ہر فرد کی شخصیت مختلف عناصر اور اجزا سے مل کر بنتی ہے۔ ان میں سے بعض اجزا اور عناصر‘ پیدایشی یا وہبی ہوتے ہیں اور بعض انسان خود اپنی محنت‘ جستجو اور تگ و دو سے خود اپنی ذات میں پیدا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ماحول اور معاشرے میں پائے جانے والے حالات اور واقعات بھی اس کی شخصیت کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں‘ کیونکہ انسان اپنے ماحول‘ معاشرے اور ملک کے حالات سے آزاد یا لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ ہم یہاں مولانا مودودیؒ کے شخصی اجزاے ترکیبی کا جائزہ لیں گے۔
فالج کے اسی مرض میں ان کے والد سید احمد حسن صاحب کے انتقال کے بعد ابوالاعلیٰ کو فکرمعاش اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ایسے میں یہ ۱۵ سال یا ۱۷ سال کا لڑکا اپنے بڑے بھائی ابوالخیر کے ساتھ بجنور کا رخ کرتا ہے‘ جہاں یہ دونوں بھائی ڈیڑھ دو ماہ سے زیادہ اخبار مدینہ‘ بجنور میں نہیں نباہ سکے(ایضًا‘ ص ۱۲۶-۱۲۷)۔ یہ شاید ۱۹۱۸ء کی بات ہے(ایضًا‘ ص ۱۲۷)۔ غالباً ۱۹۱۹ء میں جب پہلی بار تاج الدین صاحب نے جبل پور سے تاج (ہفتہ وار) جاری کیا‘ اس کی ادارت کی ذمہ داری بقول ابوالاعلیٰ: ’’ہم دونوں بھائیوں کے سپرد کی۔ چند مہینے سے زیادہ تاج نہ نکل سکا اور ہم جبل پور سے بھوپال اور بھوپال سے دہلی چلے گئے۔۱۹۲۰ئ-۱۹۲۴ء میں تاج الدین صاحب نے جبل پور سے پھر تاج نکالا اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے --- مگر جبل پور کی زندگی بھی زیادہ مدت تک جاری نہ رہ سکی‘‘۔ یہ کل مدت ۱۹۱۸ء - ۱۹۲۰ء تک دو سال ہوتی ہے اور: ’’۱۹۲۰ء کے خاتمے پر میں دہلی واپس ہوا اور ۱۹۲۱ء کا ابتدائی زمانہ تھا جب میری ملاقات مفتی کفایت اﷲ صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب صدر و ناظم جمعیت علماے ہند سے ہوئی۔ اسی سال انھوں نے جمعیت علماے ہند کی طرف سے اخبارمسلم نکالا اور مجھے اس کا ایڈیٹر مقرر کیا۔ یہ اخبار ۱۹۲۳ء تک جاری رہا اور آخر تک میں اس کا ایڈیٹر رہا‘‘(ایضًا‘ ص ۱۲۸)۔ خیال رہے کہ مسلمیکم نومبر ۱۹۲۱ء سے شروع ہوا اور اس نے ۸ اپریل ۱۹۲۳ء کو دم توڑ دیا۔ اس طرح اس کی عمر ایک سال پانچ ماہ ۸۰ دن بنتی ہے۔ یہ گویا مولانا مودودیؒ کے مسلسل کمانے کا پہلا موقع ہے۔ اس سے پہلے خدا معلوم کیسے گزارا کیا‘ کچھ پتا نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھوپال اور دہلی میں موجود اہل خانہ کی اس عرصے میں ان کو مدد رہی ہو گی۔
دونوں بھائیوں نے اپنی تحریروں اور گفتگوؤں میں اپنی خانہ بدوشی اور مالی پریشانیوں کی طرف دور یا قریب سے اشارہ تک نہیں کیا۔ مولانا مودودیؒ اپنی فکر معاش کے ساتھ ۱۸ اپریل ۱۹۲۳ء سے ۱۴ جون ۱۹۲۵ء (یعنی دو سال ایک ماہ ۲۷ دن) تک کس طرح وقت گزارتے ہیں‘ معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں۔ پھر ۱۴ مئی ۱۹۲۸ء تک الجمعیۃ کے مدیر مسئول (محرر خصوصی) کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہاں یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ جون ۱۹۲۵ء سے لے کر دسمبر۱۹۲۹ء تک جو مدت انھوں نے حیدر آباد دکن پہنچنے سے پہلے بھوپال میں گزاری ہے (ایضًا‘ ص۱۲۸)‘ اور جس کو انھوں نے ہر قسم کے علوم و فنون کے مطالعے کے لیے وقف کر دیا تھا‘ اس مدت میں شاید انھوں نے الجمعیۃ کی آمدنی کی بچت پر گزارا کیا ہو گا۔ ایک یہ امکان ہے کہ بھوپال میں ان کے سب سے بڑے بھائی ابو محمد مودودیؒ نے ان کی دست گیری بھی کی ہو۔ البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی ان کتابوں کی آمدنی سے بھی مستفید ہوئے ہوں گے جو علی الترتیب اس طرح شائع ہوئیں:
۱- دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ‘ سیاسی تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر (اکتوبر۱۹۲۸ئ‘ دہلی)
۲- دکن کی سیاسی تاریخ‘ غالباً ۱۹۳۰ء ( حیدر آباد دکن) (ایضًا‘ ص ۱۲۹)
۳- سلاجقہ‘ جون ۱۹۲۹ء (حیدر آباد دکن)
۴- رسالۂ دینیات‘ ۱۹۳۲ء (حیدر آباد دکن)
۵- ]غیرمطبوعہ[ ترجمہ اسفار اربعہ حصہ دوم اور حصہ سوم از علامہ صدر الدین شیرازی (دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن)(تذکرہ سید مودودی‘ ج ۳‘ ص ۳۱۳- ۳۱۹)
اس آخری کام --- یعنی‘ اسفار اربعہ کے ترجمے --- کی آمدنی سے مولانا نے ابن خلکان کے ان حصوں کا ترجمہ‘ جو مصر کے فاطمی خلفا سے تعلق رکھتے ہیں (جون ۱۹۲۹ئ) خریدا‘ بلکہ اسی آمدنی سے ترجمان القرآن بھی مولانا ابو مصلح سے خریدا (ایضًا‘ ص ۳۱۹)۔ اسی ترجمان القرآنکی خریداری اور ادارت ہی وہ مرحلہ تھا‘ جس سے ترجمان القرآن کے مالک و مدیر کی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد مولانا مودودیؒ نے قرآن کی دعوت کو اپنا مقصد حیات اور اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ اس کے بعد زندگی میں راحت و آرام بہت کم (شاید ۲۰ فی صد یا اس سے بھی کم) اور ہر قسم کی تکلیفیں‘ جن میں مالی اور معاشی پریشانیاں بھی شامل ہیں‘ زیادہ تھیں (شاید ۸۰ فی صد یا اس سے بھی زیادہ)۔ تفاصیل کے طالب حضرات اس خاکسار کا مقالہ ’’مولانا مودودیؒ - زندگی کا ایک پرآشوب دور‘‘(ترجمان القرآن،ستمبر۲۰۰۲ئ)‘ بیگم مودودی ؒکا انٹرویو(تذکرہ سید مودودیج۳‘ ص ۳۲۱-۳۲۲) اور میاں طفیل محمد کا انٹرویو ملاحظہ فرمائیں۔۱؎ خیال رہے کہ جہاں بیگم مودودیؒ، اپنے رفیق حیات کی نجی زندگی پر گواہ ہیں‘ وہیں میرے کرم فرما‘ میاں طفیل محمد ان کی سماجی زندگی پر گواہ ہیں‘ کیونکہ دعوت اسلامی کے دارالاسلام‘ جمال پور‘ پٹھان کوٹ سے لے کر ان کی وفات تک کے لمبے سفرمیں‘ یہ ہروقت اور ہر دم ساتھ رہے ہیں۔ ان دونوں کی گواہیاں بہت کافی ہیں۔
یہ تذکرہ ناقص رہے گا‘ اگر معاش اور فکر معاش کے جھمیلوں کے سلسلے میں اُن حضرات کی روش پر ایک نظر نہ ڈالی جائے جو مولانا مودودیؒ کے معیار زندگی کو نشانۂ ملامت اور ان کے ذرائع آمدنی کو ہدفِ تنقید بنا کر جماعت سے علیحدگی اختیار کر چکے تھے۔ میری مراد مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا جعفر شاہ پھلواریؒ ہیں۔۲؎
معاش کے بارے میں اپنے اندیشے اور خدشات مولانا محمد منظور نعمانی ؒ یوں بیان کرتے ہیں: ’’نہ صرف یہ کہ آپ کی دعوت‘ آپ کے نظریات اور آپ کی تعبیرات سے مکمل طور پر اتفاق و اتحاد ہے بلکہ یہ یکسانی فکر و نظر اکثر مجھے مجبور کرتی ہے کہ الفرقان کو اسی مقصد کے لیے وقف کر دوں۔ لیکن کسی وقت خیال آتا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں رسالے کی اشاعت متاثر نہ ہو جائے اور اس سے معاش کے مسئلے میں دشواریاں لاحق نہ ہو جائیں‘ کیونکہ اس رسالے میں اب تک ایک مخصوص حلقے کے مذاق کا لحاظ رکھا گیا ہے‘‘۔
اس پر مولانا مودودیؒ نے جو کچھ فرمایا وہ بہت چشم کشا ہے: ’’رزق کا معاملہ تو بالکل اللہ کے دستِ قدرت میں ہے۔ اس لیے حالات اگر آپ کے اندیشے کے مطابق ہی پیش آگئے تو امید ہے کہ اللہ کوئی دوسری سبیل فرما دے گا‘‘۔ پھر مولانا مودودیؒ نے ان حالات کا تذکرہ فرمایا جن سے دوچار ہو کر ان کا ماضی گزرا ہے۔
--- جب وہ تشریف لائے تو میں نے دریافت کیا کہ آپ کی ضروریات کیا ہیں اور آپ کے وسائل کیا ہیں؟ معلوم ہوا ضروریات غیر معین ہیں اور وسائل تنخواہ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ ۵۰ روپے کی حد تک مہیا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ مکان یہاں بِلاکرایہ حاضر ہے۔ آپ ملازمت چھوڑ کر آ جائیے اور یہاں نہ صرف دعوت کا کام کیجیے‘ بلکہ اس کے ساتھ چودھری نیاز علی خان کا رسالہ دارالاسلام بھی اپنے ہاتھ میں لے لیجیے (یہ رسالہ جس کی اشاعت ۵۰۰ کے قریب ہے‘ چودھری صاحب بلا معاوضہ ان کی ملکیت میں دینے کے لیے تیار تھے)۔ اس رسالے کو آپ عوام کے لیے دعوت کا رسالہ بنائے اور اللہ پر بھروسا کیجیے۔ جب تک اس سے ۵۰ روپے ماہانہ کا منافع آپ کو نہ ملنے لگے اس وقت تک یہ ماہوار رقم فراہم کرنا میرے ذمے ہے --- تو انھوں نے کچھ دن غور کرنے کی مہلت مانگی ---
بالفاظ دیگر فکر معاش وہ بلَا ہے جو بڑھتے ہوئے قدم پیچھے لوٹانے کا سبب بنتی ہے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو مولانا مودودیؒ سے اپنے دین کی خدمت لینا تھی‘ اس لیے ان کو اندیشہ ٔ معاش سے یکسر آزاد کر دیا۔
اب رہی کھانے پینے کی بات تو اس کی شہادت مولانا محمد ناظم ندوی مرحوم سے بہتر کون دے سکتا ہے: ’’البتہ مولانا کے ہاں کبھی کبھی ناشتے کے لیے چلا جاتا --- مجھے مولانا کے ہاں کھانے میں شرکت کا موقع ملتا رہا ہے‘ ان کا دسترخوان اتنا سادہ تھا کہ ہم بھی اس وقت ان سے بہتر کھانا کھاتے تھے۔ ان کے دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے کبھی نہیں دیکھے۔ البتہ جو کچھ ہوتا تھا‘ وہ سادہ اور لذیذ ہوتا تھا‘‘۔۳؎
کھانے پینے کی بات چل نکلی ہے تو ذوقِ طعام کے بارے میں اپنا تجربہ بتاتا چلوں۔ جدہ میں ہمارے گھر پر مولانا محترم کو دوپہر کا کھانا کھلانے کا موقع ملا۔ ہم نے حیدر آبادی مذاق کا لحاظ کر کے دہی کی کڑھی‘ شکمپور اور ڈبل کا میٹھا (شاہی ٹکڑے) پیش کیے۔ مولانا بہت خوش ہوئے مگر جب دہی کی کڑھی چکھی تو کہنے لگے: ’’چاؤش! (حیدر آباد میں عربوں کو چائوش کہتے ہیں) آپ پکے حیدر آبادی نہیں ہیں۔ یہ دہی کی کڑھی آج کی بھگاری ہوئی ہے‘ جب کہ یہ دوسرے دن کھائی جاتی ہے‘‘۔
میں ایک دن ترجمان القرآنکے دفتر واقع بچلرس کوارٹرز‘ معظم مارکیٹ گیا۔ عمارت میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مولانا سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھا رہے ہیں۔ میں نے کہا: مولانا یہ ہے کیا؟ جواب میں بڑے اطمینان سے فرمایا: ’’سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھاتا ہوں اور اس امت کی خونِ جگر سے آبیاری کرتا ہوں‘‘
اس پر ہم کیا تبصرہ کر سکتے ہیں‘ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ رحمت سے نوازے اور جنت الفردوس میں ان کو انبیاے کرامؑ اور شہداے عظام ؒ کی رفاقت سے سرفراز کرے!
مالی قربانیوں کے ضمن میں مولانا محمد ناظم ندویؒ کی شہادت بھی بہت قیمتی ہے: ’’اور یہ بات بھی ان کی بے نفسی پر ایک قوی دلیل ہے کہ انھوں نے جماعت بنائی تو اپنی تصانیف کا بیش تر حصہ جماعت کے سپرد کر دیا۔ ان کا یہ اقدام ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا ہوا ایک غیر جذباتی اقدام تھا۔ یہ آخری جملہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بعض لوگ مولانا کے اس فیصلے کو وقتی جذبے کے تحت ایک جذباتی اقدام قرار دیتے ہیں۔ مولانا اپنی اس سوچ اور عملی زندگی میں ہوس دنیا سے بے نیاز رویے ہی سے عام لوگوں بلکہ ہم عصر علما تک میں ممتاز ہو جاتے ہیں‘‘۔ (ایضًا‘ ص ۸۹۴-۸۹۵)
مولانا مودودیؒ کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ اپنی مشکلات کا تذکرہ سوائے خدا کے اور کسی سے نہ کرتے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ سرکار آصفیہ ۳۰۰ سے زیادہ پرچوں کی خریدار تھی اور ممالک محروسہ سرکار عالی کے مختلف کتب خانوں (لائبریریوں) میں یہ پرچہ جاتا تھا۔ ایک مختصر سے مخالف گروہ نے امور مذہبی پر اثر ڈال کر رسالے کی خریداری بند کرا دی۔ اچانک تقریباً نصف رسالوں کی خریداری بند ہو جانے سے مولانا شدید مالی مشکلات سے دوچار ہو گئے --- مولانا کے استغنا اور خودداری کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے متعلقہ محکموں سے جاکر اس کے اجراے ثانی کی کوشش کی اور نہ کسی کی چوکھٹ پر دستک دی اور نہ کسی سے سفارش کروائی --- (ایضًا‘ ص ۳۲۸)
حیدر آباد دکن سے دارالاسلام ’جمال پور‘ پٹھان کوٹ منتقل ہونے سے رقم کی کمی ہوئی تو مولانا نے اس کا ذکر مولانا اعجاز الحق قدوسیؒ سے کیا۔ انھوں نے مولانا کی اس مشکل کا تذکرہ سرور خان صاحب سے کیا تو وہ: مسکراتے ہوئے کہنے لگے‘ اتنے ان کے قدر داں ہیں۔ کیا ایک کا بھی حوصلہ نہیں کہ ان کو قرض دے سکے۔ میں نے کہا کہ اول تو مولانا نے کسی سے قرض مانگا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی خودداری کے خلاف ہے کہ وہ کسی سے قرض مانگیں۔ یہ بات تو میں نے برسبیل تذکرہ آپ سے کہہ دی ہے ---(ایضًا‘ ص ۳۰۱)
یہ وہی ایک ہزار روپے کا قرض حسنہ ہے جس کو زادِ راہ بنا کر مولانا مودودیؒ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک انجان اور نامعلوم و نامانوس مقام اور غیر مانوس لوگوں کی طرف علامہ اقبالؒ کی دعوت پر‘ دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ پنجاب کی طرف‘ حیدر آباد دکن سے ہجرت کر گئے۔ اس سے مولانا مودودیؒ کی مفلسی اور ناداری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ مگر خودداری اور عزت نفس کی برقراری کے ساتھ۔
خودداری اور خود اعتمادی کا ایک واقعہ خود میرے ساتھ پیش آیا ہے۔ شاید یہ ۱۹۶۹ء کی بات ہے۔ آخری بار مولانا مودودیؒ جدہ تشریف لائے۔ اتفاقاً مجھے بھی نماز جمعہ حرم مکی میں باب الملک عبدالعزیز میں ادا کرنے کا موقع ملا۔ مولانا بہت کمزور اور ناتواں ہو چکے تھے۔ میں نے سہارا دینے کی کوشش کی۔ کہنے لگے: ’’چاؤش! سہارا نہ دیں۔ میں ساری زندگی کسی کے سہارے کے بغیر جیتا رہا ہوں۔ ان شاء اﷲ آیندہ بھی کسی کے سہارے کی نوبت نہیں آئے گی‘‘۔ میں نے ہاتھ ہٹا لیا۔ وہ خود آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کار میں سوار ہو گئے۔ یہ خود داری اور خود اعتمادی کی بہترین مثال ہے۔
کیا یہ ہمت شکن حالات سید مودودیؒ کو مایوس کرنے والے تھے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ وہ ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی نہ صرف ترجمان کی ناؤ کھیئے جا رہے تھے‘ بلکہ وہ ترجمان میں شائع شدہ مضامین کو چھاپنے اور پھیلانے کی جدوجہد میں بھی لگے ہوئے تھے --- چنانچہ اگست‘ ستمبر۱۹۳۷ء کے ’’اشارات‘‘ میں نگارش فرماتے ہیں:
ترجمان القرآن کے سابق مضامین کو کتابی صورت میں شائع کرنے کے لیے برادران اسلام سے اعانت کی جو درخواست کی گئی تھی‘ اس کے جواب میں اب تک ۴۰۰روپے مالی اور ۵۰روپے کلدار]ریاست حیدر آباد کا سکّہ[‘ دفتر کو وصول ہوئے اور مزید ۵۰ روپے کلدار کا وعدہ ہے ---
یعنی ‘جملہ ’حالی‘ رقم ۵ئ۵۱۲ روپے بنی‘ جس سے ’مکتبہ ترجمان القرآن‘ کا آغاز ہوا‘ حالانکہ خود ترجمان اب اور تب پر تھا۔ ایسی ہمت کو ہمت مرداں مددِ خدا کہتے ہیں۔ مزید لکھتے ہیں: (ترجمان القرآن، ستمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۳۸)
اگرچہ یہ رقم اس کام کے لیے کافی نہیں جو ہم انجام دینا چاہتے ہیں‘ لیکن خدا کے فضل پر بھروسا کر کے کام کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ مضامین کی ترتیب اور نظرثانی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔امید ہے کہ آیندہ ماہ رمضان سے اشاعت کا آغاز ہو جائے گا۔ (ترجمان القرآن‘ اگست - ستمبر ۱۹۳۷ئ)
یہ نہ صرف مولانا مودودیؒ کا اعلان ہے بلکہ لوگوں کا مشاہدہ بھی یہی ہے: --- پوری طرح سے ظاہری اسباب ہمت شکن ہو گئے۔ کاغذ‘ کتابت اور طباعت کی گرانی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس معیار کے رسالے کو ۳۵۰ خریداروں ]صحیح عدد ۲۹۸ ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے[ سے چلانا کتنا مشکل کام تھا ]اس پر نقل مکانی مستزاد[۔ لیکن اﷲ پر اعتماد اور توکل نے مولانا مودودیؒ کو ان حالات سے لڑنا سیکھا دیا تھا ---(ایضًا، ص ۳۲۰)
اسی توکل علیٰ اﷲ کی تلقین انھوں نے مولانا منظور نعمانیؒ کو ان الفا ظ میں کی:’’--- رزق کا معاملہ تو بالکل اﷲ کے دستِ قدرت میں ہے۔ اس لیے اگر حالات آپ کے اندیشے کے مطابق ہی پیش آ گئے تو امید ہے کہ اﷲ کوئی دوسری سبیل فرما دے گا‘‘۔
مولانا جعفر شاہ صاحب پھلواریؒ سے انھوں نے یہ کہا: ’’اس رسالے کو آپ عوام کے لیے دعوت کا رسالہ بنائیے اور اﷲ پر بھروسا کیجیے۔ جب تک اس سے ۵۰ روپے ماہانہ کا منافع آپ کو نہ ملنے لگے‘ اس وقت تک یہ ماہوار رقم فراہم کرنا میرے ذمے ہے‘‘۔
آپ کوقادیانی مسئلہ پمفلٹ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے‘ اور علما کی گرفتاری پر بیان جاری کرنے کے جرم میں سات سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے۔ مارشل لا کے تحت سزاؤں کے خلاف اپیل کا کوئی حق نہیں ہے‘ آپ چاہیں تو اپنی موت کی سزا کے خلاف سات دن کے اندر مسلح افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔
مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی‘ اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔(ایضًا‘ ص ۵۲‘ ۵۳ اور مشاہدات‘ از میاں طفیل محمد)
دیکھا آپ نے اس شخص کا تقدیر الٰہی پر اٹل ایمان۔ ایسے مواقع پر لوگ رو پڑتے اور بے ہوش ہو کر گر پڑتے ہیں‘ گڑ گڑاتے اور منت سماجت کرتے ہیں مگر تقدیر خداوندی پر غیر متزلزل ایمان رکھنے والا یہ بندہ‘ اﷲ تعالیٰ کی قوت کے بل بوتے پر فوجی افسر سے زیادہ سخت لہجے میں دو ٹوک‘ مگر لاجواب کر دینے والا جواب دیتا ہے۔ سبحان اﷲ الخلاق العظیم۔
اس سے ملتی جلتی بات‘ اختلافِ الفاظ کے ساتھ‘ انھوں نے اپنے صاحبزادے سے کہی جب وہ سزاے موت کی خبر سن کر ان سے ملاقات کے لیے اپنے تایا جناب سید ابوالخیر مودودیؒ کے ساتھ جیل گئے تھے۔ یہ سید عمرفاروق مودودی ہیں۔ سنیے وہ بات جو ایک باپ نے اپنے بیٹے سے ان نازک مگر صبرآزما اور ہمت شکن حالات میں کہی:
بیٹے اگر خدا کو یہی منظور ہے تو پھرشہادت کی موت سے اچھی موت اور کون سی ہے‘ اور اگر اللہ ہی کو منظور نہیں تو پھر خواہ یہ خود الٹے لٹک جائیں مگر مجھے نہیں لٹکا سکتے۔ (ایضًا‘ ص ۱۹۴)
میاں! مولانا صاحب تو بڑی چیز ہیں‘ یہ کم بخت مجھے بھی پھانسی پر نہیں لٹکا سکتے۔
یہاں انگریز حکام کی فراست بینی کی داد دینی ہو گی۔ انھوں نے اسی وقت بھانپ لیا تھا کہ اگر مودودیؒ اسی طرح اسلامیہ کالج لاہور میں لیکچر دیتا رہا تو محرّک اسلام پر پروانہ وارفدا ہونے والوں کی کھیپ کی کھیپ تیار ہو جائے گی‘ جو ایسے نایاب جملے اپنی زبان سے نکالنے کی جرأت سے مزین ہو گی۔ انھوں نے کالج کی انتظامیہ پر دبائو ڈالا اور مولانا مودودیؒ کو کالج سے نکال کر باہر کیا۔ (ایضًا‘ ص ۲۱۸-۲۲۰)
اگلے روز وارڈن وغیرہ کی زبانی مولانا مودودی کی رات بھر کی کیفیت معلوم ہوئی کہ وہ پھانسی گھر گئے‘ پھانسی کے مجرموں والے کپڑے انھوں نے زیب تن کیے‘ کوٹھری کے جنگلے سے باہر رکھے ہوئے پانی کے گھڑے سے وضو کیا‘ عشاء کی نماز پڑھی اور زمین پر بچھے ہوئے دو فٹ اور ساڑھے پانچ فٹ کے ٹاٹ کے بستر پر پڑ کر ایسے سوئے کہ رات بھر ان کے پہرے دار حیرت میں ڈوبے دیکھتے رہے کہ یا اللہ! یہ عجیب شخص ہے جو پھانسی کا حکم پا کر ایسا مدہوش سویا ہے‘ گویا اس کے سارے فکر اور تردد دور ہو گئے۔ گویا اسے من کی مراد مل گئی۔
وہ کیوں؟ وہ اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیا والمرسلینؐ ثابت کرنے کے جرم میں پھانسی پانا سب سے بڑی خوش بختی کی علامت تھی۔ اس لیے یہ خوش بخت بندۂ خدا مدہوش ہو کر صبح تک سویا رہا کہ شہادت پکی ہے اور جنت کے اعلیٰ مقامات اور صحبت خاتم الانبیا و المرسلینؐ بھی پکی ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مودودیؒ ایک چلتا پھرتا زندہ ولی اللہ تھا۔
یہ پہلا موقع نہ تھا کہ مولانا مودودیؒ نے معافی مانگنے یا اپیل کرنے یا رحم کی درخواست کرنے سے ببانگ دہل انکار کیا ہو۔ وہ ایک دبنگ شخصیت کے حامل انسان تھے۔ ڈر اور خوف سے وہ نا آشنا تھے۔ چنانچہ جب جنگ عظیم دوم [ستمبر ۱۹۳۹ئ] شروع ہوئی‘ تب ہندستان برطانوی استعمار کے زیر تسلط تھا۔ برطانیہ نے اس جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا تو مولانا نے ’’اشارات‘‘ ]ادارتی مقالے[ میں برطانیہ اور اس کی استعماری پالیسیوں اور ظالمانہ رویے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سخت تنقید کی۔ اس وجہ سے یہ ’’اشارات‘‘ سنسر ہو گئے اور اس ماہ کا ترجمان القرآن(ستمبر ۱۹۳۹ئ) سادہ اور غیر مطبوعہ صفحات کے ساتھ شائع ہوا۔ صرف یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی:
ظَھَرَالْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ o (الروم ۳۰: ۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘ تاکہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا‘ شاید کہ وہ باز آئیں۔
اس سنسر کی داستان اس زمانے کے سنسر افسر نے‘ جو بعد میں میاں عبدالحمید ایڈیٹر پاکستان ریویوکی حیثیت سے مشہور ہوئے‘ یوں بیان کی ہے کہ جب مولانا مودودی سے معافی --- حتیٰ کہ صرف زبانی معافی -- چاہنے کا مطالبہ کیا گیا تو آپ نے کہا:
میں نے قرآنی تعلیم‘ تاریخ اسلام اور تاریخی واقعات کو پیش نظر رکھ کر اظہار خیال کیا ہے --- رہی بات مجھے وارننگ کی تو میں اسے پرکاہ بھی اہمیت نہیں دیتا۔ میں نے قرآن کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوڑا ہے اور نہ چھوڑوں گا --- آپ مجھے کہتے ہیں کہ میں معافی مانگوں‘ یہ ناممکن ہے۔ آپ کی حکومت مجھے تختۂ دار پر لٹکا دے‘ عمر قید کردے‘ میں کبھی معافی نہیں مانگوں گا۔(قومی ڈائجسٹ، لاہور‘جنوری ۱۹۸۰ئ‘ ص۲۲۴)
پھر بھی مولانا خاموش نہ رہے۔ انھوں نے اپنے ایک دیرینہ دوست نصراللہ خان عزیز ایڈیٹر مدینہ‘ بجنور کو ایک فصیح و بلیغ خط لکھا اور حکومتِ پنجاب اور ا س کے وزیراعظم سرسکندر حیات اور ۱۳اکتوبر ۱۹۳۷ء کے’’ سکندر جناح پیکٹ‘‘ پر سخت الفاظ میں تنقید کی اور بعض حقائق اور مستقبل کے اندیشوں سے آگاہ کیا اورملک نصراللہ خان عزیز سے خواہش ظاہر کی کہ ان ’’اشارات‘‘ کو مدینہ میں شائع کریں۔ چنانچہ یہ چشم کشا اور حقائق سے بھرپور خط -- اور شاید ’’اشارات‘‘ بھی -- یکم نومبر ۱۹۳۹ء کی مدینہ‘ بجنور کی اشاعت میں شائع ہوا۔(تذکرہ سید مودودی، ج ۳‘ ص ۴۷۶)
ہم نے اب تک جن دو واقعات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ ضرورت مزید ٹھوس دلیل کی ہے تو پھر سنیے: یہ شہادت ایک ایسے چشم دید گواہ کی ہے جو اس موقع پر بذاتِ خود موجود تھے۔ یہ پروفیسر غلام اعظم سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کی گواہی ہے۔ یہ سننے اور سمجھنے کے لائق ہے کیونکہ یہ موت سے دُو بدُو اور دو چار ہونے کے وقت کی بات ہے جب لوگ چھپنے‘ بھاگنے‘ مدد مانگنے لگتے ہیں اور بدحواس ہو کر وہ کچھ کر بیٹھتے ہیں جس سے ان کی شخصیت کے ڈھکے گوشے عیاں ہوجاتے ہیں ورنہ اس وقت تک لوگ ان کو نڈر‘ شیر دل اور بہادر اور خدا معلوم کیا کیا گردانتے رہتے ہیں۔
یہ اکتوبر ۱۹۶۳ء کی بات ہے جب جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع لاہور میں منعقد ہونے والا تھا۔ اس اجتماع کو ناکام کرنے کے لیے صدر پاکستان ایوب خان ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ بہتر ہے کہ اس وقت ایوب انتظامیہ میں شامل ایک شخص کی گواہی پہلے سن لی جائے۔ یہ الطاف گوہر صاحب ہیں:
جب جماعت اسلامی نے لاہور میں ایک کنونشن منعقد کیا تو ایوب خان نے حکم دیا کہ اجتماع میں بعض ایسے لوگوں کو بھیجا جائے جو وہاں لیڈروں اور مقرروں سے بعض خاص سوالات پوچھیں۔ جب یہ ہدایات براستہ گورنر [نواب آف کالا باغ] ہوم سیکرٹری تک پہنچیں تو بڑی مکروہ صورت اختیار کرچکی تھیں۔ یہ کام چیف سیکرٹری کے حوالے کیا گیا جس نے علاقے کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو ہدایت دی کہ وہ ضروری کارروائی کرے۔ متعلقہ تھانے کے افسر انچارج نے چند غنڈوں کو اس کام پر متعین کر دیا جو شراب کے نشے میں دھت وہاں پہنچے‘ ہلڑ بازی اور مار دھاڑ شروع کر دی۔ گولیاں چلائی گئیں اور ایک پرامن مندوب جاں بحق ہو گیا۔(ایضًا‘ ص ۸۴)
پروفیسر غلام اعظم بتاتے ہیں: ایسی حالت میں مولانا مودودی کی بے باکی اور جرأت مندانہ لیڈرشپ کا جو ثبوت ملا وہ حیرت انگیز تھا۔ مولانا نے اعلان کیا کہ ’’رضاکاروں کے سوا سب کے سب بیٹھ کر تقریر سنتے رہیں۔ کوئی نہ اٹھے‘ نہ کوئی گھبرائے۔ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے رضاکاروں کو کام کرنے دیں۔ دوسرے سب اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہیں تو غنڈے کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔
میں مولانا کے پیچھے اسٹیج ہی پر بیٹھا ہوا تھا۔ مولانا نے تقریر جاری رکھی۔ غنڈوں کی جو ٹولی ڈائیس کی طرف بڑھ رہی تھی‘ رضاکاروں نے اسے گھیر لیا۔ اب وہ ہتھیار بلند کر کے مولانا کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر ایک ذمہ دار نے بلند آواز میں مولانا سے بیٹھ جانے کی درخواست کی کہ گولی چل رہی ہے۔ مولانا نے پرزور لہجے میں کہا: ’’اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا‘‘ اور تقریر جاری رکھی۔ (ایضًا‘ ص ۲۷۶)
یہاں پر یہ ذکر بے محل نہ ہو گا کہ جماعت کے اجتماعات کو غنڈوں کے ذریعے منتشر کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں تھی۔ اس سے پہلے‘ تقسیم ہند سے عین قبل‘ جماعت کے اجتماع منعقدہ مدراس کو وہاں پر مقامی مسلم لیگی حملہ آوروں نے منشتر کرنے کی ناکام کوشش تھی۔ شامیانوں کو آگ لگا دی تھی‘ لیکن نظم و ضبط اور صبروتحمل کے آگے ان کی کچھ بھی نہ چلی اور وہ ناکام رہے۔ الحمدللہ! (روداد جماعت اسلامی‘ پنجم)
لاہور میں رسالہ ترجمان القرآن اور مکتبے کے انچارج محمد شاہ تھے۔ اس زمانے میں مولانا کا قیام دارالاسلام میں تھا۔ شاہ صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مکتبے کی مطبوعات کے سلسلے میں خرد برد کر رہے ہیں اور بہت سی کتابیں دوسرے اداروں کے ہاتھ بیچ کر ذاتی فائدے حاصل کر رہے ہیں۔ مولانا نے ایک دن مجھے دارالاسلام میں حکم دیا کہ میرے ساتھ لاہور چلنا ہے۔ وہاں پہنچ کر شاہ صاحب کو مولانا نے مکتبے اور رسالے کا پورا چارج حوالے کرنے کا حکم دیا۔ شاہ صاحب نے اس موقع پر بھی ایک الماری کھولنے سے انکار کر دیا اور بتایا کہ اس میں میری ذاتی کتابیں ہیں اور پھر چارج دینے کے بعد اُسے اٹھا لے گئے۔ معلوم ہوا کہ الماری میں مولانا کی بہت سی کتابیںتھیں‘ جو انھوں نے ایک کتب فروش کے ہاتھ فروخت کیں۔ مولانا نے اس موقع پر نہایت اعلیٰ ظرفی سے کام لیا۔ معاملے کو عدالت تک نہیں لے گئے‘ اور نہ احباب کے مشورے کے باوجود شاہ صاحب کے ساتھ ہی کوئی سخت رویہ اختیار کیا بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ ان سے گلو خلاصی کر لی۔ (تذکرۂ سید مودودی، ج ۲‘ ص ۳۱۲)
--- ویسے بھی میں نے کئی معاملات میں دیکھا ہے کہ مولانا کردار کی کس بلندی پر تھے۔ سید محمد شاہ ]کی[ بدمعاملگی پر مولانا نے ان کو اپنے ادارے سے الگ کر دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد کراچی سے ان کا خط آیا کہ میں سخت بیمار ہوں‘ میری کچھ مدد کریں۔ مولانا نے فوراً کچھ پیسے بھجوا دیے۔ کچھ دن گزرے تو پھر خط آیا کہ میں سخت بیمار ہوں اور وہ پیسے خرچ ہو گئے ہیں‘ کچھ مزید تعاون فرمائیں۔ مولانا نے فرمایا اور بھیج دو۔ ہم نے سوچا کہ یہ تو بڑی عجیب صورت حال ہے کہ ہم اس طریقے سے پیسے بھیجتے رہیں۔ (تذکرۂ سید مودودی، ج ۳‘ص ۲۳۴)
ایک دن ایک صاحب مولانا سے ملنے آئے۔ جب وہ چلے گئے تو معلوم ہوا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ مالی دشواریوں کی وجہ سے دُبئی یا ابوظہبی جانا چاہتے ہیں۔ مولانا سے سفارشی خط لینے آئے تھے۔ حسبِ عادت مولانا نے سفارشی خط دیا جو کام آیا اور ان کو وہاں اچھی نوکری مل گئی۔
یہ کون حضرت تھے؟ یہ وہی فوجی افسر جیلانی صاحب تھے جنھوں نے مولانا کو پھانسی کی سزا سنائی اور جن کے دستخط انگریزی میں لکھے اس فیصلے پر ثبت ہیں جس کو تذکرۂ مودودی ، جلد اول میں ’تعارف عکس‘ کے ضمن میں صفحہ ۹۴۳ پر اخبارات میں پھانسی کی سزا کی خبر کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
دیکھا آپ نے؟ خرد برد کرنے والے پہلے شخص کو مزید مالی امداد‘ اور پھانسی کی سزا سنانے والے کے مسائل حل کرنے کے لیے سفارش--- اسے کہتے ہیں عالی ظرفی اور اونچا کردار! فجزاہ اللّٰہ خیراً
غالباً یہ ۱۹۵۵ء یا ۱۹۵۶ء کی بات ہے۔ ہم چند نوجوانوں نے حیدر آباد دکن میں حلقۂ طلبہ جماعت اسلامی‘ حیدر آباد کی بنیاد ڈالی اور اس کے تحت ایک لائبریری کے قیام کا ارادہ کیا۔ میں اس کا سیکرٹری تھا۔ میں نے مولانا مودودیؒ کو لاہور ایک خط لکھا‘ جس میں حلقۂ طلبہ اور ان کی لائبریری کے قیام کی اطلاع دی اور ترجمان القرآن مفت روانہ کرنے کی درخواست کی۔ چند ہی دن میں ترجمان آیا اور آتا ہی رہا۔ جب تک میں ثانوی درس گاہ جماعت اسلامی رام پور منتقل نہیں ہوا اس وقت تک تو پابندی سے ترجمان آتا ہی رہا۔ بعد کا مجھے علم نہیں ہے۔ شاید آتا رہا ہو یہی امکانِ غالب ہے۔
جب میں عدن پہنچا اور وہاں ڈاکٹر محمد علی البار اور محمد الخادم الوجیہ اور عمر سالم طرموم اور عبدالرحمن العمودی کے تعاون سے ’’المرکز الثقافی الاجتماعی الاسلامی‘‘ کی بنیاد ڈالی‘ تو میں نے اس مرکز کے دستور کے ساتھ جو عربی میں تھا‘ ایک خط مولانا کی خدمت میں روانہ کیا اور درخواست کی کہ اس کی لائبریری کے لیے ترجمان القرآن روانہ کریں تو ترجمان آنا شروع ہوگیا۔ خیال رہے کہ اس وقت تک میری مولانا سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ یہ صرف خدمت ِ اسلام کی خاطر مولانا نے ہمت افزائی کے طور پر مفت ترجمان روانہ کیا۔ مخبراللہ عنا خبراً
جولائی ۱۹۶۷ء میں یا اس کے آس پاس جب میں جدہ منتقل ہو گیا تو وہاں مولانا سے پہلی بار شرف تعارف حاصل ہوا۔ میں اور استاذ محترم مولانا عمر بن عبداللہ بن طیران بن محفوظؒ نے جدہ ایئرپورٹ پر مولانا کا استقبال کیا۔ کار میں بیٹھنے کے بعد بن محفوظ نے کہا کہ مولانا یہ وہی سید حامد الکاف ہیں جنھوں نے آپ کی خدمت میں سید قطب کی کتاب معالم فی الطریق کا ترجمہ روانہ کیا ہے۔ ہمارے دوست خلیل احمد حامدی بھی ساتھ تھے۔ مولانا نے ان کی طرف رخ کر کے فرمایا: ’’جی ہاں‘ آپ کا ترجمہ تو ملا ہے مگر اس میں عربیت زیادہ تھی۔ اس لیے میں نے اس کو ’’اردو وانے‘‘ کے لیے خلیل حامدی صاحب کو دیا ہے‘‘۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ نہیں معلوم اس معالم فی الطریق کے پہلے ترجمے کا کیا ہوا؟ اتنا ضرور ہے کہ اس کی دو چار قسطیں سہ روزہ دعوت دہلی میں چھپی تھیں۔
میں نے مولانا سے عرض کیا تھا:’’میں رابطۃ العالم الاسلامی میں مترجم کی حیثیت سے کام کررہا ہوں۔ ان شاء اللہ کل آپ سے وہیں ملاقات ہو گی‘‘۔ دوسرے دن تقریباً ۱۱ بجے رابطہ کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ احوال کے تبادلے میں پوچھا: ’’کتنی تنخواہ ملتی ہے؟‘‘ عرض کیا: ’’۵۰۰ سعودی ریال‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ تو بہت کم ہے‘‘۔ میں نے کہا: ’’خدمتِ اسلام کا ادارہ ہے‘‘۔ فرمایا: ’’اس کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے۔ پھر اتنی کم تنخواہ کیوں؟ فوراً استعفا دیجیے ‘‘۔ اور واقعی اسی روز میں نے استعفا دے دیا اور عصر کی نماز میں مولانا کو بتا بھی دیا۔ کچھ بھی نہ کہا‘ خاموش رہے۔
جب گھر واپس ہوا تو کہا گیا :’’تمھیں حسن بن عبداللہ بن عجران بن محفوظ تلاش کر رہے تھے‘‘۔ میں ان سے ملا تو کہا کہ آج گھانا کونسلیٹ جنرل کے لوگ میری دوکان پر آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک مترجم کی ضرورت کا اظہار کیا ہے اور ماہانہ ایک ہزار سعودی ریال دینے کو تیار ہیں۔ یہ ان کا ٹیلی فون ہے ان سے بات کر لو۔ دوسرے دن ضروری کارروائی کے بعد مجھے ایک ہزار سعودی ریال کی نوکری مل چکی تھی۔ الحمدللّٰہ!
یہ مولانا کی طرف سے یہ درس تھا کہ آدمی کو کسی وجہ سے بلا وجہ اپنے آپ کو اور اپنی صلاحیتوں کو سستے داموں نہیںبیچنا چاہیے۔
اس کے بعد مولانا پھر رابطہ کے جلسوں میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ جمعرات کا دن تھا۔ میں اور استاد محترم عمر بن محفوظ مغرب کے بعد مکہ مکرمہ کے شبرہ ہوٹل پہنچے جہاں مولانا کا قیام تھا۔ کچھ دیر بعد مکہ سے شائع ہونے والے روزنامہ الندوہ کا نمایندہ حاضر ہوا۔ مولانا خلیل حامدی موجود نہیں تھے۔ مترجم کی خدمت میں نے انجام دی۔ دوسرے دن‘ یعنی جمعہ کو یہ انٹرویو الندوہ میں شائع ہو گیا۔
مکہ مکرمہ میں طے پایا تھا کہ میں اور عمر بن محفوظ دوسرے دن جمعہ کو صبح جدہ پیلس ہوٹل پہنچ جائیں گے جہاں مولانا‘ میاں طفیل محمد صاحب اور مولانا خلیل حامدی کے ہمراہ مقیم تھے۔ ہم دونوں حسب وعدہ کوئی ساڑھے آٹھ یا نو بجے ہوٹل پہنچ گئے۔ ہمیں دیکھ کر مولانا خوش ہوئے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے: ’’چائوش! میں نے مسجد دہلوی‘ مکہ مکرمہ میں نوجوانوں سے جو خطاب کیا ہے اس کو عربی میں آپ نے منتقل کرنا ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ: ’’مولانا میں کوئی کہنہ مشق مترجم نہیں ہوں۔ تھوڑا بہت ترجمہ کر لیتا ہوں لیکن آپ کے خطاب کا صحیح اور دقیق ترجمہ میرے بس کا روگ نہیں ہے‘‘۔ مولانا خلیل حامدی نے حامی بھر لی تو مولانا‘ ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: ’’خلیل صاحب! عربی زبان ان کے گھر میں پل کر جوان ہوئی ہے۔ یہ جو کہہ دیں فصیح ہے اور جو لکھ دیں بلیغ ہے‘‘۔
میں سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ مولانا نے فرمایا: ’’چائوش! شروع ہو جائیں۔ آج رات انھیں (یعنی الندوہ والوں کو) دینے کا وعدہ ہے‘‘۔
میں نے ترجمہ کر دیا۔ دوسرے دن یہ تقریر الندوہ میں چھپ گئی۔ الحمدللہ
اس واقعے کے میاں طفیل محمد صاحب عینی گواہ ہیں۔ وہ خاموش بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے۔ مولانا کے ان الفاظ نے مجھے اتنی ہمت بخشی کہ کبھی بھی مجھے اپنی عربی/ اردو/ انگریزی زبانوں کے معیار کے بارے میں شک و شبہہ پیدا نہ ہوا‘کیونکہ یہ مولانا مودودیؒ کا وہ ادبی ذوق تھا جس کی نفاست اور بلندمعیار ہونے کے بارے میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
اس وقت دراصل مولانا مودودیؒ دلی کرب اور رنجیدگی کی حالت میں تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ رابطہ کے اجلاس میں مولانا نے احمد آباد میں وحشیانہ اور خون ریز مسلم کش فسادات پر کوئی قرارداد منظور کروائی‘ مگر شاہ فیصل نے اس کو روک لیا‘ یعنی اس کا اعلان کرنے سے منع کر دیا۔
مولانا نے فرمایا :’’ابھی ابھی گردے کے آپریشن سے لوٹا تھا۔ فسادات کی خبریں سن کر محض ان کی شنوائی کی خاطر ایک گردے کے ساتھ یہاں چلا آیا۔ بڑی مشکل سے تو قرارداد پاس ہوئی۔ اس کو بھی روک لیا گیا۔ اب ریاض جا کر کیا کروں؟‘‘
بہرحال وہ جدہ ہی سے لاہور واپس ہو گئے۔ یہ ان سے میری آخری ملاقات تھی۔ اللّٰھُمَّ اغفِرہُ والرحمہ یارب ۔ یہ واقعہ پہلی بار بیان کر رہا ہوں۔ الحمدللہ‘ میاں طفیل محمدصاحب بقیدحیات ہیں۔ وہ اس کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔
اس سلسلے میں جسٹس غلام علی مرحوم کہتے ہیں: مولانا کے کردار کے حوالے سے اور بھی اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ مولانا عبیداللہ انور مرحوم پر ایک مرتبہ پولیس نے انتہائی تشدد کیا۔ مولانا انور کے شاگرد اور اہل خانہ ان کو اٹھا کر گھر لے گئے۔ مولانا مودودی کو جب یہ معلوم ہوا تو سخت افسوس ہوا۔ مولانا کو یہ بھی پتا چلا کہ ان کو گھر لے گئے ہیں‘ ہسپتال نہیں لے گئے‘ تو مولانا نے اپنے لڑکے کو غالباً صفدر حسن صدیقی کے ہمراہ بھیجا کہ میری طرف سے عیادت کریں اور مولانا کو ہسپتال بھی لے جائیں۔ انھیں کہیں کہ میں خود حاضر ہوتا ‘لیکن میری طبیعت چونکہ اس قابل نہیں ہے کہ کہیں آ جا سکوں‘ اس لیے معذرت خواہ ہوں۔ چنانچہ مولانا کے مشورے پر ہی ان کو ہسپتال لے جایا گیا۔
ایک دفعہ سعودی عرب میں کوئی کانفرنس تھی۔ مولانا محمد دائود غزنوی مرحوم بھی اس میں شامل تھے۔ ان کو کچھ تکلیف ہو گئی تو مولانا مودودیؒ رات بھر ان کے پاس بیٹھے رہے‘ حالانکہ مولانا مودودیؒ کی اپنی صحت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ مولانا ابوبکر غزنوی‘ مولانا مودودی کے اس طرزِ عمل سے بڑے متاثر ہوئے اور بعد میں اس کا ذکر بھی کرتے تھے کہ مولانا کے دل میں محبت و انس کا کتناجذبہ ہے۔(ایضًا‘ ص ۲۳۴)
اس سوال کے جواب میں کہ کوئی ایسا واقعہ یا واقعات جن پر مولانا کو سخت صدمہ پہنچا ہو؟ میاں طفیل محمدصاحب نے فرمایا: ’’چودھری غلام جیلانی مرحوم نے بتایا تھا کہ ایک واقعہ جس کا میں شاہد ہوں‘وہ یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان پر محترم سید قطب کی شہادت کی خبر سننے کے بعد میں اچھرہ جا رہا تھا کہ راستے میں مولانا گلزار احمد مظاہری مل گئے۔ میں نے ان کو یہ خبر سنائی تو وہ بھی ساتھ ہو لیے۔ ہم ۵- اے ذیلدار پارک پہنچے تو مولانا کو بے حد ملول اور افسردہ پایا۔ ان کے چہرے پر خلافِ معمول زردی چھائی ہوئی تھی۔ اظہارِ تعزیت کرنے لگا تو مولانا خاموشی سے سنتے رہے۔ پھر ایک گہرا سانس لیا اور جذبات بھرے لہجے میں فر مانے لگے (اور یہ میری ۴۰ سالہ رفاقت میں پہلا تجربہ تھا کہ مولانا مودودی کو میں نے یوں جذبات میں ڈوب کر بات کرتے دیکھا) کہ کل رات مجھ پر مسلسل ڈپریشن طاری رہا۔ ہزار کوشش کے باوجود پڑھنے لکھنے کا کوئی کام نہیں ہو رہا تھا‘ آخر میں کام چھوڑ کر بیٹھ گیا۔ اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا اور فی الحقیقت میں بالکل نڈھال ہو گیا۔ خیال رہے کہ یہ عین وہی وقت ہو گا جب سیدقطب کو پھانسی دی جا رہی تھی‘‘ (چودھری غلام جیلانی کا کلام یہاں ختم ہوا)۔
میاں صاحب نے فرمایا: جہاں روحانی تعلق ہو وہاں ایسی کیفیت کا طاری ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس کی اور بھی مثالیں ہیں کہ بیٹے کو کوئی حادثہ پیش آیا اور کوسوں دور ماں کا دل ڈوبنے لگا اور بلا کسی ظاہری سبب کے وہ سخت پریشان ہو گئی۔ اسی طرح ۱۹۴۸ء میں سقوط حیدر آباد اور ۱۹۷۱ء میں سقوط ڈھاکہ بھی مولانا محترم کے لیے انتہائی صدمے کے موجب واقعات تھے اور علامہ اقبال‘ مولانا محمد علی جوہر اور قائداعظم کی وفات کے سلسلے میں تو مولانا محترم کے جذبات کا عکس ان کی تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (ایضًا‘ ص ۷۳)
کیوں نہ ہو۔ ان کا سید قطبؒ سے روحانی تعلق انتہائی گہرا تھا۔ ایک تو اس وجہ سے کہ سیدقطب شہیدؒنے مولانا کی چار بنیادی اصطلاحوں (الہ‘ رب‘ عبادت‘ دین) کو نہ صرف اپنا یا‘ بلکہ ان پر حاکمیت اور سلطان وغیرہ کی اصطلاحوں کا اضافہ کیا۔ اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں دو جگہ ان کو ’’المسلم العظیم‘‘ کے لقب سے یا د کیا۔ علاوہ ازیں بغیر علم اور لا شعوری طور پر قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں کی شرح مقوّمات الشعور الاسلامی (اسلامی تصور کی بنیادیں) دو ضخیم جلدوں میں لکھی۔ یہ سب کچھ غائبانہ تعارف کے تحت ہوا۔
مزید یہ کہ ان میں اور مولانا مودودی میں توارد فکری بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں میں نے اپنے مضمون:تفہیم القرآن اور صاحبِ تفہیم القرآنمیں دی ہیں۔ ان میں اضافے کی اچھی خاصی گنجایش ہے۔ مسئلہ سود پر انھوں نے دل کھول کر مولانا کے افکار کا ذکر کیا ہے۔ سورۂ نور کی تفسیر میں بھی انھوں نے مولانا کی ترجمہ شدہ کتاب تفسیر سورۃالنور سے بھرپور استفادہ کیا اور فخر کے ساتھ ان سب مقامات پر اپنے فکری مصادر اور اپنے ممدوح سید مودودی کا ذکر کیا ہے۔
ان کی شہادت کے وقت مولانا مودودیؒ کو ان تفاصیل کا علم نہیں تھا۔ اس وقت تک صرف معالم فی الطریق معروف ہوئی تھی اور اس پر مقدمہ چلا اور پھانسی کی سزا ہوئی۔ فی ظلال القرآنکا نظرثانی شدہ ایڈیشن بعد میں پھیلا اور عام ہوا۔ اس وجہ سے یہ روحانی اور تعلق خاطر حیرت انگیز امر ہے۔
میں تو بار بار یہ عرض کر چکا ہوں کہ سید قطبؒ نے اپنی فصیح و بلیغ عربی زبان میں لکھی ہوئی تفسیر کے ذریعے مودودیؒ اور فکر مودویؒ کو آسمان خلود کا ایک چمکتا دمکتا ستارہ بنا دیا ہے۔ فجز راھما اﷲ عنا خیر الخیرائ۔ یہ تفسیر تا قیامت جہاں جہاں اور جب جب پڑھی جائے گی‘ مودودیؒ اور فکر مودودیؒ کو زندہ اور تاب ناک کرتی رہے گی۔
اس سانحے سے ان پر کیا گزری اس کا اندازہ اسی ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں دل کا دورہ تبھی پڑا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا‘ اسے تو یوں سمجھئے کہ مغربی پاکستان والوں نے دھکے دے کر الگ کیا ہے۔ (ایضًا‘ ص ۲۰۰)
یہی کچھ سقوط حیدر آباد دکن کے بارے میں بھی صحیح ہے۔ ان کو حیدر آباد سے بے پناہ محبت تھی اس محبت کو ان مقالات کے عنوانات میں دیکھا جا سکتا ہے جو انھوں نے الجمعیۃ میں لکھے تھے (ایضًا‘ ص ۳۱۵-۳۱۶)۔ اور ان کتابوں میں ان کا عکس ہے جو انھوں نے دکن کی سیاسی تاریخ اور سلطنت آصفیہ اور حکومت برطانیہ کے تعلقاتکے عنوانوں کے تحت لکھیں۔ (ایضًا‘ ص ۳۱۷‘ ۶۹۲‘ ۷۶۶)
انھوں نے حیدر آباد کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کی اس خط کے ذریعے کی جو میرے محسن اور کرم فرما جناب محمد یونس کے ہاتھوں جناب قاسم رضوی کو لکھا تھا مگر یہ جوش میں ہوش کھو بیٹھے تھے اور ایک پوری ریاست بھی کھو دی۔ (ایضًا‘ ص ۳۱-۳۲)
گورداسپور مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ تھا مگر دھوکا دہی سے ہندستان میں شامل کر دیا گیا۔ وہ دن ہم پر بڑے بھاری گزرے ---یہ اﷲ کا بڑا کرم تھا کہ سکھوں پر دارالاسلام کا بڑا رعب تھا۔ دارالاسلام کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا --- حالانکہ اہل دارالاسلام کے پاس ایک آدھ بندوق کے سوا کچھ نہ تھا۔ کتنی راتیں ہم نے وہاں اس طرح گزاریں کہ عورتیں میرے گھر میں جمع ہو جاتیں اور مرد مورچوں میں بیٹھے رہتے۔ ساری رات آنکھوں میں کاٹتے پھر غازی (عبدالجبار) صاحب نے ایک کانوائے بھیجا‘ ایک ٹرک ہم نے چوہدری نیاز علی خان کو دے دیا۔ ہم صرف عورتیں اور بچے پاکستان آئے تھے۔ مودودی صاحب نے آنے سے انکار کر دیا تھا کہ جب تک ان پناہ گزینوں کو مسلمان ملٹری آ کر اپنی حفاظت میں نہ لے لے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔(ایضًا‘ ص ۱۹۱)
--- ایک مہینے تک نہ ہمیں مولانا صاحب کی خبر تھی کہ وہ زندہ سلامت ہیں کہ نہیں اور نہ انھیں ہماری کچھ خبر تھی۔ کوئی مہینے ڈیڑھ مہینے بعد مسلمان ملٹری نے دارالاسلام کے پناہ گزینوں کو جب اپنی تحویل میں لے لیا تب مووددی صاحب نے وہاں سے پاکستان کا رخ کیا۔(ایضًا‘ ص ۱۹۰)
پاکستان آتے ہی مولانا نے کئی مہاجر کیمپ قائم کیے۔ نقد اور اشیا جمع کیں۔ سال ڈیڑھ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ بعد ازاں سیلاب زدگان کی خدمت میں لگ گئے۔ چندہ‘ روپے پیسے‘ کپڑے وغیرہ جمع کیے۔
یہ واقعہ چودھری غلام محمد مرحوم نے مجھ سے ذاتی طور پر بیان کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ سعودی عرب کے ایک سفر کے دوران جدہ کا ایک بہت بڑا تاجر جو مولانا سے ملاقات کی غرض سے آیا۔ وہ مولانا کی اسلام کے لیے خدمات اور ان کا دلی طور پر معترف تھا۔ کچھ دیر بات چیت کے بعد اس نے ایک سادہ دستخط شدہ چیک بڑی عقیدت کے ساتھ مولانا مودودیؒ کی خدمت میں پیش کیا اور کہا: ’’مولانا اشاعت اسلام کے لیے جنتی رقم مطلوب ہو وہ آپ اپنے قلم سے لکھ لیجیے گا‘‘!! --- مولانا نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر چیک واپس کر دیا اور فرمایا: ’’آپ کابہت بہت شکریہ۔ جب ضرورت ہو گی لے لیں گے‘‘۔ اس تاجر نے یہ سنا تو حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔(ایضًا‘ ص ۲۴۰-۲۴۱)
اسی ابہام کو دور کرنے کی خاطر یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ تاجر عبداﷲ شرتبلی تھے۔ بعد میں انھوں نے لسٹر (برطانیہ)کانو (نائجیریا) اور نیروبی (کینیا) میں اسلامک فاؤنڈیشن کی بنیاد ڈالنے میں بڑھ چڑھ کر مالی لحاظ سے حصہ لیا۔ اس عظیم منصوبے کے سلسلے میں بھاگ دوڑ کئی سالوں تک چودھری غلام محمد کرتے رہے ہیں۔ اسی غرض سے وہ عدن سے ہو کر مشرقی افریقہ گئے تھے اور عدن ہی میں میری ان سے پہلی ملاقات ہمارے دوست عمر سالم طرسوم کے واسطے سے ہوئی تھی۔ جدہ میں جب چودھری صاحب تشریف لاتے تو اکثر راؤ محمد اختر صاحب کے گھر پر ٹھیرا کرتے تھے۔ بعض اوقات میں بھی ترجمہ کر کے خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہو جایا کرتا تھا۔ برادرم راؤ اختر‘ چودھری صاحب کے دست وبازو تھے۔ آگے چل کر وہ اس منصوبے کے افریقہ کی حد تک روح رواں ہوگئے۔
میں صرف ان ۱۱ شخصی عناصر ترکیبی کا ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا‘ جن سے مودودی صاحب کی شخصیت کا خمیربنا تھا اور جس نے نہ صرف ہند و پاک بلکہ عالمی پیمانے پر احیاے اسلام کی تحریک کو فکری اور عملی سطحوں پر زبردست فائدہ پہنچایا۔
۱- تذکرہ سید مودودی ‘ج ۳‘ مرتبہ: جمیل احمد رانا‘ سلیم منصورخالد‘ ص ۳۲۵۔ یہ حوالہ صرف ترجمان کی ’ملکیت‘ کے بارے میں ہے۔ باقی باتیں میں نے حافظے کے بل پر کہی ہیں - حوالہ اس وقت میرے پاس نہیں ہے۔ مولانا ابومصلح کی سیرت کے لیے ملاحظہ ہو: تذکرۂ سید مودودی‘ ج۲‘ ص ۳۲۴ - ۳۲۶
۲- ترجمان القرآن‘ ستمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۳۷ - ۴۷۔ تذکرۂ سید مودودی ج ۳‘ ص ۱۷ - ۱۷۷۔ مشاہدات‘ از میاں طفیل محمد‘ ادارہ معارف اسلامی‘ لاہور۔
۳- تذکرۂ سید مودودی ج ۳‘ ص ۱۷۸ - ۲۱۰‘ بیگم مودودی ؒ کا انٹرویو
اس سلسلے میں دوسرے رفقا اور معاصرین کے مشاہدات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ میاں طفیل محمد صاحب فرماتے ہیں: ’’ہم لوگوں کی معاشی زندگی کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ دارالاسلام میں تو بعض دنوں خود مولانا مودودی ؒکے ہاں چولھا نہیں جلتا تھا لیکن مولانا محمد منظور نعمانی ؒصاحب جیسے بزرگ ان کے سفید کرتے اور پاجامے اور دوپلی ٹوپی سے یہی اندازہ کرتے تھے کہ وہ کوئی رئیسانہ زندگی بسر کررہے ہیں۔‘‘ (تذکرۂ سید مودودی‘ ج ۳‘ ص ۱۱۶)