مشرق وسطیٰ میں ۵۰ اور ۶۰ کے عشرے کے بعد یکایک جس ارتعاش، حرکت اور انقلاب کا ظہور ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُمت مسلمہ کی مٹی نم بھی ہے اور زرخیز بھی۔ نگاہ ظاہربین چونکہ سطح پر جو کچھ نظر آئے اس کو دیکھنے کی عادی ہوتی ہے، اس لیے وہ پُرسکون لہروں میں چھپے ہوئے بہت سے طوفانوں کو بھانپنے میں ناکام رہتی ہے۔ بعض اوقات مسائل اور مصائب یکے بعددیگرے ایسی رفتار سے آتے ہیں کہ انسان انھی میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے، اور ان سب کے مجموعی عمل سے، جو ان مسائل و مصائب کی انفرادی اثرانگیزی سے کئی سو گنا بلکہ ہزار گنا زیادہ ہوتا ہے، بالکل لاعلم رہتا ہے۔ صدیوں سے ایک مثل سنتے آرہے ہیں لیکن عقل ایسی کوتاہ نظر ہے کہ اس پر یقین کرنے پر تیار نہیں ہوتی بلکہ اسے مذاق سمجھتی ہے کہ اُونٹ جیسی قوی ہیکل مخلوق جس کا کوہان ۴۵ فی صد کا زاویہ بناتا ہے اس پر محض ایک تنکے کا رکھنا اس کی کمر کو کیسے توڑ سکتا ہے۔ حالیہ انقلابات کی بارات نے اس مقولے کو ۱۰۰ فی صد سے زیادہ درست ثابت کر دیا ہے کہ ہر زوال کی ایک حد ہے۔ جب ذلت، غربت،مصیبت حد سے گزرتی ہے تو پھر ایک تنکا بھی حالات میں مکمل تبدیلی کا باعث بن جاتا ہے۔
ایک تعلیم یافتہ مگر مفلوک الحال نوجوان بوعزیزی کا تیونس میں اپنی حمیت اور غیرت کے مجروح ہونے اور معاشی طور پر بدحالی کی انتہا کو پہنچنے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ایک طرف ایک طاغوتی قوت، بادشاہت وہ جسے فرانس و امریکا اور اسرائیل تینوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، اور دوسری جانب ایک معاشی طور پر مفلوک الحال ٹھیلہ لگانے والا، جسے انجینیرنگ کی ڈگری کے باوجود ملازمت نہ ملی، اور جسے اپنے ہاتھ کی کمائی کی سنت پر عمل کرنے کی خواہش میں ایک خاتون پولیس افسر کے ہاتھوں اظہارِ حق کرنے پر برسرِعام ذلیل ہونا پڑا۔ اس ایک واقعے نے وہی کام کیا جو اُونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا کیا کرتا ہے۔ ایسے اُونٹ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ جنوب ایشیا اور افریقہ میں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کی پیٹھ پر آخری تنکا کون اور کب رکھتا ہے؟
تیونس اور مصر کے انقلابی عمل نے کئی پڑوسی ممالک کے ایوان ہاے اقتدار میں بھونچال اور زلزلے کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس قطار میں لگے ہوئے منتظر ممالک میں سے اول لیبیا ہے جو انفرادی آمریت کے طاغوتی نظام کا پہلا چلّہ پورا کرچکا ہے اور اپنے ملک کے عوام پر تعذیب اور بندش و ابتلا میں کسی بدترین جابرانہ نظام سے کم نہیں ہے۔ بن غازی میںتو عوام نے اپنے اقتدار کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ یہ لیبیا کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ دیگر مقامات پر بھی انقلابی لہریں واضح نظر آرہی ہیں۔ ایسے ہی یمن تا بحرین اور الجزائر میں بھی انقلابی فضا عروج پر پہنچ رہی ہے۔ اس عالم گیر بیداری اور تبدیلی کی جدوجہد کو قوت و توانائی کہاں سے ملی؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو نہ صرف تیونس اور مصر بلکہ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں کارفرما ہوسکتے ہیں، اور بالخصوص ان حالات میں تحریکاتِ اسلامی کو کن پہلوئوں پر خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے؟ یہ اور اس سے متعلقہ مباحث ہر تحریکی کارکن کے ذہن کو پریشان کرتے ہیں اور ضرورت ہے کہ ان پر غیر جانب داری کے ساتھ غور کیا جائے۔
مندرجہ بالا معروضات اسی جانب اشارہ کرتی ہیں اور تیونس اور مصر کے انقلاب کے عمومی تجزیے کی روشنی میں ان ممکنہ زاویوں کی طرف متوجہ کرتی ہیں جن پر تحریکاتِ اسلامی کو چند لمحات کے لیے ٹھیر کر غور کرنا چاہیے۔ مغربی صحافت ہو یا ملکی وسائل و اخبارات اور برقی ابلاغ عامہ، گذشتہ دوہفتے سے ہر تجزیہ نگار مسلم ممالک کے سیاسی موسم پر اپنے نتائجِ فکر اور پیشین گوئیاں پیش کررہا ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ تفصیلات میں جائے بغیر جو سبق ان حالات سے اخذ کیا جاسکتا ہے اس سے بات کا آغاز کیا جائے اور اس کی روشنی میں آیندہ کی شاہراہوں کی طرف اشارہ کیا جائے۔
تیونس اور مصر دونوں ممالک کو افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کا حلیف نہیں بلکہ امریکی سامراجیت اور یورپی تہذیب و فکر کا نمایندہ کہا جاسکتا ہے۔ حسنی مبارک کے دورِ آمریت میں امریکا نوازی اور مغربی لادینی فکر کا فروغ اپنے عروج پر رہا۔ اسی طرح تیونس میں یورپی کلچر اور اقدار کی اشاعت میں شاہی خاندان نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دونوں ممالک نے مغرب کی نام نہاد ’دوستی‘ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھا اور مغرب کو خوش کرنے کے لیے اسلامی قوتوں کو دبانے میں پیش پیش رہے۔ لیکن حالیہ انقلاب نے یہ بات ثابت کر دی کہ ع جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ چنانچہ امریکی صدر کے بے ساختہ تاثرات حسنی مبارک کے نقشِ قدم پر چلنے والے آمروں کے لیے ایک کھلے پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں کہ امریکا صرف اپنے مفاد کا دوست ہوسکتا ہے، کسی اور کا نہیں۔ اس لیے امریکا کی حمایت پر ناز اور فخر کرنا اور امریکا کے دورے کر کے یہ سمجھ لینا کہ چونکہ امریکی دربار میں رسائی حاصل ہے اس لیے امریکا ہمیشہ ایسے آمروں کی پشت پناہی کرتا رہے گا، ایک سراب اور دھوکے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس انقلاب نے ایک جانب تو یہ ثابت کیا کہ جو شاہ کے مصاحب بن کر اِتراتے پھرتے تھے ان کی کیا قدروقیمت اور آبرو ہے، وہیں اس انقلاب نے چند دیگر حقائق بھی بے نقاب کیے ہیں۔
پہلی چیز جو واضح طور پر سامنے آئی ہے وہ عوامی طاقت کا مؤثر اور فیصلہ کن ہونا ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ عوامی طاقت نظام میں مطلوبہ تبدیلی کے لیے کہاں تک کامیاب ہوتی ہے لیکن خود فرد یا آمر کا تبدیل ہونا اس قوت کے مؤثر ہونے کی علامت ہے۔ یہ عجیب صورت حال ہے، خصوصاً تحریکاتِ اسلامی کے لیے غور کرنے کا مقام ہے کہ جو عوام مصر اور تیونس دونوں ممالک میں آمریت کے خلاف صف آرا ہوئے ان کا تعلق کسی حزب اختلاف یا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں تھا۔ گویا سیاسی جماعتوں کی فتح یا شکست کا اس انقلاب کے واقع ہونے سے کوئی منطقی تعلق نہیں ہے۔ پھر یہ بات بھی اُبھر کر سامنے آئی ہے کہ اسے کوئی نظریاتی انقلاب بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں معاملہ لادینیت اور دینی قوتوں کے درمیان کش مکش اور آخرکار ایک کا دوسرے پر غالب آنے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ لوگ بھی جو خود کو فخریہ سیکولر کہتے ہیں، اور وہ بھی جو اپنی دین داری پر ناز کرتے ہیں، اور وہ بھی جو ان دونوں میں شامل نہ ہوں لیکن ملکی حالات پر معترض ہوں، ان سب نے مل کر اس انقلاب میں حصہ لیا اور سیاسی کارکنوں اور جماعتوں کو چند لمحات کے لیے حیرت میں ڈال دیا۔
اس انقلاب کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ نوجوانوں کا انقلاب ہے۔ اس میں اکثریت ان نوجوانوں کی ہے جو ۲۶سال سے ۴۰ سال کی عمر کے دائرے میں ہیں۔ ہرشعبۂ حیات کے افراد اس تحریک کا حصہ رہے لیکن عمومی طور پر یہ نوجوانوں کا انقلاب ہے۔ یہ ان کا خون ہے جو رنگ لایا ہے۔ یہ ان کی جرأت اور بے باکی ہے جس نے یہ انقلاب برپا کیا ہے۔ آمریت اور استبداد کا ہوّا جو کئی قرنوں سے لوگوں کے ذہنوں پر سوار تھا، اس انقلاب نے تیونس اور مصر کے عوام کو اس ہوّے سے آزاد کر دیا ہے۔ اب وہ سیاہ و سفید کے فرق کو نہ صرف جان گئے ہیں بلکہ ان کی زبانوں نے بے باکی کے ساتھ حق کا اظہار کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ہے۔
اس انقلاب کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ مکمل طور پر مقامی انقلاب ہے۔ غیرملکی میڈیا ہو یا خفیہ ادارے، اب تک کی معلومات کی روشنی میں یہ ان سب کے اندازوں کے برخلاف ہوا ہے، اور اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عوام الناس کے مسائل کا ادراک اور فہم رکھتے ہوئے کوئی تحریک چلائی جائے تووہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل سکتی ہے۔
اس انقلاب کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ نئی نسل کی جانب سے امریکا پر عدم اعتماد کے ’اجماع‘ کا اظہار ہے۔ جس آمریت اور بادشاہت کو رد کرنے کے لیے نوجوانوں نے یہ اقدام کیا ہے، وہ اتنی ہی شدت کے ساتھ امریکا کی سیاست کو رد کرنے کا اعلان بھی ہے۔ یہ انقلاب ہمیں اس جانب بھی متوجہ کرتا ہے کہ ذاتی مفاد کی سیاست، چند خاندانوں یا ایک خاندان کی ریاست پر اجارہ داری کا دور اَب رخصت ہورہا ہے۔ جب نوجوانوں میں عقابی روح بیدار ہوجاتی ہے تو ایوانِ اقتدار کو اپنی جاگیر سمجھنے والوں کا وقتِ آخر آن پہنچتا ہے۔ یہ انقلاب شخصی اور فوجی آمریت دونوں کے خلاف عدمِ اعتماد کے ووٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس انقلاب نے اس بات کو بھی پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ اقتدار کی گرتی ہوئی دیوار کو اُس کے نام نہاد حمایتی اور پاسبان بھی سہارا دینے سے گریز کرتے ہیں۔ دوسری جانب آمروں اور بادشاہوں کے اس خیال کی بھی تردید کردی ہے کہ عوام نابالغ ہیں، ناسمجھ ہیں، انھیں چند انعامات کے کھلونے دے کر خاموش کیا جاسکتا ہے، جیساکہ بعض مسلم ممالک کے فرماں روائوں نے اپنی ’رعایا‘ کے لیے چند ہزار دینار تحائف دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ عوام ان کے ممنون احسان ہوکر مظاہروں اور مطالبات سے باز آجائیں۔
حدیث شریف میں ’رعیت‘ کے حوالے سے جو ذمہ داری مسئول پر ڈالی گئی ہے وہ اچانک ان آمروں کو یاد آگئی ہے۔ بعض علما قرآن کریم کی اولی الامر سے متعلق آیت مبارکہ کے صرف ابتدائی حصے کی طرف عوام الناس کو متوجہ کر رہے ہیں کہ اللہ، اس کے رسولؐ اور اولی الامر کی اطاعت اختیار کی جائے۔ آیت مبارکہ کا بقیہ حصہ شاید ابھی تک نظروں سے اوجھل ہے کہ جب اولی الامر سے اختلاف اور نزاع یا تنازع ہوجائے تو پھر اطاعت صرف اللہ کی ہے، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، اور اولی الامر کی حیثیت ایک عام شخص کی راے سے زائد نہیں، نہ ایسی حالت میں اطاعت کی فرضیت باقی رہتی ہے۔
اس انقلاب کی لہر سے تاریخ کے جس نئے دور کا آغاز ہورہا ہے اس میں بنیادی مسئلہ نظریاتی تقسیم کا نہیں ہے بلکہ اللہ کے بندوں کے حقوق کا ہے۔ آج ایک سیکولر شخص ہو یا دینی جماعت سے وابستہ، کسان ہو یا ڈاکٹر، مزدور ہو یا طالب علم، وہ ان حقوق کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو کل تک چند مخصوص طبقات تک محدود تھے۔ وہ تعلیم ہو، روزگار ہو، مہنگائی ہو، ذاتی تحفظ ہو، صحت ہو، یا اظہار راے کا حق، ان تمام حقوق کے حصول کے لیے ہر طبقۂ خیال کے افراد نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی پر عمل کرتے ہوئے آمرانہ اور شاہانہ نظام کے علَم برداروں کو للکارا ہے۔ یہ عوامی قیادت کسی صلاح الدین کا انتظار کیے بغیر آگے بڑھی ہے اور اس کی متحدہ قوت نے طاغوت اور ظلم کے نمایندوں کو دُم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ہمارے خیال میں یہ جمہوری اقدار کی فتح اور مغربی سامراجی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی شکست کا اعلان ہے۔ روشنی کی اس کرن سے اُس صبحِ اُمید کے روشن ہونے کا امکان بہت قوی ہوگیا ہے جو اسلام کے دیے ہوئے عادلانہ نظام کو مشاورت پر مبنی سیاسی اصولوں اور عوام الناس کے مصالح پر مبنی حکمت عملی کی روشنی میں نافذ کرسکے۔ لیکن یہ سمجھنا بھول پن ہوگا کہ مغربی سامراجیت اتنی آسانی سے اپنی شکست مان لے گی۔ آخر مصر میں وقتی قیادت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ کل تک حسنی مبارک کے دست راست تھے اور محض ایک رات کے گزر جانے سے ان کی فکر، ان کی شخصیت،ان کی ترجیحات اور ان کا نقطۂ نظر انقلابی طور پر تبدیل نہیں ہوسکتا۔ گو، مصر کی حد تک فوجی قیادت نے جو کمیٹی دستوری سفارشات تیار کرنے کے لیے بنائی ہے اس میں اخوان المسلمون کے ایک نمایندے اور ایک عیسائی لیکن معروف جج کو بھی شامل کیا گیا ہے، لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا یہ محض اپنے چہروں کو چھپانے کے لیے انھیں استعمال کرنا ہے یا خلوصِ نیت کے ساتھ سفارشات میں اخوان اور عیسائی آبادی کے خیالات کو اہمیت دینے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔
ہر آمرانہ نظام کے بعد آنے والے جانشین ہمیشہ جمہوریت کے علَم ہی کا سہارا لیتے ہیں اور بہت جلد سابقہ آمریت سے زیادہ ظالمانہ نظام کے کارندے بن جاتے ہیں۔ گو، قرائن بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ایسا کرنا آسان نہ ہوگا اور سامی عنان جو امریکی تربیت یافتہ اور امریکا کے اعتماد کے فوجی سربراہ ہیں، باوجود اپنی امریکا نوازی کے ماحول اور فضا کے پیش نظر،ایسی اصلاحات اور انتخابات کروانے پر آمادہ ہوجائیں گے جن میں عوامی خواہشات کی جھلک ہو۔
مغربی ذرائع ابلاغ بین السطور اور کھلے الفاظ میں جس بات کو بار بار دھرا رہے ہیں وہ مختصر طور پر یہ ہے کہ اب مصراور تیونس کے عوام کے سامنے جو انتخاب ہے، وہ بہت سخت ہے۔ ایک طرف گڑھا ہے تو دوسری طرف کھائی، یعنی ایک جانب سابقہ حکومت کے سیاہ اعمال ہیں تو دوسری جانب ’اسلامیان‘ جو فطرتاً ’انتہاپسند‘، ’شریعت پرست‘، ’مغرب دشمن‘ اور ’دہشت گردی‘ کا پس منظر لیے ہوئے ہیں۔ ان دو میں انتخاب آسان نہیں ہے۔ یہ سب کچھ کہنے کے بعد بڑے سلیقے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اصل علاج تو ’مغربی لادینی جمہوریت‘ ہی ہے لیکن بااکراہ اگر کچھ اور نہ ہوسکے تو پھر ’اسلامیان‘ کو مشروط طور پر موقع دیا جاسکتا ہے مگر یہ خطرات اور خدشات سے بھرا ہوا راستہ ہوگا۔ اس لیے بہت غوروفکر کی ضرورت ہے۔
تیونس اور مصر کے انقلاب کی ایک خصوصیت اس کا معلوماتی انقلابی دور میں اتصالاتی ذرائع سے عوام کو آگاہ اور منظم کرنے کا عمل ہے۔ اس سے قبل معلومات کی ترسیل ایک بہت مشکل کام تھا۔ کبھی روٹیوں کے اندر پیغامات کو چھپا کر، کبھی ریشمی رومال کے ذریعے، اور اُس سے پہلے تربیت یافتہ کبوتروں کے ذریعے پیغامات بھیجے جاتے تھے۔ لیکن حالیہ انقلاب میں انٹرنیٹ اور سیل فون کے ذریعے لاکھوں افراد تک اپنی بات پہنچاکر انھیں متحرک کرنے اور منظم کرنے کا تجربہ کیا گیا۔ ایران کے انقلاب میں جو کام کیسٹ کے ذریعے مساجد میں امام خمینی کی تقاریر و پیغامات کو سناکر کیا گیا تھا، آج جدید آلات رسل و رسائل کا صحیح استعمال کرتے ہوئے وہی مقصد اس کم خرچ مگر مبنی برعقل طریقے سے حاصل کرلیا گیا۔ تیونس کے قومی پھول یاسمین کی مناسبت سے اسے ’انقلابِ یاسمین ‘ کا نام دیا گیا۔ گو، شاید زیادہ صحیح نام ’اتصالاتی انقلاب‘ ہوگا۔
یہ واقعہ ہمیں یہ بات باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ وہ آلات جنھیں ہمارے ملک کے نوجوان اپنے دوستوں کو لطائف، فلمی گانے اور ملاقات کے لیے اطلاع کے لیے استعمال کرتے ہیں، اسی چھوٹے سے موبائل فون کے sms کے ذریعے کسی ملک کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ نوجوان نسل کو مسائل کی سنگینی اور اہمیت کا شعور ہو، اس آگہی کو دوسروں تک منتقل کرنے کی خواہش اور تڑپ ہو، اور سب سے بڑھ کر مقصد اور منزل نگاہوں کے سامنے واضح ہو۔
جدید ٹکنالوجی نے جہاں نوجوانوں کو ایسے بہت سے عبث کاموںمیں مشغول کر دیا ہے جن سے نہ ان کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، نہ ملکی معاشرے میں کوئی تبدیلی، وہیں اس جدید ٹکنالوجی کا مثبت اور مفید استعمال کرکے ایسے بہت سے کام جو بظاہر مشکل اور عظیم مالی وسائل کے محتاج سمجھے جاتے ہیں، قابلِ برداشت مالی وسائل میں احسن طور پر سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ جس دستوری انقلاب کی دعوت دیتی ہیں وہ محض ایک یوٹوپیا (خیالی تصور) ہے اور انقلاب صرف خونیں ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے جب تک ریاست کو قوت کے استعمال اور زورِ بازو سے حاصل نہیں کیا جائے گا اللہ کی زمین پر اللہ کی خلافت کا قیام ایک واہمہ ہے۔ موجودہ صورت حال اس کے برعکس یہ ثابت کرتی ہے کہ تیونس اور مصر میں ریاست کو عوام کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور فوج بھی ان حالات میں آمریت سے کنارہ کش ہونے پر مجبور ہوئی۔
لیبیا میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک الگ تفصیلی تجزیے کا محتاج ہے۔ ہرملک کے حالات اور واقعات دوسرے ملک جیسے ہونا ضروری نہیں ہے، نہ ہر آمریت دوسری آمریت کی مماثل کہی جاسکتی ہے۔ اس لیے ہم اپنی گفتگو کو تیونس اور مصر کے تجزیے تک ہی محدود رکھنا چاہیں گے۔
دونوں ممالک کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سول اور فوجی آمریت ملکی معیشت، معاشرت، ثقافت، قانون اور تعلیم، غرض کسی بھی شعبۂ حیات میں اصل مسائل کا حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ یہی شکل پاکستان میں آج پائی جاتی ہے اور موجودہ حکومت اپنے ’جمہوری‘ ہونے کے دعووں کے باوجود ایک ’سول آمریت‘ کا بہترین نقشہ پیش کررہی ہے۔
تحریکات اسلامی کے لیے ان حالات میں کئی اہم پہلو غوروفکر کے متقاضی ہیں۔ ایک چیز جو فوری توجہ چاہتی ہے اس کا تعلق موجودہ انقلابات کا آبادی (demography) کے لحاظ سے جائزہ ہے۔ یوں تو نوجوان ہر تحریک میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ معوذؓ اور معاذؓہوں، اسامہ بن زیدؓ ہوں، عبداللہ ابن مسعودؓ ہوں یا ابوہریرہؓ___ یا آج کے دور کے نوجوان، لیکن تحریک کے لیے قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اس کی افرادی قوت میں عمروں کا تناسب کیاہے۔ جن افراد کو دعوت دی گئی ہے ان میں سے کس عمر کے افراد نے جلد دعوت پر لبیک کہا؟ خود دعوت دینے والے افراد کا کس عمر سے تعلق ہے؟ کیا اُس فطری قوت کو، اُس جذبے کو، خطرات مول لینے کی عادت کو، چیلنج کا مقابلہ کرنے میں مسابقت کرنے کی تڑپ کو تحریک نے تجزیاتی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس کی مناسبت سے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کی ہے؟
نوجوانوں کی نفسیات، دیگر افراد سے مختلف ہونا ایک فطری امر ہے۔ ایسے ہی عمر کے ڈھلنے کے ساتھ غیرمحسوس طور پر افراد کی کارکردگی، ردعمل، حالات کا تجزیہ کرنے اور حالات کو بدلنے کے لیے حکمت عملی کے حوالے سے طرزِعمل میں تبدیلی بھی کوئی غیرفطری بات نہیں۔ تحریکاتِ اسلامی کو خصوصاً حالیہ انقلابات کے demographic پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی دعوت کا ہدف کس عمر کے طبقات ہیں، ان کے کارکنوں میں عمر کا تناسب کیا ہے، نیز خود ملک گیر پیمانے پر عمر کے لحاظ سے کس قسم کی سرگرمی کی ضرورت ہے۔ دو مختلف خطوں میں اُبھرنے والی تحریکات کا اگر صرف اس پہلو سے جائزہ لیا جائے، جس کا نہ یہ موقع ہے، تو بہت دل چسپ نتائج تک پہنچا جاسکتا ہے۔
اس وقت مسلم دنیا میں عمر کے لحاظ سے ایسے افراد کا دور نظر آتا ہے جو توانائی، حرکت اور مسلسل عمل کو پسند کرنے والے کہے جاسکتے ہیں۔ انھیں سنجیدہ سیمی نار یا نظریاتی مسائل پر مطالعے کے حلقے میں بٹھا کر چند لمحات کے لیے تو ان کی توجہ حاصل کی جاسکتی ہے لیکن پھر ان کا دل اُچاٹ ہوجانا، ان کی عمر کا تقاضا ہے۔ ایسے افراد کے لیے بھرپور سرگرمیوں کے پروگرام کی ضرورت ہے۔ یہ کام ہر تین ماہ بعد ایک ریلی، مظاہرے یا دھرنے سے نہیں ہوسکتا۔ ایک اندازے کے مطابق مراکش میں ۲۵سال یا اس سے کم عمر کے افراد کا تناسب ۴۷ فی صد، ماریتانیا میں ۵۹ فی صد، الجزائر میں ۴۷فی صد، تیونس میں ۴۲فی صد، لیبیا میں ۴۷فی صد، مصر میں ۵۲فی صد، عراق میں ۶۰فی صد، ایران میں ۴۵فی صد، یمن میں ۶۵فی صد اور کویت میں ۳۷فی صد، جب کہ متحدہ عرب امارات میں ۳۱فی صد ہے۔ گویا اُمت مسلمہ ایک جوان اُمت ہے۔ اس کے حوصلے بھی جوان ہونے چاہییں۔ اس کی منزلیں بلند اور اعلیٰ ہونی چاہییں۔ اس کی قیادت بھی اس عمر کے دائرے میں ہونی چاہیے۔
دوسرا اہم پہلو جس پر تحریکاتِ اسلامی کو غور کرنے کی ضروت ہے وہ جدید ذرائع ابلاغ، انٹرنیٹ، یوٹیوب اور blogs کا استعمال ہے۔ آج کا نوجوان اپنے وقت کا بڑا حصہ یہ جاننے کے لیے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اس کے ٹرم پیپر کے لیے تازہ ترین تحقیق کس رسالے یا کتاب میں پائی جاتی ہے، کون سی فلم یا گانا مقبول ہے، لباس کے نئے ڈیزائن کیا ہیں، غرض علمی مسائل ہوں یا دینی معلومات یا تحقیقی موضوعات وہ ہرلمحے انٹرنیٹ کی تیزرفتاری اور سہولت کی بنا پر اس طرف رجوع کرتا ہے۔ کیا تحریکاتِ اسلامی نے اپنی دعوت، اپنے پیغام، اپنے طریق کار اور خصوصاً طریق تبدیلیِ قیادت کے حوالے سے اس جدید سہولت کے استعمال پر غور کیا ہے، اور کیا غور کو عملی اقدامات میں تبدیل کیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو تحریکاتِ اسلامی ابھی ماضی میں بس رہی ہیں۔ زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور انھیں ابھی تک اس کی خبر بھی نہیں۔
تیسرا پہلو تحریکات اسلامی کے غور کرنے کا یہ ہے کہ کیا ان کی حکمت عملی میں اسلامی ریاست، اسلامی معیشت اور اسلامی معاشرت کے قیام کا مطالبہ عوام اور نوجوانوں تک ان کے پیغام کی صحیح ترجمانی کرتا ہے یا انھیں اپنے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے، بغیر سیکولر ہوئے ان عمومی پہلوئوں کو دعوت کا مرکز بنانا ہوگا جو شریعت کے مقاصد ہیں اور جن کے قیام کے لیے تمام انبیاے کرام ؑنے جدوجہد کی___ معاشرے میں عدل کا قیام، محروم طبقات کو ان کے جائز حقوق دلانا، عورتوں پر ہونے والے روایتی معاشرے کے مظالم کو بند کروانا، مفلسی کو دُور کرنا، اظہارراے اور اظہارِ اجتماع کے حق کے حصول پر عوام میں اور نوجوانوں میں غیرشدت پسند ذرائع سے سیاسی اور معاشی انقلاب برپا کرنا۔ حالیہ انقلابات میں جن حضرات نے حصہ لیا، ان میں ’اسلامیان‘ بھی شامل ہیں اور بظاہر سیکولر افراد بھی۔ وجہ ظاہر ہے۔ ہدف نظامِ عدل کا قیام، استحصال، آمریت اور غیرجمہوری نظام کے خاتمے کی جدوجہد تھی جس میں مسلم، عیسائی، لادینی، ہرقسم کے افراد نے شمولیت کی۔ کیا تحریکاتِ اسلامی اس صورت حال سے سبق لیتے ہوئے بغیر اپنے اعلیٰ ترین مقصد، یعنی رضاے الٰہی کے حصول اور صالح قیادت کے قیام کے لیے اپنی حکمت عملی پر نئے سرے سے غور کرکے ان مسائل کو اوّلیت دے سکتی ہیں جو نوجوانوں اور ہرفکر کے افراد کو شمولیت پر آمادہ کرسکیں؟
ایک اور اہم پہلو جس پر غور کی ضرورت ہے، اس کا تعلق خدمتِ خلق کے تصور کے ساتھ ہے۔ جن لوگوں نے شہر کے چوراہوں پر مظاہرے کیے، رات دن اپنے جذبات کا اظہار کیا، ان کے کھانے پینے کے لیے کسی بیرونی ملک یا ادارے نے کوئی رقم خرچ نہیں کی بلکہ لوگوں نے خود آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا۔ تحریکاتِ اسلامی کی تاریخ میں اس قسم کے تجربات کی کثرت ہے اور اپنے تجربات کی روشنی میں اگر وہ عوام تک پہنچنے اور انھیں ساتھ لے کر چلنے کے لیے خدمتِ خلق کو دیگر کاموں پر ترجیح دیں تو شاید حصولِ مقصد میں زیادہ آسانی پیدا ہوسکے۔ اس حوالے سے تفصیلی طور پر ترکی میں ہونے والی تبدیلی کے جائزے کی ضرورت ہے جو ایک الگ تحقیق کی مستحق ہے۔ پاکستان کے حوالے سے کراچی میں نظامت کراچی جب تحریکِ اسلامی کی متحرک قیادت کے زیراثر تھی تو شہر میں کیے جانے والے اقدامات کو جس کسی نے بھی دیکھا مخالف ہونے کے باوجود تحریکِ اسلامی کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا اور آج تک اس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔
تحریک کی حکمت عملی میں قریب المیعاد اور طویل المیعاد منصوبے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے مختلف شہروں کو منتخب کر کے ان پر نوجوانوں کی قوت کو مرتکز کیا جائے اور عوام کو اپنی آنکھوں سے مشاہدے کا موقع فراہم کیا جائے کہ مخلص قیادت ایمان دار ناظم اور اللہ کا خوف رکھنے والے مقامی رہنما اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اپنے اہلِ ملک کے لیے کیا معجزے کرسکتے ہیں۔
تحریکِ اسلامی کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک گیر پیمانے پر رفاہی اور ترقیاتی کاموں، بے روزگاری کے خاتمے اور غربت کو دُور کرنے کے لیے کس طرح یوتھ فورس کو استعمال کیا جاسکتاہے۔ ہمارا ہدف چند جامعات کی یونین پر کامیابی سے زیادہ اپنی بے لوثی، خلوص، قربانی و ایثار پر ہونا چاہیے، جس کی اپنی زبان ہے، اپنا اثر ہے، اپنے نتائج ہیں۔
آمریت کے خلاف عوام کو متحد کرنے کے لیے اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ’اصولی جمہوریت‘ کو ’سرمایہ دارانہ مغربی جمہوریت‘ کے مقابلے پر علمی، جذباتی، عوامی سطح پر پیش کیا جائے اور جو لوگ اپنے آپ کو عوامی جمہوریت کے علَم بردار کہتے ہیں، ذاتیات سے بلند ہوکر ہم ’اصولی جمہوریت‘ کے خدوخال واضح کریں جس میں مشاورت، صلاحیت، امانت اور صداقت کی بنیاد پر لوگوں کو یک جا کیا جائے اور آمریت کو اصل ہدف بنایا جائے۔
اس پورے عمل کے دوران میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ عوامی جدوجہد، قربانی اور کوشش کے نتیجے میں جب آمریت اپنا بوریا بستر لپیٹنے پر مجبور ہوجائے تو اس انقلاب کو کوئی اغوا نہ کرنے پائے اور نہ ’اسلامیان‘ کے خیالی خطرے ہی کو بار بار بیان کرکے بیرونی ابلاغِ عامہ صحت مند اور صالح قیادت کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوں۔ مغربی صحافت کا جائزہ لیاجائے تو ہرتجزیہ یہ بات بیان کر رہا ہے کہ کرپٹ، غیرمخلص، لالچی، خودغرض قیادت جو مسلم دنیا پر قابض رہی ہے، اس کا اصل متبادل تو اسلام پسند ہی ہیں لیکن یہ کہنے کے ساتھ فوراً یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس سب کے باوجود اگر ’اسلامیان‘ برسرِاقتدار آگئے توبنیاد پرستی، تشدد، انتہاپسندی وغیرہ کا امکان پیدا ہوجائے گا۔
اس بین السطور اور بعض اوقات واضح طور پر راے کا اظہار اتنی مرتبہ کیا جا رہا ہے کہ ہرسامع اور ناظر ’اسلامیان‘ کی جگہ سیکولر قیادت ہی کی طرف راغب ہوں۔ گویا آمریت جائے اور سیکولر قیادت اس خلا کو پُر کرے۔ تحریکاتِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس چالاکی پر مبنی تصور کو بغیر کسی معذرت کے اپنی حکمت عملی اور طرزِعمل سے دُور کریں تاکہ ان پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ بہترین مثال ترکی کی قیادت ہے جس نے ’اصولی جمہوریت‘ کے لیے جدوجہد کی اور ملک میں دستوری اصلاحات کے ذریعے ریاست کے اصولاً سیکولر ہونے کے باوجود ملکی معیشت، خودانحصاری، دفاع اور اسلامی اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے مسائل پر بھی جرأت مندانہ حکمت عملی اختیار کی۔
آج جو فضا ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے کے بعدپیدا ہوئی ہے، یہ تاریخ کے ایک موڑ کا پتا دے رہی ہے۔ اسلام کی احیائی تحریکات نے جو بیج بیسویں صدی میں ڈالے تھے اب ان سے شجرطیبہ پیدا ہورہے ہیں جن کی جڑیں مضبوط اور سایہ گھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت، دین پر اعتماد اور خلوصِ نیت کے ساتھ کی جانے والی جدوجہد ان شاء اللہ وہ تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگی جس میں عدل و احسان کا دور دورہ ہو۔