سوال: بعض ہم عصر علما کا خیال ہے کہ زکوٰۃ کی رقم ان بھلائی کے کاموں میں بھی دی جاسکتی ہے جنھیں چند افراد یا تنظیمیں انجام دیتی ہیں، مثلاً مسجدیں بنوانا یا ہسپتال اور مدرسے بنوانا یا یتیموں کا ٹرسٹ قائم کرنا وغیرہ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ مصارفِ زکوٰۃ میں ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد ہر وہ نیک اور بھلائی کا کام ہے جو اللہ کی راہ میں کیا جائے، حالاں کہ جمہور مفسرین اور سلف صالحین کے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد جہاد ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا راے ہے؟ ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد صرف جہاد ہے یا پھر اسے عام کر کے اس سے مراد ہر نیک اور بھلا کام ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیا جائے۔
جواب: بلاشبہ بعض علما کے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد وہ تمام بھلائی کے کام ہیں جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیے جائیں، مثلاً مسجدیں یا ہسپتال بنوانا وغیرہ۔ لیکن میرے نزدیک ’فی سبیل اللہ‘ کو عام معنوں پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ اس طرح ’فی سبیل اللہ‘ کے تحت زکوٰۃ کے مستحقین کی اتنی قسمیں ہوجائیں گی کہ شمار کرنا مشکل ہوگا۔ اس طرح زکوٰۃ والی آیت (توبہ ۹:۶۰) میں زکوٰۃ کے مستحقین کو آٹھ قسموں تک محدود رکھنے کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ مزید برآں اگر ’فی سبیل اللہ‘ کو عام معنی پر محمول کیا جائے تو اس سے مراد فقرا و مساکین بھی ہوں گے حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ والی آیت میں ان کا تذکرہ علیحدہ کیا ہے۔ پھر ان کا علیحدہ سے تذکرہ کرنے کا کیا فائدہ؟ اللہ کا کلام بلاغت کے اعلیٰ معیار پر ہے اور یہ بات فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے کہ بے مقصد و فائدہ کسی چیز کی تکرار ہو۔ پس یہ معلوم ہوا کہ یہ تکرار بے مقصد نہیں ہے بلکہ درحقیقت ’فی سبیل اللہ‘ کا علیحدہ اور خاص مفہوم ہے۔
سلف صالحین اور جمہور مفسرین نے اس سے مراد ’جہاد‘ لیا ہے۔ دلیل کے طور پر انھوں نے احادیث اور صحابہؓ کے اقوال میں سے مثالیں پیش کی ہیں، مثلاً حضوؐر کی یہ حدیث ہے: ’’اللہ کی راہ میں صبح یا شام نکلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے‘‘(بخاری و مسلم)۔ اس حدیث میں ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد جہاد ہے۔ صحابہؓ نے ایک صحت مند نوجوان کو دیکھا تو فرمانے لگے: ’’کاش! اس کی جوانی اور تنومندی اللہ کی راہ میں ہوتی‘‘ (طبرانی)۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس کی جوانی جہاد کے موقعے پر کام آتی۔ اس سلسلے میں میری راے یہ ہے کہ ’فی سبیل اللہ‘ کو نہ صرف جہاد پر محمول کیا جائے اور نہ اسے عام کر کے ہر اس کام پر محمول کیا جائے، جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو۔
بلاشبہہ ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد ہے، لیکن جہاد کا مفہوم صرف جنگ کرنا نہیں ہے ،بلکہ اس سے بڑھ کر اس سے وسیع تر مفہوم اس میں شامل ہے، یعنی ہر وہ قدم جو اللہ کے دین کی نصرت اور اعلاے کلمۃاللہ کے لیے اُٹھے۔ جہاد صرف تلوار اور توپ سے نہیں ہوتا بلکہ کبھی قلم سے ہوتا ہے اور کبھی زبان سے۔ کبھی اقتصادی جہاد ہوتا ہے اور کبھی سیاسی۔ ان میں سے ہر جہاد میں مالی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر وہ کوشش اور قدم جو اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے اُٹھے اسے ’فی سبیل اللہ‘ کے مفہوم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
کبھی وہ زمانہ بھی تھا جب توپ اور تلوار سے جنگ کر کے اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوا، اور آج وہ زمانہ ہے جب فکری اور لسانی جنگ زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے بڑے بڑے معرکے سر کیے جاتے ہیں۔ جہاد کے اس وسیع تر مفہوم کو ثابت کرنے کے لیے میں چند دلیلیں پیش کرتا ہوں:
۱- نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا جہاد سب سے افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: کسی ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا (مسند احمد و نسائی)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کی ایک شکل لسانی جہاد بھی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’مشرکوں سے جہاد کرو اپنے مال کے ذریعے، اپنی جان کے ذریعے اور اپنی زبانوں کے ذریعے‘‘ (مسنداحمد، ابوداؤد، حاکم)۔ معلوم ہوا کہ جہاد فقط تلوار کی جنگ کا نام نہیں ہے، بلکہ بسااوقات اور حسب ضرورت مال کے ذریعے جہاد ہوتا ہے۔ کبھی جسمانی قوت کا استعمال ہوتا ہے اور کبھی لسانی قوت کی ضرورت پیش آتی ہے۔
۲- لفظ جہاد کو وسیع تر مفہوم پر محمول کرنے کے لیے اگر کوئی قطعی نص نہ بھی ہوتی تب بھی محض قیاس کی بنا پر ایسا کیا جاسکتا ہے کیونکہ جہاد چاہے تلوار سے ہو، چاہے قلم اور زبان سے، ان میں سے ہر جہاد کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے، یعنی اعلاے کلمۃ اللہ۔
یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ حالات اور ماحول کی مناسبت سے بعض کاموںکو ایک ملک میں جہاد تصور کیا جائے گا اور وہی کام بعض دوسرے ملکوں میں محض ایک رفاہی کام قرار پائے گا۔ مثلاً ایک ایسے ملک میں جہاں اسلام کا غلبہ ہے، مسلمانوں کی اکثریت ہے اور لوگ دینی تعلیم سے آگاہ ہوں وہاں کسی مدرسے یا مسجد کی تعمیر ایک رفاہی کام تو ہوسکتا ہے مگر جہاد نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس کسی غیرمسلم ملک میں جہاں مسلمانوں کی اقلیت ہو، اشاعتِ اسلام کی خاطر مسجد یا مدرسے تعمیر کرنا یقینا جہاد ہے۔ عیسائی مشنریوں کی مثال واضح ہے۔ انھوں نے چرچ، ہسپتال اور اسکول کی تعمیر کی آڑ لے کر عیسائیت کی جس قدر تبلیغ کی ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
درحقیقت اس دور میں جہاد فی سبیل اللہ کی سب سے عظیم صورت یہ ہے کہ مسلم ممالک جو کفار و مشرکین کے قبضے میں چلے گئے ہیں، انھیں بہ زور قوت واپس حاصل کیا جائے۔ کفار و مشرکین چاہے عیسائی ہوں یا یہودی ہوں یا کمیونسٹ، ان میں سے کوئی بھی اگر مسلم ممالک پر غاصبانہ قبضہ کرلیتا ہے تو اس وقت تک جہاد کی تمام صورتیں بروے کار لائی جائیں گی جب تک یہ علاقے مسلمانوں کو واپس نہیں مل جاتے۔ مثال کے طور پر فلسطین کا نام لیا جاسکتا ہے جس پر یہودی ظالمانہ طریقے سے غاصب ہوگئے ہیں، چنانچہ جہاں بھی اس طرح کی جنگ جاری ہو، ہمیں بھرپور مالی تعاون کرنا چاہیے۔ ان جگہوں پر زکوٰۃ کی رقم بھی ارسال کرنی چاہیے۔
البتہ ایک بات یہاں قابلِ ذکر ہے۔ آج اس دور میں دفاعی اخراجات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کے لیے علیحدہ بجٹ بنایا جاتا ہے اور یہ بجٹ بھی تمام دوسرے بجٹ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ بعض ممالک تو ایسے ہیں کہ ملکی خزانے کا ۵۰ فی صد دفاعی بجٹ کے لیے مخصوص کردیتے ہیں۔ اس قدر ضخیم بجٹ کے لیے زکوٰۃ کی تھوڑی سی رقم ہرگز کافی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے میری راے میں زکوٰۃ کی رقم جہاد کی ان صورتوں میں بھیجنا زیادہ بہتر ہے جنھیں لسانی، ثقافتی، فکری اور اعلامی جہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان صورتوں میں تھوڑی رقم بھی زیادہ نمایاں کام انجام دے سکتی ہے۔ ذیل میں بعض ایسی ہی صورتیں پیش کرتا ہوں:
۱- اسلامی دعوتی مرکزکا قیام، جہاں سے لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے۔
۲- خوداسلامی ممالک کے اندر اسلامی ثقافتی مراکز کا قیام جہاں مسلم جوانوں کی عملی تربیت ہوسکے اور انھیں اعلاے کلمۃ اللہ کی خاطر تیار کیا جاسکے۔
۳- اسلامی اخبارات و جرائد کا اجرا جو غیراسلامی صحافتی سرگرمیوں کے لیے چیلنج ہو۔
۴- اسلامی کتب کی نشرواشاعت جس میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور کفر کی ریشہ دوانیوں کو اُجاگر کیا جائے۔
یہ وہ چند صورتیں ہیں جہاں زکوٰۃ کی رقم ارسال کرنی چاہیے بلکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ہرممکن طریقے سے ان تمام سرگرمیوں میں دل کھول کر مالی تعاون کرنا چاہیے۔ (ڈاکٹر محمد یوسف قرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ سید زاہد اصغر فلاحی، مرکزی مکتبہ اسلامی ، نئی دہلی، ص ۱۴۳-۱۴۶)
س: کیا کسی کافر یا ملحد کو محض انسانی بنیادوں پر زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، اگر وہ مالی تعاون کا محتاج ہو؟ یا کسی فاسق مسلمان شخص کو جو نماز روزے سے لاپروا ہو اور حرام کاموں میں ملوث ہو، اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے؟ یا ان لوگوں کو زکوٰۃ دینا اللہ کی نافرمانی شمار کی جائے گی؟
ج: جو شخص سرے سے اللہ، اس کے رسولوں اور یومِ آخرت کا منکر ہو تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینی جائز نہیں ہے، کیوں کہ وہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں کا دشمن تصور کیا جائے گا۔ اسے مالی طور پر مستحکم کرنا، گویا، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرِپیکار ہو اور علی الاعلان ان سے دشمنی کی باتیں کرتا ہو، اسے بھی زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ انھیں زکوٰۃ دیناگویا ان سے موالات اور مواخات قائم کرنا ہے اور اللہ نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے۔
البتہ وہ ذمی شخص جو مسلم حکومت کی سرپرستی میں ہے، بعض فقہا کے نزدیک محض تالیفِ قلب کی خاطر اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ لیکن جمہور فقہا کا قول ہے کہ زکوٰۃ کی رقم ذمی کو بھی نہیں دی جاسکتی کیوں کہ زکوٰۃ ان ذمیوں سے وصول نہیں کی جاتی ہے اور جب وصول نہیں کی جاتی تو انھیں دی بھی نہیں جاسکتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ مسلمان مال داروں سے لی جاتی ہے اور مسلمان غریبوں کی طرف لوٹا دی جاتی ہے۔ البتہ ان ذمیوں کی زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے طریقوں سے مدد کی جاسکتی ہے اگر وہ مالی تعاون کے محتاج ہوں۔
رہے وہ مسلمان جو فاسق و فاجر ہیں، نماز نہیں پڑھتے اور حرام کام کرتے ہیں، تو انھیں زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، بہ شرطے کہ وہ اس رقم کو اللہ کی نافرمانی کے کاموں میں خرچ نہ کریں۔ اگر وہ اس رقم کو گناہوں کے کاموں میں خرچ کریں، مثلاً شراب پینے میں یا جوا کھیلنے میں، تو زکوٰۃ کی رقم انھیں ہرگز نہیں دی جائے گی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ سے اہلِ بدعت اور اہلِ فسق و فجور کی زکوٰۃ کی رقم دینے کے سلسلے میں سوال کیاگیا تو فرمایا: ہمیں چاہیے کہ ہم ان فقرا و مساکین اور دوسرے مستحقین زکوٰۃ کو تلاش کریں جو اللہ کی شریعت پر قائم ہوں اور نیک مسلمان ہوں۔ رہے وہ لوگ جو فاسق و فاجر ہیں اور اہلِ بدعت ہیں تو وہ سزائوں کے مستحق ہیں نہ کہ مدد کے۔ وہ شخص جو نماز نہیں پڑھتا ہے، اس سے نماز پڑھنے کے لیے کہا جائے گا۔ اگر اس نے نماز پڑھنا شروع کر دی تو اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے ورنہ نہیں۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج۲۵، ص ۸۷)
محترم استاد الشیخ محمد ابوزہرہ کی راے ان سے مختلف ہے۔ وہ گنہگاروں کو بھی زکوٰۃ دینے کے حق میں ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے:
۱- زکوٰۃ والی آیت میں فقرا و مساکین کا لفظ عام ہے۔ اس میں اہلِ معصیت اور اہلِ تقویٰ کے درمیان فرق نہیں ہے۔ اگر ہم غیرمسلموں کو تالیفِ قلب کی خاطر زکوٰۃ کی رقم دے سکتے ہیں تو فاسق مسلمانوں کو بدرجہ اولیٰ دے سکتے ہیں۔
۲- ہم کسی گنہ گار مسلمان کو جو مالی تعاون کا سخت محتاج ہے، محض اس کی معصیت کی بناپر زکوٰۃ نہیں دیتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے زندہ رہنے کا حق چھین رہے ہیں۔ تلوار سے مارنا اوربھوک سے مارنا دونوں میں زیادہ فرق نہیں۔
۳- مشکل وقتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی مدد کیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؐ نے صلح حدیبیہ کے بعد ابوسفیان کے پاس ۵۰۰ دینار بھیجے تھے، کیوں کہ قبیلہ قریش قحط کا شکار ہوگیا تھا۔
۴- اہلِ معصیت کو مالی تعاون نہ دینا بسااوقات انھیں مزید سرکشی کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ (بحث شیخ ابوزہرہ، ص ۷۵، ۷۶)
میں سمجھتا ہوں کہ استاد محترم محمد ابوزہرہ کی ان دلیلوں پر کلام کیا جاسکتاہے:
۱- ان کی پہلی دلیل فقر اور مساکین کا عموم ہے۔ اس عموم کی تخصیص اسلام کے اس قاعدۂ کلیہ سے ہوسکتی ہے جس کے مطابق اصل معصیت کی ہرممکنہ زجروتوبیخ ہونی چاہیے اور معصیت میں ان کے تعاون سے پرہیز کرنا چاہیے۔ چنانچہ اسی زکوٰۃ والی آیت میں لفظ الغارمین کا بھی استعمال ہے اور وہ بھی بظاہر عام ہے، جب کہ تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ ان قرض خوروں کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی جنھوں نے غلط کاموں کے لیے قرض لیا ہو۔
۲- ہم کہاں کہہ رہے ہیں کہ گنہ گاروں کو بھوک سے مرتا چھوڑ دیں۔ زکوٰۃ کے علاوہ دوسری مدوں سے بھی ان کی مدد کی جاسکتی ہے بلکہ کرنی چاہیے۔
۳- کفار و مشرکین کی صلہ رحمی زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے پیسوں سے کی جاسکتی ہے جیساکہ حضورؐ نے کیا۔
درج ذیل صورتوں میں تمام فقہا کا اتفاق ہے:
۱- اہلِ معصیت کی مدد زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے پیسوں سے کی جاسکتی ہے۔
۲- تالیفِ قلب کی خاطر اہلِ معصیت کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔
۳- جاں بلب شخص چاہے وہ اہلِ معصیت ہی کیوں نہ ہو، اس کی جان بچانے کے لیے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
۴- اگر یہ یقین ہو کہ اہلِ معصیت زکوٰۃ کی رقم کو گناہ کے کاموں میں خرچ کرے گا تو اسے زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔
میری راے یہ ہے کہ اہلِ معصیت دو طرح کے ہیں: ایک وہ ہیں جو گناہ کرتے ہیں لیکن گناہوں پر شرمندہ بھی ہیںاور اسلام سے ان کا رشتہ باقی بھی ہے۔ ان گنہ گاروں کو زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ البتہ وہ حضرات جو صرف نام کے مسلمان ہوں اور اسلامی احکام و شعائر کا مذاق اُڑاتے ہوں، تو انھیں زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی۔ (م ی ق، ایضاً، ص ۱۴۷-۱۴۹)
س: اس زمانے میں رأس المال، یعنی اصل پونجی جسے ہم تجارت میں لگاتے ہیں اس کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً:
۱- بعض اوقات اصل پونجی متحرک شکل میں ہوتی ہے، مثلاً کاریں، کل پرزے اور ہر وہ تجارتی چیز جو فروخت کی خاطر دکانوں میں رکھی جاتی ہے، مثلاً کپڑے اور کھانے کی چیزیں وغیرہ۔
۲- بعض اوقات پونجی اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ وہ اپنی جگہ ثابت ہوتی ہے، مثلاً آفس، کمپیوٹر اور آفس میں ڈیکوریشن یا ضرورت کی خاطر استعمال کیے جانے والے فرنیچر۔
۳- بعض اوقات پونجی جایداد کی صورت میں ہوتی ہے، مثلاً عمارت اور زمین۔
۴- بعض اوقات پونجی قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے اور قرضے بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بعض کی واپسی ممکن ہوتی ہے خواہ تاخیر سے ہو اور بعض کی واپسی تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔
یہ ہیں تجارت میں لگائی گئی پونجی کی چند صورتیں۔ اس دور میں تجارت میں اس قدر تنوع اور توسع آچکا ہے کہ زکوٰۃ نکالنے والے بعض دفعہ حیران و پریشان رہتے ہیں کہ کس مال میں زکوٰۃ نکالی جائے اور کس میں نہیں؟ آپ سے تشفی بخش جواب مطلوب ہے۔
ج: آپ نے جس طرح ترتیب وار صورتوں کا تذکرہ کیا ہے، میں بھی اسی ترتیب سے جواب دیتا ہوں:
۱- پہلی صورت، یعنی وہ اصل پونجی جو متحرک شکل میں ہوتی ہے، مثلاً کاریں جو فروخت کی خاطر ہوتی ہیں یا کپڑے اور جوتے وغیرہ جو دکانوں میں فروخت کی خاطر رکھے جاتے ہیں، فقہ کی اصطلاح میں انھیں عروض التجارۃ کہتے ہیں، یعنی وہ تجارتی اشیا جنھیں فروخت کر کے ان سے نفع کمانا مقصود ہو۔ چونکہ عروض التجارۃ سے نفع کمانا مقصود ہوتا ہے اس لیے اس میں زکوٰۃ فرض ہے۔
۲- اسی طرح وہ چیزیں جو متحرک نہیں بلکہ ثابت صورت میں ہوتی ہیں، مثلاً آفس، آفس کا فرنیچر اور کمپیوٹر، ٹائپ رائٹر وغیرہ تو انھیں عروض التجارۃ (مالِ تجارت) نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ وہ مالِ تجارت نہیں جن سے نفع کمانا مقصود ہوتا ہے بلکہ نفع کمانے کے لیے انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ فقہا کا قول ہے: ’’وہ برتن، فرنیچر اور الماریاں وغیرہ جن میں تجارتی اشیا رکھی جاتی ہیں یا جنھیں تجارت میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً ترازو وغیرہ تو زکوٰۃ کی خاطر ان کی قیمت نہیں لگائی جانی چاہیے اور نہ ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔
۳- جایداد اگر تجارتی نقطۂ نظر سے خریدی جائے اور اسے فروخت کر کے اس سے فائدہ کمانا مقصود ہو تو اس جایداد کی قیمت لگاکر اس پر زکوٰۃ نکالنا واجب ہے۔ البتہ اگر زمین خرید کر اس پر کرایہ کی خاطر گھر یا دکان بنائی جائے، تو اس زمین پر نہیں بلکہ اس کے کرایے پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ اس صورت میں زکوٰۃ کی شرح کیا ہوگی؟ ڈھائی فی صد زکوٰۃ ادا کی جائے گی جیساکہ عروض التجارۃ میں ہے یا ۵ فی صد یا ۱۰ فی صد، جیساکہ کھیتی کی زمین میں غلے پر زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے۔
۴- رہے قرضے تو ان میں سے وہ قرضے جن کی واپسی ناممکن ہو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں۔ اگر کسی زمانے میں واپس ہوجائیں تو ان پر ایک سال کی زکوٰۃ فرض ہے۔ البتہ وہ قرض جن کی واپسی عین ممکن ہو تو انھیں اپنی ملکیت تصور کر کے ان پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔
تجارت کی ایک صورت اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی کمپنی کی ایجنسی لے لی جائے اور اپنی ایجنسی میں کمپنی کا سامان فروخت کی خاطر رکھا جائے۔ اس سامان کا حکم یہ ہے کہ اس کی حیثیت امانت کی سی ہوتی ہے۔ یہ سامان کمپنیوں کی طرف سے بطور امانت ایجنسیوں میں رکھے جاتے ہیں۔ اس لیے ان پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ (م ی ق، ایضاً، ص ۱۳۶-۱۳۷)