یہ بات میرے لیے باعث صد مسرت و امتنان ہے کہ ترجمان القرآن کی خصوصی اشاعت بیاد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم و مغفور کے حصہ اول کے بعد اس کا دوسرا حصہ بھی تیار ہے ۔اللہ تعالیٰ‘ آپ اور اس سلسلے کے دوسرے اہل قلم کو اس کار خیر کے لیے اجر عظیم عطا فرمائے ‘ اور آپ سب کے علم و فضل اور قابلیت میں روز افزوں خیروبرکت عطا فرمائے ۔
آپ نے مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کے بارے میں کوئی مضمون تحریر کرنے کی فرمایش کی ہے ۔اس بارے میں گزارش ہے کہ میں نے مولانا مرحوم سے ۱۹۴۴ء سے ۱۹۷۹ء تک ۳۵ سالہ دن رات کی رفاقت کے باوجود ‘ ان کے بارے میں اس سے زائد کچھ نہیں کہا ہے جو مشاہدات میں عرض کیا گیا ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ سے بڑھ کر حضور نبی کریمؐ کو جاننے اور پہچاننے والی شخصیت اور کون ہو سکتی تھی۔ان سے لوگوں نے جب پوچھا کہ حضور نبی کریمؐ کیسے تھے ؟ تو انھوں نے فرمایا: حضورؐ چلتا پھرتا قرآن تھے ۔ میں بھی مولانا مودودیؒ صاحب کے بارے میں یہی کہتا اور کہہ سکتا ہوں کہ مولانا مودودی مرحوم‘ دعوت اسلامی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔
میں نے ۳۵ سالہ رفاقت کے دوران ان کی کوئی بات اور کوئی حرکت ‘ اسلام اور اسوہ رسولؐ سے ہٹی ہوئی نہیں دیکھی۔ میراان سے ایک ہی بات پر اختلاف تھا کہ وہ پان کھاتے تھے ۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ اسلام کے منافی تو نہیں ہے‘میں اسے تمھارے لیے تو نہیں چھوڑوں گا‘ خداکے لیے جب ضرورت ہو گی تو چھوڑدوں گا ۔ چنانچہ اکتو بر ۱۹۴۸ء میں جب ہمیں گرفتار کیا گیا تو جیل کے پھاٹک کے باہر انھوں نے پان تھوکا‘ پھر ۲۰ماہ جیل میں کبھی نہیں چکھا اور جب سینٹرل جیل ملتان سے ہم رہا ہوئے تو دفترجماعت اسلامی ملتان میں آتے ہی پان منگوا کر کھانا شروع کردیا۔
شہر لاہور میں‘ مارچ ۱۹۵۳ء میں‘ جب ہم لوگوں کو گرفتا ر کر کے لاہور سینٹرل جیل میں لے جایا گیا تو مو لانا مودودی صاحب ‘ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب ‘ سید نقی علی صاحب ‘ چودھری محمد اکبر صاحب سیالکوٹی اور مجھے لاہور سینٹرل جیل کے دیوانی گھر وارڈمیں اور لاہور سے گرفتار شدہ دوسرے حضرات کو دوسرے وارڈوں میں رکھا گیا ۔ لاہور سینٹرل جیل میں ہی قائم کردہ مار شل لا کورٹ میںمولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب ‘ سید نقی علی صاحب اور ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب پر مقدمہ چلایا گیا ۔ مار شل لا کورٹ میں مولانا مودودی صاحب نے جو بیان دیا وہ انھوں نے مجھے ہی لکھوایا (dictate) تھا اور یہی بیان عدالت میں مولانا محترم نے پیش کیا ۔
۱۱ مئی ۱۹۵۳ء کو ہم لوگ دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلااور ۱۴‘۱۵ فوجی اور جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے ۔ اور جہاں ہم نما ز پڑھ رہے تھے وہاں قریب آکر کھڑے ہو گئے۔ ہم نے سلام پھیرنے کے بعد عرض کیا :’’فرمایئے‘ کیا حکم ہے‘‘ ۔ایک فوجی افسر نے کہا: ’’آپ لوگ نماز سے فارغ ہو لیں‘‘۔ چنانچہ ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑ ے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا‘ اس نے پوچھا:’’ مولانا مودودی صاحب کون ہیں ؟‘‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مولانا مودودی صاحب کون ہیں‘ اس لیے کہ وہ تو عدالت میں کئی دن ان کے سامنے پیش ہوتے رہے تھے ۔ بہر حال مولانا نے عرض کیا:’’میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں‘‘، تواس نے کہا: ’’آپ کو قادیانی مسئلہ تصنیف کر نے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے ۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں‘‘۔ مولانا نے بلا توقف فرمایا: ’’مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے ۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی‘ اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔ اس کے بعد اسی افسر نے کہا:’’ آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیم میں جو بیان دیا ہے اس پر آپ کو سات سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے ‘‘۔
اس کے بعد اسی افسر نے پوچھا :’’نقی علی کون ہے؟‘‘ سید نقی علی کوبھی وہ خوب جانتا تھا کہ وہ بھی ان کی عدالت میں پیش ہوتے رہے تھے ۔ بہر حال سید نقی علی صاحب نے عرض کیا :’’میں ہوں نقی علی ‘‘۔ اس افسر نے کہا:’’تمھیں قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میںنو سال قید بامشقت کی سزادی جاتی ہے‘‘۔ سید نقی علی صاحب نے بھی جواب دیا:’’آپ کا شکریہ‘‘۔
اس کے بعد اس افسر نے پوچھا :’’ نصراللہ خان عزیز کون ہے؟‘‘ ملک نصر اللہ خان صاحب نے جواب دیا:’’میں ہوں نصر اللہ خان عزیز‘‘۔ افسر نے کہا :’’آپ کو روزنامہ تسنیم میں مو لانا مودودی صاحب کا بیان شائع کرنے کے جرم میںتین سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔ ملک صاحب نے جواب دیا:’’آپ کا شکریہ ‘‘۔
یہ حکم سنانے کے بعد یہ لوگ واپس چلے گئے اور وارڈ کا باہر کا دروازہ بند کر دیا گیا ۔ واقعہ یہ ہے کہ احکام سننے کے بعد ہم لوگوں پر بظاہر کوئی اثر ہی نہ ہوا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تیز بلیڈ یا تیزدھار چھری سے ہاتھ کٹ جانے سے فوراً درد محسوس ہی نہیں ہوتا ‘اسی طرح مولانامودودی صاحب کی سزاے موت کا یہ حکم سننے کے بعد ہمیں کچھ محسوس ہی نہیں ہوا ۔
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا:’’مولانا مودودی صاحب تیار ہوجائیں‘ وہ پھانسی گھر جائیں گے‘‘۔ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پا جامہ تنگ پاجامے سے بدلا‘ جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے ۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتارکر سیاہ گر گابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہا یت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے ۔
اس کے کوئی نصف گھنٹہ بعد پھر وارڈ ر آئے اور کہا:’’ملک نصر اللہ خاں عزیز اور سید نقی علی صاحب بھی چلیں ۔ وہ سزا یافتہ قیدیوں کے بارک میں جائیں گے‘‘۔ چنانچہ وہ دونوں بھی مولا نا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ چودھری محمد اکبر صاحب کواور مجھ سے گلے مل کر وارڈروں کے ساتھ چلے گئے۔اس کے تھوڑی دیر بعد وارڈ ر مولانا مودودی صاحب کا جوتا ‘ پاجامہ ‘ قمیص اور ٹوپی لا کر ہمیں دے گئے کہ مولانا صاحب کو پھانسی گھر کے کپڑے پہنا دیے گئے ہیں ۔ ان چیزوں کی اب ضرورت نہیں ہے۔ اس پر پہلی مرتبہ ہم لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ہو کیا گیا ہے ۔
اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ مولانامودودی صاحب کی قمیص ‘ پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پر رکھتے ‘ کبھی آنکھوں پر لگاتے اور بے تحاشہ روتے ہوئے کہتے جاتے کہ:’’مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مولانا مودودی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں‘ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ خد ا کے ہاں مودودی صاحب کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے‘‘ ۔ چودھری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے گئے اور میں بھی روتا ہوا صحن میں ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اسی طرح سے گزرگئی۔ میرے دل میں کبھی تو یہ خیال آتا کہ اللہ تعالیٰ کبھی ان ظالموں کو مولانا کو پھانسی پر لٹکانے کا موقع نہیں دے گا ۔ لیکن اگلے ہی لمحے خیال آتا جس خدا کے سامنے اس کے رسولؐ کے نواسے امام حسین ؓ کو ظالموں نے تپتی ریت پر لٹا کرذبح کر دیا‘ اس کے ہاں بھلا مودودی کی کیا حیثیت ہے ۔ جس خدا کی زمین پر رات دن لاکھوں کروڑوں نہایت حسین پھو ل کھلتے اور مر جھا جاتے ہیں اور کوئی آنکھ ان کو دیکھنے والی بھی نہیںہوتی‘ اسے ایک مودودی کی کیا پروا ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں ساری رات گزر گئی ۔
اگلی صبح ایک وارڈر نے آکر بتایا:’’مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ پھانسی گھر گئے‘ وہاں کا لباس پہنا‘ جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا اور عشاء کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے مارنے لگے۔ حالانکہ ان کے آس پاس پھانسی گھرکے د وسر ے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے‘‘۔
مولانا مودودی صاحب کو پھا نسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا ۔ انڈونیشیا کی اسلامی پارٹی کے وزیر اعظم ڈاکٹر ناصر صاحب نے حکومت پاکستان سے کہاکہ: ’’پاکستان کو مودودی صاحب کی ضرورت نہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ان کو انڈو نیشیا بھجوا دے‘‘۔ سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ علیٰ ھذا القیاس بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی اور پاکستان میں تو ہرجگہ سے احتجاج ہوا ۔ اس احتجاج کانتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی صاحب اور مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے ۔ چنانچہ مولانا مودودی صاحب کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔
ہم لوگوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے درخواست کی کہ ہمیں مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی اجازت دی جائے‘ چنانچہ ہمیں اس کی اجازت مل گئی تو ہم لوگ بی کلاس وارڈ میں جا کر مولانا سے ملے ۔مولانا کا سارا سامان چونکہ گھر بھیج دیا گیا تھا‘ اس لیے میں اپنا ایک ململ کا کرتہ‘ لٹھے کا پاجامہ اوربستر کی ایک چادر ساتھ لے گیا اورکھدر کے کرتے پاجامے کی جگہ یہ کپڑے ان کو پہنا دیے ۔ مولانا مودودی صاحب کا پورا جسم گرمی اور کھدر کے موٹے کُرتے پاجامے کی وجہ سے گرمی دانوں سے بھرا پڑا تھا ۔ اسی بی کلاس وارڈ میں مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب اور مولانا خلیل احمد صاحب خلف مولانا ابو الحسنات صاحب سے بھی ملا قات ہوئی ۔
چند دن کے بعد سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو لاہور سنٹرل جیل سے میانوالی جیل میں منتقل کر دیا گیا اور پھر کچھ دن کے بعد ہی انھیں میانوالی جیل سے ڈسٹرکٹ جیل ملتان بھیج دیا گیا‘ جہاں ان کو ایک وارڈ کے کھلے میدان میں ٹین کے بنے ہوئے الگ گول کمرے میں رکھا گیا‘ جو جون‘ جولائی کی دھوپ میں تپ کر جہنم بن جاتا تھا‘ لیکن اس کے باوجود مولانا نے نہ کبھی کوئی شکایت کی اور نہ اس پر کوئی احتجاج فرمایا۔ اس سے اہل حکومت کو اور پریشانی ہوئی کہ ان کا کوئی حربہ بھی مولانامودودی صاحب کو ان سے فریاد کرنے پرمجبور کرنے کے لیے کامیاب نہیں ہو پاتا ۔ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں دو مر تبہ میں نے مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی۔ وہ ان ساری تکا لیف کو نہایت خندہ پیشانی سے بر داشت کر رہے تھے اور کبھی ہم سے بھی انھوں نے اپنی کسی تکلیف یا پریشانی کا اظہار نہیںفر مایا ۔
سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی یہ عمر قید عملاً ۱۴ سال قید با مشقت کی تھی ۔ اگر چہ یہ مارشل لا کورٹ کے تحت دی گئی تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا‘لیکن مارشل لا کے تحت سارے احکام اور سزائوں کو انڈمنٹی ایکٹ کے تحت بر قرار رکھا گیا تھا ‘اس لیے یہ سزائیں مارشل لا اٹھ جانے کے باوجود بھی قائم اور جاری تھیں ۔
ملک غلام محمد گورنر جنرل کی حکومت مولانا مودودی صاحب کو ۱۴ سال قید با مشقت کی سزا دے کر مطمئن ہو گئی کہ ان کی مولانا مودودی صاحب اوران کی اسلامی دستور کی تحریک سے جان چھوٹ گئی اور اب وہ اپنا من مانا سیاسی نظامِ حکومت ‘پاکستان پر مسلط کر سکیں گے ۔ لیکن کارساز مابکارِ کارِما۔ہوا یہ کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین ملک کے وزیر اعظم بن گئے تھے۔ مولوی تمیز الدین خاں صاحب پہلی دستور ساز اسمبلی جو ملک کی پارلیمنٹ بھی تھی اس کے صدر تھے‘ ان کا موقف یہ تھا: ’’سلطنت بر طانیہ نے اقتدار مجلس دستور سازکو منتقل کر کے اس کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے دستور مملکت وضع کر کے اقتدار باشندگان پاکستان کو منتقل کرے‘ اس لیے اب جو دستور اور قانون بھی یہ مجلس دستور ساز کی حیثیت سے بنائے اس کے لیے گورنر جنرل جو ملکہ بر طانیہ کا نمایندہ ہے اس کی منظوری اور دستخطوں کی ضرورت نہیںہے۔ وہ مجلس دستور ساز کے صدر مولوی تمیز الدین خاں کی منظوری اوردستخطوں سے قانون اورملک کا دستور بن جائے گا‘‘۔ چنانچہ لاہور کے مار شل لا اٹھنے کے بعد جو انڈ منٹی ایکٹ ‘مجلس نے پاس کیا تھا اس پر گورنر جنرل ملک غلام محمد صاحب کے نہیں‘ بلکہ مولوی تمیز الدین صاحب کے دستخط کرائے گئے تھے اور مار شل لا اٹھ جانے کے بعد اس کی کارروائیوں اور فیصلوں کو مستقل حیثیت دے دی گئی تھی ۔ لیکن ملک غلام محمد صاحب گورنر جنرل کے مجلس دستور ساز اور پارلیمنٹ کو توڑنے کے حکم کے خلاف مولوی تمیز الدین صاحب کے مقدمے میں جسٹس محمد منیر صاحب چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ان کے بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ پاکستا ن کی پارلیمنٹ خواہ پارلیمنٹ کی حیثیت سے یا مجلس دستور ساز کی حیثیت سے کوئی کارروائی کرے‘ اس کا کوئی فیصلہ گورنر جنرل کی منظوری کے بغیر قانونی صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ مجلس کا پاس کر دہ انڈمنٹی ایکٹ بے اثر اور کالعدم ہو گیا‘ کیونکہ اس پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں تھے۔اس لیے جماعت اسلامی نے مولانا مودودی صاحب کی سزا کو کالعدم کرانے کے سلسلے میں لا ہور ہائی کورٹ میں میاں منظور قادر ایڈوو کیٹ کے ذریعے سے رٹ دائر کردی اور ہائی کورٹ نے رٹ منظور کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو رہا کرنے کا حکم دے دیا‘ چنانچہ مولانا مودودی صاحب ۲۸ مئی ۱۹۵۵ء کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہوکر گھرآ گئے۔
مولانا مودودی صاحب کی سزا ے موت کے خلاف رٹ کی اس کارروائی کو اللہ تعالیٰ نے میاں منظور قادر صاحب کو منکر خدا سے ایک مومن و مسلم میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بھی بنا دیا ۔ ہو ا یوں کہ اس سلسلے میں ان سے میرا رابطہ اور بے تکلفی ہوئی تو میں نے ایک روزتفہیم القرآن کا پورا سیٹ لے جا کر میاں منظور قادر صاحب کی خدمت میں پیش کیاتو انھوں نے فرمایا:’’میاںصاحب‘ آپ کو تو معلوم ہو گا کہ میں تو خدا کو نہیں مانتا‘‘۔ میں نے عرض کیا:’’میاں منظورقادر صاحب‘ آپ نے ہزاروں کتابیں ہر فن میں پڑھی ہیں‘ ان کو بھی پڑھ ڈالیں۔آپ کو معلوم تو ہو کہ مولانا مودودی کیا کہتے ہیں اور کیسے آدمی ہیں؟‘‘چنانچہ انھوں نے تفہیم القرآن کا سیٹ لے کر رکھ لیا ۔
Mian Sahib, now I have made peace with my Lord.Now I am prepared to meet Him.
اور کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون!
مو لانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب گردے میں پتھری کے لیے ۴۳-۱۹۴۲ء سے ہی مریض تھے ۔ ۱۹۴۶ء میں امرتسر کے سول ہسپتال میں ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب اور ڈاکٹر غلام محمد بلوچ صاحب نے ان کے گردے سے چھ پتھریاں نکالیں لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ پھر بننا شروع ہوگئیں ۔ پہلے یہ مسلسل تکلیف کی موجب رہیں اور مو لانا اسی حال میں اپنے سارے کام کرتے رہے‘ یہاں تک کہ آخر کار ۱۹۶۸ء میں لندن میں ڈاکٹروں نے یہ گردہ ہی نکال دیا۔ اسی وجہ سے اس کے بعد انھوں نے اپنا قائم مقام بھی بنانا شروع کر دیا ‘اور آخر کار ۱۹۷۲ء میں امارت کابارمزید اٹھانے سے بالکل ہی معذرت فر ما دی ۔ واللّٰٰہ المستعان!