حافظ ساجد انور


حج بیت اللہ کے لیے اللہ کے مہمان پوری شان اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دَر پر حاضری دیتے ہیں۔ بلاشبہہ بیت اللہ کی سعادت عظیم سعادت ہے۔ مسلم، عاقل، بالغ اور استطاعت رکھنے والے مرد و خواتین پر اس کی فرضیت مسلّم ہے، البتہ خواتین کے لیے محرم کی موجودگی بھی شرط ہے۔
حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے خوش نصیب عموماً اس کی تیاری کے لیے سازوسامان، احرام اور سفر سے متعلق اُمور کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں، جن کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بنیادی اہمیت کے حامل اُمور کی طرف توجہ مبذول کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ذیل میں ان اُمور کا تذکرہ کیا جارہا ہے:

نیت کا استحضار

نیت قصد القلب، یعنی دل کے ارادے کو کہتے ہیں۔ نیت عمل کے ذریعے اللہ کی اطاعت اور قربت حاصل کرنے کا نام ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات میں جابجا نیت کی اہمیت اُجاگر کی گئی ہے۔ حدیث النیات میں بھی متوجہ کیا گیا کہ اعمال کی قبولیت عنداللہ کا دارومدار نیت کی درستی پر ہے۔ بخاری میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں بھی صراحت ہے کہ لوگوں کو قیامت کے دن ان کی نیتوں کے مطابق اُٹھایا جائے گا۔(بخاری، بدء الوحی، حدیث: ۱، عن عمر بن خطابؓ)
گویا کہ نیت کا بنیادی مقصد عادت اور عبادت میں تمیز کرنا ہے۔ اسی طرح نیت کے  پیش نظر ایک عبادت کو دوسری عبادت سے ممتاز بھی کیا جاتا ہے۔ آج دین سے دُوری کے اس عالم میں عبادات بھی روایت بن گئی ہیں، پھر رسم و رواج کی صورت اختیار کرگئی ہیں۔ چنانچہ ان اہم عبادات اور فریضہ کی ادایگی کے لیے جاتے وقت صرف رضاے الٰہی کی نیت کی جائے، اللہ کی خوشنودی کو مدنظر رکھا جائے اور اپنے گناہوں کی بخشش کروانے کی سعی کی جائے۔

ریا سے اجتناب

 شیطان نے اولادِ آدم ؑ کو گمراہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

ثُمَّ لَاٰتِيَنَّہُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَيْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِہِمْ۝۰ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَہُمْ شٰكِرِيْنَ۝۱۷(اعراف ۷:۱۷) پھر مَیں آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائے گا۔

یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ شیطان کبھی بھی تمام انسانوں کی گمراہی کے لیے یکساں اسلوب اختیار نہیں کرتا بلکہ ہرفرد کو اس کی مرغوباتِ نفس اور گمراہی کے اسباب کے مطابق ہی گمراہ کرتا ہے۔ بھیس بدل بدل کر اور نئے رُوپ میں آکر گمراہی کا سامان کرتا ہے۔ چنانچہ کبھی شیطان نیکوکاروں کو ان کی عبادت پر غرور کرنے، اوروں کو حقیر سمجھنے اور دکھاوے کے ذریعے گمراہ کردیتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ: میں تمھاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ چھوٹا شرک ’ریا‘ ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! چھوٹا شرک کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’ریاکاری‘۔ قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریاکاروں سے اللہ فرمائے گا ان لوگوں کے پاس جائو جن کو دکھانے کے لیے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اور دیکھو کیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔ (مسنداحمد، حدیث:۲۳۶۳۰)
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا:جب الحزن  سے اللہ کی پناہ مانگو۔
صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! جب الحزن  کیا ہے؟
آپؐ نے فرمایا کہ: ’’یہ جہنّم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ اس میں وہ لوگ ڈالے جائیں گے جو نیکی محض لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں‘‘۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
ان احادیث میں ہمارے لیے وعید ہے خصوصاً جب سے موبائل فون اور کیمرے کا استعمال بڑھا ہے، عمرہ و حج کے مناسک کی ادایگی کے دوران بھی کئی حاجی صاحبان ان کا استعمال کرتے ہیں جس سے پرہیز ضروری ہے۔

حقوق العباد کی ادایگی

اس سفرِ مقدس سے پہلے اس بات کا التزام کرنا چاہیے کہ جن لوگوں کی حق تلفی کی گئی ہو ان کے حق کی ادایگی کی جائے اور ان سے معافی تلافی کرلی جائے تاکہ یہ عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول و منظور ہوسکے۔ اسی طرح اگر کسی کے ذمے کسی کے معاملات ہوں یا قرضہ و میراث کی ادایگی باقی ہو تو تمام تر حسابات بے باک کرلیے جائیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہؓ سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ (صحابہؓ نے اپنی دانست کے مطابق فرمایا) ہم مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں، دنیا کا سازوسامان نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ میری مراد اس وقت وہ مفلس نہیں۔ میری مراد  وہ شخص ہے جو قیامت کے دن اپنے اعمال میں نمازیں، روزے، عبادات لے کر آئے، لیکن لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس کی نیکیاں لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں اور لوگوں کے گناہ  اس کے نامۂ اعمال میں ڈال دیے جائیں۔ حقیقی مفلس وہ شخص ہوگا (ترمذی، ابن ماجہ)۔ چنانچہ ہمیں حقوق العباد کی ادایگی کرکے اپنے اعمال کے اجروثواب کی حفاظت کرنی چاہیے۔

حلال کا اہتمام

رزقِ حلال کے بغیر نہ کوئی دُعا قبول ہوتی ہے اور نہ عبادت کو شرفِ قبولیت ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ آپؐ نے اس شخص کا تذکرہ فرمایا جو دُوردراز کا سفر کرکے جائے۔ اس کے بال پراگندہ، منتشر، تھکاوٹ کے آثار غالب ہوں اور وہ اخلاص و عاجزی کا پیکر بن کر بارگاہِ الٰہی میں خانہ کعبہ کے پردوں کو پکڑ کر ہاتھ اُٹھائے اور دُعائیں مانگے۔ لیکن آپؐ نے فرمایا: اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اس کی غذائیت حرام۔ پس اس کی دُعا کیسے قبول کی جاسکتی ہے؟(مسلم)
لہٰذا، حرام مال کی آمیزش سے اجتناب انتہائی ضروری ہے، وگرنہ عبادات کا اجروثواب کبھی حاصل نہ ہوگا۔ عبادت مکمل توجہ کے ساتھ ہو۔ ہر عبادت میں خشوع و خضوع اور عجزوانکسار مطلوب ہے۔ اور پھر حج بیت اللہ کی عبادات تو فقر ، عجز اور درویشی کا ایسا کامل اظہار ہیں کہ جس میں    سب ایک ہی طرح کے لباس، یعنی احرام میں ملبوس ہوں۔ وہ لباس سلا ہوا نہ ہو۔ مردوں کے سر پر کوئی چادر ٹوپی وغیرہ نہ ہو۔ سب کی صدا  لبیک اللھم لبیک ہو۔ بلاشبہہ یہ عجز و انکسار کا کامل نمونہ اور توجہ و انابت کا مکمل مظہر ہے۔ لہٰذا، عبادت کی طرف توجہ اور خشوع و خضوع کا اظہار مقصود ہے۔

مناسکِ حج کی تربیت 

حج کی تعلیمات ، مناسک اور احکام و آداب کو سیکھنے کے لیے مستند کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وزارتِ مذہبی اُمور اور بعض پرائیویٹ حج ٹور آپریٹر تربیتی پروگرامات کا انعقاد کرتے ہیں۔ ان میں شرکت کی جائے اور بھرپور استفادہ کیا جائے۔ اگر شرعی اُمور کی سمجھ نہ آئے اور بعض وضاحت طلب اُمور ہوں تو علما سے رجوع کر کے علمی رہنمائی حاصل کی جائے۔ اس حوالے سے مختلف اداروں کی ویڈیوز بھی دستیاب ہیں جن سے استفادہ مفید ہوتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ احرام کی پابندیاں ، مکروہات اور مفسداتِ حج، دم واجب ہونے کی صورتیں جاننا انتہائی ضروری ہے۔ اگر یہ اُمور پہلے سے سمجھ لیے جائیں تو دورانِ حج آسانی رہتی ہے۔ بصورتِ دیگر دورانِ حج تفصیلی نہ سہی، سرسری طور پر معلّمین سے رہنمائی ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔

دیگر فقہی احکام کی معلومات

عام طور پر اور حج کے دنوں میں خصوصی طور پر حرم میں تقریباً ہرنماز کے بعد نمازِ جنازہ    ادا کی جاتی ہے۔ نمازِ جنازہ کا طریقہ سیکھ لیں اور اپنے دیگر ہم سفر ساتھیوں کو اس بارے میں آگاہ کریں۔ حرمین میں فجر کی اذان سے قبل تہجد کی اذان دی جاتی ہے، جس کے بعد لوگ جوق در جوق مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ اس وقت کی عبادات کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ عموماً خواتین کو باجماعت نماز کے طریقے کی آگاہی نہیں ہوتی ۔انھیں اس بارے میں پہلے سے معلومات دینی چاہییں تاکہ کامل یکسوئی سے وہ عبادت کریں۔ کبھی امامِ حر م جہری نماز میں آیت سجدہ کی تلاوت کرکے     اللہ اکبر کہہ کر سیدھے سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی آگاہی اور علم ضروری ہے۔

ذی الحجہ کا پہلا عشرہ عبادات اور اللہ تعالیٰ کی طرف انابت کے حوالہ سے انتہائی اہمیت رکھتاہے۔ان ایام میں جہاں ایک طرف حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے فقر کے لباس احرام میں ملبوس ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لبیک اللھم لبیک کی صدائیں لگاتے ہیں اور اپنے ایمان کو جلا بخشتے ہیں۔ وہیں دوسری طرف اس فریضے کی ادائیگی نہ کرنے والے اہل ایمان کے لیے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترغیب و تحریض احادیث مطہرہ میں ہمیں نظر آتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مامن ایام العمل الصالح فیھا احب الی اللّٰہ من ھٰذہ الایام …یعنی الایام العشر……قالوا: یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم والاالجہاد فی سبیل اللّٰہ؟؟ قال: ولاالجہاد فی سبیل اللّٰہ الا رجل خرج بنفسہ ومالہ فلم یرجع من ذٰلک بشی ئٍ (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیک اعمال کے حوالہ سے ان دنوں سے زیادہ پسندیدہ دن اور کوئی نہیں۔ (اس سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں)۔ صحابہ کرام ؓنے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ ۔ کیا جہاد بھی اس سے بڑھ کر نہیں ہے ؟؟

آپؐ نے فرمایا :جہاد بھی اس سے بڑھ کر نہیں ہے الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور اپنا مال لے کراللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلے اور واپس کچھ نہ لے کر آئے ۔ (یعنی شہادت بھی نصیب ہو اور مال بھی خرچ ہوجائے۔)

ذی الحجہ کے ان دس دنوں کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے اور احادیث مطہرہ میں ان دنوں میں عبادات کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن بکثرت لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتے ہیں ۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا طلب گار ہوناچاہیے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اعظم الایام عنداللہ یوم النحر ثم یوم القر(احمد و ابودائود من عبداللہ بن قرطؓ) ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں عظمت والا یوم النحر (قربانی کا دن) اور یوم عرفہ ہے۔ آپؐ  نے اس دن کی سب سے بہترین دعا اسے قرار دیا ہے: لاالہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر ، ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کاکوئی شریک نہیں اسی کے لیے بادشاہت اور تعریف ہے۔ اور وہی ہرچیز پر قادر ہے‘‘۔

یوم عرفہ کا روزہ

غیر حاجی کے لیے عرفہ کاروزہ رکھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور اس کا عظیم اجر وثواب ذکر کیاگیاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں پوچھاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :یکفرالسنۃ الماضیۃ والباقیۃ  (رواہ مسلم عن ابی قتادہ ؓ)’’یہ روزہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے سال کاکفارہ بن جائے گا‘‘۔

لیکن حاجی کے لیے افضل اور مستحب یہ ہے کہ وہ یوم عرفہ کاروزہ نہ رکھے تاکہ وہ حج کے موقع پر ذکر دعا اور دیگر عبادات کا حق ادا کرسکے ۔ اور اسے کمزوری ونقاہت لاحق نہ ہو ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اُمت کی سہولت کے پیش نظر خود بھی یوم عرفہ کاروزہ نہیں رکھا۔

حضرت ام فضل بنت الحارث رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پاس چند لوگ آئے اور عرفہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روزہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اختلاف کرنے لگے۔ بعض نے کہاکہ آپؐ  روزے سے ہیں اور بعض نے کہاکہ آپؐ  روزہ سے نہیں ہیں میں نے (اصل حقیقت معلوم کرنے کے لیے ) آپؐ  کی خدمت میں دودھ کاپیالہ بھیجا۔

آپؐ  اپنے اونٹ پر سوار وقوف فرما رہے تھے ۔ آپؐ نے دودھ پی لیا (بخاری ومسلم)۔عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر اور دعائیں مسنون اور باعث اجر و ثواب ہیں۔

یوم النحر ……قربانی کادن

حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے جہاں دیگر مناسک حج کی ادایگی کرکے    اللہ تعالیٰ کا قرب اختیار کرتے ہیں وہیں غیر حاجی عام اہل ایمان کے لیے بھی اُن کی عبادت ’نحر ‘ قربانی کے وقت کی فضیلت ہے ۔ اور جانوروں کی قربانی کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کاذریعہ بتایا گیاہے اس اہم عبادت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور خشیت وللہیت ہے۔ یہ بات قابل صد افسوس ہے کہ آج جہاں دیگر عبادات بھی تدریجاً ایک رسم و روایت کی صورت اختیار کرتی جارہی ہیں وہیں قربانی کو بھی نام و نمود اور نمائش کاذریعہ بنادیاگیاہے۔

قربانی کی اس اہم عبادت میں شریعت مطہرۃ کے پیش نظر یہ ہے کہ جانور کی قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب اختیار کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (الحج۲۲:۳۷)اللہ تعالیٰ تک (قربانی کے جانور وں کا )نہ تو گوشت پہنچتاہے اور نہ ہی خون بلکہ اللہ تعالیٰ تک تمہارا تقویٰ پہنچتاہے۔

قربانی کے ذریعے ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اعزا و اقربا کے لیے صدقہ و انفاق کی کیفیت ہو اور باہم محبت ومؤدت کے تعلقات کو بڑھایاجائے۔ قربانی کاگوشت خود بھی کھانا مستحب ہے۔ قربانی کے ذریعے شعائر اسلام کااظہار اور اس کی عظمت واضح ہوتی ہے ۔ قربان کا یہ عمل حاجیوں کے ساتھ مشابہت کاعمل ہے جس میں ایک گونہ ترغیب اور تشویق کاپہلو بھی غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی کرنے والے کے لیے حاجیوں سے مشابہت کے پیش نظر اپنے بال نہ منڈوانا اور ناخن نہ کتروانا مستحب ہے۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری الہامی کتاب ہے ۔ ہر مسلمان کا قرآن کریم پر غیر متزلزل ایمان ہے۔ قرآن کریم کے ساتھ عقیدت اور وابستگی ہر مسلمان کا ایک دینی فریضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ عقیدت کے مختلف مظاہر معاشرے میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کہیں قرآن کریم کو گھر اور کاروبار کی جگہ خیروبرکت کے لیے رکھا جاتاہے تو کہیں ختم قرآن کے ذریعے اس سے فیض حاصل کیاجاتاہے ۔ مختلف معاشرتی مسائل میں اس سے کسب ِفیض کے مختلف طریقے رائج ہیں ۔ قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی جاتی ہے، دلہن کو قرآن کے سایے میں رخصت کیا جاتاہے۔ الغرض اپنے اپنے ظرف اور حالات کے مطابق لوگ قرآن کریم کے ساتھ عقیدت ، محبت اور وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔قرآن کریم کے ساتھ عقیدت ،محبت اور وابستگی کے یہ جذبات اپنی جگہ ،لیکن قرآن کریم کا نزول صرف ان اُمور کے لیے نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم کتاب کے اہم حقوق ہیں جو ہر مسلمان پر عائد ہوتے ہیں۔ ان حقوق میں قرآن کریم پر ایمان لانا، اس کی درست تلاوت کرنا ، قرآن میں غور و فکر کرنا، اللہ کی اس عظیم کتاب کے احکام پر عمل پیرا ہونا ،  قرآن کریم کی تبلیغ اور تنفیذ کے لیے کوشش کرنا شامل ہے۔

 یہاں قرآن کے صرف ایک حق، یعنی تلاوت قرآن کے حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o (المزمل ۷۳:۴) ’’اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو‘‘۔ قرآن کریم کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھنے سے دل میں سرور اور تازگی پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دلوں کااطمینان اور سکون قرآن کی تلاوت میں رکھاہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :’’بنی آدم کے دلوں پر اس طرح زنگ لگ جاتاہے جس طرح  پانی لگنے سے لوہے پر زنگ آجاتاہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ دلوں کے اس زنگ کو دُور کرنے کا    کیا طریقہ ہے ؟آپؐ نے ارشاد فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا۔

قرآن کریم کی تلاوت کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ ٹھیر ٹھیر کر خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کی جائے ۔ الفاظ کو ٹھیک طریقے سے ادا کیاجائے تاکہ سننے والا بھی سمجھ سکے۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کے بارے میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کاایک ایک حرف واضح ہوتاتھا۔

سید مودودیؒ تلاوت کے آداب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’تیزتیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلام الٰہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کاذکر ہے تو اس کی عظمت وہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہوجائے ۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کاحکم ہے یا کسی چیز سے منع کیاگیاہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیاہے اور  کس چیز سے منع کیا گیاہے ۔ غرض یہ کہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے ‘‘۔ (تفہیم القرآن ، جلد ششم ، ص۱۲۶-۱۲۷)

قرآن کریم کی تلاوت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایک حرف کے بدلے میں دس دس نیکیوں کا وعدہ کیاگیاہے ۔ سنن ترمذی کی روایت میں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:’’جو شخص کتاب اللہ کے ایک حرف کی تلاوت کرے اسے ہرحرف کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ ہر نیکی دس نیکیو ں کے برابر ہوگی ۔ میں الٓم کو ایک حرف نہیں کہتا بلکہ الف الگ حرف ہے لام الگ اور میم الگ حرف ہے ‘‘۔ (ترمذی)

احادیث مطہرۃ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کامعمول بیان کیاگیاہے۔ اس کے علاوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓ سے بھی قرآن کی تلاوت سنتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درست تلفظ اور خوش الحانی کے ساتھ ٹھیر ٹھیر کر تلاوت کرنے کا حکم دیا۔ لہٰذا ہرمسلمان اور بالخصوص تحریک اسلامی کے کارکنان کو اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کو معمول بنانا چاہیے۔ قرآن کریم کی تلاوت باعث اجر و ثواب بھی ہے اور روح کی غذا بھی ۔ ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ قرآن کی تلاوت ترتیل و تجوید کے ساتھ کی جائے۔ اگر اس میں کوئی کمی اور کوتاہی ہو تو سیکھنے کی کوشش کی جائے۔ عمر کے کسی بھی حصے میں طلب علم کوئی معیوب بات نہیں ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوںنے جواب ارشاد فرمایاکہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت شد و مد کے ساتھ ہوتی تھی۔ پھر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھ کر سنایا اور اللہ اور الرحمن اور الرحیم سب کو مد کے ساتھ پڑھا۔(بخاری)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاں صحیح تلفظ اور درست ادایگی کے ساتھ تلاوت کرنا  منقول ہے وہیں کئی مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے تصحیح کی تلقین بھی فرمائی۔ چنانچہ حضرت ابو الدردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا ۔ اس نے تلاوت میں کسی جگہ غلطی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی کی رہنمائی کرو۔ (مستدرک حاکم)

قرآن کریم کی درست تلاوت کے لیے تجویدکے ضروری قواعد سے آگاہی از حد ضروری ہے تاکہ کہیں حروف کی تبدیلی کی وجہ سے معانی و مفاہیم کی تبدیلی واقع نہ ہوجائے ۔ اسی طرح معنی و مفہوم کی تبدیلی کبھی بے جا وقف کرنے یا بلاضرورت ملا کر پڑھنے کے نتیجے میں بھی واقع ہوتی ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سورۂ مزمل کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’لغت کی رُو سے ترتیل کے معنی ہیں واضح اور صاف پڑھنا اور شریعت میں ان چیزوں کی رعایت رکھنے کا نام ترتیل ہے۔ ۱- ہر حرف کو اس کے مخرج سے ادا کیاجائے تاکہ حرف کی آواز دوسرے سے بالکل جدا ر ہے۔ اور ’طا ‘کی جگہ ’تا‘ اور ’ضا‘کی جگہ ’ظا‘ادا نہ ہو ۔ ۲- وقوف (تلاوتِ قرآن کے دوران رُک جانے اور ٹھیرنے)کی رعایت تاکہ وصل وقطع (حروف ایک دوسرے سے ملانے اور نہ ملانے کا عمل)بے موقع ہو کر کلام کے مطلب میں تبدیلی کا باعث نہ ہو۔۳- آواز کا ذرا بلند کرنا تاکہ قرآن کے الفاظ زبان سے کان تک اوروہاں سے دل تک پہنچ کر دل میں شوق اور خوف کی کیفیت پیدا کریں۔ اس لیے کہ تلاوت سے غرض یہی ہے۔۴- اپنی آواز کو عمدہ بنانا تاکہ اس میں درد مندی پائی جائے اور دل پر  جلدی اثر کرے ۔ ۵- تشدید و مد کا ان کے موقعوں پر پورا لحاظ رکھنا کیونکہ ان دونوں سے کلامِ الٰہی کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔۶-دوزخ کے اور عذاب کے خوف کی اور جنت اور اس کی نعمتوں کے شوق کی آیتیں پڑھے یا سنے تو وہاں ذرا ٹھیرے اور دوزخ سے پناہ مانگے اور جنت کا سوال کرے، اور جن آیتوں میں دعا کا یا ذکر کا حکم ہو تو کم ازکم ایک مرتبہ اس ذکر اور دعا کو زبان سے پڑھ لے، جیسے رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا، اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما،آمین‘‘۔ گویا قرآن صحیح پڑھنے کے لیے مقررہ اصولوں کے مطابق قرآن کی قرأت غو راور توجہ سے سنے اور اسی طرح قرآن کی تلاوت کرنے کی کوشش کرے۔

الغرض قرآن کریم کی درست تلاوت نہ صرف باعث اجر و ثواب ہے بلکہ ہر مسلمان پر یہ فرض بھی عائد ہوتاہے کہ وہ قرآن کی درست تلاوت کے اصول سیکھے، اور ان اصولوں کے مطابق  قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنائے۔

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰیo (طٰہٰ ۲۰:۱۲۴) اور جو میرے ’ذکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اُٹھائیں گے۔

معاش اور معیشت کا لفظ عربی زبان کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی مستعمل ہے۔ عربی لغت میں یہ لفظ عاش، یعیش سے زندگی گزارنے کے لیے اور جینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ضنکاً کا لفظ تنگی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں: ضَنُکَ عیشہٗ کا مطلب ہے اُس کی معیشت تنگ ہوگئی (ج ۲،ص ۶۲۰)۔ معیشت کی تنگی کا  یہ لفظ جب اُردو میں استعمال ہو تو اس کا ایک بھرپور مفہوم انسانی ذہن میں آتا ہے۔ ظاہری طور پر عسرت اور تنگی، اور اطمینانِ قلب اور سکینت کی دولت کا حاصل نہ ہونا بھی اس کا مفہوم ہے۔

حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر ابن کثیر میں فرماتے ہیں: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ،یعنی جو میرے احکام اور میرے رسول پر نازل کردہ احکام کی مخالفت کرے، اس سے اعراض کرے اور اسے بھلا دے اور کسی اور کے طریقۂ زندگی کو اختیار کرے، تو اُس کی معیشت تنگ ہوجائے گی۔ یہ تنگی دنیا میں ہوگی۔ اسے کوئی اطمینان حاصل نہ ہوگا، شرحِ صدر کی دولت حاصل نہ ہوگی بلکہ اس گمراہی کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہوگا، اگرچہ ظاہری طور پر وہ عیش و عشرت کی حالت میں ہو۔ امام ضحاک کا قول ہے: ھو العمل السیٔ والرزق الخبیث،یہ بُرا عمل اور حرام مال ہوگا۔ یہی قول تابعی عکرمہ اور مالک بن دینار سے منقول  ہے۔ (ابن کثیر، ج۳،ص ۲۲۷)

بعض تابعین کے اقوال اس حوالے سے یہ بھی ذکر کیے گئے ہیں کہ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً سے مراد عذابِ قبر ہے۔ مشہور مفسر ابن جریر طبریؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: تنگیِ گھر جگہ اور اسبابِ معیشت میں سختی کو کہا جاتا ہے۔ ھذا منزل ضنکا، جب کہ وہ تنگ ہو اور زندگی گزارنا سختی کے ساتھ ہو۔ ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے ائمہ تفسیر مختلف تابعین کی تفسیری آرا اس حوالے سے ذکر کی ہیں۔ امام قتادہ فرماتے ہیں کہ ضنک سے مراد ضیق و تنگی ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں کہ ضنک سے مراد جہنم ہے۔ مفسرین کی ایک بڑی تعداد نے اس سے مراد مال حرام لیا ہے۔(تفسیر طبری، ج۸، ص ۱۶۳)

امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی ذیل میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کافر کے لیے قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اُس کی پسلیاں آپس میں ملتی ہیں، اس کو مَعِیْشَۃً ضَنْکًا کہا گیا ہے۔(تفسیر القرطبی، ج۶، ص ۲۵۹)

مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہاں (اس آیت میں) ذکر سے مراد قرآن بھی ہوسکتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک بھی جیساکہ دوسری آیات میں ذکراً رسولاً آیا ہے۔ دونوں کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص قرآن سے یا،رسولؐ اللہ سے اعراض کرے، اس کا انجام یہ ہے کہ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی، یعنی اس کی معیشت تنگ ہوگی اور قیامت میں اس کو اندھا کر کے اٹھایا جائے گا۔ پہلا عذاب دنیا میں ہی اس کو مل جائے گا، دوسرا، یعنی اندھا ہونے کا عذاب قیامت میں ہوگا‘‘۔ (معارف القرآن، ج ۶، ص ۱۵۹)

مولانا امین احسن اصلاحی کے نزدیک: ’’سکونِ قلب و شرح صدر سے اس کی زندگی کے محروم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک خلا ہے جو اللہ کے ایمان کے سوا اور کسی چیز سے نہیںبھر سکتا۔ اس وجہ سے جب تک اس کو ایمان حاصل نہ ہو، کوئی دوسری چیز اس کو تسلی و طمانیت سے بہرہ مند نہیں کرسکتی۔ دوسری چیزیں خواہ وہ بظاہر کتنی ہی شان دار اور دل فریب کیوں نہ ہوں، وقتی بہلاوے کا کام تو دے سکتی ہیں لیکن قلب و روح کی بے قراری کو رفع نہیں کرسکتیں۔ جب بچہ بھوک سے روتا ہے تو اس کے منہ میں چسنی یا نپل دے کر کچھ دیر کے لیے بہلایا جاسکتا ہے لیکن وہ آسودہ اسی وقت ہوتا ہے جب ماں اس کو چھاتی سے لگاتی اور اس کو دودھ پلاتی ہے۔ اس کے بغیر اس کی بے چینی نہیں جاتی۔ یہی حال انسان کا ہے۔ وہ اپنے لیے جو اسباب و سامان بھی مہیا کرلے لیکن اگر وہ ایمان سے محروم ہے تو وہ غیرمطمئن، ڈانواڈول، اندیشہ ناک، مضطرب اور اندرونی خلفشار میں مبتلا رہے گا، اگرچہ وہ اپنی نمایشوں سے اس پر کتنا ہی پردہ ڈالنے کی کوشش کرے۔ نفس مطمئنہ کی بادشاہی صرف سچے اور پکے ایمان ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ!

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ بہت سے لوگ ایمان کے مدعی ہوتے ہیں لیکن ان کی زندگی نہایت پریشان حالی و پراگندہ حالی کی ہوتی ہے۔ برعکس اس کے کتنے ہیں جو خدا کو محض ایک وہم سمجھتے ہیں لیکن وہ بڑی بے فکری و طمانیت کی زندگی بسر کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہاں بحث ایمان کے مدعیوں سے نہیں بلکہ حقیقی اہلِ ایمان سے ہے۔ ثانیاً جن لوگوں کو خدا سے بے پروا ہونے کے باوجود ہم مطمئن خیال کرتے ہیں، ہم صرف ان کے ظاہری کروفر کو دیکھتے ہیں۔ اگر کبھی ان کے سینوں میں جھانک کر دیکھنے کا موقع ملے تب معلوم ہو کہ ان کے اندر کتنے خطرے اور کتنے خلجان چھپے بیٹھے ہیں، لیکن یہ ہر ایک کو نظر نہیں آتے۔ ان کو وہ خود دیکھتے ہیں، یا وہ لوگ دیکھ سکتے ہیں جن کے اندر ایمانی بصیرت ہو‘‘۔ (تدبر قرآنج۴، ص ۲۴۱)

مولانا عبدالماجد دریا بادی تفسیر ماجدی میں لکھتے ہیں: ’’(اسی دنیا میں) قال بہ جمع من المفسرین (کبیر) آخرت کی طرف سے بے خبر اور بے فکر اور عالمِ حکومت الٰہیہ سے منکر، قناعت و توکل کے مفہوم سے ناآشنا رہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان ساری عمر مال کی طلب میں، جاہ کی حرص میں، ’ترقی‘ کی فکر و ہوس میں، نقصان اور کمی کے غم و اندیشے میں گھل گھل کر گزارے۔ اور اس لیے آیت میں تنگی کا تعلق قلب سے ہے۔ بڑے بڑے دولت مندوں، خوش حالوں کی خودکشی کرلینے کی خبریں جو آئے دن اخباروں میں چھپتی رہتی ہیں، سب اسی تنگیِ قلب کے شواہد ہیں۔ ذکر سے مراد قرآن ہی لیا گیا ہے (معالم) لیکن بہتر یہی ہے کہ اس کو عام و وسیع معنی میں رکھا جائے اور مادی کسب و ہدایات آسمانی کو اس کے مفہوم میں شامل رکھا جائے (روح)۔ [آخرت میں اندھا اُٹھنا] یہ جسمانی بے بصری عکس ہوگی اس کی روحانی بے بصری کی، جو دنیا میں اس نے اپنے اُوپر طاری رکھی تھی‘‘۔(تفسیر ماجدی، ص ۶۵۴)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں معیشت کی تنگی تو کفار و فجار کے لیے مخصوص نہیں۔ مومنینِ صالحین کو بھی پیش آتی ہے بلکہ انبیاے کرام ؑ کو سب سے زیادہ شدائد و مصائب اس دنیا میں اُٹھانے پڑتے ہیں۔

بخاری اور تمام کتب حدیث میں بروایت سعد وغیرہ یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی بلائیں اور مصیبتیں سب سے زیادہ انبیا ؑپر سخت ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو جس درجے کا صالح اور ولی ہے۔ اس کی مناسبت سے اس کو یہ تکلیفیں پہنچتی ہیں۔ اس کے بالمقابل عموماً کفار و فجار کو خوش حال اور عیش و عشرت میں دیکھا جاتا ہے۔

اس کا واضح جواب تو یہ ہے کہ یہاں دنیا کے عذاب سے قبر کا عذاب مراد ہے کہ قبر میں  اُن کی معیشت تنگ کر دی جائے گی۔ خود قبر جو اُن کا مسکن ہوگا وہ اُن کو ایسا دبائے گا کہ اُن کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں گی جیساکہ بعض احادیث میں اس کی تصریح ہے اور مسندبزار میں حضرت ابوہریرہؓ سے یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس آیت کے لفظ کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اس سے مراد قبر کا عذاب ہے۔

حضرت سعید بن جبیرؒ نے تنگی معیشت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ اُن سے قناعت کا وصف سلب کرلیا جائے گا اور حرص دنیا بڑھا دی جائے گی۔ (مظہری، ج ۴، ص ۴۵)

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ’’دنیا میں تنگ زندگی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہوگی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہوگا۔ کروڑ پتی بھی ہوگا تو بے چین رہے گا۔ ہفت اقلیم کا فرماں روا بھی ہوگاتو بے کلی اور بے اطمینانی سے نجات نہ پائے گا۔ اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائز تدبیروں کا نتیجہ ہوں گی جن کی وجہ سے اپنے ضمیر سے لے کر گردوپیش کے پورے اجتماعی ماحول تک، ہر چیز کے ساتھ اس کی   پیہم کش مکش جاری رہے گی جو اسے کبھی امن و اطمینان اور سچی مسرت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۳،ص ۱۳۴)

[گویا]’’یہ خیال کہ خدا کے وجود کے منکر دولت میں کھیل رہے ہیں، غلط فہمی پر مبنی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کو کروڑوں روپیہ مل رہا ہو تو اس کی معیشت فراخ ہے۔ حالانکہ ارب پتی کی زندگی بھی افکار و آلام سے تنگ ہوسکتی ہے اور چٹنی روٹی کھانے والے کی روزی بھی فراخ۔ مثلاً سویڈن میں اعلیٰ درجے کی خوش حالی ہے۔ ہرشخص کو ضروریات کا سامان میسر ہے، مگر جب سے وہ ویلفیئر اسٹیٹ___ فلاحی ریاست بنا ہے وہاں کی خودکشی کا تناسب ساری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ آخر کیوں___ ؟ معلوم ہوا کہ وہاں کی معیشت تنگ ہے جبھی تو لوگ خودکشیاں کررہے ہیں___ اصل یہ ہے کہ جس کو قناعت میسر ہے، جائز طریقے سے روزی کماتا ہے اور حد کے اندر خرچ کرتا ہے، اس کی روزی ہی فراخ ہے۔ اگر روزی کمانے کی تونس نہ لگی ہو تو آدمی پیوند لگے کپڑے پہن کر بھی مطمئن اور خوش حال رہتا ہے۔ اس کے برعکس ساری دنیا کی دولت پاکر بھی اگر اطمینانِ قلب میسر نہ ہو تو اس کی روزی تنگ ہے اور اطمینان قلب اللہ کے ذکر پر منحصر ہے۔ جو آدمی خدا کو یاد رکھتا ہے اور اس کے بھروسے پر زندگی بسر کرتا ہے، اس کا دل اطمینان سے لبریز رہتا ہے اور یہی علامت حقیقی خوش حالی کی ہے‘‘۔ (سید مودودی، استفسارات، سوم، ص ۷۰)

سید قطب شہیدؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں: ’’وہ زندگی جس میں اللہ سے رابطہ نہ ہو اور جس پر اللہ کی رحمت نہ ہو، وہ تنگ ہوگی، اگرچہ بظاہر وہ بہت ہی وسیع ہو۔ یہ تنگ اس لیے ہوگی کہ اس کا رابطہ اللہ کی طرف سے کٹا ہوگا اور اللہ کی رحمت کے میدان کی طرف وہ راہ نہ پائے گی۔ اس میں حیرانی، پریشانی اور بے یقینی کی تنگی ہوگی۔ اس میں حرص اور خوف کی تنگی ہوگی۔ ڈر اس بات پر کہ جو ہے وہ چلا نہ جائے۔ غرض اس بات پر کہ ھل من مزید یوں تنگی ہوگی کہ جہاں سے نفع کی معمولی اُمید ہو انسان اس کے پیچھے بھاگتا رہے گا اور اگر ایک کوڑی بھی کہیں نقصان ہوجائے، مرجائے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اطمینان وقرار صرف اللہ کے ہاں ملتا ہے۔ اسے سکون و اعتماد تب ہی ملے گا جب اس نے مضبوط رسی پکڑی ہوگی جس کے ٹوٹنے کا کوئی خطرہ نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان، اطمینان کو طویل و عریض، گہرا اور اُونچا بنا دیتا ہے، ہمہ جہت وسعتیں پیدا کرتا ہے، اور جو   اس سے محروم ہوجائے اسے ہمہ جہت مصیبت کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ غرض خلاصہ یہ ہے کہ جو میرے اس ذکر اور نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کے لیے اس دنیا میں تنگ زندگی ہوگی (اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے)‘‘۔ (فی ظلال القرآن، ترجمہ سیدمعروف شاہ شیرازی، ج۴، ص۶۴۰)

اس آیت میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے ، اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ماقبل کی آیت (۱۲۳) پر بھی غور کرنا چاہیے۔ اس آیت میں انسان اور شیطان دونوں کو زمین پر بھیجے گئے واقعے کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ میری طرف سے ہدایت پہنچے گی، جو اس کی پیروی کرے گا نہ بھٹکے گا، نہ بدبختی میں مبتلا ہوگا۔ اس کے معاً بعد یہ انتباہ ہے کہ جو اس درسِ نصیحت کو نہ مانے گا اس کا مقدر ضیق کی زندگی ہوگی۔ ہر انسان جو زمین پر آیا ہے، آج بھی اس انتباہ کا مخاطب ہے اور ہمیں اس حوالے سے اپنا جائزہ و احتساب کرتے رہنا چاہیے۔ آج انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہماری زندگیاں جس ضیق میں، ہرطرح کی تنگی میں مبتلا ہیں، اس کا سبب اللہ کی ہدایت سے منہ موڑنا ہے۔ کاش! ہماری قوم توبہ کرے اور اللہ اور رسولؐ کی ہدایات کو نظرانداز کرنے کے بجاے، ان کے مطابق اپنی زندگی کے ہر دائرے کی تشکیل کرے۔