جولائی ۲۰۰۱

فہرست مضامین

یہ احساسِ کمتری !

| جولائی ۲۰۰۱ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

رہی دوسری وجہ تو وہ غیر اسلامی تمدّنوں کا اثر ہے جس کی بدولت مسلمانوں کے ازدواجی تعلّقات میں نہ صرف بہت سے ایسے رسمیات اور وہمیات داخل ہو گئے ہیں جو اسلامی قانون ازدواج کے اصول اور اس کی اسپرٹ کے خلاف ہیں‘ بلکہ سرے سے زوجیت کا اسلامی تصور ہی ان کی ایک بڑی اکثریت کے ذہن سے محو ہوگیا ہے۔ کہیں ہندو تصور غالب آگیا ہے اور اس کا اثر یہ ہے کہ بیوی کو لونڈی اور شوہر کو آقا بلکہ دیوتا سمجھا جاتا ہے۔ نکاح کی بندش اعتقاداً نہیں تو عملاً ناقابل فسخ ہے۔ طلاق اور خلع اس قدر معیوب ہو گئے ہیں کہ جہاں ان کی ضرورت ہے وہاں بھی ان سے محض اس بنا پر احتراز کیا جاتا ہے کہ کہیں ناک نہ کٹ جائے‘ خواہ درپردہ

وہ سب کچھ کیا جائے جو درحقیقت طلاق اور خلع سے زیادہ بدتر ہے۔ طلاق کو روکنے کے لیے مہر کی مقدار اس قدر بڑھا دی گئی ہے کہ شوہر کبھی طلاق دینے کی جرأت نہ کر سکے‘ اور منافرت کی صورت میں عورت کو معلق رکھ چھوڑنے پر مجبور ہو جائے۔ ’’شوہر پرستی‘‘ عورت کے مفاخر اور اخلاقی فرائض میں داخل ہو گئی ہے۔ سخت سے سخت حالات میں بھی وہ محض سوسائٹی کی لعنت و ملامت کے خوف سے طلاق یا خلع کا نام زبان پر نہیں لا سکتی حتیٰ کہ اگر شوہر مر جائے تب بھی اس کا اخلاقی فرض یہ ہو گیا ہے کہ ہندو عورتوں کی طرح اس کے نام پر بیٹھی رہے۔ کیونکہ بیوہ کا نکاح ثانی ہونا نہ صرف اُس کے لیے بلکہ اس کے سارے خاندان کے لیے موجب ذلّت ہے۔

دوسری طرف جو نئی نسلیں فرنگی تہذیب سے متاثر ہوئی ہیں ان کا حال یہ ہے کہ وہ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ تو بڑے زور سے کہتے ہیں مگر وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ط ]البقرہ ۲:۲۲۸[‘پر پہنچ کر دفعتاً ان کی آواز دب جاتی ہے اور جب اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ]النساء۴:۳۴[‘ کا فقرہ ان کے سامنے آتا ہے تو ان کا بس نہیں چلتا کہ کس طرح اس آیت کو قرآن سے خارج کر دیں۔ عجیب عجیب طریقے سے اس کی تاویلیں کرتے ہیں‘ اور تاویل کا اندازکہے دیتا ہے کہ وہ اپنے دل میں اس بات پر سخت شرمندہ ہیں کہ ان کے مذہب کی مقدس کتاب میں یہ آیت پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ فرنگی تہذیب نے عورت اور مرد کی مساوات کا جو صور پھونکا ہے اس سے وہ دہشت زدہ ہوگئے ہیں اور ان کے دماغوں میں ان ٹھوس اور مستحکم عقلی اصولوں کو سمجھنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہی ہے جن پر اسلام نے اپنے نظام معاشرت کو قائم کیا ہے۔ (حقوق الزوجین‘ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۸‘ عدد ۴‘ ۵ ‘  ۶

ربیع الآخر‘ جمادی الاولیٰ‘ جمادی الاخرہ‘ ۱۳۶۰ھ‘ جون‘ جولائی‘ اگست ۱۹۴۱ء‘ ص۱۹-۲۰)