مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک ایسے صاحب الرائے داعی اسلام تھے‘ جن سے نہ صرف ان کے عہد کی تمام اسلامی تحریکوں نے استفادہ کیا‘ بلکہ دعوت دین کے پھیلائو کے لیے آپ کی حکمت عملی کو بھی اختیار کیا۔ علاوہ ازیں متعدد حکومتوں نے قانون سازی کے لیے بھی آپ سے رہنمائی حاصل کی۔
میرے نزدیک سیدمودودیؒ صرف موجودہ زمانے کی اسلامی شخصیت نہ تھے ‘ بلکہ گذشتہ ادوار کی شخصیات میں بھی انھیں بڑا امتیازی مقام حاصل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ برعظیم جنوبی ایشیا میں آپ جیسا کوئی صاحب علم وفضل شخص نہیں پایا گیا تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ میری اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں پر کوئی بڑے لوگ پیدا نہیں ہوئے‘ بلاشبہہ یہاں پر بڑے عظیم علماے دین‘ نہایت متقی بزرگ اور عظیم دانش ور اور اسلامی جذبے سے سرشار مجاہد پیدا ہوئے اور ان کی خدمات بھی بے پناہ ہیں۔ تاہم میری بحث کا دائرہ یہ ہے کہ سیدمودودیؒ کے کام کی وسعت‘اثرات کی گہرائی‘ سوچ اور تربیت میں ندرت اور اپنے وطن سے باہر کی دنیا کو متاثر کرنے کی مقناطیسی طاقت میں بہرحال اس علاقے کی کوئی شخصیت ان کی ہمسرنہیں۔ اس میں کیا شک کہ یہاں پر دوسرے جلیل القدر بزرگوں نے قیمتی کتب لکھیں یا افراد کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کی دینی تربیت کی‘ جو بذات خود بڑی سعادت کی بات ہے۔ البتہ علم و فکر اور عمل وجہد کے دائروں میں بیک وقت پیش رفت کرنا ایک امتیازی اور مہتم بالشان کارنامہ ہے۔ سید مودودیؒ کی دعوت کا میدانِ کار مکمل اسلام اور مخاطب دنیا بھر کے لوگ ہیں۔ وہ کسی ایک قوم کے عالم‘ کسی ایک گروہ کے قائد‘ کسی ایک قبیلے کے شیخ اور کسی ایک مکتب فکر کے فقیہہ نہیں ہیں‘ بلکہ وہ ایک ایسے عالم گیر عالم دین اور قائد ہیں‘ جو زمانے کی قید اور ملکی حدود کے پابند نہیں۔
سید مودودیؒ کے ہاں رضاے الٰہی کے حصول‘ شہادت حق کے فریضے کی بجاآوری‘ تزکیہ و تعمیر کردار کی مرکزیت اور اقتدار و اختیار کے سرچشموں کو امرربی کا تابع بنانے کی کوششیں اس قدر مربوط اور اس درجہ مسلسل تھیں کہ انھیں کوئی حکومتی دہشت پسندی یا معاصرین کی غوغا آرائی روک نہ سکی۔ بلاشبہہ جو بھی اس راہ پر چلتا ہے اسے لازماً ایسے مصائب و مشکلات اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میں ان کے پہلو میں بیٹھا تھا‘ عرض کیا: ’یاشیخ‘ مولانا مودودیؒ نے آخر ایسا کیا جرم کیا ہے جو آپ اتنے سخت الفاظ میں ان کا تذکرہ کر رہے ہیں؟‘ شیخ طریقت نے جواب دیا: ’وہ کہتا ہے کہ صرف آنحضورؐ ہی معیارِ حق ہیں۔ اس طرح کی بات کہہ کر دراصل وہ صحابہؓ، تابعینؒ اور ائمہ میں سے کسی کو معیارحق ماننے سے انکار کرتا ہے‘۔ میں نے عرض کیا: ’یہ بات تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع ہی کی وجہ سے کہی جاسکتی ہے کہ صرف وہی معیارِ حق ہیں۔ بلاشبہہ دوسرے عظیم الشان صحابہ اور ائمہ سے بھی رہنمائی لینی چاہیے لیکن سبھوں کو درجۂ معصومیت پر فائز اور آخری معیار قرار نہیں دیا جاسکتا‘۔ یہ بات سن کر وہ کسی اور کام میں مشغول ہوگئے۔ اتنے میں کچھ اور عقیدت مند کمرے میں داخل ہوئے تو موضوع بدل گیا۔
تھوڑی دیر بعد میں نے سوال کیا: ’یاشیخ‘ ابن عربی اور ان کے اقوال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘ شیخ طریقت نے فرمایا: ’علماے حق نے متفقہ طور پر انھیں بڑے لوگوں میں تسلیم کیا ہے اور محتاط لوگوں نے ان کے اقوال کے بارے میں کچھ کہنے سے اجتناب کیا ہے۔ ابن عربی کے اقوال کے بارے میں صرف وہی کچھ کہنا چاہیے جو اچھا ہو‘ بلکہ ان کے کلام کی دو طرح سے تاویل کرنی چاہیے۔ پہلی یہ کہ ہم اُن کی مراد نہیں جانتے کہ ان کا یہ بات کہنے سے کیا مقصود تھا۔ دوسرا یہ کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ مذہب نہیں‘ بلکہ مذہب کی تاویل ہے‘۔ فرمان شیخ کے فوراً بعد میں نے کہا: ’اگر یہی اصول ہم سید مودودی کے بارے میں اختیار کریں تو پھر آپ کی کیا رائے ہوگی؟‘ یہ سوال سنتے ہی غصے سے شیخ طریقت کے چہرے کا رنگ بدل ہوگیا۔ میری طرف غضب سے دیکھا اور خادم سے کہا: ’نماز کی اقامت پڑھو‘۔
ایک ملاقات میں‘ میں نے مولانا مودودیؒ سے اتحاد و اشتراک کے مسئلے پر گفتگو کی۔ انھوں نے فرمایا: ’عدد اکٹھا کرنے سے نہ کوئی اتحاد بنتا ہے اور نہ اس ہجوم سے کوئی وزن پیداہوتا ہے۔ فکر اور دعوت میں بنیادی حیثیت تعداد کو نہیں بلکہ اصول اور خلوص کو حاصل ہوتی ہے‘۔ ایک ثانیے کے توقف کے بعد وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’بے مقصد لشکر کو جمع کرنا دراصل بائیں جانب صفروں کو جمع کرنا ہے‘ لیکن جب صحیح فکر اور واضح ہدف کے ساتھ اشتراک عمل ہو تو اس وقت صفر دائیں جانب منتقل ہوجاتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں حقیقی وزن اور مؤثر اپیل پیدا ہوتی ہے‘۔
مولانا مودودی ؒنے ظاہری اور سطحی مظاہر کے لیے واقعی اتحاد سے انکار کیا۔ وہ زندگی کو تصنع اور بے مقصدیت کی بھینٹ چڑھانے کے ہرگز قائل نہ تھے۔ یہ ان کی خداداد حکمت اور دُوراندیشی تھی کہ انھوں نے مختلف ممالک کی اسلامی تحریکات کے باہم اتحاد کی تحریک پر زور نہ دیا‘ البتہ مسلم ممالک کے اتحاد و اتفاق پر ضرور زور دیا۔ آج کے حالات میں مولانا مودودیؒ کی اس بصیرت کی معنویت سمجھ میں آتی ہے۔
اسی طرح مولانا مودودیؒ کسی سنجیدہ مقصد کے بغیر ہونے والی بین الاقوامی یا قومی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے پُرجوش نہ تھے۔ خصوصاً حکومتی سرپرستی میں ہونے والی کانفرنسوں کو وہ زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے‘ کیونکہ سرکاری مقتدرہ‘ ایسی کانفرنسوں کو رسمی طور پر نبھاتی ہے۔ رابطے کے اجلاسوں میں ان کی شرکت علامتی سطح پر تھی جس کا ایک پہلو افراد کے درمیان تبادلۂ خیال بھی تھا۔