پروفیسر خورشید احمد | جولائی ۲۰۰۱ | مقالہ خصوصی
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن میں نصف صدی تک کلیدی کردار ادا کرنے کے بعد امریکہ کا بہ یک بینی و دوگوش فارغ کیا جانا محض ایک اتفاقی حادثہ یا صرف ایک سیاسی واقعہ نہیں ہے۔ یہ امریکہ کے عالمی کردار کے بارے میں دنیا کے دوسرے ممالک میں پائے جانے والے احساسات کا ایک مظہر ‘ عالمی سیاست کے ابھرنے والے رجحانات کی ایک واضح علامت اور طاقت ور ملکوں کے لیے ایک غیر مبہم انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کوئی تنہا (isolated) واقعہ نہیں‘ بلکہ ایک رخ اور رجحان کا پتا دیتا ہے جس کا اظہار اقوام متحدہ ہی کے ایک دوسرے اہم ادارے نارکوٹکس کمیشن سے بھی امریکہ کی فراغت کی صورت میں بھی ہوا ہے۔ صدرامریکہ جارج بش پہلے ہی دورے پر نکلے تو انھیں موثر عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ۔ کیوبک (کینیڈا) میں تمام امریکی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس اور گوڈن برگ(سویڈن) میں ۱۵ یورپی ممالک کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ہونے والے عوامی مظاہرے اور ان میں اٹھائے جانے والے ایشوز‘ امریکہ پر بے اعتمادی اور اس کے سنگ دلانہ رویے اور پالیسیوں سے بے زاری کے منہ بولتے مظاہر ہیں۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ جو لاوا ایک مدت سے اندر ہی اندر پک رہا تھا وہ اب اپنے اظہار کے لیے مختلف راستے اختیار کر رہا ہے۔ جو جذبات و احساسات ایک عرصے تک خلش‘ کسک‘ انقباض‘ اور اضطراب کے مرحلے میں تھے‘ وہ اب اظہار‘ اختلاف‘ تنقید اور اس سے بھی بڑھ کر غصّے اور بغاوت کی شکلیں اختیار کر رہے ہیں۔ یہ جذبات کسی ایک ملک یا گروہ کے نہیں‘ بلکہ بڑی حد تک دنیا کے بیش تر ممالک و اقوام اور سب سے بڑھ کر عام انسانوں کے احتجاج کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ ان جذبات اور ان کے پیچھے کارفرما محرکات کا جائزہ نہ لینا ایک ایسی عظیم غلطی ہے‘ جس کے صرف وہی لوگ مرتکب ہوتے ہیں جو تاریخ سے سبق لینے کو تیار نہیں ہوتے اور نوشتہ دیوار پڑھنے کی زحمت گوارا کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
امریکہ اور اس کے عالمی کردار کے بارے میں اس احتجاجی لہر کی بڑی وجہ کوئی مزاجوں میں رچی بسی امریکہ دشمنی یا مخاصمت نہیں ہے۔ یہ وہی ملک اور لوگ ہیں جو امریکہ کی طرف بڑی امیدوں سے دیکھتے تھے‘ اور اسے ایک ایسی طاقت سمجھتے تھے‘ جو خود عالمی سامراج کے خلاف لڑ کر معرض وجود میں آئی ہے‘ جو عصرحاضر میں جمہوری دستوری ریاست کے دور کا آغاز کرنے والی ہے‘ جس کی فوجوں نے تو عالمی جنگوں میں حصہ لیا ہے مگر خود جس کی سرزمین کسی عالمی جنگ کے خون سے داغ دار نہیں ہوئی ‘ جو بین الاقوامی سیاسی افق پر جمہوریت‘ حقوق انسانی اور قوموں کے حق خود ارادیت کی علم بردار بن کر جلوہ گر ہوئی۔ ایک ایسی عالمی طاقت سے اتنی مایوسی اور بے زاری اور اتنی تیزی اور شدت سے اس کا ہمہ گیر اظہار نہ کوئی اتفاقی حادثہ ہو سکتا ہے اور نہ محض کسی سازش کا شاخسانہ۔ اس کے ٹھوس اسباب اور عوامل ہونے چاہییں اور ہیں۔ ان کا سمجھنا امریکہ کی قیادت کے لیے بھی ضروری ہے اور ان اقوام کے لیے بھی‘ جو احتجاج میں تو شریک ہیں لیکن ان کا مقصد حالات کی اصلاح اور عالمی تصادم کے اسباب و عوامل کا تدارک ہے‘ تاکہ دنیا جنگ و جدال اور خون خرابے سے محفوظ رہ سکے۔
انسانوں اور قوموں میں‘ طاقت کا عدم توازن اور وسائل کا غیرمتناسب وجود ایک حقیقت ہے ۔ محض اس کی وجہ سے اضطراب‘ اور تصادم ایک غیر فطری عمل ہوگا۔ لیکن فرق جب ایک قوت کی دوسروں پر بالادستی ‘ استیلا اور ان کے استحصال (exploitation)کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے تو بے زاری اضطراب اور تصادم کے دروازے کھلنے لگتے ہیں جو آخرکار ٹکرائو اور خون خرابے پر منتج ہوتے ہیں۔ یہی وہ عمل ہے جو امریکہ اور دنیا کی دوسری اقوام کے درمیان شروع ہو چکا ہے ۔ یہ عمل ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کے ایک سوپر پاور کی حیثیت سے میدان سے نکل جانے کے بعد اور بھی واضح اور تیزہو گیا ہے۔
امریکہ کے پاس مادی اور قدرتی وسائل کی اتنی بہتات ہے کہ اپنے باشندوں کے لیے وہ زندگی کی تمام سہولتیں بہ افراط فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن عالمی بالادستی کا خواب‘ دنیا کی دوسری اقوام کے وسائل حیات کو اپنی گرفت میں لینے کے عزائم‘ دنیا کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالنے اور دوسروں پر اپنی اقدار اور نظریے کو بہ زور مسلط کرنے کے منصوبے ہی دراصل تصادم اور ٹکرائو کی جڑ ہیں۔ یہ خواہشات دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ کی عالمی حکمت عملی کے اجزا بنتی جا رہی ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں آزاد دنیا کے تحفظ اور اشتراکیت دشمنی کے نام پر ان اہداف کو حاصل کرنے کی سعی کی گئی‘ لیکن سرد جنگ کے بظاہر خاتمے کے بعد سے یہ لَے اور بھی تیز ہوگئی ہے ۔ اب نئی صدی کو امریکہ کی صدی اور ساری دنیا کو امریکہ کے رنگ میں رنگنے کی مہم‘ جس کا نام عالم گیریت (globalisation)رکھا گیا ہے ان حدود میں داخل ہو گئی ہے جہاں ایک طاقت ور ملک
انا ولا غیری کے زعم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پھر طاقت ور ہونا کافی نہیں رہتا‘ بلکہ دوسروں پر اپنی طاقت کا رعب جمانا اس کا مقصد بن جاتا ہے‘ اور قوت کا نشہ کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لانے دیتا ۔ یہی وہ نازک مقام ہے‘ جہاں دوسری اقوام بھی مجبور ہوتی ہیں کہ اپنی آزادی‘ اپنی عزت اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہوں اور ’کنجشک فرومایہ‘ بھی شاہین نما فرعونیت سے ٹکرلینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ آج عالمی سیاست ایک ایسے ہی نازک مرحلے کی طرف رواں دواں ہے۔
امریکہ کا واحد عالمی قوت ہونا‘ ظاہربین نگاہوں میں چاہے ایک حقیقت ہو‘ لیکن اس واحد سوپر پاور کا دوسروں پر غلبہ حاصل کرلینا اور ان کو اپنا تابع مہمل بنا لینے کی کوشش وہ خطرناک کھیل ہے ‘جس نے عالمی بساط کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ غلبہ اور جہانگیری کے یہی وہ عزائم ہیں‘ جن کے حصول کے لیے خارجہ سیاست کے ساتھ فوجی حکمت عملی اور معاشی اثراندازی کا ایک عالم گیر جال اور جاسوسی اور تخریب کاری کا ایک ہمہ پہلو نظام پوری دنیا کے لیے قائم کیا گیا ہے‘ اور اسے روز بروز زیادہ موثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دنیا کے ۴۰ ممالک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی (تقریباً دو لاکھ سپاہی جو اعلیٰ ترین بحری اور فضائی فوجی ٹکنالوجی اور آلات حرب و ضرب سے آراستہ ہیں)‘ فوجی معاہدات‘ معاشی زنجیروں کا جال جو ریاستی اور عالمی مالیاتی و تجارتی اداروں کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے دام میں گرفتار کیے ہوئے ہے‘ غیر سرکاری اداروں(NGO's) کی فوج ظفرموج جو اس عالم گیر استیلا کا ہراول دستہ ہے اور جاسوسی کا نظام جو صرف سی آئی اے ہی نہیں متعدد بلاواسطہ اور بالواسطہ ایجنسیوں کے ذریعے کام کر رہا ہے--- اس نظام کے دست و بازو ہیں۔ مقابلے کے لیے کبھی اشتراکیت اور روس کا ہّوا تھا‘ تو کبھی بین الاقوامی دہشت گردی اور سرکش ریاستوں (rogue states)کا ڈرائونا خواب۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سی آئی اے کو جو مینڈیٹ سردجنگ کے زمانے میں دیا گیا تھا‘ وہی آج بھی کارفرما ہے۔ ۱۹۵۴ء میں وہائٹ ہائوس کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ:
اس کھیل کے کوئی قواعد نہیں۔ قواعد کے مطابق کھیلنے کے دیرپا امریکی تصورات پر امریکہ کی بقا کی خاطر ازسرنو غور ہونا چاہیے۔ ہمارے دشمن ہمارے خلاف جو طریقے استعمال کرتے ہیں ہمیں ان سے زیادہ موثر‘ سوچے سمجھے طریقوں کو ہوشیاری سے استعمال کر کے دشمن کو سبوتاژ کرنا‘ مٹانا اور تباہ کرنا سیکھنا چاہیے۔ (Brave New World Orderاز جیک نیلسن پال میر‘ ص ۴۳)
امریکہ کی موجودہ سیاسی قیادت اور چند دوسری مغربی اقوام کے کارفرما عناصر عوامی جمہوریہ چین‘ شمالی کوریا‘ اور چند مسلمان ملکوں--- ایران‘ لیبیا‘ سوڈان‘ حتیٰ کہ چند افراد مثلاً اسامہ بن لادن کو امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے ’اصل خطرہ‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس نام نہاد خطرے کے مقابلے کے لیے تباہ کن میزائلوں سے لیس فضائی ڈھال‘ محفوظ علاقوں (safe zones)اوربچائو کے لیے حملوں (prevention strikes) تک ہر چیز کے لیے نہ صرف ’’جواز‘‘ کی فضا بنا رہے ہیں‘ بلکہ اربوں ڈالر خرچ کر کے ہر قیمت پر یہ سب کچھ کر گزرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
صدر کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر اور ایک مشہور یونی ورسٹی پروفیسر بریزنسکی نے اپنی تازہ کتاب The Great Chessboard میں صاف لفظوں میں کہا ہے کہ امریکہ کی خارجہ سیاست کا اصل ہدف ہونا ہی یہ چاہیے کہ اکیسویں صدی میں امریکہ دنیا کی واحد سوپر پاور رہے اور اس کا کوئی مدمقابل اٹھنے نہ پائے--- کم از کم پہلی ربع صدی میں تو میدان صرف امریکہ ہی کے ہاتھ میں رہنا چاہیے۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’یورپ اور ایشیا دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں امریکہ کی برتری برقرار رہنی چاہیے۔ یہ ناگزیر اور لازم ہے کہ یورپ اور ایشیا میں کوئی ایسی طاقت نہ اُبھرے جو امریکہ کو چیلنج کر سکے‘‘۔ یہی وہ ذہنیت ہے جو امریکہ کے پالیسی سازوں اور سیاسی قیادت میں ایک قسم کی رعونت پیدا کر رہی ہے اور فطری طور پر اس رعونت سے باقی دنیا میں مایوسی اور بے زاری کی لہریں اٹھ رہی ہیں ۔صدر کلنٹن کی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ نے کسی تکلف اور تردد کے بغیر امریکہ کی اس ذہنیت اور اس کے عزائم کا ان الفاظ میں اعلان کیا تھا :
ہمیں طاقت استعمال کرنا پڑتی ہے اس وجہ سے کہ ہم امریکہ ہیں۔ ہم نوع انسانی کے لیے ایک ناگزیر قوم ہیں۔ ہم بلند ہیں‘ ہم مستقبل میں دُور تک دیکھتے ہیں۔ (Blowback: The Costs and Consequences of American Empire) از چامیز جانسن‘ ص۲۱۷)
واحد عالمی قوت ہونے کا زعم باطل ہی وہ چیز ہے ‘جس نے امریکی قیادت میں اس رعونت اور فرعونیت کو جنم دیا ہے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال وہ الفاظ ہیں‘ جن میں اپنی حیثیت کا اظہار امریکی صدر لنڈن بی جانسن نے قبرص کے تنازع کے موقع پر یونان کے سفیر سے کیا۔ یونان امریکہ کا ایک دوست ملک اور نیٹو میں اس کا رفیق کار ہے۔جب یونان کے سفیرگرانینوز گگینٹس (Geraninos Gigantes) نے امریکہ کا حکم نہ ماننے کے لیے اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پارلیمنٹ اور اپنے دستور کے حوالے سے التجا کے لہجے میں بات کی تو صدر امریکہ جانسن طیش میں آگئے اور انھوں نے گالی دے کر یونانی سفیر سے کہا : ’’بھاڑ میں جائے تمھاری پارلیمنٹ اور جہنم رسید ہو تمھارا دستور--- امریکہ ایک ہاتھی ہے اور قبرص ایک چھوٹا سا بھونگا۔ اگر یہ بھونگے ہاتھی کو تنگ کریں گے تو ہاتھی کی سونڈھ انھیں کچل دے گی۔ مسٹر سفیر! ہم بہت سارے امریکی ڈالر یونان کو دیتے ہیں۔ اگر تمھارے وزیراعظم مجھ سے جمہوریت‘ پارلیمنٹ اور دستور کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھو‘ وہ ان کی پارلیمنٹ اور ان کا دستور زیادہ دیر باقی نہیں رہیں گے‘‘۔ (بہ حوالہ I Should Have Died از فلپ ڈین‘ ۱۹۷۷ء‘ ص ۱۱۳-۱۱۸)
ذرا مختلف پس منظر میں ‘لیکن اسی ذہنیت کا مظاہرہ جنرل کولن پاول نے جو اس وقت امریکہ کے چیف آف اسٹاف تھے اور اب اس کے سیکرٹری خارجہ ہیں‘ بار بار کیا ہے۔جن دنوںامریکہ نے بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پانامہ پر‘ جو ایک آزاد ملک ہے ‘فوج کشی کی‘ اس کے صدر کو اغوا کیا اور سزا دی تو اعتراض کرنے والوں کے جواب میں جنرل پاول نے کہا:
ہمیں کنکر کو اپنے دروازے سے یہ کہہ کر باہر پھینکنا ہے کہ یہاںسوپر پاور رہتی ہے۔ (Brave New World Order ص ۸۷)
پاکستان کے دو چار نیوکلیر بموں پر اپنی برہمی کا اظہار بھی امریکہ اسی ذہنیت سے کرتا رہا ہے۔ پاکستان کی سفیر سیدہ عابدہ حسین سے جو گفتگو جنرل پاول نے کی تھی وہ نوٹ کرنے کے لائق ہے۔ امریکہ سے حال ہی میں شائع ہونے والی جوائس ڈیوس کی کتاب Between Jihad and Salam میں ان کا انٹرویو شامل ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے:
جنرل پاول نے مجھ سے پوچھا کہ: ’’پاکستان امریکی اعتراضات اور مالی امداد ختم کر دینے کے باوجود اپنے جوہری پروگرام پر اتنا مصر کیوں ہے؟ آپ جانتی ہیں کہ یہ بم ناقابل استعمال ہیںتو آپ انھیں کیوں رکھنا چاہتی ہیں‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل‘ آپ کیوں ایٹم بم رکھتے ہیں؟ ‘‘اس نے کہا : ’’ہم کم کر رہے ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا : ’’کتنے سے کتنے‘ جنرل؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’چھ ہزار سے دو ہزار‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل ‘آپ دو ہزار بم رکھیں گے اور چاہتے ہیں کہ ہمارے جو چند برے بھلے زمین میں دفن ہیں ہم ان سے بھی فارغ ہو جائیں۔ آپ تو ہم سے خودکشی کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ ہم ایک جوہری ریاست کے پڑوس میں ہیں۔ کیا اگر کینیڈا اور میکسیکو کے پاس بم ہوں تو آپ اپنے بم ختم کر دیں گے؟ کیا آپ ایسا کریں گے؟‘‘
اس نے میری طرف دیکھا اور کہا : ’’دیکھیے سفیرصاحبہ‘ میں اخلاقیات کی بات نہیں کر رہا ہوں‘ میں آپ سے صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہیں اور آپ پاکستان ہیں‘‘۔ میں نے کہا : ’’جنرل‘ آپ کا شکریہ کہ آپ نے ایمان داری سے بات کی‘‘۔
اپنے اقتدار کے نشے میں مست ہونا‘ دوسروں کو خاطر میں نہ لانا‘ ہر کسی کو اپنے مقابلے میں حقیر سمجھنا اور خودپسندی‘ تکبر اور زعم میں مبتلا ہو کر دوسروں کی تضحیک کرنے کا عمل‘ انسان کے وقار کو بڑھاتا نہیں‘ کم کرتا ہے۔ غالب نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
صدر جارج بش نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک امیدافزا بات کی تھی جسے ساری دنیا میں سراہا گیاتھا یعنی:
اگر ہم ایک مغرور قوم ہوں گے تو دنیا کے لوگ ہم سے ناراض ہوں گے ‘لیکن اگر ہم ایک منکسرالمزاج لیکن مضبوط قوم ہوں گے تو وہ ہمیں خوش آمدید کہیں گے۔
لیکن صدارت کے تخت پر براجمان ہوتے ہی ان کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ امریکی براعظم کے ممالک ہوں یا یورپ اور ترقی پذیر ممالک--- پھر وہی حکمرانی کی زبان استعمال کی جا رہی ہے۔ تنہا پرواز کا شوق اور دنیا کو اپنے مفادات اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کے عزائم کا برملا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جن کثیر قومی کارپوریشنوں کی تائید سے وہ برسرِاقتدار آئے ‘ انھی کے ایجنڈے کو پورا کرنے کو اولیت دی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں کی یک طرفہ تنسیخ یا ان کی پابندیوں سے اپنے آپ کو بلاجواز آزاد کر لینے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ABM (Anti Ballistic Missile Treaty)جو ایک بین الاقوامی قانون کے تحت ایک عالمی معاہدہ ہے اور جس کے نتیجے میں ۱۹۷۲ء سے اب تک دنیا ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل کے خطرات سے بچی رہی ہے` اس سے یک طرفہ گلوخلاصی کی راہ اختیار کی جا رہی ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے عالمی سطح حرارت کے بارے میں ’’کویوٹا معاہدے‘‘ جسے کلنٹن انتظامیہ نے منظور کر لیا تھا‘ برأت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
اسلحہ کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے نام نہاد ’سرکش ریاستوں‘ کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار آجانے اور ان کے امریکہ کے خلاف استعمال کو ایک خیالی خطرہ باور کرایا جا رہا ہے۔ اس کے سدباب کے لیے روس‘ چین اور یورپی ممالک تک کو ناراض کر کے ۱۰۰ ارب ڈالر سے زیادہ کے صرفے سے ایک ناقابل اعتبار ’’میزائلوں کی ڈھال‘‘ (missile sheild) بنانے کا پروگرام اختیار کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اصل فیصلہ کرنے والی قوت صرف امریکہ ہے‘ باقی ممالک کا کام فقط اس کی ہاں میں ہاں ملانا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے ماضی میں بھی امریکہ کے خلاف بے اعتمادی اور بے زاری کے جذبات پیدا کیے ہیں اور آج بھی عالمی رائے عامہ میں جو امریکہ مخالف رجحان بڑھ رہا ہے اس کے پیدا کرنے میں اس کا بڑا دخل ہے۔ یہ چیز امریکی ہیئت مقتدرہ کی ذہنیت کا ایک حصہ بن گئی ہے۔ امریکہ اپنے آپ کو ہر قانون‘ دستور‘ معاہدے اور بین الاقوامی کنونشن سے بالا سمجھتا ہے--- قانون صرف دوسروں کے لیے ہے‘ سوپر پاور کے لیے نہیں۔ جارج آرول نے روس کے آمرانہ نظام پر جو طنزیہ ناول ’’جانوروں کا باڑہ‘‘ (Animal Farm)لکھا تھا ‘اس کا یہ تاریخی جملہ جس طرح روسی آمر جوزف اسٹالن اور بریزنیف کے نظام پر صادق آتا تھا ‘ اسی طرح وہ آج امریکہ کے طرزعمل کا بھی غماز ہے:
All animals are equal, but some animals are more equal
سب جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور زیادہ ہی برابر ہیں!
امریکہ کے ایک سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے اس ذہنیت کا پردہ متعدد مثالیں دے کر چاک کیا ہے۔ ان کی کتاب: The Fire This Time کا اصل موضوع: ’’خلیج کی جنگ‘‘ اور اس علاقے کے بارے میں امریکی جرائم ہیں (مطبوعہ نیویارک ۱۹۹۴ء)‘ لیکن اس کتاب میں امریکہ کی وہ ذہنیت کھل کر سامنے آتی ہے جس نے عالمی سطح پر بے زاری کو فروغ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ‘ امریکہ جب چاہتاہے اپنی مرضی سے بین الاقوامی قانون کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتا ہے اور کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ روک سکے یا احتساب کرسکے:
امریکہ نے گریناڈا پر حملہ کیا‘ دیہاتوں پر بم باری کی اور افریقہ‘ ایشیا اور وسطی امریکہ کے اقوام متحدہ کے ممبروں کے خلاف فوجی کارروائیوں کی حمایت کی۔ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے احتجاج تو کیے مگر کوئی عملی کارروائی نہ کی۔
۲۰ دسمبر ۱۹۸۹ء کو امریکہ نے پانامہ پر حملہ کیا۔ سیکڑوں غالباً ہزاروں افراد مارے گئے۔ یہ حملہ کویت پر عراق کے حملے سے آٹھ ماہ سے بھی پہلے ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی مذمت کی۔ کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا‘ حالانکہ امریکہ نے ان تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی جن کی عراق نے کویت پر حملہ کرتے ہوئے کی تھی‘ بلکہ مغربی نصف کرّے اور پانامہ نہرکے متعدد معاہدات کی بھی خلاف ورزی کی (ص ۱۵۰)۔
امریکہ نے اس برس جب فلسطینی نسبتاً مساوی حیثیت میں معاملہ کر سکتے تھے‘ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کانفرنس نہیں ہونے دی۔ پھراقوام متحدہ سے بے نیاز ہو کر معاہدے کو اچانک بالجبر تھوپنا چاہا۔ یہ بنیادی طور پر غیر منصفانہ مذاکرات امن کے لیے کوئی امید فراہم نہیں کرتے۔
فلسطینی اپنے مذاکرات کار کا انتخاب تک نہیں کر سکتے‘ کیونکہ اسرائیل ان کے کسی منتخب فرد کو ویٹو کر سکتا ہے۔ مذاکرات کے ہر دن اسرائیلی ‘فلسطینیوں کی نئی زمین پر قبضہ کرتے ہیں‘ ان کے مکانات طاقت کے زور پر خالی کراتے ہیں اور ان کے علاقوں میں اپنے مکانات تعمیر کرتے ہیں۔ امریکہ نے جینوا میں حقوق انسانی کمیشن سے اپیل کی کہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کر دے (ص ۱۵۱)۔ ]یہ وہی کمیشن ہے جس سے مئی ۲۰۰۱ء میں وہ خارج ہو گیا ہے[۔
رمزے کلارک نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۲۴ اور دفعہ ۳۳ کو بالاے طاق رکھ کر محض دھونس اور دھاندلی بلکہ کھلی کھلی رشوت کے ذریعے قرارداد ۶۷۸ منظور کرائی‘ اور چارٹر کے واضح احکام (کہ اقوام متحدہ کے تحت مشترک فوج کی کمان اقوام متحدہ کے نمایندے کے پاس ہو گی) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود کمان سنبھال لی۔ پھر امریکہ اور برطانیہ نے گٹھ جوڑ کر کے مسلسل من مانیاں کیں اور کر رہے ہیں۔ اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے احتجاج کے باوجود کوئی بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکا (ص ۱۵۵-۱۵۳)۔ اس پورے عرصے میں امریکہ نے چارٹر کے مطابق سلامتی کونسل کو کبھی رپورٹ تک نہیں دی۔ اس پورے عمل میں صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کی نہیں بلکہ خود امریکہ کے دستور کی بھی کھلی خلاف ورزی کی گئی‘ جس کے تحت کانگرس‘ جنگ کا اعلان کر سکتی ہے لیکن ایک قرارداد کے ذریعے صدر امریکہ نے اس سے یہ اختیار لے لیا اور پھر کانگرس کو اعتماد میں لیے بغیر اعلان جنگ کر دیا (ص۱۶۱- ۱۵۶)
عین اس دن جب امریکی فوجیںعراق پر حملہ کر رہی تھیں (۱۶ جنوری ۱۹۹۱) ٹیکساس سے امریکی کانگرس کے رکن ہنری گونزالیز(Henery Gonzalez) نے صدر جارج بش کے خلاف دستور کی اس خلاف ورزی پر تحریک مواخذہ پیش کر دی تھی مگر جنگ کے جنون میں وہ آگے نہ بڑھ سکی۔
امریکہ اس بات کا مدعی بھی ہے کہ امریکہ کی کانگرس کسی بھی بین الاقوامی قانون‘ یا معاہدے کو منسوخ کر سکتی ہے یا اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔ اس کے قانون کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا لیکن وہ جس قانون یا معاہدے میںچاہے جو ترمیم‘ تبدیلی یا تحفظات کا اضافہ کر سکتی ہے۔ رمزے کلارک اس کے بارے میں لکھتا ہے :
امریکہ کے پالیسی ساز یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ کانگریس کسی بھی بین الاقوامی قانون کو نظرانداز کر سکتی ہے‘ منسوخ کر سکتی ہے‘ تبدیل کر سکتی ہے یا اس میں ترمیم کر سکتی ہے۔ یہ عالمی برادری سے ایک طرح کا اعلان آزادی ہے اور ایک تنبیہ ہے کہ وہ کسی ایسے بین الاقوامی ضابطے کا پابند نہیں ہوگا جو کانگرس کو پسند نہیں ہے۔ (ص۱۶۶)
اس طرح عالمی عدالت کے بارے میں بھی امریکہ کا رویہ خود پسندی اور اپنی بالادستی کا ہے۔ رمزے کلارک نے بتایا ہے:
جب کہ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک‘ چارٹر کے تحت قائم شدہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کی پابندی کرتے ہیں‘ طاقت ور اقوام کے لیے یہ پابندی بیش تر ان کی مرضی کا معاملہ ہوتی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال وہ تھی‘ جب نکاراگوا کی حکومت نے امریکی جارحیت کے نقصانات کے ازالے کا دعویٰ کیا‘ امریکہ نے عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ نے نکاراگوا کو براہِ راست حملوں اور جنگی کارروائیوں کا نشانہ بنایا اور سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں ۔ ایک مصنوعی حزب اختلاف کھڑی کرنے اور جمہوری اصول و ضوابط کی تحقیر کرتے ہوئے انتخابات کو ’سرقہ‘ کرنے پر تقریباً ۴۸ ملین ڈالر خرچ کیے۔ (ص ۱۶۶‘ ۱۶۷)
امریکہ کے صدر کے بارے میں رمزے کلارک جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:
ایسا شاہی صدر جو جمہوری قوانین اور راے عامہ کا پابند نہ ہو‘ بین الاقوامی قوانین کی جیسی چاہے تعبیر کرے‘ اعلان جنگ کرنے کے اس کے من مانے فیصلوں پر کوئی قدغن نہ ہو‘ اور کسی دشمن کو تباہ کرنے کے لیے فوجی طاقت کا من مانا استعمال کرے۔
ان حالات میں عالمی امن اور بین الاقوامی قانون کا حشر کیا ہوگا اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ رمزے کلارک کے بقول:
امریکہ کے خارجہ پالیسی ساز جس بین الاقوامی قانون پر عمل کرتے ہیں‘ وہ اصول و ضوابط کا کوئی مربوط مجموعہ نہیں ہے۔ اس میں وہی ہوتا ہے جو ان کے لیے پسندیدہ ہو۔ ایسے اصول جو مکمل طور پر سیاست زدہ ہوں اور امتیازی اقدامات پر مشتمل ہوں--- امریکی حکومت کا موقف ایسی طاقت کے عزم کا عکاس ہے جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ (ص ۱۶۸)
رمزے کلارک لیبیا اور عراق کے سربراہان مملکت کو قتل کرنے کے امریکی اقدام کو بین الاقوامی قانون (ہیگ ریگولیشن آرٹیکل۲۳) اور خود امریکی قانون (صدارتی حکم نامہ ۱۲۳۳۳) کی کھلی اور مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیتا ہے کیونکہ یہ دونوں کسی بھی ملک کے سربراہ کے قتل کو ‘ خواہ یہ اقدام عالم جنگ میں کیا گیا ہو‘ قانونی جرم قرار دیتے ہیں۔ (ص ۱۷۰)
یہ اسی ذہنیت کا مظہر ہے کہ امریکہ نے عالمی فوج داری عدالت کے معاہدے کو ابھی تک قبول نہیں کیا ہے‘ کیونکہ اس کے تحت کسی بھی ملک کے مجرم پر بین الاقوامی قانون کے تحت مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفت ہو سکتی ہے۔ جب کہ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ عدالت صرف ان مجرموں پر مقدمہ چلانے کی مجاز ہو گی‘ جنھیں امریکہ یا اس کی کانگرس مجرم قرار دے۔ نیز یہ بھی ایک امریکی دعویٰ ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت کوئی بھی مشترک فوج بنے تو اس کی سربراہی ہمیشہ امریکیوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ امریکہ کی ایک سرکاری دستاویز pp-25 میں جو کلنٹن دور میں جاری کی گئی ‘ صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ:
صدر امریکی افواج پر پوری کمانڈ رکھتا ہے اور کبھی اس سے دست بردار نہیں ہوگا۔ ہر صورت حال پیش آنے پر صدر‘ سلامتی کونسل کے فیصلے کے تحت اقوام متحدہ کی کارروائی کے لیے اقوام متحدہ کے باضابطہ کنٹرول میں امریکی فوج دینے پر غور کرے گا۔ جتنا امریکہ کا فوجی کردار زیادہ ہوگا ‘اتنا ہی اس کا امکان کم ہوگا کہ امریکہ امریکی افواج پر اقوام متحدہ کی کمان پر رضامند ہو۔ ایسے امن مشن جن میں لڑائی کا امکان بھی ہو‘ ان میں امریکی افواج کی شرکت بالعموم امریکہ کی کمان اور نگرانی میں ہونا چاہیے۔ (ملاحظہ ہو کارینگی انسٹی ٹیوٹ کا رسالہ "Ethics & International Affairs جلد ۱۴‘ ص ۶۰)
یعنی متحدہ فوج ہو یا اقوام متحدہ کی مرتب کردہ مشترکہ فوج‘ کمان امریکہ کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ جنرل آئزن ہوور اور جنرل میک آرتھر سے لے کر کوسووا اور بوسنیا امن فورس تک ہر جگہ امریکہ کا اصرار رہا ہے کہ کمانڈ اس کے پاس ہو اور دوسروں نے مجبوراً امریکہ کی اس ضد کے آگے سرتسلیم خم کیا ہے۔
اس ذہن‘ ان عزائم اور ان مطالبات کے ساتھ امریکہ دنیا میں جمہوریت کا علم بردار‘ حقوق انسانی کا محافظ‘ قانون کی مساوات اور پاس داری کا داعی اور انصاف کا پرچارک بنتا ہے--- اور اسٹریجی کا ہدف یہ ہے کہ پوری دنیا کو امریکہ کے وژن اور اقدار کو قبول کر لینا چاہیے۔ لیکن یہی تو وہ اصل وجہ ہے جس کی بنا پر امریکہ اور باقی دنیا میں مغائرت پیدا ہو رہی ہے اور جو دراصل سامراجیت کی روح ہے۔
امریکہ کی مشہور ٹفٹس یونی ورسٹی میں علم سیاسیات کے پروفیسر ٹونی اسمتھ نے Ethics & International Affairs کے تازہ شمارے (مئی ۱۴‘ ۲۰۰۱ء) میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ نہ امریکہ کی طاقت غیر محدود ہے اور نہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنے نظام اور اقدار کو دوسروں پر مسلط کرے۔ کیونکہ یہ لبرل امپریلزم کی ایک شکل ہے جس کا کوئی جواز نہیں:
دوسرے لوگوں میں امریکی اقدار کی ترویج پر دوسرا اعتراض بھی شدید ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو ثقافت ‘ادارے اور ہیئتیں رائج ہوتی ہیں وہ شمالی امریکہ اور مغربی یورپ میں رائج انسانی حقوق اور لبرل ڈیموکریسی کی راہ میں خود مضبوط رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی طرز حیات‘ اقدار اور اداروں کو روبہ عمل لانے کی کوشش میں ناکامی کا اندیشہ ہے ۔اس لیے نہیں کہ امریکی طاقت محدود ہے بلکہ اس لیے کہ بڑے پیمانے پر اس کا استعمال بھی ان عقائد اور طریقوں میں اصلاح نہ کر سکے گا جو بنیادی طور پر امریکی طریقہ کار کے مخالف کیا۔ چین‘ مسلم دنیا یا روس کا امریکی مطالبوں کے آگے سپر ڈالنے کے لیے آمادہ ہونے کا کیا امکان ہے۔
معروف امریکی مفکر والٹر لپ مین نے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ:
جب ایک قوم ساری دنیا کے نظام کو یکساں شکل دینے کی ذمہ داری خود سنبھال لے تو یہ دوسروں کو اپنے خلاف متحد ہونے کی دعوت ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اس کا امکان ہے کہ جوہری اسلحہ صدی کے اختتام سے پہلے وسیع پیمانے پر تقسیم ہو‘ یہ امریکی عوام کی قومی سلامتی کے لیے کوئی خوش کن راستہ نہیں ہے۔ (بہ حوالہ Intervention & Revolutions از رچرڈ بارنیٹ‘ ۱۹۷۲ء‘ ص ۳۱۲)
رچرڈ بارنیٹ اپنی کتاب اس جملے پر ختم کرتا ہے:
امریکہ اپنی موجودہ عظیم طاقت کو دنیا میں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے جس میں غریب اقوام ترقی کے من پسند راستے اختیار کر سکیں۔ مگر جب تک امریکی یہ خام خیالی نہ چھوڑ دیں کہ دنیا بھر میں تبدیلی لانا ان کا حق اور فرض ہے ‘ خود امریکیوں کو بھی امن نصیب نہیں ہوسکتا۔ (ایضاً ‘ ص ۳۳۲)
ہماری نگاہ میں امریکہ پر بے اعتمادی اور اس کی مخالفت کا پہلا اور سب سے اہم سبب دنیا کے ممالک میں کوئی خرابی یا مرض نہیں‘ امریکہ کا یہ زعم ہے کہ وہ واحد سوپر پاور ہے اور ہمیشہ سوپر پاور ہی رہے گا۔ اس کا حق ہے کہ دنیا اس کے سامنے جھکے وار اس کی بالادستی قبول کرے۔ دنیا اسے ایک بڑی طاقت‘ اس کے زمینی حقائق کے مطابق ضرور تسلیم کرے گی ‘مگر اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے کبھی تیار نہ ہوگی۔ وہ اس سے دوستی کا تعلق بہ خوشی رکھے گی ‘مگر غلامی اور چاکری کا مقام کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اگر امریکہ تھوڑی سی حقیقت پسندی قبول کر لے اور بالادستی اور شہنشاہی کی حکمت عملی کو ترک کر دے تو اس کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔ اگر حقوق انسانی کے کمیشن کے انتخابی نتائج سے سبق سیکھتے ہوئے وہ تکبراور رعونت کے راستے کو ترک کر دے تو دنیا اس کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔
امریکہ سے دنیا کی بیزاری کے اسباب کو سمجھنے کے لیے امریکہ کو خود اپنے رویے اور اپنے وعدوں اور عمل کے فرق پر غور کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ایک بڑی چشم کشا کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire گذشتہ برس شائع ہوئی ہے (بلوبیک سی آئی اے کی اصطلاح ہے جس کا مفہوم امریکی عوام کی لاعلمی میں کیے جانے والے اقدامات کا ردّعمل ہے۔ اس کا ترجمہ مکافات کیا جا سکتا ہے)۔ اس کا مصنف کالمیر جانسن‘ یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا‘ سان ڈیاگو (امریکہ) کا پروفیسر اور جاپان پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا سربراہ ہے۔ یہ کتاب امریکہ اوربرطانیہ سے بہ یک وقت مئی ۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی ہے۔ مصنف امریکہ کو اپنے رویے پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے اور تقریباً وہی بات کہہ رہا ہے جو باقی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی زبان پر ہے:
مجھے یقین ہے کہ غیر متعلق اسلحے کے سسٹم پر ہمارے وسائل کا غیر معمولی ضیاع‘ عسکری ’’حادثوں‘‘ کا مسلسل جاری رہنا اور امریکی سفارت خانوں اور چوکیوں پر دہشت گرد حملے اکیسویں صدی میں امریکہ کی غیر رسمی سلطنت کے لیے بحران پیدا کرنے والے عناصر ہیں۔ ایسی سلطنت جو دنیا کے ہر حصے پر فوجی طاقت کے دبائو اور اپنی شرائط ‘مگر دوسروں کی قیمت ‘ امریکی سرمائے اور منڈی کو استعمال کر کے عالمی اقتصادی اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے۔ہم نے اپنے آپ کو ضمیر کی کسی خلش سے بھی آزاد کر لیا ہے ‘کہ ہم اس دنیا کے دوسرے لوگوں کو کتنے برے نظر آ رہے ہیں۔ بیش تر امریکی غالباً جانتے ہی نہیں کہ واشنگٹن کس طرح اپنی بالادستی استعمال کرتا ہے‘ کیونکہ اس سرگرمی کا کافی حصہ خفیہ طور پر یا دوسرے بہانوں کے پردے میں انجام پاتا ہے۔ بہت سوں کو یہ یقین کرنے میں دقت پیش آئے گی کہ دنیا میں ہماری حیثیت ایک سلطنت کی سی ہو گئی ہے۔ لیکن جب ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا ملک خود اپنی بنائی ہوئی سلطنت کا اسیر ہو گیا ہے تو ہمارے لیے دنیا کے بہت سے واقعات کی تشریح کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جاپان میں سرکاری رہنمائی اور سرپرستی میں نصف صدی تک ہونے والی ترقی کے بعد سب کچھ غلط کیوں ہو گیا ہے؟ ایک مضبوط چین کے ظہور سے کسی کو کیا نقصان ہے؟ حقوق انسانی‘ جوہری پھیلائو‘ دہشت گردی اور ماحول کے بارے میں غیر ملکیوں کو امریکی پالیسیاں تضاد اور ژولیدگی کا شکارکیوں نظر آتی ہیں؟ (ص ۷‘ ۸)
کالمیرجانسن نے امریکہ کی پچاس سالہ سیاست کا مکمل دستاویزی نظائر اور حوالوں کے ساتھ پوسٹ مارٹم کیا ہے ۔ وسطی اور جنوبی امریکہ کی ریاستوں سے لے کر ویت نام‘ چین‘ جاپان تک ایک ایک دور اور ایک ایک واقعے سے پردہ اٹھایا ہے۔ کس طرح فوج‘ سی آئی اے ‘ کثیر قومی کمپنیاں اور عالمی مالیاتی ادارے دنیا کے ہر کونے میں امریکہ کے ایما پر اور اس کے مفاد میں دوسروں کے معاملات میں دراندازیاں کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ کس طرح بین الاقوامی قانون اور ضابطوں کو پامال کیا گیا ہے‘ پوری پوری قوموں کو تباہ کیا گیا ہے۔ کن کن طریقوں سے ڈکٹیٹروں کی سرپرستی کی گئی ہے‘ کس طرح کرپشن کے آلہ کار کو استعمال کیا گیا ہے اور مخالفوں کو میدان سے ہٹایا گیا ہے۔ کن ہتھکنڈوں سے جمہوریتوں کا خون کیا گیا ہے اور من پسند فوجی اور سول کاسہ لیسوں کو مسنداقتدار پر براجمان کیا گیا ہے۔ یہ سب سیاہ داستانیں اب ان سرکاری دستاویزات سے ثابت ہوتی ہیں‘ جو رازداری کے قانون کی مدت ختم ہو جانے سے شائع کی جا رہی ہیں اور ان میں بھی ۵.۱۳ فی صد دستاویزات ایسی ہیں جو اب بھی قومی سلامتی کے نام پر روک لی گئی ہیں۔ اس ساری تفصیل کو بیان کرنے کے بعد مصنف کہتا ہے :
ان حالات میں انسانی حقوق یا دہشت گردی کے بارے میں بظاہر بہت اچھے نظر آنے والے بیانات کو بھی امریکہ کے ’گندے ہاتھ‘ ریاکارانہ بنا دیتے ہیں۔ مکافات (blow back) دوسری اقوام پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن اس کے گھن لگنے کے اثرات امریکہ پر سیاسی مباحث کو بے قدر کرنے اور شہریوں کو بے وقوف بنانے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں‘ اگر وہ شہری اپنے سیاسی لیڈروں کے بیانات کو سنجیدگی سے لیں۔ یہ ناگزیر نتیجہ صرف مکافات کا نہیں بلکہ خود سلطنت کا ہے۔ (ص ۱۹)
پالمیر جانسن پوری امریکی قوم کو متنبہ کرتا ہے کہ:
اپنی تعریف کی رُو سے دہشت گردی بے گناہوں کو ہدف بناتی ہے تاکہ جو حملوں سے محفوظ بیٹھے ہیں ان کی غلط کاریوں کی طرف توجہ دلائی جاسکے۔ حالیہ عشروں میں جو استعماری مہم جوئیاں ہو رہی ہیں‘ اس کی فصل اکیسویں صدی کے بے گناہ غیر متوقع تباہیوں کی صورت میں کاٹیں گے۔ اگرچہ بیشتر امریکی بڑی حد تک ناواقف ہیں کہ ان کے نام پر کیاکچھ کیا گیا تھا اور کیا جا رہا ہے‘ وہ اس کی انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کوششوں کی گراں قیمت ادا کریں گے جو ان کی قوم نے عالمی منظر پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کی ہیں۔ اس سے پہلے کہ بے مہار فاتحانہ اقدامات اور پروپیگنڈے سے نقصان قابو سے باہر ہو جائے ہمیں سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد اپنے عالمی کردار پر نئے مباحثے کو اہمیت دینا چاہیے۔ (ص ۳۳)
امریکہ کو خود احتسابی کی دعوت دیتے ہوئے کالمیر جانسن یاد دلاتا ہے کہ:
امریکی افسران اور میڈیا عراق اور شمالی کوریا جیسی سرکش ریاستوں کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں لیکن ہمیں خود اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کہیں امریکہ خود تو ایک سرکش سپرپاور نہیں بن گئی ہے۔ (ص ۲۱۶)
وہ لاس اینجلز ٹائمز کے کالم نگار ٹام پلیٹ کا ایک جملہ دہراتا ہے کہ امریکہ ایک ایسی سوپر پاور بن گئی جس کا حال یہ ہے کہ دماغ کی جگہ کروز میزائل بھرے ہیں۔
وہ امریکہ کے عوام اور قیادت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا ہے:
ہم امریکی گہرا یقین رکھتے ہیں کہ دنیا میں ہمارا کردار نیک ہے اور ہمارے تمام اقدامات بلاامتیاز دوسروں کی اور ہماری بھلائی کے لیے ہیں۔ جب ہمارے اقدامات کے نتیجے میں تباہی رونما ہوتی ہے تو ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ان کے محرکات بہت اچھے تھے ۔لیکن واقعات بتا رہے ہیں کہ سرد جنگ کے بعد کے عشروں میں امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی کے نفاذ میں سفارت کاری‘ اقتصادی امداد‘ بین الاقوامی قانون اور کثیر جہتی اداروں پر انحصار ترک کر دیا۔ اور ساری توجہ زیادہ فوجی طاقت اور مالی ہیرپھیر میں لگا دی ہے۔ (ص ۲۱۶‘ ۲۱۷)
ان حالات کے نتیجے میں دنیا کے مظلوم اور مجبور انسان اور قومیں ہی مصائب کا شکار نہیں ‘خود امریکہ بھی ایک فوجی اقتصادی عفریت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ معاشرے میں تشدد کے رجحانات جنم لے رہے ہیں‘ معیشت کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں اور ملک وقوم بالآخر تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:
بین الاقوامی سیاسیات کے پروفیسر ڈیو ڈلیکو نے لکھا ہے: ’’عالمی نظام محض غیر متوازن اور جارح طاقتوں کے عمل کی وجہ سے جو اپنے پڑوسیوں پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ نہیں ٹوٹتا بلکہ اس لیے بھی ٹوٹتا ہے کہ یہ طاقتیں مطابقت پیدا کرنے کے بجائے استحصالی بالادستی قائم کرتی ہیں۔ (Beyond American Hegemony ‘ ص ۱۴۲ )
میں سمجھتا ہوں کہ بیسویں صدی کے اختتام پر امریکہ پر یہ بیان ٹھیک ٹھیک منطبق ہو رہا ہے۔ اِس استحصالی بالادستی کی علامات نظر آ رہی ہیں: عوام اور حکومتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی اجنبیت‘ اخلاقی جواز کھو دینے کے باوجود اشرافیہ کا اقتدار سے چپکے رہنا‘ عسکریت کا اظہار اور فوج کا سوسائٹی سے بُعدجس کی خدمت اس کا فریضہ ہے‘ خطرناک جبرواستبداد اور ایک اقتصادی بحران جو عالمی ہے۔ تاریخ میں ایسی کم ہی مثالیں ہیں جب بالادست طاقتوں نے اپنے زوال کو عروج سے بدل دیا ہو‘ یا اقتدار کو پرامن طور پر چھوڑ دیا ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مکافات (blowback) سے بالآخر ایک بحران پیدا ہوگا جو اچانک امریکہ کے بالادست اثرات کو ختم کر دے گا یا بے وزن کر دے گا۔(ص ۲۲۴)
جانسن کا خیال ہے کہ اس انجام سے اب بھی بچا جا سکتا ہے بشرطیکہ امریکہ کی قیادت استحصالی بالادستی کا راستہ ترک کر کے جائز اخلاقی اور سیاسی حدود کی پاس داری کا راستہ اختیار کرے اور ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول پر عمل کرے۔ موصوف اپنی کتاب اس پیغام پر ختم کرتے ہیں:
امریکہ کو فوجی طاقت اور اقتصادی دبائو کے بجائے سفارت کاری کے ذریعے نمونہ پیش کرکے رہنمائی دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسی بات نہ غیر حقیقت پسندانہ ہے نہ انقلابی۔ سرد جنگ کے بعد کی دنیا کے لیے‘ امریکہ کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی بہبود کو اپنی استعماریت کے دعووں پر مقدم رکھے۔ بہت سے امریکی قائدین سمجھتے ہیں کہ اگر بیرون ملک امریکی اڈے بند کر دیے جائیں یا ایک چھوٹے ملک کو اپنی معیشت خود چلانے کی اجازت دی جائے تو دنیا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ اگر امریکہ اپنی دم گھونٹنے والی گرفت ڈھیلی کردے تو ترقی اور بہتری کے کتنے چشمے دنیا میں پھوٹ پڑیں گے۔ انھیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ استعماری بالادستی قائم رکھنے کی ان کی کوششیں لامحالہ مکافات کی لہریں پیدا کریں گی۔ یہ کہنا ناممکن ہے کہ کھیل کب ختم ہوگا لیکن اس بارے میں کم ہی شبہ ہے کہ یہ کیسے ختم ہوگا۔
اکیسویں صدی میں عالمی سیاست بیسویں صدی کے آخری نصف کے بعد کے اثرات کے تحت ہو گی یعنی سرد جنگ کے غیر ارادی نتائج اور یہ اہم امریکی فیصلہ کہ وہ سرد جنگ کے بعد کے دور میں بھی اپنا سرد جنگ کا رویہ برقرار رکھے گا۔ امریکہ اپنے آپ کو سرد جنگ کا فاتح قرار دینا پسند کرتا ہے۔ آج سے ایک صدی بعد جب لوگ پچھلی صدی پر نظر ڈالیں گے تو زیادہ امکان ہے کہ کوئی بھی فریق فاتح نظر نہ آئے گا‘ خصوصاً اگر امریکہ اپنے موجودہ استعماری طریقوںکو اختیار کیے رکھتا ہے۔ (ص ۲۲۹)
امریکہ کی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ عالمی بالادستی اور سامراجی استیلا ‘ عالمی برادری اور رفاقت دونوں ساتھ ساتھ نہیںچل سکتے۔ اگر آپ قوت کے نشے میںبدمست رہیں گے‘ غلبہ اور استیلا کا کھیل کھیلیں گے‘ رعونت اور غرور کا رویہ اختیار کریں گے‘ اگر آپ دوسروں کی آزادی‘ عزت نفس اور مفادات کا خیال نہیں رکھیں گے‘ اور دوسری اقوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور عسکری اور معاشی شکنجوں میں گرفتار رکھنے کی کوشش کریں گے تو آخرکار اس کا شدید ردّعمل ہوگا۔ نہ صرف یہ کہ امن‘ دوستی‘ محبت‘تعاون سے دنیا محروم رہے گی بلکہ بے اعتمادی‘ بے زاری اور بالآخر نفرت اور تصادم کی فصل رونما ہوگی---اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ تصادم ہمیشہ طاقت ور کی فتح ہی پر منتج نہیں ہوتا۔ ہاتھی اپنی قوت کے گھمنڈ پر چیونٹی کو کچلنے کے درپے رہتا ہے لیکن جب چیونٹی ہاتھی کی سونڈھ کے اندر رسائی پا لیتی ہے تو یہ ننھا سا بھونگا (صدر جانسن کے الفاظ میں: flea) ہاتھی کو بے بس کردیتاہے ۔ اس طرح بھی انسانوں اور قوموں کی قسمتیں بدل جاتی ہیں: تلک الایام نداولھا بین الناس!