ایران‘ براعظم ایشیا کے ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سائرس اعظم سے لے کر رضا شاہ پہلوی تک اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کی مستقل تاریخ موجود ہے۔ اس دوران ان کے ادبیات کے حوالے سے ان کے قومی مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ایرانی اپنی تہذیب‘ تاریخی روایات اور ثقافتی اقدار کے ساتھ گہری قلبی اور ذہنی وابستگی رکھتے ہیں۔ انھوں نے جب کبھی کسی نوعیت کی تبدیلی یا انقلاب کو قبول کیا ہے تو اس کے پس منظر اور پیش منظر میں ان کی مخصوص تاریخی اور ثقافتی روایات کا عکس جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ خلافت راشدہ میں جب فتح ایران کے بعد یہ علاقے اور ان کے عوام اسلامی ریاست میں شامل ہوئے تو انھوں نے اپنے عقائد کی تبدیلی کے باوجود اپنے معتقدات میں ماضی کی تاریخی اور ثقافتی اقدار کو اپنے سے جدا نہیںہونے دیا۔
ایران اپنی تیل کی بے پناہ دولت کے باوجود عوامی سطح پر کوئی بڑا معاشی انقلاب برپا نہیں کر سکا ہے۔ زیادہ تر آبادی متوسط اور مجبور نوعیت کی زندگی گزارنے کی خوگر ہے۔ حالیہ دو عشروں میں شرح خواندگی میں ایک نمایاں اضافے نے ان کے معیار زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔ ان کی عمومی زندگی میں ذوق جمالیات کا عنصر زندگی کے ہر دائرے میں نمایاں دکھائی دے گا۔ ادب لطیف کا مطالعہ‘ پھولوں سے محبت‘ صحت اور حسن کی حفاظت کا خیال‘ گھروں میں مناسب تزئین اور کھانوں میں لذت کا عنصر‘ ان کے شخصی احوال کی ترجمانی کرتا ہے۔
دورئہ ایران کے دوران اگرچہ میرا بیشتر سفر سرکاری عہدے داروں کی رہنمائی میں گزرا مگر اس دوران جن جن اصحاب فکرونظر سے ملاقاتیں ہوئیں‘ ان سے ایران کے موجودہ احوال کو سمجھنے میں سہولت پیدا ہوئی۔
تہران میں ہوٹل آزادی سے قریب تر اور بزرگراہ شہید چمران پر واقع وسیع و عریض ایک مستقل نمایش گاہ ہے جہاں وقفے وقفے سے مختلف ملکی اور غیرملکی نمایشیں ترتیب دی جاتی ہیں۔ یہ نمایش گاہ بذات خود ایک لائق نظارہ جگہ ہے۔ اس وسیع سلسلۂ عمارات میں نمایش کے لیے تین تین منزلہ بڑے بڑے ہال تعمیر کیے گئے ہیں۔ کشادہ پارک اور ایک وسیع تر اوپن ایئرہال ہے جہاں پر تمام نمایشوں کی افتتاحی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس میں ریستوران‘ بنک‘ مسجد اور تفریح کے بہت سے لوازم کا اہتمام کیا گیا ہے۔ سیکڑوں ایرانی اور غیر ملکی ناشرین کے اسٹال بڑی عمدگی سے ترتیب دیے گئے تھے۔ ایرانی کتب کے اسٹال الگ سے کئی بڑے ہالوں میں ترتیب دیے گئے تھے اور وہاں سے کتب کی خریداری میں کوئی رکاوٹ نہ تھی البتہ غیر ایرانی شائقین کے لیے غیر ایرانی پبلشرز کی کتب کی خرید کا مرحلہ ایک ہفت خواں طے کرنے کے بعد ممکن تھا۔ ایرانی قوم کے مطالعے کا ذوق بھی لائق رشک ہے۔ بلامبالغہ لاکھوں شہری‘ طلبہ اور طالبات روزانہ ان کتابوں کو خریدنے میں مصروف دکھائی دیے۔ ۱۰ روز تک صبح سے شام تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخری چند دنوں میں تو بعض کتابیں ناپید ہو گئیں۔ایرانیوں کے ہاں علمِ خطاطی اور طباعت کے جمالیاتی اور فنی ذوق نے ان کے ہاں بہت قابل رشک اور بلند معیار قائم کیے ہیں۔ ان کی نصابی کتابوں اور رسائل و جرائد کی کثرت بھی ان کے علمی ذوق کی آئینہ دار ہے۔ایرانی قوم میں طالبات کا ذوق کتب بینی بالخصوص باعث حیرت ہے۔ خریداروں میں خواتین کا تناسب ۷۰ فی صد کے قریب ہے۔ ایرانی شہریوں کا یہ ذوق خواندگی ان کے روشن مستقبل کی ایک محکم ضمانت ہے۔
اس نمایش کا افتتاح صدر اسلامی جمہوریہ ایران سید محمد خاتمی نے کیا جو خود بھی بہت بڑے کتاب دوست ہیں۔ مذہبی خانوادے کے فرد ہونے کے باوصف وہ فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ جناب خاتمی ایرانی کتب خانوں کی سب سے بڑی تنظیم کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ قلم اور کتاب سے ان کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔ وہ ایک عظیم اسکالر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
شہنشاہ ایران کے زوال کے بعد ایرانی انقلاب کو اب دو عشرے گزرچکے ہیں۔ اس دوران ایران عراق جنگ کے علاوہ اور بہت سے تغیرات رونما ہوئے مگر سیاسی اور انتخابی عمل کی روایت وہاں بہت مستحکم رہی ہے۔ ایران کا آئین ۱۴ ابواب اور ۱۷۷ دفعات پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کے دستاتیر میں اپنی نوعیت کا منفرد آئین ہے۔ یہ بہ یک وقت جمہوری روایات اور شیعہ فقہ کے تصور ولایت فقیہ کے امتزاج کا آئینہ دار ہے۔اس کے آٹھویں باب کی چھ دفعات جو راہبر اور کونسل آف لیڈرشپ سے متعلق ہیں‘ ایران کی سیاست میں ایک عجیب مزاج کی حامل ہیں۔ اگر ایرانی صدر کے اختیارات اور راہبر انقلاب کے اختیارات اور انتخاب کا موازنہ کیا جائے تو چند عجیب حقائق سامنے آتے ہیں جن کو سمجھے بغیر ایرانی انتخابات اور ریاستی اداروں کی تشکیل کا مزاج سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ ایرانی صدر تو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر چار برسوں کے لیے منتخب ہوتا ہے مگر راہبر کا انتخاب مجلس خبرگان کے ذریعے ہوتا ہے اور اس مجلس کے ارکان براہِ راست انتخاب سے پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں۔ اس مجلس خبرگان کے تمام تر فیصلے شوریٰ نگہبان کی توثیق کے محتاج ہیں۔ اس شوریٰ نگہبان کی تشکیل میں عوام کے انتخابی عمل کو کوئی دخل حاصل نہیں۔ اس ادارے کی تشکیل سے تھیوکریسی کا ایک ایسا رجحان سامنے آتا ہے جس کی مثال عالم اسلام کی کسی دوسری مملکت میں دکھائی نہیں دیتی۔
ایرانی انقلاب کے قائد آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انتقال تک تو ان کے راہبر کے منصب پر کسی کے لیے تنقید یا انگشت نمائی کا موقع نہیں تھا مگر موجودہ راہبر سید علی خامنہ ای کے دَور میں ولایت فقیہ اور اختیارات کے اس توازن پر ایران کے سیاسی حلقوں میں اندیشہ ہاے دُور و درازموجود ہیں۔ ایران کے موجودہ صدر سید محمد خاتمی مئی ۱۹۹۷ء میں پہلی مرتبہ ۴۹ فی صد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ انھیں بالعموم ایران میں اصلاح پسندوں کا نمایندہ تصور کیا جاتا ہے۔ مگر اس بار ان کے صدارتی انتخاب میں عالمی پریس‘ ملکی اخبارات اور اصلاح پسند گروہ ان کو ملنے والے ووٹوں میں کمی کے اندازے پیش کر رہے تھے۔ مجھے اس دوران معاشرے کے چھوٹے طبقات کے افراد سے ان کے احساسات کو جانچنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ ان کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے کچھ زیادہ ہو رہی ہے۔ کیونکہ وہ قدامت پسندوں کے ماحول سے براہِ راست متعلق ہونے کے باوجود جدید تعلیم سے آراستہ اور عالمی راے عامہ کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ انھوں نے راہبرمعظم کے ساتھ مل کر ایک ایسے توازن کو برقرار رکھا ہوا ہے جو ایرانی دانش وروں کے موجودہ اضطراب میں انقلاب اسلامی کے مقاصد کے تحفظ کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ یہی باعث ہے کہ وہ اس بار ۷۷ فی صدووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ووٹوں کی یہ تعداد واضح کرتی ہے کہ ان کے ذہنی اور فکری طرزعمل کو قدامت پسندوں اور اصلاح پسندوں میں یکساں مقبولیت حاصل رہی ہے۔
سید محمد خاتمی کے گذشتہ دور صدارت میں نوجوان نسل میں فکری اور ثقافتی آزادی کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ مجھے آٹھ سال پیشتر کی نوجوان نسل کو بھی براہِ راست دیکھنے کا موقع ملا تھا مگر اس بار ان کے ثقافتی مظاہر سے اس تبدیلی کا صاف اندازہ ہو رہا ہے۔ موجودہ انتخابی نتائج سے قدامت پسندوں بالخصوص علما کے حلقے میں تشویش کی ایک لہر یقینا بیدار ہو گی جسے بالغ نظری اور وسیع المشربی کے ساتھ سنبھالانہ گیا تو آگے چل کر یہ لہر ایک مستقل خلیج کا روپ دھار سکتی ہے۔
ماضی کا ایران عالمی ثقافتی الیکٹرونک میڈیا کی یلغار سے متاثر ہو چکا ہے۔ عالمی ثقافتی یلغار نے ایرانی انقلاب کے روایتی احوال و ظروف میں ایک دراڑ پیدا کر دی ہے۔ ایران کے مقتدر مذہبی طبقات کو اپنے روایتی انقلاب کے تحفظ کے لیے مستقبل میں بہت کچھ سوچنے اور تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔