ایک عام مسلمان قرآنِ پاک کا مطالعہ کرتا ہے تو بظاہر بے ربط متفرق آیات کا مجموعہ ہونے کا تاثر ملتا ہے، لیکن قرآن پر تدبر اور غوروفکر کرنے والے جانتے ہیں کہ ہر سورت دوسری سورت سے، ہر آیت دوسری آیت سے مربوط ہے، اور مضامین میں ایک غیرمعمولی نظم پایا جاتا ہے۔ مولانا حمیدالدین فراہیؒ نے نظم قرآن کے حوالے سے بڑی خدمت انجام دی ہے۔ مجموعہ تفاسیر فراہی نے پہلی بار اُردو دان طالبینِ قرآن کے سامنے نظم کی دنیا کھولی۔ قرآن کا مرکزی نظم جسے وہ عمود کہتے ہیں، اس کے گرد ساری سورتوں کے عمود گھومتے ہیں۔ قرآن معانی اور بیان کے لحاظ سے ایک غیرمعمولی منظم اور مربوط معجز کلام ہے جو کلام الٰہی ہونے کے شایانِ شان ہے۔
نظمِ قرآن کے حوالے سے خلیل الرحمن چشتی صاحب کی خدمات محتاجِ تعارف نہیں۔ ان کی تازہ ترین زیرتبصرہ کتاب ان کے پندرہ برس کے غوروفکر کا حاصل ہے۔ اس میں قرآن کی تمام سورتوں کا نظم جلی (macro) واضح کیا گیا ہے۔ نظم خفیف میں آیت اور آیت، اور آیت کے الفاظ کا نظم مطالعے کا موضوع ہوتا ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں ۳۰ صفحات پر مشتمل اُصولِ تفسیر بیان کیے گئے ہیں، جس سے قرآن فہمی کا وہ منہج سامنے آتا ہے جسے اس کتاب میں پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ ہرسورت کا زمانۂ نزول، خصوصیات، صحیح احادیث پر مشتمل فضائل بیان کرکے کتابی ربط بیان کیا گیا ہے کہ اس کا پچھلی اور اگلی سورتوں سے کیا تعلق ہے۔
ہر سورت کو چند بڑے پیراگرافوں میں تقسیم کرکے انھیں عنوان دیا گیا ہے اور پیراگراف کے پیراگراف سے ربط و تعلق کو تلاش کر کے سورت کے مرکزی مضمون کی وضاحت کی گئی ہے۔ ہرسورت کے کلیدی الفاظ و مضامین کی وضاحت کی گئی ہے، جو سورت کے فہم میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ہر سورت کے تنظیمی ہیکل کو ایک دائرے کی شکل میں واضح کیا گیا ہے۔ ہر سورت کے مضامین کو چارٹ کی شکل میں پیش کرنے کی غالباً یہ پہلی کاوش ہے۔ ایک تصویر ہزار تفسیری الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔ یہ امیج ایک دیرپا نقش ہے۔
رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن کا دورہ کرنے اور کرانے والوں کے لیے یہ نہایت مفید ہے۔ سورت کی تلاوت اور ترجمے کے مطالعے سے پہلے اس کتاب کا خلاصہ پڑھ لیا جائے تو پوری سورت کا نقشہ ذہن میں آجاتا ہے۔(مسلم سجاد)
’رسائل و مسائل‘ بھارت کے معروف علمی و دینی ماہ نامے زندگی نو کا ایک مستقل سلسلہ ہے جس میں دورِحاضر میں درپیش مسائل پر سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں۔ ۱۹۶۰ء تا ۱۹۸۶ء تک مجلے کے مدیر سید احمد عروج قادریؒ جوابات دیتے رہے۔ پھرادارہ تحقیق و تصنیف علی گڑھ کے ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی جواب دینے لگے۔ زیرنظر کتاب ندوی صاحب کے جوابات کا مجموعہ ہے۔ جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں تمام فقہوں (احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکیہ) کو مدنظر رکھ کر دیے گئے ہیں۔
سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں نت نئے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ دورانِ نماز موبائل فون کی گھنٹی، کرنسی نوٹ میں نصابِ زکوٰۃ، حجاب اور برقعہ، ملازمت پیشہ خواتین کا پردہ، دینی اجتماعات کی فوٹوگرافی اور خواتین کے اجتماعات میں پروجیکٹر کا استعمال وغیرہ۔ ندوی صاحب نے اس نوعیت کے جملہ مسائل کے جواب متوازن اور مناسب انداز میں دیے ہیں، مثلاً اگر دورانِ نماز موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگے تو کیا کرنا چاہیے؟ جواب میں مسجد کی اہمیت، عبادت کی روح اور خشوع و خضوع کی اہمیت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: موبائل دورانِ نماز ہی جیب میں ہاتھ ڈال کر یا باہر نکال کر فوراً بند کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اس طرح بند نہ ہو تو نماز توڑ کر موبائل بند کردیں اور دوبارہ نماز میں شامل ہوجائیں (ص ۱۸، ۱۹)۔اسی طرح کرنسی نوٹ میں زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے؟ کے جواب میں کہتے ہیں: ادایگی زکوٰۃ کے لیے فقہا نے چاندی کو معیار مانا ہے۔ اس میں غریبوں اور مستحقین کی مصلحت اور مفاد پیش نظر ہے۔ جس شخص کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کی رقم کے برابر کرنسی نوٹ ہوں، اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔
عصری مسائل کے علاوہ بھی زیرنظر کتاب میں بہت سے شرعی مسائل کا جواب نہایت متوازن اور مدلل انداز میں دیاگیا ہے، مثلاً: نمازِ فجر کی سنتیں، عورتوں کی نماز، نمازِ وتر کی رکعتیں اور خواتین اور زیارتِ قبور وغیرہ جیسے مسائل زیربحث آئے ہیں۔
مصنف کا انداز عالمانہ ہے اور انھوں نے کتاب بڑی محنت و کاوش سے مرتب کی ہے۔ جوابات حوالوں سے مزین ہیں۔ ’روشن خیالی‘ کے اس دور میں بالخصوص نوجوان نسل کو ایسی کتابوں سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔ (قاسم محمود احمد)
سیدمودودیؒ کے مکاتیب مختلف احباب نے مرتب کرکے شائع کیے ہیں۔ اس سلسلے کی نئی کتاب مکاتیب سید مودودیؒ ہے، جس میں ۲۵۹مکاتیب مختلف رسائل و جرائد [ترجمان القرآن، آئین، ذکریٰ، قومی ڈائجسٹ، سیارہ، تعمیرافکار، میثاق، ہفت روزہ ایشیا اور روزنامہ جسارت] اور بعض دیگر ذرائع سے جمع کیے گئے ہیں۔ مکتوب الیہوں میں قومی و ملکی، دینی و سیاسی شخصیات، (شورش کاشمیری، ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمد شفیع، جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ، غلام جیلانی برق، مولانا سمیع الحق، ملک نصراللہ خاں عزیز، مولانا امین احسن اصلاحی، سیداسعدگیلانی، عبدالرحیم اشرف، طالب ہاشمی، سید فضل معبود، مولانا راحت گل، پروفیسر سید محمدسلیم وغیرہ) شامل ہیں۔
سیدمودودیؒ کے یہ مکاتیب نصف صدی کے دورانیے پر محیط ہیں۔ سادہ و سلیس، عام فہم اور خوب صورت زبان و بیان اور متنوع موضوعات پر مبنی یہ مکاتیب، جہاں ذاتی و شخصی مسائل سلجھانے، اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں، وہیں ملکی و قومی مسائل سے لے کر عالمی مسائل، علمِ دین اور فقہی مسائل سے آگہی اور شعور کا باعث ہیں۔ ان مکاتیب کا امتیاز یہ ہے کہ یہ قاری میں اقامت دین کی تڑپ، داعیانہ احساسِ ذمہ داری اور خدمتِ دین کا جذبہ پیدا کرتے بلکہ اُسے شعلۂ جوالہ بناتے اور یوں راہِ راست کی جانب پیش قدمی کا ایک سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح یہ مکاتیب تحریکِ اسلامی کے مختلف مراحل، قیامِ جماعت اور تاریخِ جماعت سے متعلق کتنی ہی کڑیوں کو ملانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ خطوط کے ساتھ اس کے حواشی بھی شامل ہیں جو خطوط کے سیاق و سباق کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔
حسن صوری و معنوی سے آراستہ، یہ ایک خوب صورت دستاویز ہے، جو سید مودودیؒ کی سیاسی و دینی بصیرت کی کئی جہتیں روشن کرتی ہے۔ اشاریہ بھی شامل ہے۔ کتاب کا ابتدائی لوازمہ پروفیسر نورور جان نے فراہم کیا، ادارہ معارف اسلامی کے رفقا نے تدوین و تحقیق کے بعد اسے موجودہ شکل دی۔ (عمران ظہورغازی)
ناصر قریشی بنیادی طور پر ادیب ہیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری کی اور فیچر لکھے۔ بہت سے دوستوں کے خاکے بھی قلم بند کیے۔ ان کے حج بیت اللہ کے سفرنامے سرزمینِ آرزو پر تبصرہ انھی اوراق میںکیا جا چکا ہے۔ اب انھوں نے اپنی ۳۰سالہ ملازمتی زندگی کی یادوں کی محفل سجائی ہے۔ کہتے ہیں: ’’ماضی کی یادیں، باتیں، واقعات، شخصیات، تقریبات حتیٰ کہ سانحات بھی میرے لیے وہ پھول ہیں جن کی خوشبو سے مدام میرے قلب و ذہن معطر رہتے ہیں‘‘ (ص ۸)۔ وہ ۱۹۶۳ء میں بطور پروڈیوسر ریڈیو پاکستان میں بھرتی ہوئے۔ دورانِ ملازمت میں انھیں آزاد کشمیر ریڈیو کے مظفرآباد اور تراڑکھل اسٹیشنوں کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے متعدد مراکز (لاہور، بہاول پور، ملتان، کوئٹہ، خضدار) میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس سارے عرصے میں انھیں نامور ادیبوں، شاعروں اور ’’اہلِ قلم و علم و ادب اور اساتذۂ فنون‘‘ کی صحبت میسر آئی جن سے انھوں نے اپنے بقول ’’بہت کچھ سیکھا‘‘۔ ان میں سید عابد علی عابد، اشفاق احمد، اعجاز حسین بٹالوی، مولانا صلاح الدین احمد، انجم رومانی، صفدرمیر، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، امجدالطاف، شہرت بخاری سرفہرست تھے۔ پھر ریڈیو کے بزرگوں اور رفقاے کار کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی وجہ سے ’’ریڈیو پاکستان ہمہ خانہ آفتاب تھا مہتاب تھا‘‘۔ چوں کہ ملازمتی زندگی میں ناصر قریشی کا مسلک ’’ریڈیو کے توسط سے دین اور سرزمین کی خدمت‘‘ تھا (انھوں نے ریڈیو کے لیے سید مودودیؒ کا ایک طویل انٹرویو بھی لیا تھا، جو کتاب کی صورت میں شائع بھی ہوچکا ہے)، اس لیے انھیں ملازمت میں بارہا تبادلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض احباب کا ذکر وہ بہت محبت سے کرتے ہیں، جیسے یوسف ظفر اور بعض لوگوں سے ان کی ناپسندیدگی چھپی نہ رہ سکی، جیسے قاضی احمد سعید۔
مصلحت کوشی یا اصولوں پر سمجھوتا کبھی قابلِ قبول نہیں رہا، اسی لیے وہ معتوب بھی رہے۔ ان کا لب و لہجہ بہت بے باکانہ ہے۔ متن کے علاوہ بعض نثرپاروں کے عنوانات ہی سے لکھنے والے کی حق گوئی اور بے باکی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مثلاً ’’ذرائع ابلاغ کا مجرمانہ کردار‘‘ یا ’’پی ٹی وی کے کرشمے‘‘ یا ’’ہم بنیاد پرست ہیں‘‘ (جس کا اختتام یوں ہوتا ہے: ’’ضیاء الحق کے زمانے میں ٹی وی پر فلموں میں رقص و سرود پر پابندی ہوتی تھی۔ اب ماشاء اللہ وہ پابندی بھی اُٹھ گئی ہے۔ دیکھیے اب کیا کیا اُٹھتا ہے؟ہماری شرافت اور تہذیب و ثقافت کی اللہ خیر کرے‘‘۔ ص۲۲۷)۔
یہ کتاب کوئی باقاعدہ اور مربوط آپ بیتی نہیں۔ ناصرقریشی نے دو دو، چار چار صفحے کے مختصر مضامین کی کیاریوں میں یادوں کے (مختلف موسموں کے) ’’پھول اور شگوفے‘‘ کھِلائے ہیں۔ یہ نثرپارے مختلف زمانوں اور موسموں میں لکھے گئے، اس لیے ان میں کہیں کہیں تکرار بھی ہے۔ کتابی شکل دیتے وقت تواریخِ تحریر کو ملحوظ رکھا جاتا اور ہر نثرپارے کے آخر میں اس کا زمانۂ تحریر دے دیا جاتا تو تاریخی اعتبار سے کتاب کا پایہ بڑھ جاتا۔
ابتدا میں (بطور دیباچہ) ناصر قریشی کا تعارف شامل ہے مگر تعارف نگار کون ہے؟ کچھ پتا نہیں چلتا___ کتاب معلومات کا خزانہ ہے۔ افراد و اشخاص، ریڈیو پاکستان کا کردار اور ریڈیو کو شخصی مفادات اور پاکستان کا چہرہ بگاڑنے کے لیے استعمال کرنے والوںکے عزائم بے نقاب ہوتے ہیں۔ کبھی ریڈیو پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ کتاب بطور حوالہ کام آئے گی۔ (رفیع الدین ہاشمی)
پانچ مقالات پر مشتمل یہ مجموعہ مجلہ مغرب اور اسلام کی اشاعتِ خاص کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ عالم گیریت کے چیلنج اور مسلمانوں کے حوالے سے سلسلۂ مضامین کا یہ دوسرا حصہ ہے، جس میں ڈاکٹر محمدعمر چھاپرا کے دو عالمانہ مقالوں (۱۶-۴۷ اور ۱۰۴-۱۳۴) میں بین الاقوامی مالیاتی استحکام میں مالیات کے کردار، عالم گیریت کے موجودہ چلن اور مسلم دنیا کو اس طرح زیربحث لایا گیا ہے کہ یہاں پر پھیلے ہوئے سماجی جبر اور معاشی ظلم کو عدل کی راہوں پر گام زن کرنے کے امکانات اور وسائل کی نشان دہی ہوتی ہے۔ یہ تحقیقی مقالات معاشیات، سماجیات اور سیاسیات کے طالب علموں کے لیے ایک قابلِ قدر مصدر ہیں۔ اسی طرح ایک منفرد مقالہ معروف عالم اور محقق ڈاکٹر محموداحمد غازی مرحوم و مغفور کا ہے، جس میں انھوں نے اسلام کے قانون بین الاقوامی کی روشنی میں آج کی دنیا کے تعلقات کے بحران اور بے اعتمادی و ظلم کے نظام کا بہ حسن و خوبی نہ صرف تجزیہ کیا ہے، بلکہ مروجہ بین الاقوامی قانون میں اسلامی قانون بین الاقوامی کی فوقیت اور امتیازی پہلوئوں کو بھی پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی اسلامی ماخذ کی روشنی میں تمام اقوام و ملل کو احترام و یگانگت کا رستہ بھی سمجھایا ہے۔ ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون: ’عالمی امن اور قیامِ عدل، اسلامی تناظر میں‘ انھی مباحث کی تفہیم لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔
البتہ اس مجموعے میں ایان مارکھیم کے مضمون: ’عالمی امن و انصاف: مسیحی تناظر‘ (۶۶-۷۸) کی وجۂ جواز سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ مسیحی اسٹیبلشمنٹ جو ظلم کی خاموش حلیف اور عام انسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا دوسرا نام ہے،اس سے عالمی امن و انصاف کی توقع عبث ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک قیمتی، قابلِ مطالعہ معلومات افزا مجموعۂ مضامین ہے۔ (سلیم منصور خالد)
موت کا سایہ ہرزندگی کے تعاقب میں رہتا ہے، اس اعتبار سے زندگی سے متصل سب سے اہم سچائی موت ہی ہے۔ فطری اور طبعی موت، باوجود صدمے کے، رنج و الم کا وہ کہرام بپا نہیں کرتی جس غم و اندوزہ کا مشاہدہ غیرطبعی موت پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس غیرفطری موت کا نکتۂ آغاز وزیراعظم لیاقت علی خاں کا قتل تھا۔ بعدازاں صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے ہمراہ اعلیٰ درجے کی فوجی قیادت کا طیارے کی تباہی میں قتل بھی قرائن و شواہد کے اعتبار سے سبوتاژ کارروائی کا نتیجہ ہی قرار دیا جاتا ہے۔ اور پھر دسمبر ۲۰۰۷ء کی انتخابی مہم کے دوران ملک کی تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی امیدوار بے نظیر بھٹو صاحبہ کے قتل نے ملک کی سیاسی تاریخ پر گہرے اثرات ثبت کیے۔
زیرنظر کتاب، بے نظیر بھٹو کے اسی الم ناک قتل کی تحقیقات پر مبنی ایک دستاویز ہے، جسے پاکستان کے معروف صحافی سہیل وڑائچ نے تین سال کی مسلسل تحقیق و جستجو کے بعد پیش کیا ہے۔ اگرچہ اس سانحے پر متعدد کتب آچکی ہیں، لیکن اپنی پیش کش، اسلوب اور لوازمے کی ترتیب کے اعتبار سے اس کتاب کو کئی پہلوئوں سے دوسری کتابوں پر فوقیت حاصل ہے۔ مصنف نے جُملہ تحقیقی رپورٹوں کے نتائج اور اشتراکات و اختلافات کو پیش کرنے کے ساتھ، موقعے کی شہادتوں کا بڑی خوبی سے تجزیہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس قتل سے منسوب تمام مفروضوں کو پیش کر کے ان کا غیرجذباتی سطح پر تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں پیپلزپارٹی کے داخلی اختلافات، مرحومہ کی گھریلو اور خانگی زندگی پر مشاہدات اور دوستوں کی یادداشتیں شامل کی ہیں۔ تیسرے حصے میں بے نظیر سے مصنف کے متعدد انٹرویو، ان کی شخصیت کے مختلف زاویوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
اضافی طور پر جاے حادثہ کے تصویری خاکے، نقشہ جات، معلوماتی جداول نے قاری کے لیے کتاب کو دل چسپ اور معلومات افزا بنا دیا ہے۔ اس سے ایک جانب تو بے نظیر کی شخصیت، جدوجہد اور عزائم کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے، دوسری جانب قدم قدم پر پاکستان کی سیاسی زندگی پر بیرونی بلکہ امریکی اثرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ، بامقصد، غیرجذباتی اور فنی اعتبار سے منفرد کتاب ہے۔ تاریخ، سیاسیات، سماجیات کے طلبہ اور پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل سے دل چسپی رکھنے والے قارئین اگر اس کا مطالعہ نہ کرسکے تو ان کی معلومات میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور رہ جائے گی۔ (س - م - خ)