سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے شعوری زندگی کا سارا حصہ کارِ تجدید و احیاے دین میں گزارا‘ لیکن اپنے مجدد ہونے کا اشارہ تک بھی نہیں کیا۔ جہاں تک کام کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں وہ کسی شبہے میں مبتلا نہ تھے۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ کے ایک خدشے کے جواب میں سید مودودیؒ نے لکھا:
اسی طرح کسی کا اپنے کام کو تجدیدی کام یا تجدید ی کوشش کہنا ‘ جب کہ فی الواقع وہ تجدید دین حق ہی کی غرض سے یہ کام کر رہا ہو محض ایک امر واقعہ کا اظہار ہے‘ اور اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ مجدد ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور اس صدی کا مجدد بننا چاہتا ہے۔ کم ظرف لوگ بے شک تھوڑا سا کام کر کے اونچے اونچے دعوے کرنے لگتے ہیں‘ بلکہ کام کا ارادہ ہی دعوے کی شکل میں کرتے ہیں‘ لیکن ذی فہم آدمی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کام کرنے کے بجاے دعوے کرے گا۔(ترجمان القرآن‘ جنوری ‘ فروری ۱۹۴۲ئ)
کار ِتجدید کے حوالے سے بھی سید مودودیؒ کا ذہن صاف تھا۔ انھوں نے اس ضمن میں جو اظہار خیال کیا وہ اتنا منطقی اور مدلل ہے کہ کوئی غبی انسان ہی اس سے انکار کر سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ضروری نہیں کہ ایک صدی کا مجدد ایک ہی شخص ہو‘ ایک صدی میں متعدد اشخاص اور گروہ یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام دنیاے اسلام کے لیے ایک ہی مجدد ہو۔ ایک وقت میں بہت سے ملکوں میں بہت سے آدمی تجدید دین کے لیے سعی کرنے والے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ شخص جو اس سلسلے کی کوئی خدمت انجام دے مجدد کے خطاب سے نوازا جائے‘‘۔ (تجدید و احیاے دین‘ ص ۴۳)
یہ حقیقت ہے کہ سید مودودیؒ کا تجدیدِ دین حق کے میدان میں بڑا کارنامہ ہے۔ یہ درست ہے کہ بیسویں صدی میں کئی لوگ خدمت اسلام میں مصروف رہے اور ان کے کاموں کو تجدید کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ تجدید کے اس جزوی کام کے لیے کئی ہستیوں کے نام لیے جا سکتے ہیں‘ لیکن مجموعی اعتبار سے جس شخصیت کا کام کارِ تجدید کے بڑے پہلوئوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ ان کی علمی‘ فکری اور عملی کاوشیں ایسی ہیں کہ انھیں اس صدی کی سب سے زیادہ تجدیدی کام کرنے والی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے کام کی نوعیت اور انداز کا تجزیہ کرنے والا کوئی غیر متعصب اور انصاف پسند انسان انھیں تجدیدی منصب سے الگ نہیں کر سکتا۔ وہ بلاشبہہ مجددِ عصر حاضر ہیں۔
m تاریخی پس منظر: حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے حیات انسانی کا جو ماڈل موجود تھا اور جسے سید مودودیؒ جاہلیت کے مختلف ناموں سے تعبیر کرتے ہیں‘ اس میں صاحبِ اقتدار‘ مطلق العنان تھا۔ مذہبی لوگ اس کے زیر سایہ اور اس کی تائید میں کام کرتے تھے۔ ایران کی مجوسیت‘ روم کی عیسائیت اور ہندستان کا ہندو نظام‘ اس ماڈل کے نمونے تھے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس نظام کی نمایندہ جماعت‘ مکہ کے قریشیوں کو دعوتِ اصلاح دی جو بالآخر عسکری تصادم پر منتج ہوئی۔ آنجناب صلی اﷲ علیہ و سلم نے جاہلیت کے اس نمایندہ گروہ کو شکست دی اور ایک نئے نظام کی بنیاد رکھی‘ جس میں معاشرے کے ارباب اختیار کو تقویٰ و صلاح کا نمونہ بنایا اور مجوسی تہذیب کی ثنویت کی جڑ کاٹ دی۔ پیغمبرانہ ماڈل میں زندگی ایک وحدت تھی‘ جس کے ہر پہلو میں تقویٰ و صلاح سرایت کیے ہوئے تھا اور مطلق العنان اختیار کی کوئی گنجایش نہ تھی: لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ‘خالق کی نافرمانی کر کے مخلوق کی اطاعت ممنوع ہے‘ کا نصب العین متعین کر دیا گیا تھا۔ (مشکوٰۃ‘ کتاب الامارہ‘ ۲۱‘ ص ۲۲۳)
چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت
حریت رازہر اندر کام ریخت
خاست آں سر جلوئہ خیر الاممؐ
چوں سحابِ قبلہ باراں در قدم
برزمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
تا قیامت قطعِ استبداد کرد
موج خونِ او چمن ایجاد کرد
ماسوا اللہ را مسلماں بندہ نیست
پیشِ فرعون نے سرش افگندہ نیست
خونِ او تفسیر ایں اسرار کرد
ملتِ خوابیدہ را بیدار کرد٭
امام حسین ؓ کی شہادت کے بعد یہ جاہلی ماڈل مزید مستحکم ہوتا گیا۔ خاندان نبوتؐ کے چشم و چراغ جانوں کا نذرانہ دے کر اس نظام کے خلاف صداے احتجاج بلند کرتے رہے‘ لیکن بالآخر یہ نظام غالب آیا اور اہل تقویٰ و خیر کنارے لگا دیے گئے۔ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے بھی کوشش کی کہ اس ماڈل کو بدل دیں ‘لیکن انھیں بھی ٹھکانے لگا دیا گیا اور انھیں اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یوں داخلی طور پر پیدا ہونے والے اس چیلنج کو بھی ختم کر دیا گیا۔ مسلمان معاشرے اس ثنویت کو برداشت کرتے اور اس کے اہل تقویٰ و خیر کبھی کبھی کھلم کھلا بغاوت کرتے رہے۔ ہماری پوری تاریخ شاہدہے کہ حکمران اور اس کے حواری اپنے آپ کو قانون اسلام سے بالاتر سمجھتے تھے اور انتظام و انصرام میں اپنی مصلحتوں کے لیے قانون کو بطور آلہ کار استعمال کرتے تھے۔ اس ماڈل کے مطابق علما کو محدود دائرے میں کام کرنا تھا: امامت و خطابت‘ درس و تدریس‘ قضا و افتا یا تزکیہ و اصلاح۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی میدانِ عمل نہ تھا۔ اگر کسی نے ذرا تجاوز کیا تو مطلق العنان اقتدار کا غیظ و غضب پوری قوت کے ساتھ موجود ہوتا۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ کارِنبوتؐ کی تاثیر اتنی بھرپور تھی‘ کہ مسلمان حکمرانوں کے لیے شریعت پر مبنی اجتماعی نظام کو یکسر ختم کرنا ممکن نہیں تھا۔ پھر یہ مسلمان اپنے تمام فسق و فجور کے باوجود بہرکیف مسلمان معاشرے کا حصہ تھے اور غالب تہذیب کے نمایندہ تھے۔ اس لیے ذاتی تعیش اور سیاسی ریشہ دوانیوں کے باوجود مسلمانوں کے اجتماعی نظام کے محافظ تھے۔ اس صورت حال میں اہلِ خیر و تقویٰ نے دو راہیں اختیار کیں:
ایک راہ یہ تھی کہ اقتدار کی رسہ کشی سے کنارہ کشی اختیار کی گئی اور مسلم معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کے تحفظ کے لیے شریعت کے نفاذ میں اہلِ اقتدار سے تعاون کیا گیا۔ قضا و احتساب کے محکموں میں مناصب قبول کیے اور معاشرے میں شریعت کے نفاذ کو یقینی بنائے رکھا۔
دوسری راہ مکمل علیحدگی کی تھی۔ اس گروہ میں وہ علما و مشائخ آتے ہیں جو انفرادی طور پر استحکام شریعت اور اصلاح معاشرہ کے لیے سرگرم عمل رہے۔ انھی علمامیں سے کچھ نے امامت و خطابت اور درس و تدریس کے فرائض سنبھالے‘ نظام صلوٰۃ کو قائم کیا‘ مسجدوں کو آباد رکھا اور اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت اور مسائل میں اجتہاد و افتا کے ذریعے امت کی اجتماعی رہنمائی کا کام کیا۔ ان حضرات نے کبھی کبھی اقتدار سے اختلاف بھی کیا اور تنقید بھی‘ لیکن یہ اقدام اصلاح احوال کے لیے ہوتا تھا‘ اقتدار کے مدمقابل اور حریف کی حیثیت سے نہیں۔ جہاں تک مشائخ کا تعلق ہے تو انھوں نے مکمل طور پر اصلاح پر توجہ مرکوز کی‘ یہ انفرادی بھی تھی اور اجتماعی بھی۔ ان کے زیر اثر بعض اوقات حکمرانوں نے خیر و فلاح کے کام بھی کیے لیکن یہ حضرات عمومی طور پر اہل اقتدار سے دور رہے۔
اہل خیر و تقویٰ کا یہ اقدام دراصل ان شکستوں کا نتیجہ تھا‘ جو انھیں مقتدر قوتوں کے مقابلے میں ہوئیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اقتدار کی خونیں کش مکش میں حصہ لینے کے بجاے مسلم معاشرے کی فلاح کے لیے کام کیا جائے۔ اس طرح حکمران ذاتی جنگیں لڑتے رہے‘ ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے‘ نئے علاقے فتح کرتے رہے اور اپنی عیش و عشرت کی زندگیوں میں مشغول رہے‘ اور اہلِ خیر و تقویٰ حسب مواقع اصلاح و فلاح کا کام کرتے رہے۔ حکمران بلاشبہہ صاحب ِاختیار تھے‘ لیکن مسلم عوام پر اثر پذیری صرف اہل خیر و تقویٰ کی تھی۔ چونکہ مسلمان کسی خارجی دبائو کا شکار نہ تھے‘ اس لیے داخلی طور پر مستحکم و محفوظ رہے۔ اگرچہ فتنۂ تار تار سے اسلامی تہذیب کو تباہی کا سامنا کرنا‘ پڑا لیکن بحیثیت مجموعی داخلی نظام برقرار رہا۔ مسلم علما نے ثنویت کے اس ماڈل کو قبول کیا‘ لیکن اسے مسلمانوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا کہ مسلم معاشرے کو شریعت کے تابع رکھا اور اخلاقی اصلاح اور تعلیم و افکار کے فروغ کا کام جاری رکھا۔
مفاہمت‘ سازگاری یا کنارہ کشی کے یہ رویے ہماری تاریخ کا اہم تجربہ ہیں‘ بلکہ مجموعی طور پر ثنویت کا یہ ماڈل ہماری تاریخ کا غالب ماڈل ہے۔یہ صورت حال اس وقت تک موجود رہی جب تک استعمار نے پورے عالم اسلام کو غلام نہ بنا لیا۔ مسلم دور اقتدار میں جو شخصی‘ عائلی اور اخلاقی دائروں میں خیر و صلاح کا کام ہوتا تھا‘ اسے بھی دور استعمار نے ختم کرنے کی کوشش کی۔ یوں دور استعمار میں مسلمانوں پر دہری آفت آئی۔ مسلم اقتدار کی وجاہت بھی ختم ہوئی اور معاشرے کی شرعی اور اخلاقی بنیادوں کوبھی نقصان پہنچنے لگا۔ دور استعمار نے معاشرے کی ثنویت کو نہ صرف مستحکم کیا‘ بلکہ شخصی اور عائلی زندگی میں بھی اخلاقی بنیادوں کو نقصان پہنچایا۔
سید مودودیؒ نے چند بڑے لوگوں کا ذکر کیا ہے‘ جن کے تجدیدی کام کے دور رس اثرات اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن ان سب حضرات کی ایک مشکل تھی کہ انھیں ثنویت کے ماڈل کے فریم ورک میں کام کرنا تھا۔ امام غزالی ؒ، امام ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانی ؒ، شاہ ولی اللہ،ؒ سب ملوکیت کے عہد میں علم‘ افتا‘ تدریس‘ قضا اور تزکیہ و اصلا ح ہی کے مراکز سے کام کرتے رہے۔ ان میں سے ہرایک کا کام عظیم الشان ہے۔ لیکن حالات کے جبر کی وجہ سے ان کا دائرہ علمی‘ فکری اور اصلاحی ہی رہا۔ علمی‘ فکری اور اصلاحی میدان میں ان حضرات کا کام بے مثال ہے اور اس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں‘ لیکن مسلم معاشرے کے مجموعی طرز عمل میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ اقتدار کے کھیل میں قواعد و ضوابط مختلف تھے اور اہل خیر و تقویٰ کے لیے ان ضوابط کے مطابق کام کرنا مشکل تھا۔
فکر و عمل کے تمام انحرافی رویوں کے یہی دو منابع تھے اور یہیں سے وہ بدروئیں چلتی رہیں‘ جن سے مسلم معاشرے کے جسد اجتماعی میں تعفن پیدا ہوا۔ مسلم مصلحین و مفکرین نے تطہیر کا کام کیا اور حتی الامکان کامیابی حاصل کی۔ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک تیسرے فتنے کا بھی سامنا تھا اور وہ ویدانت اور یوگ تھا۔ ایک تو ہندستان میں اسلام‘ وسط ایشیا اور ایران کے ذریعے مستحکم ہوا تھا۔ اس لیے اس کی اپنی کمزوریاں تھیں ۔اس پر مستزاد ہندو فلسفہ و معاشرت کا چیلنج تھا۔ دور استعمار میں برعظیم کی خصوصی حیثیت رہی ہے۔ اس خطے کے مسلمانوں کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا تھا۔ انگریز اور ہندو کی ملی بھگت سے مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کی گئی‘ تاکہ اس اقلیت کو ہندو ازم یا عیسائیت میں جذب کیا جا سکے‘ لیکن انھیں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ مجدد الف ثانی ؒاور شاہ ولی اللہؒ کی تجدیدی مساعی تھیں۔ ان حضرات کے فکر و عمل کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے‘ تاہم مسلمانوں کو جو چیلنج یہاں درپیش تھا وہ کہیں اور نہیں تھا۔
عمومی طور پر مسلمانوں کو دو چیلنج درپیش تھے۔ ایک‘ مغربی تہذیب کے الحادی نظریات اور بداخلاق معاشرت ‘اور دوسرے‘ عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں۔ مقامی طور پر ہندوئوں کی جارحانہ سرگرمیاں اور سیاسی طور پر متحدہ ہندی قومیت کا نعرہ تھا‘ جسے انگریزوں کی حمایت حاصل تھی۔ مغربی استعمار نے نظریۂ قو میت کو محکوم قوموں کو مزید انتشار کا شکار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ عثمانی خلافت کو توڑنے میں اس نظریے کو کامیابی سے استعمال کیا گیا۔ برعظیم پاک و ہند میں یہ نظریہ مسلمانوں کے ملّی تشخص کو ختم کرنے کا ذریعہ تھا۔ آریہ سماجی‘ عیسائی مشنری اور انگریز حکمران ایک تثلیث تھے جو مسلمانوں کے خلاف سرگرم تھے۔ مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ وہ بدترین قسم کی فرقہ بندی میں مبتلا تھے۔ معمولی معمولی فقہی و کلامی مسائل پر دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی بحثیں ہوتی تھیں۔ انگریز حکمرانوں نے فرقہ وارانہ مناظروں کی حوصلہ افزائی کی اور لڑانے والے مولویوں کو خصوصی تحفظ فراہم کیا۔
مسلمانوں کی صورت حال کچھ اس طرح تھی: خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا‘ وسط ایشیا کو روس ہضم کر چکا تھا۔ مشرق وسطیٰ پر استعماری قوتیں قابض تھیں‘ افریقہ میں منصوبہ بندی کے ساتھ عیسائیت کے فروغ کے لیے کام ہو رہا تھا‘ اور ہندستان میں مسلمانوں کو سیکولر بنانے‘ ہندی قومیت میں ضم کرنے‘ عیسائی بنانے اور نامسلمان بنانے کی پوری کوششیں ہو رہی تھیں۔ جو تھوڑا بہت مذہبی شعور رکھتے تھے انھیں فرقہ وارانہ لڑائیوں میں الجھا دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کی محکومی‘ پسماندگی‘ بے راہ روی اور انتشار نے سوچنے سمجھنے والے افراد کو بے چین کر رکھا تھا۔ اس لیے دور حاضر جو مسلمانوں کی انتہائی پستی کا دور ہے ‘شدید ردعمل کا دور بھی ہے۔ اسلام کی نشات جدیدہ کی جتنی زبردست تحریک اس دور میں اٹھی اتنی کبھی نہیں اٹھی‘ کیونکہ اب اسلام کی بقا اور مسلم ملت کے وجود کا مسئلہ تھا۔
نشات جدیدہ کی صدا لگی تو جمال الدین افغانی ؒ سے لے کر مفتی عبدہ ؒتک‘ ابوالکلام آزادؒ سے لے کر اقبالؒ تک اور حسن البناؒ اور سید مودودیؒ سے لے کر سید قطب شہیدؒ تک‘ ہر ایک عظمت اسلام کا پیغام دے رہا تھا۔ ایسے مخلص اور مصلح افراد پورے عالم اسلام میں سرگرم تھے‘ لیکن برعظیم کو خصوصی مقام حاصل تھا‘کیونکہ یہاں کے مسلمانوں کو مغربی علوم تک جو رسائی حاصل تھی وہ کسی اور خطے کے لوگوں کو حاصل نہ تھی۔ پھر انگریزوں نے جو محدود جمہوری روایت ہندوئوں کو تقویت دینے کے لیے شروع کی تھی‘ اس سے مسلمان بھی فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اس لیے فکری و عملی میدانوں میں یہاں کے مسلمانوں کو زیادہ مواقع حاصل تھے۔ غالباً برعظیم کے مسلمان سب سے زیادہ بیدار مغز بھی تھے۔ پھر مولانا ابوالکلام ؒکے خطبات اور علامہ اقبالؒ کے شعری آہنگ نے نشات جدیدہ کے احساس کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں حیدر آباد‘ دکن سے اٹھنے والی آواز نے اپنا کام کیا۔ بیگم مودودیؒ کے الفاظ میں اورنگ آباد سے دہلی‘ دہلی سے دارالاسلام پٹھانکوٹ‘ دارالاسلام سے لاہور‘ لاہور سے دارالاسلام اور پھر دارالاسلام سے لاہور تک کے سفر میں ایک ہی مشن تھا جو محو سفر رکھے ہوئے تھا(تذکرہ سید مودودی‘ ج ۳) اور وہ احیاے اسلام کا مشن تھا ؎
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
برعظیم کے علما و واعظین کی یہی محدودیت تھی جس سے سید مودودیؒ محفوظ تھے۔ وہ درسی عالم نہ تھے کہ متون و شروح حفظ کر رکھی ہوں۔ وہ علم کے اس مرتبے پر فائز تھے جسے حکمت کہتے ہیں اور اس کے حامل کو حکیم۔ حکیم وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے دور کے متداول علوم کے اصول و فروع کو ہضم کر کے ان سے نتائج نکالے۔ ہماری تاریخ میں امام غزالی‘ؒ امام ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی ؒاللہ کی شخصیتیں اس منصب و مرتبے پر فائز تھیں۔ شاہ ولیؒ اللہ کے بعد سید مودودیؒ کے مرتبے کا کوئی شخص شاید ہمارے ہاں نہیں آیا۔ یہ تعبیر میرے ذاتی مطالعے کا نتیجہ تھی۔
پہلا مرتبہ ان لوگوں کا ہے جو درست نا درست‘ سب نصوص جمع کر دیتے ہیں اور اپنی تحریروں میں ہر اس چیز کو ٹھونس دیتے ہیں جو زیر بحث موضوع سے متعلق ہو‘ جیسے امام سیوطیؒ۔ دوسرا مرتبہ ان لوگوں کا ہے جو نصوص کو جمع کر لیتے ہیں‘ ان کی اسناد پر تحقیق کرتے ہیں اور پھر ملا کر سب کو روایت کر دیتے ہیں‘ جیسے امام شوکانی ؒ۔ تیسرا مرتبہ ان لوگوں کا ہے جو نصوص کو ترتیب دیتے ہیں۔ان کی تشریح کرتے ہیں‘ ان سے مسائل کا استنباط کرتے ہیں‘ ان پر تبصرہ کرتے ہیں اور پھر ان کو ایک مکمل تحقیق کے قالب میں ڈھالتے ہیں‘ جیسے امام ابن تیمیہؒ۔ ان تینوں مراتب کے اوپر ایک چوتھا مرتبہ ہے۔ اس مرتبے پر وہ لوگ فائز ہیں جو اپنے ذہن میں نصوص و احکام کا پورا احاطہ کرتے ہیں‘ ان کے اندر غواصی کرتے ہیں اور جدید اصطلاح میں ان کو ضم کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ وہ تعلیمات ان کی اپنی فکر اور اپنا مزاج بن جاتی ہیں۔ پھر وہ دوسرے کے سامنے اس طرح پیش کرتے ہیں جس طرح کوئی شخص اپنے نظریے کو پیش کرتا ہے‘ جس پر اسے مکمل دسترس حاصل ہوتی ہے اور جس قالب میں چاہے اسے ڈھال سکتا ہے۔ وہ بیان و زبان کے پہلو بدل بدل کر اسے پیش کرتا ہے‘ الگ الگ رنگ کے اسالیب میں اس کی جلوہ نمائی کرتا ہے۔ ماضی میں اس مرتبے پر فرو کش ہونے والی نمایاں شخصیت امام غزالی ؒ ہیں۔ مولانا مودودیؒ اپنی کتاب (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں) میں اور اپنی دوسری کتابوں میں‘ جو میں نے پڑھی ہیں‘ کبھی تیسرے مرتبے سے بلند ہو جاتے ہیں اور کبھی چوتھے مرتبے پر فائز ہوجاتے ہیں۔ موصوف علمِ وسیع‘ عقیدۂ صاف‘ ذہنِ رسا اور ترتیب و تدوین پر قدرتِ کاملہ رکھتے ہیں۔ (تذکرہ سید مودودی‘ ج ۳‘ ص ۴۴۷-۴۴۸)
سید مودودی ؒ کو تحلیل وتجزیہ اور اخذ نتائج پر جو قدرت حاصل تھی وہ انھیں اپنے تمام ہم عصر علما‘ مصنفین و مفکرین سے ممتاز کرتی ہے۔ پھر قدرت نے انھیں تدوین و ترتیب اور اظہار و بیان کا جو سلیقہ عطا کیا تھا‘ اس نے ان کی فضیلت میں اضافہ کر دیا تھا۔ ان کی یہ وہبی صلاحیتیں کارِ تجدید میں کام آئیں۔ سید مودودیؒ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا‘ اس کا حق ادا کر دیا۔ علمی‘ فکری اور اختلافی مسائل میں ان کا انداز پیغمبرانہ بصیرت سے مستفاداور اللہ کے رنگ میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔
امام غزالیؒ کے ہاں فلسفے پر تنقید‘ باطنیت کا جائزہ‘ اصول فقہ پر مفصل کتاب اور پھر تصوف کی راہ سے تزکیہ نفس اور اصلاح احوال کی کاوش ملتی ہے۔ امام ابن تیمیہ‘ؒ رد شرک و بدعت‘ اصلاح عقیدہ‘ فلسفہ و منطق پر تنقید اور عیسائیت کا رد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ علوم شرعیہ کے ماہر اور مسلمانوں کے عقیدہ و عمل کی تطہیر میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سیاست شرعیہ پر ان کی مختصر کتاب اسلام کے سیاسی اصولوں کی سچی تصویر ہے۔ مجدد الف ثانی ؒ تو سیدھے سادے صوفیانہ اسلوب میں کام کرتے نظر آتے ہیں‘ جو ہماری تاریخ کا ایک لگا بندھا اسلوب ہے۔ البتہ انھوں نے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اور وہ صاحبان اختیار کو خطوط کے ذریعے اصلاح کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ اس کے لیے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کا اسوہ موجود ہے‘ تاہم اس ماڈل میں یہ ایک نئی کوشش تھی جو موثر بھی ثابت ہوئی۔ شاہ ولی ؒ اللہ کی فکر کو ایک مربوط نظام کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ تمام پاکیزہ کوششیں کلی اور محیط نہیں ہیں۔ حیات انسانی کا کوئی نہ کوئی گوشہ رہ گیا ہے‘ بالخصوص وہ گوشہ جس کا تعلق انسانوں کی معاشرتی و سیاسی تنظیم سے ہے۔ ان حضرات کے ہاں اپنے وقت کے علوم اور چیلنجوں پر واضح موقف نظر آتا ہے۔ کسی خاص شاخ علم میں خصوصی کارنامہ بھی موجود ہے‘ لیکن زندگی کے بارے میں ایک کلی اور محیط اسلامی تصور واضح نظر نہیں آتا۔ ان حضرات کی یہ مشکل سمجھ میں آتی ہے کہ انھیں ملوکیت کے خوفناک نظام میں کام کرنا تھا‘ جس میں قاعدہ‘ قانون اور اصول و ضوابط کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ سلطان اور امیر کی رائے قانون ہوتی ہے اور دربار میں حاسدین کی جماعت کا اثر و رسوخ ہوتا تھا۔ کسی بندۂ خدا کو کسی وقت بھی متہم کیا جا سکتا تھا اور سزا دلوائی جاسکتی تھی۔ مجدد الف ثانی ؒ کی مثال واضح ہے۔
عصرِحاضر میں تحقیق و تالیف سے وابستہ لوگوں میں مغربی فلسفہ و علم کا ناقدانہ جائزہ اور استعمار کی ریشہ دوانیوں کا ادراک موجود ہے۔ اپنی جگہ ان کے توڑ کی مساعی اور مسلمانوں میں اپنے تشخص کا شعور اور اپنے دین و تہذیب پر اعتماد بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے‘ لیکن ایک مربوط اور مکمل نظام فکر کے ساتھ نہیں۔ سید مودودیؒ کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک مربوط نظام فکر دیا ہے۔ ایک ایسا نظام فکرجو کلی اور محیط ہے۔ اس کے ایک ایک پہلو میں الٰہی حکمت اور پیغمبرانہ بصیرت جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ ہماری تاریخ میں مختلف گوشوں اور پہلوئوں پر آرا و افکار ملتے ہیں۔ ان میں سے کئی original اور انوکھے بھی ہیں۔ لیکن کسی بزرگ نے علم بالوحی اور پیغمبرانہ بصیرت کے فریم ورک میں ایک مربوط نظام فکر مرتب نہیں کیا۔ اس میدان میں سید مودودیؒ کا کوئی شریک و سہیم نہیں‘ نہ قدیم میں نہ جدید میں۔
میرا یہ تھیسس (thesis) ہے کہ پیغمبرانہ فریم ورک کا بنیادی نکتہ فرد کی روحانی اصلاح اور معاشرے کی عادلانہ تشکیل ہے۔ افسوس کہ خلافت راشدہ کے بعد یہی نکتہ‘ نظرانداز کر دیا گیا۔ حضرت حسینؓ کی کاوش اس نقطۂ نظر کو دوبارہ قائم کرنا تھا۔ ان کی شہادت سے یہ فریم ورک نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس پیغمبرانہ فریم ورک کے احیا کی فکری و عملی کوشش سید مودودیؒ کی فکر اور ان کی بپا کردہ تحریک ہے۔ اس فضیلت میں ان کا کوئی شریک نہیں۔ درسی علما کی بڑی شخصیتیں موجود رہی ہیں اور واعظین کی تو فوجیں پھر رہی ہیں۔ سیدؒ کے معاصر علما نے ان کی تعبیر دین سے اختلاف کیا ہے۔ اس کے لیے دلائل بھی دیے ہیں۔ لیکن وہ سب اس فریم ورک کے حوالے سے ہیں جو ہماری تاریخ کا مسلمہ فریم ورک ہے۔ سیدؒ نے اسے حضور اکرمؐ کی تاریخ ساز شخصیت سے جوڑا ہے‘ جو ہمارے لیے اسوہ اور حجت ہے۔ بلاشبہہ مولانا مودودیؒ سے فقہی و کلامی مسائل میں اختلاف کی گنجایش ہے۔ وہ پیغمبر نہیں اور نہ معصوم کہ ان سے کسی خطا کا سرزد ہونا ناممکن ہوتا‘تاہم یہ ان کا اعزاز ہے کہ انھوں نے ایک مربوط نظام فکر دیا ہے‘ اور دین کی جو تعبیر پیش کی‘ اس کے لیے مضبوط دلائل بھی فراہم کیے۔
۱- اسلامی عقیدہ و عمل کی توضیح:رد شرک اور اثبات توحید و رسالتؐ اور آخرت اور تصور عبادت پر جدید اسلوب میں گفتگو ‘کہ جسے جدید علم کلام کہا جائے تو صحیح ہو گا۔
۲- تصور دین: غالباً اس نظام فکر میں سب سے اہم نکتہ یہی ہے۔ تصور دین کے حوالے سے سید مودودیؒ نے بنیادی بات قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں میں کہی ہے۔ حاکمیت کا تصور اس کا مرکزی نکتہ ہے جس کے گرد پورا نظام فکر گھومتا ہے۔ دین کا جامع تصور اس نظام فکر کی روح ہے اور اقامتِ دین اس کی عملی تعبیر ہے۔
۳- مغربی تہذیب اور اس کے فکری و عملی پہلوؤں پر علمی تنقید: مولانا کے ہاں الحاد‘ اشتراکیت‘ سرمایہ داری اور اباحیت پر شان دار بحثیں موجود ہیں۔ یہ گویا اپنے عہد کے چیلنج کا جواب ہے۔ اس میں عقیدہ ٔاسلامی کا دفاع بھی شامل ہے جس میں اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب موجود ہے۔
۴- سیاسی‘ معاشی و معاشرتی مسائل: مغربی تہذیب نے انسان کو جن معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی مسائل سے دوچار کیا ہے‘ ان کے حل کے لیے اسلامی تعلیمات پر مبنی تجاویز۔ سیدمرحوم کے نظام فکر میں تصور دین کے ساتھ ان مسائل پر جو بحثیں موجود ہیں‘ وہ کہیں اور نہیں ملیں گی۔ قرآن و سنت کی حدود میں ایک مکمل نقشہ موجود ہے۔ اسلامی ریاست کے سلسلے میں آپ کی تحریریں قائدانہ حیثیت رکھتی ہیں۔ اشتراکیت‘ سرمایہ داری اور اخلاقی آزاد روی کا ناقدانہ جائزہ اسلامی اصولوں کے دفاع کا کام دیتا ہے۔
۵- تاریخ کی اسلامی تعـبـیر: سید ؒکے ہاں نہ صرف اسلامی تاریخ کی معتبر تعبیر موجود ہے‘ بلکہ انسانی تاریخ کے مطالعے کے لیے رہنما اصول بھی موجود ہیں۔ اسی حوالے سے انھوں نے برعظیم میں ہندستانی قومیت کے خلاف لکھا اور مسلمانوں کو مسلم قومیت کے تصور سے آگاہ کیا۔
۶- قرآن کی تفـہـیم:بقول سید مودودی مرحوم قرآن شاہ کلید ہے ‘ لہٰذا دین کا جامع تصور سمجھنے کے لیے قرآن سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں(سیدابوالاعلیٰ مودودی‘ تفہیم القرآن‘ ج ۱)۔ سیدؒ نے قرآن کی تفہیم کے لیے جدید اسلوب اختیار کیا جو عام فہم‘ مستند اور جامع ہے۔
سید مودودیؒ کے نظام فکر کو جدید علم کلام کہا جا سکتا ہے‘ کیونکہ اس میں اصول و قواعد موجود ہیں‘ اصطلاحیں پائی جاتی ہیں‘ اور سب سے بڑھ کر ایک خاص زبان ہے جو اس نظام فکر کی وضاحت اور ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ تاریخ کا یہ فیصلہ معلوم ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کا غالب اسلامی نظام فکر‘ سیدمودودیؒ کا نظام فکر ہے۔ اب یہی علم کلام‘ یہی اصطلاحیں اور یہی زبان ہے جس کا سکہ چلے گا‘ ان شاء اللہ! اس نظام فکر میں تفصیلات کا اضافہ کیا جا سکتا ہے‘ عمل درآمد کے لیے حکمت عملی بھی طے ہوسکتی ہے‘ اور مختلف احوال و ظروف میں ایسا ہونا بھی چاہیے‘ لیکن بنیادی اصولوںسے انحراف ممکن نہیں ہو گا۔
کار ِتجدید میں سید مودودیؒ کا کارنامہ بے مثال ہے۔ وہ نہ صرف اپنے دور میں مسلمانوں کی علمی روایت کے شاہ نشین ہیں‘ بلکہ تجدید و احیاے دین کی فکری و عملی کاوشوں میں بھی قافلہ سالار ہیں۔ وہ ہماری پوری مسلم تاریخ میں بالعموم اور عصر جدید میں بالخصوص اپنی فکر اور کام کے حوالے سے نمایاں حیثیت کے حامل رہیں گے۔ جو لوگ شخصیت پرستی کے ڈر سے سید مرحوم کے بارے میں دبی زبان سے بات کرتے ہیں‘ انھیں اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ تعبیر دین کے بارے میں سید مودودیؒ سے صرف نظر کرکے ہم کہیں نہیں جاسکتے ۔سید مودودیؒ کا حوالہ اتنا طاقت ور حوالہ ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ امر دل چسپی کا باعث ہو گا کہ سید مودودیؒ کی تعبیر دین اب مسلمہ تعبیر دین ہے اور جسے کم و بیش ان لوگوں نے بھی اپنا لیا ہے جو ان کی مخالفت کرتے تھے‘ مثلاً ’’اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے‘‘ کا جملہ سید مودودیؒ نے استعمال کیا۔ اس کی حیثیت ایک مسلمہ اصول کی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک نعرے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے‘ اور یہ نعرہ وہ لوگ بھی لگا رہے ہیں جو اس کی تہہ میں پوشیدہ تعبیر ِدین اور نظامِ فکر سے ناواقف یا خلاف ہیں۔ یقینا تجدیدِ دین حق کے حوالے سے سید مودودیؒ کا یہ بے مثال کارنامہ ہے۔