[ہمارے معاشرے کا] تیسرا عنصر عوام پر مشتمل ہے۔ یہ ہماری قوم کا سواداعظم ہے۔ ہماری کل آبادی کا ۹۰ فی صدی، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ یہ لوگ اسلام سے گہری عقیدت اور مخلصانہ محبت رکھتے ہیں..... ان غریبوں کو کئی روگ لگے ہوئے ہیں۔
سب سے بڑا اور بنیادی روگ یہ ہے کہ جس اسلام سے یہ عشق رکھتے ہیں اس کو جانتے نہیں ہیں۔ اس کی تفصیلات سے ہی نہیں، اس کے اصول و مبادی تک سے بے خبر ہیں۔ اسی لیے ہرضال و مضل [گم راہ] شخص اسلام کا لباس پہن کر ان کو بہکا سکتا ہے۔ ہرغلط عقیدہ اور غلط طریقہ اسلام کے نام سے ان کے اندر پھیلایا جاسکتا ہے.....
اس پر مزید یہ کہ ان کی اپنی قوم کے اہلِ دماغ اور بااثر طبقوں نے انھیں اور بہت سے نئے روگ لگا دیے ہیں۔ یہ غریب تعلیم کے لیے جدید درس گاہوں میں جاتے ہیں تو وہاں زیادہ تر مخلص اور مکّار ملاحدہ، یا نیم مسلم و نیم ملحد حضرات سے ان کو پالا پڑتا ہے۔ قدیم مدارس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اکثر مذہبی سوداگروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ دینی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو خطیبوں اور واعظوں کی عظیم اکثریت انھیں گمراہ کرتی ہے۔ روحانی تربیت کے طالب ہوتے ہیں تو پیروں کی غالب اکثریت ان کے لیے رہزن ثابت ہوتی ہے۔ دنیوی معلومات کے سرچشموں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اُن اخبارات اور رسائل سے اِن کو سابقہ پیش آتا ہے جن کی بہت بڑی اکثریت ہماری قوم کے سب سے زیادہ رذیل طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ قومی اور ملکی معاملات کی سربراہ کاری کے لیے لیڈر ڈھونڈتے ہیں تو وہ زیادہ تر ملاحدہ اور نیم ملاحدہ اور مترفین کے گروہ سے نکلتے ہیں۔ اپنی معیشت کی تلاش میں رزق کے منبعوں کی طرف جاتے ہیں تو وہاں بیش تر اُن لوگوں کو قابض پاتے ہیں جنھوں نے حرام و حلال کے امتیاز کو مستقل طور پر ختم کر رکھا ہے۔ غرض، ہماری قوم کے وہ طبقے جو دراصل ایک قوم کے دل اور دماغ ہوتے ہیں اور جن پر اُس کے بنائو اور بگاڑ کا انحصار ہوا کرتا ہے، اس وقت بدقسمتی سے ایک ایسا عنصر بنے ہوئے ہیں جو اسے بنانے کے بجاے بگاڑنے پر تُلا ہوا ہے اور بنائو کی ہرصحیح و کارگر تدبیر میں مزاحم ہے۔ (’اشارات‘، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۶، عدد ۳، رمضان ۱۳۷۰ھ، جولائی ۱۹۵۱ء،ص ۷-۸)