بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰیo (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴) اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔
معاش اور معیشت کا لفظ عربی زبان کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی مستعمل ہے۔ عربی لغت میں یہ لفظ عاش، یعیش سے زندگی گزارنے کے لیے اور جینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ضنکاً کا لفظ تنگی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں: ضَنُکَ عیشہٗ کا مطلب ہے اُس کی معیشت تنگ ہوگئی (ج ۲،ص ۶۲۰)۔ معیشت کی تنگی کا یہ لفظ جب اُردو میں استعمال ہو تو اس کا ایک بھرپور مفہوم انسانی ذہن میں آتا ہے۔ ظاہری طور پر عسرت اور تنگی، اور اطمینانِ قلب اور سکینت کی دولت کا حاصل نہ ہونا بھی اس کا مفہوم ہے۔
حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر ابن کثیر میں فرماتے ہیں: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ،یعنی جو میرے احکام اور میرے رسول پر نازل کردہ احکام کی مخالفت کرے، اس سے اعراض کرے اور اسے بھلا دے اور کسی اور کے طریقۂ زندگی کو اختیار کرے، تو اُس کی معیشت تنگ ہوجائے گی۔ یہ تنگی دنیا میں ہوگی۔ اسے کوئی اطمینان حاصل نہ ہوگا، شرحِ صدر کی دولت حاصل نہ ہوگی بلکہ اس گمراہی کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوگا، اگرچہ ظاہری طور پر وہ عیش و عشرت کی حالت میں ہو۔ امام ضحاک کا قول ہے: ھو العمل السیٔ والرزق الخبیث،یہ بُرا عمل اور حرام مال ہوگا۔ یہی قول تابعی عکرمہ اور مالک بن دینار سے منقول ہے۔ (ابن کثیر، ج۳،ص ۲۲۷)
بعض تابعین کے اقوال اس حوالے سے یہ بھی ذکر کیے گئے ہیں کہ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً سے مراد عذابِ قبر ہے۔ مشہور مفسر ابن جریر طبریؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: تنگیِ گھر جگہ اور اسبابِ معیشت میں سختی کو کہا جاتا ہے۔ ھذا منزل ضنکا، جب کہ وہ تنگ ہو اور زندگی گزارنا سختی کے ساتھ ہو۔ ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے ائمہ تفسیر مختلف تابعین کی تفسیری آرا اس حوالے سے ذکر کی ہیں۔ امام قتادہ فرماتے ہیں کہ ضنک سے مراد ضیق و تنگی ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں کہ ضنک سے مراد جہنم ہے۔ مفسرین کی ایک بڑی تعداد نے اس سے مراد مال حرام لیا ہے۔(تفسیر طبری، ج۸، ص ۱۶۳)
امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی ذیل میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کافر کے لیے قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اُس کی پسلیاں آپس میں ملتی ہیں، اس کو مَعِیْشَۃً ضَنْکًا کہا گیا ہے۔(تفسیر القرطبی، ج۶، ص ۲۵۹)
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہاں (اس آیت میں) ذکر سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک بھی جیساکہ دوسری آیات میں ذکراً رسولاً آیا ہے۔ دونوں کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص قرآن سے یا،رسولؐ اللہ سے اعراض کرے، اس کا انجام یہ ہے کہ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی، یعنی اس کی معیشت تنگ ہوگی اور قیامت میں اس کو اندھا کر کے اٹھایا جائے گا۔ پہلا عذاب دنیا میں ہی اس کو مل جائے گا، دوسرا، یعنی اندھا ہونے کا عذاب قیامت میں ہوگا‘‘۔ (معارف القرآن، ج ۶، ص ۱۵۹)
مولانا امین احسن اصلاحی کے نزدیک: ’’سکونِ قلب و شرح صدر سے اس کی زندگی کے محروم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک خلا ہے جو اللہ کے ایمان کے سوا اور کسی چیز سے نہیںبھر سکتا۔ اس وجہ سے جب تک اس کو ایمان حاصل نہ ہو، کوئی دوسری چیز اس کو تسلی و طمانیت سے بہرہ مند نہیں کرسکتی۔ دوسری چیزیں خواہ وہ بظاہر کتنی ہی شان دار اور دل فریب کیوں نہ ہوں، وقتی بہلاوے کا کام تو دے سکتی ہیں لیکن قلب و روح کی بے قراری کو رفع نہیں کرسکتیں۔ جب بچہ بھوک سے روتا ہے تو اس کے منہ میں چسنی یا نپل دے کر کچھ دیر کے لیے بہلایا جاسکتا ہے لیکن وہ آسودہ اسی وقت ہوتا ہے جب ماں اس کو چھاتی سے لگاتی اور اس کو دودھ پلاتی ہے۔ اس کے بغیر اس کی بے چینی نہیں جاتی۔ یہی حال انسان کا ہے۔ وہ اپنے لیے جو اسباب و سامان بھی مہیا کرلے لیکن اگر وہ ایمان سے محروم ہے تو وہ غیرمطمئن، ڈانواڈول، اندیشہ ناک، مضطرب اور اندرونی خلفشار میں مبتلا رہے گا، اگرچہ وہ اپنی نمایشوں سے اس پر کتنا ہی پردہ ڈالنے کی کوشش کرے۔ نفس مطمئنہ کی بادشاہی صرف سچے اور پکے ایمان ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ!
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ بہت سے لوگ ایمان کے مدعی ہوتے ہیں لیکن ان کی زندگی نہایت پریشان حالی و پراگندہ حالی کی ہوتی ہے۔ برعکس اس کے کتنے ہیں جو خدا کو محض ایک وہم سمجھتے ہیں لیکن وہ بڑی بے فکری و طمانیت کی زندگی بسر کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہاں بحث ایمان کے مدعیوں سے نہیں بلکہ حقیقی اہلِ ایمان سے ہے۔ ثانیاً جن لوگوں کو خدا سے بے پروا ہونے کے باوجود ہم مطمئن خیال کرتے ہیں، ہم صرف ان کے ظاہری کروفر کو دیکھتے ہیں۔ اگر کبھی ان کے سینوں میں جھانک کر دیکھنے کا موقع ملے تب معلوم ہو کہ ان کے اندر کتنے خطرے اور کتنے خلجان چھپے بیٹھے ہیں، لیکن یہ ہر ایک کو نظر نہیں آتے۔ ان کو وہ خود دیکھتے ہیں، یا وہ لوگ دیکھ سکتے ہیں جن کے اندر ایمانی بصیرت ہو‘‘۔ (تدبر قرآنج۴، ص ۲۴۱)
مولانا عبدالماجد دریا بادی تفسیر ماجدی میں لکھتے ہیں: ’’(اسی دنیا میں) قال بہ جمع من المفسرین (کبیر) آخرت کی طرف سے بے خبر اور بے فکر اور عالمِ حکومت الٰہیہ سے منکر، قناعت و توکل کے مفہوم سے ناآشنا رہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان ساری عمر مال کی طلب میں، جاہ کی حرص میں، ’ترقی‘ کی فکر و ہوس میں، نقصان اور کمی کے غم و اندیشے میں گھل گھل کر گزارے۔ اور اس لیے آیت میں تنگی کا تعلق قلب سے ہے۔ بڑے بڑے دولت مندوں، خوش حالوں کی خودکشی کرلینے کی خبریں جو آئے دن اخباروں میں چھپتی رہتی ہیں، سب اسی تنگیِ قلب کے شواہد ہیں۔ ذکر سے مراد قرآن ہی لیا گیا ہے (معالم) لیکن بہتر یہی ہے کہ اس کو عام و وسیع معنی میں رکھا جائے اور مادی کسب و ہدایات آسمانی کو اس کے مفہوم میں شامل رکھا جائے (روح)۔ [آخرت میں اندھا اُٹھنا] یہ جسمانی بے بصری عکس ہوگی اس کی روحانی بے بصری کی، جو دنیا میں اس نے اپنے اُوپر طاری رکھی تھی‘‘۔(تفسیر ماجدی، ص ۶۵۴)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں معیشت کی تنگی تو کفار و فجار کے لیے مخصوص نہیں۔ مومنینِ صالحین کو بھی پیش آتی ہے بلکہ انبیاے کرام ؑ کو سب سے زیادہ شدائد و مصائب اس دنیا میں اُٹھانے پڑتے ہیں۔
بخاری اور تمام کتب حدیث میں بروایت سعد وغیرہ یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی بلائیں اور مصیبتیں سب سے زیادہ انبیا ؑپر سخت ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو جس درجے کا صالح اور ولی ہے۔ اس کی مناسبت سے اس کو یہ تکلیفیں پہنچتی ہیں۔ اس کے بالمقابل عموماً کفار و فجار کو خوش حال اور عیش و عشرت میں دیکھا جاتا ہے۔
اس کا واضح جواب تو یہ ہے کہ یہاں دنیا کے عذاب سے قبر کا عذاب مراد ہے کہ قبر میں اُن کی معیشت تنگ کر دی جائے گی۔ خود قبر جو اُن کا مسکن ہوگا وہ اُن کو ایسا دبائے گا کہ اُن کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں گی جیساکہ بعض احادیث میں اس کی تصریح ہے اور مسندبزار میں حضرت ابوہریرہؓ سے یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس آیت کے لفظ کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اس سے مراد قبر کا عذاب ہے۔
حضرت سعید بن جبیرؒ نے تنگی معیشت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ اُن سے قناعت کا وصف سلب کرلیا جائے گا اور حرص دنیا بڑھا دی جائے گی۔ (مظہری، ج ۴، ص ۴۵)
سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ’’دنیا میں تنگ زندگی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہوگی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہوگا۔ کروڑ پتی بھی ہوگا تو بے چین رہے گا۔ ہفت اقلیم کا فرماں روا بھی ہوگاتو بے کلی اور بے اطمینانی سے نجات نہ پائے گا۔ اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائز تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گردوپیش کے پورے اجتماعی ماحول تک، ہر چیز کے ساتھ اس کی پیہم کش مکش جاری رہے گی جو اسے کبھی امن و اطمینان اور سچی مسرت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۳،ص ۱۳۴)
[گویا]’’یہ خیال کہ خدا کے وجود کے منکر دولت میں کھیل رہے ہیں، غلط فہمی پر مبنی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کو کروڑوں روپیہ مل رہا ہو تو اس کی معیشت فراخ ہے۔ حالانکہ ارب پتی کی زندگی بھی افکار و آلام سے تنگ ہوسکتی ہے اور چٹنی روٹی کھانے والے کی روزی بھی فراخ۔ مثلاً سویڈن میں اعلیٰ درجے کی خوش حالی ہے۔ ہرشخص کو ضروریات کا سامان میسر ہے، مگر جب سے وہ ویلفیئر اسٹیٹ___ فلاحی ریاست بنا ہے وہاں کی خودکشی کا تناسب ساری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ آخر کیوں___ ؟ معلوم ہوا کہ وہاں کی معیشت تنگ ہے جبھی تو لوگ خودکشیاں کررہے ہیں___ اصل یہ ہے کہ جس کو قناعت میسر ہے، جائز طریقے سے روزی کماتا ہے اور حد کے اندر خرچ کرتا ہے، اس کی روزی ہی فراخ ہے۔ اگر روزی کمانے کی تونس نہ لگی ہو تو آدمی پیوند لگے کپڑے پہن کر بھی مطمئن اور خوش حال رہتا ہے۔ اس کے برعکس ساری دنیا کی دولت پاکر بھی اگر اطمینانِ قلب میسر نہ ہو تو اس کی روزی تنگ ہے اور اطمینان قلب اللہ کے ذکر پر منحصر ہے۔ جو آدمی خدا کو یاد رکھتا ہے اور اس کے بھروسے پر زندگی بسر کرتا ہے، اس کا دل اطمینان سے لبریز رہتا ہے اور یہی علامت حقیقی خوش حالی کی ہے‘‘۔ (سید مودودی، استفسارات، سوم، ص ۷۰)
سید قطب شہیدؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں: ’’وہ زندگی جس میں اللہ سے رابطہ نہ ہو اور جس پر اللہ کی رحمت نہ ہو، وہ تنگ ہوگی، اگرچہ بظاہر وہ بہت ہی وسیع ہو۔ یہ تنگ اس لیے ہوگی کہ اس کا رابطہ اللہ کی طرف سے کٹا ہوگا اور اللہ کی رحمت کے میدان کی طرف وہ راہ نہ پائے گی۔ اس میں حیرانی، پریشانی اور بے یقینی کی تنگی ہوگی۔ اس میں حرص اور خوف کی تنگی ہوگی۔ ڈر اس بات پر کہ جو ہے وہ چلا نہ جائے۔ غرض اس بات پر کہ ھل من مزید یوں تنگی ہوگی کہ جہاں سے نفع کی معمولی اُمید ہو انسان اس کے پیچھے بھاگتا رہے گا اور اگر ایک کوڑی بھی کہیں نقصان ہوجائے، مرجائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اطمینان وقرار صرف اللہ کے ہاں ملتا ہے۔ اسے سکون و اعتماد تب ہی ملے گا جب اس نے مضبوط رسی پکڑی ہوگی جس کے ٹوٹنے کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان، اطمینان کو طویل و عریض، گہرا اور اُونچا بنا دیتا ہے، ہمہ جہت وسعتیں پیدا کرتا ہے، اور جو اس سے محروم ہوجائے اسے ہمہ جہت مصیبت کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ غرض خلاصہ یہ ہے کہ جو میرے اس ذکر اور نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کے لیے اس دنیا میں تنگ زندگی ہوگی (اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے)‘‘۔ (فی ظلال القرآن، ترجمہ سیدمعروف شاہ شیرازی، ج۴، ص۶۴۰)
اس آیت میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے ، اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ماقبل کی آیت (۱۲۳) پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اس آیت میں انسان اور شیطان دونوں کو زمین پر بھیجے گئے واقعے کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ میری طرف سے ہدایت پہنچے گی، جو اس کی پیروی کرے گا نہ بھٹکے گا، نہ بدبختی میں مبتلا ہوگا۔ اس کے معاً بعد یہ انتباہ ہے کہ جو اس درسِ نصیحت کو نہ مانے گا اس کا مقدر ضیق کی زندگی ہوگی۔ ہر انسان جو زمین پر آیا ہے، آج بھی اس انتباہ کا مخاطب ہے اور ہمیں اس حوالے سے اپنا جائزہ و احتساب کرتے رہنا چاہیے۔ آج انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہماری زندگیاں جس ضیق میں، ہرطرح کی تنگی میں مبتلا ہیں، اس کا سبب اللہ کی ہدایت سے منہ موڑنا ہے۔ کاش! ہماری قوم توبہ کرے اور اللہ اور رسولؐ کی ہدایات کو نظرانداز کرنے کے بجاے، ان کے مطابق اپنی زندگی کے ہر دائرے کی تشکیل کرے۔