مولانا مودودیؒ کا یہ معمول تھا کہ آپ صبح آٹھ بجے ناشتہ کرتے اور دفتر تشریف لے آتے۔ جواب طلب خطوط اگر ہوتے تو ان کے جوابات لکھتے۔ جب تک آپ امیر جماعت رہے تو اس دوران میں امیر جماعت کی حیثیت سے جو ڈاک آتی اسے بھی نمٹاتے۔
دفتری اوقات میں ملاقات کے لیے بھی لوگ آتے رہتے تھے۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان، وکلا، علما و دانش ور اور دیگر معززین تشریف لاتے۔ نماز ظہر تک یہ سلسلہ جاری رہتا۔ ایک بجے نماز ظہر ادا کی جاتی۔ نماز کے بعد اندر کھانے کی میز پر کھانا تیار ملتا۔ اہل خانہ مولانا صاحب کے انتظار میں بیٹھے ہوتے۔ اس انتظارکا وقت چند منٹوں تک محدود رہتا۔
دوپہر کے کھانے کے بعد اندر ہی کمرے میں لیٹ کر اخبار کا مطالعہ فرماتے۔ قومی جملہ اردو، انگریزی اخبارات دیکھتے۔ انگریزی بیرونی رسائل بھی دیکھے جاتے اور ضرورت کی اہم چیزوں پر نشان لگا دیے جاتے۔ اسی دوران میں اگر نیند غلبہ کرتی تو کچھ دیر کے لیے نیند کر لیتے۔ اردو انگریزی جتنے اخبار اندر ساتھ لے جاتے تھے وہ سب عصر کے وقت جب دفتر میں تشریف لاتے تو واپس لے آتے۔ انھیں ایک متعین جگہ پر رکھوا دیا جاتا۔پھر نماز عصر ادا کی جاتی۔ نماز کے بعد اندر تشریف لے جاتے اور ایک کپ چائے نوش فرماتے۔ نماز عصر کے بعد چائے لازماً پیتے تھے یہ ان کا معمول تھا۔ باقی دن میں کسی مہمان کے لیے چائے تیار کروائی جاتی تو مہمان کے ساتھ شریک ہوجاتے۔ ناشتے کی چائے کے علاوہ یہ چائے ہوتی جو مہمان کے ساتھ پیا کرتے تھے۔
نماز عصر کی چائے کے بعد اپنی قیام گاہ کے صحن میں تشریف لاتے۔ حاضرین بھی اور باہر سے آنے والے بھی اور مقامی حضرات بھی آ جاتے۔ اخبارات کی سیاسی خبروں اور تبصروں پر ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی۔ دیگر ہر طرح کے سوال بھی پیش کیے جاتے اور بہت مختصر سے جوابات دیے جاتے۔ سائل اپنے جواب پر مطمئن ہو جاتے تھے۔
مغرب کی اذان سے کچھ قبل یہ خوش گوار مجلس ختم ہو جاتی۔ مولاناؒ نماز مغرب کے بعد اپنے دفتر میں بیٹھ جاتے۔ اور اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔
رات کے کھانے اور نماز عشاء کے بعد پھر دفتر میں بیٹھ جاتے اور دیر تک کام کرتے تھے۔ تفہیم القرآن کا آخری حصہ بھی انھی اوقات میں مکمل کیا گیا۔ رات کو بھی کم ہی سوتے تھے۔ بسااوقات صبح کی اذان ہو جاتی تھی۔ رمضان المبارک میں ۲۰ تراویح ادا کرنے کے بعد پھر دفتر میں بیٹھ کر کام شروع کر دیتے تاآنکہ گھر والے سحری کھانے کے لیے بلاتے۔ نماز فجر کے بعد آرام کی غرض سے کچھ دیر سوتے تھے۔ رمضان کے مہینہ کے علاوہ بھی سونے کا یہی وقت تھا۔