مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا شمار بلاشبہہ بیسویں صدی کے نامور ترین مفکرین اور علماے اسلام میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی ۶۰سالہ علمی اور ادبی زندگی میں دینی‘ ملّی اور اجتماعی زندگی کے کم و بیش ہر پہلو پر لکھا ہے۔ ان کی تحریروں کا بنیادی مطمح نظر فکر اسلامی کی تجدید‘ مسلم معاشرے کی تشکیل نو اور مسلمانوں کی گمشدہ اسلامی میراث کی بازیافت ہے۔ اپنی ابتدائی تحریروں میں مولانا مودودیؒ کے خیالات پر جن دینی شخصیتوںکے اثرات غیر معمولی طور پر محسوس ہوتے ہیں‘ ان میں آٹھویں صدی ہجری کے مشہور مجدد اور مصلح علامہ ابن تیمیہ ؒ کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ ابن تیمیہؒ سے مولانا مودودیؒ کی عقیدت بہت قدیم بھی ہے اور ابتدا میں بڑی شدید بھی تھی۔ مولانا کی جن کتابوں کو ان کے نظام فکر میں کلیدی حیثیت حاصل ہے‘ ان میں تجدید و احیاے دین ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ کتاب دراصل ایک مقالہ تھا جو انھوں نے ۴۱-۱۹۴۰ء میں الفرقانکے شاہ ولی ؒاللہ نمبر کے لیے لکھا تھا۔ مولانا نے اس مقالے میں نہ صرف تصور تجدید اور احیاے دین پر مفصل بحث کی اور اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا‘ بلکہ اسلامی تاریخ کی جن نامور شخصیتوں کو وہ تجدید و احیاے اسلام کا نمایندہ سمجھتے ہیں ان کے کام پر بھی انھوں نے روشنی ڈالی ہے۔
اس مقالے یا کتاب کی تصنیف کے دوران مولانا مودودیؒ کے ذہن میں تجدید کا جوخاص تصور تھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے مختلف مجددین کے کام پر تبصرے کیے اور جہاں جہاں بہتری کی گنجایش محسوس کی اس کی نشان دہی کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیاے اسلام کو جس شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا‘ اس نے مولانا کے نوجوان ذہن اور حساس دل پر گہرا اثر ڈالا۔ انھوں نے یہ محسوس کیا کہ دنیا میں ہر جگہ مسلمان ہی زوال کا شکار ہیں‘ اور زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نظر نہیں آتا جس میں مسلمانوں کا زوال نمایاں نہ ہو۔ اس ہمہ گیر زوال اور کمزوری کے احساس نے مولانا کے تصورِ تجدید پرگہرا اثر ڈالا۔ جس زمانے میں وہ یہ مقالہ لکھ رہے تھے ان دنوں دنیاے اسلام میں انحطاط و زوال کی بڑھتی ہوئی تاریکیوں کے مشاہدے نے ان کے دل میں تجدیدِکامل کی ضرورت کا احساس پیدا کیا۔ چنانچہ اس پوری کتاب کی اٹھان مجددِکامل یا تجدیدِ کامل کے تصور پر ہے۔یہ تجدیدِ کامل جس کی ضرورت کا احساس مولانا کو بیسویں صدی کے نصف اول میں ہوا‘ اس کی روشنی میں جب انھوں نے بیسویں صدی سے پہلے کے مجددین کے کام کا جائزہ لیا تو کئی جگہ ان کو وہ خلا محسوس ہوا جو نہ خود ان مجددین کو محسوس ہوا تھااور نہ کبھی دیگر مؤرخین نے اس کی نشان دہی کی۔
اس پس منظر میں جہاں مولانا مودودیؒ بہت سے مجددین کے کام کا جائزہ لیتے ہیں اور وہاں موجود اس خلا کی نشان دہی کرتے ہیں جو ان کو محسوس ہوا‘ وہیں وہ ابن تیمیہؒ جیسی قد آور شخصیت کا تذکرہ بھی بہت بھرپور انداز سے کرتے ہیں۔ ایسا ہونا شاید ناگزیر بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے انھی دنوں ابن تیمیہؒ کی تحریروں کا تازہ تازہ مطالعہ کیا تھا۔ ابن تیمیہؒ کے تذکرے میں جو جوش و خروش اور تاثر پذیری نظر آتی ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آٹھویں صدی کے بالغ نظر اور انتہائی پرجوش مصلح کے گہرے اثرات نوجوان مصنف اور مستقبل کے مصلح کے قلم پر پڑرہے ہیں۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس مقالے کے لکھے جانے سے کچھ ہی قبل‘ ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء کے سالوں میں‘ مولانا نے ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد رشید ابن القیمؒ کی تصنیفات سے بہت استفادہ کیا۔
ابن تیمیہؒ کے اثرات مولانا پر ایک دوسرے راستے سے بھی پہنچے۔ یہ راستہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتاب حجۃ اللّٰہ البالغہ ہے۔ حجۃ اللّٰہ البالغہ کے بارے میں بعض اربابِ نظر کا کہنا ہے کہ اس کے بعض حصے ابن تیمیہؒ کی کتابوں کے براہ راست اثرات کے تحت لکھے گئے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی حجۃ اللّٰہ البالغہکے بعض ابواب اور علامہ ابن تیمیہؒ کے خیالات میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ مولانا نے ۳۹۔۱۹۳۸ء کے سالوں میں حجۃ اللّٰہ البالغہکے بعض حصوں کا ترجمہ کیا۔ یہ وہ حصے تھے جہاں شاہ ولی ؒاللہ کے افکار اور ابن تیمیہؒ کے خیالات میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ مضامین جو حجۃ اللّٰہ البالغہکے مختلف ابواب کے آزاد ترجمے سے عبارت ہیں‘ ۳۹-۱۹۳۸ء کے سالوں میں ترجمان القرآن میں شائع ہوئے۔
ان مقالات کے موضوعات کے ایک سرسری جائزے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مولانا مودودیؒ اور خود شاہ ولی ؒاللہ کے خیالات پر ابن تیمیہؒ کے اثرات کہاں کہاں ہوئے ہیں۔ چند عنوانات ملاحظہ فرمائیں: ۱- توحید و شرک‘۲-حقیقت شرک‘۳-اقسام شرک‘ ۴-علوم نبوی کی اقسام‘ ۵-مصالح اور شراع کا فرق‘ ۶-نبی سے اخذِشرع کی کیفیت‘ ۷-چوتھی صدی ہجری کا فقہی و مذہبی اختلاف‘ ۸-دین میں تحریف اور بدعت کے اسباب ‘ ۹- اسلام کا فلسفہ عمران‘ ۱۰-اسلامی قانون معیشت‘اس کی روح اور اصول‘۱۱- اہم ترین تمدنی مفسدات کا انسداد‘ ۱۲- نرخوں کا حکماً مقرر کیا جانا‘ ۱۳- معاملات میں فضل اور فیاضی‘ ۱۴- اختلافی مسائل اور نقطۂ عدل۔ ان جیسے عنوانات سے یہ بات پورے طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ ابن تیمیہؒ کے اثرات مولانا مودودیؒ کے افکار پر کن کن راستوں سے پڑ رہے ہیں۔
موضوعات و خیالات کے اس اشتراک کے علاوہ بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کو ابن تیمیہؒ کی شخصیت میں ایک ایسا دینی آئیڈیل نظر آیا جس کے نظریات‘ تحریروں‘ تحریکی ردعمل اور رویہ ان کو خود اپنے خیالات‘ تحریروں اور رویے سے بہت ملتا جلتا معلوم ہوا۔ ان دونوں شخصیتوں میں یہ مشابہت اتنی گہری اور نمایاں ہے کہ ان دونوں کے کام اور افکار کا کوئی ناقد اور مبصر اس سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔
مزید برآں دونوں فکروں کو جس فکری ماحول میں کام کرنے کا موقع ملا وہ بھی قریب قریب یکساں ہی تھا۔ ابن تیمیہؒ نے جس دور میں آنکھیں کھولیں وہ سیاسی اعتبار سے افراتفری اور عسکری اعتبار سے مسلمانوں کی پستی کا دور تھا ۔ مشرق سے جنگجو تاتاریوں کا سیلاب جو کم و بیش ۱۰۰سال قبل اٹھا تھا‘ اس نے دنیاے اسلام کے شہر کے شہر زمین بوس کر دیے تھے اور لاکھوں بے گناہ کلمہ گو مسلمانوں کو تہہ تیغ کر ڈالا تھا۔ تاتاریوں کی ان تباہ کن ترک تازیوں کے نتیجے میں چند ایک کے علاوہ جن میں دہلی کی سلطنت بھی شامل تھی‘ دنیاے اسلام کی تمام بڑی بڑی حکومتیں ایک ایک کر کے یا تو سرنگوں ہو چکی تھیں اور لرزہ براندام تھیں‘ یا بالکل ہی دم توڑچکی تھیں۔
کم و بیش یہی منظر مولانا مودودیؒ نے بیسویں صدی میں دیکھا۔ اس صدی کی تیسری دہائی مسلمانوںکی تباہی کے وہ عبرت ناک منظر لے کر آئی جس کی کوئی نظیر اگر اسلام کی تاریخ میں ملتی ہے تو وہ تاتاریوں ہی کی ہولناکیوں میں ملتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب سلطنت عثمانیہ دم توڑ رہی تھی‘ مشرقی یورپ میں جگہ جگہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی اور مختلف مغربی طاقتیں ایک ایک کر کے دنیا بھر کی مسلم ریاستوں کو تاخت و تاراج کر رہی تھیں۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اور تاتارستان سے لے کر زنجبار تک کوئی مسلم حکومت ایسی نہ تھی جو دنیاے مغرب کے پنجے تلے نہ کراہ رہی ہو۔
تاہم ‘تاتاریوں کی تاخت و تاراج اس اعتبار سے مغربی تاراج سے بہتر تھی کہ تاتاریوں کی لائی ہوئی تباہی کے اثرات صرف عسکری اور مادی پہلوئوں تک محدود تھے۔ تاتاریوں نے بلاشبہہ لاکھوں انسان تہہ تیغ کیے‘ درجنوں شہر زمیں بوس کیے‘ سیکڑوں کتب خانے نذر آتش کیے اور بے شمار کھیتیاں اور نسلیں برباد کیں۔ لیکن اس سب کے باوجود تاتاریوں کے نہ کوئی مذہبی عزائم تھے‘ نہ کوئی تہذیبی ایجنڈا تھا اور نہ کوئی ثقافتی اور تمدنی منصوبہ تھا۔ کم از کم ان میدانوں میں انھوں نے مسلمانوں سے کوئی تعرض نہ کیا۔ اس کے برعکس مغرب کی استعماری قوتیں ایک مذہبی پروگرام کے ساتھ دنیاے اسلام میں داخل ہوئی تھیں۔ ان کا ایک مفصل تہذیبی ایجنڈا بھی تھا اور ایک تعلیمی پروگرام بھی ۔ اس لیے جو منفی اثرات بیسویں صدی کی تباہی اور زوال کے نتیجے میں پیدا ہوئے وہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کی تباہی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ کر تھے۔اس سے یہ نتیجہ بلاخوف تردید نکالا جا سکتا ہے کہ جو فکری چیلنج مولانا مودودیؒ اور ان کے ہم عصر مفکرین کے سامنے تھا وہ اس سے کہیں بڑھ کر تھا جس کا سامنا ابن تیمیہؒ کو کرنا پڑا۔
ابن تیمیہؒ اور مولانا مودودیؒ دونوں نے اپنے اپنے دور میں ان فکری چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی جو ان کے دور میں مسلمانوں کو درپیش تھے۔ لیکن یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ابن تیمیہؒ جس چیلنج کا سامنا کر رہے تھے وہ یونانی منطق اور فلسفے کا پیدا کردہ تھا۔ بلاشبہہ ابن تیمیہؒ کی نقض المنطق اور الردعلی المنطقیین انتہائی عالمانہ کتابیں ہیں اور یونانی منطق پر مسلمانوں کی تنقید کا بہترین نمونہ ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی امر واقعہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کے دور تک آتے آتے یونانی منطق اور فلسفہ ویسے ہی ادھ موئے ہو چکے تھے۔ مسلمانوں میں ابن تیمیہؒ سے پہلے غزالیؒ اور رازیؒ جیسے اساطین علم و فکر یونانی منطق اور فلسفے پر زبردست اور تابڑ توڑ حملے کر چکے تھے اور اب یونانی منطق اور فلسفے کے خلاف آواز اٹھانا آسان بھی تھا اور اس کے لیے مواد بھی دستیاب تھا۔
اس کے برعکس جب مولانا مودودیؒ اور ان کے ہم عصر دوسرے مسلم مفکرین نے تنقید ِمغرب کے کام کا آغاز کیا تو مغربی افکار و نظریات انتہائی تازہ دم اور ہر قسم کی تنقید کو سہنے کے لیے پورے طور پر تیار تھے۔ جن دنوں امام غزالیؒ اور امام رازیؒ یونانی منطق پر تنقیدیں کر رہے تھے‘ وہ دور اہل مغرب کے بالعموم اور اہل یونان کے بالخصوص سیاسی انحطاط اور کمزوری کا دور تھا۔ یہ وہ دور ہے جب کم از کم یورپ میں کوئی سیاسی قوت ایسی موجود نہ تھی جو یونانی افکار کے تحفظ اور دفاع کے لیے کھڑی ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ غزالیؒ اور رازیؒ اور ان کے بعد ابن تیمیہؒ کی تنقیدوں کے جواب میں جو آوازیں منطق اور فلسفے کے دفاع میں اٹھیں ان کو کسی حکومت یا سیاسی قوت کی تائید حاصل نہ تھی۔ ان حضرات کی کاوشوں کی علمی قدروقیمت اپنی جگہ‘ لیکن کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ یہ حضرات ایک ایسے فلسفے اور نظریے پر تنقید کر رہے تھے جس کو ہم بلاخوف تردید سیاسی اعتبار سے ایک یتیم فلسفہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس جس فلسفے اور نظریے کو مولانا مودودیؒ اور ان کے معاصرین نے تنقید کا نشانہ بنایا‘ اس کی پشت پر بڑی بڑی مضبوط سلطنتیں اور سیاسی قوتیں موجود تھیں جن کا سوچا سمجھا مطمح نظر اور طے شدہ ایجنڈا ہی یہ تھا کہ اپنی سیاسی قوت کو اپنے نظریات کے فروغ میں استعمال کیا جائے۔
بیرونی افکار پر تنقید اور مغربی فکر و فلسفے کے ناقدانہ جائزوں اور تبصروں سے قطع نظر ان دونوں حضرات کی علمی اور دینی کاوشوں کا اہم ترین میدان تجدید و اصلاحِ دین ہے۔ مسلمانوں میں رائج دینی تصورات کی قرآن و سنت کی روشنی میں تنقید اور کمزور پہلوئوں کی اصلاح ان دونوں شخصیتوں کے کام اور دل چسپی کا اصل میدان ہے۔ دونوں کو اپنے معاصر علما اور دینی اکابر کی شدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ ان دونوں شخصیتوں کا لب ولہجہ اور زور بیان اختلافی مسائل و معاملات میں ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہے۔ اس بات کو زیادہ واضح اور دو ٹوک انداز میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جس زور شور سے ان دونوں حضرات کا قلم تنقیدی مسائل پر اٹھتا ہے وہ اپنی ایک الگ ہی شان رکھتا ہے۔ غالباً یہ بتا دینا خلاف ادب نہ ہو گا کہ ان دونوں حضرات کے خلاف ان کے معاصر علما کے لہجوں میں شدت کا ایک اہم سبب ان حضرات کا وہ انداز بیاں بھی تھا جو انھوں نے اختلافی معاملات میں اختیار فرمایا۔
مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ دونوں اپنے اپنے اجتہادو تفردات میں بھی ایک دوسرے سے بڑی مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ان تفردات کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ نہ صرف خود یہ دونوں حضرات بلکہ ان کے مخاطبین‘ متاثرین اور ہمدردوں کی بڑی تعداد کی توجہ اور صلاحیتیں اپنے اپنے تفردات کا دفاع کرنے میں صرف ہوئیں اور اصلاح عقائد اور تعمیر ملت کا وہ کام پس منظر میں چلا گیا جس کا حصول ان دونوں جلیل القدر بزرگوں کا مقصود اولین تھا۔
عقلیات مغرب پر تنقید کے باب میں جہاں مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ میں خاص مشابہتیں پائی جاتی ہیں وہاں ان دونوں حضرات میں کئی اعتبار سے فرق بھی ہے۔ چونکہ مولانا اصلاً ایک سیاسی مفکر اور ایک ایسی جماعت کے سربراہ تھے جس نے انتخابی سیاست میںبھرپور حصہ لیا‘ اس لیے مولانا کی تنقید میں سیاسی اسلوب اور مکالمے کا رنگ جھلکتا ہے۔ جہاں مولانا مغرب کی فکری کمزوریوں کی نشان دہی کرتے ہیں وہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو اٹھ کھڑا ہونے اور کچھ کر گذرنے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کی تنقید میں خالص علمی اور فکری دلائل کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی قائد کا سا خطیبانہ انداز بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ یوں بھی مولانا کے ہاں خطابی دلائل ان کی ابتدائی تحریروں میں کثرت سے ملتے ہیں۔
اس کے برعکس ابن تیمیہؒ اصلاً ایک فقیہہ‘ متکلم‘ مناظر اور محدث تھے۔ اس لیے ان کی تنقیدی تحریریں ذرا مختلف انداز کی ہیں۔ ایک محدث کی سی دقت نظر‘ جزئیات کو بیان کرنے کا محدثانہ اسلوب اور مغربی افکار پر خالص دینی نقطۂ نظر سے تنقید کے دوران بھی ابن تیمیہؒ منطقی دلائل کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
یوں تو مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ دونوں کے ہاں عقل و نقل کا امتزاج یکساں طور پر پایا جاتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ابن تیمیہؒ کا زیادہ زور نقل پر اور مولانا کا عقل پر ہے۔ شاید اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کی ذہنی تشکیل اور علمی ساخت علمِ حدیث کے ماحول میں ہوئی‘ اس لیے ان کی تحریروں پر نقل کا اسلوب غالب ہے۔ اس کے برعکس مولانا مودودیؒ اپنے ابتدائی کیریئر میں چونکہ صحافی رہے‘ اس لیے ان کو عامۃ الناس کی سطح پر بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو اپنا مخاطب بنانا پڑا جو کسی دینی پس منظر کے حامل نہ تھے‘ چنانچہ انھیں لازماً ایسا اسلوب اپنانا پڑا جس میں اپیل کی اصل بنیاد نقل کے بجاے عقل ہو۔ چنانچہ عقلی اپیل کا یہ اسلوب مولانا کی تحریروں کا طرئہ امتیاز بن گیا۔ اس اسلوب کا ایک نمایاں مظہر یہ بھی ہے کہ جہاں مولانا خالص دینی معاملات پر گفتگو کرتے ہیںوہاں بھی ان کے طرز استدلال میں عقل کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ اس کی نمایاں مثال ان کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت ہے جو ایک ایسے موضوع پر ہے جس کا تعلق خالصتاً نقل کے میدان سے ہے‘ لیکن اس کتاب میں بھی مولانا کا عقلی استدلال (بمقابلہ نقلی دلائل) نمایاں اور غالب معلوم ہوتا ہے۔
ان دونوں شخصیتوں کا ایک اہم اور مشترک وصف ان کا داعیانہ جوش بھی ہے۔ یہ داعیانہ جوش مولانا مودودیؒ کی ابتدائی تحریروں میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ (بالخصوص قیام پاکستان کے بعد) جب مولانا کو سیاسیات کے تلخ حقائق سے واسطہ پڑا تو ان کے ہاں گفتگو اور مکالمے میں ایک نیا انداز سامنے آیا۔ اس نئے انداز میں نسبتاً زیادہ ٹھیرائو‘ زیادہ احتیاط اور زور بیان کی ارادی کمی معلوم ہوتی ہے۔
غالباً ابن تیمیہؒ کو ایسی کسی صورتحال سے دوچار نہیں ہونا پڑا اس لیے ان کے ہاں ایسی کوئی تبدیلی نمایاں طور پر محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ زور بیان دونوں کے ہاں غیر معمولی ہے۔
یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اردو زبان میں دینی ادب تخلیق کرنے والے اہلِ علم میں مولانا مودودیؒ کا درجہ اگر سب سے اونچا نہیں تو بہت اونچا ضرور ہے۔ اگر اردو زبان کے دینی ادیبوں اور اہل قلم کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے والی دو ایک شخصیتوں کا انتخاب کیا جائے تو یقینا مولانا مودودیؒ ان میں سے ایک ہوں گے۔ ان کا درجہ علامہ شبلی نعمانی ؒ‘ مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ اور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ جیسے جید ترین دینی ادیبوں سے اگر بڑھ کر نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں۔ لیکن ابن تیمیہؒ کے پورے احترام کے باوجود یہ عرض کر دینے میں مضائقہ نہیں کہ عربی زبان و ادب کی تاریخ نے ابن تیمیہؒ کو بطور ایک ادیب تسلیم نہیں کیا۔ عربی زبان میں دینی موضوعات پر جن شخصیتوں کا زور بیان اور ادیبانہ اسلوب ضرب المثل ہے ان میں ابن تیمیہؒ کا نام نظر نہیں آتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عربی زبان کی عمر اردو سے کم از کم آٹھ گنا زیادہ ہے اور عربی زبان میں اعلیٰ ترین دینی ادب تخلیق کرنے والوں کی تعداد شاید اُردو زبان کے مقابلے میں کئی ہزار گنا ہو۔ ان حالات میں شاید ابن تیمیہؒ اور مولانا مودودی ؒ کا یہ تقابل مبنی بر انصاف نہ ہو۔
اوپر ان دونوں شخصیتوں کے حوالے سے تفردات کی بات کی گئی تھی۔ تفردات میں بھی یہ دونوں شخصیتیں ایک دوسرے سے خاصی مشابہت اور مماثلت رکھتی ہیں۔ دونوں کا جذبۂ اخلاص‘ دونوں کی حیرت انگیز تائید ‘دونوں کی بے مثال جرأت اور دونوں کا اپنے نقطۂ نظر اور اپنی رائے پر اصرار حیرت انگیز طور پر مشابہت رکھتا ہے۔
ابن تیمیہؒ کے انتقال کے کم و بیش ۶۰۰ سال بعد ان کے اجتہادات و تفردات کی علم بردار ایک حکومت قائم ہوئی جس نے ابن تیمیہؒ کے اثرات کو چار دانگ عالم میں پھیلا دیا۔ آج روے زمین پر بہت کم دینی اور اسلامی کتب خانے ایسے ہوں گے جہاں ابن تیمیہ کی تصنیفات دستیاب نہ ہوں۔ آج کوئی دینی درس گاہ مشکل سے ہی ایسی ملے گی جہاں ابن تیمیہؒ کی کسی نہ کسی تصنیف سے اعتنا کرنے والے موجود نہ ہوں۔ آج دنیا کے کسی بڑے ملک میں جہاں جہاں مسلمان قابل ذکر تعداد میں آباد ہیں‘ ابن تیمیہؒ کے اجتہادات پر عمل کرنے والے بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔ بعض اہم مسائل میں دنیاے اسلام میں ابن تیمیہؒ کے اجتہادات و تحقیقات کو قبول عام حاصل ہو چکا ہے۔ شاید ابن تیمیہؒ کی قوت استدلال‘ داعیانہ جوش‘ کثرت معلومات و شواہد اور زور بیان نے ان کے نقطۂ نظر کو بہت سے حلقوں میں منوا لیا ہے۔ مثال کے طور پر توہین رسالتؐ کی سزا کے معاملے میں آج دنیا میں ہر جگہ ابن تیمیہؒ ہی کی رائے کو قبول عام حاصل ہے۔ بہت سے لوگوں کو شاید یہ معلوم بھی نہیں کہ اس معاملے میں امام ابو حنیفہؒ اور احناف کی رائے کیا رہی ہے۔
ابن تیمیہؒ کے برعکس مولانا مودودیؒ کے افکار و خیالات کو قبول عام حاصل کرنے کے لیے نہ ۶۰۰سال انتظار کرنا پڑا اور نہ ان کو کسی حکومتی سرپرستی کی ضرورت پڑی۔ان کی زندگی ہی میں ان کے خیالات دنیاے اسلام میں ہر جگہ پہنچے‘ ہر ملک میں مقبول ہوئے اور ان کے اجتہادات و تفردات کو جوش و جذبے سے قبول کرنے والے بھی بڑی تعداد میں سامنے آئے۔ ابن تیمیہؒ کے افکار کے فروغ میں جو کردار حکومت سعودی عرب نے انجام دیا‘ وہی بلکہ اس سے بڑھ کر موثر کردار ان بے شمار دینی و ملی تحریکوں و تنظیموں نے انجام دیا جو مولانا مودودیؒ کے حلقے سے وابستہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوانوں نے دنیا کے کونے کونے میں قائم کیں۔ ابن تیمیہؒ کی طرح مولانا مودودیؒ کے افکار بھی دنیا میں اتنی تیزی سے پھیلے ہیں کہ ان کی چھاپ بیسویں صدی کے اسلامی اور دینی ادب پر نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔
اپنی تمام عظمتوں اور تاثیر کے باوجود مولانا مودودیؒ ایک انسان تھے۔ دوسرے انسانوں کی طرح مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہ ؒ بھی ان تمام تحدیدات سے محدود اور ان تمام قیود کے پابند تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مقید اور محدود کیا ہے۔ نہ صرف ان دونوں کے بارے میں بلکہ تاریخ اسلام کی تمام عظیم شخصیتوں کے بارے میں محفوظ و مامون طرز عمل وہی ہے جس کی نشان دہی امام مالکؒ نے ساڑھے بارہ سو سال پہلے فرمائی تھی:
کل یوخذ من قولہ و یترک الا صاحب ھذا القبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم:ہرشخص کے اقوال کا ایک حصہ قابل قبول اور ایک حصہ ناقابل قبول ہے۔ اس باب میں صرف ایک ہی استثنا ہے اور وہ (روضۂ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس صاحبِ قبر کا ہے۔
ہمارا رویہ ان دونوں شخصیتوں کے بارے میں یہی ہونا چاہیے۔