جولائی ۲۰۰۱

فہرست مضامین

قومی بیداری __وقت کا تقاضا!

قاضی حسین احمد | جولائی ۲۰۰۱ | اشارات

Responsive image Responsive image

جنرل پرویز مشرف نے جو اب چشمِ بددُور صدر بھی بن گئے ہیں‘ اپنی پہلی تقریر میں جو سات نکاتی ایجنڈا قوم کے سامنے رکھا تھا‘ اس کا پہلا نکتہ ’’قومی اعتماد کی بحالی‘‘ تھا۔ قومی اعتماد کی بحالی کو اولیں ترجیح قرار دے کر درحقیقت یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ قوم مایوسی کا شکار ہے--- اگر سول اور ملٹری انٹیلی جنس کے متعدد محکمے دیانت داری سے اپنی رائے جنرل صاحب کے سامنے باقاعدہ پیش کر رہے ہوں‘ تو ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہونی چاہیے کہ ان کے حکمران بننے کے بعد قوم کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے‘ کمی نہیں ہوئی۔

جنرل صاحب کے سات نکاتی ایجنڈے کا دوسرا جزو ’’وفاق کی مضبوطی‘‘ تھا۔ وفاق کی مضبوطی سے مراد یہ ہے کہ وفاق کے اجزا کے طور پر تمام صوبے اپنے اپنے دائرہ کار میں خودمختار ہوں‘ ان کے آپس کے تعلقات باہمی اعتماد‘ بھائی چارے اور محبت پر استوار ہوں۔ وہ وفاقی حکومت کے زیرسایہ ہم آہنگ ہو کر مشترک مقاصد کے لیے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہوں۔ بدقسمتی سے صورت حال اس کے برعکس ہے۔ خشک سالی اور آبی ذخائر میں پانی کی کمی کے باعث ‘ زرعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی کے بحران میں صوبوںکے اختلافات بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کے ذریعے صوبوں کے مفادات کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ کبھی صوبہ پنجاب کے خلاف تین صوبے مشترکہ مفادات کی کونسل سے واک آئوٹ کرتے ہیںا ور کبھی سندھ پر پانی چوری کا الزام لگا کر پنجاب اور سرحد‘ بلوچستان کی حمایت میں اجلاس سے واک آئوٹ کرتے ہیں۔ یہ خبریں جب اخبارات کی زینت بنتی ہیں تو صوبوں کے علیحدگی پسند عناصر کی تقویت کا باعث بنتی ہیں اور وہ بھی خم ٹھونک کر میدان میں نکل آتے ہیں۔ علاقائی پریس عوامی احتجاج میں مزید تلخی گھولنے کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح وفاق کے مختلف یونٹ (صوبے) فوجی حکمرانوں کی غفلت اور نااہلی کے سبب سرکاری افسران کے ذریعے آپس میں حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وفاق کی تقویت کے بجائے اس کی کمزوری کا باعث بن رہے ہیں۔

افواج پاکستان کے سربراہ اس وقت مطلق العنان صدر کی حیثیت سے ‘ تمام اختیارات کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ یہ امر بذات خود صوبوں کے اختیارات کو سلب کرنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے اور صوبوں میں بداعتمادی کا سبب بن رہا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے ایجنڈے کا تیسرا نکتہ ’’معیشت کی بحالی‘‘ ہے۔ معیشت کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس وقت گرتی ہوئی معیشت ہی ہماری سب سے بڑی کمزوری بن گئی ہے اور اس کی وجہ سے ہماری آزادی خطرے میں ہے۔ ہم خارجہ امور‘ دفاع اور معاشی پالیسیوں کے علاوہ تعلیم جیسے اہم شعبے میں بھی آزادی سے محروم ہو گئے ہیں۔ نصاب تعلیم میں نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنٹوں کی مرضی کے مطابق ردّ و بدل پر مجبور ہیں۔ دینی مدارس کے خلاف حکومت کی محاذ آرائی اور میٹرک کے نصاب سے قرآن کریم کے ترجمے کا حذف کرنا بیرونی دبائو کا ہی نتیجہ ہے۔ سرکاری ملازمین کی سالانہ کانفیڈنشل رپورٹوں سے دینی اور اخلاقی حالت اور نظریہ پاکستان سے وابستگی سے متعلق سوالوں کا اخراج بھی معنی خیز ہے اور حکومت کے رجحان میں تبدیلی کا واضح اشارہ ہے‘ جس میں نہ معلوم کس کس کا ہاتھ ہے۔ اس وقت کشمیر کے مسئلے میں بعض حکومتی حلقوں کی طرف سے لچک کے جو اشارے دیے جا رہے ہیں وہ بھی معاشی دبائو کا نتیجہ ہے۔ حکومت اپنے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود معیشت کو سنبھالا دینے میں ناکام رہی ہے اور کوئی ایسا انقلابی قدم نہیں اٹھا سکی ہے جس سے معاشی صورت حال میںکوئی حقیقی تبدیلی واقع ہو سکے۔ مہنگائی‘ بے روزگاری اور قرضوں پر انحصار میں مسلسل اضافہ اس دَور کی نشانی بن گئے ہیں اور ملک پر عالمی ساہوکاروں کا تسلط مستحکم تر ہوتا جا رہا ہے۔

ایجنڈے کا چوتھا نکتہ ’’امن و امان کی بحالی‘‘ ہے لیکن دہشت گردی‘ قتل‘ ڈاکا زنی‘ چوری‘ عورتوں کی بے حرمتی اور دوسرے جرائم کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے ناجائز اسلحہ ضبط کرنے اور تعاون نہ کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینے کی محض دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اگر حکومت شہریوں سے اسلحہ لینے میں قدرے کامیابی حاصل بھی کر لیتی ہے تو یہ کامیابی امن و امان کی ضامن اس لیے نہیں ہو سکے گی کہ پیشہ ور ڈاکو اور لٹیرے کبھی بھی اپنا اسلحہ واپس نہیں کریں گے‘ اور حکومت کی کرپٹ مشینری میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ اس کے ہاتھ اصل مجرموں تک پہنچ سکیں۔ اس طرح غیر مسلح ہونے کے بعد عوام بالکل ہی ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ بدامنی کے دوسرے ذرائع میں بھی‘ جیسے بے روزگاری‘ غربت اور جنسی جرائم اور تشدد پر مبنی فلمی مناظرمیں‘ جو سینما‘ ویڈیو‘ کیبل نیٹ ورک‘ انٹرنیٹ اور ڈش پر دکھائے جاتے ہیں ‘برابر اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن بھی ایسے مناظر دکھانے میں پیچھے نہیں ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کا پانچواں نکتہ ’’ریاستی اداروں کو غیر سیاسی بنانا‘‘ہے۔ اس کے برعکس خود فوج کو ایک مکمل سیاسی ادارے میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور سیاسی ادارے کی تمام خرابیاں اس میں سرایت کرتی جا رہی ہیں۔  جنرل صاحب کے چیف آف آرمی اسٹاف ہوتے ہوئے صدر بن جانے سے فوج سیاسی دلدل میں مزید دھنس گئی ہے اور اس سے فوج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کی دفاعی صلاحیت سخت مجروح ہو رہی ہے۔ سرکاری ادارے صوبوں میں علیحدگی پسند عناصر کی قیادت کر رہے ہیں اور منفی سیاست کے مرکز بن گئے ہیں۔

حکومت کے ایجنڈے کاچھٹا نکتہ ’’نچلی سطح پر اختیارات کی تقسیم‘‘ ہے۔ اختیارات کی تقسیم کے نام پر جوبلدیاتی انتخابات کرائے جا رہے ہیں‘ اس میں قومی تعمیرنو کے ادارے کے علاوہ کسی کا مشورہ شامل نہیں ہے۔ درحقیقت موجودہ حکومت کے ہاں مشورے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اصل فیصلے کور کمانڈرز کے اجلاس میں ہوتے ہیں اور کورکمانڈر فوجی ڈسپلن کے پابند ہیں۔ وہ فوجی وردی میں ہوتے ہوئے اپنے چیف سے کیسے اختلاف کر سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوسکتا ہے کہ ڈسپلن کے آداب ملحوظ رکھتے ہوئے انتہائی نرمی اور ادب سے کسی مسئلے کا دوسرا پہلو پیش کر دیا جائے۔ اصل فیصلہ تو فردِواحد ہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ فوجی حکومت اور اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کا نکتہ باہم متضاد ہیں۔

فوجی حکومت کی سرشت میں اختیارات کے ارتکاز کا رویہ رچا بسا ہوتا ہے۔ اس سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ کوئی ایسا نظام رائج کرے گی جس میں حقیقی اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہو جائیں۔نئے نظام کے نام سے درحقیقت یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کے لیے ایسا شکنجہ بنایاجائے جس میں انھیں مضبوطی سے جکڑا جا سکے۔ یہ کام بین الاقوامی مالیاتی ادارے‘ مخصوص ایجنڈے کی حامل این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بلدیاتی اداروں کے ذریعے سرانجام دیں گی جن کی اصل منزل سیکولرزم‘ مغربی ثقافت کی ترویج اور عالمی مالیاتی اداروں کی حکمرانی کا قیام ہے۔ گرتی ہوئی قومی معیشت‘ غربت اور بے روزگاری اس طرح کا شکنجہ تعمیر کرنے میں مدد دیں گی۔ بہ حیثیت صدر جنرل پرویز مشرف اس شکنجے کی حفاظت پر مامور کردیے گئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں جو انتخابات ہوں گے اور جو پارلیمنٹ وجود میں آئے گی اسے مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ جنرل صاحب کے اقدامات کی توثیق کر دے۔ اس کے بغیر حکومت ان کی طرف منتقل نہیں کی جائے گی اور جنرل صاحب خود بااختیار صدر بن کر پارلیمانی طرز حکومت کو عملاً صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کروانے کی کوشش کریں گے۔

بلدیاتی اداروں کو غیر جماعتی اس لیے بنایا گیا ہے کہ یہ ادارے براہِ راست این جی اوز کے ذریعے عالمی اداروں کی تحویل میں آسکیں اور ترقیاتی کاموں کے نام سے ان سے اسلامی تہذیب و تمدن کو مٹانے اور عالم گیریت کے نام سے مغربی اور ہندوانہ تمدن کو عام کرنے کا کام لیا جا سکے۔

پرویز مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کا آخری نکتہ ’’احتساب‘‘ ہے۔ اسی کے نام پر انھوں نے فوجی مداخلت کی۔ احتساب اب سیاسی بلیک میلنگ کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اگرچند چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو زیرجال کیا بھی گیا ہے تو وہ نمایشی سے زیادہ نہیں۔ بڑی بڑی مچھلیاں تو نہ صرف گرفت سے باہرہیں بلکہ عزت و اکرام کے ساتھ رہا کر دی گئی ہیں۔

اس وقت عوام موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہیں۔ رائے عامہ معلوم کرنے کے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے تقریباً ۸۰ فی صد عوام ان تمام ایشوز پر جن کا احاطہ سات نکاتی ایجنڈے میں کیا گیا تھا‘ حکومت سے مایوس ہیں۔

پرویز مشرف صاحب سات نکاتی ایجنڈے میں ناکامی کے باوجود حکومت کرنے کا شوق رکھتے ہیں  اور اپنا شوق پورا کرنے کے لیے انتہائی بھونڈے انداز میں صدر بن بیٹھے ہیں۔ آئینی لحاظ سے ان کے لیے صدر بننا ممکن نہیں تھا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے کچھ نام ور ماہرین قانون بلکہ قانون کے جادوگروں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں کہ وہ ان کے لیے انتخاب اور اسمبلیوں کو بحال کیے بغیر صدر بننے اور موجودہ صدر کو فارغ کرنے کی کوئی سبیل نکال لیں۔ غالباً انھیں کوئی مہذب اور شائستہ راستہ دکھائی نہیں دیا اور انھیں یہی مشورہ دیا گیا کہ جس طرح فوج کے سربراہ کی حیثیت کو استعمال کر کے وہ بزور شمشیر چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے اور جس طرح اس حیثیت میں انھوں نے راتوں رات نواز شریف کو ملک بدر کر دیا تھا اور آئین‘ اور قانون ان کے راستے میں حائل نہیں ہو سکا تھا اسی طرح شب خون مار کر وہ صدر تارڑ کو فارغ کر کے خود صدر بن جائیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف کے صدر بننے سے فوج کو بھی نقصان ہوگا اور ملک کو بھی‘ لیکن پرویز مشرف صاحب کے لیے اب یہی ایک نکاتی ایجنڈا سب سے زیادہ اہم ہو گیا تھا کہ وہ کسی طرح ملک کے ایک بااختیار صدر بن جائیں۔ ان کا صدر بن جانا وفاقی پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام رائج کرنے کی طرف ایک بڑا قدم ہوگا۔ یہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت موجودہ حکومت کو مشروط طور پر تین سال کی مہلت دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کی ان شرائط میں پہلی شرط یہ ہے کہ دستور کی اسلامی دفعات اور ملک کی اسلامی نظریاتی اساس میںکسی قسم کا کوئی ردّ و بدل نہیں کیا جائے گا۔

دوسری شرط یہ ہے کہ بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی میں کمی نہیں کی جائے گی۔

تیسری شرط یہ ہے کہ وفاقی پارلیمانی نظام اور صوبوں کے اختیارات کو نہیں چھیڑا جائے گا۔

ان شرائط کے ساتھ فوجی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ تین سال مکمل ہونے سے قبل انتخابات کا انعقاد کرائے تاکہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء تک دستور بحال کر کے سویلین منتخب حکومت بن سکے۔

جنرل پرویز مشرف صاحب کا صدر بن جانا اور یہ کوشش کہ فوج کو ترکی کی طرح ملکی معاملات میں مستقل دستوری کرداردیا جائے اور نچلی سطح تک اختیارات کی تقسیم کے نام پر قومی دستور میں بنیادی ترامیم کی جائیں‘ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کی خلاف ورزی ہے جس کے ذریعے اس نے تین سال تک موجودہ حکومت کو مشروط طور پر جائز قرار دیا ہے۔


ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو نظراندازکرنے کی جو رَوش پرویز مشرف صاحب کی حکومت نے اپنائی ہے ‘اس کی ایک تازہ مثال یکم جولائی سے ملک کے اندر سودی کاروبار کو غیر قانونی قرار دینے سے پہلوتہی ہے۔ سپریم کورٹ نے یکم جولائی ۲۰۰۱ء کو عملاً فیصلے کے نفاذ کے لیے حکومت کو پابند کیا تھا کہ وہ ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق بہ تدریج مختلف قدم اٹھائے تاکہ ۳۰ جون کے بعد سود کے خلافِ قانون ہو جانے کے بعد کوئی عملی مشکل یا بحران پیدا نہ ہو سکے۔ لیکن حکومت نے جان بوجھ کر مطلوبہ اقدامات کرنے سے احتراز کیا‘تاکہ عین موقع پر اسی بہانے فیصلے کو مؤخر کروا سکے کہ اس کا نفاذ فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔ یہ روش قومی مصلحت کے خلاف ہے ؟ دراصل حکمران معیشت کو سود سے پاک کرنے میں مخلص نہیں ہیں۔

معاشی پالیسی بنانے والوں کا مفاد موجودہ سودی معیشت سے وابستہ ہے۔عالمی اداروں کے یہی آلہ کار‘ قومی معیشت کو ورلڈ بنک‘ آئی ایم ایف اور بین الاقوامی معاشی اداروں کے چنگل سے آزاد کرنے کے راستے میں حائل ہیں۔ اس لیے موجودہ حکومت نے بھی یونائیٹڈ بنک کو ذریعہ بنا کر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔ فی الحال حکومت سپریم کورٹ کے ا پیلیٹ بنچ سے اپنی مرضی کا فیصلہ اس لیے نہیں لے سکی کہ بنچ مکمل نہیں تھا۔اس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ بنچ نامکمل ہے اور کیس سننے کے قابل نہیں ہے۔ اس نکتے کو فاضل ججوں نے تسلیم کیا لیکن حکومت نے دبائو کے حربے استعمال کر کے ایک عالم دین کی جگہ خالی رکھتے ہوئے اس عدالتی سقم کے باوجود ایک سال کی مہلت حاصل کر لی جو عدالت کی کمزوری اور حکومت کی بدنیتی کا کھلا کھلا ثبوت ہے۔

عدالتوں کی بالادستی کے بغیر کسی بھی ملک میں ایک مہذب‘ شائستہ اور جمہوری معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا۔ سب سے بڑا سوال اس وقت یہی ہے کہ وہ کون سی طاقت ہے جو ملک میں دستور‘ قانون اور قاعدے ضابطے کو نافذ کر کے عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو دو مرتبہ حکومت میں آنے کے باوجود اپنی ناکامی ثابت کر چکے ہیں۔ اس وقت الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیماکریسی (ARD)کی شکل میں یہ دونوں جماعتیں اکٹھی ہیں۔ اگر فوجی حکومت کی ناکامی ثابت ہونے کے بعد حکومت واپس ان جماعتوں کے پاس چلی جائے تو کیا انصاف کے تقاضے پورے ہو جائیں گے۔ خود ان دو جماعتوں کا سب سے بڑا حامی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا‘ نہ عوام اس کو تسلیم کریں گے۔ اگر پیپلز پارٹی ‘ مسلم لیگ اور فوجی حکومت مسئلے کا حل پیش نہ کر سکیں تو کیا ملک میں کوئی اور طاقت نہیں ہے۔ کیا ہماری قوم کے مستقبل میں بالکل اندھیرا اور مایوسی ہے!

یقینا ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمن یہی تصورپیش کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ’’ناکام ریاست‘‘ہے۔ سوال یہ ہے کیا واقعی ریاست ناکام ہے یا وہ سیکولر حکمران گروہ ناکام ہو چکا ہے جو ملک کی تشکیل سے لے کر اب تک مختلف سیاسی اور فوجی لبادوں میں ملک پر مسلط ہے‘ اور جسے سابق استعماری طاقت نے پاکستان پر حکومت کرنے کے لیے تیار کیا تھا؟آزادی کے بعد کے ساڑھے پانچ عشروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ ناقابل تردید حقیقت سامنے آتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال اور قائد ملّت لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد سے ملک میں اسی ایک طبقے کا اقتدار رہا ہے۔ یہ طبقہ ایک آزاد قوم کی اُمنگوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کر سکا اور اپنے اخلاق و کردار کے حوالے سے بلند ہونے کے بجائے مسلسل زوال و انحطاط کی طرف جاتا رہا‘ یہاں تک کہ اب اس میں سَکت نہیں ہے کہ اندر سے اپنی اصلاح کر سکے۔ اب اس کی اصلاح کے لیے ایک انقلابی طاقت کی ضرورت ہے اور وہ انقلابی طاقت‘ عوامی قوت کو منظم اور متحرک کرنے سے ہی وجود میں آسکتی ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ایک تازہ دم‘ دیانت دار‘ باحوصلہ قیادت اُبھر سکتی ہے جو عوام میں سے ہو اور خدا اور خلق دونوں کے سامنے اپنے کو جواب دہ سمجھتی ہو۔


پاکستانی قوم کی بہت بڑی اکثریت اس وقت ملک کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہے۔ یہ فکرمندی ان کے حبّ وطن کی ایک مثبت علامت ہے۔

اس فکرمندی کو مایوسی کی طرف لے جانے کے بجائے قوت عمل میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو محض خود  پُرامید ہی نہ ہو بلکہ ذوق یقین سے سرشار ہو۔  مولانا رومؒ کے ان اشعار کو علامہ اقبال ؒ نے اپنی کتاب‘ اسرار خودی کے سرنامے کے طور پر کتاب کے پہلے صفحے پردرج کیا ہے:

دی شیخ باچراغ ہمی گشت گرد شہر

کز دام ودد ملولم و انسانم آرزوست

زیں ہمرہان سُست عناصر دلم گرفت

شیر خدا و رستم دستانم آرزوست

گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما

گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست

ایک بزرگ چراغ لے کر شہر کی گلی کوچوں میں پھر رہے تھے کہ جعل سازوں اور فریب کاروں سے آزردہ ہوں اور ایک حقیقی انسان کی تلاش میں گردش کر رہا ہوں۔ ان درماندہ سُست رفتار ہم راہیوں سے بھی میرا دل اُچاٹ ہوگیا ہے ‘کسی شیرخدا اور کسی رستم کی داستان کی آرزو میں نکل کھڑا ہوں۔ میں نے عرض کی کہ ہم نے بہتیرا تلاش کیا ہے اس طرح کے لوگ نایاب ہیں۔ اس نے کہا جو نایاب ہیں انھی کی آرزو میں پھر رہا ہوں۔

اس وقت ہمیں اس طرح کی قیادت کی ضرورت ہے جو قوم کی آرزوئوں کو تازہ رکھے کہ مرگ آرزو ہی اصل میں قوموں کی موت کا سبب بنتی ہے۔ اقبال نے اس لیے اپنی کتاب ‘ زبورعجم پڑھنے والوں کو نصیحت کی ہے :

می شود پردئہ چشم پرکاہے گاہے

دیدہ ام ہر دو جہاں رابنگاہے گاہے

وادیٔ عشق بسے دُور و دراز است ولے

طے شود جادئہ صد سالہ بآہے گاہے

درطلب کوش و مدہ دامن امید زدست

دولتے ہست کہ یابی سر راہے گاہے

کبھی تو ایک معمولی تنکا میری آنکھ کے لیے پردہ بن جاتا ہے‘ اور کبھی میں ایک نگاہ سے دونوں جہان دیکھ لیتا ہوں۔ تلاش و جستجو میں سرگرم رہو اور اُمید کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو۔ ایسی بھی دولت ہے جو تمھیں کبھی سرراہ بھی مل جاتی ہے۔ عشق کی وادی اگرچہ بڑی وسیع اور دُور و دراز ہے لیکن کبھی کبھی سو سالہ راستہ ایک آہ میں بھی طے ہو جاتا ہے۔

اپنی کتاب‘ پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق کی ابتدا میں کتاب پڑھنے والوں کو یہ پیغام دیتے ہیں:

سپاہ تازہ بر انگیزم از ولایت عشق

کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است

زمانہ ہیچ نداند حقیقتِ اورا

جنوں قباست کہ موزوں بقامت خرد است

بآں مقام رسیدم چو در برش کردم

طواف بام و درمن سعادت خرد است

گماں مبر کہ خرد را حساب و میزاں نیست

نگاہ بندئہ مومن قیامت خرد است

عشق کی ولایت سے تازہ افواج کی بھرتی ضروری ہو گئی ہے کہ عقل کی بغاوت سے حرم میں خطرہ نمودار ہو گیا ہے۔ زمانہ اس کی حقیقت سے کلی طور پر بے خبر ہے۔ جنون ایسی قبا ہے کہ عقل کی قامت پر بالکل ہی موزوں اور پوری ہے۔ میں عشق کے اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ جب میں نے اس کا دروازہ کھولا تو مجھ پر یہ راز کھل گیا کہ میرے بام و دَر کا طواف کرنا عقل کی سعادت ہے۔ یہ گمان نہ کر کہ خرد کے لیے حساب و میزان نہیں۔ مرد مومن کی نگاہ خرد کی قیامت ہے (یعنی اس سے خرد کی تگ و تاز کی قیمت جانچی جا سکتی ہے)۔

عشق اور خرد یا جنون اور عقل کا موازنہ اقبال کے پیغام کا ایک اہم موضوع ہے ۔ جب عقل و خرد کے حساب کتاب سے قوم کو ولولہ تازہ دینے میں انھیں مشکل پیش آتی ہے تو وہ بندئہ مومن کی ایمانی طاقت‘ اس کے عشق اور اس کے جذبۂ جنوں کو اُبھارتے ہیں۔ ایک خوب صورت رباعی میں فرماتے ہیں:

الا یاخیمگی خیمہ فروہل

کہ پیش آہنگ بیروں شدز منزل

خرد از راندن محمل فروماند

زمام خویش دادم در کف دل

خبردار ہو جائو‘ خیمے میں بیٹھنے والوں کو چھوڑ دے کہ قافلے کا پیش رَو (قافلے سے آگے چلنے والا‘ پیش آہنگ) اپنے مقام سے نکل کھڑا ہوا ہے۔ عقل بوجھ اٹھانے سے عاجز آگئی ہے۔ اس لیے اب میں نے اپنی مہار دل کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔


ہم بھی قومی لحاظ سے اس وقت ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ قوم کے ایک بڑے حصے میں پائی جانے والی ایمانی طاقت کو بروے کار لانے کی ضرورت ہے۔

اگر کسی کو اس ایمانی طاقت کی موجودگی میں شک ہے تو وہ ان ہزاروں نوجوانوں سے ملاقات کا اہتمام کرلیں جنھیں موت کی وادی سے اس پار محبوب کا چہرہ نظر آ رہا ہے۔ یہ نوجوان ہزاروں میل دشوار گزار راستوں کو عبور کرتے ہیں‘ بھارتی درندوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اپنی مائوں اور بہنوں کی عصمتیں بچانے اور اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ اپنے آپ کو شہادت کے لیے پیش کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ یہ نوجوان اُمت کے ہر حصے میں موجود ہیں۔ فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ جنوبی لبنان‘ فلپائن‘ ان کی فداکارانہ سرگرمیوں کی آماجگاہ ہے۔ یہ نوجوان خود ہماری پاکستانی قوم کے ہر حصے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ رنگ و نسل اور زبان کے تفرقے سے بالاتر ہیں۔ یہی وہ نوجوان ہیں جو ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں اور جو قوموں کی ڈوبتی کشتیوں کو طوفانوں سے نکال کر ساحل مراد تک پہنچاتے ہیں۔

ہماری قوم کی اس ناقابل شکست قوت کے خلاف گہری سازش ہو رہی ہے۔ اسے آپس میں لڑانے کے لیے بیرونی اور اندرونی دشمن مدت سے سرگرم عمل ہیں۔ شیعہ سنی کے درمیان قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کی کوشش کی گئی‘ لیکن یہ لڑائی دو چھوٹے اور مختصر گروہوں تک محدود رہی اور عوام الناس نے اس میں شامل ہونے سے گریز کیا۔ اب بریلوی دیوبندی خوں ریزی پھیلانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے کی مساجد پر قبضے کا سلسلہ تو بہت عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ اب مولانا محمد سلیم قادری اور ان کے اہل خانہ اور ساتھیوں کے قتل سے یہ کشیدگی ایک تشویش ناک صورت اختیار کر گئی ہے۔ کراچی میں ۱۲ ربیع الاول کے موقع پر قتل اور دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا‘ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر دینی جماعتوں کے نوجوان مجاہدین کو جو میدانِ جہاد میں دشمن کے چھکے چھڑانے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ اس تباہ کن اور بے فیض تصادم میں اُلجھا دیا گیا تو یہ پوری قوم کی بدبختی ہوگی۔

ملک و قوم کو اس روزِ بد سے بچانے کے لیے دینی قائدین کے درمیان گہرے ذاتی روابط کی ضرورت ہے۔ ذاتی روابط سے بدگمانیاں دُور ہو جاتی ہیںاور آپس میں حسن ظن کو فروغ ملتا ہے اور بہت سارے اختلافات جو بدگمانی کی پیداوار ہوتے ہیں‘ محض آپس کے گہرے رابطے اور ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھنے سے رفع ہو جاتے ہیں۔ دینی جماعتوں کے کارکنوں اور ہر سطح کی قیادت کا بھی فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ روابط پیدا کرنے کے لیے پیش رفت کریں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو پہل کرنی چاہیے اور ہر سطح پر خوش گوار فضا پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ الحمدللہ‘ جماعت کے کارکن پہلے ہی ہر طرح کے لسانی اور فرقہ وارانہ عصبیت سے پاک ہیں‘ لیکن آج کل کے حالات میں نہ صرف انھیں خود زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے بلکہ دینی گروہوں اور مسلکوں کے درمیان بھی ثالث بالخیر کا کردار ادا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہونا چاہیے۔

یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ دینی قوتوں کو باہم لڑانے کی حکمت عملی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یورپ کی تاریخ میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں اور ان دونوں فرقوں کے اندر دوسرے چھوٹے چھوٹے فرقوں(denomminations) کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ و جدال ہی کے ذریعے سیکولر قوتوںنے اپنا سیاسی مقام پیدا کیا اور بالآخرمذہب کو ریاست کی صورت گری کے کام سے بے دخل کر دیا گیا۔ انیسویں صدی میں انگریز سامراجی حکمرانوں نے ہندو مہاسبھا کے احیا اور شدھی کی تحریک کی پشت پناہی اور مسلمانوں میں فرقہ واریت کے فروغ کی شکل میں یہی کھیل کھیلا ۔لیکن تحریک خلافت‘ تحریک پاکستان اور تحریک اسلامی نے مسلمانوں کے اندرونی اختلاف کو دور کیا اور باہم رواداری اور مشترک اعلیٰ مقاصد کے لیے اتحاد و یک جہتی کی شاہ راہ دکھائی۔ آج پھر دشمن وہی کھیل کھیل رہا ہے۔ آج پھر دینی قوتوں کا فرض ہے کہ اس کھیل کو ناکام بنا دیں اور دین کے احیا اور شریعت کی بالادستی کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔


جماعت اسلامی اس ملک کی ایک موثر اور منظم دینی سیاسی قوت ہے ۔ جب اس کے کارکن پورے اخلاص سے کسی بڑے کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو وہ اللہ کے فضل سے چل پڑتا ہے۔ اس وقت قوم کو مایوسی سے نکال کر عمل پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کتاب جہاد ہے اور بے غرض اور مخلصانہ جدوجہد کی تلقین کرتا ہے۔مایوسی سے بچانے کے لیے قرآنی حکم ہے:  وَلاَ تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لاَیَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ o (یوسف ۱۲: ۸۷) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘۔  وَلاَ تَھِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (اٰل عمٰرن ۳:۱۳۹) ’’دل شکستہ نہ ہو‘ غم نہ کرو‘ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔ اَلاَّ تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَo (حم السجدہ ۴۱:۳۰) ’’نہ ڈرو‘ نہ غم کرو ‘اور خوش ہو جائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔

قوم اس وقت ایک ایسے گروہ کے انتظار میں ہے جو میدان میں نکل کر ان کی قیادت کرے۔ گھروں اور دفتروں میں بیٹھ کر یہ توقع رکھنا درست نہیں ہے کہ قوم ہمای طرف خود بخود آجائے گی۔ اس کے لیے ہمیں ہر دروازے پردستک دینی ہے۔ ہر صاحب ایمان کو پکارنا اور ہر محب وطن کو بیدار اور متحرک کرنا ہے۔ دلوں کو جوڑنا اور سب کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ملک و قوم کو اس عذاب سے نجات دلانا ہے ‘جس میں سیکولر اشرافیہ (elites) نے اپنے بیرونی استعمار کے مفادات کی خاطر اسے جھونک دیا ہے۔

پہلے قائدین قربانی دینے کے لیے تیار ہوں گے‘ اندھیروں میں چراغ روشن کریں گے‘ پھر کارکن نکلیں گے۔ اس کے بعد قوم نکل کر ساتھ دے گی۔ جو لوگ صرف ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑا کر اندازے لگاتے ہیں ان کے اندازے ہمیشہ انقلابی قوتوں کے مقابلے میں شکست کھا جاتے ہیں۔ جب اللہ کے بھروسے پر اپنا فرض ادا کرنے کے لیے مردانِ حُر میدان میں نکلتے ہیں تو وہ اللہ کی تقدیر بن جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو دشمنوں کی یلغار سے بچانے کے لیے ان ہی مردانِ حُر کی ضرورت ہے۔ لیکن قومی بیداری کے اس کام میں ہر طبقے کے مخلص لوگوں کو ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری فوج ہم میں سے ہے۔ قوم کو اپنی فوج سے تصادم مول لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ قوم کے تمام طبقات کے بہتر لوگوں کی طرح فوج کے اندر صاحب ایمان و تقویٰ عناصر اور جہاد فی سبیل اللہ کو اپنا طریق زندگی بنانے والے عناصر کی کمی نہیں ہے۔ ملک و قوم جس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے وہ لوگ اس سے بے خبر نہیں ہیں۔اگر قوم کی مخلص قیادت مل جل کر قومی نجات کے لیے حکمت و دانش کے ساتھ‘ لیکن مومنانہ بصیرت اور جرأت کے ساتھ میدان عمل میں اتر جائے گی تو یہ تمام عناصر ان کا خیر مقدم کریں گے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔