آج دنیاے اسلام کوجو مشکلات اور چیلنج درپیش ہیں، ان میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ دور جدید کی زبان، دور جدید کے محاورے اور دور جدید کے اسلوب میں قرآن مجید اور حدیث کو بیان کیا جائے۔ آج زبان اور اصطلاحات بدل چکی ہیں، محاروہ اور اسلوب بدل چکا ہے۔ اس لیے آج کل کی زبان میں انسانوں تک اور آج کل کے لوگوں تک قرآن وسنت کی تعلیم کوپہنچانا ان تمام حضرات کے ذمے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے شریعت کے علم سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ اس نے جس نبی یا پیغمبر کو بھیجا، اس علاقے اور اس قوم کی زبان اور محاورے کے ساتھ بھیجا کہ جو وہ قوم استعمال کرتی تھی: وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ(ابراھیم ۱۴:۴) ’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے‘‘۔ لسان میں محض لغت شامل نہیں ہے۔ لسان میں لغت بھی شامل ہے، محاورہ، اسلوب، طرزِ استدلال اور وہ ثقافتی مظاہر بھی شامل ہیں جن کا تعلق زبان اور اظہار بیان سے ہوتا ہے۔ آج جس میدان میں شریعت کی تعلیم کو اس نئے انداز سے بیان کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ اسلام کا قانونِ معاملات ہے۔
معاملات اور تجارت کے احکام کو شریعت نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ دنیا کے کسی مذہب، تاریخ کے کسی نظریے اور کسی فلسفے نے معیشت وتجارت کو وہ مقام اور اہمیت نہیں دی جو اسلام نے دی ہے۔ دنیا کے کسی نظام نے معیشت اور تجارت کو اخلاق اور روحانیات سے اس طرح وابستہ نہیں کیا، جس طرح اسلام نے ان دونوں کو وابستہ کر دیا ہے۔ دنیا کے کسی نظام میں معیشت وتجارت کی عمارت اخلاقی بنیادوں پر اس طرح قائم نہیں ہوتی جس طرح اسلام نے قائم کی ہے۔ ایک مشہور مغربی ماہر قانون نے لکھا ہے کہ اسلامی شریعت نے اخلاقی قواعد اور اصولوں کو اپنے قانون کے اندر اس طرح سمو دیا ہے کہ قانون پر عمل کرنے والا خود بخود اخلاق پر عمل درآمد کرتا ہے، اور اسلام کے اخلاقی اصول کی پاسداری کرنے والا خود بخود اسلام کے قانون پر عمل درآمد کرتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مکمل طور پر ہم آہنگ اور ایک دوسرے سے مکمل طور پر وابستہ ہو گئے ہیں۔
مغربی دنیا نے اپنی تاریخ کے ایک دور میں بعض گمراہیوں کی وجہ سے قانون اور اخلاق، قانون اور روحانیات کے رشتے کو توڑ دیا۔ مغربی دنیا نے یہ طے کیا کہ قانون وہ ہوگا جس کا اخلاق اور روحانیات سے تعلق نہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج قانون کی اصل بنیاد ختم ہو چکی ہے۔ آج غیراخلاقی تصورات کو قانون کے دائرے میں داخل کیا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قانون اپنی اہمیت، اپنی افادیت اور اپنی تاثیر کھوتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا میں روز بروز جو لاقانونیت بڑھ رہی ہے، دنیا کی حکومتیں اور بڑے بڑے قائدین جس طرح قوانین کو توڑ رہے ہیں، دنیا کے طے شدہ اصولوں کی جس طرح مٹی پلید کی جارہی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا نے قانون اور اخلاق کے رشتے کو توڑ دیا ہے۔ اس کے برعکس اسلامی شریعت نے پہلے دن سے قانون اور اخلاق، ان دونوں کے رشتے کو اس مضبوطی سے قائم کیا تھا کہ وہ رشتہ آج تک اسی مضبوطی کے ساتھ قائم ہے۔
قانون اور اخلاق کی ضرورت مدرسوں، مسجدوں اور خانقاہوں میں بہت محدود ہوتی ہے، جب کہ اخلاق اور روحانی اقدار کی ضرورت بازار، تجارت اور معیشت میں زیادہ ہوتی ہے۔ جس زمانے میں امام محمد بن الحسن الشیبانی اپنی کتابیں تالیف کر رہے تھے، اس زمانے کے بہت سے محدثین نے زہد پر کتابیں لکھیں۔ امام عبداللہ بن المبارک کی کتاب الزھد اور امام احمد بن حنبل کی کتاب الزھد مشہور ہے۔ متعدد محدثین نے، جن کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے، زہد کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ کسی نے امام محمد سے پوچھا کہ: آپ نے زہد پر کتاب نہیں لکھی؟امام محمد نے جواب دیا: میں نے کتاب الکسب اور کتاب البیوع لکھ دی ہے۔ خرید وفروخت کے احکام پر، فقہ المعاملات پر میں کتاب لکھ چکا ہوں جو کتاب الزھد کے تمام تقاضوں کو پورا کرے گی۔ یہ بات امام محمد نے کسی کمزور بنیاد پر نہیں فرمائی۔
امام محمد کے اس قول کی تشریح میں امام غزالی نے لکھا ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں بیٹھ کر یا اپنے گھر کی تاریکی میں بیٹھ کر استغنا وزہد کی بات کرنا آسان ہے، لیکن بازار میں جہاں خرید وفروخت کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں، جہاں دھوکا دہی اور کم تولنے کے روزانہ سو مواقع پیدا ہوتے ہیں، گھٹیا سودا دینے اور بڑھیا سودے کی قیمت لینے کے مواقع روزانہ پیدا ہوتے ہیں اور بازار میں بیسیوں آدمی ہر روز یہ کام کر رہے ہوتے ہیں___ اس وقت جب ایک شخص اس ناجائز روزی سے بچتا ہے اور جائز اخلاقی، قانونی، دینی تقاضوں کے مطابق تجارت کرتا ہے، تو وہ ہر لمحے شیطان کے گلے پر چھری چلاتا ہے۔ نفس کے شیطان کے گلے پر چھری چلانا آسان نہیں ہے۔ یہ چھری مسجد میں بیٹھ کر چلائی جاسکتی ہے، خانقاہوں میں چلائی جا سکتی ہے، لیکن جس بازار میں آپ لاکھوں روپے کا کاروبار کر رہے ہوں اور وہاں ایک معمولی غلط بیانی سے لاکھوں روپے کا فائدہ ہونے کا امکان ہو، وہاں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اس فائدے سے اپنے کو محروم کرنا ہی دراصل وہ تربیت ہے جو اس روحانی اور اخلاقی اصول سے قائم ہوتی ہے جس پر شریعت نے اپنے احکام کی بنیاد رکھی ہے۔
اللہ کی حکمت بالغہ کو یہ بات پہلے سے معلوم تھی اور اللہ تعالیٰ کے لامتناہی علم میں یہ بات پہلے سے موجود تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ایک بین الاقوامیت کا دور ہوگا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے تمام پیغمبر ، تمام آسمانی مذاہب اور تمام آسمانی کتابیں علاقائی پیغام لے کر آئے۔ کسی نے کہا کہ میں بنی اسرائیل کی بھیڑوں کوراہ راست پر لانے کے لیے آیا ہوں۔ کسی نے کہا کہ میں تو بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دلانے آیا ہوں۔ کسی نے کہا کہ میں تو اپنے گاؤں میں آیا ہوں اور اپنے گاؤں کے فلاں حصے کے لیے آیا ہوں۔ قرآن پاک میں یہ شہادت موجود ہے کہ ایک ایک گاؤں میں تین تین نبی اللہ نے بھیجے۔ ایک گاؤں میں تین نبی ہوں گے تو چند گھروں کے ایک نبی ہوں گے اور دوسرے چند گھروں کے دوسرے ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دور میں بھیجا گیا جو بین الاقوامی اور عالم گیر دور تھا اور عالم گیریت کا آغاز ہو رہا تھا۔ آپ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں، بین الاقوامیت کا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے تقریباً نصف صدی پہلے شروع ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جدِامجد جناب ہاشم بن عبد مناف نے بین الاقوامی تجارتی سفروں کا سلسلہ شروع فرمایا۔ رِحْلَۃَ الشِّتَآئِ وَالصَّیْفِ کا قرآن میں بھی ذکر ہے۔ یہ سفر جناب ہاشم بن عبد مناف کی کوششوں سے شروع ہوا۔ ہاشم نے قیصرِ روم سے اور شہنشاہ ایران سے اجازت لے کر ان سفروں کے لیے راہداری کے پرمٹ جاری کرائے تھے۔ جناب عبدالمطلب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جناب عباسؓ بن عبد المطلب کا بڑا کاروبار تھا۔
یہ بات محض اتفاق نہیں ہے کہ رسولؐ اللہ نبوت سے ۱۵،۲۰ سال پہلے سے تجارت سے وابستہ تھے اور بطور صادق اور امین کے پورے جزیرئہ عرب میں معروف تھے۔ اسلام کی صف اول کی تمام شخصیات کا تعلق تجارت سے تھا۔ خلفاے اربعہ اور خاص طور سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ، اسی طرح عشرہ مبشرہ میں سے بڑی تعداد اور اکثریت کا تعلق تجارت سے تھا۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ، سیدنا زبیر بن عبد المطلبؓ، سیدنا زبیر بن العوامؓ، سب تجارت کرتے تھے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ ایک ایسی شریعت کے اولین علم بردار تھے جو بین الاقوامی شریعت تھی۔ بین الاقوامی معاملات اور تعلقات میں سب سے اہم چیز ہمیشہ سے تجارت اور معاشی معاملات رہے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی روابط کی سب سے بڑی اساس تجارت اور لین دین ہے۔ یہ حضرات پہلے سے بین الاقوامی تجارتی لین دین کر رہے تھے۔ گویا کہ اسلامی شریعت اور تجارت کا پہلے دن سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسلامی شریعت اور بین الاقوامی معیشت دونوں پہلے دن سے ایک دوسرے سے وابستہ اور لازم وملزوم ہیں۔ یہ پیغام لے کر وہ شخصیات اٹھیں جو پہلے سے اس میدان میں تھیں۔ اس لیے کہ اگر کسی ایسی قوم کویہ پیغام دیا گیا ہوتا جو تجارت اور بین الاقوامی معیشت سے ناواقف ہوتی تو اسلام کے ان احکام پر عمل درآمد شاید اتنی آسانی سے نہ ہو سکتا اور اسلام کے وہ احکام جو پہلی صدی ہجری ہی میں مرتب ہونا شروع ہوگئے، وہ شاید نہ ہو سکتے۔
آج بعثتِ نبویؐ سے پہلے دور کے متعدد قدیم قوانین موجود ہیں اور کتابوں میں لکھے ہوئے دستیاب ہیں۔ یہودیت کا قانون موجود ہے، ہندو اور رومن قانون موجود ہے،لیکن یہ بات میں بلاتامل آپ سے عرض کر رہا ہوں کہ اسلام سے پہلے دنیا کے کسی بھی نظام اور قانون میں تجارت اور معیشت پر وہ زور نہیں دیا گیا جو اسلامی شریعت نے دیا ہے۔ اسلامی شریعت کے نزول کی تکمیل کے ڈیڑھ سو سال کے اندر اندر ائمہ اسلام نے ان قوانین پر درجنوں کتابیںمرتب فرما دیں۔ امام شافعی کی کتاب الام پورا انسائی کلو پیڈیا ہے جو ۱۵ جلدوں میں ہے۔ اسے تن تنہا ایک فقیہ نے بیٹھ کر مرتب کیا۔ اس میں تجارت کے احکام اور قوانین کی جتنی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ امام محمد نے ان مسائل پر بحث کی ہے۔ امام محمد سے پہلے ان کے اور امام شافعی کے استاذ امام مالک نے اپنی المدونہ میں، جو چھے جلدوں میں ایک ضخیم کتاب ہے اور بارہا چھپی ہے، تجارت اور معیشت کے تمام جزوی مسائل بیان کیے ہیں۔
تجارت اور معیشت کے احکام بیان کرنا آسان کام نہیں ہے۔ قرآن پاک کی اُن تمام آیات کو جب سامنے رکھا گیا، جن میں تجارت اور معیشت کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں، تو ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ سے ایک ایک فقیہ نے ہزاروں احکام کا استنباط کیا۔ ایک مرتبہ امام شافعی کسی مسجد میں نماز ادا فرما رہے تھے۔ جن صاحب نے عشاء کی نماز کی امامت کی، انھوں نے سورئہ بقرہ کی آخری آیات کی تلاوت کی۔ امام شافعی رات کو آکر سو گئے۔ صبح اٹھے تو انھوں نے پوچھا: ’’حضرت، رات کو نیند آگئی، اچھی طرح سے سوئے؟‘‘ امام شافعی نے کہا: ’’میں تو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سویا‘‘۔ پوچھا: ’’جی کیوں؟‘‘ امام شافعی نے فرمایا: ’’جب تم نے یہ آیت تلاوت کی: وَ اِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ (البقرہ ۲:۲۸۰)، جس میں قرض دار کا ذکر ہے، قرض کے احکام بیان ہوئے ہیں کہ اگر تمھارا مقروض تنگ دست ہو تو اسے اس وقت تک مہلت اور چھوٹ دی جائے جب تک اس کے پاس خوش حالی نہ آجائے، جب تک اس کا ہاتھ نہ کھل جائے۔ امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے اس آیت پر غور شروع کیا تو مجھے یہ پتا چلا کہ اس میں تو اسلام کا قانون ’افلاس‘ بیان کیا گیا ہے۔ افلاس (Insolvency) کیا ہے؟ وَ اِنْ کَانَ ذُوْعُسْرَۃٍ، یعنی آدمی اپنی مالی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔ جس آدمی کی مالی ذمہ داریاں اور قرضے اس کے وسائل سے بڑھ جائیں، اس کو قانون میں ’مفلس‘ کہتے ہیں۔ وہی صورت حال یہاں بیان ہوئی ہے۔ پھر امام شافعی نے فرمایا کہ فوراً ذہن میں یہ آیا کہ اس آیت کا منشا یہ ہے کہ شریعت نے جو اخلاق، معاملات اور تجارت کے بارے میں سکھائے ہیں، وہ قانونِ افلاس کی بنیاد ہونے چاہییں۔ پھر میرے ذہن میں یہ آیا کہ یہ ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ذہن میں یہ آیا، پھر یہ آیا۔ امام شافعی بیان فرما رہے ہیں اور شاگرد سن رہے ہیں۔ پھر امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے اس آیت سے ۱۰۸ مسئلے اخذ کیے ہیں۔ گویا اس تین لفظی آیت سے امام شافعی نے قانونِ افلاس کے ۱۰۸ مسئلے مرتب فرمائے۔
اس ایک مثال سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تجارت اور معیشت کے احکام کی اسلام کے نظام میں کتنی اہمیت ہے۔ فقہاے اسلام نے قانونِ تجارت اور قانونِ معیشت، یعنی فقہ المعاملات کے جو مسائل منقح کیے، ان میں سے کئی مسائل ایسے ہیں کہ آج بھی مغربی دنیا ان تک نہیں پہنچی۔ انسان کا مزاج یہ ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر ہے۔ یہ جو علمی ذخائر کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں، اگر تقابل نہ کیا جائے تو ان کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا۔ وبضدہا تتبین الاشیاء۔ جب تک یہ نہ دیکھا جائے کہ دوسرے کیا کہتے ہیں، دوسروں کا نظام اور قانون کیا بتاتا ہے، اس وقت تک اپنی اس دولت کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ صحابہ کرامؓ کے دور سے، فقہاے اسلام اور مجتہدین کے دور سے یہ طریقہ رہا ہے کہ: جب شریعت کے احکام پر غور کیا جائے، شریعت کے احکام کو نافذ کیا جائے تو یہ بھی دیکھا جائے کہ شریعت سے انحراف کے کون کون سے راستے بازار میں موجود ہیں۔ اس طرح، ایک تو ان راستوں کو بند کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ دوسرے شریعت کے احکام کے راستے میں رکاوٹوں کا ادراک ہوتا ہے۔ پھر اس ادراک کی وجہ سے ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ مشہور ہے۔ کئی مؤرخین نے اور سیرت نگاروں نے نقل کیا ہے کہ وہ کسی منصب کے لیے کسی ذمہ دار آدمی کی تلاش میں تھے۔ سیدنا عمر فاروقؓ کا طریقہ تھا کہ کثرت سے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کرتے تھے اور پھر غور کے بعد کسی منصب کے لیے افراد کا تقرر کرتے تھے۔ اس دوران میں کسی صحابی نے یا کسی دوست نے کسی صاحب کا نام لیا اور مشورہ دیا کہ آپ ان کو مقرر کر دیں، وہ بہت نیک اور متقی آدمی ہیں۔ ان کی تعریف بہت کی اور تعریف میں کہا کہ کانہ لا یعرف الشر، گویا کہ وہ اتنے اچھے آدمی ہیں کہ سراپا صلاح وتقویٰ ہیں اور شر کو جانتے ہی نہیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ ایسا آدمی نہیں چاہیے، اس لیے کہ اذا یوشک ان یقع فیہ، جو شر کو نہیں جانتا، وہ تو شر میں مبتلا ہو جائے گا۔ اسے پتا ہی نہیں چلے گاکہ شر کیا ہے اور خیر کیا ہے۔ ایسا آدمی چاہیے جو خیر کو بھی جانتا ہو اور شر کو بھی۔
اس لیے صحابہ کرامؓ کے زمانے سے یہ سنت چلی آ رہی ہے کہ ائمہ اسلام نے اپنے دور کے تمام رائج الوقت طریقوں اور نظاموں کو جانا پہچانا، ان کا ادراک کیا۔ اس ادراک کے بعد جو مسائل سامنے آئے، ان کو سامنے رکھ کر شریعت کے احکام کومرتب کیا۔ جب سادہ زمانہ تھا، یہودیوں، عیسائیوں اور کفار مکہ کی گمراہیاں تھیں۔ تجارت کے معمولی طریقے تھے تو ائمہ مجتہدین نے ان طریقوں سے واقفیت حاصل کی۔ امام محمد بن الحسن الشیبانی کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ جس زمانے میں وہ بیوع اور تجارت کے احکام مرتب فرما رہے تھے، اس زمانے میں بازار میں جا کر بیٹھا کرتے تھے۔ اپنے وقت کا ایک حصہ انھوں نے اس کام کے لیے رکھا تھا کہ بازار میں جا کر بیٹھیں اور دیکھیں کہ تجارت کیسے ہوتی ہے، کاروبار کیسے ہوتا ہے، اور کاروبار کے طریقے کون کون سے ہیں اور کیا ہیں، تاکہ اس کی روشنی میں وہ شریعت کے احکام کو مرتب کر سکیں۔ پھر جب یونانی علوم وفنون کا دور شروع ہوا تو ائمہ اسلام کی بڑی تعداد نے یونانی علوم وفنون کو حاصل کیا۔ فلسفہ، منطق، ریاضی، اس راستے سے آنے والی گمراہیوں کا سد باب کیا۔ امام غزالی، امام رازی، ابن تیمیہ، یہ وہ شخصیتیں ہیں جنھوں نے یونانی گمراہیوں کی اس طرح موثر تردید کی کہ کوئی بڑے سے بڑا یونانی فلسفی اور منطقی، اسلام کے کسی بھی حکم پر اعتراض نہیں کر سکا۔ حتیٰ کہ خالص اسلامی علوم کو اس طرح منطقی دلائل سے مرتب اور منظم کر دیا کہ اس زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا منطقی اصولِ فقہ پر یہ اعتراض نہیں کر سکتا تھا کہ اس کا فلاں مسئلہ یا فلاں اصول غیر منطقی ہے۔ علم کلام کو اس طرح مرتب کیا کہ مسلمانوں کے کسی عقیدے کو کوئی بڑے سے بڑا یونانی غیر عقلی قرار دے نہیں سکا۔
ان مثالوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فقہاے اسلام رائج الوقت تجارت اور معیشت، رائج الوقت تصورات، رائج الوقت الحادی نظریات اور رجحانات سے پوری واقفیت حاصل کر کے شریعت کے احکام کو مرتب کر تے تھے۔ فقہاے اسلام نے فقہ المعاملات کے احکام کو مرتب کیا۔ فقہ المعاملات کے احکام کی ترتیب صحابہ کے زمانے سے شروع ہو گئی تھی۔ تابعین میں بعض حضرات نے فقہ المعاملات میں تخصص کیا۔ امام احمد بن حنبل نے ایک جگہ لکھا ہے کہ بیوع کے احکام سب سے زیادہ مرتب انداز میں سعید بن المسیب کے ہاں ملتے ہیں۔ سعید بن المسیب مشہور تابعی ہیں، سیدالتابعین کہلاتے ہیں اور طویل عرصے تک سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد رہے ہیں۔ انھوں نے خاص طور پر ان احادیث اور سنت کے ان احکام پر غور وخوض کیا، جن کا تعلق بیوع اور تجارت سے تھا۔ ایسا ولی کامل، ایسا محدث جلیل جس کو بہت سے حضرات نے سید التابعین قرار دیا ہے، جس نے سالہاسال صحابہ کرامؓ سے کسب فیض میں گزارے، اس نے تجارت اور معیشت میں آج کل کی اصطلاح کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تخصص پیدا کیا۔ اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تجارت اور بیوع اور کاروبار کی اہمیت کو صحابہ اور تابعین نے پورے طور پر پہچانا۔ بہت سے حضرات نے اس میں تخصص پیدا کیا اور اس تخصص کی بنیاد پر ائمہ مجتہدین نے احکام مرتب کیے۔
ان حضرات نے صرف احکام مرتب کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ انھوں نے ان احکام کی بنیادیں دریافت کیں۔ شریعت نے کسی چیز کو حرام قرار دیا ہے تو کیوں حرام قرار دیا ہے؟ اس کی علت کیا ہے؟ وہ علت کہاں کہاں پائی جاتی ہے؟ اس علت کو مختلف صورتوں پر منطبق کرنے کے قواعد کیا ہیں؟ خود مال (capital) جس کو کہتے ہیں، وہ کیا ہے؟ بیع کیا ہے؟ تجارت کیا ہے؟ اس کی کتنی قسمیں ہیں؟ ان میں سے بہت سے مسائل وہ ہیں کہ مغربی دنیا آج بھی وہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے یہاں مدرسے میں طلبہ جو فقہ کی کتابیں پڑھتے ہیں، وہ جب کتاب البیوع شروع کرتے ہیں تو پہلے دو تین صفحات میں مال متقوم اور مال غیر متقوم کی بحث آتی ہے۔ یہ تصور آج مغربی قانون میں اس وقت بھی موجود نہیں ہے کہ مال کی پہلے دن سے دو قسمیں کی جائیں۔ ایک وہ مال ہے جس کی مالیت کو، جس کی ملکیت کو جس کے تصرف اور جس سے استفادے کو قانون جائز تصور کرتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس کو جائز تصور نہیں کرتا۔ آج مغربی دنیا اس چیز کی ضرورت محسوس کرتی ہے، لیکن اس کے پاس یہ تصور نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں متقوم اور غیر متقوم کا تصور اسلام میں موجود ہے۔
مثال کے طو رپر پاکستان کے قانون کی رو سے کسی کو ہیروئن رکھنے کا اختیار نہیں ہے۔ ہیروئن کی خرید و فروخت بھی ناجائز ہے۔ وہ شریعت کی رو سے بھی مال غیرمتقوم ہے، اس لیے کہ مسکر ہے، اور موجودہ قانون میں بھی وہ مال غیر متقوم کہی جا سکتی ہے۔ کوئی شخص اپنی ملکیت میں توپ نہیں رکھ سکتا، ٹینک نہیں رکھ سکتا۔ اگر میں ٹینک خریدوں تو وہ خرید بھی ناجائز اور جو بیچے اور فروخت کرے وہ بھی ناجائز۔ یہ بات آج مغربی دنیا کو پریشان کر رہی ہے کہ اگر کسی چیز کی خرید وفروخت پر پابندی لگائی جائے تو کس بنیاد پر لگائی جائے؟ کبھی کہتے ہیں کہ عامۃ الناس کی فلاح میں نہیں ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ اس سے نقصان ہوگا۔ مختلف اسباب بیان کرتے ہیں، لیکن کوئی سبب یا کوئی ایسی ٹھوس اور جامع بنیاد نہیں ہے جو ان تمام جزئیات کو محیط ہو کہ جن جزئیات پر پابندی لگانا مقصود ہے۔ فقہاے اسلام نے، اللہ تعالیٰ ان کو جزاے خیر دے، متقوم اور غیر متقوم، دو اصطلاحات سے اس مسئلے کو حل کر دیا۔
سود کا مسئلہ آپ کو اور تاجروں کو اکثر پیش آتا ہے۔ سود میں غلط فہمیوں کی ایک وجہ اصطلاحات کا نہ ہونا بھی ہے۔ فقہاے اسلام نے مال کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ یہ سب فقہ المعاملات کے مباحث ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک مال وہ ہوتا ہے جس کو استعمال کیا جائے اور ایک مال وہ ہوتا ہے جس کو خرچ کیا جائے۔ یہ پگڑیاں رکھی ہوئی ہیں، میں آپ سے لے کر سر پر باندھ لوں اور تقریر کے بعد واپس کردوں تو یہ استعمال ہے۔ آپ کی اس پگڑی کا کچھ نہیں بگڑا۔ جیسی میں نے لی تھی، ویسی ہی واپس کر دی۔ اس کو شریعت کی اصطلاح میں ’عاریت‘ کہتے ہیں۔ ایک مال وہ ہے کہ جب تک میں اس کو خرچ کر کے فنا نہ کر دوں، میں اس سے استفادہ نہیں کر سکتا۔ میں آپ سے ایک گلاس پانی مانگوں تو پانی کا کوئی فائدہ نہیں جب تک میں اس کو پی نہ لوں یا اس سے ہاتھ دھو کر اس کو بہا نہ دوں، یہ ’استہلاک‘ ہے۔ ان دونوں کے احکام میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ شریعت میں ایک کو ’عاریت‘ کہتے ہیں، ایک کو ’قرض‘ کہتے ہیں۔ انگریزی میں دونوں کے لیے borrow (یعنی اُدھار) کی اصطلاح ہے۔ آپ لائبریری سے بھی کتاب اُدھار لیتے ہیں اور بنک سے رقم بھی اُدھار لیتے ہیں۔ اب جو اس فرق سے واقف نہیں ہے، وہ کہتا ہے کہ میں کتاب اُدھار لے کر اس کا کرایہ دے دوں تو آپ اس کو جائز کہتے ہیں، اور بنک سے پیسے اُدھارلے کر اس کا کرایہ دوں تو آپ ناجائز کہتے ہیں! اس میں فرق کیا ہے؟ وہ اس لیے معاملے کو نہیں سمجھتا کہ اس کے ہاں یہ تصور موجود نہیں ہے، اصطلاحات موجود نہیں ہیں۔
اس طرح کے بے شمار احکام ہیں جو فقہ المعاملات میں فقہا نے مرتب کیے۔ فقہ المعاملات میں یہ بتایا گیا کہ مال کی تعریف کیا ہے؟ مال کس کو کہتے ہیں؟ جس چیز کو مال کہتے ہیں، اس کی خرید وفروخت کے احکام کیا ہیں؟ پھر مال اور ثمن میں کیا فرق ہے؟ یعنی جس کو آج کل زر (money) کہتے ہیں، وہ کیا ہے؟ یہ بات آپ کے لیے حیرت انگیز ہوگی کہ آج کل جو زر کی تعریف کی جاتی ہے، بعینہٖ یہ تعریف فقہاے اسلام کے ہاں موجود ہے۔ امام مالک نے کہا ہے کہ زر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ما یقتات بہ، ما یدخر بہ ہو، یعنی جس کو ذخیرہ کیا جاسکے، جس کو محفوظ کیا جاسکے۔ ادخار، یعنی Store of value یہ آج کل کی اصطلاح ہے ۔ اس کے لیے امام مالک نے ادخار کی اصطلاح استعمال فرمائی۔ امام مالک سے پہلے روے زمین پر کسی قانون دان کے ذہن میں یہ تصور نہیں آیا تھا۔ یہ نہ رومن قانون میں، نہ ہندو قانون میں اور نہ یہودی قانون ہی میں ہے، مگر شریعت میں موجود ہے۔ یہ تصور امام مالک نے دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے ہاں تصور یہ ہے کہ ’زر‘ وہ چیز ہے جو گنی جا سکے، تولی جا سکے ، ناپی جا سکے۔ یہ تصور بھی آج کل ’زر‘ کی تعریف میں موجود ہے۔ اس لیے اپنے اس علمی ذخیرے کی قدر کرنا ہمیں سیکھنا چاہیے۔ اس ذخیرے سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے، لیکن ہمارے تاجر حضرات ان اصطلاحات سے اکثر واقف نہیں ہوتے جو فقہا نے استعمال کی ہیں۔ ہمارے علما اور مفتی حضرات ان اصطلاحات سے واقف نہیں ہوتے جو مارکیٹ میں استعمال ہو رہی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک درمیانی واسطہ ہو۔ وہ درمیانی واسطہ نوجوان علما ہیں جنھوں نے آج کل کا بزنس ایڈمنسٹریشن بھی سیکھ لیا ہے اور شریعت کے وہ پہلے سے متخصص بھی ہیں۔ یہ حضرات اس نئے دور کے نقیب ہیں، ایک نئے دور کے مناد ہیں جس کی اُمت مسلمہ منتظر ہے۔ امت مسلمہ ۱۰۰ سال سے اس کی منتظر تھی!
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انتقال سے چند مہینے پہلے جامعہ ملّیہ کا افتتاح فرمایا تھا۔ جامعہ ملّیہ آج ہندستان کی ایک عام سیکولر یونی ورسٹی بن گئی یا بنا دی گئی ہے۔ جامعہ ملّیہ کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ بنایا جائے جو علی گڑھ اور دارالعلوم دیوبند کا سنگم ہو، جس میں علی گڑھ کی اور دارالعلوم دیوبند کی تمام خصوصیات موجود ہوں۔ شیخ الہند اس کا افتتاح کرنے کے لیے دیوبند سے علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ علی گڑھ میں جامعہ ملّیہ کا افتتاح ہوا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر اس کے پہلے امیر، یعنی چانسلر مقرر ہوئے تھے اور انھوں نے علامہ اقبال سے گزارش کی تھی کہ آپ اس کے پہلے وائس چانسلر ہو جائیں۔ اس سے آپ اندازہ کریں کہ ۱۹۱۹ء، ۱۹۲۰ء میں یہ احساس حضرت شیخ الہند میں موجود تھا جو دار العلوم دیوبند کے پہلے طالب علم تھے۔ انھوں نے ۱۹۱۹ء میں اس کا احساس کیا تھا۔ آج ۲۰۱۰ء میں ہم اس احساس کا عملی مظہر دیکھ رہے ہیں۔ ہم نے ۹۰ سال کی تاخیر کر دی ہے۔ اگر یہ تاخیر نہ ہوتی تو شاید آج ہمارے دوستوں کو یہ شکایت کرنے کا موقع نہ ملتا کہ ہم دنیا سے پیچھے ہیں، ہم دنیا کے مقلد ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کارساز ہے۔ وہ اس تاخیر سے درگزر فرمائے اور اس تاخیر کے نقصانات سے ہمیں محفوظ رکھے۔
اسلام میں تجارت کے احکام فقہ اسلامی کا سب سے بڑا حصہ ہیں۔ فقہ اسلامی کے اگر بڑے بڑے اجزا بیان کیے جائیں تو ایک جز عبادات کا ہے۔ نماز روزہ تعلق مع اللہ کے لیے ہے۔ اسلام کا بنیادی مقصد ہی اللہ کی عبادت ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (الذاریات ۵۱:۵۶)۔ اس لیے عبادت الٰہی کے لیے جو احکام ہیں، وہ بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنی تجارت کے احکام رکھتے ہیں، بلکہ ترتیب میں وہ سب سے پہلے ہیں۔ اس کے بعد ایک مسلمان کی تربیت اور تعلیم کا، مسلمان کی تیاری کا، نئی امت مسلمہ کی نشوونما کا جو سب سے بڑا مرکز اور درس گاہ ہے، وہ ماں کی گود ہے، گھر ہے اور ماں باپ کی سرپرستی ہے۔ نانی اور دادی کی لوریاں ہیں۔ جب تک یہ درس گاہ مسلمانوں میں محفوظ تھی، مسلمان گھر خطرے سے محفوظ تھے۔ آج یہ درس گاہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ اس لیے شریعت نے اس درس گاہ کے احکام دیے ہیں۔ قرآن پاک کی آیاتِ احکام میں ایک تہائی کا تعلق عبادات سے ہے اور ایک تہائی کا تعلق عائلی احکام وقوانین سے ہے۔
فقہ المعاملات میں فقہاے اسلام نے جتنی تفصیل سے معاملات کو مرتب کیا ہے، اس تفصیل، وسعت اور اس گہرائی میں فقہ اسلامی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ عبادات میں تو کسی تفصیل کی زیادہ گنجایش نہیں ہے۔ عبادات میں نہ کوئی نئی عبادت وضع کی جا سکتی ہے نہ کوئی نئی صورت وضع کی جا سکتی ہے۔ اس لیے عبادات میں تو جوحدود اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اسی کے اندر رہنا پڑے گا اور اس کے احکام بھی محدود ہوں گے۔ اس کے باوجود فقہاے اسلام نے ہزاروں صفحات پر مشتمل سیکڑوں جلدیں تیار کر دیں ۔ لیکن معاملات کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح ہیں: الاصل فی المعاملات الاباحۃ۔ آپ جو بھی نیا کاروبار یا تجارت کرنا چاہیں، اگر اس میں کوئی چیز شریعت سے متعارض نہیں ہے تو وہ جائز ہے۔ اس میں ربا نہیں ہے، اس میں قمار نہیں ہے، اس میں غرر نہیں ہے، فلاں فلاں برائیاں نہیں ہیں تو وہ جائز ہے، خواہ اس کا نام جو بھی ہو۔ چونکہ اس میں راستہ کھلا ہوا ہے، میدان کھلا ہوا ہے، اس لیے فقہاے اسلام نے ہر دور میں نئی شکلیں مرتب کیں۔ جب کوئی نئی شکل تجارت کی آئی، فقہا نے اس کے احکام مرتب کیے۔
امام محمد اور امام مالک اور امام شافعی کے ہاں بیع الوفاء کا ذکر نہیں ہے۔ بیع الوفاء کے نام سے ایک بیع کا آغاز پانچویں چھٹی صدی ہجری میں ہمارے وسطی ایشیا، یعنی، سمرقند، بخارا، ماواء النہر میں ہوا تو فقہا نے اس کے احکام مرتب کر دیے۔ سوکرہ، یعنی سکیورٹی یا انشورنس کا مسئلہ اٹھارھویں انیسویں صدی میں سامنے آیا تو علامہ ابن عابدین نے سوکرہ کے احکام مرتب کر دیے۔ ردالمختار میں سوکرہ کا باب موجود ہے، اس کے احکام موجود ہیں۔ اس لیے تجارت اور معیشت کے ابواب فقہ اسلامی میں مسلسل وسعت پذیر ہوتے رہے ہیں اور ہر دور میں اس میں نئے اضافے ہوتے رہے ہیں۔ جو بنیادی تصورات تھے، ان کی روشنی میں فقہاے اسلام نے احکام مرتب فرمائے ہیں۔ ایک زمانہ تھاکہ ان قواعد کی تعداد ۲۵، ۳۰ سے زیادہ نہیں تھی، لیکن اب صورت یہ ہے کہ اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) کی اسلامک فقہ اکیڈمی نے ایک پروگرام بنایا کہ ان قواعد کو مرتب کروایا جائے جن کا تعلق معاملات سے ہے۔ ان سے پہلے ایک اور سعودی ادارے نے کچھ علما کو مقرر کیا کہ معاملات سے متعلق قواعد فقہیہ (Legal Maxims) مدون کریں۔ احکام، یعنی Rules of Law نہیں، وہ تو بے شمار ہیں۔ چنانچہ وہ ۱۲ جلدوں میں مدون ہوئے ہیں۔ انگریزی کی کوئی کتاب جس میں سارے لیگل میکسم جمع ہوں، دو سے زائد جلدوں میں نہیں ہے۔ یہاں صرف معاملات کے لیگل میکسم ۱۲ جلدوں میں مرتب ہیں، چھپ چکے ہیں۔ او آئی سی کی فقہ اکیڈمی کے صدر نے خود مجھے بتایا کہ ہم نے یہ کام شروع کروایا ہے۔ اب تک جو مواد ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۱۰۰جلدوں میں یہ کام مرتب ہوگا۔ اس سے آپ فقہ المعاملات کی وسعت کا، گہرائی اور تعمق کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ فقہ المعاملات میں دو سال، تین سال یا چار سال میں تخصص کیسے ہوگا۔ میرے خیال میں تو اس میں چار پانچ نسلیں لگانی چاہییں۔ تین نسلیں ہوں جو طے کریں۔ پہلے دادا پڑھے، پھر بیٹا پڑھے، پھر پوتا پڑھے تو جا کے شاید تخصص ہوسکے گا۔ جس قانون کے قواعد فقہیہ، ۱۰۰ جلدوں میں آرہے ہیں، اندازہ کریں کہ اس میں مہارت کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا۔ (جامعۃ الرشید کراچی میں تقریبِ تقسیم اسناد کے موقع پر خطاب، بہ شکریہ ماہنامہ الشریعۃ، گوجرانوالہ، جنوری-فروری ۲۰۱۱ء)