ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ


 دنیاے اسلام میں عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں نئی نہیں ہیں۔ پچھلے کئی سوسال سے ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ جب دنیاے اسلام میں نوآبادکاری ، یعنی colonization کا سلسلہ شروع ہوا تو اس سے پہلے مسیحی سرگرمیاں شروع ہوچکی تھیں۔ جہانگیر کے زمانے میں ہندستان میں بڑی تعداد میںمشنری آچکے تھے ۔ کسی وجہ سے اکبر اور جہانگیر جیسے حکمرانوں نے عیسائی مشنری کو اجازت دے دی کہ وہ ہندستان میں اپنی سرگرمیاں منظم کریں۔ اس زمانے میں تاجر اور مسیحی مشنریوں دونوں اس طرح مل جل کر کام کررہے تھے کہ دونوں ایک دوسرے کے مقاصدکو آگے بڑھا رہے تھے۔ تاجرجب پیش رفت کرتے تھے تو عیسائی مشنریوں کے کام میں مدد ملتی تھی۔ عیسائی مشنری اپنے کام کو جتنا منظم کرتے تھے، اس سے تاجروں کے کام میںمدد ملتی تھی۔ اس طرح ہوتے ہوتے تقریباً دو سو ڈھائی سو سال کا زمانہ ایسا گزرا کہ تجارت اور مشنری سرگرمیاں دونوں ایک ساتھ چلیں اور جہاں جہاں انگریزوں کی تجارت منظم ہوتی گئی وہاں وہاں عیسائی مشنریاں بھی بہت زیادہ فعال اور مضبوط ہوگئیں۔

اس دور میں عیسائی مشنریوں اور کمپنیوں کی تجارتی سرگرمیوں کی تاریخ دیکھی جائے تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ ساحلی علاقوںمیں پھیلایا۔ ساحلی علاقوں میں ان کے پاس بڑی مضبوط بحری طاقت تھی۔ پوری دنیا پر ان کا کنٹرول اسی بحری طاقت کے ذریعے تھا۔ اسی کے بل پر ان کے لیے یہ بات بڑی آسان تھی کہ وہ ساحلی علاقوں میں جاسکیں، اور اگر انھیں وہاں کوئی خطرہ درپیش ہوتووہاں سے فرار بھی ہوسکیں۔ چنانچہ انھوںنے ممبئی میں، سورت میں، مدراس ، کلکتے، کراچی، سنگاپور، ملایشیا اور گانامیں اپنی سرگرمیاں منظم کیں۔ آپ پوری دنیاے اسلام کا نقشہ سامنے رکھیں تو سب سے زیادہ مسیحی سرگرمیوں کی تنظیم آپ کو اُن ساحلی علاقوں میںملے گی جو بڑے تجارتی مراکز تھے ،یا بعد میں بڑے تجارتی مراکز بن گئے۔ مسلمان حکمرانوں نے اپنی سادہ لوحی، عاقبت نااندیشی ،بے وقوفی، مفادات یا کسی اور سبب سے عیسائی مشنری سرگرمیوں سے غفلت برتی، جیسے آج بہت سی چیزوں سے وقتی مفاد کی خاطر ہمارے ہاںغفلت برتی جارہی ہے ۔ فوری، چند ٹکے کے مفاد کی خاطر وہ مراعات عیسائی مشنریوں کو دی گئیں جن کے نتائج آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔

ہندستان میں سب سے پہلے اورنگ زیب عالم گیر کو اس کا احساس ہوا کہ یہ سلسلہ بڑا غلط ہے۔ اس نے ان کی تجارتی کوٹھیاں چھین لیں۔ فرنگی محل لکھنؤمیں ایک بہت بڑی حویلی تھی، جوانگریزوں کو جہانگیر نے دی تھی، اور اسی لیے فرنگی محل کہلاتی تھی۔ اورنگزیب نے وہ حویلی ان سے چھین لی اور بعض علما کو دے دی کہ آپ یہاں دینی مدرسہ قائم کرلیں۔ چنانچہ فرنگی محل کے نام سے علما کا جوطویل سلسلہ ہے یہ اسی تجارتی کوٹھی میں قائم ہواتھا۔ اس میں سو ، سوا سوسال تک ایک بڑا دارالعلوم قائم رہا۔ مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی، عبدالحئی فرنگی محلی سمیت علما کا طویل سلسلہ اس سے پیدا ہوا۔

عالم اسلام میں مسیحی سرگرمیاں

 صرف ہندستان میںنہیںبلکہ دنیاے اسلام کے ہر گوشے میںایساہی ہوا۔ یہاں تک کہ افریقہ میںایک لطیفہ مشہورہے کہ جب انگریز یہاں آیا تو زمین ہمارے ہاتھ میں تھی اور کتاب اس کے ہاتھ میں تھی، یعنی بائبل، اور جب انگریز یہاں سے گیا تو کتاب ہمارے ہاتھ میں تھی اور زمین انگریز کے ہاتھ میں تھی۔گویا انھوںنے ہمیں عیسائی بنادیا اور ہماری زمینوں پر اور جایداد وںاور مال ودولت پر قبضہ کرلیا۔ یہ پورے افریقہ میں ہوا۔ افریقہ کے بیش تر حصوں پر کئی کئی سو سال انگریز قابض رہے ،اور بعض علاقے تو ایسے تھے کہ انھوںنے اس کو تقریباًگوروں کا ملک تصور کرکے کالوں کو وہاں سے نکال دینے کی کوشش کی، یا کالوں کو انھوں نے اس طرح سے مٹا دینا چاہا کہ وہ کبھی بھی ان کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوسکیں۔ چنانچہ جنوبی افریقہ، زمبابوے وغیرہ یہ سب علاقے وہ تھے جہاں پر انگریزوں یا گوروں کی لاکھوں کی آبادیاں ہیں اور ان کے ذہن میںیہ تھا کہ ہم یہاں مستقل حکمران رہیں گے۔ چنانچہ ۴۰۰سال وہ جنوبی افریقہ پرحکمران رہے۔ ساڑھے تین سو پونے چار سو سال روڈیشیا میں حکمران رہے جس کا نام اب بدل کر زمبابوے کردیا گیا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ضرور نکلا کہ اس پورے علاقے میں اکثریت کو انھوں نے عیسائی بنالیا۔ جہاں جہاں عیسائی حکمران ہوئے وہاں افریقی اکثریت عیسائی ہوگئی، اس لیے کہ ان کا کوئی مذہب نہیں تھا۔ ان کے سابقہ مذاہب میں کوئی جان نہیں تھی، کوئی تہذیب نہیں تھی، تمد ن نہیں تھا، تعلیم نہیں تھی۔ اس لیے بہت جلد ہی عیسائی مشنریوں نے ان کو اپنے دام میں لے لیا اوروہ عیسائی ہوگئے۔

مسلم ممالک میں انھیں کام یابی نہیں ہوئی۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک کوئی بھی مسلم ملک ایسا نہیں تھا، جہاں انھیں ایک فی صد یا ایک فی ہزار بھی کام یابی ہوئی ہو ۔ ان پورے ۳۰۰سال میں ایسا نہیں ہوا کہ مسلمانوں میں سے انھوںنے کسی کو عیسائی بنایا ہو۔ اس بارے میں جتنے دعوے ہیں وہ سب کے سب یاتو مبالغے پر مبنی ہیں یا جھوٹ پرمبنی ہیں یا مسلمانوں کے خوف کی پیداوار ہیں کہ سندھ میں انھوں نے ۱۰ لاکھ مسلمانوں کو عیسائی کرلیا۔ وہ سب غلط ہے۔ اِکَّا دُکَّا واقعات کہیں ہوئے ہوں گے لیکن اکثر وبیش تر نہیں ہوئے، نہ ان کے ذہن میں مسلمانوں کو عیسائی بنانا ہے۔ یہ ان کے ذہن میں واضح ہے کہ مسلمانوں کو بڑی تعداد میں عیسائی نہیں بناسکتے ۔ کم از کم اب تک مسلمانوں کی تعلیم اور دینی حمیت کی وجہ سے صورت حال یہی ہے، آیندہ کیا ہوگا ،ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مسیحیوں کی حکمت عملی اور ترجیحات

عیسائی کیوں اتنے تسلسل اور ارتکاز کے ساتھ کام کررہے ہیں؟ اس پر غور کریں۔ ان کی تحریریں دیکھیں جووقتاً فوقتاً چھپتی رہی ہیں، تواس کے دو بڑے اسباب معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب تو یہ ہے کہ دنیاے اسلام میں بسنے والے ان غیر مسلموں کو جو معاشی اور معاشرتی اعتبار سے زیادہ اُونچا مقام نہیں رکھتے عیسائی بنایا جائے، اور عیسائی بنانے کے لیے ان کو یہ تاثر دیا جائے کہ ان کا معاشرتی مقام عیسائی بن کر بلند ہوجائے گا، کم از کم وہ عیسائیوں کے ساتھ برابر کی سطح پر سمجھے جانے لگیں گے ۔ اس طرح سے ان کو عیسائیت کے دائرے میںداخل کیا جائے۔ یہ چیز بڑی کام یابی کے ساتھ ہندستان میں، پاکستان میں، بنگلہ دیش میںعیسائیوں نے کی ہے۔

ہندوؤں میں طبقاتی نظام تھا اور چار بڑے طبقات تھے جن کو تمام حقوق حاصل تھے۔ ان چار طبقات سے نیچے جو لوگ تھے جنھیں اچھوت کہتے ہیںان کا کوئی طبقہ نہیں تھا۔ افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سالہ دور حکومت میںبھی اس طبقے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور اس طبقے میںقبولِ اسلام کے لیے کوئی کام نہیں کیا،اوراگر کیا تو وہ قابل ذکر نہیں تھا۔اس لیے نتیجہ خیز نہیں ہوااوروہ طبقہ اسی طرح ایک ہزار سال تک پستا رہا۔مسلمانوں نے بھی اسے پیسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اس لیے اس طبقے میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی ہم درد ی کا جذبہ نہیں پایا جاتا تھا، لیکن جب عیسائی مشنری آئے تو انھوں نے سب سے زیادہ اس طبقے پر کام کیا۔ آپ دیکھیے پاکستان میں آج جتنا بھی خاک روبوں کا طبقہ کہلاتا ہے، یہ سارے کا سارا وہی ہے جو اچھوت ہے اورجسے ہندوؤںنے دباکر رکھا تھا۔ عیسائیوں نے ان کو عیسائیت میں داخل کرلیا ۔

دنیاے اسلام کے بیش تر علاقوں میں یہی حکمت عملی نظر آئے گی کہ غیر مسلموں کا وہ طبقہ جو معاشرتی اعتبار سے کم زور تھا اس کو انگریزوں نے سر پرستی فراہم کی اور اس سرپرستی کے نتیجے میں ایک قابل ذکر تعداد عیسائیوں کی پیداہوگئی۔ یہ کام بڑی آسانی سے خاموشی کے ساتھ کئی سو سال میں ہواہے۔ آج عیسائیت کی آبادی پاکستان میں تین چار فی صد سے زیادہ نہیں ہے، لیکن بہ تدریج ان کا اجتماعی اور سیاسی کردار تیزی کے ساتھ بڑھایا جارہاہے۔ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پاکستان، سوڈان، لبنان ، عراق ،وسط ایشیا، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ان علاقوں میں عیسائی اقلیت کو بڑی تیزی کے ساتھ ترقی دی جارہی ہے، اور بڑی تعداد میں اس پر وسائل صرف کیے جارہے ہیں۔

لبنان: ایک مثال

تاریخ عبرت کے لیے ہے۔ لو گ تاریخ پڑھتے ہیںلیکن سبق نہیں لیتے۔ قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُ ولِی الْاَبْصَارِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۳) ،’’دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے‘‘۔ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ (یوسف ۱۲:۱۱۱)، ’’اگلے لوگوں کے ان قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے‘‘۔ اس کی ایک مثال لبنان ہے۔

 لبنان ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اتنا چھوٹا کہ اگر چھوٹا نقشہ ہوتو روے زمین پرنظر بھی نہ آئے لیکن دنیا کے خوب صورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ روایتی طور پر شام کا ایک حصہ تھا، اور کبھی بھی الگ ملک نہیں تھا۔ شام میںایک پہاڑ کانام لبنان تھا،لیکن عیسائی مشنریوں نے وہاں تقریباً ڈھائی سوسال پہلے سے کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت یہ مسلم اکثریت کا علاقہ تھا۔ شام میں ہمیشہ مسلمانوں کی اکثریت رہی ہے۔ شامی مسلمانوں کی دینی حمیت اور دینی روایات پر پختگی ہمیشہ سے مشہور ہے۔ بڑے بڑے اہل علم، علماو صلحا اور بڑے بڑے محدثین سب شام میں پیدا ہوئے۔ ڈھائی تین سو سال پہلے وہاں عیسائی مشنریوں نے کام کرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ ایسے طبقات جومسلمانوں میں برابر کی سطح پر نہیں مانے جاتے تھے، ان کو عیسائیت میں داخل کرنا شروع کیا۔ اس دوران باہر کے عیسائی بھی وہاں آکر بستے گئے۔ وہاں بسنا اس لیے آسان تھا کہ لبنانی باشندے بھی خوب صورت گورے ہوتے ہیں اور عیسائی یورپ سے آنے والے بھی گورے ہوتے ہیں، تو رنگ کی اس یکسانیت کی وجہ سے باہر سے آنے والوں کا پتا نہیں چل سکتا ۔ پاکستان میں، سندھ میں اگرباہر سے لاکر سو انگریزوں کو بسادیں تو سب کومعلوم ہو جائے گا کہ یہ انگریز ہیں۔ البتہ لبنان جیسے علاقے میں ۲۵، ۳۰ سال کے بعد بھی پتا نہیں چلے گا کہ فلاں کون ہے اورکہاں سے آیا ہے۔

 اس طرح عیسائی مشنریوں نے عیسائیوں کو باہر سے آہستہ آہستہ لاکر یہاں بسانا شروع کیا۔ آس پاس کے قرب وجوار سے، مصر سے، شام سے، عراق سے، ترکی سے، جو عیسائی ہوتا گیا اسے لاکر بساتے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لبنان میں عیسائیوں کی آبادی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ۲۵،۳۰ فی صد ہوگئی۔ جب یہ ہوگیا تو انھوں نے لبنان کو ایک الگ ملک بنادیا اور اس ملک میں اختیارات کی تقسیم یہ کی کہ اس میںاتنے فی صد عیسائی ہوںگے، اتنے فی صد شیعہ ہوںگے، اوراتنے فی صد سنی مسلمان ہوں گے۔ ان کے درمیان تقسیم کار یہ ہوگی کہ صدرمملکت ہمیشہ عیسائی ہوگا، وزیر اعظم شیعہ ہوا کرے گا یاسنی مسلمان ، اور پارلیمنٹ کا اسپیکر فلاں مسلمان ہواکرے گا ۔ اس طرح عملاً انھوں نے لبنان کو ایک عیسائی مملکت بنادیا ۔

 اس کے بعد عیسائیوں کی جتنی بھی مشنری سرگرمیاں عرب دنیا میں ہیں، وہ ساری کی ساری لبنان سے منظم ہوتی ہیں۔امریکن یونی ورسٹی بیروت وہاں ہے، جتنے عیسائی یونی ورسٹی ،کالج اور اسکول لبنان میںبنے اتنے عرب دنیا میںنہیں بنے، اور وہاں سے بیٹھ کر انھوںنے پوری دنیا میں مسلم دنیا میں،عرب دنیا میںسیکولر ازم اورلامذہبیت اور عرب نیشنل ازم کو فروغ دیا۔ عرب نیشنل ازم پر اور مسلم امت کے تصور کے خلاف سب سے زیادہ جو لٹریچر چھپا ،وہ ۹۰ فی صد لبنان سے چھپا، عربی ادب اور صحافت کے نام پر جتنے بڑے صحافی اور ادیب عرب دنیا میںسیکولر ازم کے علَم بردار پیدا ہوئے وہ لبنان سے پیدا ہوئے۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ لبنان کو کس کام کے لیے تیار کیا جارہاتھا، کیوں ایسا ہورہاتھا۔ اس سے پتا چلا کہ جو کام وہ کرنا چاہتے ہیں اس کی وہ کئی سو سال پہلے منصوبہ بندی کرتے ہیں، اور ان کے ذہن میںکام کا مکمل نقشہ کام شروع کرنے سے پہلے موجود ہوتا ہے۔

کمزور طبقات: خصوصی ھدف

گذشتہ دو ڈھائی سوسال ہندستان میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے اسی طرح منظم محنت کی گئی۔ کم زور طبقات کے بارے میں یہ کوشش ہوئی کہ انھیں عیسائیت کی طرف لایا جائے۔ ہندوؤں  کے اچھوتوں اور کم زور طبقات کوعیسائیت میںداخل کیا گیا۔ وہ اسی طرح بھنگی اور خاک روبی کا کام کرتے رہے۔مسلمانوں نے کہا کہ پہلے ہندو تھے، اب عیسائی ہوگئے، ہمیں کیا فرق پڑتاہے۔ کسی مسلمان نے اس پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی کہ اس کے نتائج کیا ہوںگے۔ اس کے بعد جب ایک بڑاطبقہ بن گیا اور تین چار نسلیں اس پر گزر گئیں۔ دو تین نسلیں گزرنے کے بعد ان میںپختگی آتی ہے، ورنہ وقتی طور پر آدمی نہیں سوچ سکتا کہ ہمیں کوئی کسی اور مقصد کے لیے استعمال کررہاہے۔ دو تین نسلوں کے بعد پختگی آگئی تو انھوں نے اس طبقے میں سے افراد کو چھانٹنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ انھیں انگلستان اور امریکامیں اعلیٰ تعلیم دینا شروع کی۔ اس کے بعد انھیں اہم مناصب پر عدلیہ میں، سول سروس میں ، پولیس میں لاکر بٹھا رہے ہیں۔ ہمارا مزاج یہ ہے کہ انگلستان کا پڑھاہوا تعلیم یافتہ اور انگریزوں کی طرح سے فرفر انگریزی بولتاہوا ہمارے ہاں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتاہے۔

عیسائیوں کے مسلمانوں جیسے نام رکہنا

یہ کوشش جب کی گئی تو معلوم ہوا کہ مسلمان ممالک میںجن کے نام میں بھی بشیر مسیح، فلپ یاپیٹر ہو تو پتا چلتاہے کہ یہ عیسائی ہے۔ عرب دنیا میں انھوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ اس کو  آزمایا تھا ۔ اب یہاں بھی اس کو آزمارہے ہیں۔ عرب دنیا میں آج سے ۵۰، ۶۰ سال پہلے یہ طے کیا کہ جو شخص عیسائی ہو وہ نام انگریزی یا یورپین زبان کا اختیار نہ کرے، بلکہ عربی نام ہی اپنائے۔ آپ کو وہاں الیاس، ابراہیم اور موسٰی عیسٰی بہت ملیں گے۔ دنیاے عرب میں، بے شمار عربی نام رکھنے والے ملیں گے۔ آپ کو کوئی اندازہ ان کے لب ولہجے سے نہیں ہوگاکہ یہ عیسائی ہے۔

پاکستان میں آپ کو عبدالقیوم اور بشیر الدین کے نام سے بہت سے عیسائی ملیں گے۔ اگر آپ عیسائیوں کے جو رسالے نکلتے ہیں ان کو پڑھیں تو آپ کو عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے مسلمان نام رکھنے والے سیکڑوں کی تعداد میں ملیں گے۔ کچھ اندازہ نہیں ہوسکتا۔ معاشرے میں رہتے ہوں گے، میڈیکل ڈاکٹر کے طور پر پریکٹس کرتے ہوں گے ،عبدالقیوم نام ہوگا، ڈاکٹر عبدالقیوم سیالکوٹی۔ آپ کو ساری عمر پتا نہیں چلے گا کہ یہ عیسائی ہے لیکن وہ ہوگا عیسائی اور عیسائیت کی تبلیغ کر رہاہوگا۔

گرجے کی مسجد سے مشابھت

عیسائیت کی تبلیغ کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ پیش آیا کہ آدمی جب مسلمان سے عیسائی ہوتا ہے تو مسلم معاشرے سے کٹ جاتا ہے اور مسلم معاشرے سے کٹ جانے کے خوف سے عیسائیت قبول نہیں کرتا۔ اس کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ وہ تمام تدابیر اختیار کی جائیں کہ ایک نیا عیسائی مسلم معاشرے سے کٹنے نہ پائے، بلکہ اسی معاشرے کا حصہ رہے، اور اس معاشرے کے نسبتاً جو زیادہ سیکولر لوگ ہیں ان میں گھل مل جائے اور اس سیکولر طبقے کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرے۔

مسلم معاشرے میں عیسائی جب ایک خاص تعداد میں ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے مذہبی مراسم کے لیے کوئی گرجا گھر بناتے ہیں تو مسلم معاشرے میں بڑا ردعمل پیدا ہوتاہے۔ کسی مسلم شہر میں گرجا بنائیں تو ردعمل ہوتا ہے، لوگ نکیر کرتے ہیں اعتراض کرتے ہیں کہ گرجا بنایا جارہاہے۔ اب انھوں نے یہ طے کیا ہے کہ جو گرجا بنایا جائے گاوہ ایک خاص طرز کا ہوگا۔ بعض مسلم ممالک میںقوانین ایسے موجود ہیں، جیسے پاکستان میںہیں کہ جو مسلم امتیازی شعائرہیں، ان کو غیر مسلم اختیار نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اور ممالک میںبھی یہ قوانین ہیں۔ اس کا حل انھوںنے یہ نکالا ہے کہ ہم  آپ کو اس طرح کا ڈیزائن بنا کر دیں گے کہ جو سو فی صد مسلمانوں کی مسجد کا نمونہ تو نہ ہو لیکن درمیانے طورپر بین بین اس طرح کی چیز ہو کہ انجان آدمی اس کو گرجا نہ سمجھے ۔مسجد تو شاید سمجھ لے لیکن گرجا پر کسی کا گمان نہ ہو۔ اسلام آباد میں لقمان حکیم روڈپر ایسا ہی ایک گرجا موجود ہے۔

 پھر ایک تجویز ان کو یہ دی گئی کہ گرجاکو گرجا یا چرچ نہ کہا جائے بلکہ اس کو مسیحی مسجد کہا جائے۔ اور یہ کہا گیا کہ دیہاتیوں کو، جاہلوں کواس طرح کا تاثر دیا جائے کہ جیسے مسلمانوں میں وہابیوں کی مسجد اور غیرمقلدوں کی مسجد اور سنیوں کی مسجد اور بریلویوں کی مسجد اور فلاںفلاں مسجد کے نام ہیں، اسی طرح سے مسیحیوں کی مسجد کے نام سے اسے مشہورکردیا جائے اور عیسائی وہاں آنے جانے میں کوئی جھجک اور تامل محسوس نہ کریں۔ پاکستان میں یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔

 یہ چند مثالیں تو میں نے آپ کو دی ہیں کہ کس طرح سے نئے انداز سے عیسائیت کی تبلیغ کا کام ہورہاہے۔یہ تفصیلات ایک رپورٹ سے ماخوذ ہیں۔ جب ہم نے دعوہ اکیڈمی، اسلام آباد میں عیسائیت کے بارے میں یہ کورس شروع کیا تو اس رپورٹ کا ترجمہ کروایا تھا، جو مطبوعہ بھی تھا۔ ممکن ہے کہ اس کی ایک کاپی دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد کی لائبریری میں محفوظ ہو۔ یہ سیمی نار غالباً ۱۹۷۸ء یا ۸۰ء میں امریکا میں ہوا تھا، اور بڑاقابلِ ذکر سیمی نار تھا جو چھے مہینے جاری رہا تھا۔ اس میں دنیاے اسلام کے ہر بڑے ملک کے ایک ایک یادو دو ایسے پادریوں کو بلایا گیا تھا جنھوں نے  ۴۰،۵۰ سال عیسائیت کی تبلیغ کی تھی۔ ان کے تجربات کی روشنی میں مسیحیت کے فروغ کے لیے تجاویز دی گئی تھیں۔ اس سیمی نار کے  مقالہ جات خفیہ طورپر شائع کیے گئے، لیکن کسی مسلمان کے ہاتھ لگ گئے، اس نے بڑی تعدادمیں شائع کرکے اہل علم کو فراہم کردیے۔ اس میں مختلف مضامین غور وفکر کے لائق ہیں، خاص طور پر پاکستان کے بارے میں جو مضمون ہے وہ واقعی ایسا ہے کہ اگر کوئی پڑھے تو اس کو کئی دن تک نیند نہ آئے اور پریشان رہے۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر ہماری کیفیت ایسی معلوم ہوتی ہے کہ جیسے بالکل آپ دشمن کے سامنے کھلی پلیٹ کے طور پر رکھے ہوں اور آپ کی طرف سے کوئی مدافعانہ کارروائی نہ ہورہی ہو، اور دشمن ہماری ایک ایک چیز سے باخبر ہو۔

عالمی غلبے کی حکمت عملی

یہ تو وہ چیزیں ہیں جس میں عیسائیت کی تبلیغ کی رکاوٹیں اور مشکلات پرغور کیا گیاکہ انھیں کس طرح دور کیاجائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک طویل منصوبہ بندی اور حکمت عملی بھی بنائی گئی کہ پوری دنیا میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے کیا کرنا چاہیے اور کیسے اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔ آج سے کچھ عرصے پہلے ۱۹۷۵ ء میں ایک اجلاس غالباً ویٹی کن میں ہواتھا ۔ یہ ورلڈکونسل آف چرچز کا اجلاس تھا، یعنی آپ اسے مجلس کلیساے عالم کہہ سکتے ہیں یا مجلس کنیساے عالم۔ اس میں اسی طرح سے کئی مہینے کے غور وفکر کے بعد دنیاے اسلام میں عیسائیت کی تبلیغ کا ایک نقشہ بنایا گیا تھا کہ کس طرح کام کیا جائے۔ گویا آیندہ ۲۵سالہ کام کا وہ نقشہ تھا جو آخر بیسویں صدی کے ۲۵ سال ہیں۔ خاص طور پر تین ممالک اس کا بڑا ہدف تھے: سوڈان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا ۔

ان تین ممالک کو کیوں منتخب کیا گیا؟ ان تین ممالک میں جو چیز قدر مشترک تھی وہ یہ تھی کہ یہاں غیر مسلموں کی ایک بڑی قابل ذکر آبادی موجود تھی۔ بنگلہ دیش میں تو ۲۵ فی صد ہندو ہیں، جنوبی سوڈان میں اکثریت غیرمسلموں کی ہے، اور انڈونیشیا میں ۲۰،۲۲ فی صد کے قریب غیر مسلم ہیں۔ دوسری قدر مشترک یہ تھی کہ ان ممالک میں مسلمانوں کی بڑی تعداد دین سے ناواقف اور دینی تعلیم سے عاری تھی۔ تیسری بڑی قدر مشترک ان سب میں یہ تھی کہ یہ تینوں علاقے دنیاے اسلام کے تین کونوں پر واقع تھے۔ سوڈان ایک ایسے محل وقوع پرواقع ہے کہ اس کے ایک طرف ساری غیرمسلم آبادیاں ہیں اور ایک طرف سے مسلم آبادیوں سے ملا ہوا ہے۔ مسلم آبادیوںکو ہدف بنانے کے لیے اس راستے کو اختیار کیا جاسکتاہے، اور ان کا جو حصہ غیر مسلموں سے ملاہوا ہے، وہاں سے غیرمسلموں کو مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔ ایسا ہی محل وقوع انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے ان تینوں ممالک کاتقریباً ایک جیسا محل وقوع ہے۔

 ایک قدر مشترک یہ تھی کہ یہاں جو مسلمان ہیں وہ اپنی تعلیم کی کمی کے باوجود بڑے پُرجوش اور جذباتی مسلمان ہیں، اور ان کے جوش و جذبے کو اسلام کے بجاے عیسائیت کے مفاد میں استعمال کیا جاسکتاہے۔ اس اجلاس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ آیندہ ۲۵ سال میں یہاں عیسائیت کاارتکاز اتنا کیا جائے کہ ان علاقوں کی ۲۰،۲۵فی صد آبادی کو عیسائی بنالیا جائے، اور وہ۲۵ فی صد آبادی تعلیم میں ، تمدن میں، ملازمت میں، تجارت میں، مال ودولت میں اتنی مضبوط ہوکہ بقیہ ۷۰ فی صد سے آگے ہو۔ اس ہدف کے حصول کے لیے انھوں نے انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور سوڈان میںکام کا آغاز کیا۔

انڈونیشیا، سوڈان اور بنگلہ دیش خصوصی ھدف

عیسائیت کے عالمی غلبے کی حکمت عملی کے تحت انڈونیشیا، سوڈان اور بنگلہ دیش خصوصی ہدف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس ہدف کے حصول کے لیے کیا حکمت عملی بنائی گئی ہے، اس کا اندازہ انڈونیشیا میں عیسائیت کے فروغ کے لیے کوششوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

انڈونیشیا دنیاے اسلام کا سب سے بڑا ملک ہے اور ساڑھے سات ہزار جزائر پر مشتمل ہے ،اور آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا مسلم ملک ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ۲۰ کروڑ کے لگ بھگ اس کی آبادی ہوگئی ہے۔ موجودہ دنیا کے تین چار بڑے بڑے خطوںتک  اس کی رسائی ہے۔ اگر دنیا کا نقشہ آپ کے سامنے ہوتو دنیا کا سب سے بڑا سمندر بحرالکاہل ہے۔ اس کے ایک طرف چین ہے اور ایک طرف امریکا ۔ گویا بحرالکاہل ایک ایسا سمندر ہے جس میں دو بڑی طاقتوں کاارتکاز ہے اور دنیا کی دو بڑی نیویاں بحرالکاہل میں ہیں ۔ اس سے آگے منجمدشمالی ہے جو کہ منجمد ہے۔ جنوب کی طرف آسٹریلیا ہے جہاں کئی سوسال پہلے مقامی آبادی کو مارپیٹ کے ختم کردیا گیا تھا اور اب وہ گوروں کا ملک ہے۔ گویا ایک طرف وہاں آسٹریلیا بیٹھا ہے، ایک طرف امریکااور ایک طرف چین ہے اور یہ پورا علاقہ ان کے کنٹرول میںہے ۔

اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈاکٹر سکار نو نے یہ محسوس کیا کہ جب تک انڈونیشیا کی بحریہ بہت مضبوط نہ ہو، اس وقت تک انڈونیشیاکواوراس کے پیچھے جو مسلم ممالک ہیں انھیں خطرہ رہے گا۔ چنانچہ سکارنو نے چین کے تعاون سے بہت بڑی بحریہ بنائی۔ سوئیکارنو نے اس بحریہ کو بہت مضبوطی سے تیار کیا کہ اس علاقے میں اگر انڈونیشیا کے مفاد کے خلاف خطرہ ہوتو بحریہ وہاں کام دے۔ لیکن عیسائیوں نے بھی یہ محسوس کیا ہوا تھاکہ جب تک جزیروں کا یہ سلسلہ ان کے کنٹرول میں نہ آئے اس وقت تک انڈونیشیا سے ان کو خطرہ رہے گا اور پورے بحرالکاہل پر ان کا مکمل کنٹرول نہیں ہوسکے گا۔ اس لیے کہ چین تو بالآخر ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا، جیسے اب نکل گیا ہے۔ اگر چین اور انڈونیشیا کی بحریہ کے درمیان اتحاد ہوجائے تو یہ اس پورے علاقے پر عیسائیت کی بالادستی کے لیے بڑاخطرہ ہے ۔ اس لیے انھوںنے انڈونیشیا کی قوت کو توڑنا چاہا، اور انڈونیشیا کی بحریہ کو ختم کرنا چاہا اور انڈونیشیا میں عیسائیوں کی ایک بڑی طاقت پیدا کرنی چاہی۔ انڈونیشیا کی بحریہ کو کمزور کرنے کے لیے انھوں نے بڑی تعداد میں عیسائیوں کی فوج میں بھرتی کروایا۔ ایک سازش کے تحت ۱۹۸۰ء میں پنگابیان نامی عیسائی کو مسلح افواج کا سپریم کمانڈر تک بنا دیا گیا۔ اس طرح اس نے بحریہ کو کمزور کرنا چاہا۔یہ کچھ اختصار کے ساتھ اس معاملے کاپس منظر ہے کہ انڈونیشیا کو اتنی اہمیت انھوںنے کیوں دی۔

انڈونیشیا کے ان ساڑھے سات ہزار جزائر میں تین ساڑھے تین ہزار جزائر غیرآباد ہیں۔ وہاںکوئی رہتا ہی نہیں۔ اس لیے نہیں رہتا کہ تھوڑا دُور ہیں اور عام آدمی کے پاس کشتی رانی کے وسائل اتنے نہیں کہ وہاں آجاسکے، یا وہاں اس جگہ کو آباد کرنے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے اور وسائل موجود نہیں ہیں، ٹریکٹر نہیں ہے۔ اب ایک آدمی ایک ٹریکٹر چھوٹی سی کشتی میں رکھ کر کیسے لے جائے۔ وہ جزائرعیسائی پادریوں نے خریدے کہ ہم ان جزائر کو آباد کریں گے، ان کو قابل کاشت بنائیںگے اور غریب کسانوں کو دیں گے۔ گورنمنٹ نے اجازت دے دی۔ انھوںنے اس طرح کئی سو جزیرے آباد کیے اور عیسائیوں کو لابسایا۔ ان میں ہیلی پیڈ بنائے، ان کو کشتیوں کے ایک نظام سے منسلک کیا اور انڈونیشیا کے بڑے جزائر تھے، جیسے جاوا، سماٹرا وہاں عیسائیت کی تبلیغ شروع کی۔ دوسری طرف یہ طے کیا کہ جو آدمی عیسائیت قبول کرے گا اس کو اتنی زمین قابل کاشت مفت ملے گی، اور اس کو وہاں مفت لے جائیں گے ، اور زمین اس کے حوالے کریں گے، مکان بنا ہوگا، سب کچھ بنا ہوگا۔ انڈونیشیا میںمکان بنانا مشکل نہیں۔لکڑی اور بانس سے بآسانی مکان بن جاتا ہے۔ وہاں کی قیادت نے نہیں سوچا کہ یہ ایک خاص سمت میں جزائر میں عیسائی آبادیاں کیوں بن رہی ہیں؟

ہمارے ہاںبھی کسی نے نہیں سوچا کہ سیالکوٹ ، گوجرانوالہ اور تھرپار کرجیسے سرحدی علاقوں میں عیسائیوں کی مشنریاں کیوں پھیل رہی ہیں؟ یہاں عیسائیت کیوں پنپ رہی ہے؟ پاکستان میںکسی نے نہیں سوچا کہ یہ ملک مذہب کے نام پر بنا تھا۔ یہ طے ہواتھا کہ مسلم اکثریت پاکستان میں اور غیرمسلم اکثریت ہندستان میں جائے گی۔یہاں ایک غیر مسلم اقلیت ملک کے خاص حصے میں اپنی آبادی جمع کر رہی ہے۔ اگر کل وہ مطالبہ کریں کہ جس بنیاد پر کل آپ الگ ہوئے تھے اس بنیاد پر آج ہم الگ ہونا چاہتے ہیں اور دنیا ان کا ساتھ دے تو آپ کیا کریں گے؟ آج اس پہلو پر غور کرنے والا کوئی نہیں ہے، اور جب مسئلہ اُٹھ جائے گا تو سوچیں گے کہ کیا کریں؟ یہی انڈونیشیا میں ہورہاہے کہ جزائر انھوںنے بنادیے ہیں اور لگتاہے کہ کسی موقع پر انڈونیشیا کو وہ دوحصوں میںتقسیم کریں گے: ایک عیسائی اکثریت والا انڈونیشیا، اور دوسرا مسلم اکثریت والا انڈونیشیا۔۱؎

مسلم حکمرانوں کی غفلت اور لمحۂ فکریہ

 آج کل دنیا میں بہ ظاہرسیکولرازم کا بڑا چرچا ہے اور ہمارے نااہل حکمران اور بااثر لوگوں

۱-            مقالہ نگار نے یہ بات آج سے ۱۴ برس قبل کہی تھی۔ آج یہ پیشین گوئی مشرقی تیمور کی شکل میں حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ سوڈان کو بھی تقسیم کر کے جنوبی سوڈان کو عیسائی ریاست بنایا جاچکا ہے۔

کاطبقہ جنھیں حالات کا کچھ پتا نہیں ،جنھوں نے کبھی دنیا کے معاملات کو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا ،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میںواقعی سیکولرازم کا بڑا چرچاہے اور واقعتامغربی دنیا سیکولرازم کی علَم بردار ہے، اور مذہبی معاملات میں وہ غیر جانب دار ہے۔ لہٰذا ایک جدید انسان کو مذہبی طور پر غیرجانب دار ہونا چاہیے، حال آں کہ اس کا یہ مفہوم کبھی تھا، لیکن اگر آج یہ مفہوم مان لیا جائے تومغرب ایک منٹ کے لیے بھی غیر جانب دار نہیں ہے۔ وہ انتہائی تعصب کے ساتھ عیسائیت کے معاملے میں جانب دار ہے، اور انتہائی متعصبانہ انداز سے اسلام سے دشمنی کے وہ تمام مظاہر اور شرائط وعناصر اس میں موجود ہیں جو ایک انتہائی متعصب انسان میںہوسکتے ہیں۔

اس کا اگر آپ تجربہ کرنا چاہیں تو کسی عیسائی کے خلاف پولیس میںرپورٹ درج کروائیں کہ اس نے توہین رسالتؐ کا ارتکاب کیا ہے۔ صرف آپ سادہ سی شکایت درج کروائیں، آپ کواندازہ ہوجائے گا کہ یہاں کے بااثر طبقوں کا رویہ آپ کے بارے میں کیا ہے۔ پوری حکومت، آپ کی پولیس، آپ کی عدالت، آپ کے جتنے بھی ادارے ہیں وہ اُس کا ساتھ دیں گے اور آپ کو مجرم سمجھیں گے۔ آپ کو جان بچانا، عزت بچانا مشکل ہوجائے گی۔ اگلے دن پوری دنیا اس طرح ہلتی ہوئے نظر آئے گی کہ جیسے پتا نہیں کیا ہوگیا۔ لیکن عیسائی، مسلمانوں کا قتل عام بھی کردیں تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی، کسی اخبارمیں، کسی معروف چینل پر پوری طرح خبر بھی نہیں دی جاتی۔

حقیقت یہ ہے کہ سیکولرازم اور مذہبی غیر جانب داری اور سب کو برابر کے مواقع ملنے کی باتیں عالمِ اسلام کے لیے ہیں، مگر برابری کا سوال امریکا میں پیدا نہیں ہوتا۔ امریکا میں کبھی مسلمان فوج کا جنرل نہیں ہوتا ،حال آںکہ وہاں بھی ۶۰لاکھ مسلمان ہیں۔ فرانس میں ۶۰لاکھ مسلمان ہیں، مگر وہاں کسی مسلمان کو اس بنا پر وزیر نہیں بنایا گیا کہ سب برابرہیں۔ ان کے ہاں اس قسم کی برابری نہیںچلتی۔ لیکن ہمارے ہاں پتا نہیں کس نے حکمرانوں کے دماغ میں بٹھادیا ہے کہ ہر وہ چیز جس کا ان کی طرف سے مطالبہ بھی نہیں ہوتا وہ از خود دینے کو تیار ہوتے ہیں اور جب بات کی جائے تو سننے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔ جیساکہ پاکستان میں وزارت مذہبی امور کو دوحصوں میںتقسیم کردیاگیا ہے: وزارتِ مذہبی امور اور وزارتِ اقلیتی امور ۔ گویا ہمیشہ کے لیے اس بات کا بندوبست کردیاگیا ہے کہ کابینہ میںایک غیرمسلم ضرور بیٹھا ہو۔ لہٰذا اقلیت کی وزارت موجود ہے، اور اس میں ہمارے مختلف عیسائی وزیر بھی ہوتے رہے ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً طرح طرح کے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ چناںچہ انھوںنے یہ کہا کہ مذہب کا خانہ شناختی کارڈ میں نہیں آنے دیں گے۔ قادیانیوں کے خلاف آرڈی ننس پر، حالانکہ وہ صرف قادیانیوں کے بارے میں ہے، عیسائی سب سے زیادہ معترض ہیں۔ حدود قوانین میں جو مسلم اور غیرمسلم کی تخصیص ہے، اس پر معترض ہیں۔ عیسائیوں کے جورسالے پاکستان میں چھپتے ہیں ان میں اس طرح کے مطالبے بڑی جارحانہ اور فاش زبان میں ہوتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑی طاقت ہے جس کے پیچھے ایک بہت بڑی قوت ہے جو اپنے اندر بڑا اعتماد رکھتی ہے اور اس اعتماد کی بنیاد پر پوری مسلم امت سے ٹکرانے کے لیے تیار ہے۔ اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ حکومتوں میںجان نہیں ہے، حکمران کم زور ہیں یا مغرب کی طاقت سے خائف ہیں، اس لیے ہرمعاملے میں غیر مسلموں کا ساتھ دیں گے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ عیسائی مشنریاں جو بڑی خدمت کرتے ہوئے نظر آتی ہیں، ہسپتال کھولتے ہیں، لوگوں کا علاج کرتے ہیں، اس کے پیچھے بہت بڑے عزائم ہیں اور ان عزائم کا مقابلہ آپ محض انھیں برا کہہ کر نہیں کرسکتے۔ لوگ اس طرح آپ کی بات نہیں مانیں گے۔ اس طرح کی کوئی چیز آپ اس وقت کرسکتے ہیں جب دینی شعور پیدا ہو۔ اس کے بعد دینی شعور کے ساتھ خدمت خلق کا وہ رویہ بھی موجود ہو، جو اس طرح کے لوگوں کو متاثر کرسکے۔ اس کے بغیر محض یہ کہنے سے کہ ہمارے دین اورعقیدے کے خلاف ایک سازش ہے، یہ چیز کام یاب نہیں ہوسکتی۔ اس صورت حال میں علماے کرام کی ذمے داری سب سے نمایاںہے۔ اس لیے کہ ان کامعاشرے سے ہروقت رابطہ رہتاہے۔ ان کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ اگر علما مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خلوصِ دل سے عوام کو توجہ دلائیں اور ان کا کوئی ذاتی مفاد بھی نہ ہو، تودینی شعور بھی بیدار ہوگا اور مسیحیت کے عزائم کو بھی ناکام بنایا جاسکے گا۔(کیسٹ سے تدوین: سیّد عزیز الرحمٰن)


(مفصل مضمون کے لیے کتابچہ دستیاب ہے، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز، اے-۴/۱۷، ناظم آباد نمبر۴، کراچی۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰-۰۲۱)

حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ غالباً وہ پہلے انسان ہیں جو امیرالمومنین فی الحدیث کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اپنے ایک مشہور شعر میں وہ کہتے ہیں کہ ’’دینی معاملات کو کس نے خراب اور فاسد کیا ہے، سواے حکمرانوں اور علما کے‘‘۔ گویا وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بالخصوص اور انسانی معاشرے میں بالعموم جب کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو دو طبقوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک اس طبقے کی وجہ سے جو کسی ملک میں کسی نہ کسی حیثیت میں حکمرانی یا ذمہ داری کے منصب پر فائز ہوتا ہے، اور دوسرا علماے کرام جس سے مراد صرف  علماے دین نہیں بلکہ معاشرے کے وہ تمام لوگ ہیں جو کسی بھی اعتبار سے علمی و فکری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوں۔ گویا اُمت یا قوم کے سیاسی، فکری اور دینی قائدین اگر اچھے ہوں اور درست راستے پر گامزن ہوں تو پھر اُمت درست راستے پر گامزن رہتی ہے، اور اگر یہ طبقے راہِ راست سے ہٹ جائیں تو بالآخر اُمت بھی راستے سے ہٹ جاتی ہے۔

یہ وہی چیز ہے جس کو ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا:’’تمھارے بہترین ائمہ وہ لوگ ہیں کہ جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں، تم ان کے لیے دعاے خیر کرتے ہو وہ تمھارے لیے دعاے خیر کرتے ہیں، اور تمھارے بدترین ائمہ وہ ہیں کہ تم ان پر لعنتیں بھیجو وہ تم پر لعنتیں بھیجیں،   وہ تم سے نفرت کریں، تم ان سے نفرت کرو‘‘۔ یہاں بھی ائمہ کا لفظ کسی خاص شعبے کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ ہراس فرد کے لیے استعمال ہوا ہے جو اُمت میں قیادت اور امامت کا مقام رکھتا ہے۔ وہ تعلیم میں قیادت ہو، امامت ہو، مسجد کی امامت ہو، فکر کی امامت ہو، سیاست کی امامت ہو یا کسی بھی طرح کی امامت۔ اگر تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ وہ بہترین لوگ ہیں جو اُمت سے اخلاص رکھتے ہیں، اُمت ان کے اخلاص کی قدر کرتی ہے، اس کی وجہ سے ان کے لیے دعاگو ہے، ان سے محبت کرتی ہے اور وہ اُمت سے محبت کرتے ہیں، تو پھر وہ بہترین قیادت ہے۔

عصرِحاضر اور علما کی ذمہ داری

ان دونوں اقوال کی روشنی میں جن میں سے ایک حدیث پاک ہے اور ایک عظیم محدث اور امام اسلام کا قول ہے، دیکھا جائے تو ائمہ کرام، خصوصاً دینی ائمہ کرام کی ذمہ داری نہایت ہی نازک اور بھاری ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر دورِ جدید میں یہ ذمہ داری بہت زیادہ نازک ہوگئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو مغرب کی طرف سے بڑھتا ہوا سیکولرزم ہے جو ایک طوفان کی طرح دنیاے اسلام کو اپنے گھیرے میں لے رہا ہے۔ مغرب نے اپنے تاریک ادوار کے ایک ہزار سال کے ناگفتہ بہ تجربات کے بعد سیکولرزم کو اپنے لیے پناہ گاہ سمجھا، اور یہ محسوس کیا کہ ان کے مصائب اور مشکلات کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مذہب اور سیاست یک جا تھے۔ ان کا مذہب اور ان کی سیاست یک جا نہیں ہوسکتے تھے، اس لیے انھوں نے ان دونوں کو الگ الگ کردیا۔ اس علیحدگی کے بعد وہ بڑی حد تک ان مصائب سے آزاد ہوگئے جن کا وہ ایک ہزار سال شکار رہے، لیکن کچھ نئے مصائب کا بھی شکار ہوگئے۔

مشکل یہ ہوئی کہ اگر یہ چیز مغرب تک محدود رہتی تو ہمارے لیے زیادہ قابلِ اعتراض بات نہیں تھی۔ ایک علمی سوال تھا کہ ان کی تاریخ میں ایسا کیوں ہوا؟ اصل خرابی اس لیے پیدا ہورہی ہے کہ وہ نتائج جو مغرب میں ان کی خاص تاریخ اور خاص ماحول کے پیداوار تھے، مغرب کے   موجودہ سیاسی اثرورسوخ، اس کی عسکری طاقت، اس کی اقتصادی خوش حالی ، اور دنیوی معاملات میں ان کے کنٹرول کی وجہ سے دنیاے اسلام میں درآمد بلکہ مسلط کیے جارہے ہیں۔ حالانکہ نہ دنیاے اسلام کی تاریخ ریاست اور مذہب میں وہ کش مکش رہی ہے جو یورپ میں ایک ہزار سال موجود رہی، نہ وہ قباحتیں دنیاے اسلام میں پیدا ہوئیں، نہ یہاں وہ احتسابی عدالتی نظام تھا جس نے سیکڑوں ہزاروں نہیں، لاکھوں انسانوں کو مذہب کے نام پر موت کے گھاٹ اُتارا، نہ یہاں عقل و شعور کی ہرکاوش کا یہ کہہ کر انکار کیا گیا کہ فلاں مذہبی پیشوا اور فلاں مذہبی ادارہ اس سے اتفاق نہیں کرتا، نہ لوگوں کو  اس لیے سزاے موت دی گئی ہے کہ انھوں نے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کوئی سائنسی نتیجہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سارے معاملات دنیاے اسلام میں نہیں تھے۔

دنیاے اسلام میں تو پہلے دن سے عقل اور وحی کے درمیان اتنی ہم آہنگی، یکسانیت اور قرب تھا کہ اسلام کی تاریخ میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا کہ عقل اور وحی یا دین اور دنیا یا مذہب اور غیرمذہب دو متعارض کیمپوں میں تقسیم ہوئے ہوں۔ ہمارے ہاں تو وہ لوگ بھی جو مذہبی فکر کے ترجمان نہیں سمجھے جاتے، ایک طرح سے اسلامی فکر کے دائرے کی حدود میں رہے، کبھی حدود سے باہر سمجھے گئے، اور کبھی حدود کے اندر خیال کیے گئے۔ خالص فلسفی، ابن سینا اور فارابی جیسے لوگوں کی مثال دیکھیے کہ کسی نے انھیں اسلامی فکر کا مسلم نمایندہ قرار نہیں دیا اور وہ فلاسفہ کے نمایندہ رہے۔  اگر یہ کہا جائے کہ مغرب کی تاریخ میں جو بہترین مذہب کے علَم بردار تھے، یہ لوگ ان سے زیادہ مذہبی تھے تو غلط نہ ہوگا۔ یورپ کی تاریخ میں مذہب کے جو بہترین نمایندے رہے ہیں، مثلاً سینٹ نامس کناس کہ جن کو مسیحیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سینٹ پال کے بعد تیسرا بڑا مجدد جانا جاتا ہے، اس سے بھی زیادہ یہ لوگ مذہبی اور دینی خیالات سے قریب تر تھے۔ انھوں نے جس طرح عقل اور دین کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، جس طرح سے دینی عقائد اور دینی تصورات کو عقلیات کی زبان میں کامیابی سے بیان کیا، ان کی مثالیں یورپ کی مذہبی تاریخ میں نہیں ملتیں۔

اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج

ہمارا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دانش وروں نے نہ اپنی تاریخ کا مطالعہ کیا، نہ مغربی تاریخ کا، نہ دیکھا کہ ہمارے ہاں کیا خرابیاں تھیں اور کیا نہ تھیں۔ یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ہاں خرابیاں نہ تھیں، لیکن جو خرابیاں تھیں ان کو کسی نے دیکھا نہیں، اور جو خرابیاں نہیں تھیں ان کو زبردستی اپنے اندر مان لیا اور ان خرابیوں کو ماننے کے بعد وہ نتائج بھی خود بخو د تسلیم کرلیے جو یورپ میں ان خرابیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ اس سے دنیاے اسلام میں سیکولرزم کو فروغ ملنا شروع ہوگیا۔ سیکولرزم کے فروغ کے نتیجے میں ایک ایسی صورت حال انڈونیشیا سے مراکش تک موجود ہے، جو  بین الاقوامی قوتوں کے مفاد کی وجہ سے شدید تر ہوتی چلی جارہی ہے کہ کس طرح سے مذہب کے دائرے کو زیادہ سے زیادہ محدود کردیا جائے، اور ریاستی اور سرکاری،اجتماعی ، قانونی، اقتصادی اور تہذیبی معاملات سے دین و مذہب کو نکال کر مذہب اور اخلاق کا دائرہ محدود کردیا جائے۔

یہ ہے وہ چیلنج جو دنیاے اسلام کو آج درپیش ہے۔ بظاہر یہ فکری اور علمی مسئلہ ہے جس کا روزمرہ کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن آج دنیاے اسلام کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا گہرائی سے جائزہ لیں اور فکری سطح پر دیکھیں کہ اس کے اسباب کیا ہیں، تو یہی بنیادی سبب نظر آئے گا کہ دنیاے اسلام کے خاصے قابلِ ذکر حصے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جس طرح سے مغرب ایک خاص رُخ پر مذہب اور سیاست کو الگ الگ کرنے پر مجبور ہوا، دنیاے اسلام کو بھی اسی نتیجے پر پہنچنا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ فلاں قوانین بنیادی حقوق سے متعارض ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ  فلاں قسم کے نظام سے معاشرے میں امتیاز اور فرق پیدا ہو رہا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ فلاں قسم کا نظام اگر آیا تو ریاست کے فلاں مفاد کو زد پہنچے گی۔ ریاست کے مفاد کو زک پہنچنے، امتیازی قوانین اور بنیادی حقوق کی یہ باتیں بظاہر خوب صورت عنوانات ہیں لیکن ان عنوانات کے پردے میں جو گفتگو کی جارہی ہے اس پر غور کریں تو بالآخر جو بنیاد نکلے گی، وہ یہی ہے کہ ریاست یا مذہب کو اور مذہب یا زندگی کے معاملات کو الگ الگ ہونا چاہیے۔ میرا مذہب کیا ہے اس سے آپ کو سروکار نہیں، اور آپ کا مذہب کیا ہے مجھے اس سے سروکار نہیں۔ یہی چیز اسلام کے بنیادی تصور سے متعارض ہے۔

سیکولرزم اور اسلام کا بنیادی فرق

حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری شناخت ہی مذہب ہے۔ مسلمان کے ہاں ہر اچھائی اور برائی کا تعین مذہبی حوالے سے ہوتا ہے۔ اخلاق اور قانون کا تعلق مذہب سے ہے، تہذیب کا  تعلق مذہب سے ہے، اور کوئی چیز مذہب کے اس دائرے سے خالی نہیں جو قرآن مجید اور  صاحب ِ قرآن مجید کے اقوال میں موجود ہے۔ یہاں تو قانون کا بھی بنیادی حوالہ بالآخر مذہبی کتاب ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ بھی مذہبی کتاب ہے، جب کہ وہاں یہ چیز ناقابلِ تصور ہے کہ ایک مذہبی کتاب کا دورِ جدید کے اقتصادی معاملات سے کیا تعلق؟ ہمارے دینی قائدین جزئیات پر تو بہت زور دیتے ہیں لیکن اس مسئلے کی اصل جڑ پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ علماے کرام، دینی قائدین اور دینی فکر کے لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے یہ اسلوب ذہن نشین کروائیں کہ حق ایک ہے اور اس میں کوئی تفریق دین و دنیا کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی۔ جب یہ تفریق ہوگی تو ہوس پر ہوگی   ؎

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری ، ہوس کی وزیری

پھر انسانی خواہشات اور انسانی شہوات کی بالادستی ہوگی۔ جب بالادست طاقت کے احکامات چلیں گے، جیساکہ دنیا میں چل رہے ہیں، تو پھر جو کمزور ہے وہ بتدریج مجبور ہوتا جائے گا۔ روزانہ کمزور سے مطالبہ کیا جائے گا اور بالادست روزانہ آگے بڑھتا جائے گا تاآنکہ وہ یہ تسلیم کروا لے کہ دین و مذہب الگ الگ چیزیں ہیں اور مذہب کا اجتماعی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب تک یہ اصول مسلمان تسلیم نہیں کرے گا اس وقت تک ان کے مطالبات جاری رہیں گے۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ، جس نے اکثر و بیش تر مغربی ماحول میں تعلیم پائی ہے اور جو مغربی یونی ورسٹیوں کا پڑھا ہوا ہے، اس میں بڑے ماہر، بڑے اچھے، بڑے مخلص اور محب وطن لوگ ہیں، لیکن مخلص اور محب وطن ہونا کافی نہیں ہوتا جب تک ذہن کی بنیاد درست نہ ہو۔ جب تعمیر میں بنیادی کج ہوجائے تو    ؎

خشت اوّل چوں نہج معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج

اس بنیاد کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کہ قرآن مجید ہر سچائی اور ہرصداقت کا سرچشمہ ہے، اگر تسلیم ہے تو اس کے بعد پھر سب حوالے ختم ہوجانے چاہییں۔ کسی بڑے سے بڑے انسان کی عقل، تجربہ، حتیٰ کہ کسی بڑی سے بڑی تہذیب کی کوئی تہذیبی سچائی یا کلیہ ، اگر  قرآن مجید سے متعارض ہے تو وہ ناقابلِ قبول ہے۔ جب تک یہ معیار لوگوں کے ذہن نشین نہیں ہوگا، اس وقت تک یہ جزوی مسائل اُٹھتے رہیں گے اور لامتناہی سوالات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ علماے کرام کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس بنیادی سوال کے جواب کو جو ایک رویے کاسوال ہے، پہلے واضح کردیں اور لوگوں کا ذہن اس معاملے میں صاف کریں۔

دین کی بنیاد کلیات، نہ کہ جزئیات

دوسری بڑی ذمہ داری جو دورِ جدید میں علماے کرام پر خاص طور پر آگئی ہے، وہ یہ ہے کہ پچھلے چودہ سو سال سے ان کا ایک خاص کردار مسلم معاشرے میں رہا ہے۔ وہ کردار اُس معاشرے میں واضح ہوا جہاں اسلامی قوانین، اسلامی احکام، اسلامی اخلاق، اسلامی کردار قائم اور جاری و ساری تھا۔ اگر ایک چیز اسلامی خطوط پر قائم ہے، معاشرہ اسلامی اساس پر کارفرما ہے، اسلامی قوانین عدالتوں میں نافذ ہیں، لوگوں کی زندگیاں اسلامی ہیں، لوگوں کے علوم و فنون اسلامی ہیں، درس گاہ کا ماحول اسلام کے مطابق ہے، بازار میں کاروبار اسلام کے مطابق ہو رہا ہے، وہاں علماے کرام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جزئیات کا جواب دیں۔ جزوی مسائل اگر کوئی پوچھے تو آپ بتا دیں کہ یہ خریدنا حلال ہے یا حرام ، یہ کاروبار جائز ہے یا ناجائز، فلاں قسم کا لباس مکروہ ہے یا غیرمکروہ۔ یہ جزئیات کے سوال اُٹھتے رہتے تھے اور علماے کرام جزئیات کا جواب دیتے رہے۔ آپ فتاویٰ کی ساری کتابیں دیکھیں، سب جزئیات پر مبنی ہیں۔ آج ہم جس دور میں ہیں، اس میں اسلامی معاشرہ بڑی حد تک موجود نہیں ہے۔ اس نظام میں قوانین اسلام کے مطابق نہیں ہیں۔ اس میں معاشرتی اقدار اسلام سے بڑی حد تک ہٹ گئی ہیں۔ معیشت کا نظام اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ حلال و حرام کی تمیز بھی کمزور پڑگئی ہے۔ یہاں محض جزئیات کا جواب دینا کافی نہیں ہے۔

جزئیات کا جواب تو وہاں دیا جائے جہاں کلیات اسلام کے مطابق ہوں۔ اگر جزوی خلاف ورزی ہورہی ہو تو آپ اس کی رہنمائی کردیں، مگر جہاں سارے کلیات ہی بدل دیے گئے ہوں وہاں جزئیات کا جواب دینا کافی نہیں ہے۔ جس طرح ایک عمارت آپ کے استعمال میں ہے، اور فرض کریں کہ آپ ڈیکوریشن کے ماہر ہیں، آپ سے پوچھا جائے کہ کرسی اِس ڈیزائن کی بنوائوں یا اُس ڈیزائن کی، اسٹیج اِس طرف ہو کہ اُس طرف تو آپ جواب دے سکتے ہیں۔ خدانخواستہ عمارت ہی گری ہوئی ہو اور پھر کوئی یہ سوال پوچھے کہ کرسی کس ڈیزائن کی ہو اور اسٹیج کس طرف ہو، یہ غیرمتعلق سوال ہے۔ یہ جزوی سوال بعد میں آئے گا، پہلے آپ کلیات کو درست کریں۔

علماے کرام اس تبدیلی کا احساس فرمائیں، اور وہ رویہ کہ آپ کے سامنے اپنے شیخ کے جاری کیے ہوئے فتاویٰ معتمد علیہ اور مستند فتاویٰ کا مجموعہ رکھا ہے، اور کوئی سوال آیاتو آپ نے جزو کا جواب دیا اور سمجھا کہ رہنمائی کا کام پورا ہوگیا، یہ کافی نہیں۔جزئیات کا جواب دینے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ جواب ان افراد، خاندان اور ادارے کو دیا جائے گا جو اسلام پر کاربند ہیں۔ ان کو جزئیات کے سوال پوچھنے کی ضرورت ہوگی اور انھیں اسی حوالے سے رہنمائی دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کلیات کے معاملات بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

کلیات اور جزئیات میں بنیادی فرق

لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کے بنیادی اوصاف کیا ہیں؟ اسلام میں خاندان کیسا ہوتا ہے؟ خاندان کے تعلقات کیا ہیں؟ خاندان کس بنیاد پر قائم ہے؟ یورپ میں جو خاندان ٹوٹا ہے تو کیوں ٹوٹا ہے؟ دنیاے اسلام میں جو ٹوٹ رہا ہے تو کیوں ٹوٹ رہا ہے؟ وہ کیا چیز بگڑ گئی ہے جس سے ٹوٹ رہا ہے؟ ان کلیات کا سوال جب کیا جاتا ہے تو اس کے جواب دینے میں بالعموم دو غلطیاں ہوتی ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ ہم میں سے بہت سارے انسان اسلام کی کلیات کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تعلیم ایسی ہے جو جزئیات پر مشتمل ہے۔ پھر کلیات کے حوالے سے وہ تین چیزوں میں فرق نہیں کرتے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قرآن کے نصوص ہیں، جن کے بارے میں دو راے نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح کچھ وہ ہیں جو احادیث اور سنت ِ متواترہ سے ثابت ہیں، وہ نصوص کا درجہ رکھتی ہیں۔ وہ اصول جو فقہ کی اصطلاح میں قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ ہیں، یہ دین کی اساسات ہیں۔ یہ ہیں وہ کلیات جن پر معاشرے کو زندہ رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کلیات کی کسی تعبیر پر اُمت کا اتفاق ہے تو یہ بھی انھی کا حصہ ہیں۔ لیکن اس کے بعد کسی ایک یا دو تین فقہا کی ذاتی آرا ہیں تو وہ کلیات نہیں ہیں۔ ان کلیات کے بارے میں اگر اس دور کے اہلِ علم یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے لیے یہ راے، یا فلاں تعبیر، یا فلاں اجتہاد زیادہ موزوں ہے تو اس کو بھی آپ کلیات میں شامل کرلیں، لیکن جو جزوی اور انفرادی آرا ہیں، مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی ایک راے ہے، امام شافعیؒ کی ایک راے ہے، امام غزالیؒ کی ایک راے ہے، ضروری نہیں کہ   وہ راے ہمارے لیے اسی طرح متعلق ہو جیسے قرآن پاک متعلق ہے۔ دونوں کو ایک جگہ پر رکھیں گے تو قباحتیں پیدا ہوں گی۔ قرآن پاک کا جو دوام ہے وہ امام غزالیؒ کی راے کو حاصل نہیں ہے۔  سارے احترام کے باوجود وہ امام ابوحنیفہؒ یا کسی اور کی راے کو بھی حاصل نہیں ہے۔

اس بات کا خیال نہ رکھا جائے تو بڑی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب آپ یورپ یا امریکا تشریف لے جائیں۔ وہاں ایک عالم ہندستان سے آئے بیٹھے ہیں، ایک سعودی عرب سے، ایک مصر سے۔ امریکا کا ایک سیدھا سادہ آدمی جس نے کل اسلام قبول کیا ہے، ایک اس کو ایران کی بتا رہا ہے ، ایک طوران کی، ایک کہیں اور کی بتا رہا ہے، اور کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ یہ بیچارہ نہ شافعی ہے، نہ حنبلی، نہ مالکی، نہ حنفی۔ یہ کچھ نہیں، یہ تو مسلمان ہے۔ گویا یہ سنہ ۲۵ ہجری میں مسلمان ہوا ہے۔ اس کو آپ ان چیزوں میں کیوں پھنساتے ہیں، اس پر کیوں آپ فقہ حنفی مسلط کر رہے ہیں، کیوں فقہ شافعی یا فقہ اہلِ حدیث یا جو بھی ہے، وہ آپ اس پر مسلط کر رہے ہیں۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ ہوتا ہے کہ تم ہاتھ یہاں باندھو ، اذان ہو تو انگوٹھا چومو یا مت چومو۔ ابھی آپ کچھ نہ کیجیے، اس کو نماز پڑھنا سکھایئے جو کہ اساسِ دین ہے۔ جب وہ نماز پڑھنا سیکھ لے گا تو جس مسلم معاشرے میں اس کی تربیت ہوگی اور جس مسلم ماحول کا وہ حصہ بنے گا، بتدریج وہ خود ہی اختیار کرلے گا۔ پھر جب وہ آپ سے مسائل پوچھے تو آپ اسے بتائیں۔

اس حد تک بھی یہ گوارا ہے کہ یہ بھی فقہا کے اقوال ہیں، وہ بھی دین کے معتبر شارحین کے ارشادات ہیں۔ اس حد تک بھی چلیے مان لیں، لیکن کچھ چیزیں ہیں جو مقامی رواج ہیں۔ کسی رواج کا اسلام کے مطابق ہونا اور چیز ہے اور اسلام ہونا اور چیز۔ ایک رواج ہے جو اسلام سے متعارض نہیں، قابلِ قبول ہے، لیکن اس رواج کو آپ مسلمانوں پر زبردستی مسلط کریں، یہ اسلام کا تقاضا نہیں۔ آپ کسی شیخ کے مرید ہیں، ان کا اللہ کی بارگاہ میں بہت اُونچا مقام ہے، ان کا کچھ ذاتی ذوق تھا، آپ کا جی چاہتا ہے تو آپ اس ذوق کی پیروی کریں، نہیں جی چاہتا مت کریں، لیکن پیغمبرؐ کے علاوہ کسی کے ذوق کو زبردستی دوسروں سے منوانا یہ شریعت کا نہ تقاضا ہے اور نہ حکم ہے۔ مثلاً آپ کے بزرگ ایک خاص انداز سے عمامہ باندھتے ہیں، آپ کو ان سے محبت ہے تو اُس طرح کا عمامہ باندھیے، لیکن جب آپ لوگوں سے یہ کہیں کہ اس طرح کا عمامہ باندھنا دین کا تقاضا ہے تو یہ چیز قابلِ اعتراض ہوجاتی ہے اور اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دین کا تقاضا نہیں ہے۔ دین یہ نہیں کہتا کہ فلاں بزرگ کی طرح عمامہ باندھو یا فلاں بزرگ کی طرح کا لباس پہنو۔ ہاں، اگر کوئی مرد سونے کی انگوٹھی استعمال کرتا ہے تو اس کی نصوص میں ممانعت ہے، اس لیے اس کو روکیں۔ کوئی عورتوں جیسا لباس پہنتا ہے تو اس کو بھی روکیں، کیونکہ اس کی بھی شریعت میں ممانعت ہے۔

یہ تین چیزیں ہیں جن میں عام طور پر لوگ تفریق نہیں کرتے۔ نصوص کیا ہیں؟ جو دائمی ہیں۔ جو امریکا، برطانیہ ، فرانس، مصر، ہر جگہ رہیں گی۔ ائمہ کرام کے اجتہادات اس ماحول کے مطابق ہیں جس میں اس ماحول کے مانوس لوگ رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں امام ابوحنیفہؒ کے اجتہادات سے مانوس لوگ چلے آرہے ہیں۔ سالہا سال سے یہاں وہ چیز اس حد تک قابلِ قبول ہے جہاں تک ہمارے ہاں رہی ہے۔ لیکن اس ماحول سے نکل کر آپ امریکا جائیں اور امریکا کے نومسلم کو زبردستی کہیں کہ تم ہاتھ یہاں باندھو۔ و ہ کہے کہ میں تو یہاں باندھتا چلا آرہا ہوں، آپ کہیں کہ آپ کی نماز نہیں ہوئی۔ اب وہ بیچارہ جو دس سال سے یہاں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا چلا آرہا ہے، آپ نے اس کی نماز کو شک میں ڈال دیا۔ کسی مالکی امام سے اسلام قبول کرنے کے باعث وہ ہاتھ چھوڑ کر پڑھتا تھا، آپ نے کہا کہ اس طرح تو نماز نہیں ہوتی۔ اب وہ پریشان ہوا کہ میں کیا کروں؟ میری نماز ہوئی کہ نہیں؟ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کو ان کے حدود میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک دفعہ مجھے بقرہ عید پر انگلستان کے ایک شہر میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ طے ہوا کہ سارے مسلمان ایک جگہ پر عید کریں گے۔ اب ایک خاص علاقے کے لوگوں کا اصرار تھا کہ عیدمنانے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ بچپن سے ہم اسی طرح مناتے چلے آرہے ہیں اور ہمارے    آبا و اجداد اسی طرح کرتے آرہے ہیں۔ ایک دوسرے علاقے کے مسلمانوں کا اصرار تھا کہ     ہم ایسے کریں گے۔ پندرہ بیس وہاں کے مقامی مسلمان حیران تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ترک کہتے تھے ایسے کرو، حالانکہ عید کا حکم شریعت میں نہ وہ ہے نہ یہ ہے۔ شریعت کچھ نہیں کہتی۔ ہمارا ایک رواج ہے جو شریعت کے مطابق ہے تو قابلِ قبول ہے، اور شریعت سے متعارض نہیں ہے تو بھی  قابلِ قبول ہے، لیکن وہ دین اور شریعت نہیں ہے۔ وہ بس ہمارے یہاں کا رواج ہے۔

اس لیے دین کے جو کلیات قرآن اور سنت ہیں وہ دین کی دعوت کا موضوع ہیں۔ باقی چیزیں دعوتِ دین کا موضوع نہیں ہیں۔ وہ تحقیق، راے، فتویٰ اور اجماع کا اور ذاتی ذوق کا موضوع ہے، ان کو دعوت کا موضوع نہیں بنانا چاہیے۔ دعوت کا موضوع وہ چیزیں ہیں جو قرآن پاک، سنت اور دین میں متفق علیہ ہیں۔ جو چیزیں صحابہ کرامؓ سے چلی آرہی ہیں، جو چیزیں صحابہ کرامؓ میں متفق علیہ نہیں تھیں ، وہ دین نہیں ہوسکتیں۔ اگر آپ کہیں کہ وہ دین ہے تو جو صحابہ اس سے ہٹے ہوئے تھے  تو گویا نعوذ باللہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ جو چیز تابعین میں متفق علیہ نہیں تھی، وہ دین نہیں ہے۔ وہ اجتہاد ہے، راے ہے اور فتویٰ ہے۔ اگر آپ ایک راے کو دین کہیں تو دوسری راے کو کیا کہیں گے؟

اختلافی مسائل میں اعتدال کی روش

تیسری اور آخری چیز جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اور خاص طور پر جو بنیادی طور پر دین کا حوالہ رکھتے ہیں، وہ دوسروں کے بارے میں راے دینے میں بعض اوقات جلدبازی کرتے ہیں۔ لوگوں میں طرح طرح کے عقائد موجود ہیں۔ مسلمانوں کا جو تصورِعلم ہے وہ ان کے لیے مانوس نہیں ہے، وہاں اصل بنیاد کو نظرانداز کرکے جب آپ کسی جزوی مسئلے پر راے یا رویہ اختیار کریں گے تو وہ دین سے مزید دُور ہوگا۔ ایسے بے شمار لوگ آپ کو ملیں گے جو مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور بحیثیت مجموعی جب ان کو کہا جائے کہ آپ اسلام کو مانتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہاں مانتے ہیں۔ اسلام کے خلاف کوئی بات ہو تو وہ دکھ بھی محسوس کرتے ہیں، لیکن کسی جزوی معاملے میں وہ آپ کی بات نہیں مانتے۔ دین کے نام پر ہم جو بات انھیں بتا رہے ہیں، اس میں یہ تمام چیزیں، یعنی نصوص، اجتہادات، انفرادی بزرگوں کا ذاتی ذوق اور کسی مقامی علاقے کا اسلامی رواج بھی شامل ہیں۔

 اب اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں اس رواج کو نہیں مانتا، یہ غلط ہے تو آپ اس کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وہ اتنا ہی اچھا مسلمان ہوسکتا ہے جتنا کوئی اور۔ کوئی کہتا ہے کہ فلاں بزرگ کی پگڑی کا اسٹائل بڑا فضول ہے، میں نہیں مانتا تو کسی بزرگ کی پگڑی کے اسٹائل کو فضول کہنے سے آدمی نہ فاجر ہوجاتا ہے نہ فاسق اور نہ کچھ اور۔ اس حد تک بھی درست ہے کہ وہ کہے مَیں امام ابوحنیفہؒ کے فلاں اجتہاد کو نہیں مانتا تو آپ تھوڑی بات کریں، مگر گستاخی اور جہالت کا کوئی عنصر نہ آنے پائے کہ یہ قابلِ اعتراض بات ہے۔ لیکن اگر وہ نصوص کا انکار کرے تو وہاں مسئلہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ جو چیزیں اسے بتائی جارہی ہیں بظاہر وہ غلط محسوس ہوتی ہیں، وہ اس لیے غلط معلوم ہوتی ہیں کہ وہ شریعت کا حکم ہی نہیں ہے، وہ شریعت کے حکم کے طور پر اس کو سمجھتا ہے۔ اس لیے اس میں کسی جلدبازی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ یہ محسوس کریں کہ چونکہ اس کی بنیاد کمزور ہے، اس بنیاد پر جو عمارت کھڑی ہے اس کی کبھی ایک اینٹ گرتی ہے اور کبھی دوسری، کسی ایک اینٹ گرنے کی وجہ سے اس آدمی کو کچھ نہ کہیں۔ عمارت کو دیکھیں کہ اس کی بنیاد درست ہے یا نہیں، ورنہ بنیاد کو درست کرنے کی کوشش کریں۔

آج دنیاے اسلام کوجو مشکلات اور چیلنج درپیش ہیں، ان میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ دور جدید کی زبان، دور جدید کے محاورے اور دور جدید کے اسلوب میں قرآن مجید اور حدیث کو بیان کیا جائے۔ آج زبان اور اصطلاحات بدل چکی ہیں، محاروہ اور اسلوب بدل چکا ہے۔ اس لیے آج کل کی زبان میں انسانوں تک اور آج کل کے لوگوں تک قرآن وسنت کی تعلیم کوپہنچانا ان تمام حضرات کے ذمے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے شریعت کے علم سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ اس نے جس نبی یا پیغمبر کو بھیجا، اس علاقے اور اس قوم کی زبان اور محاورے کے ساتھ بھیجا کہ جو وہ قوم استعمال کرتی تھی: وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ(ابراھیم ۱۴:۴) ’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے‘‘۔ لسان میں محض لغت شامل نہیں ہے۔ لسان میں لغت بھی شامل ہے، محاورہ، اسلوب، طرزِ استدلال اور وہ ثقافتی مظاہر بھی شامل ہیں جن کا تعلق زبان اور اظہار بیان سے ہوتا ہے۔ آج جس میدان میں شریعت کی تعلیم کو اس نئے انداز سے بیان کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ اسلام کا قانونِ معاملات ہے۔

معاملات اور تجارت کے احکام کو شریعت نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ دنیا کے کسی مذہب، تاریخ کے کسی نظریے اور کسی فلسفے نے معیشت وتجارت کو وہ مقام اور اہمیت نہیں دی جو اسلام نے دی ہے۔ دنیا کے کسی نظام نے معیشت اور تجارت کو اخلاق اور روحانیات سے اس طرح وابستہ نہیں کیا، جس طرح اسلام نے ان دونوں کو وابستہ کر دیا ہے۔ دنیا کے کسی نظام میں معیشت وتجارت کی عمارت اخلاقی بنیادوں پر اس طرح قائم نہیں ہوتی جس طرح اسلام نے قائم کی ہے۔ ایک مشہور مغربی ماہر قانون نے لکھا ہے کہ اسلامی شریعت نے اخلاقی قواعد اور اصولوں کو اپنے قانون کے اندر اس طرح سمو دیا ہے کہ قانون پر عمل کرنے والا خود بخود اخلاق پر عمل درآمد کرتا ہے، اور اسلام کے اخلاقی اصول کی پاسداری کرنے والا خود بخود اسلام کے قانون پر عمل درآمد کرتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ اور ایک دوسرے سے مکمل طور پر وابستہ ہو گئے ہیں۔

مغربی دنیا نے اپنی تاریخ کے ایک دور میں بعض گمراہیوں کی وجہ سے قانون اور اخلاق، قانون اور روحانیات کے رشتے کو توڑ دیا۔ مغربی دنیا نے یہ طے کیا کہ قانون وہ ہوگا جس کا اخلاق اور روحانیات سے تعلق نہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج قانون کی اصل بنیاد ختم ہو چکی ہے۔ آج غیراخلاقی تصورات کو قانون کے دائرے میں داخل کیا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قانون اپنی اہمیت، اپنی افادیت اور اپنی تاثیر کھوتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا میں روز بروز جو لاقانونیت بڑھ رہی ہے، دنیا کی حکومتیں اور بڑے بڑے قائدین جس طرح قوانین کو توڑ رہے ہیں، دنیا کے طے شدہ اصولوں کی جس طرح مٹی پلید کی جارہی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا نے قانون اور اخلاق کے رشتے کو توڑ دیا ہے۔ اس کے برعکس اسلامی شریعت نے پہلے دن سے قانون اور اخلاق، ان دونوں کے رشتے کو اس مضبوطی سے قائم کیا تھا کہ وہ رشتہ آج تک اسی مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔

قانون اور اخلاق کی ضرورت مدرسوں، مسجدوں اور خانقاہوں میں بہت محدود ہوتی ہے، جب کہ اخلاق اور روحانی اقدار کی ضرورت بازار، تجارت اور معیشت میں زیادہ ہوتی ہے۔ جس زمانے میں امام محمد بن الحسن الشیبانی اپنی کتابیں تالیف کر رہے تھے، اس زمانے کے بہت سے محدثین نے زہد پر کتابیں لکھیں۔ امام عبداللہ بن المبارک کی کتاب الزھد اور امام احمد بن حنبل کی کتاب الزھد مشہور ہے۔ متعدد محدثین نے، جن کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے، زہد کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ کسی نے امام محمد سے پوچھا کہ: آپ نے زہد پر کتاب نہیں لکھی؟امام محمد نے جواب دیا: میں نے کتاب الکسب اور کتاب البیوع لکھ دی ہے۔ خرید وفروخت کے احکام پر، فقہ المعاملات پر میں کتاب لکھ چکا ہوں جو کتاب الزھد کے تمام تقاضوں کو پورا کرے گی۔     یہ بات امام محمد نے کسی کمزور بنیاد پر نہیں فرمائی۔

امام محمد کے اس قول کی تشریح میں امام غزالی نے لکھا ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں بیٹھ کر یا اپنے گھر کی تاریکی میں بیٹھ کر استغنا وزہد کی بات کرنا آسان ہے، لیکن بازار میں جہاں خرید وفروخت کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں، جہاں دھوکا دہی اور کم تولنے کے روزانہ سو مواقع پیدا ہوتے ہیں، گھٹیا سودا دینے اور بڑھیا سودے کی قیمت لینے کے مواقع روزانہ پیدا ہوتے ہیں اور بازار میں بیسیوں آدمی ہر روز یہ کام کر رہے ہوتے ہیں___ اس وقت جب ایک شخص اس ناجائز روزی سے بچتا ہے اور جائز اخلاقی، قانونی، دینی تقاضوں کے مطابق تجارت کرتا ہے، تو وہ ہر لمحے شیطان کے گلے پر چھری چلاتا ہے۔ نفس کے شیطان کے گلے پر چھری چلانا آسان نہیں ہے۔ یہ چھری مسجد میں بیٹھ کر چلائی جاسکتی ہے، خانقاہوں میں چلائی جا سکتی ہے، لیکن جس بازار میں آپ لاکھوں روپے کا کاروبار کر رہے ہوں اور وہاں ایک معمولی غلط بیانی سے لاکھوں روپے کا فائدہ ہونے کا امکان ہو، وہاں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اس فائدے سے اپنے کو محروم کرنا ہی دراصل وہ تربیت ہے جو  اس روحانی اور اخلاقی اصول سے قائم ہوتی ہے جس پر شریعت نے اپنے احکام کی بنیاد رکھی ہے۔

اللہ کی حکمت بالغہ کو یہ بات پہلے سے معلوم تھی اور اللہ تعالیٰ کے لامتناہی علم میں یہ بات پہلے سے موجود تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ایک بین الاقوامیت کا دور ہوگا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے تمام پیغمبر ، تمام آسمانی مذاہب اور تمام آسمانی کتابیں علاقائی پیغام لے کر آئے۔ کسی نے کہا کہ میں بنی اسرائیل کی بھیڑوں کوراہ راست پر لانے کے لیے آیا ہوں۔ کسی نے کہا کہ میں تو  بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دلانے آیا ہوں۔ کسی نے کہا کہ میں تو اپنے گاؤں میں آیا ہوں اور اپنے گاؤں کے فلاں حصے کے لیے آیا ہوں۔ قرآن پاک میں یہ شہادت موجود ہے کہ ایک ایک گاؤں میں تین تین نبی اللہ نے بھیجے۔ ایک گاؤں میں تین نبی ہوں گے تو چند گھروں کے ایک نبی ہوں گے اور دوسرے چند گھروں کے دوسرے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دور میں بھیجا گیا جو بین الاقوامی اور عالم گیر دور تھا اور عالم گیریت کا آغاز ہو رہا تھا۔ آپ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں، بین الاقوامیت کا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے تقریباً نصف صدی پہلے شروع ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جدِامجد جناب ہاشم بن عبد مناف نے بین الاقوامی تجارتی سفروں کا سلسلہ شروع فرمایا۔ رِحْلَۃَ الشِّتَآئِ وَالصَّیْفِ کا قرآن میں بھی ذکر ہے۔    یہ سفر جناب ہاشم بن عبد مناف کی کوششوں سے شروع ہوا۔ ہاشم نے قیصرِ روم سے اور شہنشاہ ایران سے اجازت لے کر ان سفروں کے لیے راہداری کے پرمٹ جاری کرائے تھے۔ جناب عبدالمطلب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جناب عباسؓ بن عبد المطلب کا بڑا کاروبار تھا۔

یہ بات محض اتفاق نہیں ہے کہ رسولؐ اللہ نبوت سے ۱۵،۲۰ سال پہلے سے تجارت سے وابستہ تھے اور بطور صادق اور امین کے پورے جزیرئہ عرب میں معروف تھے۔ اسلام کی صف اول کی تمام شخصیات کا تعلق تجارت سے تھا۔ خلفاے اربعہ اور خاص طور سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور  سیدنا عثمان غنیؓ، اسی طرح عشرہ مبشرہ میں سے بڑی تعداد اور اکثریت کا تعلق تجارت سے تھا۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ، سیدنا زبیر بن عبد المطلبؓ، سیدنا زبیر بن العوامؓ، سب تجارت کرتے تھے۔   یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ ایک ایسی شریعت کے اولین علم بردار تھے جو بین الاقوامی شریعت تھی۔ بین الاقوامی معاملات اور تعلقات میں سب سے اہم چیز ہمیشہ سے تجارت اور معاشی معاملات رہے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی روابط کی سب سے بڑی اساس تجارت اور لین دین ہے۔ یہ حضرات پہلے سے بین الاقوامی تجارتی لین دین کر رہے تھے۔ گویا کہ اسلامی شریعت اور تجارت کا پہلے دن سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسلامی شریعت اور بین الاقوامی معیشت دونوں پہلے دن سے ایک دوسرے سے وابستہ اور لازم وملزوم ہیں۔ یہ پیغام لے کر وہ شخصیات اٹھیں جو پہلے سے اس میدان میں تھیں۔ اس لیے کہ اگر کسی ایسی قوم کویہ پیغام دیا گیا ہوتا جو تجارت اور بین الاقوامی معیشت سے ناواقف ہوتی تو اسلام کے ان احکام پر عمل درآمد شاید اتنی آسانی سے نہ ہو سکتا اور اسلام کے وہ احکام جو پہلی صدی ہجری ہی میں مرتب ہونا شروع ہوگئے،  وہ شاید نہ ہو سکتے۔

آج بعثتِ نبویؐ سے پہلے دور کے متعدد قدیم قوانین موجود ہیں اور کتابوں میں لکھے ہوئے دستیاب ہیں۔ یہودیت کا قانون موجود ہے، ہندو اور رومن قانون موجود ہے،لیکن یہ بات میں بلاتامل آپ سے عرض کر رہا ہوں کہ اسلام سے پہلے دنیا کے کسی بھی نظام اور قانون میں تجارت اور معیشت پر وہ زور نہیں دیا گیا جو اسلامی شریعت نے دیا ہے۔ اسلامی شریعت کے نزول کی تکمیل کے ڈیڑھ سو سال کے اندر اندر ائمہ اسلام نے ان قوانین پر درجنوں کتابیںمرتب فرما دیں۔ امام شافعی کی کتاب الام پورا انسائی کلو پیڈیا ہے جو ۱۵ جلدوں میں ہے۔ اسے تن تنہا    ایک فقیہ نے بیٹھ کر مرتب کیا۔ اس میں تجارت کے احکام اور قوانین کی جتنی شکلیں ہو سکتی ہیں۔   امام محمد نے ان مسائل پر بحث کی ہے۔ امام محمد سے پہلے ان کے اور امام شافعی کے استاذ امام مالک نے اپنی المدونہ میں، جو چھے جلدوں میں ایک ضخیم کتاب ہے اور بارہا چھپی ہے، تجارت اور معیشت کے تمام جزوی مسائل بیان کیے ہیں۔

تجارت اور معیشت کے احکام بیان کرنا آسان کام نہیں ہے۔ قرآن پاک کی اُن تمام آیات کو جب سامنے رکھا گیا، جن میں تجارت اور معیشت کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں، تو ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ سے ایک ایک فقیہ نے ہزاروں احکام کا استنباط کیا۔ ایک مرتبہ  امام شافعی کسی مسجد میں نماز ادا فرما رہے تھے۔ جن صاحب نے عشاء کی نماز کی امامت کی، انھوں نے سورئہ بقرہ کی آخری آیات کی تلاوت کی۔ امام شافعی رات کو آکر سو گئے۔ صبح اٹھے تو انھوں نے پوچھا: ’’حضرت، رات کو نیند آگئی، اچھی طرح سے سوئے؟‘‘ امام شافعی نے کہا: ’’میں تو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سویا‘‘۔ پوچھا: ’’جی کیوں؟‘‘ امام شافعی نے فرمایا: ’’جب تم نے یہ آیت تلاوت کی: وَ اِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ (البقرہ ۲:۲۸۰)، جس میں قرض دار کا ذکر ہے، قرض کے احکام بیان ہوئے ہیں کہ اگر تمھارا مقروض تنگ دست ہو تو اسے اس وقت تک مہلت اور چھوٹ دی جائے جب تک اس کے پاس خوش حالی نہ آجائے، جب تک اس کا ہاتھ نہ کھل جائے۔ امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے اس آیت پر غور شروع کیا تو مجھے یہ پتا چلا کہ اس میں تو اسلام کا قانون ’افلاس‘ بیان کیا گیا ہے۔ افلاس (Insolvency) کیا ہے؟ وَ اِنْ کَانَ ذُوْعُسْرَۃٍ، یعنی آدمی اپنی مالی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔ جس آدمی کی مالی ذمہ داریاں اور قرضے اس کے وسائل سے بڑھ جائیں، اس کو قانون میں ’مفلس‘ کہتے ہیں۔ وہی صورت حال یہاں بیان ہوئی ہے۔ پھر امام شافعی نے فرمایا کہ فوراً ذہن میں یہ آیا کہ اس آیت کا منشا یہ ہے کہ شریعت نے جو اخلاق، معاملات اور تجارت کے بارے میں سکھائے ہیں، وہ     قانونِ افلاس کی بنیاد ہونے چاہییں۔ پھر میرے ذہن میں یہ آیا کہ یہ ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ذہن میں یہ آیا، پھر یہ آیا۔ امام شافعی بیان فرما رہے ہیں اور شاگرد سن رہے ہیں۔ پھر امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے اس آیت سے ۱۰۸ مسئلے اخذ کیے ہیں۔ گویا اس تین لفظی آیت سے امام شافعی نے قانونِ افلاس کے ۱۰۸ مسئلے مرتب فرمائے۔

اس ایک مثال سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تجارت اور معیشت کے احکام کی اسلام کے نظام میں کتنی اہمیت ہے۔ فقہاے اسلام نے قانونِ تجارت اور قانونِ معیشت، یعنی فقہ المعاملات کے جو مسائل منقح کیے، ان میں سے کئی مسائل ایسے ہیں کہ آج بھی مغربی دنیا ان تک نہیں پہنچی۔ انسان کا مزاج یہ ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر ہے۔ یہ جو علمی ذخائر کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں، اگر تقابل نہ کیا جائے تو ان کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا۔ وبضدہا تتبین الاشیاء۔ جب تک یہ نہ دیکھا جائے کہ دوسرے کیا کہتے ہیں، دوسروں کا نظام اور قانون کیا بتاتا ہے، اس وقت تک اپنی اس دولت کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ صحابہ کرامؓ کے دور سے، فقہاے اسلام اور مجتہدین کے دور سے یہ طریقہ رہا ہے کہ: جب شریعت کے احکام پر غور کیا جائے، شریعت کے احکام کو نافذ کیا جائے تو یہ بھی دیکھا جائے کہ شریعت سے انحراف کے کون کون سے راستے بازار میں موجود ہیں۔ اس طرح، ایک تو ان راستوں کو بند کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ دوسرے شریعت کے احکام کے راستے میں رکاوٹوں کا ادراک ہوتا ہے۔ پھر اس ادراک کی وجہ سے ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے۔ کئی مؤرخین نے اور سیرت نگاروں نے نقل کیا ہے کہ وہ کسی منصب کے لیے کسی ذمہ دار آدمی کی تلاش میں تھے۔ سیدنا عمر فاروقؓ کا طریقہ تھا کہ کثرت سے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کرتے تھے اور پھر غور کے بعد کسی منصب کے لیے افراد کا تقرر کرتے تھے۔ اس دوران میں کسی صحابی نے یا کسی دوست نے کسی صاحب کا نام لیا اور مشورہ دیا کہ آپ ان کو مقرر کر دیں، وہ بہت نیک اور متقی آدمی ہیں۔ ان کی تعریف بہت کی اور تعریف میں کہا کہ کانہ لا یعرف الشر، گویا کہ وہ اتنے اچھے آدمی ہیں کہ سراپا صلاح وتقویٰ ہیں اور شر کو جانتے ہی نہیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ ایسا آدمی نہیں چاہیے، اس لیے کہ اذا یوشک ان یقع فیہ، جو شر کو نہیں جانتا، وہ تو شر میں مبتلا ہو جائے گا۔ اسے پتا ہی نہیں چلے گاکہ شر کیا ہے اور خیر کیا ہے۔ ایسا آدمی چاہیے جو خیر کو بھی جانتا ہو اور شر کو بھی۔

اس لیے صحابہ کرامؓ کے زمانے سے یہ سنت چلی آ رہی ہے کہ ائمہ اسلام نے اپنے دور کے تمام رائج الوقت طریقوں اور نظاموں کو جانا پہچانا، ان کا ادراک کیا۔ اس ادراک کے بعد جو مسائل سامنے آئے، ان کو سامنے رکھ کر شریعت کے احکام کومرتب کیا۔ جب سادہ زمانہ تھا، یہودیوں، عیسائیوں اور کفار مکہ کی گمراہیاں تھیں۔ تجارت کے معمولی طریقے تھے تو ائمہ مجتہدین نے ان طریقوں سے واقفیت حاصل کی۔ امام محمد بن الحسن الشیبانی کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ جس زمانے میں وہ بیوع اور تجارت کے احکام مرتب فرما رہے تھے، اس زمانے میں بازار میں جا کر بیٹھا کرتے تھے۔ اپنے وقت کا ایک حصہ انھوں نے اس کام کے لیے رکھا تھا کہ بازار میں جا کر بیٹھیں اور دیکھیں کہ تجارت کیسے ہوتی ہے، کاروبار کیسے ہوتا ہے، اور کاروبار کے طریقے کون کون سے ہیں اور کیا ہیں، تاکہ اس کی روشنی میں وہ شریعت کے احکام کو مرتب کر سکیں۔ پھر جب یونانی علوم وفنون کا دور شروع ہوا تو ائمہ اسلام کی بڑی تعداد نے یونانی علوم وفنون کو حاصل کیا۔ فلسفہ، منطق، ریاضی، اس راستے سے آنے والی گمراہیوں کا سد باب کیا۔ امام غزالی، امام رازی، ابن تیمیہ، یہ وہ شخصیتیں ہیں جنھوں نے یونانی گمراہیوں کی اس طرح موثر تردید کی کہ کوئی بڑے سے بڑا یونانی فلسفی اور منطقی، اسلام کے کسی بھی حکم پر اعتراض نہیں کر سکا۔ حتیٰ کہ خالص اسلامی علوم کو اس طرح منطقی دلائل سے مرتب اور منظم کر دیا کہ اس زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا منطقی اصولِ فقہ پر یہ اعتراض نہیں کر سکتا تھا کہ اس کا فلاں مسئلہ یا فلاں اصول غیر منطقی ہے۔ علم کلام کو اس طرح مرتب کیا کہ مسلمانوں کے کسی عقیدے کو کوئی بڑے سے بڑا یونانی غیر عقلی قرار دے نہیں سکا۔

ان مثالوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فقہاے اسلام رائج الوقت تجارت اور معیشت،   رائج الوقت تصورات، رائج الوقت الحادی نظریات اور رجحانات سے پوری واقفیت حاصل کر کے شریعت کے احکام کو مرتب کر تے تھے۔ فقہاے اسلام نے فقہ المعاملات کے احکام کو مرتب کیا۔ فقہ المعاملات کے احکام کی ترتیب صحابہ کے زمانے سے شروع ہو گئی تھی۔ تابعین میں بعض حضرات نے فقہ المعاملات میں تخصص کیا۔ امام احمد بن حنبل نے ایک جگہ لکھا ہے کہ بیوع کے احکام سب سے زیادہ مرتب انداز میں سعید بن المسیب کے ہاں ملتے ہیں۔ سعید بن المسیب مشہور تابعی ہیں، سیدالتابعین کہلاتے ہیں اور طویل عرصے تک سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد رہے ہیں۔ انھوں نے خاص طور پر ان احادیث اور سنت کے ان احکام پر غور وخوض کیا، جن کا تعلق بیوع اور تجارت سے تھا۔ ایسا ولی کامل، ایسا محدث جلیل جس کو بہت سے حضرات نے سید التابعین قرار دیا ہے، جس نے سالہاسال صحابہ کرامؓ سے کسب فیض میں گزارے، اس نے تجارت اور معیشت میں آج کل کی اصطلاح کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تخصص پیدا کیا۔ اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تجارت اور بیوع اور کاروبار کی اہمیت کو صحابہ اور تابعین نے پورے طور پر پہچانا۔ بہت سے حضرات نے اس میں تخصص پیدا کیا اور اس تخصص کی بنیاد پر ائمہ مجتہدین نے احکام مرتب کیے۔

ان حضرات نے صرف احکام مرتب کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ انھوں نے ان احکام کی بنیادیں دریافت کیں۔ شریعت نے کسی چیز کو حرام قرار دیا ہے تو کیوں حرام قرار دیا ہے؟ اس کی علت کیا ہے؟ وہ علت کہاں کہاں پائی جاتی ہے؟ اس علت کو مختلف صورتوں پر منطبق کرنے کے قواعد کیا ہیں؟ خود مال (capital) جس کو کہتے ہیں، وہ کیا ہے؟ بیع کیا ہے؟ تجارت کیا ہے؟ اس کی کتنی قسمیں ہیں؟ ان میں سے بہت سے مسائل وہ ہیں کہ مغربی دنیا آج بھی وہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے یہاں مدرسے میں طلبہ جو فقہ کی کتابیں پڑھتے ہیں، وہ جب کتاب البیوع شروع کرتے ہیں تو پہلے دو تین صفحات میں مال متقوم اور مال غیر متقوم کی بحث آتی ہے۔ یہ تصور آج مغربی قانون میں اس وقت بھی موجود نہیں ہے کہ مال کی پہلے دن سے دو قسمیں کی جائیں۔ ایک وہ مال ہے جس کی مالیت کو، جس کی ملکیت کو جس کے تصرف اور جس سے استفادے کو قانون جائز تصور کرتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس کو جائز تصور نہیں کرتا۔ آج مغربی دنیا اس چیز کی ضرورت محسوس کرتی ہے، لیکن اس کے پاس یہ تصور نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں متقوم اور غیر متقوم کا تصور اسلام میں موجود ہے۔

مثال کے طو رپر پاکستان کے قانون کی رو سے کسی کو ہیروئن رکھنے کا اختیار نہیں ہے۔ ہیروئن کی خرید و فروخت بھی ناجائز ہے۔ وہ شریعت کی رو سے بھی مال غیرمتقوم ہے، اس لیے کہ مسکر ہے، اور موجودہ قانون میں بھی وہ مال غیر متقوم کہی جا سکتی ہے۔ کوئی شخص اپنی ملکیت میں توپ نہیں رکھ سکتا، ٹینک نہیں رکھ سکتا۔ اگر میں ٹینک خریدوں تو وہ خرید بھی ناجائز اور جو بیچے اور فروخت کرے وہ بھی ناجائز۔ یہ بات آج مغربی دنیا کو پریشان کر رہی ہے کہ اگر کسی چیز کی خرید وفروخت پر پابندی لگائی جائے تو کس بنیاد پر لگائی جائے؟ کبھی کہتے ہیں کہ عامۃ الناس کی فلاح میں نہیں ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ اس سے نقصان ہوگا۔ مختلف اسباب بیان کرتے ہیں، لیکن کوئی سبب یا کوئی ایسی ٹھوس اور جامع بنیاد نہیں ہے جو ان تمام جزئیات کو محیط ہو کہ جن جزئیات پر پابندی لگانا مقصود ہے۔ فقہاے اسلام نے، اللہ تعالیٰ ان کو جزاے خیر دے، متقوم اور غیر متقوم، دو اصطلاحات سے اس مسئلے کو حل کر دیا۔

سود کا مسئلہ آپ کو اور تاجروں کو اکثر پیش آتا ہے۔ سود میں غلط فہمیوں کی ایک وجہ اصطلاحات کا نہ ہونا بھی ہے۔ فقہاے اسلام نے مال کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ یہ سب فقہ المعاملات کے مباحث ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک مال وہ ہوتا ہے جس کو استعمال کیا جائے اور ایک مال وہ ہوتا ہے جس کو خرچ کیا جائے۔ یہ پگڑیاں رکھی ہوئی ہیں، میں آپ سے لے کر سر پر باندھ لوں اور تقریر کے بعد واپس کردوں تو یہ استعمال ہے۔ آپ کی اس پگڑی کا کچھ نہیں بگڑا۔ جیسی میں نے لی تھی، ویسی ہی واپس کر دی۔ اس کو شریعت کی اصطلاح میں ’عاریت‘ کہتے ہیں۔ ایک مال وہ ہے کہ جب تک میں اس کو خرچ کر کے فنا نہ کر دوں، میں اس سے استفادہ نہیں کر سکتا۔ میں آپ سے ایک گلاس پانی مانگوں تو پانی کا کوئی فائدہ نہیں جب تک میں اس کو پی نہ لوں یا اس سے ہاتھ دھو کر اس کو بہا نہ دوں، یہ ’استہلاک‘ ہے۔ ان دونوں کے احکام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ شریعت میں ایک کو ’عاریت‘ کہتے ہیں، ایک کو ’قرض‘ کہتے ہیں۔ انگریزی میں دونوں کے لیے borrow     (یعنی اُدھار) کی اصطلاح ہے۔ آپ لائبریری سے بھی کتاب اُدھار لیتے ہیں اور بنک سے رقم بھی اُدھار لیتے ہیں۔ اب جو اس فرق سے واقف نہیں ہے، وہ کہتا ہے کہ میں کتاب اُدھار لے کر اس کا کرایہ دے دوں تو آپ اس کو جائز کہتے ہیں، اور بنک سے پیسے اُدھارلے کر اس کا کرایہ دوں تو آپ ناجائز کہتے ہیں! اس میں فرق کیا ہے؟ وہ اس لیے معاملے کو نہیں سمجھتا کہ اس کے ہاں    یہ تصور موجود نہیں ہے، اصطلاحات موجود نہیں ہیں۔

اس طرح کے بے شمار احکام ہیں جو فقہ المعاملات میں فقہا نے مرتب کیے۔ فقہ المعاملات میں یہ بتایا گیا کہ مال کی تعریف کیا ہے؟ مال کس کو کہتے ہیں؟ جس چیز کو مال کہتے ہیں، اس کی  خرید وفروخت کے احکام کیا ہیں؟ پھر مال اور ثمن میں کیا فرق ہے؟ یعنی جس کو آج کل زر (money) کہتے ہیں، وہ کیا ہے؟ یہ بات آپ کے لیے حیرت انگیز ہوگی کہ آج کل جو زر کی تعریف کی جاتی ہے، بعینہٖ یہ تعریف فقہاے اسلام کے ہاں موجود ہے۔ امام مالک نے کہا ہے کہ زر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ما یقتات بہ، ما یدخر بہ ہو، یعنی جس کو ذخیرہ کیا جاسکے، جس کو محفوظ کیا جاسکے۔ ادخار، یعنی Store of value یہ آج کل کی اصطلاح ہے ۔ اس کے لیے   امام مالک نے ادخار کی اصطلاح استعمال فرمائی۔ امام مالک سے پہلے روے زمین پر کسی قانون دان کے ذہن میں یہ تصور نہیں آیا تھا۔ یہ نہ رومن قانون میں، نہ ہندو قانون میں اور نہ یہودی قانون ہی میں ہے، مگر شریعت میں موجود ہے۔ یہ تصور امام مالک نے دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے ہاں تصور   یہ ہے کہ ’زر‘ وہ چیز ہے جو گنی جا سکے، تولی جا سکے ، ناپی جا سکے۔ یہ تصور بھی آج کل ’زر‘ کی تعریف میں موجود ہے۔ اس لیے اپنے اس علمی ذخیرے کی قدر کرنا ہمیں سیکھنا چاہیے۔ اس ذخیرے سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے، لیکن ہمارے تاجر حضرات ان اصطلاحات سے اکثر واقف نہیں ہوتے جو فقہا نے استعمال کی ہیں۔ ہمارے علما اور مفتی حضرات ان اصطلاحات سے واقف نہیں ہوتے جو مارکیٹ میں استعمال ہو رہی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک درمیانی واسطہ ہو۔ وہ درمیانی واسطہ نوجوان علما ہیں جنھوں نے آج کل کا بزنس ایڈمنسٹریشن بھی سیکھ لیا ہے اور شریعت کے وہ پہلے سے متخصص بھی ہیں۔ یہ حضرات اس نئے دور کے نقیب ہیں، ایک نئے دور کے مناد ہیں جس کی اُمت مسلمہ منتظر ہے۔ امت مسلمہ ۱۰۰ سال سے اس کی منتظر تھی!

حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انتقال سے چند مہینے پہلے جامعہ ملّیہ کا افتتاح فرمایا تھا۔ جامعہ ملّیہ آج ہندستان کی ایک عام سیکولر یونی ورسٹی بن گئی یا بنا دی گئی ہے۔ جامعہ ملّیہ کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ بنایا جائے جو علی گڑھ اور دارالعلوم دیوبند کا سنگم ہو، جس میں علی گڑھ کی اور دارالعلوم دیوبند کی تمام خصوصیات موجود ہوں۔ شیخ الہند اس کا افتتاح کرنے کے لیے دیوبند سے علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ علی گڑھ میں جامعہ ملّیہ کا افتتاح ہوا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر اس کے پہلے امیر، یعنی چانسلر مقرر ہوئے تھے اور انھوں نے علامہ اقبال سے گزارش کی تھی کہ آپ اس کے پہلے وائس چانسلر ہو جائیں۔ اس سے آپ اندازہ کریں کہ ۱۹۱۹ء، ۱۹۲۰ء میں یہ احساس حضرت شیخ الہند میں موجود تھا جو دار العلوم دیوبند کے پہلے طالب علم تھے۔ انھوں نے ۱۹۱۹ء میں اس کا احساس کیا تھا۔ آج ۲۰۱۰ء میں ہم اس احساس کا عملی مظہر دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے ۹۰ سال کی تاخیر کر دی ہے۔ اگر یہ تاخیر نہ ہوتی تو شاید آج ہمارے دوستوں کو      یہ شکایت کرنے کا موقع نہ ملتا کہ ہم دنیا سے پیچھے ہیں، ہم دنیا کے مقلد ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کارساز ہے۔ وہ اس تاخیر سے درگزر فرمائے اور اس تاخیر کے نقصانات سے ہمیں محفوظ رکھے۔

اسلام میں تجارت کے احکام فقہ اسلامی کا سب سے بڑا حصہ ہیں۔ فقہ اسلامی کے اگر بڑے بڑے اجزا بیان کیے جائیں تو ایک جز عبادات کا ہے۔ نماز روزہ تعلق مع اللہ کے لیے ہے۔ اسلام کا بنیادی مقصد ہی اللہ کی عبادت ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (الذاریات ۵۱:۵۶)۔ اس لیے عبادت الٰہی کے لیے جو احکام ہیں، وہ بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنی تجارت کے احکام رکھتے ہیں، بلکہ ترتیب میں وہ سب سے پہلے ہیں۔ اس کے بعد ایک مسلمان کی تربیت اور تعلیم کا، مسلمان کی تیاری کا، نئی امت مسلمہ کی نشوونما کا جو سب سے بڑا مرکز اور درس گاہ ہے، وہ ماں کی گود ہے، گھر ہے اور ماں باپ کی سرپرستی ہے۔ نانی اور دادی کی لوریاں ہیں۔ جب تک یہ درس گاہ مسلمانوں میں محفوظ تھی، مسلمان گھر خطرے سے محفوظ تھے۔ آج یہ  درس گاہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ اس لیے شریعت نے اس درس گاہ کے احکام دیے ہیں۔ قرآن پاک کی آیاتِ احکام میں ایک تہائی کا تعلق عبادات سے ہے اور ایک تہائی کا تعلق عائلی احکام وقوانین سے ہے۔

فقہ المعاملات میں فقہاے اسلام نے جتنی تفصیل سے معاملات کو مرتب کیا ہے، اس تفصیل، وسعت اور اس گہرائی میں فقہ اسلامی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ عبادات میں تو کسی تفصیل کی زیادہ گنجایش نہیں ہے۔ عبادات میں نہ کوئی نئی عبادت وضع کی جا سکتی ہے نہ کوئی نئی صورت وضع کی جا سکتی ہے۔ اس لیے عبادات میں تو جوحدود اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اسی کے اندر رہنا پڑے گا اور اس کے احکام بھی محدود ہوں گے۔ اس کے باوجود فقہاے اسلام نے ہزاروں صفحات پر مشتمل سیکڑوں جلدیں تیار کر دیں ۔ لیکن معاملات کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں: الاصل فی المعاملات الاباحۃ۔ آپ جو بھی نیا کاروبار یا تجارت کرنا چاہیں، اگر اس میں کوئی چیز شریعت سے متعارض نہیں ہے تو وہ جائز ہے۔ اس میں ربا نہیں ہے، اس میں قمار نہیں ہے، اس میں غرر نہیں ہے، فلاں فلاں برائیاں نہیں ہیں تو وہ جائز ہے، خواہ اس کا نام جو بھی ہو۔ چونکہ اس میں راستہ کھلا ہوا ہے، میدان کھلا ہوا ہے، اس لیے فقہاے اسلام نے ہر دور میں نئی شکلیں مرتب کیں۔ جب کوئی نئی شکل تجارت کی آئی، فقہا نے اس کے احکام مرتب کیے۔

امام محمد اور امام مالک اور امام شافعی کے ہاں بیع الوفاء کا ذکر نہیں ہے۔ بیع الوفاء کے نام سے ایک بیع کا آغاز پانچویں چھٹی صدی ہجری میں ہمارے وسطی ایشیا، یعنی، سمرقند، بخارا، ماواء النہر میں ہوا تو فقہا نے اس کے احکام مرتب کر دیے۔ سوکرہ، یعنی سکیورٹی یا انشورنس کا مسئلہ اٹھارھویں انیسویں صدی میں سامنے آیا تو علامہ ابن عابدین نے سوکرہ کے احکام مرتب کر دیے۔ ردالمختار میں سوکرہ کا باب موجود ہے، اس کے احکام موجود ہیں۔ اس لیے تجارت اور معیشت کے ابواب فقہ اسلامی میں مسلسل وسعت پذیر ہوتے رہے ہیں اور ہر دور میں اس میں نئے اضافے ہوتے رہے ہیں۔ جو بنیادی تصورات تھے، ان کی روشنی میں فقہاے اسلام نے احکام مرتب فرمائے ہیں۔ ایک زمانہ تھاکہ ان قواعد کی تعداد ۲۵، ۳۰ سے زیادہ نہیں تھی، لیکن اب صورت یہ ہے کہ اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) کی اسلامک فقہ اکیڈمی نے ایک پروگرام بنایا کہ ان قواعد کو مرتب کروایا جائے جن کا تعلق معاملات سے ہے۔ ان سے پہلے ایک اور سعودی ادارے نے کچھ علما کو مقرر کیا کہ معاملات سے متعلق قواعد فقہیہ (Legal Maxims) مدون کریں۔ احکام، یعنی Rules of Law نہیں، وہ تو بے شمار ہیں۔ چنانچہ وہ ۱۲ جلدوں میں مدون ہوئے ہیں۔ انگریزی کی کوئی کتاب جس میں سارے لیگل میکسم جمع ہوں، دو سے زائد جلدوں میں نہیں ہے۔ یہاں صرف معاملات کے لیگل میکسم ۱۲ جلدوں میں مرتب ہیں، چھپ چکے ہیں۔ او آئی سی کی فقہ اکیڈمی کے صدر نے خود مجھے بتایا کہ ہم نے یہ کام شروع کروایا ہے۔ اب تک جو مواد ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۱۰۰جلدوں میں یہ کام مرتب ہوگا۔ اس سے آپ فقہ المعاملات کی وسعت کا، گہرائی اور تعمق کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ فقہ المعاملات میں دو سال، تین سال یا چار سال میں تخصص کیسے ہوگا۔ میرے خیال میں تو اس میں چار پانچ نسلیں لگانی چاہییں۔ تین نسلیں ہوں جو طے کریں۔ پہلے دادا پڑھے، پھر بیٹا پڑھے، پھر پوتا پڑھے تو جا کے شاید تخصص ہوسکے گا۔ جس قانون کے قواعد فقہیہ، ۱۰۰ جلدوں میں آرہے ہیں، اندازہ کریں کہ اس میں مہارت کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔ (جامعۃ الرشید کراچی میں تقریبِ تقسیم اسناد کے موقع پر خطاب، بہ شکریہ ماہنامہ الشریعۃ، گوجرانوالہ، جنوری-فروری ۲۰۱۱ء)

 

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا شمار بلاشبہہ بیسویں صدی کے نامور ترین مفکرین اور علماے اسلام میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی ۶۰سالہ علمی اور ادبی زندگی میں دینی‘ ملّی اور اجتماعی زندگی کے کم و بیش ہر پہلو پر لکھا ہے۔ ان کی تحریروں کا بنیادی مطمح نظر فکر اسلامی کی تجدید‘ مسلم معاشرے کی تشکیل نو اور مسلمانوں کی گمشدہ اسلامی میراث کی بازیافت ہے۔ اپنی ابتدائی تحریروں میں مولانا مودودیؒ کے خیالات پر جن دینی شخصیتوںکے اثرات غیر معمولی طور پر محسوس ہوتے ہیں‘ ان میں آٹھویں صدی ہجری کے مشہور مجدد اور مصلح علامہ ابن تیمیہ ؒ کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ ابن تیمیہؒ سے مولانا مودودیؒ کی عقیدت بہت قدیم بھی ہے اور ابتدا میں  بڑی شدید بھی تھی۔ مولانا کی جن کتابوں کو ان کے نظام فکر میں کلیدی حیثیت حاصل ہے‘ ان میں تجدید و احیاے دین ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ کتاب دراصل ایک مقالہ تھا جو انھوں نے ۴۱-۱۹۴۰ء میں الفرقانکے شاہ ولی  ؒاللہ نمبر کے لیے لکھا تھا۔ مولانا نے اس مقالے میں       نہ صرف تصور تجدید اور احیاے دین پر مفصل بحث کی اور اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا‘ بلکہ اسلامی تاریخ کی جن نامور شخصیتوں کو وہ تجدید و احیاے اسلام کا نمایندہ سمجھتے ہیں ان کے  کام پر بھی انھوں نے روشنی ڈالی ہے۔

اس مقالے یا کتاب کی تصنیف کے دوران مولانا مودودیؒ کے ذہن میں تجدید کا جوخاص تصور تھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے مختلف مجددین کے کام پر تبصرے کیے اور جہاں جہاں بہتری کی گنجایش محسوس کی اس کی نشان دہی کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیاے اسلام کو جس شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا‘ اس نے مولانا کے نوجوان ذہن اور حساس دل پر گہرا اثر ڈالا۔ انھوں نے یہ محسوس کیا کہ دنیا میں ہر جگہ مسلمان ہی زوال کا شکار ہیں‘ اور زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نظر نہیں آتا جس میں مسلمانوں کا زوال نمایاں نہ ہو۔ اس ہمہ گیر زوال اور کمزوری کے احساس نے مولانا کے تصورِ تجدید پرگہرا اثر ڈالا۔ جس زمانے میں وہ یہ مقالہ لکھ رہے تھے ان دنوں دنیاے اسلام میں انحطاط و زوال کی بڑھتی ہوئی تاریکیوں کے مشاہدے نے ان کے دل میں تجدیدِکامل کی ضرورت کا احساس پیدا کیا۔ چنانچہ اس پوری کتاب کی اٹھان مجددِکامل یا تجدیدِ کامل کے تصور پر ہے۔یہ تجدیدِ کامل جس کی ضرورت کا احساس مولانا کو بیسویں صدی کے نصف اول میں ہوا‘ اس کی روشنی میں جب انھوں نے بیسویں صدی سے پہلے کے مجددین کے کام کا جائزہ لیا تو کئی جگہ ان کو وہ خلا محسوس ہوا جو نہ خود ان مجددین کو محسوس ہوا تھااور نہ کبھی دیگر مؤرخین نے اس کی نشان دہی کی۔

اس پس منظر میں جہاں مولانا مودودیؒ بہت سے مجددین کے کام کا جائزہ لیتے ہیں اور وہاں موجود اس خلا کی نشان دہی کرتے ہیں جو ان کو محسوس ہوا‘ وہیں وہ ابن تیمیہؒ جیسی قد آور شخصیت کا تذکرہ بھی بہت بھرپور انداز سے کرتے ہیں۔ ایسا ہونا شاید ناگزیر بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے انھی دنوں ابن تیمیہؒ کی تحریروں کا تازہ تازہ مطالعہ کیا تھا۔ ابن تیمیہؒ کے تذکرے میں جو جوش و خروش اور تاثر پذیری نظر آتی ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آٹھویں صدی کے بالغ نظر اور انتہائی پرجوش مصلح کے گہرے اثرات نوجوان مصنف اور مستقبل کے مصلح کے قلم پر پڑرہے ہیں۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس مقالے کے لکھے جانے سے کچھ ہی قبل‘ ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۸ء کے سالوں میں‘ مولانا نے ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد رشید ابن القیمؒ کی تصنیفات سے بہت استفادہ کیا۔

ابن تیمیہؒ کے اثرات مولانا پر ایک دوسرے راستے سے بھی پہنچے۔ یہ راستہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتاب حجۃ اللّٰہ البالغہ ہے۔ حجۃ اللّٰہ البالغہ کے بارے میں بعض اربابِ نظر کا کہنا ہے کہ اس کے بعض حصے ابن تیمیہؒ کی کتابوں کے براہ راست اثرات کے تحت لکھے گئے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو بھی حجۃ اللّٰہ البالغہکے بعض ابواب اور علامہ ابن تیمیہؒ کے خیالات میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ مولانا نے ۳۹۔۱۹۳۸ء کے سالوں میں حجۃ اللّٰہ البالغہکے بعض حصوں کا ترجمہ کیا۔ یہ وہ حصے تھے جہاں شاہ ولی ؒاللہ کے افکار اور ابن تیمیہؒ کے خیالات میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔       یہ مضامین جو حجۃ اللّٰہ البالغہکے مختلف ابواب کے آزاد ترجمے سے عبارت ہیں‘ ۳۹-۱۹۳۸ء کے سالوں میں ترجمان القرآن میں شائع ہوئے۔

ان مقالات کے موضوعات کے ایک سرسری جائزے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مولانا مودودیؒ اور خود شاہ ولی ؒاللہ کے خیالات پر ابن تیمیہؒ کے اثرات کہاں کہاں ہوئے ہیں۔ چند عنوانات ملاحظہ فرمائیں: ۱- توحید و شرک‘۲-حقیقت شرک‘۳-اقسام شرک‘ ۴-علوم نبوی کی اقسام‘ ۵-مصالح اور شراع کا فرق‘ ۶-نبی سے اخذِشرع کی کیفیت‘ ۷-چوتھی صدی ہجری کا فقہی و مذہبی اختلاف‘ ۸-دین میں تحریف اور بدعت کے اسباب ‘ ۹- اسلام کا فلسفہ عمران‘ ۱۰-اسلامی قانون معیشت‘اس کی روح اور اصول‘۱۱- اہم ترین تمدنی مفسدات کا انسداد‘ ۱۲- نرخوں کا حکماً مقرر کیا جانا‘ ۱۳- معاملات میں فضل اور فیاضی‘ ۱۴- اختلافی مسائل اور نقطۂ عدل۔ ان جیسے عنوانات سے یہ بات پورے طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ ابن تیمیہؒ کے اثرات مولانا مودودیؒ کے افکار پر کن کن راستوں سے پڑ رہے ہیں۔

موضوعات و خیالات کے اس اشتراک کے علاوہ بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کو  ابن تیمیہؒ کی شخصیت میں ایک ایسا دینی آئیڈیل نظر آیا جس کے نظریات‘ تحریروں‘ تحریکی ردعمل اور رویہ ان کو خود اپنے خیالات‘ تحریروں اور رویے سے بہت ملتا جلتا معلوم ہوا۔ ان دونوں شخصیتوں میں یہ مشابہت اتنی گہری اور نمایاں ہے کہ ان دونوں کے کام اور افکار کا کوئی ناقد اور مبصر اس سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔

مزید برآں دونوں فکروں کو جس فکری ماحول میں کام کرنے کا موقع ملا وہ بھی قریب قریب یکساں ہی تھا۔ ابن تیمیہؒ نے جس دور میں آنکھیں کھولیں وہ سیاسی اعتبار سے افراتفری اور عسکری اعتبار سے مسلمانوں کی پستی کا دور تھا ۔ مشرق سے جنگجو تاتاریوں کا سیلاب جو کم و بیش ۱۰۰سال قبل اٹھا تھا‘ اس نے دنیاے اسلام کے شہر کے شہر زمین بوس کر دیے تھے اور لاکھوں   بے گناہ کلمہ گو مسلمانوں کو تہہ تیغ کر ڈالا تھا۔ تاتاریوں کی ان تباہ کن ترک تازیوں کے نتیجے میں چند ایک کے علاوہ جن میں دہلی کی سلطنت بھی شامل تھی‘ دنیاے اسلام کی تمام بڑی  بڑی حکومتیں ایک ایک کر کے یا تو سرنگوں ہو چکی تھیں اور لرزہ براندام تھیں‘ یا بالکل ہی دم توڑچکی تھیں۔

کم و بیش یہی منظر مولانا مودودیؒ نے بیسویں صدی میں دیکھا۔ اس صدی کی تیسری دہائی مسلمانوںکی تباہی کے وہ عبرت ناک منظر لے کر آئی جس کی کوئی نظیر اگر اسلام کی تاریخ  میں ملتی ہے تو وہ تاتاریوں ہی کی ہولناکیوں میں ملتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب سلطنت عثمانیہ دم توڑ رہی تھی‘ مشرقی یورپ میں جگہ جگہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی اور مختلف    مغربی طاقتیں ایک ایک کر کے دنیا بھر کی مسلم ریاستوں کو تاخت و تاراج کر رہی تھیں۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اور تاتارستان سے لے کر زنجبار تک کوئی مسلم حکومت ایسی نہ تھی جو  دنیاے مغرب کے پنجے تلے نہ کراہ رہی ہو۔

تاہم ‘تاتاریوں کی تاخت و تاراج اس اعتبار سے مغربی تاراج سے بہتر تھی کہ تاتاریوں کی لائی ہوئی تباہی کے اثرات صرف عسکری اور مادی پہلوئوں تک محدود تھے۔ تاتاریوں نے بلاشبہہ لاکھوں انسان تہہ تیغ کیے‘ درجنوں شہر زمیں بوس کیے‘ سیکڑوں کتب خانے نذر آتش کیے اور بے شمار کھیتیاں اور نسلیں برباد کیں۔ لیکن اس سب کے باوجود تاتاریوں کے نہ کوئی مذہبی عزائم تھے‘ نہ کوئی تہذیبی ایجنڈا تھا اور نہ کوئی ثقافتی اور تمدنی منصوبہ تھا۔ کم از کم ان میدانوں میں انھوں نے مسلمانوں سے کوئی تعرض نہ کیا۔ اس کے برعکس مغرب کی استعماری قوتیں ایک مذہبی پروگرام کے ساتھ دنیاے اسلام میں داخل ہوئی تھیں۔ ان کا ایک مفصل تہذیبی ایجنڈا بھی تھا اور ایک تعلیمی پروگرام بھی ۔ اس لیے جو منفی اثرات بیسویں صدی کی تباہی اور زوال کے نتیجے میں پیدا ہوئے وہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کی تباہی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ کر تھے۔اس سے یہ نتیجہ بلاخوف تردید نکالا جا سکتا ہے کہ جو فکری چیلنج مولانا مودودیؒ اور ان کے ہم عصر مفکرین کے سامنے تھا وہ اس سے کہیں بڑھ کر تھا جس کا سامنا ابن تیمیہؒ کو کرنا پڑا۔

ابن تیمیہؒ اور مولانا مودودیؒ دونوں نے اپنے اپنے دور میں ان فکری چیلنجوں سے  عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی جو ان کے دور میں مسلمانوں کو درپیش تھے۔ لیکن یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ابن تیمیہؒ جس چیلنج کا سامنا کر رہے تھے وہ یونانی منطق اور فلسفے کا پیدا کردہ تھا۔ بلاشبہہ ابن تیمیہؒ کی نقض المنطق اور الردعلی المنطقیین انتہائی عالمانہ کتابیں ہیں اور یونانی منطق پر مسلمانوں کی تنقید کا بہترین نمونہ ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی امر واقعہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کے دور تک آتے آتے یونانی منطق اور فلسفہ ویسے ہی ادھ موئے ہو چکے تھے۔ مسلمانوں میں ابن تیمیہؒ سے پہلے غزالیؒ اور رازیؒ جیسے اساطین علم و فکر یونانی منطق اور فلسفے پر زبردست اور تابڑ توڑ حملے کر چکے تھے اور اب یونانی منطق اور فلسفے کے خلاف آواز اٹھانا آسان بھی تھا اور اس کے لیے مواد بھی دستیاب تھا۔

اس کے برعکس جب مولانا مودودیؒ اور ان کے ہم عصر دوسرے مسلم مفکرین نے   تنقید ِمغرب کے کام کا آغاز کیا تو مغربی افکار و نظریات انتہائی تازہ دم اور ہر قسم کی تنقید کو سہنے کے لیے پورے طور پر تیار تھے۔ جن دنوں امام غزالیؒ اور امام رازیؒ یونانی منطق پر تنقیدیں کر رہے تھے‘ وہ دور اہل مغرب کے بالعموم اور اہل یونان کے بالخصوص سیاسی انحطاط اور کمزوری کا دور تھا۔ یہ وہ دور ہے جب کم از کم یورپ میں کوئی سیاسی قوت ایسی موجود نہ تھی جو یونانی افکار کے تحفظ اور دفاع کے لیے کھڑی ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ غزالیؒ اور رازیؒ اور ان کے بعد ابن تیمیہؒ کی تنقیدوں کے جواب میں جو آوازیں منطق اور فلسفے کے دفاع میں اٹھیں ان کو کسی حکومت یا سیاسی قوت کی تائید حاصل نہ تھی۔ ان حضرات کی کاوشوں کی علمی قدروقیمت اپنی جگہ‘ لیکن کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ یہ حضرات ایک ایسے فلسفے اور نظریے پر تنقید کر رہے تھے جس کو ہم بلاخوف تردید سیاسی اعتبار سے ایک یتیم فلسفہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس جس فلسفے اور نظریے کو مولانا مودودیؒ اور ان کے معاصرین نے تنقید کا نشانہ بنایا‘ اس کی پشت پر بڑی بڑی مضبوط سلطنتیں اور سیاسی قوتیں موجود تھیں جن کا سوچا سمجھا مطمح نظر اور طے شدہ ایجنڈا ہی یہ تھا کہ اپنی سیاسی قوت کو اپنے نظریات کے فروغ میں استعمال کیا جائے۔

بیرونی افکار پر تنقید اور مغربی فکر و فلسفے کے ناقدانہ جائزوں اور تبصروں سے قطع نظر ان دونوں حضرات کی علمی اور دینی کاوشوں کا اہم ترین میدان تجدید و اصلاحِ دین ہے۔ مسلمانوں میں رائج دینی تصورات کی قرآن و سنت کی روشنی میں تنقید اور کمزور پہلوئوں کی اصلاح ان دونوں شخصیتوں کے کام اور دل چسپی کا اصل میدان ہے۔ دونوں کو اپنے معاصر علما اور دینی اکابر کی شدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ ان دونوں شخصیتوں کا لب ولہجہ اور زور بیان اختلافی مسائل و معاملات میں ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہے۔ اس بات کو زیادہ واضح اور دو ٹوک انداز میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جس زور شور سے ان دونوں حضرات کا قلم تنقیدی مسائل پر اٹھتا ہے وہ اپنی ایک الگ ہی شان رکھتا ہے۔ غالباً یہ بتا دینا خلاف ادب نہ ہو گا کہ ان دونوں حضرات کے خلاف ان کے معاصر علما کے لہجوں میں شدت کا ایک اہم سبب ان حضرات کا وہ انداز بیاں بھی تھا جو انھوں نے اختلافی معاملات میں اختیار فرمایا۔

مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ دونوں اپنے اپنے اجتہادو تفردات میں بھی ایک دوسرے سے بڑی مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ ان تفردات کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ   نہ صرف خود یہ دونوں حضرات بلکہ ان کے مخاطبین‘ متاثرین اور ہمدردوں کی بڑی تعداد کی توجہ اور صلاحیتیں اپنے اپنے تفردات کا دفاع کرنے میں صرف ہوئیں اور اصلاح عقائد اور تعمیر ملت کا وہ کام پس منظر میں چلا گیا جس کا حصول ان دونوں جلیل القدر بزرگوں کا مقصود اولین تھا۔

عقلیات مغرب پر تنقید کے باب میں جہاں مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ میں خاص مشابہتیں پائی جاتی ہیں وہاں ان دونوں حضرات میں کئی اعتبار سے فرق بھی ہے۔ چونکہ مولانا اصلاً ایک سیاسی مفکر اور ایک ایسی جماعت کے سربراہ تھے جس نے انتخابی سیاست میںبھرپور حصہ لیا‘ اس لیے مولانا کی تنقید میں سیاسی اسلوب اور مکالمے کا رنگ جھلکتا ہے۔ جہاں مولانا مغرب کی فکری کمزوریوں کی نشان دہی کرتے ہیں وہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو اٹھ کھڑا ہونے اور کچھ کر گذرنے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کی تنقید میں خالص علمی اور فکری دلائل کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی قائد کا سا خطیبانہ انداز بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ یوں بھی مولانا کے ہاں خطابی دلائل ان کی ابتدائی تحریروں میں کثرت سے ملتے ہیں۔

اس کے برعکس ابن تیمیہؒ اصلاً ایک فقیہہ‘ متکلم‘ مناظر اور محدث تھے۔ اس لیے ان کی تنقیدی تحریریں ذرا مختلف انداز کی ہیں۔ ایک محدث کی سی دقت نظر‘ جزئیات کو بیان کرنے کا محدثانہ اسلوب اور مغربی افکار پر خالص دینی نقطۂ نظر سے تنقید کے دوران بھی ابن تیمیہؒ منطقی دلائل کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔

یوں تو مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہؒ دونوں کے ہاں عقل و نقل کا امتزاج یکساں طور پر پایا جاتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ابن تیمیہؒ کا زیادہ زور نقل پر اور مولانا کا عقل پر ہے۔ شاید اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کی ذہنی تشکیل اور علمی ساخت علمِ حدیث کے ماحول میں ہوئی‘ اس لیے ان کی تحریروں پر نقل کا اسلوب غالب ہے۔ اس کے برعکس مولانا مودودیؒ اپنے ابتدائی کیریئر میں چونکہ صحافی رہے‘ اس لیے ان کو عامۃ الناس کی سطح پر بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کو اپنا مخاطب بنانا پڑا جو کسی دینی پس منظر کے حامل نہ تھے‘ چنانچہ انھیں لازماً ایسا اسلوب اپنانا پڑا جس میں اپیل کی اصل بنیاد نقل کے بجاے عقل ہو۔ چنانچہ عقلی اپیل کا یہ اسلوب مولانا کی تحریروں کا طرئہ امتیاز بن گیا۔ اس اسلوب کا ایک نمایاں مظہر یہ بھی ہے کہ جہاں مولانا خالص دینی معاملات پر گفتگو کرتے ہیںوہاں بھی ان کے طرز استدلال میں عقل کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ اس کی نمایاں مثال ان کی کتاب سنت کی آئینی حیثیت ہے جو ایک ایسے موضوع پر ہے جس کا تعلق خالصتاً نقل کے میدان سے ہے‘ لیکن اس کتاب میں بھی مولانا کا عقلی استدلال (بمقابلہ نقلی دلائل) نمایاں اور غالب معلوم ہوتا ہے۔

ان دونوں شخصیتوں کا ایک اہم اور مشترک وصف ان کا داعیانہ جوش بھی ہے۔ یہ داعیانہ جوش مولانا مودودیؒ کی ابتدائی تحریروں میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ (بالخصوص قیام پاکستان کے بعد) جب مولانا کو سیاسیات کے تلخ حقائق سے واسطہ پڑا تو ان کے ہاں گفتگو اور مکالمے میں ایک نیا انداز سامنے آیا۔ اس   نئے انداز میں نسبتاً زیادہ ٹھیرائو‘ زیادہ احتیاط اور زور بیان کی ارادی کمی معلوم ہوتی ہے۔

غالباً ابن تیمیہؒ کو ایسی کسی صورتحال سے دوچار نہیں ہونا پڑا اس لیے ان کے ہاں ایسی کوئی تبدیلی نمایاں طور پر محسوس نہیں ہوتی۔ البتہ زور بیان دونوں کے ہاں غیر معمولی ہے۔

یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اردو زبان میں دینی ادب تخلیق کرنے والے اہلِ علم میں مولانا مودودیؒ  کا درجہ اگر سب سے اونچا نہیں تو بہت اونچا ضرور ہے۔ اگر اردو زبان کے دینی ادیبوں اور اہل قلم کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے والی دو ایک شخصیتوں کا انتخاب کیا جائے تو یقینا مولانا مودودیؒ ان میں سے ایک ہوں گے۔ ان کا درجہ علامہ شبلی نعمانی ؒ‘ مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ اور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ جیسے جید ترین دینی ادیبوں سے اگر بڑھ کر نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں۔ لیکن ابن تیمیہؒ کے پورے احترام کے باوجود یہ عرض کر دینے میں مضائقہ نہیں کہ عربی زبان و ادب کی تاریخ نے ابن تیمیہؒ کو بطور ایک ادیب تسلیم نہیں کیا۔ عربی زبان میں دینی موضوعات پر جن شخصیتوں کا زور بیان اور ادیبانہ اسلوب ضرب المثل ہے ان میں ابن تیمیہؒ  کا نام نظر نہیں آتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عربی زبان کی عمر اردو سے کم از کم  آٹھ گنا زیادہ ہے اور عربی زبان میں اعلیٰ ترین دینی ادب تخلیق کرنے والوں کی تعداد شاید اُردو زبان کے مقابلے میں کئی ہزار گنا ہو۔ ان حالات میں شاید ابن تیمیہؒ اور مولانا مودودی ؒ کا یہ تقابل مبنی بر انصاف نہ ہو۔

اوپر ان دونوں شخصیتوں کے حوالے سے تفردات کی بات کی گئی تھی۔ تفردات میں بھی یہ دونوں شخصیتیں ایک دوسرے سے خاصی مشابہت اور مماثلت رکھتی ہیں۔ دونوں کا جذبۂ اخلاص‘ دونوں کی حیرت انگیز تائید ‘دونوں کی بے مثال جرأت اور دونوں کا اپنے نقطۂ نظر اور اپنی رائے پر اصرار حیرت انگیز طور پر مشابہت رکھتا ہے۔

ابن تیمیہؒ کے انتقال کے کم و بیش ۶۰۰ سال بعد ان کے اجتہادات و تفردات کی علم بردار ایک حکومت قائم ہوئی جس نے ابن تیمیہؒ کے اثرات کو چار دانگ عالم میں پھیلا دیا۔ آج  روے زمین پر بہت کم دینی اور اسلامی کتب خانے ایسے ہوں گے جہاں ابن تیمیہ کی تصنیفات دستیاب نہ ہوں۔ آج کوئی دینی درس گاہ مشکل سے ہی ایسی ملے گی جہاں ابن تیمیہؒ کی کسی نہ کسی تصنیف سے اعتنا کرنے والے موجود نہ ہوں۔ آج دنیا کے کسی بڑے ملک میں جہاں جہاں مسلمان قابل ذکر تعداد میں آباد ہیں‘ ابن تیمیہؒ کے اجتہادات پر عمل کرنے والے بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔ بعض اہم مسائل میں دنیاے اسلام میں ابن تیمیہؒ کے اجتہادات و تحقیقات کو قبول عام حاصل ہو چکا ہے۔ شاید ابن تیمیہؒ کی قوت استدلال‘ داعیانہ جوش‘ کثرت معلومات و شواہد اور زور بیان نے ان کے نقطۂ نظر کو بہت سے حلقوں میں منوا لیا ہے۔ مثال کے طور پر توہین رسالتؐ کی سزا کے معاملے میں آج دنیا میں ہر جگہ ابن تیمیہؒ ہی کی رائے کو قبول عام حاصل ہے۔ بہت سے لوگوں کو شاید یہ معلوم بھی نہیں کہ اس معاملے میں امام ابو حنیفہؒ اور احناف کی رائے کیا رہی ہے۔

ابن تیمیہؒ کے برعکس مولانا مودودیؒ کے افکار و خیالات کو قبول عام حاصل کرنے کے لیے نہ ۶۰۰سال انتظار کرنا پڑا اور نہ ان کو کسی حکومتی سرپرستی کی ضرورت پڑی۔ان کی زندگی ہی میں ان کے خیالات دنیاے اسلام میں ہر جگہ پہنچے‘ ہر ملک میں مقبول ہوئے اور ان کے اجتہادات و تفردات کو جوش و جذبے سے قبول کرنے والے بھی بڑی تعداد میں سامنے آئے۔ ابن تیمیہؒ کے افکار کے فروغ میں جو کردار حکومت سعودی عرب نے انجام دیا‘ وہی بلکہ اس سے بڑھ کر موثر کردار ان بے شمار دینی و ملی تحریکوں و تنظیموں نے انجام دیا جو مولانا مودودیؒ  کے حلقے سے وابستہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوانوں نے دنیا کے کونے کونے میں قائم کیں۔ ابن تیمیہؒ کی طرح مولانا مودودیؒ کے افکار بھی دنیا میں اتنی تیزی سے پھیلے ہیں کہ ان کی چھاپ بیسویں صدی کے اسلامی اور دینی ادب پر نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔

اپنی تمام عظمتوں اور تاثیر کے باوجود مولانا مودودیؒ ایک انسان تھے۔ دوسرے انسانوں کی طرح مولانا مودودیؒ اور ابن تیمیہ ؒ بھی ان تمام تحدیدات سے محدود اور ان تمام قیود کے پابند تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مقید اور محدود کیا ہے۔ نہ صرف ان دونوں کے بارے میں بلکہ تاریخ اسلام کی تمام عظیم شخصیتوں کے بارے میں محفوظ و مامون طرز عمل وہی ہے جس کی نشان دہی امام مالکؒ نے ساڑھے بارہ سو سال پہلے فرمائی تھی:

کل یوخذ من قولہ و یترک الا صاحب ھذا القبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم:ہرشخص کے اقوال کا ایک حصہ قابل قبول اور ایک حصہ ناقابل قبول ہے۔ اس باب میں صرف ایک ہی استثنا ہے اور وہ (روضۂ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس صاحبِ قبر کا ہے۔

ہمارا رویہ ان دونوں شخصیتوں کے بارے میں یہی ہونا چاہیے۔

اتنی بات تو قرآن مجید کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ یہ کتاب دنیا کی دوسری تمام مذہبی کتابوں سے کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ اس کا اسلوب ‘ اندازِ بیان اور طرز استدلال اتنا منفرد ہے کہ دوسری تمام مذہبی کتابوں کے متن اور عبارت سے قرآن مجیدکا متن اور عبارت واضح طور پر مختلف نظر آتے ہیں۔ ان امتیازی اوصاف میں ایک اہم وصف قرآن مجید کا اندازِ نزول ہے۔ اندازِ نزول کے اعتبار سے قرآن مجید اور دوسری آسمانی کتابوں میں دو اعتبار سے بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ یہ فرق بڑی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اتنی بنیادی اہمیت کہ اس فرق کی وجہ سے قرآن مجیدکو دوسری تمام آسمانی کتابوں پر ایک نمایاں فضیلت اور برتری حاصل ہے۔

قرآن کی انفرادیت

قرآن مجیدسے پتا چلتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ پر تورات نازل فرمانے کا ارادہ کیا تو ان کو ایک ماہ کے اعتکاف کے بعد ان کو پوری کی پوری تورات تختیوں کی شکل میں لکھی ہوئی دے دی۔ حضرت موسٰی ؑ ان تختیوں کو لے کر آگئے اور اپنی قوم کے سامنے پیش کر دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ تختیاں سونے کی تھیں‘ کچھ کا خیال ہے کہ وہ پتھر کی تھیں۔ بہرحال ہمارے موضوع کے لحاظ سے یہ ایک غیر متعلق بات ہے۔  یہ تختیاں یعنی الواح جس چیز پر بھی لکھی گئی تھیں حضرت موسٰی ؑ کو دے دی گئیں اور انھوں نے وہ تختیاں لا کر اپنی قوم کو دے دیں۔ اس طرح قومِ موسٰی ؑ نے تورات کے پیغام کو حاصل کر لیا اور اس کو پڑھنے پڑھانے میں لگ گئے۔ وہ تختیاں طویل عرصے تک نسلاً بعد نسل بنی اسرائیل میں چلتی رہیں۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں بہت سے نشیب و فراز آتے رہے۔ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ یہودیوں کو زبردست تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی سلطنت ختم ہوئی‘ ان کے لاکھوں آدمی موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ انھی ہنگاموں میں تورات کی تختیاں ضائع ہو گئیں اور پھر تورات دنیا سے مٹ گئی۔

یہاں تورات کی تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں‘ لیکن یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ تورات لکھی ہوئی صورت میں ایک ہی جگہ ایک ہی وقت میں دے دی گئی۔ یہی کیفیت نزولِ انجیل کی بھی رہی۔ جب حضرت عیسٰی ؑ پر انجیل نازل فرمائی گئی تو انجیل کو جس شکل میں حضرت عیسٰی ؑ پر نازل کیا گیا اس کی شکل قرآن مجید اور تورات دونوں سے مختلف تھی۔ انجیل کے نزول کی صورت وہ نہیں تھی جو قرآن مجید کی یا تورات کی تھی بلکہ انجیل کی حیثیت قریب قریب وہ تھی جو مسلمانوں میں حدیث قدسی کو حاصل ہے۔ حدیث قدسی علم حدیث کی اصطلاح میں اس حدیث کو کہتے ہیں جو دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور اللہ تعالیٰ ہی کا براہِ راست کلام ہو‘ حضور علیہ السلام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہو لیکن حضور علیہ السلام نے اس کو اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کلام  اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں ہے تو وہ کلام پاک قرآن مجید ہے ‘اور اگر حضور علیہ السلام نے اس پیغام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہو تو وہ حدیث قدسی ہے۔ مثلاً ایک حدیث ہے جو آپ نے سنی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جب میرا بندہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک گزآگے بڑھتا ہوں۔ جب میرا بندہ ہلکے سے میری طرف آتا ہے تو میں لپک کر اس کی طرف بڑھتا ہوں۔ بندہ ہلکے سے میری طرف دوڑتا ہے تو میں تیز دوڑ کر اس کے پاس جاتا ہوں‘‘۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے ارشاد ہو رہا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجیدکے برعکس اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کردہ نہیں ہیں بلکہ حضور علیہ السلام کے ہیں۔

انجیل کے نزول کی کیفیت تقریباً اسی طرح کی تھی کہ اللہ رب العزت نے ایک پیغام حضرت عیسٰی ؑ کے قلب مبارک پر نازل کیا اور انھوں نے اس کو اپنے الفاظ میں انسانوں تک پہنچا دیا۔ لیکن اس کو لکھا نہیں‘ نہ حضرت عیسٰی ؑ نے کچھ تحریر کروایا‘ نہ ان کے ماننے والوں نے ان کی زندگی میں ان کے پیغام کو لکھا‘ بس زبانی ہی وہ پیغام چلتا اور پھیلتا رہا۔ وہ پیغام کتنا بڑا تھا؟ کتنا مختصر تھا؟ اگر لکھتے تو ایک کتاب بنتی یا دو کتابیں بنتیں؟ کتنے صفحے بنتے؟--- ان سب سوالات کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ نے انجیل کو قلم بند نہیں کرایا۔ اس کی روایت زبانی ہی چلتی رہی۔ لیکن بہرحال وہ کلام جتنا کچھ بھی تھا وہ ایک ہی وقت میں سارا کا سارا نازل ہو گیا۔

اس کے برعکس قرآن مجیدکے نزول کا سلسلہ اس سے بالکل مختلف انداز میں طویل عرصے تک جاری رہا۔ قرآن مجیدنجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے‘ کبھی ایک ایک لفظ‘ کبھی ایک ایک آیت‘ کبھی ایک ایک سورت کرکے ۲۳ سال کے طویل عرصے میں نازل ہوا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے کل واقعات یا تجربات (experiences) ۲۴ ہزار ہیں‘ یعنی حضور علیہ السلام پر ۲۴ ہزار مرتبہ وحی نازل ہوئی۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں ۲۴ ہزار مرتبہ کر کے قرآن مجیدکے مختلف حصے حضورؐ پر نازل ہوئے‘ اس لیے کہ مصلحت اسی بات کی متقاضی تھی کہ ان حصوں کو بار بار نازل کیا جائے۔ مثال کے طور پر روایت میں آتا ہے کہ سورہ فاتحہ کئی بار نازل ہوئی۔ ایک مرتبہ سلسلہ وحی کے بالکل آغاز میں اس کا نزول ثابت ہوتا ہے۔ پھر جب پانچ وقت کی نمازیں فرض ہوئیں تو یہ پھر نازل ہوئی۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مدینہ منورہ میں بھی ایک بار نازل کی گئی۔ خلاصہ یہ کہ بعض ایسی اہم سورتیں جو قرآن مجیدمیں بہت مہتم بالشان حیثیت رکھتی ہیں  وہ ایک سے زائد مرتبہ بھی نازل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اوقات صرف ایک ہی لفظ نازل کیا گیا۔  بعض اوقات پوری سورت نازل کی گئی اور ایسی بھی مثالیں ہیں کہ بڑی لمبی لمبی سورتیں جیسے سورہ یوسف جو آدھے پارے سے زائد پر مشتمل ہے‘ ساری کی ساری ایک ہی مرتبہ ایک ہی بار کر کے نازل ہوئی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سوال کا جواب ہی وہ بنیادی امتیازی وصف اور غیر معمولی حقیقت ہے جس نے قرآن مجیدکو تمام دیگر آسمانی کتابوں کے مقابلے میں بڑی نمایاں حیثیت اور ممتاز خصوصیت عطا کی ہے۔ اس سوال پرغور کیا جائے توقرآن مجید کے نجماً نجماً (یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے) نازل کیے جانے کی متعدد حکمتیں واضح ہوتی ہیں۔ آیندہ صفحات میں ان حکمتوں میں سے چند ایک کا تذکرہ مقصود ہے۔

۱- غلبہ دین اور اُمت مسلمہ کی تشکیل کا تقاضا

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب اللہ رب العزت نے اپنی مشیت میں قرآن مجیدکے نزول کا فیصلہ کیا تو اس کتاب کو اس نے کسی خلا میں اُتارنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ کتاب اللہ رب العزت نے ایک زندہ ماحول میں‘ ایک زندہ معاشرے میں اور ایک ایسے وقت میں اتاری جب اللہ کے رسولؐ کی سربراہی میں دین کو قائم کرنے ‘ دین کی تبلیغ کرنے اور دین کو پھیلانے کی ایک بھرپور کوشش جاری ہونے والی تھی۔ جیسا کہ ہر صاحب علم جانتا ہے‘ اس کوشش کا مقصدانسانی زندگی کے کسی ایک پہلو کی اصلاح نہیں بلکہ زندگی کے سارے کے سارے پہلوئوں کی مکمل اصلاح تھا۔ اس تحریک اور جدوجہد کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ ایک طرف انسان کے عقائد کی اصلاح ہو‘ دوسری طرف انسان کے جذبات اوراحساسات کو مثبت جہتیں عطا ہوں۔ جہاں انسان کی ذاتی اور شخصی زندگی کے طور طریقے بدلیں وہاں انسانی معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں بھی صحت مندانہ تبدیلی آئے۔ ایک طرف تجارت و کاروبار کا انداز بدلے تو دوسری طرف اجتماعی حالات بھی بدلیں۔ جہاں معاشی حالات خیر کا رخ اختیار کریں وہاں سیاسی احوال کو بھی بہتری کے رخ پر ڈالا جائے۔ غرض زندگی کا ہر ہر پہلو اور انسان کی سرگرمیوں کا ہر ہر جز نئی اقدار کے مطابق بدل جائے۔

یہ تھا وہ عظیم الشان کام جس کے لیے قرآن مجیدکا نزول ہوا۔ حضور علیہ السلام کی رہنمائی اور سرپرستی اور صحابہ کرامؓ کی مدد اور تعاون سے یہ تاریخ ساز اور جاں گسل جدوجہد ۲۳ سال سے زیادہ مدت تک جاری رہی۔ اس پورے عرصے میں جدوجہد کے جس مرحلے پر جب اور جہاں جس رہنمائی کی ضرورت پیش آتی قرآن مجید کی آیات نازل ہو جاتیں اور ضروری رہنمائی فراہم کر دیتیں‘ اور یوں دین کی نشرواشاعت کی تمام کوششیں‘ اقامت دین کی جدوجہد اور ایک مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل اور نزولِ قرآن کا عمل‘ یہ سب چیزیں نہ صرف بہ یک وقت جاری رہیں بلکہ ایک دوسرے کی ممد و معاون اور مکمل (بکسرالمیم)بھی رہیں۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجیدایک انقلابی اندازکی وحی یعنی revolutionary revelationہے۔ واضح رہے کہ یہاں انقلابی کا لفظ عام سیاسی مفہوم میں استعمال نہیں کیا جا رہا بلکہ یہاں انقلاب سے مراد ایک ایسی ہمہ گیر تبدیلی ہے جو اس کتاب حکیم اور فرقان حمید کے نزول کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ اس انقلاب یا کامل تبدیلی کے مختلف مراحل کا ارتقا اور کتاب الٰہی کے نزول کے مختلف مدارج کی تکمیل ‘یہ دونوں عمل ایک ساتھ جاری رہے۔ جونہی اس کتاب کے نزول کی تکمیل ہوئی ویسے ہی اس ہمہ گیر تبدیلی اور انقلاب کی بھی تکمیل ہو گئی۔ گویا یہ تبدیلی جو قرآن مجیدکے ذریعے وجود میں آئی ایک مبنی بر وحی تبدیلی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’آج کے دن ہم نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا‘ تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو بطور ایک طرز ِزندگی تمھارے لیے پسند کر لیا ’’تو اس دن بلکہ اسی لمحے صحابہ کرامؓ نے یہ سمجھ لیا کہ جو کام حضور علیہ السلام کرنا چاہتے تھے وہ سارے کا سارا مکمل ہو چکا ہے اور اب حضورؐ اس دنیا سے تشریف لے جانے والے ہیں۔ خود حضور علیہ السلام نے صحابہ ؓ سے پوچھا کہ کیا میں نے امانت پہنچا دی؟ صحابہؓ نے بہ یک زبان گواہی دی کہ ہاں آپؐ نے امانت پہنچا دی۔ گویا یہ سب کام (تکمیل نزولِ قرآن ‘ تکمیل انقلاب‘ فراہمی امانت اور تکمیل دین سب) ایک ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچے۔

۲- قرآنی تعلیمات کا تربیتی تقاضا

ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ قرآن مجیداللہ کی آخری کتاب ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے ہے۔ جب تک روے زمین پر مسلمان اور قرآن کے نام لیوا موجود ہیں‘ اس وقت تک اللہ رب العزت نے حضورؐ کے ذریعے خبر دی ہے کہ قیامت نہیں آئے گی۔ اس لیے کہ جب تک ایک فرد بھی اللہ اللہ کہنے والا موجود ہے‘ اللہ کی حجت تمام ہوتی رہے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجیداور اُمت مسلمہ کا وجود لازم و ملزوم ہے۔ قرآن مجید کو مسلمانوں کی مذہبی‘ اجتماعی اور ملّی زندگی سے اس طرح مربوط اور پیوستہ کر دیا گیا ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک مسلم معاشرہ موجود ہے‘ قرآن مجید بھی موجود ہے۔ اس کے  الفاظ و مفاہیم‘ اس کے کلمات و عبارات اور اس کی تعلیم ہر آنے والی نسل پہلی نسل سے حاصل کرتی رہے گی اور اس طرح یہ سلسلہ تاقیام قیامت چلتا رہے گا۔ یہ چیز اسی وقت ممکن ہو سکتی تھی کہ جب قرآن مجید نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جائے اور اس کی بنیاد پر آہستہ آہستہ ایک پورا ثقافتی ماحول‘ ایک پورا معاشرہ‘ ایک مکمل تہذیب اور ایک پوری اُمت کی تشکیل ہوتی جائے تاکہ وہ اُمت اس قرآن مجید کی تعلیم کو لے کر چل سکے‘ اس لیے کہ اب اسی اُمت کو آخر تک چلنا ہے۔ اب کسی پیغمبر کو نہیں آنا بلکہ صرف اُمت ہی کو یہ پیغمبرانہ کام کرنا ہے‘ لہٰذا جب تک اُمت قرآن سے تربیت یافتہ نہ ہو وہ اس کام کو لے کر آگے نہیں چل سکتی۔

اس کے برعکس سابقہ مذاہب اور سابقہ آسمانی کتابوں کو شاید اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس لیے کہ ہر نبی کے بعد ایک دوسرا نبی اس کی جگہ لینے کے لیے موجود تھا‘ وہی انسانوں کی رہنمائی کا ذمہ دار اور ان کی قیادت کے لیے کافی تھا۔ نبی کے ہوتے ہوئے اُمت کو کارِنبوت کے لیے تیار کرنا اور اُمت کو وحی الٰہی کی تعلیم میں رچا بسا دینا اور افراد ملّت کو وحی الٰہی کے رنگ میں رنگ دینا ضروری نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس اُمت کا وہ کام نہیں تھا جوحضور ختمی مرتبتؐ کی اُمت کے سپرد کیا جانا تھا۔ مگر اب جب کہ نبوت ختم ہو چکی تو جہاد بالقرآن کی یہ ذمہ داری حضور علیہ السلام کے جانشین کی حیثیت سے ساری اُمت کو انجام دینی ہے‘ اور یہ اُسی وقت ممکن ہے کہ جس طرح مستخلِف (بکسراللام) خلقہ القرآن سے متصف تھا۔ اسی طرح  مستخلَف (بفتح اللام) بھی کان خلقہ القرآن کی نعمت سے بہرہ یاب ہو‘ یعنی قرآن کا رنگ اس میں رچا بسا ہو اور سنت نبویؐ اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہو۔ اُمت کو قرآن مجیدکے رنگ میں رنگنے کے لیے ضروری تھا کہ یہ رنگ تھوڑا تھوڑا کر کے چڑھایا جاتا کہ رنگ پختہ ہوتاچلا جائے۔

۳- تزکیہ و تربیت اور تدریج

تیسری وجہ قرآن مجیدکے آہستہ آہستہ نازل کیے جانے کی یہ ہے کہ کفار مکہ نے (جیسا کہ خود قرآن مجید میں بیان ہوا ہے) یہ اعتراض کیا تھا کہ: لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً‘ یعنی اس قرآن کو ایک ہی بار کیوں نہ اتار دیاگیا۔ اس کا جواب یہ تھا کہ: کَذٰلِکَ ج لِنُثَّبِتَ بِہٖ فُّّؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاً o (الفرقان ۲۵:۳۲)‘ یعنی ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے اتارا ہے کہ ہم اس طرح آپؐ کے دل کو مضبوط کریں‘ تقویت دیں اور اس کی وجہ سے سکون و اطمینان بخشیں اور آپؐ  کو پختگی حاصل ہو‘ مزیدبرآں ہم اس کو آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کرکے لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

اس آیت میں مذکورہ بالا اعتراض کے دو جواب دیے گئے ہیں اور ان دونوں جوابوں کے ذریعے دو اور حکمتیں اس بات کی بیان کی گئی ہیں کہ قرآن مجید کو آہستہ آہستہ کیوں نازل کیا گیا۔ اصل جواب سمجھنے سے پہلے ایک اور اہم بات سمجھ لینی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجیداپنی ترتیب‘ نفس مضمون اور اسلوبِ بیان کے اعتبار سے ایک بڑی منفرد کتاب ہے۔ یہ اس مفہوم میں محض قانون یا آئین کی کتاب نہیں ہے جس طرح کی قانون کی کتابیں وکیلوں کی لائبریریوں میں ہوتی ہیں۔ اگرچہ اس میں قانون کے بھی بہت سے احکام دیے گئے ہیں‘ اور دستوری اہمیت کے بہت سے اصول بھی بیان ہوئے ہیں لیکن قانونی احکام کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ قرآن مجیدمحض معاشیات کی کتاب بھی نہیں ہے۔ اگرچہ اس میں معیشت اور معاشی زندگی کے احکام بھی ہیں اور انسانوں کی تجارتی سرگرمیوں اور اقتصادی بہتری کی ہدایات بھی ہیں لیکن اور بھی بہت کچھ ہے۔ اسی طرح قرآن مجید محض فلسفہ کی کتاب بھی نہیں ہے‘ گو اس میں فلسفیانہ نوعیت کی بہت سی ہدایات بھی ہیں لیکن اس میں فلسفہ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔

قرآن مجید میں چونکہ انسانی زندگی کے ہر اس پہلوسے متعلق ہدایت موجود ہے جہاں انسانی عقل‘ تجربہ اور مشاہدہ ناکام ہو جاتے ہوں یا جہاں ان کے ناکام ہونے کاقوی احتمال ہو اور جہاں انسان رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہو‘ اس لیے زندگی کا کوئی اہم گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں انسان کو رہنمائی اور ہدایت کی ضرورت ہو اور قرآن مجید اس میں رہنمائی نہ دیتا ہو۔ اس لیے جب بھی کوئی انسان‘ چاہے وہ ایک فرد ہو‘ یا پوری جماعت یا معاشرہ ہو‘ جب دین کی نشرواشاعت کے لیے اور اس کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرے گا تو اس کو طرح طرح کے مدارج و مراحل سے واسطہ پڑے گا۔ بعض اوقات مخالفین کی طرف سے اعتراضات کیے جائیں گے۔ بعض اوقات مشکلات اور آزمایشیں ہوں گی۔ بعض اوقات کامیابیاں ہوں گی۔ بعض اوقات ناکامیاں ہوں گی۔ کبھی قیدوبند کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کبھی طرح طرح کی آزمایشیں آئیں گی۔ اب چونکہ ان سب مراحل کو ایک ایک کر کے آنا ہے اس لیے ان میں سے ہرچیز کے بارے میں ایک رہنمائی اور ہدایت کا دستیاب ہونا بھی ضروری ہے ‘مثلاً یہ بات کہ اگر اقامت دین کی کوشش میں قیدوبند کا نشانہ بننا پڑے تو کیا کرنا چاہیے۔ قرآن مجیدنے اس سوال کے جواب میں جہاں اور بہت سی ہدایات دیں وہاں پوری سورہ یوسف پیش کر دی کہ تمھیں اس طرح کرنا چاہیے۔ اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجیدمیں حضور علیہ السلام کی زندگی کے قریب قریب سارے ہی اہم واقعات بیان کر دیے گئے ہیں۔ غزوئہ بدر کا بھی ذکر ملتا ہے اور غزوئہ اُحد کا بھی‘ غزوئہ احزاب کا تذکرہ بھی ہے اور فتح مکّہ کا بھی۔ تبوک کے طویل اور جاں گسل سفر پر تبصرہ بھی ہے اور ہوازن کے معرکے پر بھی۔ اس طرح کارِنبوت اور کارِ دعوت کے آغاز کا بیان بھی ہے‘ درمیانی مدارج کا بھی ذکر ہے اور انتہائی مدارج کا بھی۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی زندگیوں میں یہ ساری چیزیں ایک ایک کر کے آتی رہیں گی۔ جو مسلمان حضور علیہ السلام کی پیروی میںجدوجہد کریں گے وہ ہجرت بھی کریں گے‘ ان کو جہاد کرنے کی بھی نبوت آئے گی‘ کبھی انھیں جہاد میں کامیابی ہوگی اور کبھی ناکامی ہوگی۔ کبھی بہت بڑی قوت کا سامنا کرنا پڑے گا تو کبھی چھوٹی قوت سے معرکہ آرائی ہوگی‘ کبھی محاصرہ ہوگا‘ کبھی کھیتیاں اُجڑیں گی۔ غرض یہ کہ سارے مراحل آئیں گے‘ ان سارے مراحل میں یہ دیکھنا چاہیے کہ اہل ایمان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ اب یہاں تثبیت فواد یعنی دل کو مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ تمھارے دل کو تسلی رہے کہ یہ مشکل وقت تو آنا ہی تھا‘ پہلے سے معلوم تھا کہ فلاں فلاں مراحل آئیں گے۔

تقویت قلب :  اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک بار معالج اپنے کسی مریض کو دوائوں کے استعمال کی تفصیل بتا کر علاج کا تین مہینے کاکورس کرائے اور اس کو پہلے سے بتا دے کہ ان دوائوں کے استعمال سے ایک مہینے کے بعد پھنسیاں نکلیں گی‘ پھر دانے نکلیں گے تو اس وقت یہ مرہم استعمال کرنا ہوگا۔ اس کے استعمال سے دانے ٹھیک ہو جائیں گے۔ دو مہینے کے بعد جب اس دوا کو لگائو گے تو اس سے آنکھوں میں سرخی آجائے گی۔اس موقع پر فلاں تدبیر اختیار کرنا پڑے گی۔ تین مہینے کے بعد غنودگی کا غلبہ ہوگا تو فلاں دوا لینا پڑے گی۔ اب جس مریض کو پہلے سے ان سارے مدارج و مشکلات کا علم ہوگا اس کو ان بیماریوں کے آنے سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی‘ اسے پتا ہوگا کہ یہ سارے مدارج ایک ایک کر کے آنے والے ہیں۔ بلکہ جیسے جیسے یہ نئے نئے عوارض آتے جائیں گے ڈاکٹر پر اس کا اعتماد بڑھتا چلا جائے گا‘ اور اس کو یقین ہوتا چلا جائے گا کہ ڈاکٹر نے جو کچھ بتایا تھا وہ بالکل ٹھیک بتایا تھا‘ اور دوا کے اثرات بالکل ٹھیک اور حسب توقع ہو رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ سب وہی مرحلے آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی مریض کو پیشگی ہی ان سب مدارج سے باخبر نہ کیا جائے تو وہ ان کے آنے سے گھبرا کر ہمت چھوڑ بیٹھے گا۔ وہ پہلے ہی مرحلے میں دانے نکلنے سے گھبرا جائے گا اور پریشان ہو کر علاج چھوڑ دے گا۔ حکیم مطلق نے بالکل اسی طرح جس طرح ایک حکیم ایک مریض کے لیے نسخہ لکھتا ہے کہ دیکھو یہ چیزیںپیش آئیں گی اور اس کا یہ یہ علاج ہوگا‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں وہ سارے مدارج پہلے ہی بتا دیے ہیں‘ تاکہ تمھارے دل کو تقویت ہو‘ اور تم مضبوطی کے ساتھ اس یقین سے اس پرقائم رہو کہ یہ سب کچھ تو آنا ہی ہے۔ یہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ آئے گا۔

۴- آزمایش اور تقویت ایمان

قرآن مجید میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ صحابہ کرامؓ کو جب طرح طرح کی آزمایشیں پیش آئیں  تو مخالفین اور منافقین نے یہ کہا ’’ہم نہ کہتے تھے مت جائو ان کے ساتھ‘‘۔ مثلاً غزوہ اُحد میں بڑی آزمایش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس غزوہ میں ۷۰ صحابہؓ  شہید ہو گئے‘ حضرت حمزہؓ کی شہادت کا صدمہ خود حضور علیہ السلام کو دیکھنا پڑا۔ لیکن جب صحابہ کرامؓ اس کیفیت میں مدینہ منورہ واپس آئے تو منافقین نے استہزا اور تمسخر سے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ بولے: ہم نہ کہتے تھے کہ جنگ نہیں کرنی چاہیے‘ ورنہ یہ ہو جائے گا اور وہ ہو جائے گا۔ اس پر قرآن مجیدکی شہادت ہے کہ صحابہ کرامؓ آزردہ خاطر ہونے کے بجائے مزید پختہ عزم ہو گئے اور ان کا ایمان مزید راسخ ہوگیا۔ اسی طرح جب غزوئہ احزاب کے موقع پر منافقین نے مشکلات کا ذکر کر کے ہمت شکنی کرنی چاہی تو صحابہ کرامؓ نے جو جواب دیا وہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ اس کو قرآن مجیدمیں نقل فرما دیا۔

صحابہ کرامؓ کا جواب تھا کہ یہ تو پہلے سے ہمیں معلوم تھا‘ اللہ اور رسول نے پہلے سے بتا رکھا تھا کہ ایسا ہوگا‘ اور اللہ اور رسول کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوا کرتا۔ صحابہ کرامؓ کی تربیت ہی اس طرح کی ہوگئی تھی کہ جب بھی کوئی ایسی آزمایش سامنے آتی تھی تو بے اختیار کہہ اٹھتے تھے کہ یہ تو وہی بات ہے جو پہلے سے اللہ تعالیٰ نے بتا رکھی تھی۔ اس طرح ہر آزمایش ان کے یقین و ایمان میں اضافے اور قلب کی پختگی کا سبب بنتی تھی۔ تثبیت قلب یا دل کی مضبوطی کی خاطر حضور علیہ السلام کی زندگی کے مختلف مرحلوں کو قرآن مجیدمیں جابجا  بیان کر دیا گیاہے۔ اگر قرآن مجید ایک ہی وقت میں نازل ہو جاتا تو یہ بات ممکن نہیں تھی۔ ایسا نہ ہوتا تو مسلمانوں کو کیسے پتا چلتا کہ بدر سے متعلق آیات و احکام کو آگے چل کر کس طرح بدر اور بدر سے ملتے جلتے واقعات پرمنطبق کریں۔ یہ تو اس وقت ممکن تھا کہ جب ان آیات کو بدر کے واقعات ہی کے سیاق و سباق میں اتارا جاتا۔

۵- غوروفکر‘ تدبر اور حفاظت قرآن

پانچواں بڑا سبب قرآن مجید کو نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کا جو اِن آیات میں بتایا گیا ہے وہ یہ ہے:  وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاًo (الفرقان ۲۵:۳۲)‘ یعنی اور ہم نے آہستہ آہستہ اس کو تم پر تلاوت کیا ہے‘ ترتیل کے ساتھ تم تک پہنچایا ہے۔ ترتیل کہتے ہیں کسی گفتگو کو ٹھہر ٹھہرکے‘ آہستہ آہستہ ‘ بار بار اس طرح کہنا کہ دوسرا آدمی اچھی طرح سمجھ لے اور اس کو یاد کر لے‘ اس عمل کو عربی میں ترتیل کہتے ہیں۔ قرآن مجیدپڑھنے کے لیے خود قرآن مجید میں ترتیل کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں حکم یہ دینا مقصود ہے کہ اس کتاب کو بہت آہستہ آہستہ‘ غوروفکر کے ساتھ‘ ٹھہر ٹھہر کر دوسروں تک پہنچایا جائے اور خود بھی اس کا مطالعہ کیا جائے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت میں یہ بات طے کر دی کہ اس کتاب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باقی رہنا ہے‘ اور جب تک مسلمان روے زمین پر موجود ہیں یہ کتاب بھی باقی رہے گی تو اس کی بقا اور تحفظ کے لیے وہ تمام تدبیریں اور جملہ طریقے اختیار کیے گئے جو کسی انسان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آسکتے تھے۔

یہ بالکل منفرد اور اَن ہونے طریقے تھے۔ ایسے طریقے نہ قرآن مجید سے پہلے کسی کتاب کی حفاظت کے لیے استعمال ہوئے اور نہ اس کے بعد کسی کتاب کے تحفظ کے لیے استعمال ہوئے۔ انسانیت کی تاریخ میں آج تک کوئی کتاب اس طرح محفوظ نہیں کی گئی ہے کہ اس کو انسانوں کے دلوں میں‘ دماغوں میں اور روحوں میں اس طرح اتار دیا جائے کہ وہ ان سب کا حصہ بن جائے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی‘ نہ کسی کتاب کی‘ نہ کتابچے کی ‘ اور نہ کسی رسالے کی کہ اس کوکروڑوں انسانوں نے زبانی یاد کر کے محفوظ کر لیا ہو اور نسلوں کی نسلوں نے اسے اپنے سینوں اور دلوں میں اتار لیا ہو۔پھر ہر نسل نے اگلی نسل کے کروڑوں آدمیوں تک پہنچا دیا ہو۔ یہ سارا عمل اسی وقت ممکن ہوسکتا تھا جب صحابہ کرامؓ کو یہ قرآن تھوڑا تھوڑاپہنچایا جاتا اور تھوڑا تھوڑا یاد کرایا جاتا۔ آپ کسی کو قرآن مجید حفظ کرانا چاہیں تو اس کی شکل یہ نہیں ہوتی کہ پوری کتاب اٹھا کے دے دیں کہ اس کو جا کے یاد کر لے۔ اس طرح یک بارگی کوئی یاد نہیں کر سکتا۔ اس کی سب سے آسان اور عملی شکل یہی ہوتی ہے کہ پہلے ایک آیت یاد کراتے ہیں۔ پھر دوسری آیت‘ پھر تیسری آیت۔ ہوتے ہوتے چندسال کی مدت میں پورا قرآن مجید حفظ ہو جاتا ہے۔

قرآن مجیدکو نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے ۲۳ سال کے عرصے میں نازل کرنے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ صحابہ کرامؓ کو قرآن مجیدکو یاد کرنے اور حفظ کر کے اس کو سینوں میں محفوظ کر لینے کا موقع مل جائے۔ چنانچہ صحابہ کرام ؓ آہستہ آہستہ اس کو یاد کرتے چلے گئے اور جونہی قرآن مجید کا نزول مکمل ہوا‘ صحابہ کرامؓ میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے تھے جن کو پورا قرآن مجیدزبانی یاد تھا۔ ان سے کہیں زیادہ تعداد میں وہ تھے جن کو قرآن مجیدکے متفرق حصے زبانی یاد تھے۔ صحابہ کرامؓ کے حفظ کرنے کی وہ کیفیت نہیں تھی جو آج ہمارے کرنے کی ہے کہ محض الفاظ رٹ لیے گئے ‘ اور جب دہرانے کا موقع آیا تو بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی اندرونی تاثر کے اسے دہرا دیا۔ صحابہ کرامؓ کے ہاں کیفیت ہی اور تھی۔ حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے صرف سورہ بقرہ کا مطالعہ کرنے میں ۱۰ سال کا عرصہ لگا۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ: تعلمنا الایمان ثم تعلمنا العلم‘ کہ پہلے ہم نے یہ سیکھا کہ ایمان کسے کہتے ہیں‘ اس کے بعد ہم نے علم حاصل کیا۔ یعنی پہلے علم کی بنیاد یعنی ایمان کو ہم نے پختگی کے ساتھ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد اس بنیاد کے اوپرہم نے قرآن مجید کے علم کی عمارت استوار کی۔ گویا علم اور ایمان صحابہ کرام ؓ کے نزدیک ایک دوسرے کے لیے تکمیل کنندہ کا درجہ رکھتے تھے‘ اور یہ دونوں چیزیں صحابہ کرامؓ کے ہاں ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ علم کے بغیر ایمان کی بنیاد کمزور رہتی ہے اور ایمان کے بغیر علم خطرناک ثابت ہوتا ہے۔

بہرحال ۲۳ سال کے طویل عرصے میں صحابہ کرامؓ کی پوری نسل ایسی تیار ہو گئی جو قرآن مجید کے الفاظ کی بھی حافظ اور محافظ تھی‘ اس کے معنی کی بھی نگہبان تھی‘ اور اس کے مفاہیم پر بھی عمل پیرا تھی‘ ان کے دلوں میں‘ ان کے سینوں میں‘ ان کے دماغوں میں اور ان کی روحوں میں قرآن مجید کا متن‘ اس کا پیغام‘ اور اس کی روح سب رَچ بس چکے تھے۔ یہ سب تبھی ممکن تھا جب قرآن مجیدنجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جائے۔ یہ قرآن مجیدکے تھوڑا تھوڑا نازل کیے جانے کا پانچواں سبب ہے۔

۶- نزول وحی : ایک غیر معمولی تجربہ

چھٹا اہم سبب قرآن مجیدکے تھوڑا تھوڑانازل کیے جانے کا ایک اور بھی ہے‘ جس کا اشارہ خود قرآن مجید میں ملتا ہے‘ اور کچھ احادیث اور روایات سے بھی اس کی تائیدہوتی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی (جس کی تفصیلات سے ہر پڑھا لکھا مسلمان کسی حدتک واقف ہوتا ہے) تو یہ ایک نہایت غیر معمولی تجربہ تھا جس کے اثرات حضور علیہ السلام کے طبع مبارک پر بھی نمایاں طور پر محسوس ہوئے۔ یہاں تک کہ آپؐ بہت ہی گھبراہٹ اور لرزے کے عالم میں اپنے درِ اقدس تشریف لے گئے اور خاصی دیر آرام فرمانے کے بعد آپؐ کے جسم مبارک کا لرزہ ختم ہوا اور طبیعت بحال ہوئی۔ پہلی وحی کی ان تفصیلات سے کسی حد تک اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ تلقی وحی ایک نہایت غیر معمولی تجربہ ہوتا تھا جس کے واضح اثرات سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر بھی نمایاںطور پر محسوس ہوتے تھے۔ اس پہلے واقعے کے کچھ روز بعد جو وحی حضور علیہ السلام پر ابتدائی دنوں میں ہی نازل ہوئی اس میں ایک آیت ہماری اس گفتگو کے سیاق وسباق میں بڑی اہم ہے: اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاًo (المزمل ۷۳:۵) ’’ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں‘‘۔ یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ بھاری کلام کا کیا مطلب ہے؟ اور قول ثقیل سے کیا مراد ہے؟ ایک مطلب بھاری کلام کا یہ ہو سکتا ہے کہ اپنے معانی اور مفاہیم کے اعتبار سے یہ ایک بہت بھرپور اور وزنی کلام ہے۔ یقینا اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے اور اس مفہوم کے اعتبار سے قرآن مجید کے قول ثقیل ہونے میں کوئی شک نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود قرآن مجید ہی سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس کا تحمل کرنا‘ اس کی تلقی کرنا (وصول کرنا) اور اس کی وصول یابی اتنا غیر معمولی تجربہ ہے کہ اس کو یک بارگی حاصل کر لینا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے‘ کوئی انسان‘ چاہے وہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں یہ بشری استطاعت نہیں رکھتا کہ قرآن کی تلقی‘ پورے کے پورے قرآن کی یک بارگی کر سکتا۔

قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اس کلام کو کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ خوف اور خشیت الٰہی کی کیفیت میں ریزہ ریزہ ہو جاتا (الحشر ۵۹:۲۱)۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آتا ہو کہ یہ ایک بات کہنے کا محض شاعرانہ انداز یا مبالغہ آمیز بیان ہے۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مبالغہ آمیزشاعرانہ انداز بیان نہیں ہوا کرتا۔ اللہ تعالیٰ کو شاعری کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے‘ نہ وہ شاعرانہ مبالغہ آرائی کا محتاج ہے۔ اس کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ غیر حقیقی انداز اختیار کرے۔ اس کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ عام کمزور اور محدود انسانوں کی سطح کی شاعری کی ضرورت محسوس کرے۔ یہ بالکل حقیقی اور واقعی طور پر اس نے فرمایا کہ اگر واقعی قرآن مجیدکسی پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید میں ہمارے سامنے ہے کہ جب انھوں نے ایک مرتبہ براہِ راست تجلی الٰہی کی التجا کی تو کیا منظرنامہ پیش آیا۔ اس وقت جو منظر ہوا اور جو کیفیت ہوئی وہ قرآن مجیدپڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے۔ اس لیے یہ بات بالکل قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مجید کا بہ یک وقت نازل کیا جانا اتنا غیر معمولی تجربہ ہوتا اور اتنی عظیم الشان کیفیت ہوتی کہ اس کا تحمل کر لینا اور اس کی تلقی کر لینا شاید اس دنیا میں کسی انسان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے حضور علیہ السلام پر وحی کا نزول ایک طویل عرصے تک جاری رہا‘ اور جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ۲۴ ہزار مرتبہ کر کے وحی الٰہی کی تکمیل آپؐ  کی ذات گرامی پر ہوئی۔

کیفیت نزول وحی:  حضور علیہ السلام پر جب وحی نازل ہوتی تو کیا کیفیت ہوتی تھی۔ اس کا اگرچہ کچھ اندازہ ہو تو اس سے بھی اس سوال کا جواب کسی حد تک مل سکتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ نزول وحی کی اصل کیفیت اور اس تجربے کی حقیقی نوعیت کا اندازہ کوئی شخص کر ہی نہیں سکتا۔ حضور علیہ السلام نے خود کبھی اس کو بیان نہیں فرمایا۔ اور وحی کوئی ایسی چیز ہے نہیں کہ اس کو انسانی الفاظ میں بیان کیا جا سکے‘ کیونکہ وہ تو ایک ایسا منفرد تجربہ ہے جو تمام انسانی تجربات سے بالکل ماورا ہے--- اتنا ماورا کہ اس کے لیے انسانوں کی زبانوں میں الفاظ بھی نہیں ہیں۔ انسانی زبانوں میں کوئی ایسا اسلوب بیان بھی موجود نہیں ہے جس کو اختیار کرکے اس تجربے کو بیان کیا جا سکے۔ لیکن صحابہ کرامؓ میں سے کچھ حضرات کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ باہر سے اس کیفیت کو دیکھیں جو نزول وحی کے وقت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر جسمانی طور پر وارد ہوتی تھی۔

جب حضور علیہ السلام پر وحی نازل ہوتی تھی تو جو قریبی صحابہؓ وہاں موجود ہوتے تھے اور اس منظر کا مشاہدہ کرتے تھے انھوں نے اپنے بعض مشاہدات بیان کیے ہیں‘ جن کی نوعیت ظاہر ہے کہ حقیقی اور واقعی نہیں ہے بلکہ ان خارجی مشاہدات کی حیثیت بڑی حد تک محض ظاہری‘ خارجی بلکہ لغوی معنوں میں خالص سطحی نوعیت کی ہے۔ جس طرح سطح سمندر کا مشاہدہ کرنے والا سمندرکی گہرائیوں میں موجود تلاطم خیز طوفانوں اور موجود دنیائوں کی گہرائیوں اور گیرائیوں کا سرے سے کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا‘ اسی طرح نزول وحی کی کیفیت کو باہر سے دیکھنے والا سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اس کے ابعاد کس قدر وسیع‘ عمیق اور ہمہ گیر ہیں‘ تاہم صحابہ کرامؓ کے ان مشاہدات سے یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ نزول وحی کا تجربہ جسمانی مفہوم میں بھی کتنا مشکل‘ کتنا سخت اور کتنا غیر معمولی تھا۔ ان واقعات سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر ایک آیت یا ایک ٹکڑے کے نزول میں یہ کیفیت ہوتی تھی تو اگر کہیں پورا قرآن مجید یا اس کا بیش تر حصہ یک بارگی نازل ہو جاتا تو کیا ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا یہ اندازہ بھی بہت ہی نامکمل اور سطحی نوعیت کا ہے۔ اس طرح کا اندازہ ہم صرف ایک حد تک ہی کر سکتے ہیں‘ ممکن ہے بلکہ یقینی ہے کہ ہمارا یہ اندازہ بھی نامکمل ہی ہو۔

حضرت عائشہؓ کا مشاہدہ:  اس ضمن میں صرف دو واقعات کی طرف اشارہ کرناکافی ہوگا۔ یہ واقعات جو مختلف صحابہ کرامؓ نے بیان کیے ہیں ان میں نزول وحی کے تجربے کا محض ظاہری اور جسمانی پہلو بیان کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ وہی پہلو صحابہ کرامؓ کے مشاہدے اور تجربے میں آ سکتا تھا۔ ان دونوں واقعات کو بیان کرنے سے قبل ذرا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی اس مشہور روایت پر بھی نظر ڈال لینا مفید ہوگا جس سے امام بخاری نے اپنی کتاب کا گویا آغاز کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ صحیح بخاری قرآن مجید کے بعد مسلمانوں کے نزدیک سب سے مستند کتاب ہے۔ مسلمان اس کو اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ مانتے ہیں۔ اس کتاب کا پہلا باب ہی اس بحث سے شروع ہوتا ہے جس کا عنوان ہے: باب کیف کان بدء الوحی علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ یعنی باب اس امر کے بیان میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آغاز کیسے ہوا۔ یہیں سے صحیح بخاری شروع ہوتی ہے۔ اس باب میں جو تفصیلی روایت ہے وہ  حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب حضور علیہ السلام پر وحی نازل ہوتی تھی تو وہ لمحہ اتنا مشکل اور اتنا سخت ہوتا تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ حضورعلیہ السلام پر کوئی بڑی ہی غیر معمولی کیفیت طاری ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ مدینہ منورہ کی سرد راتوں میں آپؐ پر وحی نازل ہوتی--- اور سب جانتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی راتیں کافی سرد ہوتی ہیں‘ اور اس زمانے میں گھر گرم رکھنے (ہیٹنگ) کا کوئی نظام مدینہ میں نہیں تھا‘ نہ وہاں گھریلو حمام عام تھے اور نہ کسی قسم کے ہیٹر وہاں ہوتے تھے بلکہ سرے سے مدینہ منورہ میں مکان گرم کر کے رکھنے کا رواج ہی نہیں تھا--- ان سرد اور یخ راتوں کے بارے میں حضرت عائشہؓبیان کرتی ہیں کہ میں نے بارہا دیکھا کہ حضور علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی اور پیشانی مبارک سے پسینہ ایسے بہنے لگا جیسے کوئی فصد کھول دی گئی ہو اور اس سے خون بہتا ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جو تجربہ تھا وہ جسمانی طور پر بھی اتنا تھکا دینے والا اور اتنا غیر معمولی ہوتا تھا کہ باہر سے دیکھنے والوں تک کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ کیا کیفیت گزر رہی ہے۔

فتح مکّہ کے موقع پر: جن دو واقعات کا یہاں تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے ان میں سے ایک تو اس دن کا واقعہ ہے جس دن مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ اس دن حضور علیہ السلام اپنی اونٹنی پر سوار (انجیل کی زبان میں) ۱۰ہزار قدوسیوں کے جلو میں مکہ شہر میں داخل ہو رہے تھے۔ حضور علیہ السلام کی وہ اونٹنی قصوا عرب میں بہت ہی طاقت ور اونٹنی مانی جاتی تھی‘ جب بھی کوئی مقابلہ ہوتا تو وہ دوڑ میں سب سے آگے نکلتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسے خاص اہتمام کے ساتھ ہجرت کے سفر کے لیے خریدا تھا اور کئی مہینوں میں اس کو خاص خوراک کھلا پلا کر تیار کیا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اسی تاریخی اونٹنی قصوا پر سوار تھے‘ اور فاتحانہ مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے۔ ایک اونٹ جتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے اور جو اس کی قوت برداشت ہوتی ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں مکہ شہر بلند و بالا پہاڑیوں میں گھرا ہوا تھا اور آج بھی گھرا ہوا ہے۔ مکہ میں فوجوں کے داخلے کے لیے حضور علیہ السلام نے صحابہ کرامؓ کے چار پانچ دستے بنا دیے تھے‘ اور ہر دستے کو ہدایت تھی کہ مختلف راستے سے شہر میں داخل ہو۔ ایک راستہ وہ تھا جس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے دستے یعنی قلب لشکرکو داخل ہونا تھا۔ آپؐ کے ساتھ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت تھی جو پیچھے پیچھے آرہی تھی۔

حضورؐ آگے آگے اپنی اونٹنی پر سوار تشریف لے جا رہے تھے۔ اچانک لوگوں نے دیکھا کہ وہ اونٹنی رک گئی اور یک بہ یک کھڑی ہو گئی۔ پورا لشکر جو پیچھے آ رہا تھا وہ بھی رک گیا۔ لوگ خیرخبر معلوم کرنے کے لیے اتر کر آگے آئے تو دیکھا کہ اونٹنی کے پائوں لرز رہے ہیں اور اس سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا۔ ادب سے اوپر نظریں اٹھا کر دیکھا تو آپؐ پر وہ کیفیت طاری تھی جو نزول وحی کے وقت ہوا کرتی تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ اونٹنی کی ٹانگیں ایسی محسوس ہو رہی ہیں جیسے کسی کمزور سی چیز پر یک بہ یک بہت سارا بوجھ لاد دیا گیا اور وہ ٹوٹنے لگے۔ ایسا لگا جیسے ابھی اونٹنی کی ٹانگیں چٹخ جائیں گی۔ اس ساری کیفیت کو اونٹنی برداشت نہیںکر سکی اور بیٹھ گئی۔ لیکن بیٹھنے کے کوئی ایک آدھ ہی لمحے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کیفیت بھی ختم ہو گئی‘ اونٹنی بھی پہلے کی طرح کھڑی ہو گئی اور چلنے لگی۔ حضور علیہ السلام نے جو صحابہ کرامؓ قریب تھے ان سے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت نازل ہوئی ہے: وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا‘ باطل تو مٹنے ہی والا ہے ‘‘۔ کہنے کو یہ دو جملوں کی چھوٹی سی آیت ہے لیکن اس موقع پر جو کیفیت دیکھنے والوں نے دیکھی وہ بیان کی جا چکی۔ لیکن خود حضورعلیہ السلام پر کیا گزری وہ ظاہر ہے کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور نہ اس کا کسی کو کوئی اندازہ ہو سکتا ہے۔

حضرت زیدؓ بن ثابت کا تجربہ:  دوسرا واقعہ ایک صحابی کا ہے جن پر اتفاق سے خود گزری ہے اور انھوں نے اپنی گزری خود بیان کی ہے۔ ان کے بیان سے مزید اندازہ ہوتا ہے کہ نزول وحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا گزرتی ہوگی۔یہ واقعہ حضرت زید ؓبن ثابت کا ہے جو مشہور صحابی ہیں اور حضور علیہ السلام کے معاون خصوصی رہے ہیں۔ حضور علیہ السلام کی بیش تر خط و کتابت حضرت زیدؓ بن ثابت ہی کیا کرتے تھے۔ کاتبان وحی میں بھی سب سے نمایاں درجہ ان ہی کا ہے۔ یہ واقعہ ہجرت کے دو ایک سال بعد کا ہے۔ ان دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مشہور اور تاریخ ساز دستور میثاق مدینہ مرتب فرما رہے تھے۔ اس ضمن میں مختلف قبائل کے نمایندوں سے گفت و شنید کا سلسلہ جاری تھا۔ حضرت زیدؓ بن ثابت بطور سیکرٹری ہر اجتماع میں حاضر رہتے تھے۔ انھوں نے خود یہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ ہم ایسی ہی ایک مجلس میں جمع تھے جس میں سب لوگ چار زانو ہو کر قریب قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ غالباً جگہ کی تنگی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے کا کنارا حضرت زیدؓ بن ثابت کے گھٹنے کے اوپر آیا ہوا تھا۔ (عام طور پر فرش پر جب قریب قریب بیٹھتے ہیں تو ایسا ہو جاتا ہے)۔ حضرت زیدؓ بن ثابت کہتے ہیں کہ یک بہ یک مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرے گھٹنے پرکسی نے پہاڑ اٹھا کر رکھ دیا ہو۔ اس پر انھوں نے اچانک جو متوجہ ہو کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کیفیت تھی جو وحی کے نزول کے وقت ہوا کرتی تھی۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ ایک دم سے میرے گھٹنے پر اتنا بوجھ آگیا کہ مجھے ایسا لگا کہ میرا گھٹنا چورا چورا ہو کر ہڈی ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ میں نے اپنا گھٹنا حضور علیہ السلام کے گھٹنے کے نیچے سے نکالنا چاہا تو بوجھ کی وجہ سے نکال نہ سکا‘ مگر بس ایک ہی لمحے میں یہ کیفیت ختم ہو گئی اور حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن مجید میں سورہ نساء کی آیت ۹۵ یعنی لاَ یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ … وَالْمُجٰھِدْوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ … میں المومنین کے بعد  غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ کا اضافہ کر دو۔

ان دو مثالوں سے واضح طور پر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ نزول قرآن مجید کا عمل ظاہری اعتبار سے بھی کتنا بھاری اور کتنا ثقیل ہوتا تھا۔ اس ثقل اور شدت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ قرآن مجید کو یک بارگی نازل کرنے کے بجائے نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جائے۔

چند اعتراضات

بعض حضرات نے اس باب میں تامل کیا ہے کہ تورات‘ انجیل اور دوسری آسمانی کتابیں یک بارگی نازل کی گئی تھیں۔ انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح قرآن مجید تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا اسی طرح تورات اور انجیل بھی تھوڑی تھوڑی کر کے ہی نازل کی گئیں۔ لیکن قرآن مجیدکی متعلقہ آیات پر سرسری طور پر غور کرنے سے ہی اس رائے کی کمزوری ظاہر ہو جاتی ہے۔ سورہ اعراف (۷: ۱۵۰-۱۵۴) میں جہاں نزول تورات کا ذکر ہے وہاں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ تورات ایک دو نہیں بلکہ بہت سی تختیوں پر لکھی ہوئی حضرت موسٰی علیہ السلام کو عطا ہوئی تھی۔ ہدایت اور رحمت پر مبنی یہ نسخہ کیمیا ان تختیوں پر لکھا ہوا تھا جو حضرت موسٰی علیہ السلام طور سینا سے لے کر آئے تھے۔ بعض اہل علم نے اس امکان کا اظہار بھی کیا ہے کہ طور سینا پر حضرت موسٰی علیہ السلام کو پوری تورات کے بجائے صرف احکام عشرہ عطا فرمائے گئے تھے۔ اس ضمن میں یہ اہل علم موجودہ تورات کے رائج الوقت تراجم میں موجود اسلوب بیان سے استدلال کرتے ہیں۔ اگر یہ استدلال تھوڑی دیر کے لیے بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ احکام عشرہ پر مبنی بہت سی الواح کے بجائے کوئی چھوٹی سی لوح ہی حضرت موسٰی علیہ السلام کو دی گئی ہوگی۔ اس لیے کہ احکام عشرہ چند سطروں سے زائد نہیں ہیں اور ان کو لکھنے کے لیے ایک چھوٹی سی تختی ہی کافی ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور پر نہ صرف الواح (بصیغہ جمع) کا ذکر ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تختیاں محض احکام عشرہ پر مبنی نہیں تھیں بلکہ ان میں وہ پوری ہدایت الٰہی اور رحمت خداوندی موجود تھی جو تورات کا طرہ امتیاز تھی (وَفِیْ نُسْخَتِھَا ھُدًی وَّرَحْمَۃٌ)۔

مزیدبرآں یہود یثرب کے اشارے پر کفار مکہ کا قرآن مجید کے یک بارگی نازل نہ کیے جانے پر اعتراض سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہودی وحی الٰہی کے نجماً نجماً نازل کیے جانے والے اسلوب سے مانوس نہ تھے۔ ان کے لیے مانوس اور مالوف اسلوب کتاب الٰہی کو یک بارگی نازل کیے جانے ہی کا تھا۔ ورنہ وہ یہ اعتراض کبھی نہ کرتے۔

خلاصہ کلام یہ کہ قرآن مجید دوسری آسمانی کتابوں کے برعکس تھوڑا تھوڑا نازل کرنے میں وہ حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ تھیں جن میں سے بعض کا اوپر تذکرہ کیا گیا۔