ماضی قریب میں اس ملک میں مرد و زن کے آزادانہ اختلاط اور بے حیائی کو راہ دینے کے لیے کئی خلافِ اسلام قانون سازیاں ہوتی رہی ہیں، خاص طور پر ۲۰۰۶ء کاسال اس لحاظ سے بدتر رہا کہ اس سال نومبر کے مہینے میں پاکستانی پارلیمنٹ نے قرآن وسنت سے صریح متصادم نام نہاد ’ویمن پروٹیکشن بل ۲۰۰۶‘ منظور کرکے نافذ کردیا۔ اس قانون کے خلاف ِ اسلام ہونے پر پاکستان بھر کے تمام دینی حلقے یک آواز تھے۔ یہ ظالمانہ قانون اس اسمبلی سے پاس ہوا جس کی عمارت پر نمایاں الفاظ میں کلمہ طیبہ درج ہے۔ اس کے اراکین اور جملہ عہدے داران اسلام کے تحفظ کا حلف بھی اٹھاتے ہیں۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اس کے آئین میں خلاف ِاسلام قانون سازی کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اس متنازع فیہ ایکٹ کی منظوری سے قبل میڈیا (اور بالخصوص ایک بڑے اخباری ادارے اور ٹی وی چینل) پر اس معاملے کی اس طرح پرزور تشہیر کی گئی اور گلی کوچوں میں اس کو یوں زیر بحث لایا گیا، جیسے یہ پاکستان کا اہم ترین مسئلہ ہو۔
خواتین کے ’تحفظ‘ کے نام پر بنائے گئے اس ایکٹ میں جرم کا اندراج کرانے والے شخص کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرتے ہوئے پہلے اپنے دعوے کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اس ایکٹ میں حیلہ سازی کرتے ہوئے سنگین جرائم کو پولیس کی دسترس سے نکال کرعوام کے جذبۂ خیروصلاح کے سپرد کردیا گیاہے۔ صنفی امتیاز کے خاتمے کے دعوے سے لایا جانے والا یہ قانون وطن ِعزیز میں صنفی امتیازکی بہت بڑی بنیاد ثابت ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ظالمانہ ایکٹ کی منظوری کے دنوں میں لاکھوں پاکستانیوں نے راے شماری میں حصہ لے کر اس قانون سے اظہارِ براء.ت بھی کیا تھا، دکانوں اور عام چوراہوں پر اس قانون کی تردید پر مبنی پوسٹر اور ہینگر مدت تک نظر آتے رہے۔ اس قانون کو غلط قرار دینے والوں میں خواتین کی اکثریت کے علاوہ اہم عہدوں پر فائز شخصیات بھی شامل رہیں، حتیٰ کہ اس ایکٹ کے خلاف دستخط کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی تجاوز کرگئی، جن میں خود غیرمسلم بھی شامل تھے۔یہ ملکی تاریخ کا ایک بڑا عوامی احتجاج تھا۔
قانون کی منظوری اور بحث مباحثے کے دنوں میں ہی ملک کی نمایندہ علمی شخصیات نے حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا تھا۔ہرمکتب ِفکر سے وابستہ علماے کرام نے بعض سینئر سیاست دانوں اور حکومتی ذمہ داروں سے ملاقاتوں میں کہا تھا کہ: اگر حکومت خواتین کے اکرام و احترام کے سلسلے میں اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہے تو اختلاطِ مرد وزن کے بے باکانہ رویوں کو کنٹرول کرے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ منظور شدہ ایکٹ میں تو صرف زناکاروں کے حقوق کاتحفظ کیا گیا ہے، جب کہ پاکستانی خواتین کے لیے اس میں داد رسی یا شنوائی کا کوئی سامان نہیں ہے۔ پاکستانی خواتین جن سنگین معاشرتی مسائل کا شکار ہیں، ان کے لیے بہت سے دیگرقانونی اقدامات کیے جاسکتے ہیں، جن سے ان کے مسائل کے خاتمے میں حقیقی مدد مل سکتی ہے،لیکن ایسی تمام آوازوں کو سنی اَن سنی کر کے حقیقی مسائل سے صرف ِنظر کیا جاتا رہا۔
یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ حدود آرڈی ننس بھی کوئی بڑا معیاری قانون نہیں تھا، جو کتاب وسنت کے عین مطابق ہو۔ تاہم شرعی ماحول پیداہونے کی بنا پر اس کی تائید کی جاتی رہی۔ زیرنظر تبصرہ بھی اسی نقطۂ نظر سے پیش خدمت ہے:
جیسا کہ سطورِ بالا میں ہم نے عرض کیا ہے کہ ’تحفظ حقوق نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘
ختم کرنا تھا،کیونکہ ایک مسلم معاشرہ مادر پدر آزاد مغربی تہذیب کے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں تھا، جس کے لیے نام نہاد ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کے ذریعے حکومتی سرپرستی میں فضا سازگار کی جاتی رہی۔ آج ملک بھر میں ٹی وی چینلوں، ویب سائٹس اور موبائل فونوں کے ذریعے فحاشی وعریانی کا جو سیلاب آیا ہواہے، اور نوجوان لڑکے لڑکیاں بے راہ روی کا کھلا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس پر کئی حساس اہل قلم بڑے دردِدل کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ وہ ماں باپ تو آئے روز بے حیائی کے اس ناسور سے زندہ درگور ہو رہے ہیں، جن کے بچے بچیاں جوانی کے نشے میں مدہوش اور قانونی بندشوں سے آزاد ہیں۔ ایسا کرنے میں مذکورہ قانون ایک مددگار وسیلے کے طور پر سامنے آتا ہے:
۱- ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کے ذریعے اسلامی حدود قوانین کے برعکس مبادیاتِ زنا، مثلاً بوس وکنار اور مردو زن کے آزادانہ اختلاط کو ناقابل سزا قرار دیا گیا تھا۔
۲- مزید برآں ۱۶ سال سے کم عمرلڑکی کی ہر طرح کی بے راہ روی کو (ازخود یہ تصور کرتے ہوئے کہ وہ لازماً جبری زنا کا ہی شکار ہوئی ہے)اسے ہرقسم کی سزا سے مستثنیٰ کردیا گیا تھا۔
۳- شوہر کے لیے یہ قانون سازی کی گئی تھی کہ اگر وہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر اس سے جماع کرتا ہے تو اسے زنا بالجبر سمجھا جائے گا،جس کی سزا ۲۵سال قید یا سزاے موت ہوگی۔
۴- اس ایکٹ کے ذریعے حدود قوانین کے نام سے شرعی قوانین، مثلاً زنا ، قذف اور لعان وغیرہ کی سزائوں کی دیگر انگریزی قوانین پر برتری کو بھی ختم کیا گیا تھا۔
۵- اس ایکٹ کے ذریعے صوبائی حکومت اور صدرِمملکت کو بلااستثنا تمام سزائوں کو معاف کرنے کا بھی اختیار عطا کیا گیا تھا۔
۶- ویمن ایکٹ کی رو سے زنا اور قذف کی معروف شرعی سزا کے بجاے پانچ سال قید اور زیادہ سے زیادہ ۱۰ ہزار روپے جرمانے کی سزائیں متعارف کرائی گئیں۔ حالانکہ شرعی حدود میں تبدیلی یا کمی بیشی کا اختیار کسی حاکم وقت یا مجتہد العصرتو کجا، خود سید المرسلینؐ کو بھی نہیں ۔
۷- ان تمام تبدیلیوں پر مزید اضافہ یہ کہ فحاشی و بے راہ روی کے حوالے سے ان سزائوں کے طریق اجرا میں ایسی مضحکہ خیز تبدیلیاں کی گئیں، کہ ان جرائم کی سزا کسی پر لاگو ہونا ہی ممکن نہ رہا۔ (تفصیلی تجزیہ دیکھیے: ماہ نامہ محدث، لاہور، دسمبر ۲۰۰۶ء، ص ۲-۲۳، اور ۲۶-۷۰)
’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کے نفاذ کے بعد ہی سے اس بارے میں محب ِاسلام حلقوں میں شدید بے چینی اور اضطراب پیدا ہوگیااور ۲۰۰۷ء میں اس ایکٹ کے خلاف ِاسلام ہونے کے بارے میں دو درخواستیں[نمبری ا،۳۔آئی ۲۰۰۷ء] وفاقی شرعی عدالت میں دائر کردی گئیں۔ پھر ۲۰۱۰ء میں درخواست[نمبری ا ۔آئی ۲۰۱۰ء] بھی دائر کی گئی، جس میں وفاقی شرعی عدالت سے استدعا کی گئی کہ اس ایکٹ کی خلافِ اسلام دفعات کا خاتمہ کیا جائے:
۱- یاد رہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار ہے کہ:
دفعہ نمبر ۲۰۳ ڈی:عدالت اپنی تحریک یا پاکستان کے کسی شہری یا وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی درخواست پر اس سوال کا جائزہ لے اور فیصلہ کرسکے گی کہ آیا کوئی قانون یا قانون کا کوئی حکم ان اسلامی احکام (جس طرح کہ قرآن کریم اور رسولؐ اللہ کی سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ) کے خلاف ہے یا نہیں؟
دفعہ ۲۰۳ ڈی کی شق نمبر۱ کا تقاضا یہ ہے کہ عدالت ِمذکورہ حکومت کو اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے مناسب موقع دے گی۔شق ۲ کے تحت عدالت متعلقہ قانون کے خلافِ اسلام ہونے کی وجوہ اور اس کی مخالفت کی حد کا تعین بھی کرے گی۔ شق۳ کے تحت اگر کوئی قانون خلافِ اسلام قرار پاتا ہے تو گورنر اس قانون میں ترمیم کرنے کے اقدامات کرے گا، بصورتِ دیگر عدالت کی متعین کردہ تاریخ سے وہ قانون کالعدم قرار پائے گا۔
۲- واضح رہے کہ ماضی میں قانونِ امتناع توہین رسالت (دفعہ ۲۹۵سی) میں بھی وفاقی شرعی عدالت نے اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کے منظور شدہ قانون مجریہ ۱۹۸۶ء میں مذکورعمر قید کی سزا کے خلافِ اسلام ہونے کا فیصلہ دیا تھا اور حکومت کو ۳۰؍اپریل ۱۹۹۱ء تک کا وقت دیا تھا کہ اس دوران میں وہ مناسب قانون سازی کرلے، بصورتِ دیگرشرعی عدالت کا فیصلہ ازخود نافذ ہوگا اور توہین رسالت کی سزا میں شامل سزاے عمر قید حذف ہوجائے گی۔
اسی طرح ماضی میں قصاص ودیت کے مقدمے میں بھی وفاقی شرعی عدالت نے چیف جسٹس محمد افضل ظلہ کی سربراہی میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ: ’سزاے قتل کے مروجہ ۵۶ قوانین خلافِ اسلام ہیں، اور حکومت کو چاہیے کہ اگست ۱۹۹۰ء سے پہلے پہلے متبادل قانون سازی کرے، بصورتِ دیگر قصاص ودیت کے شرعی قوانین براہِ راست نافذ ہوجائیں گے‘۔ اسی نوعیت کا ایک فیصلہ قانونِ شفعہ کے بارے میں بھی دیا گیا تھا۔
وفاقی شرعی عدالت کے ان فیصلوں کے بعد متعینہ تواریخ تک حکومت نے کوئی قانون سازی نہ کی، جس کے نتیجے میں پاکستان میں امتناعِ توہین رسالت کا قانون ، وفاقی شرعی عدالت کی ترمیم (عمر قید کے حذف) کے بعد، اور قصاص ودیت کے قوانین براہِ راست اسلامی شریعت سے ہی پاکستان میں نافذ العمل ہوگئے۔
۳- دستورِ پاکستان کی دفعات اور ماضی کے بعض مذکورہ بالا قانونی اقدامات کی لاہور ہائیکورٹ کے متعدد فیصلوں سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ حدود کے ذیل میں آنے والے جرائم کے متعلق ذیلی عدالتوں کے فیصلوں کی نگرانی یا اپیل کا اختیار آئین کی شق ۲۰۳ ڈی ڈی کی رو سے صرف وفاقی شرعی عدالت کو ہی حاصل ہے (پاکستان کریمی نل لا جرنل ۲۰۰۴ء، ص ۸۹۹، اور ۱۹۸۵ PLD، لاہور ۶۵)۔ تاہم وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو چیلنج یا نظرثانی کے لیے دستورِ پاکستان ہی کی دفعہ ۲۰۳ ایف کے تحت کسی بھی فریق کو ۶۰ یوم اورصوبائی ووفاقی حکومتوں کو چھے ماہ کا وقت حاصل ہے۔ اس مدت کے دوران میں نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ (شریعت اپلیٹ بنچ) میں دی جاسکتی ہے۔
اس طریق کار کو اختیار کرتے ہوئے ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کو بھی وفاقی شرعی عدالت میں گذشتہ سال زیر بحث لایا گیا۔ عدالت میں اس پر بحث و مباحثہ بھی ہوا، اور پھر مؤرخہ ۲۲دسمبر ۲۰۱۰ء کو اس حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کا ایک اہم فیصلہ سامنے آیا ۔ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق احمد خاں کی سربراہی میں جسٹس شہزاد شیخ اور جسٹس سید افضل حیدر نے یہ فیصلہ تحریرکیا ہے، جسے نکتہ نمبر۱۱۷ کے تحت رپورٹ کیا گیا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت اپنے حالیہ فیصلے میں ’تحفظ حقوق نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کے ساتھ ساتھ ، امتناعِ دہشت گردی ایکٹ ۱۹۹۷ء اور ’امتناعِ منشیات ایکٹ۱۹۹۷ء‘ کو بھی زیر غور لائی ہے، جس میں عدالت نے یہ قرار دیا ہے کہ مذکورہ بالا ایکٹس کے بعض حصے واقعتا اسلام کے خلاف یا وفاقی شرعی عدالت کے دائر عمل میں مداخلت ہیں، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ان قوانین میں ترمیم کرکے اِن کے متبادل اسلامی قوانین لائے، بصورتِ دیگر ان کے قابل اعتراض حصے ۲۲ جون۲۰۱۱ء تک نافذ العمل رہنے کے بعد آخرکار کالعدم ہوجائیں گے۔
۱- وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے (نکتہ نمبر ۱۱۷ کی شق نمبر ۵) میں ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کی ترامیم ۱۱، اور۲۸کو دستور کی دفعہ ۲۰۳ ڈی ڈی سے متجاوز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان ترامیم کے مؤثر ہونے سے حدود قوانین کی بالاتر حیثیت ختم ہوگئی ہے، اس لیے انھیں ختم کیا جائے۔ ان ترامیم کا تعارف وجائزہ حسب ِذیل ہے:
الف: ویمن ایکٹ کی ترمیم نمبر۱۱ کے ذریعے زنا آرڈی ننس کی دیگر انگریزی قوانین پر بالاتر حیثیت کو ختم کردیا گیا تھا۔ اگر حکومت اس کے خلاف اپیل میں نہیں جاتی تو یہ شق ۲۲جون ۲۰۱۱ء کو ختم ہو جائے گی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ میں زنا کی دیگر متوازی سزاؤں پر سابقہ شرعی سزاؤں کی برتری بحال ہوجائے گی، اور عدالت کو یہ موقع حاصل ہوگا کہ وہ زنا کی محض پانچ سال سزا اور زیادہ سے زیادہ ۱۰ہزار روپے جرمانے کے بجاے اس پر سابقہ شرعی سزا جاری کرنے کے احکام صادر کرسکے۔
ب: ایکٹ کی ترمیم نمبر ۲۸، جس کو خلافِ اسلام قرار دیا گیا ہے ، کا مقصد یہ تھا کہ ’لعان‘ کو ’قانون ضابطہ فوج داری ۱۸۹۶ء‘ سے نکال کر ’شادی ایکٹ ۱۹۳۹ء‘ کا حصہ بنایا جائے، تاکہ ’لعان‘ کی جو سزا قذف آرڈی ننس کے سیکشن ۱۴ (۴) میں ہے، اس کا اطلاق ختم ہوجائے۔ اب اس ترمیم کے ختم ہوجانے سے ’لعان‘ کا سابقہ قانون مؤثر ہونے کا بھی جزوی امکان پیدا ہوگیا ہے۔
۲- وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے (نکتہ نمبر ۱۱۷کی شق نمبر ۷) میں ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کی ترامیم نمبر ۲۵ اور ۲۹ کو بھی دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۲۰۳ ڈی ڈی سے متجاوز، یعنی خلافِ اسلام قرار دیتے ہوئے نئی متبادل قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔ محولہ ایکٹ کی ترمیم نمبر۲۹ کے ذریعے حدود قوانین کے حصے قذف آرڈی ننس کی دیگر قوانین پر بالاتر حیثیت کو ختم کیا گیا تھا، جب کہ ترمیم نمبر۲۵ کے ذریعے ’قذف آرڈی ننس‘ کی تین دفعات ۱۱، ۱۳ اور ۱۵ کو حذف کیا گیاتھا، جس کے بعد ’قذف آرڈی ننس‘ غیرمؤثر ہوکر رہ گیا تھا۔ اب عدالت نے نہ صرف قذف آرڈی ننس کی بالاتر حیثیت کو بحال بلکہ اس کی اہم دفعات کو بھی برقرار رکھنے کی تلقین کی ہے۔
جہاں تک زنا آرڈی ننس اور قذف آرڈی ننس کی دیگر قوانین پر بالاترحیثیت بحال کرنے کی بات ہے، تو یہ اسی جرم پر تعزیراتِ پاکستان میں موجود متوازی سزاؤں کے تناظر میں ایک اہم ضرورت ہے، تاکہ فیصلہ کرنے والے جج کو فیصلے کی تادیبی کارروائی کا انتخاب کرنے میں آسانی ہو۔مزید برآں یہ اسلامی شریعت کا مسلمہ تقاضا بھی ہے، بلکہ اسلام تو ان جرائم پر جہاں اللہ تعالیٰ نے سزائیں وحی کی صورت میں متعین کردی ہیں، کسی متبادل قانون پر عمل پیرا ہونے کو جاہلیت، ظلم، حتیٰ کہ کفر سے تعبیر کرتا ہے ۔ان شرعی قوانین کی ترجیح پاکستان کی دیگر عدالتوں کے بعض سابقہ فیصلوں کی روشنی میں بھی ایک مسلمہ مسئلہ ہے، جیساکہ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۸۶ء میں زنا آرڈی ننس کو ’آرمی ایکٹ‘ پر فوقیت دینے کا فیصلہ کیا تھا او ریہ حکم دیا تھا کہ اس کے ملزم کے مقدمے کی سماعت ’کورٹ آف مارشل‘ کے بجاے سیشن کورٹس میں کی جائے (ملاحظہ ہو: PSC 1986، فیصلہ ۱۲۲۸)۔ بالکل اسی طرح ۱۹۸۵ء میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہ قرار دیا تھا کہ حدود قوانین کو ’سندھ چلڈرن ایکٹ‘ پر فوقیت حاصل ہوگی۔(پاکستان کریمی نل لا جرنل، ص ۱۰۳۰)
۳- علاوہ ازیں عدالت نے اپنے فیصلے (نکتہ نمبر۱۱۷ کے شق ۱ تا ۴) میں ’امتناع دہشت گردی ایکٹ‘ کی دفعہ ۲۵ اور ’امتناعِ منشیات ایکٹ ۱۹۹۷ء‘ کی دفعہ ۴۸ اور ۴۹ کو بھی دستورِ پاکستان کی دفعہ ۲۰۳ ڈی ڈی سے متجاوز قرار دیتے ہوئے خلافِ اسلام قرار دیا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں دفعات میں قرار دیا گیا تھا کہ: ’’ان جرائم کی اپیل ہائی کورٹ میں داخل کرائی جائے ‘‘، جب کہ شرعی عدالت نے یہ حکم دیا ہے:
قرآن وسنت کی رو سے جو جرائم حدود کے زمرے میں آتے ہیں، اور ان کی سزا قرآن وسنت میں مذکور ہے، ان تمام جرائم میں مدد گار یا ان سے مماثلت رکھنے والے جرائم بھی حدود کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور حدود یا اس سے متعلقہ تمام جرائم پر جاری کیے گئے فوجداری عدالت کے احکامات کی اپیل یا نظرثانی کا اختیار بلاشرکت غیرے وفاقی شرعی عدالت کو ہی حاصل ہے۔ ایسے ہی حدود جرائم پر ضمانت کے فیصلے کی اپیل بھی صرف اسی عدالت ہی میں کی جائے۔
عدالت نے ان جرائم کی فہرست مرتب کرتے ہوئے جو حدود کے زمرے میں آتے ہیں، ان جرائم کو بھی اس میں شامل کردیا ہے، جو اس سے قبل مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت آتے تھے۔ مجموعی طورپر ان جرائم کی تعداد ۱۰ شمار کی گئی ہے: زنا، لواطت، قذف، شراب، سرقہ، حرابہ، ڈکیتی، ارتداد، بغاوت اور قصاص انسانی سمگلنگ۔
۴- اخبارات نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی خبر دیتے ہوئے لکھا:
عدالت کے تین رکنی بنچ نے ’تحفظ حقوق نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کی چار شقوں کو آئین کے آرٹیکل ۲۰۳ ڈی ڈی سے متصادم قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ۲۲جون ۲۰۱۱ء تک شق نمبر ۱۱، ۲۵، ۲۸ اور ۲۹ کو کالعدم قرار دے کر ترمیم کریں، بصورت دیگر یہ عدالتی فیصلہ بذات خود ترمیم سمجھا جائے گا۔ فیصلے میں یہ بھی قرار دیا گیا ہے، کہ قانون سازی کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کے اختیارات ختم یا تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ (روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۲۳دسمبر ۲۰۱۰ء، ص ۶)
نجی ٹی وی کے مطابق عدالت نے چار شقوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسلام کے خلاف ہیں۔ عدالت نے زنا بالرضا کو بھی ناجائزاور حدود قوانین کے مطابق غیراسلامی فعل اور گناہ کبیرہ قرار دیا اور کہا کہ زنا کے بارے میں ایکٹ مذکورہ کے قوانین کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔(روزنامہ انصاف، لاہور، ۲۳دسمبر ۲۰۱۰ء، ص۷)
وفاقی شرعی عدالت کا مذکورہ بالا فیصلہ ایک قابل قدر اقدام ہے، اور ہم اس کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہیں، بالخصوص اس تناظر میں جب کہ ’تحفظ حقوقِ نسواں بل‘ پر جاری قومی سطح کے مناظرے ومباحثے میں بعض سیاستدانوں (چودھری شجاعت حسین وغیرہ) نے قوم سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ: ’’اگریہ ایکٹ کسی بھی طرح خلافِ اسلام ثابت ہوجائے تو وہ اپنے عہدوں سے استعفا دے دیں گے‘‘۔ اس موقع پر معروف علماے کرام اور اہلِ علم حضرات کے ساتھ ہم نے اس کی خلافِ اسلام دفعات کی نشان دہی کی تھی، لیکن چودھری صاحب موصوف نے اس وقت ان کو درخورِ اعتنا نہ جانا۔ اب ایک آئینی عدالت نے اس ایکٹ کی چار دفعات کو خلاف اسلام قرار دے کر حکومت کو ۲۲جون ۲۰۱۱ء تک مہلت دی ہے کہ وہ متبادل قانون سازی کرے تو اسے کم ازکم دیر آید درست آید کا مصداق قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس قدر تاخیر سے آنے والے فیصلے کے درمیانی چار برسوں میں اس حوالے سے جو بے راہ روی ملک میں جگہ پاگئی ہے، اس کا خمیازہ تواہل پاکستان بھگت رہے ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت کا یہ اقدام بھی انتہائی قابل تحسین ہے کہ اس نے نہ صرف شرعی قوانین کی برتری کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ حدود قوانین سے قریب تر دیگر قوانین میں ہیراپھیری کے ذریعے جو انھیں شرعی سزاؤں اور تادیب سے دور رکھا گیا تھا، ان کو دوبارہ شرعی عدالت کے دائرہ عمل میں لانے کی تلقین بھی کی ہے۔ اور حکومت کو پابند کیا ہے کہ ان شرعی سزائوں کے بارے میں نہ صرف آرمی کورٹس، بلکہ دہشت گردی اور امتناع منشیات وغیرہ کے قوانین کی آڑ لے کر ان کو انگریزی قوانین کے دائرے میں نہ لایا جائے، بلکہ انھیں شرعی عدالت اور ماتحت عدالتوں میں ہی سماعت کیا جائے، تاکہ مستغیث اور مدعا علیہ شرعی فیصلے سے استفادہ کرسکیں۔ شرعی عدالت کااپنے حقوق کو محفوظ کرنے کا رویہ قابل تعریف ہے، کیونکہ یہ اصولی طورپر قیامِ پاکستان کے مقصد سے ہم آہنگ ہے جس کا تقاضا یہی تھا کہ اس ملک کے شہری اینگلو سیکسن لاز کے بجاے اللہ کے دیے ہوئے شرعی نظام عدل میں اپنی زندگی گزاریں۔
تاہم اس موقع پریہ یاددہانی کرانا انتہائی ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کی خرابیوں میں سے صرف ایک تہائی کی ہی نشان دہی کی ہے، حالانکہ یہ پورا ایکٹ ہی خلافِ اسلام ہونے کے سبب قابلِ استرداد ہے۔ اس ایکٹ کی ۲۹ ترامیم کے نتیجے میں: ’حد زنا آرڈی ننس ۱۹۷۹ء‘ کی ۲۲میں سے ۱۲دفعات کو منسوخ اور ۶کو تبدیل کردیا گیا تھا، جب کہ حد قذف آرڈی ننس کی ۲۰ میں سے ۸کو منسوخ اور ۶ میں ترمیم کی گئی تھی۔ جس کے بعد اوّل الذکر میں محض ۴ دفعات اور ثانی الذکر آرڈی ننس میں صرف ۶ دفعات اپنی اصل شکل میں باقی رہ گئی تھیں۔ راقم نے اس متنازع ایکٹ کی منظوری کے وقت لکھا تھا:
اس بل کی خلافِ اسلام ترامیم کو اگر حذف یا درست کردیا جائے، تب بھی اس قانون کے نظام اجرا میں ایسے مسائل پیدا کردیے گئے ہیں کہ جس کے بعد معاشرے میں عملا زنا کی روک تھام ناممکن ہوگئی ہے ، اس لیے یہ بل ناقابل اصلاح ہے۔ اس بل کے ذریعے حدود سے متعلقہ ۹جرائم کو ’تعزیراتِ پاکستان‘ میں منتقل کردیا گیا ہے اور ترمیم شدہ حدود آرڈی ننس کے تحت صرف دوجرائم ہی باقی رہ گئے ہیں۔پھر ان ۱۱ میں سے جن سات جرائم کی سزا دینا مقصود ہے ، ان کو پولیس کی عمل داری میں رکھا گیا ہے۔ اس کے مجرم کو بلاوارنٹ بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے اور وہ تمام زنا بالجبراور اس سے متعلقہ جرائم ہیں جن میں خواتین سزا سے مستثنیٰ ہیں (اور یہی اس بل کا ’ثمر‘ ہے)، جب کہ پانچ جرائم محض نمایشی ہیں جن میں بچے کھچے حدود قوانین کے دوجرائم بھی شامل ہیں۔ (ماہنامہ محدث، دسمبر، ۲۰۰۶ء، ص ۲۲، ۲۳)
’ویمن ایکٹ‘ کا اہم مسئلہ اس کے لیے مجوزہ پروسیجرل لا کے ناقابل عمل تقاضے ہیں، جیساکہ اوپر مختصراً ذکر ہوا، جب کہ ابھی تک باقی رہ جانے والی قانونی خرابیوں میں صدر اور صوبائی حکومتوں کا اس کے مجرم کو معاف کرنے کا اختیار، شوہر پر زنا بالجبر کا مضحکہ خیز جرم اور اس پر سزاے موت کا ہونا بھی خلافِ اسلام ہیں۔ مزید برآں ثبوت ِزنا کے لیے پانچ گواہوں کا غیرشرعی مطالبہ یا زانی کے اعتراف کرلینے اور ’لعان‘ کے دوران بیوی کے اعترافِ زنا کو ثبوتِ جرم کے لیے ناکافی سمجھناوغیرہ ایسی چیزیں ہیں، جو تاحال اس ایکٹ کا غیراسلامی حصہ ہیں۔
مسلمانانِ پاکستان کو چاہیے اس نام نہاد ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کے ان باقی حصوں کے خلافِ اسلام ہونے پر بھی وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کریں، تاکہ اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ ہدایت سے بغاوت اور طاغوت کی غلامی کے طوق سے نجات ملے اور معاشرہ امن و سکون کی راہوں پر چل نکلے۔ (مضمون کی تیاری میں جماعت اسلامی ویمن کمیشن کی سفارشات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے)
مضمون نگار ماہ نامہ محدث، لاہور کے مدیر ہیں