جولائی ۲۰۱۱

فہرست مضامین

مصر میں نئے دور کاآغاز

عبد الغفار عزیز | جولائی ۲۰۱۱ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

الاخوان المسلمون کے مرشد عام کی دعوت پر جماعت اسلامی پاکستان کا ایک وفد جس کی قیادت محترم امیرجماعت سیدمنور حسن کر رہے تھے، اور جس میں قیم جماعت لیاقت بلوچ، نائب صدر الخدمت فائونڈیشن ڈاکٹر حفیظ الرحمن اور راقم الحروف شامل تھے، ۲۰جون کی شام قاہرہ پہنچا۔ ائیرپورٹ پر پاکستانی سفارت خانے کے ذمہ داران بھی تھے اور اخوان کے نمایندگان بھی۔ ۲۱جون کی صبح ہماری پہلی باقاعدہ ملاقات مرشد عام پروفیسر ڈاکٹر محمد بدیع سے تھی۔ یہ ملاقات قاہرہ کے سب سے بلندی پر واقع علاقے المُقَطَّم میں اخوان کے سات منزلہ نئے اور شان دار مرکز میں ہوئی۔  مرشدعام ڈاکٹر بدیع کے ہمراہ اخوان کے سیکریٹری جنرل محمود حسین اور مکتب ارشاد (مجلسِ عاملہ) کے کئی ارکان بھی شریک محفل تھے۔

ڈاکٹر محمد بدیع مرشد عام منتخب ہونے سے پہلے نائب مرشد عام کی حیثیت سے تربیتی اُمور کے ذمہ دار تھے۔ ان کی بات بات سے یہی تربیتی پہلو اور قرآن و حدیث سے استدلال سامنے آتا تھا۔ ساری دنیا تسلیم کررہی ہے کہ اخوان کی منظم قوت کی شرکت کے بغیر حسنی اقتدار سے نجات حاصل نہیں کی جاسکتی تھی، لیکن مرشد عام بار بار دہرا رہے تھے: دنیا کی کوئی طاقت کامیابی اس کا دعوی نہیں کرسکتی۔ نہ اخوان اور نہ کوئی دوسری عوامی قوت، یہ سراسر اللہ تعالی کی ایک نشانی اور معجزہ تھا۔ اپنی یہ بات کرتے ہوئے کہنے لگے ہر فرعون اپنی ہی قوم کو تقسیم کردیتا ہے۔ قرآن کریم اس چال کو بے نقاب کرتے ہوئے بتاتا ہے:’’بے شک فرعون نے زمین میں سرکشی کی، اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا… فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا‘‘ (القصص ۲۸:۴)، لیکن بالآخرپھر پوری مصری قوم جسد واحد بن گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت عطا کردی۔ اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ واضح کرتا ہے: ’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل بناکر رکھے گئے تھے اور انھیں پیشوا بنادیں اور انھی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں‘‘۔

مرشد عام نے اپنی گفتگو میں کئی بار سابقہ اور حالیہ دور کا موازنہ کیا۔ فلسطین اور اس کی صورت حال کا ذکر ہوا تو کہنے لگے: کئی سال سے مختلف فلسطینی دھڑوں کو بھی باہم لڑایا جارہا تھا۔    حسنی مبارک کے بعد صرف چار گھنٹے میں الفتح اور حماس باہم اتفاق راے پر پہنچ گئے۔ ان کی اس صلح پر امریکا اور اسرائیل سمیت فلسطینیوں کے سب دشمن تنقید کررہے ہیں۔

ڈاکٹر محمد بدیع بتا رہے تھے کہ شاید مسلم تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ حسنی مبارک کے بعد میدان التحریر میں ادا ہونے والے جمعے میں لاکھوں کی تعداد میں مسیحی بھی شریک تھے۔ خطبۂ جمعہ میں مسلمان ہی شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے خطاب بھی برادرانِ اسلام سے ہوتا ہے لیکن علامہ یوسف القرضاوی نے خطبۂ جمعہ ان الفاظ سے شروع کیا: ’’میرے مسلمان اور مسیحی بھائیو‘‘۔

مرشد عام بتا رہے تھے کہ اسلامو فوبیا کی عالمی لہر عوام کو شریعت اسلامی اور اسلامی تحریکوں سے خوف زدہ کرنے پر کمر بستہ ہے۔ مصر میں جاری پوری پراپیگنڈا مہم میں اخوان کو تنقید کا خصوصی ہدف بنایا جارہا ہے۔ اپنے اس خوف کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اخوان ۱۰۰ فی صد نشستیں حاصل کرلے گی۔ پھر انھوں نے اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے آغاز ہی سے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ ہم اس مرحلے میں اقتدار کے لیے کوشاں نہیں ہوں گے۔ ہم پورے غور و خوض کے بعد اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ آیندہ مرحلے میں اپنی تمام تر توجہ، قوم کی خدمت اور اسے اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آشنا کرنے پر مرکوز رکھیں گے۔ گذشتہ دورِ جبر کے باعث عوام کی بڑی تعداد تک اسلام کی حقیقی تعلیمات پہنچنے ہی نہیں دی گئیں۔ صرف چند ظاہری رسوم و رواج کو دین کا نام دے دیا گیا ہے۔  ہم آیندہ مرحلے کو ’دور اخوان‘ ثابت کرنے کے بجاے معاشرے کو حقیقت اسلام سے آشنا کرنے کا مرحلہ بنائیں گے۔ اس کا مطلب پورے سیاسی عمل سے خود کو الگ تھلگ کرلینا ہرگز نہیں ہے۔ ہم تو اب بھی ذمہ داریوں اور خدمت میں برابر کے شریک ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت پورے ملک میں امتحانات ہورہے ہیں۔ ملکی سطح پر انٹر میڈیٹ کے ان امتحانات کی خصوصی اہمیت ہے۔ عبوری حکومت اس قابل نہیں تھی کہ امتحانی مراکز کی حفاظت کرسکے، اخوان نے ملک بھر میں عوام کے تعاون سے امن کمیٹیاں تشکیل دیں اور ان امتحانی مراکز کی حفاظت کی۔ قوم کو اس وقت اور بھی کئی بحران درپیش ہیں اور اخوان کسی حکومت کا حصہ ہوئے بغیر بھی، اپنے کارکنان اور عوامی تائید کے ذریعے معاشرے کی خدمت کررہے ہیں، یہ سلسلہ آیندہ بھی جاری رہے گا۔

اخوان نے آیندہ صدارتی انتخاب میں اپنا اُمیدوار نہ لانے اور پارلیمانی انتخابات میں ۵۰فی صد نشستوں پر اُمیدوار نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ دیگر تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر میدان التحریر میں دکھائی دینے اور کامیاب ہونے والی قومی وحدت کا ثبوت دیں۔ مرشدعام بتارہے تھے کہ عبوری فوجی سربراہ نے تمام سیاسی جماعتوں کو اجتماعی ملاقات کے لیے بلایا تھا، میں نے وہاں تمام پارٹی رہنماؤں کو دعوت دی، کہ آئیے سب مل کر دنیا کے سامنے وحدت کی ایک نئی مثال پیش کریں، ہم سب ایک ہی مشترک پینل کی صورت میں انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں۔

اگلے روز ایک اور تفصیلی نشست تھی۔ مرشد عام کے ساتھ اخوان کے چاروں نائب مرشدین عام، جمعہ امین (امام حسن البنا کے ساتھی رہے)، رشاد البیومی، انجینیر خیرت الشاطر اور ڈاکٹر محمود عزت بھی شریک تھے۔ اخوان کے تربیتی نظام، خواتین میں اخوان کے کام، نوجوانوں میں اخوان کی سرگرمیوں اور آیندہ انتخابات میں اخوان کی حکمت عملی پر تفصیلی تبادلہء خیال ہوا۔ ڈاکٹر جمعہ امین بتارہے تھے کہ اگرچہ گذشتہ دور ابتلا میں کام کرنا بہت دشوار تھا لیکن الحمد للہ خواتین میں ہمارا کام مردوں سے بھی زیادہ ہے۔ اپنے نظام کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہنے لگے نوجوانوں میں کام ہو، خواتین میں ہو یا معاشرے کے کسی بھی طبقے میں اس کے لیے ہماری الگ الگ برادر تنظیمیں نہیں ہیں بلکہ شعبہ جات ہیں اور تمام شعبہ جات الحمد للہ فعال اور باہم مربوط ہیں۔

مرشد عام نے بتایا کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے الگ سیاسی جماعت تشکیل دی ہے۔ الحریۃ و العدالۃ (فریڈم اینڈ جسٹس) پارٹی اب ایک باقاعدہ رجسٹرڈ پارٹی بن چکی ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی اس کے سربراہ ہیں، ڈاکٹر سعد الکتاتنی (۲۰۰۸ء میں مینار پاکستان پر ہونے والے اجتماع میں اخوان کی نمایندگی کرچکے ہیں) سیکریٹری جنرل ہیں اور ڈاکٹر عصام العریان نائب صدر۔ ملک میں چھے سے آٹھ فی صد آبادی آرتھوڈکس قبطی مسیحیوں کی ہے۔ ان کی نمایندگی کے لیے ایک مسیحی رہنما ڈاکٹر رفیق حبیب کو بھی نائب صدر مقرر کیا گیا ہے۔ محترم امیر جماعت کے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ مسیحی برادری کو ساتھ شریک کرنا کوئی نئی پالیسی نہیں ہے، بلکہ    امام حسن البنا نے بھی مسیحی برادری کو مکمل طور پر اپنے ساتھ شریک کیا تھا۔ دنیا کو یہ منظر بھی نہیں بھولا ہوگاکہ جب امام حسن البنا کو شہید کردیا گیا تو ان کے جنازے پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔  تب صرف ایک مسیحی رہنما مَکْرَم عبید ہی ان کے گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے اور انھوں نے خواتین خانہ کے ساتھ مل کر شہید کی میت قبر تک پہنچائی تھی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ملک میں اخوان کی ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ ۱۹۸۶ء میں ہی کرلیا گیا تھا۔

بعد ازاں فریڈم پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر محمد مرسی سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ رجسٹریشن کے بعد تمام اضلاع میں پارٹی کے تنظیمی انتخابات مکمل ہوگئے ہیں اور ہم نے ۲۰سیاسی جماعتوں کو مدعو کرکے ان کے ساتھ ایک انتخابی اتحاد بنانے کا آغاز بھی کردیا ہے۔    قومی اسمبلی کی ۵۰۸ نشستیں ہیں۔ ۲۲۲حلقے ہیں۔ ہر حلقے سے دو ارکان منتخب ہوتے ہیں۔ اس طرح ۴۴۴؍ارکان براہ راست ووٹنگ سے منتخب ہوتے ہیں۔ ۳۲ ضلعی حکومتوں سے ۶۴ خواتین ارکان اسمبلی منتخب ہوتی ہیں۔

پارٹی کو درپیش خطرات اور چیلنجوں کے بارے میں کیے جانے والے سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انتشار پھیلانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ لاتعداد جماعتیں رجسٹر کرلی گئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قانون کے مطابق کسی بھی پارٹی کے پاس کم از کم ۵ہزار تاسیسی ارکان ہونا ضروری ہیں۔ ان میں سے بہت سی جماعتوں کے پاس اتنے لوگ بھی نہیں ہیں لیکن انھیں رجسٹر کرلیا گیا ہے۔ انھیں بھاری مقدار میں بیرونی امداد دی جارہی ہے۔ امریکی سفیر کے بیان کے مطابق ’’امریکا مصر میں جمہوریت کے استحکام کے لیے ۴کروڑ ڈالر خرچ کرچکا ہے‘‘۔ ہیلری کلنٹن کہہ  رہی ہیں کہ مصر میں جمہوریت کے لیے امریکا ۱۶۰ ملین ڈالر، یعنی تقریباً ایک ارب مصری پاؤنڈ (ایک پاؤنڈ تقریباً ۱۴روپے کا ہے) خرچ کرے گا۔ اس کے بقول اب تک ۶۰۰جماعتیں اور تنظیمیں یہ امداد لینے کے لیے درخواست دے چکی ہیں۔ اگلے ہی روز اخبارات میں اسرائیلی روزنامے ہآرٹز میں سابق صہیونی وزیر خارجہ سیبی لیونی کا تجزیہ چھپا ہوا تھا، جس میں اس نے کہا تھا: ’’آیندہ ستمبر اسرائیل کے لیے ایک سونامی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مہینے ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں الگ فلسطینی ریاست بنانے کے لیے قرارداد لائی جارہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے سر پر ایک تلوار یہ بھی لٹک رہی ہے کہ اس مہینے مصر میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ ہمارے لیے یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ ہمارے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ میدان التحریر کے انقلاب کے بعد تشکیل پانے والا نیا مصر کیسا ہوگا؟ کیا ان انتخابات کے بعد الاخوان المسلمون کی حکومت تو نہیں بن جائے گی؟ ہمیں انتخابات کے اس ماحول میں فلسطین کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ خالی خولی میڈیا وار اور چھیڑ چھاڑ کے بجاے اعتدال پر مبنی پالیسی پر چلنا ہوگا‘‘۔ گویا مصری انتخابات مصر میں نہیں، اسرائیل اور امریکا میں لڑے جانا ہیں۔

آیندہ مصری منظرنامے میں اخوان کی قوت سے یہ سب جو خطرہ محسوس کررہے ہیں، اس کا بنیادی سبب اخوان کی قرآن سے گہری وابستگی اور مضبوط تنظیم ہے۔ اخوان کے ذمہ داران بتا رہے تھے کہ اخوان کے باقاعدہ ارکان کی تعداد الحمد للہ ساڑھے سات لاکھ سے متجاوز ہے اور اُمیدواران و رفقا کو ملا کر یہ تعداد ۲۰ لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔ ان تمام افراد میں سے ہر رکن قرآن و سنت اور تحریکی لٹریچر کے ٹھوس مطالعے سے گزرتا ہے۔ ہر ساتھی اپنی کل آمدن کا ۹ فی صد اخوان کو اعانت کے طور پر جمع کرواتا ہے اور اپنی جان تک نچھاور کرنے سے گریز نہیں کرتا۔

حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دوران اخوان کے ۵۵؍ ارکان اور سیکڑوں رفقا و کارکنان شہید ہوئے۔ صرف یہ دو ہفتے ہی نہیں اخوان کی پوری تاریخ شہادتوں اور صعوبتوں کی داستان سے معمور ہے۔ گذشتہ اپریل میں د منہور شہر میں ایک جلسہء عام سے خطاب کرتے ہوئے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع بتا رہے تھے کہ صرف حسنی مبارک کے ۳۰سالہ دور کے دوران میں ہمارے ۴۰ہزار کارکنان گرفتار ہوئے۔ گرفتار شدگان کی کم سے کم سزا چھے ماہ قید تھی۔ یونی ورسٹی کے اساتذہ، ڈاکٹروں اور انجینیروں کی واضح اکثریت پر مشتمل ان قیدیوں کو ملنے والی سزا کی کل مدت جمع کی جائے تو وہ ۲۰ ہزار سال___ جی ہاں ۲۰ ہزار سال بنتی ہے۔ مصر کے ایک سابق وزیراعظم ڈاکٹر عزیز صدقی نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: افسوس کہ مصر میں اخوان کے پاس اتنے باصلاحیت کارکنان ہیں، لیکن ہم نے قوم کوان کی تمام خدمات سے محروم رکھا!،

اخوان کے سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف سے ملاقات ہوئی۔ دیگر تحریکی و عالمی مسائل کے علاوہ ان کی ذاتی زندگی کے کئی واقعات پر بھی گفتگو ہوئی۔ بتانے لگے کہ میری شادی ۴۷سال کی عمر میں ہوئی تھی، کیونکہ اس سے پہلے مسلسل ۲۰ سال جیل میں گزرے۔ لیاقت بلوچ صاحب نے دریافت کیا: جیل کے یہ ۲۰ سال کیسے گزرے؟ فوراً بولے: ایک منٹ کی بھی فرصت نہیں ملی۔ درس و تدریس، مطالعہ، ورزش اور خالق سے مناجات کے بعد وقت ہی نہیں بچتا تھا۔ ۸۲سالہ محمدمہدی اپنی حالیہ مصروفیات کے بارے میں بتانے لگے کہ اب بھی روزانہ مرکز آتا ہوں۔ مختلف احباب سے ملاقاتیں رہتی ہیں یا پھر جو بھی خدمت مرشد عام ذمے لگائیں۔ پھر خود ہی کہنے لگے: ’’صرف اور صرف اللہ کی رضا پیش نظر نہ ہو تو یہ ایک مشکل کام ہے۔ آپ پوری تحریک کا مرکز و محور بنے ہوئے ہوں اور آپ اس منصب سے ہٹ کر دیکھیں کہ اب تمام افراد و اُمور کسی اور طرف منتقل ہورہے ہیں، تو شیطان مسلسل حملہ آور رہتا ہے۔ یہ شرف صرف اسلامی تحریک ہی کو حاصل ہے کہ چونکہ مقصد صرف رضاے الٰہی کا حصول ہوتا ہے، اس لیے دنیا و آخرت کے بہت سے فتنوں سے انسان محفوظ رہتا ہے۔ کارکنان کے دل میں بھی اسی باعث مزید محبت پیدا ہوتی ہے‘‘۔

  •  خطرات: حسنی مبارک کے زوال کے بعد ہر مصری شہری آزادی کی بالکل نئی فضا میں سانس لے رہا ہے۔ لیکن اب بھی لاتعداد اندرونی و بیرونی خطرات اُفق پر موجود ہیں۔ اخوان کی کامیابی کے امکان اور قوت کو ہوّا بنا کر ذرائع ابلاغ میں مسلسل پراپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ اخوان کے اندر اختلافات اور دھڑے بندیوں کے قصے گھڑے جارہے ہیں۔ مشکلات و مسائل تو ہر جگہ ہوتے ہیں، لیکن انھیں افسانوی انداز دیا جارہا ہے۔ سب سے نمایاں اختلاف صدارتی انتخاب میں حصہ لینے یا نہ لینے پر سامنے آیا ہے۔ اخوان کے ایک نمایاں سابق رہنما ڈاکٹر عبد المنعم ابو الفتوح کی راے یہ تھی کہ صدارتی انتخاب میں ضرور حصہ لینا چاہیے۔ وہ خود اس کے مضبوط اُمیدوار کے طور پر بھی سامنے آگئے لیکن اخوان کا فیصلہ دو ٹوک ہے کہ ہم اپنی تمام تر توجہ پارلیمانی انتخاب پر مرکوز رکھیں گے اور آیندہ مرحلے میں ملک کی مکمل باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ انھوں نے ابو الفتوح کو رجوع کا موقع دیا، لیکن اپنا فیصلہ تبدیل نہ کرنے پر اخوان سے ان کا اخراج کردیا۔ میڈیا کے لوگ ابو الفتوح کی علیحدگی کو بھی اخوان کی دو حصوں میں تقسیم قرار دے رہے ہیں۔ ۲۴ جون کے اخبارات نے تو وکی لیکس کے حوالے سے یہ بھی خبر اڑا دی کہ اخوان پانچ دھڑوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ حالانکہ یہ خبریں اڑانے والے جانتے ہیں کہ جو اپنا پورا مال اور اپنی جان تحریک کے لیے قربان کررہے ہوں، وہ اختلاف کے آداب بھی جانتے ہیں۔

جمعہ ۲۴ جون کو میدان التحریر میں واقع جامع مسجد عمر مَکرَم میں نماز جمعہ کے بعد امیر جماعت کی سربراہی میں ہمارا وفد مسجد سے نکلا تو سامنے میدان کے کنارے نوجوان جمع ہونا شروع ہورہے تھے۔ حسنی مبارک کی پھانسی، کرپٹ وزرا کے احتساب و مقدمات اور انقلاب کی حفاظت کے نعرے لگ رہے تھے۔ ہم سب بھی ان کے ساتھ نعروں میں شریک ہوگئے۔ یہ عام نوجوان تھے، انھیں جب بتایا گیا کہ یہ جماعت اسلامی کا وفد ہے، پاکستانی قوم کی طرف سے مصری قوم کو انقلاب میں کامیابی پر مبارک باد دینے آیا ہے، تو جوش و ولولہ مزید بڑھ گیا۔ نعروں میں بھی حسنی مبارک،   سابق حکمران اور انقلاب کی حفاظت کے علاوہ امت مسلمہ اور عالم اسلامی کے بارے میں نعرے شامل ہوگئے۔ امریکا مردہ باد، صہیونی استعمار مردہ باد کہا جانے لگا اور پوری قوت سے پکارنے لگے:   قادم قادم یا اسلام حاکم حاکم بالقرآن، اسلام اب آگے بڑھو اور قرآن کو حکمران بنادو۔ عل الأقصی رایحین شہداء بالملایین، لاکھوں کی تعداد میں شہید ہونے کے لیے تیار  ہم اقصی (کی آزادی) کے لیے جارہے ہیں۔ ہمیں فوراً ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہونا تھا لیکن شرکا مصر تھے کہ خطاب کریں۔ محترم امیرجماعت نے اپنا مختصر پیغام دیا کہ ان شاء اللہ آزادی کا یہ سفر میدان التحریر سے وادی کشمیر تک جاری رہے گا۔ ہمیں اُمید ہے کہ جس وحدت اور قربانی کے نتیجے میں آپ نے آمر سے نجات پائی ہے، اسی وحدت کے ذریعے آپ آیندہ مراحل میں بھی سرخرو ہوں گے۔

نوٹ: بہت مصروف پانچ روزہ دورے کے بعد پاکستان پہنچے تو پرچہ پریس میں جارہا تھا۔ عجلت میں کچھ اہم امور عرض کردیے ہیں۔ آیندہ شمارے میں ان شاء اللہ چند مشاہدات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ مصر انسانی تہذیب و تاریخ کا اہم مرکز رہا ہے اور یہاں کا چپہ چپہ اہم واقعات کا امین ہے۔