دور حاضر میں سب سے بڑی تحریک جو سماجی ڈھانچے اور انسانی تعلقات کی تمام بنیادوں میں ایک زبردست تبدیلی لا رہی ہے وہ ہے تحریک نسواں یا Women's Liberation ۔ یہ تحریک کوئی دور جدید کی انوکھی پیش کش نہیں ہے۔ اس کے تاریخی نظائر دور قدیم میں بھی ملتے ہیں۔
تحریکِ نسواں کی تاریخ میں سینکافالز کنونشن (Ceneca Falls Convention) منعقدہ ۱۸۴۸ء کوسنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کنونشن کے اعلامیے میں عورتوں کے جن حقوق کا مطالبہ کیا گیا‘ ان میں جایداد پر عورت کے مکمل کنٹرول‘ عورت کے خاوند سے علیحدگی اور اسے طلاق دینے کا حق‘ بچوں کی سرپرستی‘ ایک جیسے کام کے لیے مرد کے معاوضے کے مساوی حقوق‘ ملازمت میں ہر قسم کے صنفی امتیاز کے خاتمے جیسے حقوق شامل تھے۔ عورت کی مظلومیت کے نام پر کھڑی ہونے والی تحریک جتنی آگے بڑھتی گئی‘ قدامت پسند رہنماؤں نے اسی قدر خود کو مظلومیت نسواں کے واحد مسئلے کا جواب دینے تک محدود کرنا شروع کر دیا۔
جب ہم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو تمدنی نظام میں عورت کے حوالے سے افراط و تفریط کا معاملہ نظر آتا ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عورت جو ماں کی حیثیت سے آدمی کو جنم دیتی ہے اور بیوی کی حیثیت سے زندگی کے ہر نشیب و فراز میں مرد کی رفیق رہتی ہے‘ وہی ہستی بڑی بے دردی کے ساتھ لونڈی کے مرتبے میں رکھ دی جاتی ہے۔ اس کو بیچا اور خریدا جانا ماضی سے لے کر عصر حاضر تک روا رکھا جاتا ہے۔ اس کو ملکیت اور وراثت کے تمام حقوق سے محرم رکھا جاتا ہے۔ اس کو گناہ اور ذلت کا مجسمہ سمجھا جاتا ہے‘ اور اس کی شخصیت کو ابھرنے اور نشوونما پانے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ دوسری طرف ہم کو یہ بھی نظر آتا ہے کہ وہی عورت پراپیگنڈے کے بل پر اٹھائی اور ابھاری جا رہی ہے۔ مساوات و ترقی کے نام پر شہوانیت اور بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ خاندانی نظام‘ جو تمدن کی بنیاد ہے وہ منہدم ہونے کو ہے۔ اس اخلاقی تنزل کے ساتھ ساتھ ذہنی‘ جسمانی اور مادی قوتوں کا تنزل بھی عمل پذیر ہو رہا ہے۔ جس کا انجام ہلاکت اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
دیکھیے کہ اس ماحول کے اثرات آپ کی قوم پر کیا پڑ رہے ہیں۔ کیا آپ کی سوسائٹی میں اب غض بصر کا کہیں وجود ہے؟ کیا لاکھوں میں ایک آدمی بھی کہیں ایسا پایا جاتا ہے جو اجنبی عورتوں کے حسن سے آنکھیں سینکنے میں باک کرتا ہو؟کیا علانیہ آنکھ اور زبان کی زنا نہیں کی جا رہی ہے؟ کیا آپ کی عورتیں بھی تبرج جاہلیہ اور اظہار زینت اور نمایش حسن سے پرہیز کر رہی ہیں؟ کیا آج آپ کے گھروں میں ٹھیک وہی لباس نہیں پہنے جا رہے ہیں‘ جن کے متعلق آنخضرت صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: نساء کا سیات عادیات حمیلات مائلات؟ --- کیا آپ کی سوسائٹی میں فحش قصے اور عشق و محبت کے گندے واقعات بے تکلفی کے ساتھ کہے اور سنے نہیں جاتے؟ جب حال یہ ہے تو فرمایئے کہ طہارت اخلاق کا وہ پہلا اور سب سے مستحکم ستون کہاں باقی رہا‘ جس پر اسلامی معاشرت کا ایوان تعمیر کیا گیا تھا؟ (پردہ‘ ص ۳۵۷ - ۳۵۸)
اس کے ساتھ ہی ہندستان میں رائج قانون اور حکومتی انتظام کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے ثابت کیا کہ تمدن و تہذیب کی بحالی اور عورت کے وقار و مرتبے کا لحاظ اسی وقت ممکن ہے کہ جب نظام معاشرت کو اسلام پر قائم کیا جائے۔ وہ لکھتے ہیں:
تمام ہندستان سے اسلامی تعزیرات کا پورا قانون مٹ چکا ہے۔ زنا اور قذف کی حد نہ مسلمان ریاستوں میں جاری ہوتی ہے نہ برٹش انڈیا میں --- اگر کسی شریف بہو بیٹی کو کوئی شخص بہکا کر بدکار بنانا چاہے تو آپ کے پاس کوئی قانونی ذریعہ ایسا نہیں‘ جس سے اس کی عصمت محفوظ رکھ سکیں --- منکوحہ عورت کو بھگا لے جانا جرم ہے۔ مگر انگریزی قانون جاننے والوں سے دریافت کیجیے کہ اگر منکوحہ عورت خود اپنی رضامندی سے کسی کے گھر جا پڑے تو اس کے لیے آپ کے فرمانرواؤں کی عدالت میں کیا چارۂ کار ہے۔ (پردہ‘ ص ۳۵۹)
شریعت الٰہی کے عورتوں سے مطالبات کیا ہیں] اور ان کی شاہراہ زندگی کا رخ کس طرح متعین ہوتا ہے[‘ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’یہ عورت کی اصل خوبی ہے کہ وہ بے شرم اور بے باک نہ ہو بلکہ نظر میں حیا رکھتی ہو۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے درمیان عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے ان کے حسن و جمال کی نہیں بلکہ ان کی حیا داری اور عفت مآبی کی تعریف فرمائی ہے۔ حسین عورتیں تو مخلوط کلبوں‘ فلمی نگار خانوں میں بھی جمع ہو جاتی ہیں‘ اور حسن کے مقابلوں میں تو چھانٹ چھانٹ کر ایک سے ایک حسین عورت لائی جاتی ہے‘ مگر صرف ایک بدذوق اور بدقوارہ آدمی ہی ان سے دل چسپی لے سکتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ج ۵‘ ص ۲۶۸)
ان مطالبات کے ساتھ ہی مغرب کی فریب کاریوں کی شکار عورت کو اس حقیقت سے روشناس کرواتے ہیں‘ کہ مسلم معاشرے میں عورت کی کیا حیثیت ہو گی؟:’’مسلمان عورت دنیا اور دین میں مادی‘ عقلی اورروحانی حیثیات سے عزت اور ترقی کے ان بلند سے بلند مدارج تک پہنچ سکتی ہے جن تک مرد پہنچ سکتا ہے‘اور اس کا عورت ہونا کسی مرتبے میں بھی اس کی راہ میں حائل نہیں ہے۔ آج بیسیویں صدی میں بھی دنیا‘ اسلام سے بہت پیچھے ہے۔ افکار انسانی کا ارتقا اب بھی اس مقام تک نہیں پہنچا ہے جس پر اسلام پہنچا ہے۔ مغرب نے عورت کو جو کچھ دیا ہے عورت کی حیثیت سے نہیں دیا ہے بلکہ مرد بنا کر دیا ہے۔ عورت درحقیقت اب بھی اس کی نگاہ میں ویسی ہی ذلیل ہے جیسی پرانے دور جاہلیت میں تھی۔ گھر کی ملکہ‘ شوہر کی بیوی‘ بچوں کی ماں‘ ایک اصلی اور حقیقی عورت کے لیے اب بھی کوئی عزت نہیں۔ عزت اگر ہے تو اس ’مرد مؤنث‘ یا ’زن مذکر‘کے لیے‘ جو جسمانی حیثیت سے توعورت ہو مگر دماغی اور ذہنی حیثیت سے مرد ہو اور تمدن و معاشرت میں مرد ہی کے سے کام کرے۔ ظاہرہے کہ یہ انوثت کی عزت نہیں‘ رجولیت کی عزت ہے۔ پھر احساس پستی کی ذہنی الجھن (inferiority complex)کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ مغربی عورت مردانہ لباس فخر کے ساتھ پہنتی ہے‘ حالانکہ کوئی مرد زنانہ لباس پہن کر برسرعام آنے کا خیال بھی نہیں کر سکتا --- اسلامی تمدن عورت کو عورت اور مرد کو مرد رکھ کر دونوں سے الگ الگ وہی کام لیتا ہے جس کے لیے فطرت نے اسے بنایا ہے‘‘۔ (پردہ‘ ص ۲۵۶ -۲۵۷)
اس مسئلے کا مدلل جواب دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اول یہ کہ دنیا میں جہاں بھی قانونی یک زوجی (legal monogamy) رائج کیا گیا ہے‘ وہاں غیر قانونی تعدد ازدواج (illegal polygamy) کو فروغ نصیب ہو کر رہا ہے۔ آپ کوئی مثال ایسی پیش نہیں کر سکتے کہ قانونی یک زوجی نے کہیں کسی بھی زمانے میں عملی یک زوجی کی شکل اختیار کی ہو۔ اس کے برعکس اس قانونی پابندی کا نتیجہ ہر جگہ یہی ہوا ہے کہ آدمی کی جائز بیوی تو صرف ایک ہوتی ہے‘ مگر حدود نکاح سے باہر وہ عورتوں کی غیر محدود تعداد سے عارضی اور مستقل‘ ہر طرح کے ناجائز تعلقات پیدا کرتا ہے جن کی کوئی ذمہ داری وہ قبول نہیں کرتا --- اب آپ کے سامنے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آپ یک زوجی کو اختیار کریں یا تعدد ازدواج کو‘ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ قانونی تعدد ازدواج کو قبول فرماتے ہیں یا غیر قانونی تعدد ازدواج کو؟ اگر پہلی چیز آپ کو قبول نہیں ہے تو دوسری چیز آپ کو لازماً قبول کرنی پڑے گی اور اس کے ساتھ کنواری ماؤں اور حرامی بچوں کی اس روز افزوں تعداد کا بھی خیرمقدم کرنا ہو گا‘ جو قانونی یک زوجی پر عمل کرنے والے ملکوں کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ بن چکی ہے‘‘۔ (مسئلہ تعدد ازدواج‘ ص ۳۱)
دورِ حاضر میں باطل تہذیب کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ اس نے حقوق کی جنگ میں فرائض کو پیچھے دھکیل دیا۔ مسلمان عورت بھی اس فریب کا شکار ہے۔ عورت کو اس کے فرائض یاد دلاتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے لکھا: ’’اﷲتعالیٰ جس طرز عمل سے عورتوں کو روکنا چاہتا ہے‘ وہ ان کا اپنے حسن کی نمایش کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلنا ہے۔ وہ ان کو ہدایت فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹک کر رہو‘ کیونکہ تمھارا اصل کام گھر میں ہے نہ کہ اس سے باہر …بن ٹھن کر نکلنا‘ چہرے اور جسم کے حسن کو زیب و زینت اور چست لباسوں سے نمایاں کرنا اور ناز و انداز سے چلنا‘ ایک مسلم معاشرے کی عورتوں کا کام نہیں ہے۔ یہ جاہلیت کے طور طریقے ہیں جو اسلام میں نہیں چل سکتے‘‘۔ (تفہمیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۹۱-۹۲)
آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مغربی تہذیب کبھی حقوق کے نام پر‘ کبھی ثقافت کے نام پر اور کبھی ترقی کے نام پر جس چیز کو باقاعدہ ہدف بنا کر زد پہنچاتی ہے وہ عورت کی حیا ہے‘ اس کی عفت و عصمت ہے۔ اسلامی کلچر اور مغربی کلچر میں اصل فرق حیا اور بے حیائی کا ہے۔ اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ سورئہ احزاب کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اب ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار انداز گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ اور اسے مردوں کے سامنے بلاضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے۔ کیا وہ کبھی اس کو پسند کرسکتا ہے کہ عورت اسٹیج پر آ کر گائے‘ ناچے‘ تھرکے‘ بھاؤ بتائے اور ناز و نخرے دکھائے؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سنا سنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں؟ یا ہوائی میزبان بنائی جائیں اور انھیں خاص طور پر مسافروں کا دل لبھانے کی تربیت دی جائے؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھل مل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کیا گیا ہے؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے۔ اس میں کہیں اس کلچر کی گنجایش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کر دی جائے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۸۹-۹۰)
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’’جو شخص اسلامی قانون کے مقاصد کو سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ عقلِ عام (common sense) بھی رکھتا ہے‘ اس کے لیے یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ عورتوں کو کھلے چہروں کے ساتھ باہر پھرنے کی عام اجازت دینا ان مقاصد کے بالکل خلاف ہے جن کو اسلام اس قدر اہمیت دے رہا ہے۔ ایک انسان کو جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے‘ وہ اس کا چہرہ ہی تو ہے۔ انسان کی خلقی و پیدایشی زینت یا دوسرے الفاظ میں انسانی حسن کا سب سے بڑا مظہر چہرہ ہے۔ نگاہوں کو سب سے زیادہ وہی کھینچتا ہے۔ جذبات کو سب سے زیادہ وہی اپیل کرتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے نفسیات کے کسی گہرے علم کی ضرورت نہیں۔ خود اپنے دل کو ٹٹولیے‘ اپنی آنکھوں سے فتویٰ طلب کیجیے‘ اپنے نفسی تجربات کا جائزہ لیجیے --- اگر اصل مقصد اسی طوفان کو روکنا ہو تو --- اس سے زیادہ خلاف حکمت اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس کو روکنے کے لیے چھوٹے چھوٹے دروازوں پر تو کنڈیاں چڑھائی جائیں اور سب سے بڑے دروازے کو چوپٹ کھلا چھوڑ دیا جائے‘‘۔ (پردہ‘ ص ۳۲۵-۳۲۶)
اسلام کے نظام اخلاق میں فقہی احکامات کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ صرف مردوں سے نہیں‘ بلکہ عورتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کے ضمیر کو جگاتے ہیں: ’’اسی فتنۂ نظر کا ایک شاخسانہ وہ بھی ہے جو عورت کے دل میں یہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ اس کا حسن دیکھا جائے۔ یہ خواہش ہمیشہ جلی اور نمایاں ہی نہیں ہوتی‘ دل کے پردوں میں کہیں نہ کہیں نمایش حسن کا جذبہ چھپا ہوا ہوتا ہے اور وہی لباس کی زینت میں‘ بالوں کی آرایش میں‘ باریک اور شوخ کپڑوں کے انتخاب میں اور ایسے ایسے خفیف جزئیات تک میں اپنا اثر ظاہر کرتا ہے جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ قرآن نے ان سب کے لیے ایک جامع اصطلاح تبرج جاہلیۃ استعمال کی ہے۔ ہر وہ زینت اور ہر وہ آرایش جس کا مقصد شوہر کے سوا دوسروں کے لیے لذتِ نظر بننا ہو‘ تبرج جاہلیہ کی تعریف میں آ جاتی ہے۔ اگر برقع بھی اس غرض کے لیے خوب صورت اور خوش رنگ منتخب کیا جائے کہ نگاہیں اس سے لذت یاب ہوں تو یہ بھی تبرج جاہلیت ہے۔ اس کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ اس ]چیز[ کا تعلق عورت کے اپنے ضمیر سے ہے۔ اس کو خود ہی اپنے دل کا حساب لینا چاہیے کہ اس میں کہیں یہ ناپاک جذبہ تو چھپا ہوا نہیں ہے۔ اگر ہے تو وہ اس حکم خداوندی کی مخاطب ہے: وَلَا تَبَّرجْنَ تَبَرْجَ الْجَاھِلِیَّۃَ الْاُؤلٰی احزاب: ۲۳۔ (پردہ‘ ص ۲۶۶)
مولانا نے اس سوچ کو صحیح رخ دیا کہ اندھے مقلد بن کر رہنا خود اﷲ کی نظر میں بھی مطلوب نہیں‘ بلکہ دین کی حقیقت آپ کے سامنے ہے۔ اچھی طرح جانچ کر پرکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ اسے اپنی زندگی کے دین کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں یا نہیں۔
فروری ۱۹۴۸ء کو لاہور میں خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے ان نکات کی بھی نشان دہی کی جو مسلمان عورت کا طرز عمل ہونا چاہییں: ’’اس طرح سوچ سمجھ کر جو خواتین بطور خود اسلام کو اپنا دین بتائیں ان کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے کرنے کا کام کیا ہے؟ آپ کا پہلا کام یہ ہے کہ اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں اور اپنے اندر سے جاہلیت کی ایک ایک چیز کو چن چن کر نکالیں۔ اپنے اندر یہ تمیز پیدا کریں کہ کیا چیزیں اسلام کی ہیں اور کیا چیزیں جاہلیت کی --- آپ کا دوسرا کام یہ ہے کہ گھر کی فضا کو درست کریں۔ اس فضا میں پرانی جاہلیت کی جو رسمیں چلی آرہی ہیں‘ ان کو بھی نکال باہر کریں اور نئے زمانے کی جاہلیت کے جو اثرات انگریزی دور میں ہمارے گھروں میں داخل ہو گئے ہیں‘ انھیں بھی خانہ بدر کریں --- آپ کا تیسرا کام یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اسلامی طرز پر تربیت دیں --- نئی نسل کے لیے یہ سب کچھ ہمیں درکار ہے۔ پس وہ تمام عورتیں جو اسلام کو قبول کریں انھیں چاہیے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی گودوں اور اپنے گھروں کو مسلمان بنائیں‘ تاکہ ان میں ایک مسلمان نسل پروان چڑھے --- آپ کا چوتھا کام یہ ہے کہ اپنے گھروں کے مردوں پر اثر ڈالیں۔ اپنے شوہروں‘ باپوں‘ بھائیوں اور بیٹیوں کو اسلام کی زندگی کی طرف بلائیں۔ عورتوں کو نہ معلوم یہ غلط فہمی کہاں سے ہو گئی ہے کہ وہ مردوں کو متاثر نہیں کر سکتیں۔ مسلمان عورت اگر کہنے لگے کہ اسے کالے صاحب لوگوں کا طرز زندگی مرغوب نہیں ہے بلکہ اسے اسلامی زندگی مرغوب ہے جس میں نماز ہو‘ پرہیزگاری اور حسن اخلاق ہو‘ خدا کا خوف اور اسلامی آداب و تہذیب کا لحاظ ہو‘ تو آپ کی آنکھوں کے سامنے مردوں کی زندگیاں بدلنے لگیں‘‘۔ (ایضًا ، جولائی ۱۹۴۸ئ)
اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ اسلامی تہذیب ہی عورت کو ساری عزتیں اور تمام حقوق دیتی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اسی حقیقت کو عورت پر واضح کیا‘ کہ موجودہ زمانے کی مخلوط سوسائٹی سے ہمارا اختلاف کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں‘ بلکہ ہم پوری بصیرت کے ساتھ انسانیت کی اور تہذیب و تمدن کی فلاح کو دیکھتے ہیں تو فیصلہ یہی سامنے آتا ہے کہ اس تباہ کن طرز معاشرت سے اجتناب کیا جائے۔
اس مضمون کا اختتام یہ سوال ہے جو مولانا مودودیؒ نے خواتین سے کیا: ’’اب یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ آپ فرنگیت چاہتی ہیں یا اسلام؟ ان دونوں میں سے ایک ہی کا آپ کو انتخاب کرنا ہو گا۔ دونوں کو خلط ملط کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے۔ اسلام چاہتی ہیں تو پورے اسلام کو لینا ہو گا اور اپنی پوری زندگی پر اسے حکمران بنانا ہو گا۔ کیونکہ وہ تو صاف کہتا ہے: اُدْخُلْوا فِی السِّلْمِ کَافَّۃً، تم پورے اندر آ جاؤ‘ اپنی زندگی کا کوئی ذرا سا حصہ بھی میری اطاعت سے مستثنیٰ نہ رکھو۔ اگر یہ کلی اطاعت منظور نہ ہو اور کچھ فرنگیت ہی کی طرف میلان ہو تو پھر مناسب یہی ہے کہ آپ دعواے اسلام کو ملتوی رکھیں اور جس راہ پر چلیں نام بھی اسی کا لیں۔ آدھا اسلام اور آدھا کفر نہ دنیا ہی میں کسی کام کی چیز ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے مفید ہونے کا امکان ہے‘‘۔ (ایضًا ، جولائی ۱۹۴۸ئ)