جولائی ۲۰۱۱

فہرست مضامین

پاکستان کا معاشی بحران اور بجٹ دلدل سے نکلنے کا راستہ

پروفیسر خورشید احمد | جولائی ۲۰۱۱ | اشارات

Responsive image Responsive image

یہ ایک المیہ ہے کہ ایک مدت سے پاکستان میں سالانہ بجٹ عوام کے لیے خوشی کا کوئی پیغام لانے سے قاصر رہا ہے۔ بجٹ آنے سے پہلے خوف اور اس کے اعلان کے بعد مایوسی قوم کا مقدر بن گئے ہیں۔ بجٹ سازی کے عمل میں عوام، سول سوسائٹی کے اہم ادارے، حتیٰ کہ معیشت کے ان عناصر کا، جن پر اسے اثرانداز ہونا ہے (stake holders) کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ اور اگر چند نمایشی مشاورتی نشستوں کا تکلف کیا بھی گیا، تب بھی بجٹ پر ان کے نقوش کہیں بھی     نظر نہیں آتے۔ اس سال کا بجٹ بھی غیرمعمولی معاشی حالات کے باوجود، معمول کے مطابق  روایتی کارروائی کی تصویر پیش کر رہا ہے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ بجٹ محض حکومت کی آمد و خرچ کا ایک میزانیہ نہیں   ہوتا بلکہ وہ دستور کے دیے ہوئے معاشی، سیاسی اور معاشرتی پالیسیوں کے فریم ورک میں اور اربابِ حکومت کے عوام سے کیے ہوئے وعدوں اور ان کی ضروریات اور عزائم کی تکمیل کے لیے جامع پالیسیوں یا ان کے فقدان کا مظہر ہوتا ہے۔ بجٹ اعداد و شمار کا کھیل نہیں ہوتا اور اس کا کام  جمع و تفریق کے ذریعے مالی بیلنس شیٹ کی خانہ پُری بھی نہیں ہوتی۔ حکومت کے اخراجات کی ہرمد اور آمدنی کا ہرذریعہ ایک معاشی پالیسی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور اس کے دُوررس اثرات ملک کی معیشت اور عوام کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ بجٹ یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ حکومت کی ایک پورے سال کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے ، اور اس کارکردگی کی روشنی میں اگلے سال بلکہ سالوں کے لیے صحیح منصوبہ بندی کی جائے، مستقبل کے لیے مناسب پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی تشکیل ہو اور ان پر عمل درآمد کے لیے جن مالیاتی وسائل کی ضرورت ہے، ان کی فراہمی اور خرچ کی مدات اور  مقدار کا حقیقت پسندانہ پروگرام قوم اور اس کے نمایندوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کی تائید اور توثیق سے اگلے سال کا تفصیلی پروگرام مرتب کیا جائے۔

  • یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں بجٹ سازی کا عمل چار سے چھے مہینوں پر محیط ہوتا ہے۔ ایک ایک مد پر کھل کر بحث کی جاتی ہے اور جمہوری نقدواحتساب کے ذریعے آخری فیصلے کیے جاتے ہیں اور اس اصول پر سختی سے عمل ہوتا ہے کہ کوئی ٹیکس منتخب نمایندوں اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر عائد نہ کیا جائے اور تمام اخراجات ان حدود کے اندر ہوں جو پارلیمنٹ نے طے کی ہیں۔ ایک وزارت یا پروجیکٹ کے لیے طے شدہ رقوم کے اندر جزوی تبدّل تو انتظامیہ کرسکتی ہے لیکن کوئی نئی تخصیص (appropriation) پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ اس کو no taxation without legislation (قانون سازی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں) کے مشہورِ زمانہ اصول کے نام سے جانا جاتا ہے۔

پاکستان میں بجٹ سازی کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں پارلیمنٹ میں بمشکل تین ہفتے اور صوبائی اسمبلیوں میں تو ایک ہی ہفتے میں بجٹ پیش ہوکر منظور ہوجاتا ہے اور ارکانِ پارلیمنٹ اِلاماشاء اللہ بجٹ کے موقعے پر فراہم کی جانے والی دستاویزات کی ورق گردانی کی زحمت بھی نہیں کرتے اور پارٹی کے حکم کے تحت بجٹ منظور کردیتے ہیں۔ عوام اور میڈیا کی آہ و بکا کا کوئی اثر نہ حکومت پر ہوتا ہے اور نہ عوام کے نمایندے ہی عوام کا مقدمہ لڑنے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ یہ بڑی ہی مایوس کن صورت حال ہے جس سے عوام کا اعتماد سیاسی قیادت پر بُری طرح مجروح ہورہا ہے اور ملک و قوم کو معاشی بحران کے گرداب سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔

ملک کے دستور (دفعہ ۸۴) میں ایک اہم سقم یہ ہے کہ حکومت کو بجٹ کے باہر اخراجات کی آزادی بھی حاصل ہے جسے ضمنی گرانٹ کے نام پر ہرسال بجٹ کے موقعے پر سندِجواز دے دی جاتی ہے اور اس طرح حکومت کو پارلیمنٹ اور بجٹ دونوں کا مذاق اُڑانے کی کھلی چھٹی حاصل ہے۔ اس سال (۲۰۱۱ء-۲۰۱۰ء) بھی بجٹ میں کل حکومتی اخراجات کے لیے ۱۸۹۱؍ارب روپے کی حد مقرر کی گئی تھی مگر حکومت نے اس سے ۳۸۷؍ارب روپے زیادہ خرچ کیے جو بجٹ کا ۴ء۲۰ فی صد بن جاتا ہے۔ یہ اس وقت جب کہ آمدنی کی مد میں جو متوقع رقم رکھی گئی تھی اصل ٹیکس کی آمدنی اس سے ۱۰۰؍ ارب روپے کم ہوئی۔ یہ مالیاتی بے قاعدگی (fiscal indiscipline) کی بدترین مثال ہے اور پارلیمنٹ نے سینیٹ کے انتباہ کے باوجود چند منٹ میں اس اضافی گرانٹ کی منظوری دے دی اور حکومت کا کوئی احتساب نہیں کیا۔

پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کو، اقتدار میں آئے ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں۔ حکومت نے اپنا چوتھا بجٹ پیش کیا ہے اور توقع تھی کہ اس وقت ملک جس معاشی بحران میں مبتلا ہے، اس بجٹ میں اس سے نکلنے کے لیے کوئی مؤثر اور حقیقت پسند پالیسی اور اس پر عمل کا مکمل نقشۂ کار پیش کیا جائے گا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!

پیپلزپارٹی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنے اقتدار کے چاروں ادوار میں کوئی ایسا وزیرخزانہ پسند نہ آیا جو معاشیات پر گہری نظر رکھتا ہو اور ملک کی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاسی نعرے بازی اور نظریاتی شوروغوغا تو بہت تھا مگر افسوس ہے کہ ان ساڑھے پانچ سالوں میں کوئی ٹھوس اور مربوط معاشی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی نہ ہوسکی۔ ڈاکٹر مبشرحسن نے نظریاتی اعتبار سے چند اقدام کیے لیکن معیشت پر ان کی گرفت نہیں تھی۔ سارا نظام بیوروکریسی کے ہاتھوں میں تھا اور غلام اسحاق خاں، وی اے جعفری اور ایم ایم احمد اصلی کرتا دھرتا تھے۔ محترمہ بے نظیر کے اقتدار کے دونوں ادوار میں وی اے جعفری حالات کے کرتا دھرتا رہے اور احسان الحق پراچہ اور نوید قمر کو مختصر مدت کے لیے  وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری ملی مگر دونوں کوئی ابتدا بھی نہ کرسکے۔ زرداری گیلانی کے تازہ ادوارِ اقتدار میں بھی پارٹی درآمد شدہ وزارے خزانہ کی مرہونِ منت ہے اور پاکستان ورلڈبنک، آئی ایم ایف اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے دیے ہوئے خطوط پر چلنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ رہی سہی کسر امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ اور مفاد پرست اربابِ اقتدار کی نااہلی، کرپشن اور بے تدبیری نے نکال دی ہے۔ یہ تین ساڑھے تین سال معاشی اعتبار سے بدترین سال رہے ہیں۔ اس عرصے میں چار بار وزیرخزانہ تبدیل ہوئے، چار بار وزارتِ خزانہ کے سیکرٹری اور تین بار اسٹیٹ بنک کے گورنر بدلے۔ معاشی منصوبہ بندی کمیشن میں بھی اُکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی اور معاشی امور سے  متعلقہ نصف درجن وزارتوں میں کوئی ہم آہنگی موجود نہ تھی۔ ہر ایک اپنی چلانے کی کوشش کرتا رہا اور معیشت کا حال بد سے بدتر ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ جناب شوکت ترین نے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی اور ملک استحکام کے نام پر معاشی جمود اور اس کے ساتھ افراطِ زر اور بے روزگاری اور غربت میں اضافے کے بھنور میں گرفتار ہوگیا۔

پیپلزپارٹی کے اقتدار کے اس دور میں معاشی ترقی کی رفتار پاکستان کی تاریخ میں پست ترین رہی ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں ترقی کی رفتار چھے اور سات فی صد تک رہی۔ ۱۹۵۰ء سے ۲۰۰۶ء تک کے معاشی حالات کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ سارے نشیب و فراز اور باربار کی امریکی پابندیوں کے باوجود اوسط رفتار ترقی سالانہ پانچ فی صد رہی۔ یہ صورتِ حال پاکستان کی ۶۴سالہ تاریخ میں پہلی بار رونماہوئی ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں اوسط رفتار ترقی ۵ء۲ فی صد رہی ہے جو آبادی میں ۱ء۲ فیصد اضافے کے بعد ترقی کے مفقود ہونے اور حقیقی جمود (stagnation) کی غماز ہے۔ اس پر مستزاد مہنگائی اور افراطِ زر ہے جس کی اوسط شرح ان چار برسوں میں ۱۵ فی صد رہی ہے اور اشیاے خوردونوش کی مہنگائی کا اوسط سالانہ ۱۸فی صد رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ان  چار برسوں میں غربت میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ وہ افراد جن کی روزانہ آمدنی ۲۵ء۱ ڈالر (۱۰۰روپے) یا اس سے کم ہے، ۲۰۰۰ء میں ۴کروڑ ۷۰ لاکھ تھی جو ۲۰۱۱ء میں بڑھ کر ۷کروڑ ۲۰لاکھ ہوگئی ہے یعنی مطلق غربت میں ۲کروڑ ۵۰لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر غربت کی حد (poverty line) کو دو ڈالر یا ۱۷۰روپے یومیہ رکھا جائے تو ۱۸کروڑ کے اس ملک میں ۱۱کروڑ افراد اس کس مپرسی کے عالم میں مبتلا ہیں۔ ملک میں عدم مساوات میں دن دونا اوررات چوگنا اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف امیرطبقہ ہے جو امیرتر ہورہا ہے۔ آبادی کا ایک فی صد ہرمہینہ اوسطاً پانچ لاکھ یا اس سے زیادہ کما رہا ہے۔ اُوپر کا ۱۰ فی صد ۵۰ ہزار ماہانہ یا اس سے زیادہ کما رہا ہے۔ دوسری طرف آبادی کا وہ ۱۰ فی صد ہے جو معیشت کے پست ترین درجے میں ہے، اس کی ماہانہ آمدنی ۲۰۰۷ روپے یا اس سے بھی کم ہے۔ ان چار برسوں میں کھانے پینے کی اشیامیں اوسط اضافہ ۷۴ فی صد ہوا ہے اور بے روزگاری میں بھی ۲۰فی صد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ بجلی اور گیس کی قلت اور مہنگائی نے حالات کو اور بھی خراب کردیا ہے۔ زراعت اور بڑی صنعت میں ترقی کی رفتار یا منفی رہی ہے یا براے نام اضافہ ہوا ہے۔

Pew ریسرچ سنٹر نے راے عامہ کا جو جائزہ ۲۱جون ۲۰۱۱ء کو شائع کیا ہے، اس کی رُو سے آبادی کے ۹۲ فی صد کا کہنا ہے کہ ملک غلط سمت میں جارہا ہے اور ۸۵فی صد نے کہا ہے ملک کی معاشی حالت خراب اور ناقابلِ برداشت ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن یہ امرہے کہ آبادی کا ۶۰فی صد مستقبل میں بھی معاشی حالات میں کسی بہتری کی توقع نہیں رکھتا۔آبادی کے ۹۷ فی صد کی نگاہ میں سب سے اہم مسئلہ مہنگائی اور۸۹ فی صد روزگار کے مواقع کے فقدان کو قراردیتا ہے۔ جرائم کے فروغ اور دہشت گردی کے اضافے میں دوسرے اسباب کے ساتھ ان معاشی حالات کا بھی اہم حصہ ہے۔ اس ملک کی تاریخ میں غربت اور افلاس تو ماضی میں بھی رہے ہیں، لیکن یہ کیفیت کبھی نہ ہوئی تھی کہ غربت کی وجہ سے اس بڑی تعداد میں لوگ خودکشی کے مرتکب ہوں، اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں ہلاک کر دیں یا سرعام ان کو بیچنے پر مجبور ہوجائیں۔ ایک طرف حالات کی یہ سنگینی ہے اور دوسری طرف اربابِ اقتدار کا یہ حال ان کے عیش و عشرت میں کوئی کمی نہیں۔ ان کی شہ خرچیاں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بدعنوانی، کرپشن اور قومی دولت کے غلط استعمال کا بازار گرم ہے۔ تعجب ہے کہ جب آبادی کے ۷۵ فی صد کی یومیہ آمدنی ۱۷۰ روپے یا اس سے کم ہے صرف     ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم کا روزانہ خرچ ۲۵ لاکھ روپے ہے۔ اور صرف صدر اور وزیراعظم کے بیرونی دوروں پر خرچ ہونے والی رقم ۲؍ارب روپے ہے___ یعنی روزانہ ۵۵لاکھ روپے۔

ایک طرف عوام کی یہ حالت زار ہے اور دوسری طرف قومی خزانے کو کس طرح لوٹا جارہا ہے اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ورلڈبنک کے اندازوں کے مطابق ٹیکسوں کی چوری سالانہ ۱۰۰۰؍ ارب روپے سے ۱۲۰۰؍ ارب روپے ہے۔ ایف بی آر کے حساب سے جو ٹیکس ادا ہورہا ہے اس کا ۷۹ فی صد چوری ہو رہا ہے۔ ورلڈبنک کے مطابق یہ تناسب ۶۹ فی صد ہے۔ اگر صرف اس ٹیکس چوری کا ۵۰ فی صد وصول کرلیا جائے تو بجٹ کا خسارہ ختم ہوسکتا ہے۔

زندگی کے ہرشعبے میں کرپشن کا راج ہے۔ ورلڈبنک اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اندازے کے مطابق ۳۰۰؍ارب روپے سے ۶۰۰؍ارب روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں۔ ناقص کارکردگی اور ضیاع (leakages) ان پر مستزاد ہیں۔ حالات ابتری کی کس انتہا پر ہیں، اس کااندازہ    اس سے کیجیے کہ اے جی پی آر کی سرکاری رپورٹ کے مطابق اس حکومت کے پہلے سال میں صرف کھلی کھلی بے قاعدگیوں کے نتیجے میں ۳۳۰؍ارب روپے کے وہ اخراجات ہوئے ہیں جن کا کوئی جواز نہ تھا۔ سرکاری انتظام میں چلنے والے تقریباً سارے ادارے خسارے میں چل رہے ہیں۔ ان کی نااہلی اور بدعنوانی کے نتیجے میں سرکاری خزانے سے ۴۰۰ سے ۶۰۰؍ارب روپے عام آدمی کا پیٹ کاٹ کر ان کو دیے جارہے ہیں۔ وزارتِ قانون نے کسی قانونی استحقاق کے بغیر کروڑوں روپے اپنی من پسند بار ایسوسی ایشنوں کو بانٹ دیے، صرف ایک وزارت نے ۳؍ارب روپے خفیہ فنڈ کے نام پر اُڑا دیے۔ ترقیاتی منصوبوں میں ۳۰ فی صد ایسے ہیں جن کو مشکوک قراردیا گیا ہے۔ ورلڈبنک نالاں ہے کہ جس پروجیکٹ کو ۳۴ ماہ میں پورا ہونا چاہیے وہ ۶۸مہینے لے رہا ہے۔ پروجیکٹ کی لاگت میں ۱۰۰فی صد اضافہ ہوجاتا ہے۔ پلاننگ کمیشن اور  قومی معاشی کونسل کی معاشی کمیٹی (ECNEC) کی بے تدبیری کا یہ حال ہے کہ اس اعلیٰ ترین معاشی ادارے نے جو منصوبے منظور کیے ہیں ان میں سے ۸ء۲۷ فی صد ایسے ہیں جن کو منظور کردیا گیا ہے مگر ان کی کوئی تفصیلی رپورٹ موجود نہیں ہے۔ بس خانہ پُری کے لیے اعلان کردیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں منصوبے ایسے ہیں جن میں اربوں روپے صرف ہوگئے ہیں لیکن عملاً ان منصوبوں کے کبھی بھی   پایۂ تکمیل تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔

بجٹ اور زمینی معاشی حقائق میں کوئی ربط و تعلق نہیں۔ حکومت کی گرفت نہ معاشی زمینی حقائق پر ہے اور نہ اس کے پاس معاشی تشکیلِ نو کا کوئی واضح اور مربوط وژن ہے۔ المیہ یہ ہے کہ

رو ہیں رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

سالِ گذشتہ کے بجٹ میں جو متعین اہداف بیان کیے گئے تھے، ان میں سے تقریباً ہر ایک کے بارے میں موجودہ بجٹ اور بجٹ کے ساتھ پیش کی جانے والی دستاویزات کے مطابق وہ پورے نہیں ہوئے۔ معاشی ترقی کی رفتار، زرعی اور صنعتی پیداوار، روزگار کے مواقع، افراطِ زر کی شرح، ٹیکس کی آمدنی، بجٹ خسارے کی مقدار ___کوئی ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار کا ہدف ۵ء۴ فی صد تھا جو صرف ۴ء۲ فی صد پر رک گئی ہے۔ آزاد معاشی ماہرین کی راے میں عملاً یہ ایک فی صد سے زیادہ نہیں۔ افراطِ زر کو ۹ فی صد پر لانے کا دعویٰ تھا مگر عملاً وہ ۱۴ فی صد سے زیادہ ہے، یعنی صارفین کا قیمتوں کا اشاریہ لیکن اگر تھوک قیمتوں کے اشاریے کو لیا جائے تو    وہ ۲۹ء۲۳ فی صد تھا۔ GDP تقلیلِ زر ۱۹ فی صد ہے جو افراطِ زر کو ناپنے کا ایک بہتر ذریعہ ہے۔ نتیجتاً ملک اس معاشی بیماری میں شدت سے مبتلا ہے جسے stagflationکہا جاتا ہے، یعنی ایک طرف معیشت میں جمود ہے تو دوسری طرف اس کے ساتھ افراطِ زر بھی عروج پر ہے اور اس طرح    ایک کریلا وہ بھی نیم چڑھا کی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔

حکومت کے اخراجات بے قابوگئے ہیں۔ ۹۹-۱۹۹۸ء میں حکومت کے کل غیرترقیاتی اخراجات ۵۴۷؍ارب روپے تھے جو ۱۱-۲۰۱۰ء میں بڑھ کر ۱۸۹۱؍ارب روپے ہوگئے اور آیندہ سال یعنی ۱۲-۲۰۱۱ء میں مزید بڑھ کر ۲۳۱۵؍ارب روپے ہوجائیںگے۔ جن میں صرف قرضوں پر سود اور ناگزیر قسطوں کی ادایگی کے لیے سالِ رواں میں ۷۹۱؍ارب روپے صرف ہوجائیں گے۔ دفاع اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے اتنی ہی رقم مزید درکار ہوگی یعنی تقریباً ۸۰۰؍ارب۔ حکومت کے انتظامی اخراجات کے لیے بجٹ کا بمشکل ۱۰ فی صد میسر ہوگا جس کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں کی ادایگی کے بعد شاہ خرچیوں کی نذر ہوگا، کاروبار مملکت چلانے کے لیے اندرونی اور بیرونی قرضوں پر انحصار ہوگا۔ یہی وجہ ہے سارا نظام ’قرض کی مئے‘ کے سہارے چل رہا ہے اور اس غریب قوم پرقرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گذشتہ ۶۰برسوں میں اندرونی اور بیرونی قرضوں کا کُل حجم ۴۷۰۰؍ا رب روپے تھا جو ان چار برسوں میں بڑھ کر ۱۰ہزار ارب روپے کی حدوں کو پھلانگ گیاہے۔ یعنی صرف ان چار برسوں میں گذشتہ ۶۰سال میں لیے جانے والے ۴۷۰۰؍ارب روپے کے قرض میں ۵۰۰۰؍ارب روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوگیاہے۔ اگر یہی طورطریقے جاری رہے تو خطرہ ہے کہ اگلے سال اس میں مزید ایک سے ڈیڑھ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔ اس لیے کہ اندازے کے مطابق اگلے مالی سال میں صرف بجٹ کا خسارہ    ایک ہزار ارب روپے سے کم نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے خسارے کی جو رقم   کم دکھائی گئی ہے خسارے کا اس کی حدود میں رہنا ناممکن ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے خسارے کو کم رکھنے کی وجہ یہ توقع ہے کہ صوبوں میں ۱۲۵؍ارب روپے زائد (surplus) ہوں گے لیکن اگلے سال کے لیے چاروں صوبوں کا بجٹ آگیا ہے اور ان میں مجموعی بچت بمشکل ایک ارب روپے بنتی ہے۔ باقی ۱۲۴؍ارب روپے کہاں سے آئیںگے؟

مرکزی حکومت کو مرکزی بنک اور کمرشل بنکوں سے قرض لینا ہوگا۔ بہت سے مصارف کم اور بہت سی آمدنی رقوم کو قابلِ وصول حد سے زیادہ دکھایا گیا ہے۔ مثلاً اسٹیٹ بنک سے نفع کو ۱۲۰۰؍ارب دکھایا گیا ہے جو ۱۶۰؍ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ ٹیکس کے ہدف کے بارے میں بھی معاشی ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس میں ۱۰۰؍ارب زیادہ لگائے گئے ہیں۔ یہی صورت    تین جی لائسنسوں کے سلسلے میں ہے جس سے ۷۵؍ارب کی متوقع آمدنی رکھی گئی ہے لیکن اس کی وصولیابی مشتبہ ہے۔ اس کے برعکس معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ بہت سے اخراجات ہیں جن کو  کم لگایا گیا ہے اور خطرہ ہے کہ جس طرح ۱۱-۲۰۱۰ء میں اضافی اخراجات ۳۸۷؍ارب روپے کے ہوئے آیندہ سال بھی بجٹ میں دکھائے ہوئے اخراجات سے ۲۵۰ سے ۳۵۰؍ارب روپے کے اخراجات زیادہ ہوںگے۔ جس راستے پر موجودہ حکومت گام زن ہے، وہ تباہی کا راستہ ہے۔ فارن پالیسی میگزین نے ناکام ریاستوں کاجو گوشوارہ اسی مہینے شائع کیا ہے، اس میں اس نے دنیا کے ۱۷۲ممالک میں پاکستان کو نیچے سے ۱۲ویں نمبر پر رکھا ہے۔ ملکوں کی درجہ بندی کے تمام ہی ادارے بدقسمتی سے پاکستان کی معیشت کی درجہ بندی برابر کم کررہے ہیں۔ بیرونی سرمایے کی آمد رُک گئی ہے بلکہ ملکی سرمایہ باہر جا رہا ہے حتیٰ کہ پاکستانی صنعت کار بنگلہ دیش اور دبئی کا رُخ کر رہے ہیں اور اربابِ حکومت کو ان حالات کا کوئی ادراک نہیں۔

معاشی میدان کے بڑے چیلنج

اس وقت معاشی میدان میں جو سب سے بڑے چیلنج درپیش ہیں وہ یہ ہیں:

۱- غربت اور اس میں مسلسل اضافے کا رجحان

۲- معاشی ترقی کی رفتار کا ٹھٹھر جانا، جس کا مظہر سرمایہ کاری میں کمی، صنعت اور زراعت میں جمود، روزگار کے مواقع کا مسدود ہوجانا، اور بے روزگاری میں اضافہ ہے۔

۳-مہنگائی اور وہ بھی ہوش ربا مہنگائی۔

۴- مالیاتی بے قاعدگی جس کے نتیجے میں اخراجات اور وہ بھی غیرترقیاتی اخراجات میں بے پناہ اضافہ اور حکومت کے ترقیاتی مصارف میں کمی۔ یہ مصارف ۱۰، ۱۵ سال پہلے قومی پیداوار کا ۷فی صد ہوا کرتے تھے اور اب ۳فی صد سے بھی کم ہوگئے ہیں۔ غیرترقیاتی اخراجات میں اضافے کے ساتھ، قرض کے بار میں اضافہ اور ٹیکس اور دوسری آمدنیوں میں خاطرخواہ اضافے کی کمی ہوئی جس کے نتیجے میں مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے اور خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا تھا جسے Fiscal Responsibility Act کہتے ہیں، اس کی رُو سے نہ صرف حکومتی خسارے کو ایک حد میں رہناتھا بلکہ ہرسال اس میں اڑھائی فی صد کمی کرنی تھی اور ۲۰۱۳ء تک بجٹ کے خسارے کو ختم کرنا تھا۔ حکومت نے ان چار برسوں میں اس قانون کے الفاظ اور روح، دونوں کی خلاف ورزی کی ہے اور آج مالیاتی خسارہ معیشت کے استحکام کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے۔

۵- بیرونی قرضوں میں اضافہ اور عالمی سطح پر ملک کو مریضانہ حد تک محتاجی سے دوچار کردینا۔ اگلے سال سے آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادایگی بھی شروع ہونا ہے۔ اس وقت ۷سے ۸؍ارب ڈالر سالانہ قرض ادایگی کی نذر کرنا پڑرہے ہیں اور قرض کی یہ ادایگی بھی نئے قرض سے کرناپڑرہی ہے۔اگربیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر جو اَب ۱۰ سے ۱۲؍ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہیں، نہ ہوتیں تو ہمارے زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر ختم ہوچکے ہوتے اور ملک خدانخواستہ دیوالیہ ہوجاتا۔ اس خطرناک صورت حال کا حکومت کو کوئی اِدراک نہیں اور اس کے مقابلے کے لیے کوئی حکمت عملی اس بجٹ میں موجودنہیں۔

۶- ملکی معیشت میں ایک اور عدم توازن حقیقی پیداوار یعنی زراعت، صنعت (بڑی، وسطی اور چھوٹی) اور توانائی سیکٹر کا سکڑجانا اور صارفین سیکٹر اور خدمات سیکٹر کا پھیلائو ہے۔یہ عدم توازن شوکت عزیز صاحب کے زمانے میں شروع ہوا اور اب خطرناک حدود میں داخل ہوچکا ہے۔ لیکن بجٹ میں اس عدم توازن کو دُور کرنے اور پیداواری سیکٹر کو فروغ دینے کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔

۷- ایک اور بنیادی مسئلہ دولت کی عدم مساوات اور اس میں مسلسل اضافہ، اور ٹیکسوں کا ایسا نظام ہے جس کا بوجھ امیرطبقات کے مقابلے میں غریبوں پرزیادہ پڑرہا ہے۔ ٹیکس کا ۶۲ فی صد بالواسطہ ٹیکس ہے جس کا بڑا بوجھ غریب عوام پر پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۷۵ فی صد غریب آبادی کو اپنی آمدنی کا ۱۰ فی صد ٹیکس میں دینا پڑ رہا ہے، جب کہ امیرطبقے کی آمدنی پر بلاواسطہ ٹیکس کا جو بوجھ ہے، وہ ان کی آمدنی کا بمشکل پانچ فی صد بنتا ہے۔ نیز امیر طبقوں کے کئی اہم حصے ایسے ہیں جو عملاً ٹیکس کے جال سے باہر ہیں۔ خاص طور پر بڑے زمین دار جن کی آمدنی میں صرف گندم کی قیمت بڑھانے سے ۳۰۰ سے ۴۰۰؍ارب روپے کا سالانہ اضافہ ہوا ہے، جب کہ ان کی آمدنی ٹیکس کی گرفت سے باہر ہے۔ غضب ہے کہ صوبوں نے جو براے نام ٹیکس بڑے زمین داروں پر لگایا ہے، اس سے نہ صرف یہ کہ پورے ملک سے بمشکل ایک ڈیڑھ ارب روپے حاصل ہوتے ہیں بلکہ سندھ میں تازہ بجٹ کے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس مد سے آمدنی ۵۰۰ ملین روپے ہورہی تھی جو اس سال کم ہوکر ۱۵۰ ملین روپے رہ گئی ہے۔ یہی حال ملک کی خریدوفروخت، اسٹاک ایکسچینج کے تاجروں اور بڑے بڑے پیشوں سے متعلق افراد کا ہے جن میں وکیل، ڈاکٹر، مشیر، اکائونٹنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ نظام ملک کی دولت کی عدم مساوات کو بڑھا رہا ہے۔ امیرامیر تر ہو رہا ہے اور غریب پر محصولات اور افراطِ زر دونوں کی وجہ سے بوجھ بڑھ رہا ہے۔

۸- کرپشن ایک ناسور کی طرح معیشت کے ہرشعبے کو کھارہا ہے اور صدرسے معمولی اہل کار تک ہرکوئی اس بگاڑ میں شامل ہے۔ آج پاکستان دنیا کے ۱۰ کرپٹ ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ بلاشبہہ یہ نظام کی خرابی ہے مگر اس بگاڑ کو اپنی انتہا تک پہنچانے میں تین چیزوں کا خاص دخل ہے: ایک قیادت کا اپنا کردار اور مثال، دوسرا انتظامی امور میں صواب دیدی راے کا عمل دخل اور تیسرے ملک میں احتساب کے مؤثر اور شفاف نظام کا فقدان۔

غضب ہے کہ نیب کا ادارہ عضو معطل بنا دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود احتساب کے نظام کو  فعال کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ ستم بالاے ستم کہ قومی اسمبلی میں احتساب کے قانون کا مسودہ دواڑھائی سال سے زیرغور ہے لیکن مفاد پرست عناصر اس کوقانون نہیں بننے دیتے۔ کرپشن کو سختی سے ختم کیے بغیر ملک کے لیے معاشی دلدل اور ظلم اور ناانصافی کے چنگل سے نکلنا محال ہے۔ کرپشن ہی کی ایک شکل میرٹ کا خون ہے۔ موجودہ حکومت کا ریکارڈ   اس سلسلے میں سب سے خراب ہے۔ اس نے جس طرح سیاسی اور شخصی مقاصد کے لیے نااہل لوگوں کو ذمہ داری کے مناصب پر لگایاہے اور عدالت، میڈیا اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے علی الرغم ہرجگہ اپنی من مانی کی ہے، اس نے انتظامی مشینری، فیصلہ سازی کے نظام اور شعبہ انتظامیات کے پورے دروبست کو تباہ وبرباد کر دیا ہے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں قانون اور ضوابط کے مطابق خالص میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہورہی ہوں۔ اس سے انتظامی مشینری کی چولیں ہل گئی ہیں اور حکومت کے نظام میں ہر جگہ نااہلی اور بدعنوانی اور بددیانتی کا بازار گرم ہے۔ حالات پہلے بھی بہت اچھے نہ تھے مگر زرداری گیلانی دور کے بارے میں تو یہ خرابیاں اپنے عروج پر پہنچ گئی ہیں۔

۹- پبلک سیکٹر کے تقریباً تمام ہی اہم کاروباری ادارے آج خسارے میں جارہے ہیں اور ان کو زندہ رکھنے کے لیے سرکاری خزانے سے ۳۰۰ سے ۴۰۰؍ارب روپے سالانہ خرچ کرنا پڑر ہے ہیں جو صریح ظلم ہے۔ اس کی وجہ سے وہ شعبہ ہاے زندگی سب سے زیادہ وسائل سے محروم ہورہے ہیں جن پر کسی ملک کے مستقبل اور خوش حال فلاحی معاشرے کا قیام اور فروغ ممکن ہے۔ یعنی تعلیم، صحت اور فنی ضرورتوں کی روشنی میںانفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ۔ ۱۵سال پہلے تعلیم پر کُل قومی دولت کا اڑھائی فی صد صرف ہو رہاتھا اور اسے چارفی صدتک لے جانے کی کوشش ہورہی تھی۔ مگر اب یہ کم ہوکر۸ء۱ فی صد رہ گیاہے۔ صحت پر اخراجات کا یہ تناسب ۸ء فیصد تھا جو اب کم ہوکر ۶ء فی صدرہ گیا ہے، جب کہ تعلیم پر قومی دولت کا کم از کم چارسے چھے فی صد اور صحت پر دو سے تین فی صد صرف ہونا چاہیے۔ سندھ کے بارے میں ایک تازہ ترین سروے کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ وہاں ۴۲ہزار اسکولوں میں صرف ۷ہزار ایسے ہیں جو حقیقت میں برسرِکار (functional ) ہیں ورنہ ایک نمایاں تعداد بھوت اسکولوں کی ہے جن کا کوئی وجود نہیں۔ ان اسکولوں کا ۷۰ فیصد ایسا ہے کہ وہاں صرف ایک کمرہ اور ایک استاد ہے اور ایک کلاس میں طلبہ کی اوسط تعداد صرف سات ہے۔ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔

خارجہ پالیسی اور معیشت

ملک کی معاشی حالت کو جن نکات میں ہم نے اُوپر بیان کیا ہے، وہ ایسے ہیں کہ انسان کا دن کا چین اور رات کا آرام مشکل ہوجاتا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ قیادت کو ان کا کوئی احساس نہیں۔ وژن، دیانت اور صلاحیت ہر ایک کا فقدان ہے۔ عوام نے جو توقعات ان سے وابستہ کی تھیں اور جس حکمرانی اور جمہوری انداز میں ملک کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری ان کو سونپی تھی، اس کو انھوں نے بُری طرح پامال کیا ہے۔ ان کی اپنی نااہلی کے ساتھ ان کی خارجہ پالیسی بھی معاشی حالات کو دگرگوں کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ امریکا دہشت گردی کے نام پر جو کھیل کھیل رہا ہے وہ سب کے لیے تباہی کا راستہ ہے۔

امریکا کے اپنے عالمی عزائم ہیں اور وہ ان کے حصول کے لیے اس جنگ کو نت نئے رنگ میں آگے بڑھا رہا ہے حالانکہ خود اسے ان ۱۰برسوں میں ۵ سے ۶ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ صرف افغانستان میں ۱۰۰؍ارب ڈالر جنگ کی آگ میںجھونک رہا ہے اور کسی ایک میدان میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہورہی اور بالآخر اب جولائی ۲۰۱۱ء سے انخلا کی حکمت عملی پر عمل شروع کر رہا ہے۔ اس کے بعد اب پاکستان کو میدانِ جنگ  میں تبدیل کرنے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس سال کے معاشی سروے میں حکومت نے خود اس معاشی قیمت کا ایک اندازہ پیش کیا ہے جو پاکستان کو امریکا کی جنگ میں شرکت کی وجہ سے برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی قوم نے پہلے دن سے اسے اپنی جنگ نہیں سمجھا اور Pew کا جو تازہ سروے آیاہے اس کی رُو سے پاکستان کی آبادی کا ۷۳ فی صد امریکا کی اس جنگ کے خلاف ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے، جب کہ اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ ۳۵ہزارپاکستانی عوام شہید ہوئے ہیں اور۶ہزار پاکستانی فوجی اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد لقمۂ اجل بنے ہیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ اور بے گھر ہونے والے ۵۰لاکھ سے زیادہ ہیں۔ یہ تو وہ نقصانات ہیں جن کا روپوں اور ڈالروں میں کوئی اندازہ ممکن ہی نہیں۔ لیکن جونقصانات بلاواسطہ اور بالواسطہ خالص معاشی میدان میں اُٹھانے پڑر ہے ہیں، ان کا اندازہ بھی ۶۸بلین ڈالر ہے جو پاکستانی روپوں میں ۸ء۵۰۳۶؍ ارب روپے ہوجاتا ہے جو اس نام نہاد امریکی امداد سے جو ان ۱۰برسوں میں کسی بھی شکل میں بشمول پاکستان کی فوجی خدمات کے عوض دی گئی ہیں پانچ گنا زیادہ ہے۔ یعنی اس جنگ میں جو امریکا کے ہر ایک ڈالر کے مقابلہ میں پاکستان کے غریب عوام نے پانچ ڈالر کا بوجھ اُٹھایا ہے۔ یہ صرف معاشی پہلو ہے____ پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کو جو نقصان پہنچا ہے اور جو انسانی تباہی و بربادی ہوئی ہے وہ اس کے سوا ہے۔

نکلنے کا راستہ

سوال یہ ہے کہ ان حالات سے نکلنے کاراستہ کیا ہے؟ بات بہت واضح ہے کہ پاکستانی قوم اور قیادت کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا اور اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکا کی اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے جلد از جلد نکلنا اور جو تباہی اس کی وجہ سے پاکستان میں ہوئی ہے کم از کم    اس سے بچنے کا آغاز۔

لیکن دوسرا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہمیں کہاں جانا ہے، ہمارے اپنے قومی مفادات کیا ہیں، ہمیں کس قسم کی معیشت قائم کرنی ہے اور پاکستان کی شناخت اور اس کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی منزل کا صحیح صحیح تعین___ اور پھر اس کی روشنی میں پوری معاشی پالیسی، معاشی منصوبہ بندی اور بجٹ سازی کی نئی راہ کا تعین، گویا امریکا کی مسلط کردہ جنگ اور پاک امریکی تعلقات کے موجودہ انتظام سے اپنے کو علیحدہ کرنا اور بالکل نئے اہداف اور مقاصد کے مطابق امریکا سے شرائط معاملہ (terms of engagment)کو ازسرِنو مرتب کرنا اور اسی طرح پاکستان کے تاریخی اور قومی مفادات کی روشنی میں معاشی حکمت عملی کی تشکیلِ نو۔

پاکستان وہ بدنصیب ملک ہے جو مادی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود آج غربت، بے روزگاری، مہنگائی، توانائی کے بحران اور قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس کی اصل وجہ اس وژن کوبھول جانا ہے جس نے تحریکِ پاکستان کو جنم دیا تھا اور مقصد سے بے وفائی جس کے لیے ملتِ اسلامیہ پاک و ہند نے قائداعظم کی رہنمائی میں عظیم قربانیاں دے کر یہ خطۂ زمین حاصل کیا تھا۔ اس کی دوسری وجہ اچھی قیادت کا فقدان، یا بہ الفاظ صحیح تر، ملک پر ایک ایسی قیادت کا غلبہ جو وژن، دیانت اور صلاحیت سے محروم ہے اور جس کے سامنے اپنے ذاتی مفادات کے سوا کوئی اور مقصد نہیں۔ وژن اور منزلِ مقصود کے باب میں مثالی نمونے کی تبدیلی (paradigm shift) اور اس کے ساتھ انقلابِ قیادت جس کے نتیجے میں ایسے لوگ برسرِاقتدار لائے جاسکیں جو پاکستان کے مقصدِ وجود سے وفادار ہوں، جودیانت اور اعلیٰ صلاحیت کا نمونہ ہوں، جو عوام میںسے ہوں اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوں اور سب سے بڑھ کر جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا اور اطاعت کا رشتہ رکھتے ہوں اور ان کے سامنے اپنے کو جواب دہ سمجھتے ہوں۔ صحیح وژن اور اہل قیادت___ یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کے ذریعے مطلوبہ تبدیلی ممکن ہے۔

استخلاف وہ بنیادی تصور ہے جس کے گرد زمین پر اسلام کے کردار اور اُمت مسلمہ کی اصل ذمہ داری کو سمجھا جاسکتا ہے۔ استخلاف کے تومعنی ہی یہ ہیں کہ مسلمان اللہ کے بندے کی حیثیت سے زندگی کے پورے نقشے کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ڈھالنے کی ہمہ گیر کوشش کرے اور انصاف کی بنیاد پر اجتماعی نظام قائم کرے۔ حضرت یوسف ؑکے اسوے سے یہ سبق ملتا ہے کہ خوش حالی کے سات سال اور خشک سالی کے سات سال زندگی کی حقیقت ہیں اورفراستِ نبوی کا تقاضا ہے کہ معاملات کو اس طرح انجام دیا جائے کہ خوش حالی کے ثمرات کو خشک سالی کے اَدوار تک پہنچایا جاسکے۔ اس کے لیے حکمت اور امانت دونوں درکار ہیں۔ استخلاف کی ذمہ داری اختیار، اقتدار اور وسائل کے صحیح استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں جو معاشی نظام قائم کیا اس میں محنت اور جدوجہد اور وسائل کی ترقی اور ان کا صحیح استعمال، ان کی منصفانہ تقسیم اور ان کے درست انتظام کے نتیجے میں خوش حالی، منصفانہ اور طاقت ور معاشرے کاقیام ہے، جس کی بنیادی خصوصیت حلال و حرام کے احترام کے ساتھ انسانوں کے درمیان انصاف کا قیام اور آزادی اور اخوت کا ایسا ماحول قائم کرنا ہے جس میںہرفرد بحیثیت خلیفہ اپنا کردار ادا کرسکے اور کوئی کسی کا محتاج نہ ہو۔ اقبال نے اسی انقلابی تصور کو دو مصرعوں میں اس طرح ادا کردیا ہے   ؎

کس نہ باشد در جہاں محتاج کس
نکتہ شرع مبیں، این است و بس

اقبال نے قائداعظم کو ملّتِ اسلامیہ ہند کی جس جدوجہد کی قیادت کی دعوت دی تھی اس کا اظہار انھوں نے اپنے ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں بڑے واضح الفاظ میں یوں کیا تھا:

ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی عمومی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کبھی غوروفکر نہیں کیا۔ روزگار کا مسئلہ زیادہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ گذشتہ ۲۰۰برسوں سے نیچے ہی نیچے جا رہے ہیں۔عام طور پر وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی غربت کا سبب ہندو مہاجنی یا سرمایہ داری ہے۔ انھیں یہ شعور نہیں ہے کہ یہ بیرونی حکمرانی کا نتیجہ ہے لیکن انھیں جلد یہ ادراک ہوکر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کے بے خدا سوشلزم کو مسلمانوں کی طرف سے زیادہ پذیرائی نہیں ملے گی۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کس طرح حل ہو؟ اور لیگ کے مستقبل کا انحصار بھی اسی پر ہے کہ وہ اس مسئلے کو کس طرح حل کرتی ہے۔

خوش قسمتی سے اس مسئلے کا حل اسلامی قانون کے نفاذ میں ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو مناسب انداز میں سمجھا اور نافذ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ہرایک کا روزگار کا حق محفوظ ہوجائے گا۔ لیکن اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد اسلامی ریاست یا ریاستوں کے بغیر ممکن نہیں۔

قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تیرھویں اجلاس میں جو دہلی میں ۲۴جولائی ۱۹۴۳ء میں منعقد ہوا تھا پاکستان کے قیام کے اس مقصد کو ان الفاظ میں اور بڑے جذبات سے اداکیا:

یہاں میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کروں گا جو ہمارے وسائل کے بل پر پھلے پھولے ہیں۔  عوام کا استحصال ان کے خون میں سرایت کرچکا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اسلام کا سبق بھول چکے ہیں۔ آپ دیہی علاقے میں کہیں بھی چلے جائیں میں خود دیہاتوں میں گیا ہوں۔ ہمارے لکھوکھا لوگ ہیں جنھیں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل ملتی ہے۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا یہ پاکستان کا مقصد ہے؟ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال کیا جاچکا ہے اور انھیں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ اگر یہ پاکستان کا تصور ہے، تو یہ میرے پیش نظر نہیں ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ۲۷ستمبر ۱۹۴۷ء ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:

اپنے ملک میں صنعت کاری کے ذریعے ہم اشیاے صرف کی فراہمی کے لیے بیرونی دنیا پر انحصار کم کرسکیں گے، لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرسکیںگے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ کرسکیں گے۔قدرت نے ہمیں صنعت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے ملک اور عوام کے بہترین مفاد کے لیے استعمال کریں۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ص ۳۷۳)

اور یکم جولائی ۱۹۴۸ء بنک دولت پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

حکومتِ پاکستان کی حکمت عملی یہ ہے کہ قیمتوں کو ایسی سطح پر مستحکم کردے جو تیار کنندہ اور صارف دونوں کے لیے منصفانہ ہو۔ مجھے امید ہے کہ اس اہم مسئلہ کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے کے لیے آپ کی مساعی بھی اس جہت کا لحاظ رکھیں گی۔

آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا، میں ان کا دل چسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیداکردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچا سکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے..... مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگاجس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ (ایضاً، ص ۵۰۰-۵۰۱)

یہ ہے پاکستان کا اصل وژن۔

دستور کی روشنی میں

۱۹۷۳ء کے دستور میں اس وژن کو اس طرح پاکستان کے اساسی قانون کا حصہ اور حکومت کے لیے پالیسی سازی کے لیے واضح ہدایت مقرر کیا گیا ہے:

دفعہ ۳ (۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:

(ا) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا ، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کااہتمام کرنا۔

(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور

(ج) زکوٰۃ (عشر) اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

دفعہ (۳۷)

(ا) پس ماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔

(ب) کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔

(ج) فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابلِ دسترس بنائے گی۔

(د) سستے اور سہل الحصول انصاف کو یقینی بنائے گی۔

(ہ) منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر یا جنس کے لیے نامناسب ہوں، مقرر کرنے کے لیے احکام وضع کرے گی۔

(و) مختلف علاقوں کے افراد کو، تعلیم، تربیت، زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہرقسم کی قومی سرگرمیوں میں، جن میں ملازمت پاکستان میں خدمت بھی شامل ہے، پورا پورا حصہ لے سکیں۔

(ز) عصمت فروشی، قمار بازی اور ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت، نشرواشاعت اور نمایش کی روک تھام کرے گی۔

(ح) نشہ آور مشروبات کے استعمال کی، سواے اس کے کہ وہ طبی اغراض کے لیے یا غیرمسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کے لیے ہو، روک تھام کرے گی، اور

(ط) نظم ونسق حکومت کی مرکزیت دُور کرے گی تاکہ عوام کو سہولت بہم پہنچانے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے کام کے مستعد تصفیہ میں آسانی پیدا ہو۔

دفعہ ۳۸- مملکت

(ا) عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کر کے، دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر وماجور اور زمین دار و مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کرے گی۔

(ب) تمام شہریوں کے لیے، ملک میں دستیاب وسائل کے اندر، معقول آرام و فرصت کے ساتھکام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی۔

(ج) پاکستان کی ملازمت میں، یا بصورتِ دیگر تمام ملازم اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمے کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔

(د) ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلاً خوراک، لباس، رہایش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی۔

(ہ) پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت، افراد کی آمدنی اورکمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی اور

(و) ربا کو جتنی جلد ممکن ہو، ختم کرے گی۔

معیشت کی اسلامی تشکیل

اقبال اور قائداعظم کے بیانات اور دستورِ پاکستان میں وہ وژن بہت صاف الفاظ میں موجود ہے جو پاکستان کے معاشی، مالیاتی اور تہذیبی نظام کے خدوخال متعین کرتا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری قیادت ان تمام ہدایات اور اہداف کو نظرانداز کر رہی ہے اور قوم کو ایک بحران کے اور دوسرے بحران سے دوچارکر رہی ہے۔ اسلام نے پہلے دن سے تمام معاشی وسائل کو امانت قراردیا ہے اور قیادت اور عامۃ المسلمین پر لازم کیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل انسانی محنت کے ساتھ تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوں۔ بیت المال کا ادارہ دورِخلافتِ راشدہ ہی میں قائم ہوگیا تھا اور اس کا مقصد نظامِ حکومت چلانے کے لیے جو وسائل درکار ہیں ان کے حصول اور استعمال کے ساتھ معاشرے میں خوش حالی اور فلاحِ عامہ کے لیے وسائل کا صحیح صحیح استعمال یقینی بنایا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ پہلے دن سے بیت المال کے دو شعبے قائم کیے گئے___ ایک کا تعلق ’اموال المسلمین‘ سے تھا، تودوسرے کو ’اموال الصدقہ‘ قرار دیا گیا تاکہ تمام اجتماعی اور فلاحی ضرورتیں پوری ہوسکیں گی۔ ملوکیت میں خزانہ بادشاہ کی مرضی کے تابع ہوتا تھا اور حکمران کے ذاتی اموال اور عوام کے اموال میں کوئی تمیز نہ تھی۔ لیکن اسلام نے اس کو بیت المال کا مالک نہیں امین بنایا اور دورِ ملوکیت میں بھی بیت المال الخاصّہ جو خلیفہ کے ذاتی تصرف میں ہوتا تھا، اور بیت المال المسلمین جو تمام مسلمانوں کے لیے تھا، میں واضح فرق کیا جاتا تھا۔ دولت عثمانیہ تک یہ فرق نظام کاحصہ تھا۔

ان تاریخی حقائق کی روشنی میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کی معیشت کی تنظیم نو اسلامی بنیادوں پر کی جائے اور دیانت اور اہلیت کے ساتھ جو وسائل اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیے ہیں ان کوترقی دی جائے اور استعمال کیا جائے تو پاکستان چند برسوں میں دنیاکے لیے نمونہ بن سکتاہے۔ ہمیں کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس وہ وسائل موجود ہیں جن کو دیانت اور    سمجھ داری سے ترقی دے کر پاکستان کو ایک خوش حال فلاحی معاشرہ بنایا جاسکتا ہے اور ایک ایسے نظام کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتاہے جو ترقی اور خوش حالی کا ایسا نمونہ جس میں کوئی کسی کا محتاج نہ ہواور سب ایک دوسرے کے لیے تقویت کا ذریعہ بنیں۔ ترقی کا یہ راستہ خودانحصاری اورانصاف کے قیام سے عبارت ہے اور یہی ہمارے لیے نجات کی راہ ہے۔