اتنی بات تو قرآن مجید کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ یہ کتاب دنیا کی دوسری تمام مذہبی کتابوں سے کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ اس کا اسلوب ‘ اندازِ بیان اور طرز استدلال اتنا منفرد ہے کہ دوسری تمام مذہبی کتابوں کے متن اور عبارت سے قرآن مجیدکا متن اور عبارت واضح طور پر مختلف نظر آتے ہیں۔ ان امتیازی اوصاف میں ایک اہم وصف قرآن مجید کا اندازِ نزول ہے۔ اندازِ نزول کے اعتبار سے قرآن مجید اور دوسری آسمانی کتابوں میں دو اعتبار سے بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ یہ فرق بڑی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اتنی بنیادی اہمیت کہ اس فرق کی وجہ سے قرآن مجیدکو دوسری تمام آسمانی کتابوں پر ایک نمایاں فضیلت اور برتری حاصل ہے۔
قرآن مجیدسے پتا چلتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی ؑ پر تورات نازل فرمانے کا ارادہ کیا تو ان کو ایک ماہ کے اعتکاف کے بعد ان کو پوری کی پوری تورات تختیوں کی شکل میں لکھی ہوئی دے دی۔ حضرت موسٰی ؑ ان تختیوں کو لے کر آگئے اور اپنی قوم کے سامنے پیش کر دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ تختیاں سونے کی تھیں‘ کچھ کا خیال ہے کہ وہ پتھر کی تھیں۔ بہرحال ہمارے موضوع کے لحاظ سے یہ ایک غیر متعلق بات ہے۔ یہ تختیاں یعنی الواح جس چیز پر بھی لکھی گئی تھیں حضرت موسٰی ؑ کو دے دی گئیں اور انھوں نے وہ تختیاں لا کر اپنی قوم کو دے دیں۔ اس طرح قومِ موسٰی ؑ نے تورات کے پیغام کو حاصل کر لیا اور اس کو پڑھنے پڑھانے میں لگ گئے۔ وہ تختیاں طویل عرصے تک نسلاً بعد نسل بنی اسرائیل میں چلتی رہیں۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں بہت سے نشیب و فراز آتے رہے۔ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ یہودیوں کو زبردست تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی سلطنت ختم ہوئی‘ ان کے لاکھوں آدمی موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ انھی ہنگاموں میں تورات کی تختیاں ضائع ہو گئیں اور پھر تورات دنیا سے مٹ گئی۔
یہاں تورات کی تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں‘ لیکن یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ تورات لکھی ہوئی صورت میں ایک ہی جگہ ایک ہی وقت میں دے دی گئی۔ یہی کیفیت نزولِ انجیل کی بھی رہی۔ جب حضرت عیسٰی ؑ پر انجیل نازل فرمائی گئی تو انجیل کو جس شکل میں حضرت عیسٰی ؑ پر نازل کیا گیا اس کی شکل قرآن مجید اور تورات دونوں سے مختلف تھی۔ انجیل کے نزول کی صورت وہ نہیں تھی جو قرآن مجید کی یا تورات کی تھی بلکہ انجیل کی حیثیت قریب قریب وہ تھی جو مسلمانوں میں حدیث قدسی کو حاصل ہے۔ حدیث قدسی علم حدیث کی اصطلاح میں اس حدیث کو کہتے ہیں جو دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور اللہ تعالیٰ ہی کا براہِ راست کلام ہو‘ حضور علیہ السلام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہو لیکن حضور علیہ السلام نے اس کو اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہو۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کلام اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں ہے تو وہ کلام پاک قرآن مجید ہے ‘اور اگر حضور علیہ السلام نے اس پیغام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہو تو وہ حدیث قدسی ہے۔ مثلاً ایک حدیث ہے جو آپ نے سنی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جب میرا بندہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک گزآگے بڑھتا ہوں۔ جب میرا بندہ ہلکے سے میری طرف آتا ہے تو میں لپک کر اس کی طرف بڑھتا ہوں۔ بندہ ہلکے سے میری طرف دوڑتا ہے تو میں تیز دوڑ کر اس کے پاس جاتا ہوں‘‘۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے ارشاد ہو رہا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجیدکے برعکس اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کردہ نہیں ہیں بلکہ حضور علیہ السلام کے ہیں۔
انجیل کے نزول کی کیفیت تقریباً اسی طرح کی تھی کہ اللہ رب العزت نے ایک پیغام حضرت عیسٰی ؑ کے قلب مبارک پر نازل کیا اور انھوں نے اس کو اپنے الفاظ میں انسانوں تک پہنچا دیا۔ لیکن اس کو لکھا نہیں‘ نہ حضرت عیسٰی ؑ نے کچھ تحریر کروایا‘ نہ ان کے ماننے والوں نے ان کی زندگی میں ان کے پیغام کو لکھا‘ بس زبانی ہی وہ پیغام چلتا اور پھیلتا رہا۔ وہ پیغام کتنا بڑا تھا؟ کتنا مختصر تھا؟ اگر لکھتے تو ایک کتاب بنتی یا دو کتابیں بنتیں؟ کتنے صفحے بنتے؟--- ان سب سوالات کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ نے انجیل کو قلم بند نہیں کرایا۔ اس کی روایت زبانی ہی چلتی رہی۔ لیکن بہرحال وہ کلام جتنا کچھ بھی تھا وہ ایک ہی وقت میں سارا کا سارا نازل ہو گیا۔
اس کے برعکس قرآن مجیدکے نزول کا سلسلہ اس سے بالکل مختلف انداز میں طویل عرصے تک جاری رہا۔ قرآن مجیدنجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کرکے‘ کبھی ایک ایک لفظ‘ کبھی ایک ایک آیت‘ کبھی ایک ایک سورت کرکے ۲۳ سال کے طویل عرصے میں نازل ہوا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے کل واقعات یا تجربات (experiences) ۲۴ ہزار ہیں‘ یعنی حضور علیہ السلام پر ۲۴ ہزار مرتبہ وحی نازل ہوئی۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں ۲۴ ہزار مرتبہ کر کے قرآن مجیدکے مختلف حصے حضورؐ پر نازل ہوئے‘ اس لیے کہ مصلحت اسی بات کی متقاضی تھی کہ ان حصوں کو بار بار نازل کیا جائے۔ مثال کے طور پر روایت میں آتا ہے کہ سورہ فاتحہ کئی بار نازل ہوئی۔ ایک مرتبہ سلسلہ وحی کے بالکل آغاز میں اس کا نزول ثابت ہوتا ہے۔ پھر جب پانچ وقت کی نمازیں فرض ہوئیں تو یہ پھر نازل ہوئی۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مدینہ منورہ میں بھی ایک بار نازل کی گئی۔ خلاصہ یہ کہ بعض ایسی اہم سورتیں جو قرآن مجیدمیں بہت مہتم بالشان حیثیت رکھتی ہیں وہ ایک سے زائد مرتبہ بھی نازل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اوقات صرف ایک ہی لفظ نازل کیا گیا۔ بعض اوقات پوری سورت نازل کی گئی اور ایسی بھی مثالیں ہیں کہ بڑی لمبی لمبی سورتیں جیسے سورہ یوسف جو آدھے پارے سے زائد پر مشتمل ہے‘ ساری کی ساری ایک ہی مرتبہ ایک ہی بار کر کے نازل ہوئی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سوال کا جواب ہی وہ بنیادی امتیازی وصف اور غیر معمولی حقیقت ہے جس نے قرآن مجیدکو تمام دیگر آسمانی کتابوں کے مقابلے میں بڑی نمایاں حیثیت اور ممتاز خصوصیت عطا کی ہے۔ اس سوال پرغور کیا جائے توقرآن مجید کے نجماً نجماً (یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے) نازل کیے جانے کی متعدد حکمتیں واضح ہوتی ہیں۔ آیندہ صفحات میں ان حکمتوں میں سے چند ایک کا تذکرہ مقصود ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب اللہ رب العزت نے اپنی مشیت میں قرآن مجیدکے نزول کا فیصلہ کیا تو اس کتاب کو اس نے کسی خلا میں اُتارنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ کتاب اللہ رب العزت نے ایک زندہ ماحول میں‘ ایک زندہ معاشرے میں اور ایک ایسے وقت میں اتاری جب اللہ کے رسولؐ کی سربراہی میں دین کو قائم کرنے ‘ دین کی تبلیغ کرنے اور دین کو پھیلانے کی ایک بھرپور کوشش جاری ہونے والی تھی۔ جیسا کہ ہر صاحب علم جانتا ہے‘ اس کوشش کا مقصدانسانی زندگی کے کسی ایک پہلو کی اصلاح نہیں بلکہ زندگی کے سارے کے سارے پہلوئوں کی مکمل اصلاح تھا۔ اس تحریک اور جدوجہد کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ ایک طرف انسان کے عقائد کی اصلاح ہو‘ دوسری طرف انسان کے جذبات اوراحساسات کو مثبت جہتیں عطا ہوں۔ جہاں انسان کی ذاتی اور شخصی زندگی کے طور طریقے بدلیں وہاں انسانی معاشرتی اور اجتماعی زندگی میں بھی صحت مندانہ تبدیلی آئے۔ ایک طرف تجارت و کاروبار کا انداز بدلے تو دوسری طرف اجتماعی حالات بھی بدلیں۔ جہاں معاشی حالات خیر کا رخ اختیار کریں وہاں سیاسی احوال کو بھی بہتری کے رخ پر ڈالا جائے۔ غرض زندگی کا ہر ہر پہلو اور انسان کی سرگرمیوں کا ہر ہر جز نئی اقدار کے مطابق بدل جائے۔
یہ تھا وہ عظیم الشان کام جس کے لیے قرآن مجیدکا نزول ہوا۔ حضور علیہ السلام کی رہنمائی اور سرپرستی اور صحابہ کرامؓ کی مدد اور تعاون سے یہ تاریخ ساز اور جاں گسل جدوجہد ۲۳ سال سے زیادہ مدت تک جاری رہی۔ اس پورے عرصے میں جدوجہد کے جس مرحلے پر جب اور جہاں جس رہنمائی کی ضرورت پیش آتی قرآن مجید کی آیات نازل ہو جاتیں اور ضروری رہنمائی فراہم کر دیتیں‘ اور یوں دین کی نشرواشاعت کی تمام کوششیں‘ اقامت دین کی جدوجہد اور ایک مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل اور نزولِ قرآن کا عمل‘ یہ سب چیزیں نہ صرف بہ یک وقت جاری رہیں بلکہ ایک دوسرے کی ممد و معاون اور مکمل (بکسرالمیم)بھی رہیں۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجیدایک انقلابی اندازکی وحی یعنی revolutionary revelationہے۔ واضح رہے کہ یہاں انقلابی کا لفظ عام سیاسی مفہوم میں استعمال نہیں کیا جا رہا بلکہ یہاں انقلاب سے مراد ایک ایسی ہمہ گیر تبدیلی ہے جو اس کتاب حکیم اور فرقان حمید کے نزول کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ اس انقلاب یا کامل تبدیلی کے مختلف مراحل کا ارتقا اور کتاب الٰہی کے نزول کے مختلف مدارج کی تکمیل ‘یہ دونوں عمل ایک ساتھ جاری رہے۔ جونہی اس کتاب کے نزول کی تکمیل ہوئی ویسے ہی اس ہمہ گیر تبدیلی اور انقلاب کی بھی تکمیل ہو گئی۔ گویا یہ تبدیلی جو قرآن مجیدکے ذریعے وجود میں آئی ایک مبنی بر وحی تبدیلی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’آج کے دن ہم نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا‘ تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو بطور ایک طرز ِزندگی تمھارے لیے پسند کر لیا ’’تو اس دن بلکہ اسی لمحے صحابہ کرامؓ نے یہ سمجھ لیا کہ جو کام حضور علیہ السلام کرنا چاہتے تھے وہ سارے کا سارا مکمل ہو چکا ہے اور اب حضورؐ اس دنیا سے تشریف لے جانے والے ہیں۔ خود حضور علیہ السلام نے صحابہ ؓ سے پوچھا کہ کیا میں نے امانت پہنچا دی؟ صحابہؓ نے بہ یک زبان گواہی دی کہ ہاں آپؐ نے امانت پہنچا دی۔ گویا یہ سب کام (تکمیل نزولِ قرآن ‘ تکمیل انقلاب‘ فراہمی امانت اور تکمیل دین سب) ایک ساتھ پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ قرآن مجیداللہ کی آخری کتاب ہے اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے ہے۔ جب تک روے زمین پر مسلمان اور قرآن کے نام لیوا موجود ہیں‘ اس وقت تک اللہ رب العزت نے حضورؐ کے ذریعے خبر دی ہے کہ قیامت نہیں آئے گی۔ اس لیے کہ جب تک ایک فرد بھی اللہ اللہ کہنے والا موجود ہے‘ اللہ کی حجت تمام ہوتی رہے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجیداور اُمت مسلمہ کا وجود لازم و ملزوم ہے۔ قرآن مجید کو مسلمانوں کی مذہبی‘ اجتماعی اور ملّی زندگی سے اس طرح مربوط اور پیوستہ کر دیا گیا ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک مسلم معاشرہ موجود ہے‘ قرآن مجید بھی موجود ہے۔ اس کے الفاظ و مفاہیم‘ اس کے کلمات و عبارات اور اس کی تعلیم ہر آنے والی نسل پہلی نسل سے حاصل کرتی رہے گی اور اس طرح یہ سلسلہ تاقیام قیامت چلتا رہے گا۔ یہ چیز اسی وقت ممکن ہو سکتی تھی کہ جب قرآن مجید نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جائے اور اس کی بنیاد پر آہستہ آہستہ ایک پورا ثقافتی ماحول‘ ایک پورا معاشرہ‘ ایک مکمل تہذیب اور ایک پوری اُمت کی تشکیل ہوتی جائے تاکہ وہ اُمت اس قرآن مجید کی تعلیم کو لے کر چل سکے‘ اس لیے کہ اب اسی اُمت کو آخر تک چلنا ہے۔ اب کسی پیغمبر کو نہیں آنا بلکہ صرف اُمت ہی کو یہ پیغمبرانہ کام کرنا ہے‘ لہٰذا جب تک اُمت قرآن سے تربیت یافتہ نہ ہو وہ اس کام کو لے کر آگے نہیں چل سکتی۔
اس کے برعکس سابقہ مذاہب اور سابقہ آسمانی کتابوں کو شاید اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس لیے کہ ہر نبی کے بعد ایک دوسرا نبی اس کی جگہ لینے کے لیے موجود تھا‘ وہی انسانوں کی رہنمائی کا ذمہ دار اور ان کی قیادت کے لیے کافی تھا۔ نبی کے ہوتے ہوئے اُمت کو کارِنبوت کے لیے تیار کرنا اور اُمت کو وحی الٰہی کی تعلیم میں رچا بسا دینا اور افراد ملّت کو وحی الٰہی کے رنگ میں رنگ دینا ضروری نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس اُمت کا وہ کام نہیں تھا جوحضور ختمی مرتبتؐ کی اُمت کے سپرد کیا جانا تھا۔ مگر اب جب کہ نبوت ختم ہو چکی تو جہاد بالقرآن کی یہ ذمہ داری حضور علیہ السلام کے جانشین کی حیثیت سے ساری اُمت کو انجام دینی ہے‘ اور یہ اُسی وقت ممکن ہے کہ جس طرح مستخلِف (بکسراللام) خلقہ القرآن سے متصف تھا۔ اسی طرح مستخلَف (بفتح اللام) بھی کان خلقہ القرآن کی نعمت سے بہرہ یاب ہو‘ یعنی قرآن کا رنگ اس میں رچا بسا ہو اور سنت نبویؐ اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہو۔ اُمت کو قرآن مجیدکے رنگ میں رنگنے کے لیے ضروری تھا کہ یہ رنگ تھوڑا تھوڑا کر کے چڑھایا جاتا کہ رنگ پختہ ہوتاچلا جائے۔
تیسری وجہ قرآن مجیدکے آہستہ آہستہ نازل کیے جانے کی یہ ہے کہ کفار مکہ نے (جیسا کہ خود قرآن مجید میں بیان ہوا ہے) یہ اعتراض کیا تھا کہ: لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً‘ یعنی اس قرآن کو ایک ہی بار کیوں نہ اتار دیاگیا۔ اس کا جواب یہ تھا کہ: کَذٰلِکَ ج لِنُثَّبِتَ بِہٖ فُّّؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاً o (الفرقان ۲۵:۳۲)‘ یعنی ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے اتارا ہے کہ ہم اس طرح آپؐ کے دل کو مضبوط کریں‘ تقویت دیں اور اس کی وجہ سے سکون و اطمینان بخشیں اور آپؐ کو پختگی حاصل ہو‘ مزیدبرآں ہم اس کو آہستہ آہستہ تھوڑا تھوڑا کرکے لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
اس آیت میں مذکورہ بالا اعتراض کے دو جواب دیے گئے ہیں اور ان دونوں جوابوں کے ذریعے دو اور حکمتیں اس بات کی بیان کی گئی ہیں کہ قرآن مجید کو آہستہ آہستہ کیوں نازل کیا گیا۔ اصل جواب سمجھنے سے پہلے ایک اور اہم بات سمجھ لینی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجیداپنی ترتیب‘ نفس مضمون اور اسلوبِ بیان کے اعتبار سے ایک بڑی منفرد کتاب ہے۔ یہ اس مفہوم میں محض قانون یا آئین کی کتاب نہیں ہے جس طرح کی قانون کی کتابیں وکیلوں کی لائبریریوں میں ہوتی ہیں۔ اگرچہ اس میں قانون کے بھی بہت سے احکام دیے گئے ہیں‘ اور دستوری اہمیت کے بہت سے اصول بھی بیان ہوئے ہیں لیکن قانونی احکام کے ساتھ ساتھ اس کتاب میں ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ قرآن مجیدمحض معاشیات کی کتاب بھی نہیں ہے۔ اگرچہ اس میں معیشت اور معاشی زندگی کے احکام بھی ہیں اور انسانوں کی تجارتی سرگرمیوں اور اقتصادی بہتری کی ہدایات بھی ہیں لیکن اور بھی بہت کچھ ہے۔ اسی طرح قرآن مجید محض فلسفہ کی کتاب بھی نہیں ہے‘ گو اس میں فلسفیانہ نوعیت کی بہت سی ہدایات بھی ہیں لیکن اس میں فلسفہ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
قرآن مجید میں چونکہ انسانی زندگی کے ہر اس پہلوسے متعلق ہدایت موجود ہے جہاں انسانی عقل‘ تجربہ اور مشاہدہ ناکام ہو جاتے ہوں یا جہاں ان کے ناکام ہونے کاقوی احتمال ہو اور جہاں انسان رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہو‘ اس لیے زندگی کا کوئی اہم گوشہ ایسا نہیں ہے جس میں انسان کو رہنمائی اور ہدایت کی ضرورت ہو اور قرآن مجید اس میں رہنمائی نہ دیتا ہو۔ اس لیے جب بھی کوئی انسان‘ چاہے وہ ایک فرد ہو‘ یا پوری جماعت یا معاشرہ ہو‘ جب دین کی نشرواشاعت کے لیے اور اس کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرے گا تو اس کو طرح طرح کے مدارج و مراحل سے واسطہ پڑے گا۔ بعض اوقات مخالفین کی طرف سے اعتراضات کیے جائیں گے۔ بعض اوقات مشکلات اور آزمایشیں ہوں گی۔ بعض اوقات کامیابیاں ہوں گی۔ بعض اوقات ناکامیاں ہوں گی۔ کبھی قیدوبند کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کبھی طرح طرح کی آزمایشیں آئیں گی۔ اب چونکہ ان سب مراحل کو ایک ایک کر کے آنا ہے اس لیے ان میں سے ہرچیز کے بارے میں ایک رہنمائی اور ہدایت کا دستیاب ہونا بھی ضروری ہے ‘مثلاً یہ بات کہ اگر اقامت دین کی کوشش میں قیدوبند کا نشانہ بننا پڑے تو کیا کرنا چاہیے۔ قرآن مجیدنے اس سوال کے جواب میں جہاں اور بہت سی ہدایات دیں وہاں پوری سورہ یوسف پیش کر دی کہ تمھیں اس طرح کرنا چاہیے۔ اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ قرآن مجیدمیں حضور علیہ السلام کی زندگی کے قریب قریب سارے ہی اہم واقعات بیان کر دیے گئے ہیں۔ غزوئہ بدر کا بھی ذکر ملتا ہے اور غزوئہ اُحد کا بھی‘ غزوئہ احزاب کا تذکرہ بھی ہے اور فتح مکّہ کا بھی۔ تبوک کے طویل اور جاں گسل سفر پر تبصرہ بھی ہے اور ہوازن کے معرکے پر بھی۔ اس طرح کارِنبوت اور کارِ دعوت کے آغاز کا بیان بھی ہے‘ درمیانی مدارج کا بھی ذکر ہے اور انتہائی مدارج کا بھی۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی زندگیوں میں یہ ساری چیزیں ایک ایک کر کے آتی رہیں گی۔ جو مسلمان حضور علیہ السلام کی پیروی میںجدوجہد کریں گے وہ ہجرت بھی کریں گے‘ ان کو جہاد کرنے کی بھی نبوت آئے گی‘ کبھی انھیں جہاد میں کامیابی ہوگی اور کبھی ناکامی ہوگی۔ کبھی بہت بڑی قوت کا سامنا کرنا پڑے گا تو کبھی چھوٹی قوت سے معرکہ آرائی ہوگی‘ کبھی محاصرہ ہوگا‘ کبھی کھیتیاں اُجڑیں گی۔ غرض یہ کہ سارے مراحل آئیں گے‘ ان سارے مراحل میں یہ دیکھنا چاہیے کہ اہل ایمان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ اب یہاں تثبیت فواد یعنی دل کو مضبوط کرنے سے مراد یہ ہے کہ تمھارے دل کو تسلی رہے کہ یہ مشکل وقت تو آنا ہی تھا‘ پہلے سے معلوم تھا کہ فلاں فلاں مراحل آئیں گے۔
تقویت قلب : اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک بار معالج اپنے کسی مریض کو دوائوں کے استعمال کی تفصیل بتا کر علاج کا تین مہینے کاکورس کرائے اور اس کو پہلے سے بتا دے کہ ان دوائوں کے استعمال سے ایک مہینے کے بعد پھنسیاں نکلیں گی‘ پھر دانے نکلیں گے تو اس وقت یہ مرہم استعمال کرنا ہوگا۔ اس کے استعمال سے دانے ٹھیک ہو جائیں گے۔ دو مہینے کے بعد جب اس دوا کو لگائو گے تو اس سے آنکھوں میں سرخی آجائے گی۔اس موقع پر فلاں تدبیر اختیار کرنا پڑے گی۔ تین مہینے کے بعد غنودگی کا غلبہ ہوگا تو فلاں دوا لینا پڑے گی۔ اب جس مریض کو پہلے سے ان سارے مدارج و مشکلات کا علم ہوگا اس کو ان بیماریوں کے آنے سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی‘ اسے پتا ہوگا کہ یہ سارے مدارج ایک ایک کر کے آنے والے ہیں۔ بلکہ جیسے جیسے یہ نئے نئے عوارض آتے جائیں گے ڈاکٹر پر اس کا اعتماد بڑھتا چلا جائے گا‘ اور اس کو یقین ہوتا چلا جائے گا کہ ڈاکٹر نے جو کچھ بتایا تھا وہ بالکل ٹھیک بتایا تھا‘ اور دوا کے اثرات بالکل ٹھیک اور حسب توقع ہو رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ سب وہی مرحلے آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی مریض کو پیشگی ہی ان سب مدارج سے باخبر نہ کیا جائے تو وہ ان کے آنے سے گھبرا کر ہمت چھوڑ بیٹھے گا۔ وہ پہلے ہی مرحلے میں دانے نکلنے سے گھبرا جائے گا اور پریشان ہو کر علاج چھوڑ دے گا۔ حکیم مطلق نے بالکل اسی طرح جس طرح ایک حکیم ایک مریض کے لیے نسخہ لکھتا ہے کہ دیکھو یہ چیزیںپیش آئیں گی اور اس کا یہ یہ علاج ہوگا‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں وہ سارے مدارج پہلے ہی بتا دیے ہیں‘ تاکہ تمھارے دل کو تقویت ہو‘ اور تم مضبوطی کے ساتھ اس یقین سے اس پرقائم رہو کہ یہ سب کچھ تو آنا ہی ہے۔ یہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ آئے گا۔
قرآن مجید میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ صحابہ کرامؓ کو جب طرح طرح کی آزمایشیں پیش آئیں تو مخالفین اور منافقین نے یہ کہا ’’ہم نہ کہتے تھے مت جائو ان کے ساتھ‘‘۔ مثلاً غزوہ اُحد میں بڑی آزمایش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس غزوہ میں ۷۰ صحابہؓ شہید ہو گئے‘ حضرت حمزہؓ کی شہادت کا صدمہ خود حضور علیہ السلام کو دیکھنا پڑا۔ لیکن جب صحابہ کرامؓ اس کیفیت میں مدینہ منورہ واپس آئے تو منافقین نے استہزا اور تمسخر سے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ بولے: ہم نہ کہتے تھے کہ جنگ نہیں کرنی چاہیے‘ ورنہ یہ ہو جائے گا اور وہ ہو جائے گا۔ اس پر قرآن مجیدکی شہادت ہے کہ صحابہ کرامؓ آزردہ خاطر ہونے کے بجائے مزید پختہ عزم ہو گئے اور ان کا ایمان مزید راسخ ہوگیا۔ اسی طرح جب غزوئہ احزاب کے موقع پر منافقین نے مشکلات کا ذکر کر کے ہمت شکنی کرنی چاہی تو صحابہ کرامؓ نے جو جواب دیا وہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ اس کو قرآن مجیدمیں نقل فرما دیا۔
صحابہ کرامؓ کا جواب تھا کہ یہ تو پہلے سے ہمیں معلوم تھا‘ اللہ اور رسول نے پہلے سے بتا رکھا تھا کہ ایسا ہوگا‘ اور اللہ اور رسول کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوا کرتا۔ صحابہ کرامؓ کی تربیت ہی اس طرح کی ہوگئی تھی کہ جب بھی کوئی ایسی آزمایش سامنے آتی تھی تو بے اختیار کہہ اٹھتے تھے کہ یہ تو وہی بات ہے جو پہلے سے اللہ تعالیٰ نے بتا رکھی تھی۔ اس طرح ہر آزمایش ان کے یقین و ایمان میں اضافے اور قلب کی پختگی کا سبب بنتی تھی۔ تثبیت قلب یا دل کی مضبوطی کی خاطر حضور علیہ السلام کی زندگی کے مختلف مرحلوں کو قرآن مجیدمیں جابجا بیان کر دیا گیاہے۔ اگر قرآن مجید ایک ہی وقت میں نازل ہو جاتا تو یہ بات ممکن نہیں تھی۔ ایسا نہ ہوتا تو مسلمانوں کو کیسے پتا چلتا کہ بدر سے متعلق آیات و احکام کو آگے چل کر کس طرح بدر اور بدر سے ملتے جلتے واقعات پرمنطبق کریں۔ یہ تو اس وقت ممکن تھا کہ جب ان آیات کو بدر کے واقعات ہی کے سیاق و سباق میں اتارا جاتا۔
پانچواں بڑا سبب قرآن مجید کو نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کا جو اِن آیات میں بتایا گیا ہے وہ یہ ہے: وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلاًo (الفرقان ۲۵:۳۲)‘ یعنی اور ہم نے آہستہ آہستہ اس کو تم پر تلاوت کیا ہے‘ ترتیل کے ساتھ تم تک پہنچایا ہے۔ ترتیل کہتے ہیں کسی گفتگو کو ٹھہر ٹھہرکے‘ آہستہ آہستہ ‘ بار بار اس طرح کہنا کہ دوسرا آدمی اچھی طرح سمجھ لے اور اس کو یاد کر لے‘ اس عمل کو عربی میں ترتیل کہتے ہیں۔ قرآن مجیدپڑھنے کے لیے خود قرآن مجید میں ترتیل کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں حکم یہ دینا مقصود ہے کہ اس کتاب کو بہت آہستہ آہستہ‘ غوروفکر کے ساتھ‘ ٹھہر ٹھہر کر دوسروں تک پہنچایا جائے اور خود بھی اس کا مطالعہ کیا جائے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت میں یہ بات طے کر دی کہ اس کتاب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باقی رہنا ہے‘ اور جب تک مسلمان روے زمین پر موجود ہیں یہ کتاب بھی باقی رہے گی تو اس کی بقا اور تحفظ کے لیے وہ تمام تدبیریں اور جملہ طریقے اختیار کیے گئے جو کسی انسان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آسکتے تھے۔
یہ بالکل منفرد اور اَن ہونے طریقے تھے۔ ایسے طریقے نہ قرآن مجید سے پہلے کسی کتاب کی حفاظت کے لیے استعمال ہوئے اور نہ اس کے بعد کسی کتاب کے تحفظ کے لیے استعمال ہوئے۔ انسانیت کی تاریخ میں آج تک کوئی کتاب اس طرح محفوظ نہیں کی گئی ہے کہ اس کو انسانوں کے دلوں میں‘ دماغوں میں اور روحوں میں اس طرح اتار دیا جائے کہ وہ ان سب کا حصہ بن جائے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی‘ نہ کسی کتاب کی‘ نہ کتابچے کی ‘ اور نہ کسی رسالے کی کہ اس کوکروڑوں انسانوں نے زبانی یاد کر کے محفوظ کر لیا ہو اور نسلوں کی نسلوں نے اسے اپنے سینوں اور دلوں میں اتار لیا ہو۔پھر ہر نسل نے اگلی نسل کے کروڑوں آدمیوں تک پہنچا دیا ہو۔ یہ سارا عمل اسی وقت ممکن ہوسکتا تھا جب صحابہ کرامؓ کو یہ قرآن تھوڑا تھوڑاپہنچایا جاتا اور تھوڑا تھوڑا یاد کرایا جاتا۔ آپ کسی کو قرآن مجید حفظ کرانا چاہیں تو اس کی شکل یہ نہیں ہوتی کہ پوری کتاب اٹھا کے دے دیں کہ اس کو جا کے یاد کر لے۔ اس طرح یک بارگی کوئی یاد نہیں کر سکتا۔ اس کی سب سے آسان اور عملی شکل یہی ہوتی ہے کہ پہلے ایک آیت یاد کراتے ہیں۔ پھر دوسری آیت‘ پھر تیسری آیت۔ ہوتے ہوتے چندسال کی مدت میں پورا قرآن مجید حفظ ہو جاتا ہے۔
قرآن مجیدکو نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے ۲۳ سال کے عرصے میں نازل کرنے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ صحابہ کرامؓ کو قرآن مجیدکو یاد کرنے اور حفظ کر کے اس کو سینوں میں محفوظ کر لینے کا موقع مل جائے۔ چنانچہ صحابہ کرام ؓ آہستہ آہستہ اس کو یاد کرتے چلے گئے اور جونہی قرآن مجید کا نزول مکمل ہوا‘ صحابہ کرامؓ میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے تھے جن کو پورا قرآن مجیدزبانی یاد تھا۔ ان سے کہیں زیادہ تعداد میں وہ تھے جن کو قرآن مجیدکے متفرق حصے زبانی یاد تھے۔ صحابہ کرامؓ کے حفظ کرنے کی وہ کیفیت نہیں تھی جو آج ہمارے کرنے کی ہے کہ محض الفاظ رٹ لیے گئے ‘ اور جب دہرانے کا موقع آیا تو بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی اندرونی تاثر کے اسے دہرا دیا۔ صحابہ کرامؓ کے ہاں کیفیت ہی اور تھی۔ حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے صرف سورہ بقرہ کا مطالعہ کرنے میں ۱۰ سال کا عرصہ لگا۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ: تعلمنا الایمان ثم تعلمنا العلم‘ کہ پہلے ہم نے یہ سیکھا کہ ایمان کسے کہتے ہیں‘ اس کے بعد ہم نے علم حاصل کیا۔ یعنی پہلے علم کی بنیاد یعنی ایمان کو ہم نے پختگی کے ساتھ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد اس بنیاد کے اوپرہم نے قرآن مجید کے علم کی عمارت استوار کی۔ گویا علم اور ایمان صحابہ کرام ؓ کے نزدیک ایک دوسرے کے لیے تکمیل کنندہ کا درجہ رکھتے تھے‘ اور یہ دونوں چیزیں صحابہ کرامؓ کے ہاں ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ علم کے بغیر ایمان کی بنیاد کمزور رہتی ہے اور ایمان کے بغیر علم خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
بہرحال ۲۳ سال کے طویل عرصے میں صحابہ کرامؓ کی پوری نسل ایسی تیار ہو گئی جو قرآن مجید کے الفاظ کی بھی حافظ اور محافظ تھی‘ اس کے معنی کی بھی نگہبان تھی‘ اور اس کے مفاہیم پر بھی عمل پیرا تھی‘ ان کے دلوں میں‘ ان کے سینوں میں‘ ان کے دماغوں میں اور ان کی روحوں میں قرآن مجید کا متن‘ اس کا پیغام‘ اور اس کی روح سب رَچ بس چکے تھے۔ یہ سب تبھی ممکن تھا جب قرآن مجیدنجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جائے۔ یہ قرآن مجیدکے تھوڑا تھوڑا نازل کیے جانے کا پانچواں سبب ہے۔
چھٹا اہم سبب قرآن مجیدکے تھوڑا تھوڑانازل کیے جانے کا ایک اور بھی ہے‘ جس کا اشارہ خود قرآن مجید میں ملتا ہے‘ اور کچھ احادیث اور روایات سے بھی اس کی تائیدہوتی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی (جس کی تفصیلات سے ہر پڑھا لکھا مسلمان کسی حدتک واقف ہوتا ہے) تو یہ ایک نہایت غیر معمولی تجربہ تھا جس کے اثرات حضور علیہ السلام کے طبع مبارک پر بھی نمایاں طور پر محسوس ہوئے۔ یہاں تک کہ آپؐ بہت ہی گھبراہٹ اور لرزے کے عالم میں اپنے درِ اقدس تشریف لے گئے اور خاصی دیر آرام فرمانے کے بعد آپؐ کے جسم مبارک کا لرزہ ختم ہوا اور طبیعت بحال ہوئی۔ پہلی وحی کی ان تفصیلات سے کسی حد تک اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ تلقی وحی ایک نہایت غیر معمولی تجربہ ہوتا تھا جس کے واضح اثرات سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر بھی نمایاںطور پر محسوس ہوتے تھے۔ اس پہلے واقعے کے کچھ روز بعد جو وحی حضور علیہ السلام پر ابتدائی دنوں میں ہی نازل ہوئی اس میں ایک آیت ہماری اس گفتگو کے سیاق وسباق میں بڑی اہم ہے: اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاًo (المزمل ۷۳:۵) ’’ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں‘‘۔ یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ بھاری کلام کا کیا مطلب ہے؟ اور قول ثقیل سے کیا مراد ہے؟ ایک مطلب بھاری کلام کا یہ ہو سکتا ہے کہ اپنے معانی اور مفاہیم کے اعتبار سے یہ ایک بہت بھرپور اور وزنی کلام ہے۔ یقینا اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے اور اس مفہوم کے اعتبار سے قرآن مجید کے قول ثقیل ہونے میں کوئی شک نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود قرآن مجید ہی سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس کا تحمل کرنا‘ اس کی تلقی کرنا (وصول کرنا) اور اس کی وصول یابی اتنا غیر معمولی تجربہ ہے کہ اس کو یک بارگی حاصل کر لینا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے‘ کوئی انسان‘ چاہے وہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں یہ بشری استطاعت نہیں رکھتا کہ قرآن کی تلقی‘ پورے کے پورے قرآن کی یک بارگی کر سکتا۔
قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اس کلام کو کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ خوف اور خشیت الٰہی کی کیفیت میں ریزہ ریزہ ہو جاتا (الحشر ۵۹:۲۱)۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آتا ہو کہ یہ ایک بات کہنے کا محض شاعرانہ انداز یا مبالغہ آمیز بیان ہے۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مبالغہ آمیزشاعرانہ انداز بیان نہیں ہوا کرتا۔ اللہ تعالیٰ کو شاعری کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے‘ نہ وہ شاعرانہ مبالغہ آرائی کا محتاج ہے۔ اس کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ غیر حقیقی انداز اختیار کرے۔ اس کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ وہ عام کمزور اور محدود انسانوں کی سطح کی شاعری کی ضرورت محسوس کرے۔ یہ بالکل حقیقی اور واقعی طور پر اس نے فرمایا کہ اگر واقعی قرآن مجیدکسی پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید میں ہمارے سامنے ہے کہ جب انھوں نے ایک مرتبہ براہِ راست تجلی الٰہی کی التجا کی تو کیا منظرنامہ پیش آیا۔ اس وقت جو منظر ہوا اور جو کیفیت ہوئی وہ قرآن مجیدپڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے۔ اس لیے یہ بات بالکل قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مجید کا بہ یک وقت نازل کیا جانا اتنا غیر معمولی تجربہ ہوتا اور اتنی عظیم الشان کیفیت ہوتی کہ اس کا تحمل کر لینا اور اس کی تلقی کر لینا شاید اس دنیا میں کسی انسان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے حضور علیہ السلام پر وحی کا نزول ایک طویل عرصے تک جاری رہا‘ اور جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ۲۴ ہزار مرتبہ کر کے وحی الٰہی کی تکمیل آپؐ کی ذات گرامی پر ہوئی۔
کیفیت نزول وحی: حضور علیہ السلام پر جب وحی نازل ہوتی تو کیا کیفیت ہوتی تھی۔ اس کا اگرچہ کچھ اندازہ ہو تو اس سے بھی اس سوال کا جواب کسی حد تک مل سکتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ نزول وحی کی اصل کیفیت اور اس تجربے کی حقیقی نوعیت کا اندازہ کوئی شخص کر ہی نہیں سکتا۔ حضور علیہ السلام نے خود کبھی اس کو بیان نہیں فرمایا۔ اور وحی کوئی ایسی چیز ہے نہیں کہ اس کو انسانی الفاظ میں بیان کیا جا سکے‘ کیونکہ وہ تو ایک ایسا منفرد تجربہ ہے جو تمام انسانی تجربات سے بالکل ماورا ہے--- اتنا ماورا کہ اس کے لیے انسانوں کی زبانوں میں الفاظ بھی نہیں ہیں۔ انسانی زبانوں میں کوئی ایسا اسلوب بیان بھی موجود نہیں ہے جس کو اختیار کرکے اس تجربے کو بیان کیا جا سکے۔ لیکن صحابہ کرامؓ میں سے کچھ حضرات کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ باہر سے اس کیفیت کو دیکھیں جو نزول وحی کے وقت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر جسمانی طور پر وارد ہوتی تھی۔
جب حضور علیہ السلام پر وحی نازل ہوتی تھی تو جو قریبی صحابہؓ وہاں موجود ہوتے تھے اور اس منظر کا مشاہدہ کرتے تھے انھوں نے اپنے بعض مشاہدات بیان کیے ہیں‘ جن کی نوعیت ظاہر ہے کہ حقیقی اور واقعی نہیں ہے بلکہ ان خارجی مشاہدات کی حیثیت بڑی حد تک محض ظاہری‘ خارجی بلکہ لغوی معنوں میں خالص سطحی نوعیت کی ہے۔ جس طرح سطح سمندر کا مشاہدہ کرنے والا سمندرکی گہرائیوں میں موجود تلاطم خیز طوفانوں اور موجود دنیائوں کی گہرائیوں اور گیرائیوں کا سرے سے کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا‘ اسی طرح نزول وحی کی کیفیت کو باہر سے دیکھنے والا سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اس کے ابعاد کس قدر وسیع‘ عمیق اور ہمہ گیر ہیں‘ تاہم صحابہ کرامؓ کے ان مشاہدات سے یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ نزول وحی کا تجربہ جسمانی مفہوم میں بھی کتنا مشکل‘ کتنا سخت اور کتنا غیر معمولی تھا۔ ان واقعات سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر ایک آیت یا ایک ٹکڑے کے نزول میں یہ کیفیت ہوتی تھی تو اگر کہیں پورا قرآن مجید یا اس کا بیش تر حصہ یک بارگی نازل ہو جاتا تو کیا ہوتا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا یہ اندازہ بھی بہت ہی نامکمل اور سطحی نوعیت کا ہے۔ اس طرح کا اندازہ ہم صرف ایک حد تک ہی کر سکتے ہیں‘ ممکن ہے بلکہ یقینی ہے کہ ہمارا یہ اندازہ بھی نامکمل ہی ہو۔
حضرت عائشہؓ کا مشاہدہ: اس ضمن میں صرف دو واقعات کی طرف اشارہ کرناکافی ہوگا۔ یہ واقعات جو مختلف صحابہ کرامؓ نے بیان کیے ہیں ان میں نزول وحی کے تجربے کا محض ظاہری اور جسمانی پہلو بیان کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ وہی پہلو صحابہ کرامؓ کے مشاہدے اور تجربے میں آ سکتا تھا۔ ان دونوں واقعات کو بیان کرنے سے قبل ذرا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی اس مشہور روایت پر بھی نظر ڈال لینا مفید ہوگا جس سے امام بخاری نے اپنی کتاب کا گویا آغاز کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ صحیح بخاری قرآن مجید کے بعد مسلمانوں کے نزدیک سب سے مستند کتاب ہے۔ مسلمان اس کو اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ مانتے ہیں۔ اس کتاب کا پہلا باب ہی اس بحث سے شروع ہوتا ہے جس کا عنوان ہے: باب کیف کان بدء الوحی علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ یعنی باب اس امر کے بیان میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آغاز کیسے ہوا۔ یہیں سے صحیح بخاری شروع ہوتی ہے۔ اس باب میں جو تفصیلی روایت ہے وہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب حضور علیہ السلام پر وحی نازل ہوتی تھی تو وہ لمحہ اتنا مشکل اور اتنا سخت ہوتا تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ حضورعلیہ السلام پر کوئی بڑی ہی غیر معمولی کیفیت طاری ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ مدینہ منورہ کی سرد راتوں میں آپؐ پر وحی نازل ہوتی--- اور سب جانتے ہیں کہ مدینہ منورہ کی راتیں کافی سرد ہوتی ہیں‘ اور اس زمانے میں گھر گرم رکھنے (ہیٹنگ) کا کوئی نظام مدینہ میں نہیں تھا‘ نہ وہاں گھریلو حمام عام تھے اور نہ کسی قسم کے ہیٹر وہاں ہوتے تھے بلکہ سرے سے مدینہ منورہ میں مکان گرم کر کے رکھنے کا رواج ہی نہیں تھا--- ان سرد اور یخ راتوں کے بارے میں حضرت عائشہؓبیان کرتی ہیں کہ میں نے بارہا دیکھا کہ حضور علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی اور پیشانی مبارک سے پسینہ ایسے بہنے لگا جیسے کوئی فصد کھول دی گئی ہو اور اس سے خون بہتا ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جو تجربہ تھا وہ جسمانی طور پر بھی اتنا تھکا دینے والا اور اتنا غیر معمولی ہوتا تھا کہ باہر سے دیکھنے والوں تک کو اندازہ ہو جاتا تھا کہ کیا کیفیت گزر رہی ہے۔
فتح مکّہ کے موقع پر: جن دو واقعات کا یہاں تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے ان میں سے ایک تو اس دن کا واقعہ ہے جس دن مکہ مکرمہ فتح ہوا۔ اس دن حضور علیہ السلام اپنی اونٹنی پر سوار (انجیل کی زبان میں) ۱۰ہزار قدوسیوں کے جلو میں مکہ شہر میں داخل ہو رہے تھے۔ حضور علیہ السلام کی وہ اونٹنی قصوا عرب میں بہت ہی طاقت ور اونٹنی مانی جاتی تھی‘ جب بھی کوئی مقابلہ ہوتا تو وہ دوڑ میں سب سے آگے نکلتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسے خاص اہتمام کے ساتھ ہجرت کے سفر کے لیے خریدا تھا اور کئی مہینوں میں اس کو خاص خوراک کھلا پلا کر تیار کیا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اسی تاریخی اونٹنی قصوا پر سوار تھے‘ اور فاتحانہ مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے۔ ایک اونٹ جتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے اور جو اس کی قوت برداشت ہوتی ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں مکہ شہر بلند و بالا پہاڑیوں میں گھرا ہوا تھا اور آج بھی گھرا ہوا ہے۔ مکہ میں فوجوں کے داخلے کے لیے حضور علیہ السلام نے صحابہ کرامؓ کے چار پانچ دستے بنا دیے تھے‘ اور ہر دستے کو ہدایت تھی کہ مختلف راستے سے شہر میں داخل ہو۔ ایک راستہ وہ تھا جس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے دستے یعنی قلب لشکرکو داخل ہونا تھا۔ آپؐ کے ساتھ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت تھی جو پیچھے پیچھے آرہی تھی۔
حضورؐ آگے آگے اپنی اونٹنی پر سوار تشریف لے جا رہے تھے۔ اچانک لوگوں نے دیکھا کہ وہ اونٹنی رک گئی اور یک بہ یک کھڑی ہو گئی۔ پورا لشکر جو پیچھے آ رہا تھا وہ بھی رک گیا۔ لوگ خیرخبر معلوم کرنے کے لیے اتر کر آگے آئے تو دیکھا کہ اونٹنی کے پائوں لرز رہے ہیں اور اس سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا۔ ادب سے اوپر نظریں اٹھا کر دیکھا تو آپؐ پر وہ کیفیت طاری تھی جو نزول وحی کے وقت ہوا کرتی تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ اونٹنی کی ٹانگیں ایسی محسوس ہو رہی ہیں جیسے کسی کمزور سی چیز پر یک بہ یک بہت سارا بوجھ لاد دیا گیا اور وہ ٹوٹنے لگے۔ ایسا لگا جیسے ابھی اونٹنی کی ٹانگیں چٹخ جائیں گی۔ اس ساری کیفیت کو اونٹنی برداشت نہیںکر سکی اور بیٹھ گئی۔ لیکن بیٹھنے کے کوئی ایک آدھ ہی لمحے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کیفیت بھی ختم ہو گئی‘ اونٹنی بھی پہلے کی طرح کھڑی ہو گئی اور چلنے لگی۔ حضور علیہ السلام نے جو صحابہ کرامؓ قریب تھے ان سے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت نازل ہوئی ہے: وَقُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا‘ باطل تو مٹنے ہی والا ہے ‘‘۔ کہنے کو یہ دو جملوں کی چھوٹی سی آیت ہے لیکن اس موقع پر جو کیفیت دیکھنے والوں نے دیکھی وہ بیان کی جا چکی۔ لیکن خود حضورعلیہ السلام پر کیا گزری وہ ظاہر ہے کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور نہ اس کا کسی کو کوئی اندازہ ہو سکتا ہے۔
حضرت زیدؓ بن ثابت کا تجربہ: دوسرا واقعہ ایک صحابی کا ہے جن پر اتفاق سے خود گزری ہے اور انھوں نے اپنی گزری خود بیان کی ہے۔ ان کے بیان سے مزید اندازہ ہوتا ہے کہ نزول وحی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا گزرتی ہوگی۔یہ واقعہ حضرت زید ؓبن ثابت کا ہے جو مشہور صحابی ہیں اور حضور علیہ السلام کے معاون خصوصی رہے ہیں۔ حضور علیہ السلام کی بیش تر خط و کتابت حضرت زیدؓ بن ثابت ہی کیا کرتے تھے۔ کاتبان وحی میں بھی سب سے نمایاں درجہ ان ہی کا ہے۔ یہ واقعہ ہجرت کے دو ایک سال بعد کا ہے۔ ان دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مشہور اور تاریخ ساز دستور میثاق مدینہ مرتب فرما رہے تھے۔ اس ضمن میں مختلف قبائل کے نمایندوں سے گفت و شنید کا سلسلہ جاری تھا۔ حضرت زیدؓ بن ثابت بطور سیکرٹری ہر اجتماع میں حاضر رہتے تھے۔ انھوں نے خود یہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ ہم ایسی ہی ایک مجلس میں جمع تھے جس میں سب لوگ چار زانو ہو کر قریب قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ غالباً جگہ کی تنگی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے کا کنارا حضرت زیدؓ بن ثابت کے گھٹنے کے اوپر آیا ہوا تھا۔ (عام طور پر فرش پر جب قریب قریب بیٹھتے ہیں تو ایسا ہو جاتا ہے)۔ حضرت زیدؓ بن ثابت کہتے ہیں کہ یک بہ یک مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرے گھٹنے پرکسی نے پہاڑ اٹھا کر رکھ دیا ہو۔ اس پر انھوں نے اچانک جو متوجہ ہو کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کیفیت تھی جو وحی کے نزول کے وقت ہوا کرتی تھی۔ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ ایک دم سے میرے گھٹنے پر اتنا بوجھ آگیا کہ مجھے ایسا لگا کہ میرا گھٹنا چورا چورا ہو کر ہڈی ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ میں نے اپنا گھٹنا حضور علیہ السلام کے گھٹنے کے نیچے سے نکالنا چاہا تو بوجھ کی وجہ سے نکال نہ سکا‘ مگر بس ایک ہی لمحے میں یہ کیفیت ختم ہو گئی اور حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن مجید میں سورہ نساء کی آیت ۹۵ یعنی لاَ یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ … وَالْمُجٰھِدْوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ … میں المومنین کے بعد غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ کا اضافہ کر دو۔
ان دو مثالوں سے واضح طور پر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ نزول قرآن مجید کا عمل ظاہری اعتبار سے بھی کتنا بھاری اور کتنا ثقیل ہوتا تھا۔ اس ثقل اور شدت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ قرآن مجید کو یک بارگی نازل کرنے کے بجائے نجماً نجماً یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جائے۔
بعض حضرات نے اس باب میں تامل کیا ہے کہ تورات‘ انجیل اور دوسری آسمانی کتابیں یک بارگی نازل کی گئی تھیں۔ انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح قرآن مجید تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا اسی طرح تورات اور انجیل بھی تھوڑی تھوڑی کر کے ہی نازل کی گئیں۔ لیکن قرآن مجیدکی متعلقہ آیات پر سرسری طور پر غور کرنے سے ہی اس رائے کی کمزوری ظاہر ہو جاتی ہے۔ سورہ اعراف (۷: ۱۵۰-۱۵۴) میں جہاں نزول تورات کا ذکر ہے وہاں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ تورات ایک دو نہیں بلکہ بہت سی تختیوں پر لکھی ہوئی حضرت موسٰی علیہ السلام کو عطا ہوئی تھی۔ ہدایت اور رحمت پر مبنی یہ نسخہ کیمیا ان تختیوں پر لکھا ہوا تھا جو حضرت موسٰی علیہ السلام طور سینا سے لے کر آئے تھے۔ بعض اہل علم نے اس امکان کا اظہار بھی کیا ہے کہ طور سینا پر حضرت موسٰی علیہ السلام کو پوری تورات کے بجائے صرف احکام عشرہ عطا فرمائے گئے تھے۔ اس ضمن میں یہ اہل علم موجودہ تورات کے رائج الوقت تراجم میں موجود اسلوب بیان سے استدلال کرتے ہیں۔ اگر یہ استدلال تھوڑی دیر کے لیے بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ احکام عشرہ پر مبنی بہت سی الواح کے بجائے کوئی چھوٹی سی لوح ہی حضرت موسٰی علیہ السلام کو دی گئی ہوگی۔ اس لیے کہ احکام عشرہ چند سطروں سے زائد نہیں ہیں اور ان کو لکھنے کے لیے ایک چھوٹی سی تختی ہی کافی ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور پر نہ صرف الواح (بصیغہ جمع) کا ذکر ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تختیاں محض احکام عشرہ پر مبنی نہیں تھیں بلکہ ان میں وہ پوری ہدایت الٰہی اور رحمت خداوندی موجود تھی جو تورات کا طرہ امتیاز تھی (وَفِیْ نُسْخَتِھَا ھُدًی وَّرَحْمَۃٌ)۔
مزیدبرآں یہود یثرب کے اشارے پر کفار مکہ کا قرآن مجید کے یک بارگی نازل نہ کیے جانے پر اعتراض سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہودی وحی الٰہی کے نجماً نجماً نازل کیے جانے والے اسلوب سے مانوس نہ تھے۔ ان کے لیے مانوس اور مالوف اسلوب کتاب الٰہی کو یک بارگی نازل کیے جانے ہی کا تھا۔ ورنہ وہ یہ اعتراض کبھی نہ کرتے۔
خلاصہ کلام یہ کہ قرآن مجید دوسری آسمانی کتابوں کے برعکس تھوڑا تھوڑا نازل کرنے میں وہ حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ تھیں جن میں سے بعض کا اوپر تذکرہ کیا گیا۔