ایک نہر ہے جو تیزی سے بہہ رہی ہے اور قرب و جوار کی بستیوں میں تباہی مچا رہی ہے۔ اہل بستی کو یقین ہو گیا کہ اگر بہائو کا یہی حال رہا تو سب ہی غرق ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اہل بستی کے تین گروہ ہوگئے۔
ایک گروہ نے اپنی تمام قوت اور اسباب اس کو روکنے اور بہائو کے آڑے آنے پر صرف کر دیے مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ وجہ یہ تھی کہ پانی کو ایک جگہ سے روکا جاتا تو دوسری طرف سے بہہ نکلتا اور دبائو کے باعث مزید تباہی پھیل رہی تھی۔
دوسرا گروہ اس بات پر مصر تھا کہ اس کا سرچشمہ تلاش کیا جائے تاکہ اسے بند کرنے سے اس نہر کا زور کم ہو اور نقصان سے محفوظ رہا جا سکے۔ سرچشمہ مل تو گیا مگر ایک سوت بند کیا جاتا تو دوسرے سوت سے پانی خارج ہونے لگتا۔ چشمے کے ابلنے میں کوئی کمی نہ آ رہی تھی اور تمام سوتوں کا بند کرنا ناممکن نظر آرہا تھا۔ اس گروہ کے اس اقدام سے بھی بستی والوں کے مکانات نہ بچ سکے اور نہ کھیتیاں پروان چڑھ سکیں۔
تیسرا گروہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ پہلے دونوں گروہوں کے طریقہ کار سے تو مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا‘ اس لیے اس گروہ نے نہ تو پانی روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی سوت بند کرنے کا تہیہ کیا بلکہ انھوں نے اپنی تمام تر کوششیں اس پر صرف کیں کہ پانی کے اس بہائو کو حسب منشا صحیح راہ پر لگا دیا جائے۔ اور اس کوشش کو
اس طرح شروع کیا کہ نہر کا رخ بنجر زمینوں‘ قابل زراعت کھیتوں کی جانب کیا اور جگہ جگہ ضرورت کے لے پانی کے تالاب بنائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گھاس سے تمام زمین سبزہ زار ہو گئی اور اُس کے ثمرات سے تمام اہل بستی مالامال ہو گئے۔
بلاشبہ تیسرا گروہ کامیاب رہا‘ جب کہ پہلے اور دوسرے گروہ نے وقت ضائع کرنے اور بے نتیجہ محنت کرنے کے سوا کچھ حاصل نہ کیا۔
ہمارا یہ احساس ہے کہ نہر کے بہائو میں دو عناصرہوتے ہیں۔ ایک تو پانی اور دوسرے اس کے ساتھ چلنے والی مٹی۔ بس یہی عناصر حضرت انسان میں بھی ہیں۔ اس تمثیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہماری خواہش ہے کہ قومی زندگی کے اس مرحلے پر تیسرے گروہ کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ناقابل تسخیر اور موثر شخصیت کی آگاہی حاصل کریں تاکہ دین اور دنیا کے تقاضے پورے کر سکیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس معاملے میں صرف مطالعے ہی سے کام نہیں لیا جائے گا بلکہ اپنی شخصیت کے ارتقا اور کامیابی کے لیے تحریری طور پر بھی منصوبہ بندی کر کے اور لائحہ عمل بنا کر کام کیا جائے گا۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے لیے وقت نکال لیتے ہیں‘ دوستوں اور رشتہ داروں سے مل لیتے ہیں مگر نہیں ملتے تو صرف ایک ذات سے‘ اور وہ ہے اپنی ذات۔ ہمیں منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کے نقطہ نظر سے اپنی ذات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
۱- ٹھوس نظریہ حیات: آپ جس نظریۂ حیات کے حامل ہیں اس کی بنیادوں اور بنیادی فلسفہ اور اعتقاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔یہ اعتقاد ٹھوس ہو محض توجیہات پر مشتمل نہ ہو۔ اس نظریۂ حیات کے باعث آپ میں مقصد حیات کا سچا شعور پیدا ہو گیا ہو اور اس کی علامتیں ظاہر و باطن‘ دونوں میں اُبھر رہی ہوں۔ لوگ آپ کو نرم چارہ نہ پائیں بلکہ آپ کو ہوشیار‘ بیدار مغز‘ اور اصول پرست ہونا چاہیے۔ ہم مسلمان ہیں‘ حق و باطل کے ساتھ بیک وقت رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ سیرت کی ان تمام کمزوریوں کا احساس کیجیے جو آپ کی ذات میں باطل کو گھسنے کا موقع دیتی ہیں۔ اپنی حیثیت کا جائزہ لیجیے اور اتنے مستحکم ہو جایئے کہ: لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول۔
۲- اصولوں کا علم اور ان پر عمل: آپ کو اپنے نظریہ حیات کا علم ہو۔ جو علم آپ نے حاصل کیا ہے اور جس تعلیم میں پیش رفت کی ہے اس کے اصولوں کا ادراک ہو‘ احساس ہو اور اس کے ساتھ ان پر عمل بھی ہو۔اصول‘ گفتگو اور بحث اپنی ذات کونمایاں کرنے کے لیے نہ ہوں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوں‘ تب ہی آپ کامیاب ہوں گے۔ سچائی اور ایمان داری‘ ہر نظریہ حیات اور مذہب کے بنیادی اصول ہیں۔ آپ لوگوں کو ان کی تعلیم دیں مگر اپنے معاملات میں اس پر عمل نہ کریں تودرحقیقت خسارے کا سودا کریں گے۔ جیسے جب جھوٹ کی گنجایش ہو تو بول دیں‘ ڈنڈی لگا کر‘ کاموں کو مؤخر کر کے‘ ٹیکس اور کسٹم میں مروجہ طریقہ کے مطابق مالی مفادات حاصل کر کے کام کر لیا جائے تو آپ فوری طور پر تو فائدہ اٹھا لیں گے بلکہ اپنے لیے مکان بھی بنا لیں گے مگر سکون حاصل نہیں ہوگا‘ اور آپ کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس قسم کے مفادات کے حصول کے وقت ممکن ہے پانچ سو یا ہزار گز کا پلاٹ پیش نظر ہو‘ مگر عمر جوں جوں آگے بڑھتی ہے اور انسان ۲x۶ فٹ کے فلیٹ کے قریب پہنچتا ہے‘ تو اس وقت اسے ندامت ہوتی ہے۔
۳- اخلاص نیت اور اخلاص عمل: منہاج القاصدین میں علامہ ابن جوزیؒ نے بیان کیا ہے کہ ارباب بصیرت کو انوارالقرآن سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ سعادت تک پہنچنے کے لیے علم اور عبادت نہایت ضروری ہے۔ دنیا میں سب لوگ ہلاک ہو رہے ہیں مگر علم والے‘ اور سب علم والے ہلاک ہوں گے سوائے عاملین کے‘ اور سب عمل والے ہلاک ہوں گے سوائے مخلصین کے‘ اور مخلص بھی عظیم خطرے میں ہے۔
ہمارے ہاں اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ اخلاص نیت کے اپنے اجر ہیں۔ نیت کے مطابق شعور کے ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ بعض اوقات انسان کو عمل کی فرصت نہیں ملتی مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی نیت کا اجر مل جاتا ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی نیت کا احتساب کریں۔ اس کا جائزہ لیتے رہیں اور اس میں اخلاص پیدا کرتے رہیں۔
۴- احساس ذمہ داری: اس دنیا میں ہم سب لوگ ذمہ دار ہیں۔ ہر فرد کسی نہ کسی انداز میں راعی ہے۔ گھر‘ خاندان‘ دفتر‘ کاروبار اور معاملات اور تنظیم کے حوالے سے ہمیں اپنی متعلقہ رعایا کا احساس کرنا ضروری ہے۔ پورے شعور کے ساتھ ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ پھر ان ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔ ذمہ داری میں اہل خانہ بھی شامل ہیں‘ دفتر کے معاملے میں ملازمت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ آپ کے ساتھیوں اور ماتحت افراد کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ سرکاری ملازم ہیں تو سرکاری وقت‘ وسائل اور خزانے کے متعلق ذمہ داریوں کا احساس اور ادایگی ضروری ہے۔ کاروباری ہیں تو اس کے تقاضوں کا شعور‘ قیمت کا تعین‘ ملازمین کی تنخواہیں اور ان کی خوش حالی‘ اس کے ساتھ ساتھ کاروبار کی ترقی اور پھیلائوکی کوشش اور معیار کا برقرار رکھنا ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ بس ہر حال میں کام کا حق ادا کیجیے۔
۵- شجاعت: ضرورت اور حاجت کے وقت مصائب اورخطرات کا ثابت قدمی سے مقابلہ شجاعت کہلاتا ہے۔ جو شخص نتائج پر نگاہ رکھے اور ان کے پیش آنے سے خوف زدہ ہو مگر جب وہ سامنے آجائیں تو ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کرے تو وہ بہادر ہے‘ اور جب کوئی شخص موقع اور محل کی مناسبت سے بہترین کارگزار ثابت ہو وہ ’’شجاع‘‘ ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ خطرے میں کود ہی جائیں تو آپ بہادر ہوں گے بلکہ بہادر اس حالت میں بھی سمجھا جائے گا کہ نتیجے پر نگاہ رکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے کہ اس خطرے کے موقع سے بچنا ہی بہتر طریقہ کار ہے اور اس کا فرض بھی اسے اس بات کا حکم دیتا ہو کہ وہ اپنے کو خطرے سے بچائے۔ درحقیقت سب سے بڑی بہادری‘ مصیبت اور سختی کے وقت دل کا اطمینان اور حاضر حواسی ہے۔ اس لیے بہادر وہ ہے کہ جب اس پر سخت وقت آئے تو اپنے اطمینان اور بیداری حواس کو نہ کھو بیٹھے بلکہ قابلیت اور ثبات قلبی سے اس کا مقابلہ کرے اور ذہنی بیداری اور مطمئن عقل کے ساتھ اس کو انجام دے۔
۶- حیا: انسان میں ایک ایسی قوت اور ملکہ ودیعت کیا گیا ہے جس سے انسان خیر کی طرف اقدام کرتا ہے اورشر سے بچنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ اس قوت یا ملکہ کا نام ’’حیا‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (۱) حیا ایمان کی ایک شاخ ہے (۲) حیا خیر کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں دیتی۔ علامہ ماوردیؒ کہتے ہیں کہ خیروشر پوشیدہ معانی ہیں جو صرف اپنی ان علامتوں کے ذریعے ہی سے پہچانے جاتے ہیں جو ان معانی پر دلالت کرتے ہیں‘ پس خیر کی بہترین علامت حیا و شرم ہے اور شر کی علامت بے حیائی ہے۔ ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے: ’’انسان سے اس کے اخلاق کے متعلق نہ پوچھو‘ خود اس کے چہرے مہرے میں اس کے اخلاق کی شہادت موجود ہے‘‘۔
ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اے اولاد آدم! جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو تیرا جی چاہے کر۔ حیا اللہ تعالیٰ سے کی جاتی ہے‘ لوگوں سے کی جاتی ہے‘ اور اپنے نفس سے کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے حیا کرو اس درجے جو حیا کا حق ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اللہ کی درگاہ میں ہم حیا کا صحیح حق کس طرح ادا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: سر اور جو اس میں محفوظ ہے‘ اور پیٹ اور جو اس میں محفوظ ہے ان کی حفاظت کے ذریعے‘ اور حیات دنیا کی زینت کے ترک‘ اور موت اور بدن کے گل سڑ جانے کی یاد کے ذریعے سے حیا کا صحیح حق جناب باری میں ادا ہوتا ہے۔
۷- میانہ روی و اعتدال: مقدمہ ابن خلدونسے اعتدال اور میانہ روی پر ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے۔ یہ ذمہ داران کے لیے بہت اہم ہے:
تم اپنے تما م کاموں میں میانہ روی اختیار کرو کیونکہ اس سے زیادہ نفع بخش‘ امن و حفاظت کی ذمہ دار اور فضیلت اور بزرگی کی نشانی کوئی چیز نہیں۔امور میں اعتدال ہی انسان کو بھلائی اور بزرگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اور بھلائی توفیق ایزدی کی نشانی ہے‘ اور توفیق سعادت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ بلکہ خود دین و سنت رسولؐ کا قرار اسی اعتدال سے ہے اور دنیا کی اصلاح کا بھی اسی پر مدار (منحصر) ہے۔
شخصیت کیتعمیر و ترقی میں میانہ روی اور اعتدال و توازن اہم عناصر ہیں۔ یہ چیزیں مزاج کے لیے بھی ضروری ہیں‘ کام کاج کے لیے بھی‘ تعلقات اور معاملات کے لیے بھی‘ اور اخراجات کے لیے بھی۔ غرض زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر صورت میں یہ تعمیر و ترقی میں بڑی معاون ہے۔
۸- صبر و تحمل: صبر دو قسم کا ہے: ایک‘ بدنی‘ جیسے مشقت برداشت کرنا اور عبادت کے مشکل اعمال برداشت کرنا۔ دوسرا‘ نفسانی‘ یہ خواہش کے تقاضے اور طبیعت کی مرغوب چیزوں سے رُک جانا ہے۔ صبر کی یہ قسم اگر پیٹ اور شرم گاہ کی خواہش سے متعلق ہو‘ تو اس کا نام عفت ہے۔ اگر میدان جنگ میں صبر ہو‘ تو اس کا نام شجاعت ہے۔ اگر غصہ کو دبانے میںصبر ہو تو اس کا نام حلم ہے۔ اگر کسی پریشان کرنے والی مصیبت سے مقابلے میں ہو‘ تو اس کا نام فراخی ہے۔ اگر کسی معاملے کو پوشیدہ رکھنے کے متعلق ہو‘ تو اس کا نام راز کو چھپانا ہے۔ اگر زائد ضروریات سے رکنا ہو‘ تو اس کا نام زہد ہے۔ اور اگر تھوڑی سی ضروریات پر مطمئن ہونا ہو‘ تو اس کا نام قناعت ہے۔
صبروتحمل صرف مشکل وقت کے لیے ہی مخصوص نہیں بلکہ بہتر وقت میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ بعض عارفین نے کہا ہے کہ مومن مصیبت پر صبر کر لیتا ہے اور عافیت پر صرف صدیق ہی صبر کر سکتا ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے کہا کہ تکلیفوں سے ہماری آزمایش ہوئی تو ہم نے صبر کیا لیکن جب نعمت و آسایش سے آزمایش ہوئی تو ہم صبر نہ کر سکے۔ جوانمرد صرف وہ ہے جو عافیت پر صبر کرے اور یہ صبر شکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب تک شکر کے حقوق ادا نہ ہوں صبر پورا نہیں ہوتا۔ اور نعمت میں صبر مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہاں قدرت حاصل ہوتی ہے‘ جیسے کھانا نہ ہونے کی صورت میں بھوکا زیادہ صبر کر سکتا ہے بہ نسبت لذیذ کھانا موجود ہونے کے۔
صبر کا اپنا وصف ہے کہ بقول حضرت علیؓ ’’ اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور معرفت کا یہ حق ہے کہ تم اپنی تکلیف کی شکایت نہ کرو اور اپنی مصیبت کا ذکر نہ کرو‘‘۔
حکما کہتے ہیں کہ مصیبت کا چھپانا نیکی کا خزانہ ہے۔ایک آدمی نے امام احمدؒ سے پوچھا: اے ابوعبداللہ! آپ کا کیا حال ہے؟ آپ نے کہا: عافیت اور بھلائی سے ہوں۔ اس نے کہا: کل رات آپ کو بخار تھا۔ تو فرمایا: میں نے جب تم سے کہہ دیا کہ میں عافیت سے ہوں تو بس کافی ہے۔ تم مجھ سے وہ بات کیوں کہلوانا چاہتے ہو جس کا زبان پر لانا مجھے پسند نہیں۔
۹- استقامت و باقاعدگی: اپنے معاملات اور اصولوںپرعمل درآمد میں استقامت اور باقاعدگی بہت جلد آپ کی شخصیت کو شاہراہ کامیابی پر گامزن کر دے گی۔ اصولوں پر عمل کا معمول بنایئے۔ اچھے اطوار اور کاموں کو استقامت کے ساتھ کیجیے‘ اور جائزہ لیتے رہیے۔ مستقل مزاجی اور باقاعدگی شخصیت کو معروف اور مقبول بناتی ہے اور ہم منظم رہتے ہیں۔
۱۰- خوفِ خدا اور خوفِ آخرت: تعمیر شخصیت کے تخلیقی عناصر میں اور ہماری رفتار کار اور استعداد کار میں اضافے کا ایک اہم ذریعہ بلکہ بنیادی ذریعہ خوفِ خدا اور خوفِ آخرت ہے۔ خدا خوفی ہمیں برے اعمال سے بچائے گی‘ وقت ضائع کرنے سے بچائے گی‘ حرام کھانے سے بچائے گی‘ لغویات میں ملوث ہونے سے بچائے گی۔ جب ہم بہت ساری گلیوں سے بچ کر صرف ایک سیدھی راہ پر آجائیں گے اور ہمارے سامنے ایک عظیم ذات کے وجود کا احساس اور اس کی صفات و قدرت کا خوف ہوگا تو پھر ہمارے لیے اس سیدھی راہ پر سیدھا اور تیز چلنا آسان ہوگا ۔ آخرت کی گھڑی ہمارا ہدف ہوگی‘ اور اس شاہراہ پر چلتے ہوئے نظریں ادھر ادھر نہیں بھٹکیں گی۔
۱۱- حکمت: حکمت علم اور اس کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے۔ ابن قتیبہؒ نے کہا: آدمی اس وقت تک حکیم نہیں ہوتاجب تک علم اور عمل کو جمع نہ کرے۔ حکمت‘ نفس کی اس حالت کا نام ہے جس کے ذریعے سے انسان تمام اختیاری امور میں خطا و صواب کے درمیان تمیز کرتا ہے۔ حکمت و عقل کے اعتدال سے حسن تدبیر‘ ذکاوت ذہن‘ باریک بینی‘ راست فکر اور پوشیدہ آفاتِ نفس کا فہم جیسے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔
۱۲- اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے! : ہر وقت یہ احساس رہنا چاہیے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ حسن نیت ‘ عزم اور صحیح طریقہ کار کے مطابق محنت کر کے اپنے معاملات کے نتائج اللہ کے سپرد کر دینے چاہییں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے کا احساس انسان کی نیکیوں میں اضافے اور برائیوں سے رکنے کا باعث ہوتا ہے۔ اسی احساس کے نتیجے میں اس میں غیر مرئی قوت محرکہ اور قوت عمل پیدا ہوتی ہے اور اس کے لیے حالات سازگار ہو جاتے ہیں۔
۱۳- نفس سے سبقت اور احتساب: انسان پر حسد‘ حرص‘ غضب‘ شہوت اور تندی و تیزی بہت جلد غالب آجاتی ہے اور شیطان انھی راستوں سے اس پر حملہ کرتا ہے۔ بغیر تحقیق اور جلدبازی سے کام کرنا بھی اطاعت نفس ہے اور ہم اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ یہ جذبات اور کیفیات بہت جلد غالب آجاتی ہیں۔ بدگمانی‘ بدظنی اور غلط فہمی موجودہ دور کے مسلمانوں کی بہت بڑی کمزوریاں ہیں۔ مسلمان کو ایٹمی قوت تباہ نہیں کر سکتی مگر بدگمانی تباہ کر ڈالتی ہے۔ بس اس صورت میں کنٹرول اور عقل کی ضرورت ہے۔ حقائق معلوم کرنے کی کوشش کیجیے‘ باتوں اور افواہوں پر فوری ردعمل کی ضرورت نہیں ہے۔
ع بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گرمارا
اس کے ساتھ ساتھ انسان کو روزانہ رات کو سونے سے قبل احتساب بھی کرنا چاہیے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا قول ہے کہ اپنا احتساب کر لو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے۔ اور بقول حضرت جنید بغدادیؒ ’’تم ہروقت یہ سوچتے رہو کہ خدا سے کتنے قریب ہوئے‘ شیطان سے کتنے دُور‘ جنت سے کتنے قریب‘ اور دوزخ سے کتنے دُور‘‘۔ احتساب تحریری ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ تحریری احتساب قوت عمل پیدا کرنے میں آپ کا معاون ہوگا۔
۱۴- دعا: تعمیر شخصیت میں دعا کا اہم مقام ہے۔
دعا سب سے پہلے اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے: ’’ اے اللہ تو نے مجھے اچھی صورت میں پیدا کیا‘ اب میرے اخلاق بھی اچھے کر دے‘‘۔ دعا نفس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے‘ عزائم کی بلندیوں‘ قوتوں کی بحالی اور حالات کی سازگاری اور خوش گواری کے لیے‘ رزق حلال کے لیے‘ بہتر استعداد کے لیے‘ اچھی ٹیم کے لیے‘ سخت گیر لوگوں کے دلوں کی نرمی کے لیے بھی ہونی چاہیے۔
دعا میں یقین کی کیفیت ضروری ہے۔ کسی گائوں میں بارش نہیں ہو رہی تھی تو نماز استسقاء کا اعلان ہوا۔ گائوں والے میدان میں جمع ہو گئے۔ دیکھا گیا کہ ایک گیارہ سالہ بچی بھی اپنے ہاتھ میں چھتری لیے میدان کی طرف آرہی تھی۔ لوگوں نے کہا: بیٹی! ہم تو ابھی بارش کی دعا مانگنے جا رہے ہیں‘ تو چھتری لے کر کیوں آ رہی ہے؟ بچی نے معصومیت سے جواب دیا: جب ہم دعا مانگ کر واپس آ رہے ہوں گے اس وقت تو بارش ہو رہی ہوگی۔ بس یقین کی یہی کیفیت مطلوب ہے!