ڈاکٹر حافظ حسن مدنی


پاکستان کی وفاقی حکومت ’دینی مدارس کوقومی دھارے میں لانے‘ کے دعوے کے ساتھ مذاکرات، بیانات اور دبائو کو بروے کار لارہی ہے۔ اتحاد تنظیماتِ مدارس دینیہ کے نمایندہ وفد کی یکم اپریل ۲۰۱۹ء کو آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ اور ۲؍اپریل کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے ملاقاتوں سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ پھر وفاقی وزارتِ تعلیم اور وفاق ہاے مدارس کے مابین ۶مئی ۲۰۱۹ء کو ایک اہم اجلاس ہوا جس کی رپورٹ اخبارات میں یوں چھپی:
وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود کی زیر صدارت دینی مدارس کے حوالے سے ایک اہم اجلاس میں اتحاد تنظیماتِ مدارس پاکستان کے سربراہان اور دیگر ذمہ داران نے شرکت کی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ :
    ۱-    تمام دینی مدارس و جامعات، اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے ساتھ طے شدہ رجسٹریشن فارم کے مطابق وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹریشن کرانے کے پابند ہوں گے۔ 
    ۲-    اس مقصد کے لیے وفاقی وزارتِ تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت پورے ملک میں۱۰؍ریجنل دفاتر رجسٹریشن کے لیے قائم کرے گی۔
    ۳-    وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت مدارس و جامعات کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کی مجاز اتھارٹی ہو گی۔ 
    ۴-    جو مدارس و جامعات وفاقی وزارتِ تعلیم وپیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈ نہ ہوں گے، وفاتی حکومت اُنھیں بند کرنے کی مجاز ہو گی۔ 
    ۵-    جو مدارس و جامعات رجسٹریشن کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کریں گے ، اُن کی رجسٹریشن منسوخ کر دی جائے گی۔
    ۶-    وہ مدارس و جامعات جو وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں گے، اُنھیں بنکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے وفاقی وزارتِ تعلیم معاونت کرے گی۔
    ۷-     وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس وجامعات ہی غیر ملکی طلبہ کو تعلیم کی سہولت مہیا کر سکیں گے ۔ اس سلسلے میں وزاتِ تعلیم کی سفارش پر ان طلبہ کو اُن کی مدتِ تعلیم (جو زیادہ سے زیادہ ۹ سال ہوگی) اور حکومتی قواعد وضوابط کے مطابق ان کے لیے ویزوں کے اجرا میں معاونت کرے گی۔
    ۸-    ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کے لیے وزارت کے ساتھ رجسٹرڈ مدارس وجامعات میٹرک اور ایف اے کے بعد فنی تعلیمی بورڈ کے ساتھ الحاق کر سکیں گے۔
        اجلاس میں وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود، نائب صدر’وفاق المدارس العربیہ، مُفتی محمد رفیع عثمانی ،ناظمِ اعلیٰ وفاق المدارسُ العربیہ، پاکستان‘ مولانا محمد حنیف جالندھری، صدر ’تنظیم المدارس اہل سُنّت‘، مفتی مُنیب الرحمٰن، جنرل سیکرٹری ’وفاق المدارس السّلفیہ،  مولانا محمد یٰسین ظفر ،نائب صدر’ وفاق المدارس الشیعہ، سیّد قاضی نیاز حسن نقوی، جنرل سیکرٹری، رابطۃ المدارس الاسلامیہ، ڈاکٹر عطاء الرحمٰن ،جنرل سیکریٹری’وفاق المدارس الشیعہ‘، مولانا محمد افضل حیدری اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ (روزنامہ نواے وقت، ۷مئی ۲۰۱۹ء)

چند روز قبل اسی فیصلہ کی بازگشت دوبارہ یوں سنی گئی:

’’وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود(۱) نے اعلان کیا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن کے لیے ملک بھر میں ۱۲ مراکز کھولے جائیں گے اور مدارس کے مسائل کا حل وزارتِ تعلیم مقامی انتظامیہ سے مل کر نکالے گی۔ ’ایک قوم ایک تعلیم ‘ہمارا ہدف ہے۔ مدارس کی رجسٹریشن سے نہ صرف مدارس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے گی بلکہ اس سے یکساں تعلیمی نصاب رائج کرنے میں بھی آسانی ہوگی‘‘۔(روزنامہ نواے وقت ، ۲۷ جولائی ۲۰۱۹ء)
مذاکرات کے دوسرے دور میں ۱۶جولائی کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باوجوہ سے ملاقات ہوئی۔۱۷ جولائی ۲۰۱۹ء کی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں سابقہ فیصلوں کی توثیق کی گئی۔ طلبہ مدارس کی میٹرک اور ایف کی اسناد کے لیے یہ ہدایت کی گئی کہ:ان کے جملہ امتحانات وفاقی ثانوی تعلیم بورڈ (فیڈرل بورڈآف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن) کے تحت منعقد کروائے جائیں گے۔ اساتذہ اور ممتحن حضرات کی خصوصی تربیت کی جائے گی۔ تاہم، وفاق ہاے مدارس کے اتفاق نہ کرنے پر، حکومت کی طرف سے: ’’ان امتحانات کو صرف اُن پرچوں تک محدود کرنے کا کہا گیا، جو حکومت کی طرف سے بطورِ لازمی مضمون پڑھائے جاتے ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں وفاق ہاے مدارس سے کہا گیا کہ وہ اپنی مجلس شوریٰ سے اس پر منظور ی حاصل کریں۔ مذاکرات کا تیسرا دور ۱۹؍اگست ۲۰۱۹ء کی نشست سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس میں مدارس اپنا موقف پیش کریں گے۔
 مدارس کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبہ و طالبات کے لیے ایم اے کی سند تو صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور۱۹۸۲ءمیں منظور ہوئی تھی، جس میں ایم اے کو تمام میدانوں کے لیے جامع تر کرنے اور اس کی بنا پر گریجوایشن کرنے کا طریقہ بھی طے کیا گیا تھا۔ تاہم، صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس پر کچھ شرائط عائد کی گئیں۔ حال ہی میں ’اعلیٰ تعلیمی کمیشن‘ (HEC) نے بی اے کی سند کے بارے بھی ایک اعلامیہ(۲) جاری کیا ہے۔ اُصولاً ۱۹۸۲ء میں ایم اے معادلہ (Equivalence) کے فوری بعد ہی مدارس کے باقی تعلیمی مراحل کی اسناد کی منظوری کی طرف پیش قدمی ہونا چاہیے تھی، لیکن ۳۷برس گزر جانے کے بعد بھی تاحال، پاکستان میں دینی مدارس کے طلبہ کے لیے میٹرک اور ایف اے کی سند کے اعتراف کا کوئی باضابطہ نظام نہیں بن سکا۔ 
جنرل مشرف دور کے جاری کردہ حکم نامے ۲۰۰۵ء کے مطابق وفاق ہاے مدارس سے   ایم اے کی سند کا معادلہ انھی کو ملتا تھا، جن کے پاس مدارس کی میٹرک، ایف اے اور بی اے مراحل کی سند موجود ہوتی۔ اگر پہلی دو اسناد پر کوئی سخت پابندی لگا دی جاتی ہے، تو باقی اسناد (بی اے اورایم اے یعنی الشهادة العالمية) کا مرحلہ آنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ اسی طرح اگر مدارس کی ابتدائی اسناد کے ساتھ ان کی رجسٹریشن بھی وزراتِ تعلیم کے ہاتھ میں ہوجائے تو وفاق ہاے مدارس کے پورے ۳۷ سالہ نظام کا ہی بوریا بستر لپیٹا جاسکتا ہے۔ 

اُصولی اور مستقل لائحہ عمل 

۱- سرکاری اور نجی یونی ورسٹیوں کو حکومتی گرانٹس بھی ملتی ہیں، اور یہ ادارے اپنے منظور شدہ نظام تعلیم کے ساتھ دیگر کالجوں کو بھی ملحق (affiliate)کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف دینی مدارس پر پاکستان کی وفاقی یا صوبائی حکومتیں عمارتوں، یوٹیلٹی بلز، اساتذہ وعملہ کی تنخواہوں اور نصابی کتب کی مد میں کچھ خرچ نہیں کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں برطانوی او لیول اور اے لیو ل کی تعلیم جاری ہے۔ پھر فرانس کے اسکولوں وغیرہ میں مروّجہ انٹربیچلوریٹ کورس بھی کرایا جاتا ہے۔ چارٹرڈ اکاؤنٹس کے انٹر اور بیچلر مرحلے کے کورسوں اور ڈپلوموں کے امتحانات بھی منعقد ہوتے ہیں۔ اور حکومتِ پاکستان ان کورسوں کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی اجازت دیتی اور ان کی عطا کردہ اسناد کو بھی منظور کرتی ہے۔ انھی اسناد کی بنا پر اُنھیں قومی جامعات میں داخلے اور ملازمت کی سہولت بھی دیتی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ان تمام مراحل مثلاً اے لیول اور آئی بی کی انٹرڈگریوں میں قومی نظامِ تعلیم کے تقاضوں کی پاس داری بھی نہیں کی جاتی اور ان میں لازمی مضامین: اُردو، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان سمیت انگریزی زبان کی لازمی تعلیم بھی نہیں دی جاتی۔
اس لیے اگر دینی مدارس پر قومی وسائل کا کوئی حصہ بھی صرف نہیں کیا جاتا، تو پھر ان پر ملک میں جاری دیگر نظاموں کی طرح قومی نصابِ تعلیم کے لازمی تقاضے عائد نہ کیے جائیں۔ جو رعایت برطانیہ، فرانس، اور کامرس کے عالمی اداروں کو حاصل ہے، وہی استثنا دینی مدارس کو بھی حاصل ہونا چاہیے۔حالانکہ مذکورہ متوازی تعلیمی نظاموں کے برعکس دینی مدارس مسلم معاشرے پر عائد لازمی دینی تعلیم کے فریضے کی تکمیل میں مدد کررہے ہیں، جو دراصل پاکستان جیسے ملک کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس بنا پر حکومت کا یہ مطالبہ بنیادی طور پر درست نہیں کہ باقی نظام ہاے تعلیم کو چھوڑ کر، صرف مدارس کو قومی تعلیمی نظام کا پابند کیا جائے۔ 
۲- عصری مضامین پر حکومت کے اصرار پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ صرف دو چار مضامین کی بات نہیں ہے بلکہ میٹرک کے لازمی مضامین میں مذکورہ بالا چار لازمی مضامین کے ساتھ سائنس وریاضی (یعنی کل چھے مضامین) کا امتحان ضروری ہے۔(۳) تاہم، مولانا محمد حنیف جالندھری لکھتے ہیں: ’’عصری مضامین، یعنی میٹرک میں انگریزی، ریاضی، اُردو اور مطالعہ پاکستان، جب کہ انٹرمیڈیٹ میں انگریزی، اُردو اور مطالعہ پاکستان کا امتحان وفاقی تعلیمی بورڈ لے اور دینی مضامین کے نمبروں کو شامل کرکے نتیجہ اور ڈگری جاری کرے‘‘۔(ماہ نامہ وفاق المدارس، ملتان، اگست ۲۰۱۹ء)
اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مدارس میں پڑھائے جانے والے ۸،۹ بھاری مضامین کا وزن(۴) کیا رہ جاتا ہے؟پھر اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ وفاقی تعلیمی انٹر بورڈ اپنے اصل مطالبے کو سامنے رکھتے ہوئے، جیسا کہ اجلاس میں بتایا گیا، ملحق ہوجانے کے بعد اس امتحان کو مستقبل قریب میں اپنے معروف طریقۂ کار کے مطابق باقی تمام مضامین تک وسیع نہ کر دے؟ محترم مولانا جالندھری کے الفاظ سے بھی پتا چلتا ہے کہ: ’’فی الوقت وفاقی بورڈ نے ہی لازمی عصری مضامین کے ساتھ وفاق کے امتحانات پر انحصار واعتماد کرتے ہوئے دینی مضامین کی سند جاری کرنا ہے‘‘۔ 
۳-  وفاقی تعلیمی بورڈ کے امتحان لینے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے وہ تعلیمی ادارہ اور مدرسہ اُن کے پاس رجسٹرڈ ہو، تاکہ وہ اسے اپنے ساتھ ملحق کرسکے۔جب مدارسِ دینیہ کی بنیادی سندوں کی منظوری ہی اس بات سے مشروط کر دی گئی کہ وفاقی تعلیمی بورڈا ن کے بنیادی لازمی مضامین کا مستند امتحان لے کر سند جاری کرے ، توپھر وفاق کے آیندہ اعلیٰ امتحان بھی گویا وفاقی انٹربور ڈ کے رحم وکرم پر ہوگئے، اور اس طرح ان اعلیٰ اسناد کی مستقل حیثیت پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا۔ 
۴-ایک طرف حکومتی موقف میں کوئی معقولیت نہیں کہ اس میں مدارس کے ساتھ امتیازی سلوک پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس سلسلے میں سیکورٹی ’اداروں ‘کا کردار اپنے دائرۂ عمل سے تجاوز کے زمرے میں آتا ہے۔ سیکورٹی فورسز کی شان دار خدمات کے اعتراف کے ساتھ، پاکستانی ریاستی دستور ان کو تعلیمی وسیاسی اُمور کے بجاے صرف دفاع تک محدود کرتا ہے۔ اس صورت میں وزارت ِ تعلیم یا وزراتِ مذہبی اُمور کے دائرۂ عمل میں ان ’اداروں‘ کی شرکت کا جواز نہیں۔
۵- اسی طرح وفاقی وزارت ِ تعلیم کا پاکستان بھر کے مدارس کے معاملات کو طے کرنا،   ان کے آئینی کردار سے تجاوز ہے، کیونکہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد: ’’تعلیم ، وفاق کے بجاے صوبوں کے دائرۂ عمل میں ہے، اور تعلیمی معاملات کی نگرانی ہر صوبائی حکومت کرتی ہے‘‘۔
۶- اس صورتِ حال میں وفاق ہاے مدارس کو باضابطہ آئینی طریقۂ کار کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں تنظیماتِ وفاق نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ بلکہ معاہدہ (۵)  بھی کررکھا ہے کہ: ریاستی سطح پر ایسا آئینی بورڈ منظور کیا جائے گا، اور حکومت سے منظور شدہ بورڈ کے تحت تما م مسالک کے مدارس اپنی اسناد کے امتحان لیں گے۔(۶) لیکن حکومت نے ان کے مطالبات کا سنجیدگی سے جواب نہیں دیا۔
یہ ضروری ہے کہ تمام وفاق ہاے مدارس مل کر، آئینی بورڈ اور یونی ورسٹی کی درخواست  کے مطلوبہ رسمی تقاضے پورے کریں۔ پہلے ایک بورڈ کے تحت جملہ مسالک کے خصوصی نصابات کو تحفظ دیا جائے، پھر بہ تدریج اپنے اپنے مستقل بورڈوں کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ جب پاکستان میں ڈیڑھ سو سے زائد پرائیویٹ یونی ورسٹیاں چارٹر منظور کراسکتی ہیں، تو پھر دینی مدارس کو اس کی طرف پیش قدمی میں کیا رکاوٹ ہے؟ 
مدارس کے اپنے مستقل بورڈوں کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ ایف اے کے بعد ،بی اے اور ایم اے کی روایتی تعلیم کے نظام پر بھی سوالیہ نشان ہے،اور روایتی بی اے/ایم اے کا مستقبل (جو پرائیویٹ امتحان کی سہولت دیتا تھا) پاکستان میں ختم ہورہا ہے۔ 
یہاں پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ دستورِ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان یہاں کی حکومتوں کو اسلامی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ کرتا ہے،جس کی پابندی ہرحکومت کی قانونی ذمہ داری ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان:
دفعہ۳۱: (۱) : پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اُصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیےاقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ 
 (۲)  پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی: 
الف :قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا۔
ب:اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیارات کی پابندی کو فروغ دینا ۔
ج: زکوٰۃ، عشر ، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔

حکومتی مطالبوں کے لیے وقتی اور فوری حکمتِ عملی 

ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت سے مکالمے کے دوران میں یہ پہلو بھی پیش نظر رکھے جائیں:

۱- اجلاس کے ایجنڈے میں ’وفاقی تعلیمی بورڈ سے الحاق‘ کے لیے کہا گیا ہے۔ مدارس کی رجسٹریشن کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کسی تعلیمی بورڈ سے ان کا باقاعدہ الحاق کیا جائے جیساکہ پاکستان میں تمام سرکاری سکول ، اِنھی بورڈوں سے منسلک ہوکر بطورِ باقاعدہ طالب علم میٹرک اور ایف اے کا امتحان دیتے ہیں۔ جب کو ئی تعلیمی ادارہ یا مدرسہ، کسی بورڈ سے الحاق کرتا ہے ، تو سرکاری روایت کے مطابق بورڈ ان پر اپنے قوانین لاگو کرتے اور پھر وہ ایسی بے رحمی سے اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہیں کہ ملحقہ ادارے بلبلا اٹھتے ہیں۔ سکول یا مدارس تو چلیے کم زور تعلیمی ادارے ہیں، بڑی بڑی پبلک یا پرائیویٹ یونی ورسٹیوں کے سامنے جب ’اعلیٰ تعلیمی کمیشن‘ اپنے ہرآن بدلتے قوانین نافذ کرتا ہے ، تو ان اربوں کے بجٹ والی یونی ورسٹیوں کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ عمارتوں کی انسپکشن، ہرسال تجدید کے لیے فیسوں ، ان کے عملے کی بے جا مداخلتوں اور بلیک میلنگ جیسے تکلیف دہ معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔ الحاق کی صورت میں تمام پرچوں کے امتحانات، ان کے شیڈولز، پرچوں کی تیاری اور پھر ان کی چیکنگ، بورڈوں کے افسران اور ان کے منظورِنظر ممتحن کرتے ہیں۔ اور یہ ممتحن جس بے دلی، بے دردی اور سفاکی سے پرچوں کی جانچ کرتے ہیں، اس پر ایک زمانہ گواہ ہے۔اگر کسی مرحلے پر طلبہ کی تعداد میں کوئی اضافہ یا کسی ضابطے میں کوئی کوتاہی ہوجائے، تو ایسے تعلیمی بورڈوں کے افسران نئے داخلوں پر بندش سے لے کر سند جاری کرنے میں رکاوٹ تک کے تمام قانونی اقدامات کرتے ہیں۔ اس لیے مدارسِ دینیہ کا مکمل طور پر کسی سرکاری بورڈ سے یوں ملحق ہونا کہ ان کے طلبہ بطور ریگولر طالب علم میٹرک ، اور ایف اے کے امتحان میں شریک ہوں، گویا اپنی خود مختاری گروی رکھنے کے مترادف ہوگا۔ اس سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے۔قومی تعلیمی ادارے خالصتاً مادی تعلیم پر یکسو ہیں۔ ان کی پیروی اختیار کرنے والے اداروں میں علومِ نبوت کا علم و عمل بہت مشکل ہوگا۔

۲- پاکستان کے اکثر دینی مدارس عصر کے بعد، یعنی سیکنڈ شفٹ میں مستقل اساتذہ کے ذریعے مڈل، میٹرک، ایف اے اور بی اے کی تیاری کراتے ہیں۔ یہ طلبہ کسی بورڈ میں پرائیویٹ اُمیدوار کے طورپر تمام پرچوں کا امتحان دیتے ہیں کہ اس وقت تک دینی مدارس کے طالب علم کے لیے قومی نظام تعلیم سے سند حاصل کرنے کا یہی بہترین طریقہ رہا ہے ۔ 
ویسے بھی پہلے ہی وفاق المدارس کے تحت میٹرک ، ایف اے اور بی اے میں حکومت نے طلبۂ مدارس کے لیے جتنے بنیادی مضامین لازمی کر دیے ہیں، یعنی:

  •    میٹرک میں چھے : انگریزی، اُردو، جنرل ریاضی، جنرل سائنس، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات 
  •   ایف اے میں چار :انگریزی، اُردو، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات
  •   بی اے میں چھے:انگریزی، اُردو، مطالعہ پاکستان اور اسلامیات، سماجیات کے دو مضامین  (بی اے ویسے ہی ختم ہورہا ہے)۔

اس سوچ میں افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومت نے مدارس کے بھاری اور معیاری نصاب کو (جو اصل العِلم کا مصداق ہے) ’بے وقعت‘ سمجھنے کی کوشش کی ہے۔مدارس کے اپنے نظام الاوقات کی پابندی کے ساتھ مذکورہ بالا تمام سرکاری امتحانات کو مختلف مہینوں میں دینا، دینی طالب علم کے لیے پریشانی پیدا کرتا ہے۔ دینی مدرسے کا طالب علم مدرسے کے داخلی امتحان، وفاق کے امتحان کے ساتھ، تیسرا سرکاری تکمیلی امتحان بھی دے تو یہ چیز اس کے لیے مشکل تر ہوجاتی ہے۔ چنانچہ حکومت کی طرف سے مجوزہ لازمی یا جبری اور جزوی امتحان کے اپنی جگہ بہت سے مسائل ہیں، جن پر سرکاری حکام کوئی بات سننے کے روادار نہیں ہیں۔
اس لیے پرائیویٹ سطح کے کلی سرکاری پرائیویٹ امتحانات کو بہر طور ترک نہیں کرنا چاہیے۔ میٹرک، ایف اے کی حد تک تو پرائیویٹ امتحان کی سہولت باقی ہے۔ تاہم، اس طریقۂ کار پر پابندی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وفاق ہاے مدارس کی ثانویہ، عامہ، خاصہ اور عالیہ کی اسناد کا نظام مزید بے وزن ہوجائے گا، کیونکہ طالب علم اپنی متوازی اسناد کے لیے میٹرک، ایف اے اور بی اے کے پرائیویٹ امتحان پر ہی پورا انحصار کرلے گا، اور بی اے کے بعد پرائیویٹ ایم اے کرلینا بھی چنداں مشکل نہیں ہے۔
بی اے اور ایم اے کا پرائیویٹ امتحان 
حکومت کے ایک حکم نامے میں ایف اے کے بعد مزید تعلیمی مراحل میں تمام قومی یونی ورسٹیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ دسمبر ۲۰۱۸ء کے بعد اُصولی طور پر بی اے ختم اور اس کی جگہ ریگولر طلبہ کے لیے سمسٹرسسٹم پر مشتمل دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام (ADP) کا اجرا ، جس میں سابقہ چارلازمی مضامین کے ساتھ مغربی سماجی علوم کا ایک بڑا حصہ بھی لازماً شامل ہوگا۔ جیساکہ قومی اخبارات میں آیا ہے:
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نوٹیفکیشن میں، ملک بھر کی جامعات کے وائس چانسلرز سے کہا گیا ہے کہ ۳۱دسمبر ۲۰۱۸ء کے بعد سے کیے جانے والے بی اے اور بی ایس سی انرولمنٹ، رجسٹریشن اور ڈگری کو ہائر ایجوکیشن کمیشن تسلیم نہیں کرے گا، جب کہ ۲۰۲۰ء میں ایم اے اور ایم ایس سی پروگرام بھی ختم کر دیا جائے گا۔(روزنامہ جنگ ، ۲۵؍اپریل ۲۰۱۹ء) 

اس کے بعد ۱۷ جولائی ۲۰۱۹ء کو ’اعلیٰ تعلیمی کمیشن‘ کی طرف سے ایک حتمی نوٹس جاری کیا گیا:’’ملک کی تمام سرکاری اور نجی جامعات اور ان سے منسلک کالجز کو آیندہ تعلیمی سال سے دو سالہ گریجویٹ پروگرام (بی اے ؍بی ایس سی) ختم اور ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام (ADP) شروع کرنے کے لیے حتمی نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔حکم نامے کے مطابق بی اے اور بی ایس سی پروگراموں میں ۳۱ دسمبر ۲۰۱۸ء سے قبل داخلہ لینے والے طلبہ کو ۳۱ دسمبر ۲۰۲۰ء تک اپنی ڈگری مکمل کرنے کی اجازت ہوگی۔ تاہم، جو طالب علم اس میں ناکام رہیں اُنھیں ڈگری دینے والے کالجوں اور یونی ورسٹیوں کی شرائط پر پورا اُترنے کے بعد ایسو سی ایٹ ڈگری تفویض کی جائے گی۔ چنانچہ جو طالب علم ایسوسی ایٹ ڈگری مکمل کریں گے وہ چار سمسٹرز کے برابر ہوگی، اور وہ چار مزید سمسٹرز مکمل کر کے بی ایس کی ڈگری حاصل کرسکیں گے‘‘۔(ڈیلی ڈان، ۱۷جولائی ۲۰۱۹ء)
اس اقدام پر صوبائی وزارت تعلیم کے علاوہ یونی ورسٹیوں کو شدید تحفظات ہیں، جیسا کہ: ’’ایڈیشنل سیکرٹری اکیڈمک پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ (HED) طارق بھٹی نے کہا کہ    ’اعلیٰ تعلیمی کمیشن‘ نے بی اے ؍بی ایس دو سالہ ڈگری پروگرام پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے مشاورت نہیں کی۔ اس فیصلے پر کوئی بھی اقدام مشاورت کے بعد کریں گے۔(روزنامہ دنیا، ۲۷؍اپریل ۲۰۱۹ء)
امرواقعہ یہ ہے کہ: ’’یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ سمسٹر سسٹم کی ضروریات کو پورا کرسکیں اور ابھی بھی مختلف تعلیمی ادارے مطلوبہ ضروری صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے سمسٹر سسٹم پر عمل درآمد کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے فیصلوں پر بنیادی

ضروریات کو پورا کیے بغیر عمل درآمد نہیں ہوسکتاہے۔دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تمام ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز کے وائس چانسلروں نے ایچ ایس سی کے چیئرمین کے ساتھ ملاقات میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس حوالے سے کچھ شیخ الجامعات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان نیوز کو بتایا کہ وہ ایچ ای سی کو بی اے؍بی ایس سی اور ایم اے؍ایم ایس سی پروگرامز کو مکمل طور پر ختم کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے تحریری طور پر لکھیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’اعلیٰ تعلیمی کمیشن‘ کے چیئرمین کو بتایا گیا ہے کہ یہ ان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرامز کو شروع کریں کیونکہ ان کے پاس اس مقصد کے لیے مطلوب وسائل نہیں ہیں‘‘۔ (ڈیلی ڈان، ۲۹جولائی ۲۰۱۹ء)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ایف اے کے بعد ہونے والے بی اے اور    ایم اے کے نظام تعلیم اور اس سطح کے پرائیویٹ امتحانات پر اس وقت شدید مباحثہ جاری ہے۔ پاکستان کی قدیم ترین جامعہ ، پنجاب یونی ورسٹی کے ۹؍اگست ۲۰۱۹ء کو جاری کردہ نوٹی فکیشن میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ ’’بی اے ، بی ایس سی اور بی کام کی دو سالہ ڈگری میں کسی بھی قانونی ونصابی نوعیت کی تبدیلی کے بغیر، اس کا نام ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کرکے اسے جاری کردیاگیا ہے۔ اس کے سالانہ اور ضمنی امتحانات میں ماضی کی طرح ریگولر وپرائیویٹ اُمیدوار شریک ہوسکتے ہیں۔ مستقبل میں یونی ورسٹی کی قائم کردہ کمیٹی اس میں ضروری اصلاحات کی ضرورت اور مطالبوں کا جائزہ لیتی رہے گی‘‘۔(پنجاب یونی ورسٹی، ۹؍اگست ۲۰۱۹ء،R/D/612 )
چیئرمین ایچ ای سی نے دینی وفاقوں کے ذمہ داران کو مدارس کا ایف اے کے بعد بی ایس ماڈل پر (عالیہ اور عالمیہ پر مشتمل ) چار سالہ کورس تشکیل دینے کے لیے کہا ہے۔ گویا ایچ ای سی کے نئے نظام کے بعد جس طرح قومی یونی ورسٹیوں میں بی اے ،ایم اے کا منظرنامہ تبدیل ہورہا ہے، اسی طرح طلبہ مدارس کی بی اے اور ایم اے اسناد کا اُصولی فیصلہ ہونا بھی باقی ہے۔ 

۳-  وفاق ہاے مدارس کو اس سلسلے میں بھی حکومت کے سامنے درج ذیل تجاویز کو زیربحث لانا چاہیے ، کیونکہ اس کے بغیر یہ حکومتی اقدام ناقابل قبول ہے:

۱- ایسے امتحانات کے پرچوں کو بنانے، ان کی جانچ اور نگرانی کاکام ایک ایسی کمیٹی کے سپرد ہو، جس میں پانچوں وفاقوں کے نمایندے موجود ہوں۔
۲- یہ امتحانات وفاقی تعلیمی بورڈ کے بجاے، صوبائی سطح پر بورڈوں کے تحت لیے جائیں، تاکہ طلبہ کے لیے اپنے اپنے صوبوں میں آمد ورفت آسان ہوسکے۔
۳- ان امتحانات کا شیڈول مدارس کے وفاقوں کی منظوری سے طے کیا جائے اور اُنھیں ایسے دنوں میں رکھا جائے جب طلبہ مدارس کے لیے ان میں شریک ہونا آسان ہو۔
۴-وفاقی تعلیمی بورڈ کا نظام، فیسیں، کتب کی قیمت اور نصاب بھی تمام دیگر انٹربورڈز کی نسبت مشکل تر ہے۔ طلبۂ مدارس کو اس مشکل سے بچانا چاہیے۔
۵-یہ امتحانات اُردو زبان میں منعقد کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
۶-ایف اے کے بعد بی ایس سطح پر ایچ ای سی کے چندسال قبل تجویز کردہ چار سالہ تعلیمی پروگرام میں بھی دینی مدارس کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں، تاکہ دینی مدارس کے لیے قومی نظام تعلیم سے ہم آہنگ ہونا ممکن ہو۔ جیسے مغربی سماجی علوم کی ایک تہائی لازمی شرح کو کم کرتے ہوئے مزید معیاری اسلامی کورسز کا اضافہ، بی ایس میں داخلہ کے لیے ثانویہ خاصہ (ایف اے) کی اُصولی رعایت دینا اور امتحانی پرچے بنانے والی کمیٹی میں علما کے نمایندوں کی شمولیت وغیرہ۔
معقول بات یہی  کہ حکومت کو نئے اقدامات کے بجاے سابقہ معاہدوں کی طرف متوجہ کیا جائے، جب کہ نئے اقدامات کے لیے تمام وفاقوں کی مشاورت اور تائید سے کام کیا جائے۔ 
_______________

حوالہ جات
(۱)    پاکستان تحریک ِانصاف کی حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود اپنے مذہبی رجحانات میں آزاد رو ہیں۔ (دیکھیے: اسلام آباد ہائی کورٹ، مقدمہ ، ۳۸۳۲/ ۲۰۱۷ء)
(۲)    ایچ ای سی کی ’اسناد کو مساوی اور معتبر قرار دینے والی کمیٹی‘ نے ۲فروری۲۰۱۷ء کو فیصلہ کیا، اور نوٹیفکیشن نمبر 8(61)/A&A/2017/HEC ، ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء جاری کیا۔(دیکھیے: ماہنامہ محدث ،  اکتوبر۲۰۱۷ء ،ص ۱۷)
(۳)    ۱۶؍ اگست ۲۰۰۵ء کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس محمد افتخار چودھری نے فل بنچ کے سربراہ کے طور پر  قرار دیا کہ ’’ صرف انھی دینی مدرسوں کی سندیں قابل قبول ہوں گی، جو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ ہوں اور یہ سندیں میٹرک کے مساوی اس وقت سمجھی جائیں گی جب طالب علم نے کسی بورڈ سے انگریزی، اُردو اور مطالعہ پاکستان کے لازمی مضامین پاس کیے ہوں‘‘۔
(۴)    ماضی میں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کا درسِ نظامی گروپ اسی بنا پر زیادہ پذیرائی حاصل نہ کرسکا، کیونکہ اس میں بھی مڈل سے لے کر ایم اے تک کے نصاب میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ میٹرک ، ایف اے اور بی اے میں بھاری جدید نصاب رکھا گیا تھا۔
(۵)    مسلم لیگ ن کی حکومت میں وزیر مملکت (براے وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت ) بلیغ الرحمٰن کا اتحادِتنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے ساتھ معاہدہ جولائی ۲۰۱۶ء کو قومی اخبارات میں رپورٹ ہوا۔ اس کی رُو سے مدارس کے طلبہ کو مختلف مراحل میں جدید سائنسی مضامین، انگلش اور مطالعہ پاکستان کے مضامین پڑھائے جائیں گے۔ اس کے بدلے میں حکومت ان طلبہ کے امتحانات کے بعد اُنھیں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعلیم کے مساوی تسلیم کرے گی۔ مدارس کی تعلیم کو ’ایکٹ آف پارلیمنٹ ‘ کے تحت تسلیم کیا اور ۳۵ ہزار مدارس کو اس نظام میں لایا جائے گا (ماہ نامہ محدث، اکتوبر ۲۰۱۷ء، ص ۱۶)۔ اس معاہدے میں سرکاری بورڈوں کے بجاے مدارس کی تعلیم کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت اپنے بورڈ بنانے کی منظوری کا معاہدہ کیا گیا تھا، جس سے موجودہ حکومت منحرف ہوگئی۔
(۶)    وزیر مملکت بلیغ الرحمٰن نے کہا: ’’اس سلسلے میں امتحانی بور ڈز کے ڈھانچے کو پورا کرنا ہو گا اور اتحادِ تنظیمات مدارس کے بورڈز کو قانونی شکل دینے کے بارے میں ضروری مراحل طے کرنے کے لیے مکمل تعاون کریں گے‘‘۔(روزنامہ نوائے وقت،۱۴ جولائی ۲۰۱۶ء)
 

امانت کی پہلی قسم ’امانت ِ شرعیہ‘ ہے جو اللہ نے بنی نوعِ انسانیت کو دی جس کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے۔ امانت کی دوسری قسم ’منصبی امانت‘ ہے۔

دوسری قسم : منصبی امانت

خواص کے لیے امانت کا مفہوم: عہدے اور مناصب امانت ہیں، جیسا کہ نبی کریمؐ کا فرما ن ہے، جسے سیّدنا ابو ذر غفاریؓ نے روایت کیا ہے:

میں نے عرض کیا: اللّٰہ کے رسولؐ! کیا آپؐ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپؐ نے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: ابوذرؓ! تم کمزور ہو، اور یہ (امارت) امانت ہے اور قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہو گی، مگر وہ شخص جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوئی تھی اسے (اچھی طرح) ادا کیا۔وہ شرمندگی اور رسوائی سے مستثنیٰ ہو گا۔(مسلم: رقم ۴۷۱۹)

ہرانسان کو دی جانے والی زندگی اللّٰہ کی امانت ہے، جو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے اخذِ میثاق [عہدِ الست] کے بعد(کہ وہی ہمارا ربّ ہے/ توحیدِ ربوبیت) اس عہد کی تکمیل کے لیے دی ہے۔ ہرانسان اسلام میں مسئول و ذمہ دار ہے، اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ فرمانِ نبویؐ ہے جسے سیّدنا عبد اللّٰہ بن عمرؓ نے روایت کیا ہے:

كُلُّكُمْ رَاعٍ فَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ  (بخاری: رقم ۲۵۵۴) تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس لوگوں کا حقیقی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (دوسرا) ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (تیسرا) عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (چوتھا ) غلام اپنے آقا ( سیّد ) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں (قیامت کے دن ) پوچھ ہوگی۔

چنانچہ یہ امانت او رذمہ داری ہرمسلمان کی اپنی ذات اور اپنے گھر پر ہے، بیوی کی اپنے شوہر کے گھر اور اولاد پر ہے، اور حاکم کی اپنی رعایاپر ہے، خادم کی اپنے مالک کے مال پر ہے۔ اور قیامت کے دن ہر امین ومسئول سے اس کی امانت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

یاد رہے کہ عہدے ومناصب دینے والی ذات اللّٰہ عزوجل کی ہے، جیسا کہ واقعہ طالوت والی پہلی آیت میں آیا کہ ’’اللّٰہ جس کو چاہتا ہے ، اپنی بادشاہت سے عطا کرتا ہے‘‘۔ مزید فرمایا:

قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ                (اٰل عمرٰن۳:۲۶)آپ کہیے :’’اے اللّٰہ ! بادشاہت کے مالک! جسے تو چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے‘‘۔

اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ قف يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ط(الاعراف۷:۱۲۸)یہ زمین اللّٰہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بنا دے ۔

یہ زمین اللّٰہ کی ہے اور جس کو وہ چاہتا ہے ، اپنے بندوں پرحکومت عطا کرتا ہے۔ اس بنا پر ہر مسلمان حاکم امین ہے اور اللّٰہ نے مخصوص ذمہ داریوں کے ساتھ اس کو اپنی مسلم رعایا کی ذمہ داری سونپی ہے۔ جس کو جو منصب سونپا جائے ، وہ اس کو بخوبی پورا کرے تو یہ منصبی امانت دارہے ، جیساکہ سیّدنا جبریلؑ کو وحی کی ذمہ داری سونپی گئی تو وہ رسولِؐ امین ہوئے۔ نبی کریمؐ کو رسالت کا فرض سونپا گیا تو آپ نے شکوہ کیا کہ ’’آسمان والا تو مجھے امین مانتا ہے، اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے‘‘ ۔ یعنی میں عظیم منصب امانت پر قائم ہوں، تو کہاں یہ چھوٹی سی مالی امانت میں کوتاہی ممکن ہے۔ اس بناپر امانت میں منصب کے تقاضے پورے کرنا بھی شامل ہے۔ حدیث میں ہے:

ایک دن سیّدنا ابو مسلم خولانی، سیّدنا معاویہ بن ابو سفیان کے پاس آئے اور کہنے لگے: السَّلَامُ عَلَیْكَ أَيُّهَا الْأَجِیْرُ! (اُجرت پر کام کرنے والے! آپ پر سلامتی ہو)۔ لوگوں نے کہا: أَیُّہَا الْاَمِیْرُکہیے، تو انھوں نے پھر السَّلَامُ عَلَیْكَ أَيُّهَا الْأَجِیْرُ! کہا۔ لوگوں نے پھر کہا : أَیُّہَا الْاَمِیْرُکہیکہیے، تو تیسری بار انھوں نے وہی جملہ دہرایا: السَّلَامُ عَلَیْكَ أَيُّهَا الْأَجِیْرُ! آخر سیّدنا معاویہ نے کہا: ابو مسلم کو اپنی بات کہنے دو، وہ اسے ہم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد ابو مسلم بولے: اے معاویہ!تم اجیر (اُجرت پر کام کرنے والے ملازم) ہو۔ان بکریوں کے ریوڑ کے لیے تم کو ان بکریوں کے رب نے اُجرت پر رکھا ہے۔ اگر تم خارش زدہ بکریوں کی خبر گیری کرو گے اور مریض بکریوں کی دوا کروگے اور ان بکریوں کی اچھی طرح حفاظت کرو گے، تو بکریوں کا مالک تمھیں پوری اُجرت دے گا۔ اور اگر تم نے خارش زدہ بکریوں کی خبر گیری نہ کی، مریض بکریوں کی دوا نہ کی، ان کی اچھی حفاظت نہ کی تو بکریوں کا مالک تم کو سزا دے گا۔ (حلیۃ الاولیاء:۲/۱۲۵، سیر اعلام النبلاء: ۴/۱۳، مختصرا، تاریخ دمشق ابن عساکر: ۲۷/۲۲۳، بحوالہ السیاسۃ الشرعیۃ: ۳۶)

جب یہ مناصب سراسر امانت ہیں تو اس میں خیانت کرنے والے کی سزا روزِ قیامت جنت سے محرومی ہے:

وَقَالَ: لَا يَسْتَرْعِي اللهُ عَبْدًا رَعِيَّةً، يَمُوتُ حِينَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهَا، إِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ(مسلم: رقم ۳۶۴) اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے کو کسی رعیت کا نگران بناتا ہے اور موت کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ رعیت کے حقوق میں  دھوکا بازی کرنے والا ہے تو اللّٰہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷫ لکھتے ہیں:

فَإن الخلق عباد الله، والولاة نُوَّابُ اللهِ عَلٰى عِبَادِهِ، وَهُمْ وُكَلَاءُ الْعِبَادِ عَلٰى نفوسهم؛ بِمَنْزِلَةِ أَحَدِ الشَّرِيكَيْنِ مَعَ الْآخَرِ؛ فَفِيهِمْ مَعْنَى الْوِلَايَةِ وَالْوَكَالَةِ(السياسة الشرعية لابن تيمية مع  شرح ابن عثيمين، ص ۳۷) اللّٰہ کی مخلوق اللّٰہ کے بندے ہیں، اور مسلم حکام اللّٰہ کے بندوں پر اللّٰہ کے نائب ہیں اور وہ بندوں پر ان کی جانوں کے ذمہ دار ہیں۔جیسا کہ دو شریک ایک دوسرے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ سو، ان میں ولایت، یعنی حکومت اور وکالت، یعنی تفویض بیک وقت پائی جاتی ہے(یہاں نیابتِ الٰہیہ کے لیے زیادہ موزوں تعبیر ’اللّٰہ کے نمایندے‘ کی ہے)۔

اس عبارت کی شرح میں شیخ ابن عثیمین منصبِ حکومت کی امانت کی وضاحت کرتے ہیں: ’’ابن تیمیہؒ نے واضح کیا ہے کہ امرا وحکام، اللّٰہ کے بندوں پر اس کے نائب ہیں، یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو بندوں پر اس لیے نائب بنایا ہے کہ وہ اللّٰہ کی شریعت کو ان میں قائم کردیں۔ اور خلیفہ وحاکم لوگوں کی جانوں پر ان کے وکیل بھی ہیں، کہ (مسلمانوں نے حکام کو یہ ذمہ دار سونپی ہے کہ ) ان کے اخلاق درست کریں اور ان کو اللّٰہ کی شریعت پر چلائیں۔اس دوسرے پہلو سے  وہ بندوں کی جانوں پر بندوں کے وکیل ہوئے کہ عوام نے ان حکام کو اپنی جانوں کی یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ گویا یہ کہا ہے کہ تم ہمارے حاکم بنو، تاکہ ہمیں سیدھا رکھو اور اللّٰہ کی شریعت کے مطابق ہم میں عدل قائم کرو۔

’’مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر امانت ہی مناصب کی ذمہ داری میں سب سے بنیادی وصف ہے، اور اس وصف کا اعتبار دُنیوی امانت سے بڑھ کر ، اللّٰہ کی امانت کی تکمیل، اللّٰہ کے احکام پر خود چلنا اور حاکم کا اپنے ماتحتوں کو اس پر چلانا ہے۔ جو مسلمان شخص اللّٰہ کے احکام کا امین نہیں، امانت ِ کبریٰ میں کوتاہی کرنے والا ہے، وہ لوگوں کے حقوق میں بھی کوتاہی کرنے والا ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی سیاست کی رو سے وہی شخص لوگوں کا نمایندہ بن سکتا ہے، جو سب سے پہلے خود اللّٰہ کی امانت کو پورا کرنے والا ہے۔ اور اللّٰہ کی امانت کا سب سے بڑا اظہار نماز کی پابندی خود کرنا اور لوگوں سے کروانا ہے۔ اور جب کوئی حاکم اس امانت کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کا حق کھوبیٹھتا ہے‘‘۔(السياسة الشرعية لابن تيمية  ، ۶۳:۱/۳۷، فتاویٰ ابن تیمیۃ: ۲۸/۲۶۱)

اسلام میں سیاست، یعنی عہدے اور اقتدار بھی خدمت اور فروغِ دین کے لیے ہیں، اسی لیے سیاسی حکمران اور نماز کے قائد دونوں کو ’امام‘ ہی کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمال وحکام کے لیے نماز کی امامت لازمی کررکھی تھی اور یہی کام خلفاے راشدین کرتے تھے، جیسا کہ:

۱-سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو جب نماز کا امام مقرر کیا گیا تو صحابہ کرامؓ نے ان کو مسلمانوں کی سیاست کا امام (خلیفہ) بنالیا۔

۲-نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمال وحکام کو نماز سے آغاز کرنے کی تلقین فرمایا کرتے: بَعَثَ النَّبِيُّ  مُعَاذًا إلَى الْيَمَنِ قَالَ: يَا مُعَاذُ! اِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكَ عِنْدِي الصَّلَاةُ   (ایضاً)’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا معاذ کو (یمن میں عامل بنا کر )بھیجا تو فرمایا کہ اے معاذ! میرے نزدیک تمھاری سب سے اہم شے نماز ہے‘‘۔

سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: لَا، مَا صَلَّوْا( مسلم:۴۸۰۰)  جلد ہی ایسے حکمران ہوں گے کہ تم انھیں (کچھ کاموں میں ) صحیح اور (کچھ میں) غلط پاؤ گے۔ جس نے (ان کی رہنمائی میں) نیکی کے کام کیے وہ بَری ٹھیرا اور جس نے (ان کے غلط کاموں سے) انکار کر دیا وہ بچ گیا لیکن جو ہر کام پر راضی ہوا اور پیروی کی (وہ بَری ہوا، نہ بچ سکا)۔ صحابہؓ نے عرض کیا: کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں (جنگ نہ کرو)‘‘۔

۳- سیّدنا عمر فاروقؓ نے اپنے عمال کو حکم نامہ بھیجا: اِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةُ ، فَمَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا، حَفِظَ دِينَهُ ، وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِمَا سِوَاهَا أَضْيَعُ (موطا امام مالک، کتاب وقوت الصلاۃ ، حدیث۵ ) ’’میرے نزدیک تمھارا سب سے اہم کام نماز پڑھنا ہے۔ جو اس کی خود حفاظت کرے اور دوسروں سے حفاظت کرائے تو اس نے اپنے دین کی حفاظت کرلی۔ اور جس نے اسے ضائع کردیا تو اس کے ماسوا اُمور کو وہ زیادہ ضائع کرنے والا ہے‘‘۔

۴-امام ابن تیمیہؒ ﷫ لکھتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی صحابی کو مدینہ پر نائب بناتے، جیساکہ عتاب بن اسیدؓ کو مکہ پر، عثمان بن ابو العاصؓ کو طائف پر، علیؓ، معاذؓ، ابوموسیٰؓ کو یمن اور عمر وبن حزمؓ کو نجران پر عامل بناکر بھیجا، تو آپ کا نائب / عامل ہی ان کی امامت کراتا اور ان میں حدود اور وہ ذمہ داریاں پوری کرتا جو عسکری قیادت سرانجام دیتی ہے۔یہی آپؐ کے بعد آپ ؐکے خلفا، اُموی بادشاہوں کا اور بعض عباسی حکام کا طریقہ تھا‘‘۔ (السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين، ص ۶۳)

عالمِ ربانی اور عظیم مجاہد شاہ اسماعیل شہیدؒ (م:۱۸۳۱ء) ’امام ‘کی وضاحت میں لکھتے ہیں: ’’ لفظ امام سے مراد مطلق امام نہیں، بلکہ وہ امام جس کا تعلق سیاست سے ہو… امام سے مراد صاحبِ دعوت ہے جس نے جہاد کا جھنڈا اعداے دین پربلند کیا اور تمام مسلمانوں کو اس معرکے میں بلایا، اور شرعِ مبین کی اعانت پر کمر باندھی، سیاست ِ دین کی مسند پر بیٹھاسواے ملت کے مذہب کے، دوسرے مذہب کو نہ پکڑا، اور طریقۂ سنت کے سوا دوسرا طریقہ اختیار نہ کیا۔ عدالت وسیاست میں آئین نبوی کے سوا کوئی دوسرا طریقہ نہ بنایا۔قوانین مصطفویؐ کے سوا کوئی دوسرا قانون نہ چھانٹا‘‘۔ (منصبِ امامت،از شاہ اسمٰعیل شہید،  ناشر: حنیف اینڈ سنز، ۲۰۰۸ء ،ص۱۷۸)

شاہ صاحب اپنی معرکہ آرا کتاب منصب امامت میں حاکم اور امام کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جوکوئی مذکورہ کمالات میں کسی کمال میں انبیاء اللّٰہ سے مشابہت رکھتا ہو، وہی امام ہے… بعض کاملین کو انبیا کے ساتھ ایک کمال میں مشابہت ہوتی ہے اور بعض کو دو کمال میں اور بعض کو تین میں۔ اسی طرح بعض کو تمام کمالات میں مشابہت ہوتی ہے۔ پس امامت بھی مختلف مراتب پُر ہوگی، کیوںکہ بعض کے مراتب، امامت میں دوسروں سے اکمل ہوں گے‘‘۔(ایضاً، ص ۸۶)

پھر ان احادیث سے شاہ صاحب نے استدلال کیا جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد بالفرض نبی ہونے میں سیّدنا عمرؓ کا تذکرہ کیا، اور سیّدنا علیؓ کو سیّدنا ہارونؑ کے مشابہ (ماسواختم نبوت)قرار دیا۔

منصبی امانت کا تقاضا

حاکم کا یہ بھی منصبی فرض ہے کہ اپنے نائب ان کو مقرر کرے، جو معاشرے اورحکومت کو شرعی مقاصد کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر وہ اپنی پسند ناپسند یا اپنی تائید ، یا خاندانی قوت کے فروغ، یا مال کو جمع کرنےکی غرض سے کسی کو حاکم مقرر کرے گا تو یہ بھی امانت کی خلاف ورزی ہے اور خیانت کے مترادف ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

جب دنیا کے اکثر حکام پر دین کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیوی مقاصد غالب آگئے،  تو اُنھوں نے اپنی حکومتوں میں ایسے لوگوں کو عہدے دیے جو ان کے دنیوی مقاصد میں ان کی تائید کرسکتے۔ اور ہر وہ شخص جو اپنی حاکمیت چاہتا ہے، اسی کو آگے کرتا ہے جو اس کی حکومت وریاست کو تحفظ دے۔(السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين، ص۶۳)

منصبی امانت کو پورا کرنے والا شخص کون سا ہے؟… امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

جب کوئی حاکم اللّٰہ کے حکم کے مطابق منصب دے گا، جب کہ صورت حال بالکل واضح ہو یا اپنے عمل سے اس کو عہدہ دے گا، جب مخفی ہونے کی صورت میں قرعہ کے ذریعے ترجیح دے ، تو یہی وہ حاکم ہے جس نے امانت کو مناصب دینے میں اس کے حقیقی اہل کے سپرد کردیا۔ (السياسة الشرعية لابن تيمية، ص۵۸)

او رجس حاکم نے یہ مناصب اہل افرا دکے سپرد نہ کیے تو :

جب حاکم اور وکیل، دونوں اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے ایسے شخص کو اپنا نائب بنالیں، اور تجارت وسامان کے لیے اصلح کو نظرانداز کردیں، سودے کو ایسی قیمت پر فروخت کریں، جب کہ اس قیمت سے اچھی قیمت مل سکتی تھی، تو تب اس والی اور  وکیل نے اپنے ساتھی سے خیانت کی۔ بلاشبہہ اگر دونوں کے مابین محبت ومودّت یا قرابت داری تھی ، تب بھی اس کا ساتھی اس سے ناراض ہو کر اس کو برا ہی کہے گا اور یہ سمجھے گا کہ اس نے خیانت کی، اور اپنے قریبی یا دوست سے دھوکا کیا ہے۔(ایضاً)

منصبی ذمہ داری کا مقصد

چوںکہ حکومت او رمنصب سمیت دنیا کی ہر نعمت اللّٰہ ہی عطا کرتا ہے، اوربندہ مؤمن ایمان لانے اور کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد اس کا اقرار کرتا ہے، اس لیے وہ اپنی ہر صلاحیت واختیار کو   اللّٰہ کے بتائے ہوئےطریقے کے مطابق ہی استعمال کرتا ہے۔ چنانچہ اللّٰہ نے حاکم کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ :

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ط وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ(الحج۲۲:۴۱)اُنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے۔

اس بنا پر حاکم کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کو بھی امانت ِ شرعیہ کی طرف متوجہ کرے، ان کو   نماز روزہ کی تلقین کرے اور ان میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو جاری وسار ی کرے۔ اور یہ فرض صرف حاکمِ وقت کا ہی نہیں، بلکہ ہرفرد، ہر گھر اور ہر ادارے کے سربراہ، ہر ماں کا فرض اور ہرخادم کی ذمہ داری ہے۔ حاکم کا جب فرض متعین ہوگیا تو جو حاکم اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کے نفاذ کے بجاے لوگو ں کے مفاد اور خواہشات کو پورا کرنے لگ جائے تو گویا کہ وہ اللّٰہ کے مقرر کردہ حاکم کے بجاے ، شیطانی خواہشات کا مؤید بن گیا۔ جس فرض کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو اقتدار دیا تھا، اس نے اس کے بجاے اس کو دوسرے مقصد پر صرف کردیا اور یہ بدترین خیانت ہے۔ چنانچہ ایسا حاکم اللّٰہ کے بجاے شیطان کا ساتھی ہے اوراس کا انجام بھی شیطان کے ساتھ ہی ہے۔

امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

جو اولی الامر (حاکم) منکرات وجرائم کو نہیں روکے گا اور حدود کا اجرا نہیں کرے گا اور مال لے کر چھوڑ دے گا، وہ چوروں کے سردار اور فحاشی کرنے والوں کے دلال جیسا ہے جو دو زانیوں کو باہم ملا دیتا ہے اور دونوں کا ناجائز حصہ دار بن کر مال لیتا ہے۔ اس کا حال وہی ہوگا جو لوطؑ کی بے حیا بیوی کا ہوا، جو فاسق وفاجر لوگوں کو لوط کے مہمانوں کی خبر دیتی تھی۔ سو، اس کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس ہم نے لوط کو اور ان کے گھر والوں کو عذاب سے نجات دی، مگر اس کی بیوی کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں تھی‘‘۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا: ’’تو تم اپنے اہل وعیال کو لے کر راتوں رات نکل چلو اور تم میں سے کوئی مڑ کر بھی نہ دیکھےسواے تمھاری بیوی کے جو عذاب اوروں پر نازل ہوگا، وہ اس کو بھی پہنچے گا‘‘۔ دیکھیے اللّٰہ تعالیٰ نے اس بدترین بڑھیا کو جو دلالی کرتی تھی، اسی عذاب میں مبتلا کیا جو اس بدترین قوم اور خبیث وجرائم پیشہ لوگوں کو دیا۔ اور یہ اس لیے کہ تمام کا تمام مال لینا دراصل اثم وعدوان کی اعانت و امداد ہے۔ اور حاکم اس لیے بنایا جاتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض انجام دے۔ یہی حکومت اور مناصب کا اصل اسلامی مقصد ہے۔اگر حاکم مال لے کر اور رشوت وصول کرکے کسی منکر کو  پھلنے پھولنے دے گا، تو گویا وہ اصل مقصد ِحکومت کے خلاف اور اس کی ضد پر قائم ہوگیا۔ اور یہ ایسا ہی ہے کہ تم نے کسی کو دشمن کے خلاف لڑنے کو بھیجا اور وہ تمھارے ہی خلاف تمھارے دشمن کی اعانت وامداد شروع کردے۔ اور یہ بمنزلہ اس مال کے ہے کہ تم نے کسی کو جہاد میں خرچ کرنے کے لیے مال دیا اور وہ اسے مسلمانوں کے قتل کرنے میں ہی خرچ کررہا ہے۔   (السياسة الشرعية لابن تيمية، ص۵۸)

شیخ ابن تیمیہؒ ﷫نے اس اقتباس میں ایسے مسلم حکام کی تردید کی اور اُنھیں ان کے انجام  سے خبردار کیا ہے، جو اپنے مفادات کے لیے لوگوں پر اللّٰہ کے قانون کو نافذ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔اور حاکم کے مفادات میں مال کے ساتھ، اس کی حمایت ونصر ت (آج کی زبان میں ووٹ) اور اس کی تائید شامل ہے کہ جب کوئی حاکم ان سستے دنیوی مفادات کے لیے اپنے اصل فریضہ ’اللّٰہ کے قانون کے نفاذ‘ سے دست بردار ہوجائے تو وہ گویا شیطان کا معاون اور مسلمان رعایا پر ظالم بن گیا۔ جب اللّٰہ تعالیٰ نے ان حکام کو حکومت اسی لیے دی ہے کہ وہ اللّٰہ کے قانون کو اللّٰہ کے بندوں پر نافذ کریں تو پھر اپنے اس فرض سے انحراف کرنا گویا لوگوں کے حق اطاعت کا استحصال ہے کہ مسلمان اپنے حاکم کی اطاعت اسی لیے ہی کرتے ہیں کہ وہ انھیں اللّٰہ کے راستے پر چلنے میں مدد دے گا، اور ان پر اللّٰہ کے دین کو قائم کرے گا۔جب حاکم یہ فریضہ ترک کرکے ، الٹا شیطان کا معاون بن گیا تو دنیا میں بھی خائب وخاسر اور آخرت میں بھی شرمسار اور جواب دہ ہوگا۔

تیسری قسم  :امانتِ مالیہ

’امانتِ مالیہ‘ سے مراد مالی امانت اور اس میں خیانت ہے۔امانت کو عام طور پر اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس خیانت کی مذمت اور اس کی وجہ اللّٰہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمائی:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ O وَ اعْلَمُوْا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ لا وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌO  (الانفال۸:۲۷-۲۸)اے ایمان والو! دیدہ دانستہ اللّٰہ اور رسولؐ سے خیانت نہ کرو اور نہ تم آپس کی امانتوں میں خیانت کرو۔ اور جان لو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھارے لیے آزمایش ہیں اور اللّٰہ کے ہاں اجر دینے کو بہت کچھ ہے ۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں: ’آپس کی امانتوں‘سے مراد وہ تمام ذمہ داریاں ہیں، جو کسی پر اعتبار (trust) کرکے اس کے سپرد کی جائیں، خواہ وہ عہد ِ وفا کی ذمہ داریاں ہوں یا اجتماعی معاہدات کی، یا جماعت کے رازوں کی، یا شخصی و جماعتی اموال کی، یا کسی ایسے عہدہ و منصب کی جو کسی شخص پر بھروسا کرتے ہوئے جماعت [اجتماعیت] اس کے حوالے کرے‘‘۔ (تفہیم القرآن، دوم،ص ۱۳۹)

حصولِ اقتدار عموماً اختیار واقتدار اور حاکمیت کے لیے کیا جاتا ہے، اور اس کا دوسرا مقصد اموال کا جمع کرنا اورعزیز واقارب کے لیے منافع کا حصول ہے۔علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

فَالْوَاجِبُ اتِّخَاذُ الْإِمَارَةِ دِينًا وَقُرْبَةً يُتَقَرَّبُ بِهَا إلَى اللهِ؛ فَإِنَّ التَّقَرُّبَ إلَيْهِ فِيهَا بِطَاعَتِهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ مِنْ أَفْضَلِ الْقُرُبَاتِ. وَإِنَّمَا يَفْسُدُ فِيهَا حَالُ أَكْثَرِ النَّاسِ لِابْتِغَاءِ الرِّيَاسَةِ أَوْ الْمَالِ بِهَا (السياسة الشرعية لابن تيمية، ص ۱۳۰) ضروری ہے کہ دین داری اور اللّٰہ کے تقرب ورضا کے لیے ہی اقتدار کو قبول کیا جائے۔ اور اقتدار میں اللّٰہ کا تقرب اللّٰہ کی اطاعت اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے ذریعے کرنا، تقرب کی بہترین شکل ہے لیکن اکثر لوگوں کا حال خراب ہے کہ اقتدار کو حاکمیت یا حصول مال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

مزید فرماتے ہیں کہ اقتدار اصلاً بری چیز نہیں اور نہ حکام کے پاس بیٹھنا ہی لیکن:

وَلَمَّا غَلَبَ عَلَى كَثِيرٍ مِنْ وُلَاةِ الْأُمُورِ إرادة المال والشرف وصاروا بمعزل عن حقيقة الإيمان في ولايتهم رأى كثير من الناس أن الإمارة تنافي الْإِيمَانِ وَكَمَالِ الدِّينِ (ایضاً،ص ۱۳۲)جب اکثر حکام پر مال اور ناموری کی خواہش غالب آگئی اور اپنی حکومت میں انھوں نے حقیقت ایمان کو نظرانداز کردیا تو لوگوں نے بھی یہ سمجھنا شروع کردیا کہ اقتدار ایمان اور کمال دین کے منافی ہے۔

درحقیقت ان مقاصد کے لیے عہدے او رحصولِ اقتدار سراسر ناجائز ہے۔کیوںکہ اقتدار کے یہ دو ناجائز مقاصد فرعون وقارون کے تھےاور ان کا دنیا وآخرت میں بدانجام سب کے سامنے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو مقاصد اقتدار کو بدترین ہلاکتیں قرار دیا ہے:

مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ، (جامع الترمذی، رقم: ۲۳۷۶)دو بھوکے بھیڑیے اگر بھیڑوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ اس کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ دو چیزیں نقصان پہنچاتی ہیں: کثرتِ مال اور نام ونمود کی خواہش۔

اقتدار واختیار اور مال ودولت روزِقیامت کسی کام نہیں آئیں گے، جیساکہ قرآن نے جہنمیوں کا نقشہ کھینچا ہے:

مَآ اَغْنٰى عَنِّيْ مَالِيَه  O هَلَكَ عَنِّيْ سُلْطٰنِيَهْ (الحاقۃ ۶۹: ۲۸-۲۹)،میرے مال نے مجھے کچھ نفع نہ دیا اور میری حکومت بھی مجھ سے جاتی رہی ۔

اور ان دو ناجائز مقاصد کے لیے سیاست کرنے والا کس کا جانشین ہے؟ ابن تیمیہ لکھتے ہیں: وَغَايَةُ مُرِيدِ الرِّيَاسَةِ أَنْ يَكُونَ كَفِرْعَوْنَ ، وَجَامِعِ الْمَالِ أَنْ يَكُونَ كَقَارُونَ، وَقَدْ بَيَّنَ اللهُ تَعَالٰى فِي كِتَابِهِ حَالَ فِرْعَوْنَ وَقَارُونَ (السياسة الشرعية لابن تيمية،ص ۱۳۲) ’’حاکمیت کا متلاشی فرعون جیسا اور مال کا حریص قارون جیسا ہے اور دونوں کا انجام اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خوب کھول کر بیان کردیا ہے‘‘۔

شاہ اسماعیل شہید نے حکومت کی دوسری قسم ’سلطنتِ جابرہ‘ قرار دی اور اس کا نقشہ یوں کھینچا: ’’سلطانِ جابر سے وہ شخص مراد ہے جس پر نفس امارہ اس قد رحکمران ہو کہ نہ تو اسے خوفِ خدا مانع ہوسکتا ہے اور نہ مخلوق کی شرم۔ نفس امارہ جو بھی اس سے کہے، بلاتکلف بجا لاتا ہے بلکہ سلطنت کا  ثمرہ لذاتِ نفسانیہ کو پورا کرنا ہی سمجھتا ہے… کسی کو تکبر وجبر مرغوب ہے، کسی کو ناز وتبختر، کسی کو تعدی وجور، کسی کو فسق وفجور، کسی کو منشیات ومُسکِرات، کسی کو لذیذ کھانے، کسی کو نفیس لباس، کسی کو لہوولعب اور کسی کو نَشاط وطرب…نفس امارہ کی ہوا وہوس کے ہزاروں مقدمات ہیں۔ سو، اس کے چند اُصول اور بے شمارفروع ہیں:

۱-ایک حبِ مال ہـے: مال جمع کرنا ان کا بہترین مشغلہ اور بہترین لذت ہوتی ہے، خزائن ودفائن کی زیادتی کے ہر رستے کو تلاش کرتے ہیں۔  خود بھی اور ان کے ہم نشین جمع مال میں ساری صلاحیتیں صرف کرتے ہیں، وہی مشیر باتدبیر اور امیر کبیر ہے جس نے جمع مال کی کوئی اچھی اور نئی تدبیر نکالی۔

۲- ان کا دوسرا اُصول غلبہ وتکبّر ہے: بعض لوگ فطرتاً اِدعا پسند، خود پسند، خود ستائی، سرکش ہوتے ہیں۔ اپنے کو بلند ، دوسروں کو حقیر جانتے ہیں۔ اپنے ادنیٰ ہنر کو دوسروں کے کمال کے مقابلے میں بلند رُتبہ سمجھتے ہیں۔ دوسرں کی ذلت کو اپنی عزت اور مسلمانوں کی عار کو اپنی عظمت خیال کرتے ہیں۔ ان کی حکومت کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ کوئی ان سے مشارکت نہ کرسکے، مشابہت کی راہ نہ پاسکے۔ ایسا شخص منصبِ سلطنت پر پہنچ کر تکبر سے رفتار وگفتار، نشست وبرخاست، القاب وآداب اور تمام عادات ومعاملات میں اپنے آپ کو ممتاز سمجھتا ہے۔مساوات کی راہ مسدوداور ہراہم چیز کو اپنے لیے خاص کردیتا ہے۔ایسا حاکم چاہتا ہے کہ اس کے آئین وقوانین ،اصولِ دین اور احکام شرع متین کے مقابلے میں عوام میں زیادہ مقبول ہوں۔

۳- ان کا تیسرا اُصول عیاشی ہے: سلطانِ جابر کی ساری توجہ قوتِ شہوانی سے مغلوب اور ساری ہمتیں لذاتِ نفسانیہ کی تکمیل اور جسمانی راحت کے حصول میں مشغول رہتی ہیں۔رات دن طعام مرغوب، لباس خوش اسلوب وشربِ خمور میں مست رہتے ہیں۔ محافل رقص وسرود کے برپا کرنے، عمارتیں اور باغات بنانے میں لگے رہنے والے، فسق وفجور کی داد دینے والے۔ ان کے وزیر باتدبیر لہوولعب اور نشاط وطرب کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے اور اس کو کمال فن تک پہنچاتے ہیں۔ جہاں حکام یہ کام کریں تو رعایا میں ظلم وجور پھیل جاتا اور سلاطین کی یہ خرابیاں فسق وفجور، ظلم وتعدی اور فسادِ ملک کا سبب بن جاتی ہیں‘‘۔(منصبِ امامت از شاہ اسماعیل شہید، ص۱۵۱-۱۶۴)

ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنی زندگی کی ترجیحات اور اپنی اپنی امانت کی تکمیل میں اپنے تعلقات: رشتے ناطے، دوستی ودشمنی، محبت وغیریت (الحبّ في الله) اورعزت و نسبت میں اسی بات کو پیش نظر رکھے کہ حاکمیت اور جمع مال کی بجاے رضاے الٰہی، اور اعلاے کلمۃ اللہ کی بنا پر اپنے فیصلے کرے جیساکہ اس پر بہت سی احادیث ِ نبویہ موجود ہیں۔ اس کے اور اس کے بچوں کی تعلیم اور پیشے، عادات و علامات بھی دُنیوی غلبہ اور حصولِ مال کے بجاے رضاے الٰہی اور اعلاے دین کے لیے ہوں۔ مسلمانوں کی اجتماعی ترقی کا رخ بھی علووفساد میں کثرت کی بجاے دینی ترقی کا مظہر ہو کیوںکہ حکام کی طرح ہرانسان بھی اپنے گھربار اور اپنے آپ کا مسئول وامین ہے۔جب عام مسلمان اپنی اس ذمہ داری کوسمجھیں گے اور اسی کے مطابق عمل کریں گے، تو ان کے حکام بھی اسی طرزِ فکر وعمل کے حامل ہوں گے۔یہی مسلم معاشرے کی اصلاح کا شرعی منہاج ہے۔

مالی امانت ادا کرنے کی جزا:نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی سیّدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نے روایت کیا ہے: الْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُؤَدِّي مَا أُمِرَ بِهِ طَيِّبَةً نَفْسُهُ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ،  امانت دار خزانچی جو اس کو حکم دیا جائے، ا س کے مطابق دل کی فراخی کے ساتھ ( صدقہ ادا کردے ) وہ بھی ایک صدقہ کرنے والوں ہی میں سے ہے۔(بخاری، کتاب الاجازہ، باب استجار الرجل الصالح، حدیث: ۲۱۶۲)

خیانت کی سزا : جو شخص بھی قومی مال میں سے ایک پائی بھی اپنے اوپر صرف کرتا ہے، اس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وعید کافی ہے جو سیّدنا عمر ؓسے مروی ہے:

لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ، أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ صَحَابَةِ النَّبِيِّ ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فُلَانٌ شَهِيدٌ، حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ : كَلَّا، إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا - أَوْ عَبَاءَةٍ -» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ : يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، اذْهَبْ فَنَادِ فِي النَّاسِ، أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَنَادَيْتُ: أَلَا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ (بخاری، رقم: ۲۲۶۰)خیبر (کی جنگ ) کا دن تھا ، نبیؐ کے کچھ صحابہؓ آئے اور کہنے لگے : فلاں شہید ہے ، فلاں شہید ہے ، یہاں تک کہ ایک آدمی کا تذکرہ ہوا تو کہنے لگے: وہ شہید ہے ۔ رسولؐ اللّٰہ نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں، میں نے اسے ایک دھاری دار چادر یا عبا (چوری کرنے ) کی بنا پر آگ میں دیکھا ہے۔ پھر رسولؐ اللّٰہ نے فرمایا :’’ اے خطاب کے بیٹے ! جاکر لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنت میں مومنوں کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا‘‘ ۔ انھوں نے کہا : میں باہر نکلا اور اعلان کیا : متنبہ رہو! جنت میں مومنوں کے سوا اور کوئی داخل نہ ہو گا۔

اس حدیث میں مالِ غنیمت میں سے مال چوری کرنے والے کو جہنمی بتانےکے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی بات کی ہے۔ گویا ایسے شخص کا ایمان ہی خطرے میں ہے جو قومی مال میں خیانت کا مرتکب ہے۔

امانت میں خیانت ایسا بڑا جرم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ القِيَامَةِ، قَالَ أَحَدُهُمَا: يُنْصَبُ ، وَقَالَ الآخَرُ: يُرَى يَوْمَ القِيَامَةِ، يُعْرَفُ بِهِ (مسلم، رقم:۳۰۹) قیامت کے دن ہر خائن (عہد شکن)کے لیے ایک جھنڈا ہوگا۔ ان میں سے ایک صاحب نے بیان کیا کہ وہ جھنڈا (اس کے پیچھے مقعد میں ) گاڑ دیا جائے گا اور دوسرے صاحب نے بیان کیا کہ اسے قیامت کے دن سب دیکھیں گے ، اس کے ذریعے اسے پہچانا جائے گا ۔

امانت یا امین سے مراد صرف لغوی امین نہیں ،بلکہ امانت ایک شرعی اصطلاح ہے جس کو قرآن وسنت نے متعدد مفاہیم کے لیے استعمال کیا ہے۔ان میں دین، اموال، علوم ومعارف، مناصب وذمہ داری، گواہیاں اور فیصلے لکھنا اور روایت کرنا، رازوں اور پیغامات کی حفاظت کرنا،  سمع وبصر اور تمام حواس کی امانت داری کا خیال رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔

l حاصل بحث : مذکورہ بالا سطور میں امانت کے ساتھ ساتھ مناصب کے لیے مطلوبہ دیگر اہم شرعی صفات کا قرآن واحادیث سے تذکرہ کرنےکے بعد یہ ثابت کیا گیا ہے کہ:

۱- امین وامانت شریعتِ اسلامیہ کا اہم حکم ہے جس میں ’اللہ کے تمام فرائض کو اس کے احکامات کے مطابق ’انجام‘ دینےکا مطالبہ پایا جاتا ہے۔ یہی وہ امانت ہے جو انسان کے اشرف المخلوقات ہونے اور دنیا میں آنے بلکہ عطاے عقل کی بنیاد بنی، اور اسی کی بنا پر روزِ محشر انسان کی جزاوسزا ہوگی۔ امانت کے شرعی تقاضے میں فرد او رمعاشرے کی ہر سطح مخاطب ہے کیوںکہ اللہ نے سب کو ہی ذمہ دار بنایا ہے۔

۲- فرمانِ نبویؐ ہے کہ ’’مناصب امانت اور ندامت ہیں‘‘۔ اور کسی منصب کے لیے حاکم پر اللہ کی کامل اطاعت از بس ضروری ہے اور عہدے دار کا کام ہے کہ قرابت داری اور اُمیدواری کی بجاے سراسر شرعی اہلیت کی بنا پر ہی ذمہ داریاں دے۔ ا س کے پیش نظر دنیوی جاہ وجلال، ذاتی تقویت اور جمع مال ہرگز نہ ہو۔ وہ اپنے ماتحتوں میں اللہ کے دین کو قائم کرنے والا ہو، وگرنہ وہ بقول امام ابن تیمیہؒ: ’’خائن اور چوروں کا سردار ہے اور اس کا ربّ اس سے ناراض ہے۔ فرمانِ نبویؐ کے مصداق ’’ایسا حاکم جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘۔

۳-امانت کی تیسری صورت مالی ہے۔حب ِجاہ ومال فرعون وقارون کی صفات ہیں، ان کا بدتر انجام سب پر واضح ہے۔ حاکم کی مالی خیانت یہ بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کا مال ذاتی جاگیر سمجھ کر لوگوں میں بانٹے، اعلاے کلمۃ اللہ کے بجاے اپنے اقتدار اور خواہشات کے لیے اس مال کو بے جا استعمال کرتا پھرے۔ لوگوں کے اموال کی بہانے بہانے سے لوٹ کھسوٹ اس کا مشغلہ ہو، تو اس کے اعوان وانصار کو ناجائز مال دینا گناہ میں اس کی مدد کرنا ہے اورایسے مال کو اصل مالکوں تک لوٹانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ فرمانِ رسولؐ کے مطابق: ’’خائن حاکم روزِ قیامت اپنی مقعد پر رُسوائی کا جھنڈا ‘لے کر بدنامی کا شعار اور جہنم کا ایندھن بن جائے گا‘‘۔

آئین کی ۶۲، ۶۳ دفعات کے خاتمے کارجحان نہایت خطرناک ہے، اس کامطلب تو    یہ ہوگاکہ اسلام کے جس حکم پربھی ہم عمل کرنا نہ چاہیں یاہمیں اس پرعمل کرنامشکل نظرآئے، توہم یہ مطالبہ کریں کہ اس کو سرے سے ختم ہی کردیاجائے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!!

پاکستان میں زیربحث دفعات، اسلامی احکام پرمبنی ہیں اوراسلام کاکوئی حکم ایسا نہیں ہے کہ انسانوں کے لیے اس پر عمل کر ناممکن نہ ہو۔جس وقت ۶۲، ۶۳ دفعات کو دستور کا حصہ بنایا گیا، صورتِ حال یکسر تبدیل ہو چکی تھی۔ سیاست دان یا غیر سیاسی لوگ سب دولت کی ہوس کا شکار تھے اور کرپشن کی داستانیں عام تھیں۔ اس کے سدباب کے لیے مذکورہ دفعات نافذ کی گئیں جو فی الواقع اخلاص پر مبنی تھیں، نہ کہ بدنیتی پر۔ اب کرپشن کی صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہے ۔ اس لیے یہ دفعات نہایت ضروری ہیں، تاکہ کرپٹ لوگ سیاست میں نہ آ سکیں اور اگر آ جائیں تو ان کا محاسبہ کیا جا سکے۔ اس لیے ان دفعات کی اہمیت، افادیت و ضرورت، بلکہ ناگزیریت مسلّم ہے۔ (مکمل)

ماضی قریب میں اس ملک میں مرد و زن کے آزادانہ اختلاط اور بے حیائی کو راہ دینے کے لیے کئی خلافِ اسلام قانون سازیاں ہوتی رہی ہیں، خاص طور پر ۲۰۰۶ء کاسال اس لحاظ سے بدتر  رہا کہ اس سال نومبر کے مہینے میں پاکستانی پارلیمنٹ نے قرآن وسنت سے صریح متصادم نام نہاد ’ویمن پروٹیکشن بل ۲۰۰۶‘ منظور کرکے نافذ کردیا۔ اس قانون کے خلاف ِ اسلام ہونے پر پاکستان بھر کے تمام دینی حلقے یک آواز تھے۔ یہ ظالمانہ قانون اس اسمبلی سے پاس ہوا جس کی عمارت پر نمایاں الفاظ میں کلمہ طیبہ درج ہے۔ اس کے اراکین اور جملہ عہدے داران اسلام کے تحفظ کا حلف بھی اٹھاتے ہیں۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اس کے آئین میں خلاف ِاسلام قانون سازی کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اس متنازع فیہ ایکٹ کی منظوری سے قبل میڈیا (اور بالخصوص ایک بڑے اخباری ادارے اور ٹی وی چینل) پر اس معاملے کی اس طرح پرزور تشہیر کی گئی اور گلی کوچوں میں اس کو یوں زیر بحث لایا گیا، جیسے یہ پاکستان کا اہم ترین مسئلہ ہو۔

خواتین کے ’تحفظ‘ کے نام پر بنائے گئے اس ایکٹ میں جرم کا اندراج کرانے والے شخص کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرتے ہوئے پہلے اپنے دعوے کو ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اس ایکٹ میں حیلہ سازی کرتے ہوئے سنگین جرائم کو پولیس کی دسترس سے نکال کرعوام کے جذبۂ خیروصلاح کے سپرد کردیا گیاہے۔ صنفی امتیاز کے خاتمے کے دعوے سے لایا جانے والا یہ قانون وطن ِعزیز میں صنفی امتیازکی بہت بڑی بنیاد ثابت ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ظالمانہ ایکٹ کی منظوری کے دنوں میں لاکھوں پاکستانیوں نے راے شماری میں حصہ لے کر اس قانون سے اظہارِ براء.ت بھی کیا تھا،  دکانوں اور عام چوراہوں پر اس قانون کی تردید پر مبنی پوسٹر اور ہینگر مدت تک نظر آتے رہے۔   اس قانون کو غلط قرار دینے والوں میں خواتین کی اکثریت کے علاوہ اہم عہدوں پر فائز شخصیات بھی شامل رہیں، حتیٰ کہ اس ایکٹ کے خلاف دستخط کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی تجاوز کرگئی، جن میں خود غیرمسلم بھی شامل تھے۔یہ ملکی تاریخ کا ایک بڑا عوامی احتجاج تھا۔

قانون کی منظوری اور بحث مباحثے کے دنوں میں ہی ملک کی نمایندہ علمی شخصیات نے حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا تھا۔ہرمکتب ِفکر سے وابستہ علماے کرام نے بعض سینئر سیاست دانوں اور حکومتی ذمہ داروں سے ملاقاتوں میں کہا تھا کہ: اگر حکومت خواتین کے اکرام و احترام کے سلسلے میں اقدامات کرنے میں سنجیدہ ہے تو اختلاطِ مرد وزن کے بے باکانہ رویوں کو کنٹرول کرے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ منظور شدہ ایکٹ میں تو صرف زناکاروں کے حقوق کاتحفظ کیا گیا ہے، جب کہ پاکستانی خواتین کے لیے اس میں داد رسی یا شنوائی کا کوئی سامان نہیں ہے۔ پاکستانی خواتین جن سنگین معاشرتی مسائل کا شکار ہیں، ان کے لیے بہت سے دیگرقانونی اقدامات کیے جاسکتے ہیں، جن سے ان کے مسائل کے خاتمے میں حقیقی مدد مل سکتی ہے،لیکن ایسی تمام آوازوں کو سنی اَن سنی کر کے حقیقی مسائل سے صرف ِنظر کیا جاتا رہا۔

یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ حدود آرڈی ننس بھی کوئی بڑا معیاری قانون نہیں تھا، جو  کتاب وسنت کے عین مطابق ہو۔ تاہم شرعی ماحول پیداہونے کی بنا پر اس کی تائید کی جاتی رہی۔ زیرنظر تبصرہ بھی اسی نقطۂ نظر سے پیش خدمت ہے:

’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کی خلاف ِاسلام دفعات

جیسا کہ سطورِ بالا میں ہم نے عرض کیا ہے کہ ’تحفظ حقوق نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘

  • کا اصل مقصد تو اسلامی معاشرے میں امن وامان اور عفت وعصمت کے کسی حد تک ضامن حدود قوانین کو  مزید غیرمؤثر بنانا اور پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کی راہ میں حائل قانونی رکاوٹیں
  •   اس ایکٹ کا اصل نام ’کریمی نل لا امینڈمنٹ ۲۰۰۶ء‘ یعنی ’فوج داری ترمیمی ایکٹ ۲۰۰۶ء تھا‘ جسے مغرب زدہ لابی اور مخصوص طبقے کی عورتوں کے پروپیگنڈے کے تحت ’ویمن پروٹیکشن ایکٹ‘ یا ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کا مغالطہ آمیز نام دیا گیا۔

ختم کرنا تھا،کیونکہ ایک مسلم معاشرہ مادر پدر آزاد مغربی تہذیب کے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں تھا، جس کے لیے نام نہاد ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کے ذریعے حکومتی سرپرستی میں فضا سازگار کی جاتی رہی۔ آج ملک بھر میں ٹی وی چینلوں، ویب سائٹس اور موبائل فونوں کے ذریعے فحاشی وعریانی کا جو سیلاب آیا ہواہے، اور نوجوان لڑکے لڑکیاں بے راہ روی کا کھلا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس پر کئی حساس اہل قلم بڑے دردِدل کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ وہ ماں باپ تو آئے روز بے حیائی کے اس ناسور سے زندہ درگور ہو رہے ہیں، جن کے بچے بچیاں جوانی کے نشے میں مدہوش اور قانونی بندشوں سے آزاد ہیں۔ ایسا کرنے میں مذکورہ قانون ایک مددگار وسیلے کے طور پر سامنے آتا ہے:

۱-            ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کے ذریعے اسلامی حدود قوانین کے برعکس مبادیاتِ زنا، مثلاً بوس وکنار اور مردو زن کے آزادانہ اختلاط کو ناقابل سزا قرار دیا گیا تھا۔

۲-            مزید برآں ۱۶ سال سے کم عمرلڑکی کی ہر طرح کی بے راہ روی کو (ازخود یہ تصور کرتے ہوئے کہ وہ لازماً جبری زنا کا ہی شکار ہوئی ہے)اسے ہرقسم کی سزا سے مستثنیٰ کردیا گیا تھا۔

۳-            شوہر کے لیے یہ قانون سازی کی گئی تھی کہ اگر وہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر اس سے جماع کرتا ہے تو اسے زنا بالجبر سمجھا جائے گا،جس کی سزا ۲۵سال قید یا سزاے موت ہوگی۔

۴-            اس ایکٹ کے ذریعے حدود قوانین کے نام سے شرعی قوانین، مثلاً زنا ، قذف اور لعان وغیرہ کی سزائوں کی دیگر انگریزی قوانین پر برتری کو بھی ختم کیا گیا تھا۔

۵-            اس ایکٹ کے ذریعے صوبائی حکومت اور صدرِمملکت کو بلااستثنا تمام سزائوں کو معاف کرنے کا بھی اختیار عطا کیا گیا تھا۔

۶-            ویمن ایکٹ کی رو سے زنا  اور قذف کی معروف شرعی سزا کے بجاے پانچ سال قید اور زیادہ سے زیادہ ۱۰ ہزار روپے جرمانے کی سزائیں متعارف کرائی گئیں۔ حالانکہ شرعی حدود میں تبدیلی یا کمی بیشی کا اختیار کسی حاکم وقت یا مجتہد العصرتو کجا، خود سید المرسلینؐ کو بھی نہیں ۔

۷-            ان تمام تبدیلیوں پر مزید اضافہ یہ کہ فحاشی و بے راہ روی کے حوالے سے ان سزائوں کے طریق اجرا میں ایسی مضحکہ خیز تبدیلیاں کی گئیں، کہ ان جرائم کی سزا کسی پر لاگو ہونا ہی ممکن نہ رہا۔ (تفصیلی تجزیہ دیکھیے: ماہ نامہ محدث، لاہور، دسمبر ۲۰۰۶ء، ص ۲-۲۳، اور ۲۶-۷۰)

’ایکٹ‘ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں اپیل

’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کے نفاذ کے بعد ہی سے اس بارے میں محب ِاسلام حلقوں میں شدید بے چینی اور اضطراب پیدا ہوگیااور ۲۰۰۷ء میں اس ایکٹ کے خلاف ِاسلام ہونے کے بارے میں دو درخواستیں[نمبری ا،۳۔آئی ۲۰۰۷ء] وفاقی شرعی عدالت میں دائر کردی گئیں۔ پھر ۲۰۱۰ء میں درخواست[نمبری ا ۔آئی ۲۰۱۰ء] بھی دائر کی گئی، جس میں وفاقی شرعی عدالت سے استدعا کی گئی کہ اس ایکٹ کی خلافِ اسلام دفعات کا خاتمہ کیا جائے:

۱-   یاد رہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار ہے کہ:

دفعہ نمبر ۲۰۳ ڈی:عدالت اپنی تحریک یا پاکستان کے کسی شہری یا وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی درخواست پر اس سوال کا جائزہ لے اور فیصلہ کرسکے گی کہ آیا کوئی قانون یا قانون کا کوئی حکم ان اسلامی احکام (جس طرح کہ قرآن کریم اور رسولؐ اللہ کی سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ) کے خلاف ہے یا نہیں؟

دفعہ ۲۰۳ ڈی کی شق نمبر۱ کا تقاضا یہ ہے کہ عدالت ِمذکورہ حکومت کو اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے مناسب موقع دے گی۔شق ۲ کے تحت عدالت متعلقہ قانون کے خلافِ اسلام ہونے کی وجوہ اور اس کی مخالفت کی حد کا تعین بھی کرے گی۔ شق۳ کے تحت اگر کوئی قانون خلافِ اسلام قرار پاتا ہے تو گورنر اس قانون میں ترمیم کرنے کے اقدامات کرے گا، بصورتِ دیگر عدالت کی متعین کردہ تاریخ سے وہ قانون کالعدم قرار پائے گا۔

۲-  واضح رہے کہ ماضی میں قانونِ امتناع توہین رسالت (دفعہ ۲۹۵سی) میں بھی  وفاقی شرعی عدالت نے اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کے منظور شدہ قانون مجریہ ۱۹۸۶ء میں مذکورعمر قید کی سزا کے خلافِ اسلام ہونے کا فیصلہ دیا تھا اور حکومت کو ۳۰؍اپریل ۱۹۹۱ء تک کا وقت دیا تھا کہ اس دوران میں وہ مناسب قانون سازی کرلے، بصورتِ دیگرشرعی عدالت کا فیصلہ ازخود نافذ ہوگا اور توہین رسالت کی سزا میں شامل سزاے عمر قید حذف ہوجائے گی۔

اسی طرح ماضی میں قصاص ودیت کے مقدمے میں بھی وفاقی شرعی عدالت نے چیف جسٹس محمد افضل ظلہ کی سربراہی میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ: ’سزاے قتل کے مروجہ ۵۶ قوانین خلافِ اسلام ہیں، اور حکومت کو چاہیے کہ اگست ۱۹۹۰ء سے پہلے پہلے متبادل قانون سازی کرے، بصورتِ دیگر قصاص ودیت کے شرعی قوانین براہِ راست نافذ ہوجائیں گے‘۔ اسی نوعیت کا ایک فیصلہ قانونِ شفعہ کے بارے میں بھی دیا گیا تھا۔

وفاقی شرعی عدالت کے ان فیصلوں کے بعد متعینہ تواریخ تک حکومت نے کوئی قانون سازی نہ کی، جس کے نتیجے میں پاکستان میں امتناعِ توہین رسالت کا قانون ، وفاقی شرعی عدالت کی ترمیم (عمر قید کے حذف) کے بعد، اور قصاص ودیت کے قوانین براہِ راست اسلامی شریعت سے ہی پاکستان میں نافذ العمل ہوگئے۔

۳-  دستورِ پاکستان کی دفعات اور ماضی کے بعض مذکورہ بالا قانونی اقدامات کی لاہور ہائیکورٹ کے متعدد فیصلوں سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ حدود کے ذیل میں آنے والے جرائم  کے متعلق ذیلی عدالتوں کے فیصلوں کی نگرانی یا اپیل کا اختیار آئین کی شق ۲۰۳ ڈی ڈی کی رو سے صرف وفاقی شرعی عدالت کو ہی حاصل ہے (پاکستان کریمی نل لا جرنل ۲۰۰۴ء، ص ۸۹۹، اور ۱۹۸۵ PLD، لاہور ۶۵)۔ تاہم وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو چیلنج یا نظرثانی کے لیے    دستورِ پاکستان ہی کی دفعہ ۲۰۳ ایف کے تحت کسی بھی فریق کو ۶۰ یوم اورصوبائی ووفاقی حکومتوں کو چھے ماہ کا وقت حاصل ہے۔ اس مدت کے دوران میں نظرثانی کی درخواست سپریم کورٹ (شریعت اپلیٹ بنچ) میں دی جاسکتی ہے۔

وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ

اس طریق کار کو اختیار کرتے ہوئے ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کو بھی وفاقی شرعی عدالت میں گذشتہ سال زیر بحث لایا گیا۔ عدالت میں اس پر بحث و مباحثہ بھی ہوا، اور پھر مؤرخہ ۲۲دسمبر ۲۰۱۰ء کو اس حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کا ایک اہم فیصلہ سامنے آیا ۔ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق احمد خاں کی سربراہی میں جسٹس شہزاد شیخ اور جسٹس سید افضل حیدر نے یہ فیصلہ تحریرکیا ہے، جسے نکتہ نمبر۱۱۷ کے تحت رپورٹ کیا گیا ہے۔

وفاقی شرعی عدالت اپنے حالیہ فیصلے میں ’تحفظ حقوق نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کے ساتھ ساتھ ، امتناعِ دہشت گردی ایکٹ ۱۹۹۷ء اور ’امتناعِ منشیات ایکٹ۱۹۹۷ء‘ کو بھی زیر غور لائی ہے، جس میں عدالت نے یہ قرار دیا ہے کہ مذکورہ بالا ایکٹس کے بعض حصے  واقعتا اسلام کے خلاف یا وفاقی شرعی عدالت کے دائر عمل میں مداخلت ہیں، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ان قوانین میں ترمیم کرکے اِن کے متبادل اسلامی قوانین لائے، بصورتِ دیگر ان کے قابل اعتراض حصے ۲۲ جون۲۰۱۱ء تک نافذ العمل رہنے کے بعد آخرکار کالعدم ہوجائیں گے۔

۱-   وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے (نکتہ نمبر ۱۱۷ کی شق نمبر ۵) میں ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کی ترامیم ۱۱، اور۲۸کو دستور کی دفعہ ۲۰۳ ڈی ڈی سے متجاوز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان ترامیم کے مؤثر ہونے سے حدود قوانین کی بالاتر حیثیت ختم ہوگئی ہے، اس لیے انھیں ختم کیا جائے۔ ان ترامیم کا تعارف وجائزہ حسب ِذیل ہے:

الف: ویمن ایکٹ کی ترمیم نمبر۱۱ کے ذریعے زنا آرڈی ننس کی دیگر انگریزی قوانین پر بالاتر حیثیت کو ختم کردیا گیا تھا۔ اگر حکومت اس کے خلاف اپیل میں نہیں جاتی تو یہ شق ۲۲جون ۲۰۱۱ء کو ختم ہو جائے گی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ میں زنا کی دیگر متوازی سزاؤں پر سابقہ شرعی سزاؤں کی برتری بحال ہوجائے گی، اور عدالت کو یہ موقع حاصل ہوگا کہ وہ زنا کی محض پانچ سال سزا اور زیادہ سے زیادہ ۱۰ہزار روپے جرمانے کے بجاے اس پر سابقہ شرعی سزا جاری کرنے کے احکام صادر کرسکے۔

ب: ایکٹ کی ترمیم نمبر ۲۸، جس کو خلافِ اسلام قرار دیا گیا ہے ، کا مقصد یہ تھا کہ ’لعان‘ کو ’قانون ضابطہ فوج داری ۱۸۹۶ء‘ سے نکال کر ’شادی ایکٹ ۱۹۳۹ء‘ کا حصہ بنایا جائے، تاکہ ’لعان‘ کی جو سزا قذف آرڈی ننس کے سیکشن ۱۴ (۴) میں ہے، اس کا اطلاق ختم ہوجائے۔ اب اس ترمیم کے ختم ہوجانے سے ’لعان‘ کا سابقہ قانون مؤثر ہونے کا بھی جزوی امکان پیدا ہوگیا ہے۔

۲-  وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے (نکتہ نمبر ۱۱۷کی شق نمبر ۷) میں ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کی ترامیم نمبر ۲۵ اور ۲۹ کو بھی دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۲۰۳ ڈی ڈی سے متجاوز، یعنی خلافِ اسلام قرار دیتے ہوئے نئی متبادل قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔ محولہ ایکٹ کی ترمیم نمبر۲۹ کے ذریعے حدود قوانین کے حصے قذف آرڈی ننس کی دیگر قوانین پر بالاتر حیثیت کو ختم کیا گیا تھا، جب کہ ترمیم نمبر۲۵ کے ذریعے ’قذف آرڈی ننس‘ کی تین دفعات ۱۱، ۱۳ اور ۱۵ کو حذف کیا گیاتھا، جس کے بعد ’قذف آرڈی ننس‘ غیرمؤثر ہوکر رہ گیا تھا۔ اب عدالت نے نہ صرف قذف آرڈی ننس کی بالاتر حیثیت کو بحال بلکہ اس کی اہم دفعات کو بھی برقرار رکھنے کی تلقین کی ہے۔

جہاں تک زنا آرڈی ننس اور قذف آرڈی ننس کی دیگر قوانین پر بالاترحیثیت بحال کرنے کی بات ہے، تو یہ اسی جرم پر تعزیراتِ پاکستان میں موجود متوازی سزاؤں کے تناظر میں ایک اہم ضرورت ہے، تاکہ فیصلہ کرنے والے جج کو فیصلے کی تادیبی کارروائی کا انتخاب کرنے میں آسانی ہو۔مزید برآں یہ اسلامی شریعت کا مسلمہ تقاضا بھی ہے، بلکہ اسلام تو ان جرائم پر جہاں  اللہ تعالیٰ نے سزائیں وحی کی صورت میں متعین کردی ہیں، کسی متبادل قانون پر عمل پیرا ہونے کو جاہلیت، ظلم، حتیٰ کہ کفر سے تعبیر کرتا ہے ۔ان شرعی قوانین کی ترجیح پاکستان کی دیگر عدالتوں کے بعض سابقہ فیصلوں کی روشنی میں بھی ایک مسلمہ مسئلہ ہے، جیساکہ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۸۶ء میں  زنا آرڈی ننس کو ’آرمی ایکٹ‘ پر فوقیت دینے کا فیصلہ کیا تھا او ریہ حکم دیا تھا کہ اس کے ملزم کے مقدمے کی سماعت ’کورٹ آف مارشل‘ کے بجاے سیشن کورٹس میں کی جائے (ملاحظہ ہو: PSC 1986، فیصلہ ۱۲۲۸)۔ بالکل اسی طرح ۱۹۸۵ء میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہ قرار دیا تھا کہ حدود قوانین کو ’سندھ چلڈرن ایکٹ‘ پر فوقیت حاصل ہوگی۔(پاکستان کریمی نل لا جرنل، ص ۱۰۳۰)

۳- علاوہ ازیں عدالت نے اپنے فیصلے (نکتہ نمبر۱۱۷ کے شق ۱ تا ۴) میں ’امتناع دہشت گردی ایکٹ‘ کی دفعہ ۲۵ اور ’امتناعِ منشیات ایکٹ ۱۹۹۷ء‘ کی دفعہ ۴۸ اور ۴۹ کو بھی     دستورِ پاکستان کی دفعہ ۲۰۳ ڈی ڈی سے متجاوز قرار دیتے ہوئے خلافِ اسلام قرار دیا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں دفعات میں قرار دیا گیا تھا کہ: ’’ان جرائم کی اپیل ہائی کورٹ میں داخل کرائی جائے ‘‘، جب کہ شرعی عدالت نے یہ حکم دیا ہے:

قرآن وسنت کی رو سے جو جرائم حدود کے زمرے میں آتے ہیں، اور ان کی سزا  قرآن وسنت میں مذکور ہے، ان تمام جرائم میں مدد گار یا ان سے مماثلت رکھنے والے جرائم بھی حدود کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور حدود یا اس سے متعلقہ تمام جرائم پر جاری کیے گئے فوجداری عدالت کے احکامات کی اپیل یا نظرثانی کا اختیار بلاشرکت غیرے وفاقی شرعی عدالت کو ہی حاصل ہے۔ ایسے ہی حدود جرائم پر ضمانت کے فیصلے کی اپیل بھی صرف اسی عدالت ہی میں کی جائے۔

عدالت نے ان جرائم کی فہرست مرتب کرتے ہوئے جو حدود کے زمرے میں آتے ہیں، ان جرائم کو بھی اس میں شامل کردیا ہے، جو اس سے قبل مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت آتے تھے۔ مجموعی طورپر ان جرائم کی تعداد ۱۰ شمار کی گئی ہے: زنا، لواطت، قذف، شراب، سرقہ، حرابہ، ڈکیتی، ارتداد، بغاوت اور قصاص انسانی سمگلنگ۔

۴-   اخبارات نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی خبر دیتے ہوئے لکھا:

عدالت کے تین رکنی بنچ نے ’تحفظ حقوق نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کی چار شقوں کو آئین کے آرٹیکل ۲۰۳ ڈی ڈی سے متصادم قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ  وہ ۲۲جون ۲۰۱۱ء تک شق نمبر ۱۱، ۲۵، ۲۸ اور ۲۹ کو کالعدم قرار دے کر ترمیم کریں، بصورت دیگر یہ عدالتی فیصلہ بذات خود ترمیم سمجھا جائے گا۔ فیصلے میں یہ بھی قرار دیا گیا ہے، کہ قانون سازی کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کے اختیارات ختم یا تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ (روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۲۳دسمبر ۲۰۱۰ء، ص ۶)

نجی ٹی وی کے مطابق عدالت نے چار شقوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اسلام کے خلاف ہیں۔ عدالت نے زنا بالرضا کو بھی ناجائزاور حدود قوانین کے مطابق غیراسلامی فعل اور گناہ کبیرہ قرار دیا اور کہا کہ زنا کے بارے میں ایکٹ مذکورہ کے قوانین کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔(روزنامہ انصاف، لاہور، ۲۳دسمبر ۲۰۱۰ء، ص۷)

تبصرہ وتجزیہ

وفاقی شرعی عدالت کا مذکورہ بالا فیصلہ ایک قابل قدر اقدام ہے، اور ہم اس کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہیں، بالخصوص اس تناظر میں جب کہ ’تحفظ حقوقِ نسواں بل‘ پر جاری قومی سطح کے مناظرے ومباحثے میں بعض سیاستدانوں (چودھری شجاعت حسین وغیرہ) نے قوم سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ: ’’اگریہ ایکٹ کسی بھی طرح خلافِ اسلام ثابت ہوجائے تو وہ اپنے عہدوں سے استعفا دے دیں گے‘‘۔ اس موقع پر معروف علماے کرام اور اہلِ علم حضرات کے ساتھ ہم نے اس کی خلافِ اسلام دفعات کی نشان دہی کی تھی، لیکن چودھری صاحب موصوف نے اس وقت ان کو درخورِ اعتنا نہ جانا۔ اب ایک آئینی عدالت نے اس ایکٹ کی چار دفعات کو خلاف اسلام قرار دے کر حکومت کو ۲۲جون ۲۰۱۱ء تک مہلت دی ہے کہ وہ متبادل قانون سازی کرے تو اسے کم ازکم دیر آید درست آید کا مصداق قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس قدر تاخیر سے آنے والے فیصلے کے درمیانی چار برسوں میں اس حوالے سے جو بے راہ روی ملک میں جگہ پاگئی ہے، اس کا خمیازہ تواہل پاکستان بھگت رہے ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت کا یہ اقدام بھی انتہائی قابل تحسین ہے کہ اس نے نہ صرف شرعی قوانین کی برتری کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ حدود قوانین سے قریب تر دیگر قوانین میں ہیراپھیری کے ذریعے جو انھیں شرعی سزاؤں اور تادیب سے دور رکھا گیا تھا، ان کو دوبارہ شرعی عدالت کے دائرہ عمل میں لانے کی تلقین بھی کی ہے۔ اور حکومت کو پابند کیا ہے کہ ان شرعی سزائوں کے بارے میں نہ صرف آرمی کورٹس، بلکہ دہشت گردی اور امتناع منشیات وغیرہ کے قوانین کی   آڑ لے کر ان کو انگریزی قوانین کے دائرے میں نہ لایا جائے، بلکہ انھیں شرعی عدالت اور    ماتحت عدالتوں میں ہی سماعت کیا جائے، تاکہ مستغیث اور مدعا علیہ شرعی فیصلے سے استفادہ کرسکیں۔ شرعی عدالت کااپنے حقوق کو محفوظ کرنے کا رویہ قابل تعریف ہے، کیونکہ یہ اصولی طورپر قیامِ پاکستان کے مقصد سے ہم آہنگ ہے جس کا تقاضا یہی تھا کہ اس ملک کے شہری اینگلو سیکسن لاز کے بجاے اللہ کے دیے ہوئے شرعی نظام عدل میں اپنی زندگی گزاریں۔

تاہم اس موقع پریہ یاددہانی کرانا انتہائی ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ‘ کی خرابیوں میں سے صرف ایک تہائی کی ہی نشان دہی کی ہے، حالانکہ  یہ پورا ایکٹ ہی خلافِ اسلام ہونے کے سبب قابلِ استرداد ہے۔ اس ایکٹ کی ۲۹ ترامیم کے نتیجے میں: ’حد زنا آرڈی ننس ۱۹۷۹ء‘ کی ۲۲میں سے ۱۲دفعات کو منسوخ اور ۶کو تبدیل کردیا گیا تھا، جب کہ حد قذف آرڈی ننس کی  ۲۰ میں سے ۸کو منسوخ اور ۶ میں ترمیم کی گئی تھی۔ جس کے بعد     اوّل الذکر میں محض ۴ دفعات اور ثانی الذکر آرڈی ننس میں صرف ۶ دفعات اپنی اصل شکل میں باقی رہ گئی تھیں۔ راقم نے اس متنازع ایکٹ کی منظوری کے وقت لکھا تھا:

اس بل کی خلافِ اسلام ترامیم کو اگر حذف یا درست کردیا جائے، تب بھی اس قانون کے نظام اجرا میں ایسے مسائل پیدا کردیے گئے ہیں کہ جس کے بعد معاشرے میں عملا زنا کی روک تھام ناممکن ہوگئی ہے ، اس لیے یہ بل ناقابل اصلاح ہے۔ اس بل کے ذریعے حدود سے متعلقہ ۹جرائم کو ’تعزیراتِ پاکستان‘ میں منتقل کردیا گیا ہے اور    ترمیم شدہ حدود آرڈی ننس کے تحت صرف دوجرائم ہی باقی رہ گئے ہیں۔پھر ان ۱۱ میں سے جن سات جرائم کی سزا دینا مقصود ہے ، ان کو پولیس کی عمل داری میں رکھا گیا ہے۔ اس کے مجرم کو بلاوارنٹ بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے اور وہ تمام زنا بالجبراور اس سے   متعلقہ جرائم ہیں جن میں خواتین سزا سے مستثنیٰ ہیں (اور یہی اس بل کا ’ثمر‘ ہے)، جب کہ پانچ جرائم محض نمایشی ہیں جن میں بچے کھچے حدود قوانین کے دوجرائم بھی شامل ہیں۔ (ماہنامہ محدث، دسمبر، ۲۰۰۶ء، ص ۲۲، ۲۳)

’ویمن ایکٹ‘ کا اہم مسئلہ اس کے لیے مجوزہ پروسیجرل لا کے ناقابل عمل تقاضے ہیں، جیساکہ اوپر مختصراً ذکر ہوا، جب کہ ابھی تک باقی رہ جانے والی قانونی خرابیوں میں صدر اور صوبائی حکومتوں کا اس کے مجرم کو معاف کرنے کا اختیار، شوہر پر زنا بالجبر کا مضحکہ خیز جرم اور اس پر   سزاے موت کا ہونا بھی خلافِ اسلام ہیں۔ مزید برآں ثبوت ِزنا کے لیے پانچ گواہوں کا غیرشرعی مطالبہ یا زانی کے اعتراف کرلینے اور ’لعان‘ کے دوران بیوی کے اعترافِ زنا کو ثبوتِ جرم کے لیے ناکافی سمجھناوغیرہ ایسی چیزیں ہیں، جو تاحال اس ایکٹ کا غیراسلامی حصہ ہیں۔

مسلمانانِ پاکستان کو چاہیے اس نام نہاد ’تحفظ حقوقِ نسواں ایکٹ ۲۰۰۶ء‘ کے ان باقی حصوں کے خلافِ اسلام ہونے پر بھی وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کریں، تاکہ اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ ہدایت سے بغاوت اور طاغوت کی غلامی کے طوق سے نجات ملے اور معاشرہ امن و سکون کی راہوں پر چل نکلے۔ (مضمون کی تیاری میں جماعت اسلامی ویمن کمیشن کی سفارشات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے)


مضمون نگار ماہ نامہ محدث، لاہور کے مدیر ہیں