مولانا مودودیؒ بلاشبہہ عصر حاضرکے ان عظیم مفکرین میں سے تھے‘ جنھوں نے اپنی فکر‘ اپنی سوچ‘ اپنی تحریر اور اپنی قیادت سے نوجوان طبقے کو خدمت اسلام کے لیے سب سے زیادہ متأثر و متحرک کیا۔ آج مسلم دنیا میں جہاں کہیں اسلامی تحریک کا احیا ہے یا وہ فعال طور پر سرگرم کار ہے‘ تو وہ کسی نہ کسی صورت میں سید مودودیؒ ہی کے پیغام و تحریک کا پرتو ہے۔ جہاں جہاں کفر و شرک کے جو رواستبداد کے خلاف جہاد کا علم بلند ہے‘ وہاں وہاں بالواسطہ یا بلا واسطہ سید مودودیؒ ہی کی فکر و تحریک کام کر رہی ہے۔
سید محترمؒ محض کتابی دنیا کے انسان نہیں تھے‘ نہ وہ محض دھیمے لہجے میں تقریر کرنے والے گفتار کے غازی ہی تھے۔ انھوں نے قلم‘ کتاب اور خطاب سے بھرپور رشتہ جوڑنے کے ساتھ ساتھ ان افکار و خیالات اور فلسفۂ اسلامی کو عملی طور پر ایک تحریک کی صورت میں برپا کر کے دنیا کو دکھا دیا کہ اسلامی فکر کے نتیجے میں صدیوں پہلے کی طرح آج بھی ایک اسلامی معاشرہ‘ ایک اسلامی ریاست وجود میں آسکتی ہے۔
بلاشبہہ سید مودودیؒ کے لٹریچر اور ان کی قائم کردہ جماعت اسلامی نے ملک وملت کے سیاسی‘ معاشرتی اور علمی و فکری محاذ پر مثبت اثرات ڈالے ہیں اور وطن ِ عزیز کے ہر طبقے کو متاثرکیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علموں سے لے کر اساتذہ‘ ڈاکٹر‘ کسان‘ محنت کش‘ تاجر‘ سیاسی رہنما‘ صحافی‘ خواتین‘ طالبات حتیٰ کہ بچوں تک میں جماعت کے ہم خیال حلقے بحسن و خوبی کام کررہے ہیں۔ ان میں سے ہر حلقے کے رکن‘ متفق یا حامی یہی سمجھتے ہیں کہ مولانا مودودی مرحوم نے انھیں دین کی لگن‘ سمجھ اور عمل کرنے کا ماحول فراہم کر کے ان پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ یہ سب اپنی حد تک بجا ہے اور بہت خوب ہے لیکن میرے نزدیک ایک مسلمان عورت کو اس کی گم شدہ منزل کی راہ دکھا کر سید صاحب نے عظیم ترین کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس لیے کہ عورت اپنے گھر ہی کونہیں‘ بلکہ پوری قوم کو بگاڑ سکتی ہے اور خالق دو جہاں نے اس سب کو سنوارنے کی بھی اس میں بدرجۂ اتم صلاحیت رکھی ہے۔ اسی لیے پاک بازبیوی کو سب سے بڑی نعمت کہا گیا ہے۔
مولانا مودودیؒ ، عورت کے کردار کی اس اہمیت کو پوری طرح سمجھتے تھے۔ چنانچہ تحریک اسلامی میں خواتین کے کردار سے متعلق ایک مرتبہ انھوں نے فرمایا: ’’بہنو! ہمارے اس کام میں عورتوں کی شرکت اور تعاون کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مردوں کی شرکت اور تعاون کی ہے۔ انسانی زندگی میں آپ برابر کی حصے دار ہیں اور زندگی کے جو پہلو آپ سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ ان پہلوئوں سے کسی طرح بھی اہمیت میں کم نہیں جو مردوں سے تعلق رکھتے ہیں --- یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی بنا پر ہر اجتماعی تحریک‘ عورتوں کی شرکت اور تعاون کو اہمیت دینے پر مجبور ہے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ اسلامی تحریک تو اس کو بہت ہی زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ اسلام ٹھیک ٹھیک خدا کی بنائی ہوئی ساخت کے مطابق انسانی زندگی کا نظام درست کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لیے عورتوں کا درست ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مردوں کا درست ہونا‘ لیکن اس سے بھی بڑھ کر دوسری وجہ یہ ہے کہ اسلام جس خدا کی بندگی کی طرف بلاتا ہے وہ عورتوں کا بھی ویسا ہی خدا ہے جیسا مردوں کا ہے۔ وہ جس دین کو حق کہتا ہے وہ عورتوں کے لیے بھی ویسا ہی حق ہے۔ جس نجات کو مقصود قرار دیتا ہے اس کی ضرورت عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی مردوں کے لیے ہے۔ اور جس جنت کی امید دلاتا ہے وہ عورتوں کو بھی اپنی ہی کوشش سے مل سکتی ہے جس طرح مردوں کو اپنی کوشش سے … اسلام کا تقاضا ہے کہ عورتوں اور مردوں کو یکساں اپنی اپنی نجات کی فکر ہو‘ ہر ایک دل و جان سے وہ خدمات بجا لائے جو اسے خدا کی سزا سے بچائے اور اس کے انعام کا مستحق بنائے … اس وقت عورتوں کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں کو‘ اپنے خاندان اور اپنے ہمسائیوں اور اپنے ملنے جلنے والوں کے گھروں کو شرک و جاہلیت اور فسق سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔ گھروں کی معاشرت کو اسلامی بنائیں۔ پرانی اور نئی جاہلیتوں کے اثرات سے خود بچیں ا ور دوسرے گھروں کو بچائیں۔ ان پڑھ اور نیم خواندہ عورتوں میں دین کی روشنی پھیلائیں۔ تعلیم یافتہ خواتین کے خیالات کی اصلاح کریں۔ خوش حال گھروں میں خدا سے غفلت اور اصول اسلام سے انحراف کی جو بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں ان کو روکیں۔ اپنی اولاد کو اسلام پر اٹھائیں۔ اپنے گھروں کے مردوں کو‘ اگر وہ فسق اور بے دینی میں مبتلا ہوں‘ راہ راست پر لانے کی کوشش کریں‘ اور اگر وہ اسلام کی راہ میں کوئی خدمت کر رہے ہیں تو اپنی رفاقت اور معاونت سے ان کا ہاتھ بٹائیں ‘‘۔ (خطاب اپریل ۱۹۴۷ئ‘ روداد جماعت اسلامی‘ ح ۵‘ ص ۱۰۷)
جماعت اسلامی حلقۂ خواتین کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے مولانا مودودیؒ کی ان ہدایات پر اس طرح لبیک کہا کہ ان کی زندگیاں‘ ان کی دوستیاں‘ ان کا رہن سہن‘ ان کے سماجی تعلقات کی دنیا‘سبھی کچھ بدل کر اسلام کے سانچے میں ڈھل گئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خواتین نے مولانا کے لٹریچر سے اور ان کی قیادت سے ایسے ایسے زرّیں اصول اخذ کیے کہ نہ صرف ان کے اپنے اندر کی دنیا جگمگا اُٹھی‘ بلکہ اس روشنی سے انھوں نے اپنے اپنے ماحول اور اپنے اپنے حلقہ اثر کو بھی منور کرنے کی اپنی سی پوری کوشش کی۔ جماعت کے حلقۂ خواتین میں شامل ہو کر نسلی مسلم خواتین نے شعوری طور پر اسلام کو اس لگن اور جذبے سے قبول کیا‘ کہ نمازوں میں لطف آنے لگا‘ قرآن پاک کی تلاوت کے کچھ اور ہی مفاہیم آشکارا ہونے لگے۔ ایثار اور قربانی کے جذبے کی آبیاری اس طرح کی‘ کہ ’پہلے آپ‘ کا زریں اصول یہیں پر جانا اور برتنا دیکھنے کو ملا۔ اللہ کے لیے دوستی اور اللہ کے لیے دشمنی خود بخود پیدا ہوتی گئی۔ چنانچہ غیر دین دار رشتہ دار دلی محبت میں دوسرے درجے پر چلے گئے‘ لیکن غیر‘ مگر دین دار لوگ دلی محبت کے حق دار ٹھیرے۔ اس طرح مولانا مودودی ؒنے مردوں‘ عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور خاندانوں کو ایک دینی معاشرت کی طرف نہ صرف بلایا‘ بلکہ ایک شفیق اور خلیق معاشرت بھی تشکیل دے کر دکھا دی۔
ان پڑھ خواتین نے ایک دینی جذبے سے اردو لکھنا پڑھنا شروع کیا‘ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ تفہیم القرآن پوری پڑھ ڈالی۔ مولانا محترم کا لٹریچر پڑھنے کے ساتھ ساتھ ذہن نشین بھی کر لیا۔ یہ اللہ کے دین کو سمجھنے اور سمجھانے کی ایک انوکھی لگن تھی‘ کہ جو شروع ہوئی۔
چند بنیادی ارکان خواتین جہاں بھی گئیں‘ دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ ان عظیم دین دار خواتین میں: محترمہ حمیدہ بیگم‘ بیگم سید مودودی‘ بیگم انوار اصلاحی‘ بیگم ملک غلام علی‘ اُمِّ زبیر‘ زبیدہ بلوچ‘ بلقیس صوفی‘ نیر بانو‘ بیگم طفیل محمد‘ بیگم نصراللہ خان عزیز‘ مجتبیٰ مینا‘ بیگم زہرہ وحید وغیرہ‘ یہ سب جماعت ا سلامی کے ابتدائی دور کی تحریکی خواتین تھیں۔ ان میں بعض رکن نہیں تھیں‘ لیکن دعوتِ دین کے کام میں ارکان خواتین کے شانہ بشانہ تھیں۔ اس طرح کارواں بنتا چلا گیا اور حلقۂ خواتین پھیلتا چلاگیا۔ حق تعالیٰ کی یہ بات کتنی وسیع ہے : وہ اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی ]باریک سی[ سوئی نکالی۔ پھر اس نے اسے قوی کیا۔ پھر وہ کھیتی اور موٹی (سرسبز و شاداب) ہوئی۔ پھر اپنے اپنے تنے پر مضبوطی سے کھڑی ہو گئی‘ تاکہ کسانوں کو بھلی لگے ]ان کے لیے خوش منظر ہو اور کافروں کو جلائے کہ اس کی شادابی ان کی امنگوں کے لیے پیغام موت ہے[۔
حلقۂ خواتین جہاں جہاں بھی کام کر کے اخلاص کے بیج ڈالتا گیا‘ وہاں وہاں اخلاص و وفا کی لہلہاتی فصلیں دنوں میں اُگ آئیں اور بہار بن کر دیکھنے سننے والوں کو مسحور کرتی گئیں۔ لاہور میں آپا جی محمدی بیگم کا گھر ۱۹۹ شاد باغ‘ ملتان میں آپا جی صغریٰ کا مسکن ۸۵ حسن پروانہ روڈ‘ سیالکوٹ میں آپا جی نیر بانو کا بیت المسلم‘ کراچی میں آپا جی ام زبیر اور آپا جی بلقیس صوفی کے گھر ‘ڈھاکہ میں محترمہ لمعت النور صاحبہ کی قیام گاہ -- ا ور نہ جانے کون کون سے خوش بخت گھر انوںکی خواتین تھیں۔ یہ سب گویا حلقۂ خواتین کے ہیڈکوارٹر تھے۔ ہر موقع پر ہنگامی صورت حال میں اور پھر معمول کے دنوںمیں‘ غرض ہمیشہ ہی ان گھروں کے دروازے عام خواتین کے لیے کھلے رہتے اور ان کے مکینوں کے چہرے محبت و اخلاص سے کِھلے رہتے ۔ ذیلدار پارک اچھرہ میں مولانا محترم کا گھر تو دین کی راہوں پر چلنے والی خواتین کے لیے گویا دوسرا میکہ تھا‘بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ کیونکہ میکے میں تو کچھ دوسرے خوشگوار اور ناخوشگوار موضوع بھی زیربحث آتے ہیں‘ لیکن یہ میکہ تو آخرت کے گھر تک کامیابی کا راستہ بتانے والا تھا۔ ہر مسئلے کے حل کے لیے اور ہر تربیتی موقع پر خواتین نہایت اعتماد اوراپنائیت سے بیگم محمودہ مودودیؒ کے توسط سے مولانا محترم سے رہنمائی لیا کرتیں۔
خواتین نے سماجی زندگی میں ایک نئے کلچر کو اختیار کیا۔ کپڑوں اور جوڑوں کے تبادلے یا ان کے رنگوں کے مقابلے اور امارت کی دھونس کے بجاے زندگی گزارنے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے دینی کتب اور بچوں کے لیے اصلاحی لٹریچر کے تحفے دینے کا کلچر عام ہوا۔ مجھے مردوں کے حوالے سے تو علم نہیں‘ تاہم خواتین کارکنان کے حوالے سے معلوم ہے کہ ان کے وسائل کا ایک بڑا حصہ ذاتی سطح پر کتب خرید خرید کر لوگوں کو تحفے میں دینے میں صرف ہوتا ہے۔ خطبات‘ دینیات‘ ترجمہ قرآن‘ تفہیم القرآن اور محمد یوسف اصلاحی صاحب کی آدابِ زندگی کو پڑھنے اور اسے تقسیم کرنے کا ایک شوق ہے کہ جو کبھی کم نہیں ہوتا۔ کیا کسی اور صوفی یا مذہبی حلقے میں بھی ایسی سرگرمی اور اتنے بڑے پیمانے پر دیکھنے میں آتی ہے؟ --- یہ سب سید مودودیؒ کی اس فکر کا نتیجہ ہے کہ دین اور اصلاح کی راہوں میں عورت رہنمائی کا ایک طاقت ور ذریعہ ہے‘ مگر افسوس کہ اس خدمت کا ادراک کم لوگوں کو ہے۔
حلقۂ خواتین کے قیام کے تقریباً ۲۸ برس بعد ]ستمبر ۱۹۶۹ء میں[ اسلامی جمعیت طالبات کا وجود عمل میں آیا‘ جس کی پہلی ناظمہ اعلیٰ محترمہ شکورہ آفتاب اور پہلی ناظمہ صوبہ پنجاب ڈاکٹر اُمِّ کلثوم تھیں۔ یوں خواتین کے ساتھ ساتھ پڑھی لکھی طالبات بھی فکر و فہمِ اسلام کا گراں قدر سرمایہ سمیٹتی رہیں اور دوسروں کو بھی اس صراط مستقیم پر لانے کے لیے دل و جان سے کوشاں رہیں۔
یہ اسلام کے صحیح فکر و فہم اور اس سے محبت ہی کی کرشمہ سازی ہے‘ کہ سیدھی سادی خواتین رزق حرام و حلال کے بارے میں سخت حساس ہو گئیں‘ اور ہر میدان میں ان کی کارکردگی نمایاں ہوتی گئی۔ تحریری محاذ‘ سیاسی محاذ‘ خدمتِ خلق‘ تعلیم و تربیت‘ غرض کہیں بھی تو انھوں نے مایوسی‘ کم ہمتی‘ بے چارگی کو پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ تحریری میدان میں پہلے ماہنامہ عفت پھر ماہنامہ بتول اور بچوں کے لیے ماہنامہ نور کا اجرا کیا۔ ’ادب براے زندگی اور زندگی براے بندگی رب‘ کی خوب صورت اور مستقل بنیاد پر قلم کار خواتین کو تلاش کیا۔ ان کی حوصلہ افزائی کی اور یوں اباحیت پسند اور لادینی ادب کے آگے ایک بند باندھنے کی کوشش کی۔ سیاسی میدان میں بھی گھر گھر جا کر راے عامہ کو ہموار کرنا‘ صحیح اور غلط کی پہچان کروانا اور پولنگ کے دن بیلٹ بکس کی حفاظت اپنی جان سے بڑھ کر کرنا‘ یہ سب حلقۂ خواتین کا حیرتوں میں گم کر دینے والا باب ہے۔ جماعت اسلامی نصف صدی سے زائد کا سفر طے کرچکی ہے۔ دین اسلام اور اسوہ رسولؐ میں ایسی ازلی جاذبیت ہے کہ جو کوئی اس راستے پر چل نکلا اس کی دنیا ہی بدل گئی۔ خصوصاً خواتین کے حصے میں یہ نعمت بھی آئی کہ جہاں انھوں نے بعض اوقات اپنے شوہر کو صراطِ مستقیم کی راہ دکھائی‘ وہاں اپنے بچوں کی تربیت بھی اس دعا اور اس کوشش سے کی کہ‘ وہ بھی حق کے راہی بن گئے‘ اور اگر کہیں ان کی کوششیں بوجوہ رنگ نہ لا سکیں تو بھی ان کا اجر ان شاء اللہ کوشش کرنے کے نتیجے میں محفوظ و مامون ہو گا۔
ہم خواتین پر یہ سید مودودی ؒ کا احسان نہیں تو کیا ہے کہ انھوں نے اس دور میں ہمیں ہمارا بھولا ہوا سبق یاد کروا دیا۔ ہم گم کردہ راہ کو دوبارہ صراطِ مستقیم کی راہ دکھا دی!