مولانا مودودیؒ بیسویں صدی کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ انھوں نے اسلام کے مکمل نظام حیات کو مضبوط عقلی دلائل کے ساتھ جدید دور کی زبان میں اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کی تقریر اور تحریر سے پوری انسانی زندگی کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کا جامع علم حاصل ہوجاتا ہے۔ انھوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ دور حاضر کے تمام فتنوں کا بڑی مہارت کے ساتھ مقابلہ کیا اور اسلامی نظام زندگی کی برتری اور فوقیت کو اچھی طرح سے ثابت کر دیا ہے۔ مزید برآں انھوں نے اسلامی نظام کی صرف نظری وضاحت ہی نہیں کی‘ بلکہ یہ بھی سمجھایا کہ اس نظام رحمت کو جدید دور میں کس طرح بالفعل قائم کیا جا سکتا ہے۔
اسلامی ریاست کے عملی نظام کار کی وضاحت و تشریح کا کام انھوں نے اعتماد‘ یقین‘ مہارت اور بالغ نظری سے انجام دیا۔ انھوں نے عصرِحاضر کے جملہ تقاضوں کے پیش نظر اپنی اجتہادی بصیرت اور خداداد صلاحیتوں سے ایک اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پوری تفصیل سے پیش کیا ہے۔ اسلام کے اصول حکمرانی‘ اسلامی ریاست کے قیام کا نقشہ‘ اس میں اسلامی قوانین کے نفاذ‘ اسلامی قانون کے ماخذ اورعصرحاضر میں اسلامی قوانین کے قابل نفاذ ہونے کے امور پر بحث کی اور واضح لائحہ عمل دیا۔ ان امور کی توضیح و تشریح انھوں نے اپنی مختلف تقاریر‘ مضامین اور کتب میں پورے شرح وبسط کے ساتھ کی۔
میں ان دنوں قصور میں وکالت کرتا تھا۔ اس کلوکیم کے بعض اجلاسوں میں حاضر ہو کر میں نے عالم اسلام کے نامور اسکالروں کے بلند پایہ مقالات سے استفادہ کیا تھا۔
دنیا بھر کے فاضل اسکالروں کی اس مجلسِ مذاکرہ میں مولانا مودودیؒ نے ۳ جنوری ۱۹۵۸ء کو ’’اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام‘‘ کے عنوان سے ایک بیش قیمت مقالہ پیش کیا تھا‘ جو بہت پسند کیا گیا۔ خاص طور پر عرب ممالک سے آئے ہوئے ممتاز علما نے بہت داد دی تھی۔
اجتہاد کی تعریف بیان کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے فرمایا کہ قانون سازی کا یہ سارا عمل‘ جو اسلام کے قانونی نظام کو متحرک بناتا اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ اس کو نشوونما دیتا چلا جاتا ہے‘ اس علمی تحقیق اور عقلی کاوش کا نام اسلامی اصطلاح میں اجتہاد ہے۔ بعض لوگ غلطی سے اجتہاد کو بالکل آزادانہ استعمالِ رائے کے معنوں میں لے لیتے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا شخص جو اسلامی قانون کی نوعیت سے واقف ہو‘ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس طرح کے ایک قانونی نظام میں کسی آزادانہ اجتہاد کی بھی کوئی گنجایش ہو سکتی ہے۔ یہاں تو اصل قانون قرآن و سنت ہے۔ جو قانون سازی انسان کر سکتے ہیں‘ وہ لازماً یا تو اس اصل قانون سے ماخوذ ہونی چاہیے یا پھر ان حدود کے اندر ہونی چاہیے جن میں وہ استعمال رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر جو اجتہاد کیا جائے‘ وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔
مولانا مودودیؒ نے اجتہاد کا صحیح طریقہ بھی تفصیل سے بیان کیا اور آخر میں یہ بتایا کہ اجتہاد کو قانون کا مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے یہ چار صورتیں بیان کیں: l یہ کہ تمام امت کے اہل علم کا اس پر اجماع ہو۔ l یہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبول عام حاصل ہو جائے۔ l یہ کہ کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قرار دے لے۔ l چوتھی یہ کہ ریاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنا دے۔
مولانا مودودیؒ نے اسٹوڈنٹس یونین لا کالج کی تقریب میں اپنے پون گھنٹے کے خطاب کو ان دو امور کی اچھی طرح وضاحت تک مرکوز رکھا۔ اور فرمایا: ’’اسلامی قانون کا سب سے پہلا اور اہم ماخذ قرآن مجید ہے‘ جو انھی الفاظ میں محفوظ ہے‘ جن میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم پر نازل ہوا تھا۔ وہ آسمانی ہدایات اور الٰہی تعلیمات کا جدید ترین مجموعہ (latest edition) ہے۔ مسلمان کے لیے اصل سند اور حجت قرآن پاک ہے‘‘۔
اسلامی قانون میں سنت کے مقام و مرتبے کے بارے میں مولانا مودودیؒ نے وضاحت فرمائی: ’’اسلامی قانون کا دوسرا ماخذ سنت رسولؐ ہے۔ سنت سے ہی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے قرآن مجید کی ہدایات کو سرزمین عرب پر کس طرح نافذ کیا تھا۔ کس طرح اس کے مطابق ایک اسلامی معاشرہ اور ایک اسلامی ریاست قائم کی تھی اور اسلامی ریاست کے مختلف شعبوں کو کس طرح چلایا تھا۔ اس طرح سنت ہمارے دستوری قانون کا دوسرا اور بڑا اہم ماخذ ہے‘‘۔
انھوں نے فرمایا: ’’افسوس ہے کہ ایک عرصے سے ایک گروہ سنت کی اہمیت کو کم کرنے اور اس کے قانونی حجت ہونے کے پہلو کا انکار کر کے لوگوں کے ذہنوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔ مولانا مودودیؒ نے سنت کے حجت ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ’’حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم‘ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر‘ حاکم اور معلم بھی ہیں‘ جن کی پیروی و اطاعت قرآن کی رو سے تمام مسلمانوں پر لازم ہے اور جن کی زندگی کو قرآن نے تمام اہل ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم ان تمام حیثیتوں میں مامور من اﷲ ہیں۔ اس بنا پر اسلام کے قانونی نظام میں سنت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ نے بتایا: ’’تیسرا ماخذ خلافت راشدہ کا تعامل ہے۔ خلفائے راشدین نے جس طرح آنحضوؐرکے بعد مدینہ کی اسلامی ریاست کو چلایا‘ اس کے نظائر اور روایات سے حدیث‘ تاریخ اور سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سب چیزیں ہمارے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی روشنی میں آج کے دور میں ایک اسلامی ریاست کو نہایت خوبی سے چلایا جاسکتا ہے‘‘۔
چوتھے ماخذ قانون کے طور پر مولانا مودودیؒ نے بتایا: ’’یہ مجتہدین امت کے وہ فیصلے ہیں‘ جو انھوں نے مختلف دستوری مسائل پیش آنے پر اپنے علم و بصیرت کی روشنی میں کیے تھے۔ یہ فیصلے اسلامی دستور کی روح اور اس کے اصولوں کو سمجھنے میں ہماری بہترین رہنمائی کرتے ہیں‘‘۔
اسلامی قانون کے چاروں ماخذ کی تشریح و توضیح کے بعد مولانا مودودیؒ نے اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب دیا کہ چودہ صدیاں پرانا اسلامی قانون جدید زمانے کی سوسائٹی اور ریاست کی ضروریات کے لیے کس طرح کافی ہو سکتا ہے؟ اس سلسلے میں اسلامی قانون کی نام نہاد سختی اور فقہی اختلافات کے بہانے کا تسلی بخش جواب بھی انھوں نے دیا۔
مولانا مودودیؒ کے خطاب کے دوران لا کالج ہال میں بالکل خاموشی چھائی رہی اور لا کالج اور یونی ورسٹی کے دوسرے شعبوں کے طلبہ نے پوری توجہ سے ان کا خطاب سنا۔ بعض لوگوں نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ پہلی دفعہ ایک عالم دین کو موضوع کے عین مطابق تقریر کرتے ہوئے سنا ہے جس کے نتیجے میں طلبہ کو یکسوئی حاصل ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ قیام پاکستان کے چند ماہ بعدہی مولانا مودودیؒ‘ مطالبہ نظام اسلامی لے کر اٹھے تھے‘ تب پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن اور پنجاب یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر حیات ملک نے انھیں یونی ورسٹی لا کالج میں اسلامی قانون کے حوالے سے لیکچر دینے کی دعوت دی تھی۔ اس دعوت پر مولانا مودودیؒ نے ۶ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامی قانون کے موضوع پر ایک مفصل لیکچر دیا تھا۔ جس میں اسلامی قانون کی حقیقت‘ اس کی روح‘ اس کا مقصد اور اس کے بنیادی اصول وضاحت سے بیان کیے تھے۔ اس کے بعد ۱۲ فروری ۱۹۴۸ء کو ’’پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہو سکتا ہے‘‘ کے موضوع پر یونی ورسٹی لا کالج لاہور میں ایک اور لیکچر دیا تھا۔
دسمبر ۱۹۷۱ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد فوجی جرنیلوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل یحییٰ خان کی جگہ پاکستان کا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر نامزد کیا تھا۔ صدارت کا منصب سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد بھٹو صاحب نے مولانا مودودیؒ کو یہ پیغام بھیجا کہ: میں ملاقات کے لیے آپ کے ہاں آنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس پر یہ طے ہوا کہ مولانا مودودیؒ‘ بھٹو صاحب سے گورنمنٹ ہاؤس لاہور میں ملاقات کر لیں۔ اس ملاقات کے لیے مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے ساتھ میں گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے مولانا سے کہا: ’’آپ عالم اسلام کے نام ور عالمِ دین ہیں۔ میں بچے کھچے پاکستان کی حکومت چلانے کے لیے آپ کے تعاون کا طلب گار ہوں‘ کیونکہ ہماری پارٹی کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ نے فرمایا: ’’بھٹو صاحب‘ آپ نے عام انتخابات میں سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا۔ پھر معروف سوشلسٹ اور دین سے بے زار افراد آپ کی حکومت میں شامل ہیں۔ ان لوگوں کی موجودگی میں‘ ہم کس طرح تعاون کر سکتے ہیں؟‘‘