوس لے کر شاہراہ قائداعظم کا رخ کروں گا‘۔
سیاست میں ان کے امتیازات ہیں‘ مثلاً یہ کہ انھوں نے ہر حال میں قانون کی پابندی کو اختیار کیا ۔ ماضی مرحوم کی سیاسی تحریکوں پر بہت گہرائی میں غور و خوض کرنے والے شخص کو یقین تھا کہ قانون کی پاسداری ہی بہترین راستہ ہے‘ اور یہ کہ تشدد اور خفیہ انداز کار سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے‘ بلکہ غیر صحت مند رویے پرورش پاتے ہیں ۔ وہ اس امر پر یقین رکھتے اور اعلان کرتے تھے کہ معاشرہ سدھر نہیں سکتا‘جب تک کہ حکومت زاہد اور متقی گروہ کے ہاتھ میں نہ ہو‘ مگر اس نیک کام کے لیے بھی وہ جوڑ توڑ یا تشدد سے حکومت کے حصول کے کبھی قائل نہ تھے ۔
یہ ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء تھا‘ وہ رحیم یار خان تشریف لائے اور ایک عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ میرے خالہ زاد بھائی محمد طارق نے جو بعد ازاں ۱۲ برس تک سینیٹر رہے ‘ اصرار کے ساتھ مجھے ان سے ایک سوال پوچھنے کو کہا :’’وہ جمہوری جدوجہد کی بے نتیجہ کھکھیڑمیں کیوں پڑے ہیں ‘کیا اسلام کے لیے بزور شمشیر اقتدار حاصل کرنا نامناسب ہے؟‘‘مجھے سید صاحبؒ سے یہ سوال پوچھنے میں تامّل تھا لیکن طارق کے اصرار کو ٹالنا آسان نہ تھا ۔چنانچہ جیسا کہ جماعت اسلامی کے اجتماعات کا قرینہ ہے‘ میں نے ایک کاغذ پر استفسار لکھ دیا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ‘ ان کا جواب مختصر تھا‘ فرمایا: ’یہ پرانے خواب ہیں جو دن کودیکھے جاتے ہیں۔ جو اقتدار طاقت کے بل بوتے پر آتا ہے وہ سخت ناپایدار ہوتا ہے۔ راے عامہ کا راستہ بلاشبہہ بڑا صبرآزما ہے‘ لیکن اگر اسے حکمت کے ساتھ اختیار کیا جائے اور حماقتیں نہ کی جائیں تو اس میں صد فی صد کامیابی ہے‘۔