زیر تبصرہ کتاب‘ ہماری قومی و ملّی زندگی کے بعض حوادث کی پس پردہ کہانیوں کو بہت عمدگی سے بے نقاب کرتی ہے۔
مصنف نے پہلے حصے میں تحریک پاکستان کے ایک نوجوان اور فعال کارکن کی حیثیت سے اپنے مشاہدات اور سرگرمیوں کی تصویر پیش کی ہے۔ جب وہ قائداعظم ؒاور دیگر بہت سے قائدین سے ملاقاتوں کی تفصیل بیان کرتے ہیں تو پڑھنے والا اپنے آپ کو ان واقعات کا چشم دید سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔
۳۰ جولائی ۱۹۴۴ء کو لاہور میں مسلم لیگ کونسل کا سالانہ اجلاس تھا۔ حسب ضابطہ کارڈ دکھا کر ہی پنڈال میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ ڈیوٹی پر موجود نوجوان نے قائداعظمؒ کو بھی کارڈ دکھائے بغیر اندر جانے سے روک دیا (ص ۵۶)۔ یہ نوجوان اس کتاب کے مصنف تھے۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے کے ایسے واقعات‘ قاری کی طبیعت میں ایک ولولہ پیدا کرتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد مصنف نے پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا‘ اور متعدد اہم عہدوں پر فائز رہے۔ کتاب میں انھوں نے اس روایت کو توڑا ہے‘ جس کے تحت بہت سی اہم باتیں بیان کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ بریگیڈیئر صاحب نے کھلی آنکھوں سے واقعات کو دیکھا‘ کھلے کانوں سے واقعات کی چاپ سنی اور بیدار ذہن کے ساتھ انھیں اس آپ بیتی میں ریکارڈ کر دیا ہے۔
’’پاکستانی فوج کی قلب ماہیت‘‘ (ص ۸-۱۴۲) میں انھوں نے قیام پاکستان کے بعد کی فوجی دنیا کے مغربیت زدہ کلچر کا ذکر کیا ہے جہاں شراب اور رقص و سرود مغربی طرز حیات کے لازمی اجزا تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ۱۹۷۲ء میں نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ٹکا خان نے فوج میں شراب کے استعمال کی ممانعت کر دی‘ مگر اس سے آگے بڑھ کر پاکستانی فوج کو نظریاتی اعتبار سے اسلامی قالب میں ڈھالنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی‘ تاآنکہ جنرل ضیاء الحق مارچ ۱۹۷۶ء میں فوج کے سربراہ مقرر ہوئے تو انھوں نے فوج کے لیے ماٹو تجویز کیا: ایمان‘ تقویٰ ‘ جہاد فی سبیل اللہ۔ اس وقت میں ہیڈ کوارٹر میں ڈائریکٹر پرسونل سروسز (DPS)تھا‘ اور فوج کا دینی شعبہ میرے زیرنگرانی تھا۔ چنانچہ مجھے جنرل ضیاء الحق نے احکام جاری کیے کہ تمام ہیڈ کوارٹروں اور یونٹوں کے صدر دروازوں اور ریڈنگ روم وغیرہ میں یہ ماٹو جلی حروف میں لکھا جائے اور فوج کے اندر ان کی اہمیت واضح کرنے کا بندوبست کیا جائے‘ تاکہ ہر افسر پر واضح ہو جائے کہ ایک اسلامی فوج کے کیا تقاضے ہوتے ہیں (ص ۱۴۲-۱۴۳)۔ اس باب میں انھوں نے ان اقدامات کی تفصیل بیان کی ہے‘ جو گیریژن کی فضا کو اسلامی کلچر سے مربوط کرنے کے لیے کیے گئے۔
۱۹۶۲ء میں مصنف کا تقرر ملٹری انٹیلی جنس میں ہوا۔ انھی دنوں ان کے انچارج جنرل نوازش ملک نے کہا کہ کمانڈر انچیف جنرل موسٰی خاں محسوس کر رہے ہیں کہ فوجی افسروں میں پیشہ ورانہ سوچ میں کمی آرہی ہے‘ وہ اس کی وجوہ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے فوری طور پر انھیں مختصراً اس کی تین وجوہ سے آگاہ کیا۔ اوّل: کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد کی رہایشی اسکیموں میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی دوڑ۔ دوم: بنکوں سے قرضے لینے کی وبا۔ سوم: حاضر سروس فوجی افسروں میں پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ خالی رقبوں کو الاٹ کرانے کا کلچر۔ میں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح افسروں کی توجہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے ہٹ کر سرمایہ کاری کی طرف مبذول ہو رہی ہے (ص ۱۵۸-۱۵۹)۔ آخر یہی ہوسِ زر ہماری قومی معیشت کی تباہی اور بربادی کا باعث بن گئی۔
ایک جگہ انھوں نے اپنے ایک ساتھی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’افسوس کہ فوج کا یہ بہادر اور قابل سپوت اپنی ناپسندیدہ ’’غیر نصابی سرگرمیوں‘‘ کی وجہ سے جنرل کے عہدے پر ترقی نہ پا سکا‘‘ (ص ۱۹۳)۔ آگے چل کر مصنف نے راز ہاے درون خانہ کے ایک شاہد کی حیثیت سے فوجی قیادت کے ایک عاقبت نااندیشانہ فیصلے کی تفصیل بیان کی ہے۔ جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء سے چند ماہ قبل پاک فضائیہ کے سربراہ نے تجویز پیش کی تھی کہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں‘ ہم پاک آرمی کے کمانڈوز کو دشمن کے ]اہم جنگی[ ہوائی ڈوں پر پیراشوٹ کے ذریعے اُتار دیں گے اور یہ کمانڈوز بھارتی طیاروں اور تنصیبات کو تباہ کر کے چھپتے چھپاتے واپس آجائیں گے ۔ تمام خطرات کے باوجود جنرل ہیڈ کوارٹر نے ہاں کہہ دی۔ جنگ شروع ہوئی تو پاک فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل نورخان نے اس تجویز پر عملی جامہ پہنانے کا تقاضا کر دیا۔ ایس ایس جی کے کمانڈر نے دبے لفظوں میں اس کی مخالفت کی‘ مگر بریگیڈیئر بلگرامی نے اس موقف کو یہ کہہ کر ردّ کر دیا کہ اس نازک لمحے پر اگر ہم نے یہ بات نہ مانی تو فضائیہ کے جذبۂ اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی۔ چنانچہ ۱۸۰ بہترین تربیت یافتہ کمانڈوز‘ ۶ اور ۷ ستمبر کی درمیانی رات‘ پٹھان کوٹ‘ آدم پور اور بلواڑہ کے ہوائی اڈوں پر پیراشوٹوںکے ذریعے اُتار دیے گئے جو دشمن کو کوئی خاطر خواہ نقصان نہ پہنچا سکے۔ ان میں سے کچھ شہید ہو گئے‘ بہت سے قیدی بنا لیے گئے۔ صرف ایک کیپٹن حضور حسنین چند ہفتوں بعد بہاول پور کے قریب سرحد عبور کر کے واپس آگئے (ص ۱۹۸-۱۹۹)۔ یہ واقعہ‘ ہمارے اس سماجی رویے پر نوحہ کناں ہے کہ ہمارے ہاں اکثر احمقانہ اقدام‘ اس ’’مجبوری‘‘ کے تحت اٹھا لیے جاتے ہیں کہ ’’لو گ کیا کہیں گے؟‘‘ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اس ’’کیا کہیں گے‘‘ کے جبر کے نتیجے میں جو قیمتی جانی نقصان ہوگا‘ اس کا خون کس کی گردن پر ہوگا۔ یہ کتاب ایسی ہی عبرت آموز تفصیلات پیش کرتی ہے۔
مصنف نے سیاسی حوالے سے بھی بعض اہم انکشافات کیے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں: اگر تلہ سازش کیش صحیح تھا‘ صدر ایوب خان اس کے ملزموں میں‘ شیخ مجیب کو شخصی طور پر ملوث نہیں کرنا چاہتے تھے‘ مبادا یہ مقدمہ سیاسی ایشو بن جائے۔ مگر وزیر دفاع اے آر خاں اور گورنر مشرقی پاکستان عبدالمنعم خاں‘ مجیب سے ذاتی انتقام لینا چاہتے تھے‘ ان کے اصرار پر مجیب کا نام بھی مقدمے میں شامل کر دیا گیا۔ اس بھیانک غلطی سے مقدمے کی نوعیت سیاسی ہو گئی اور عوام کو ایوب کے خلاف بھڑکانے کا موقع مل گیا۔ (ص ۲۱۱)
آگے چل کر وہ بتاتے ہیں کہ ۱۹۷۷ء میں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک کے دوران لاہور میں فوج کے افسروں نے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کیا تھا۔ مصنف کا ذاتی خیال ہے کہ یہ سوچ نظم و ضبط کے منافی تھی۔
مصنف کی بصیرت کے نشان کتاب کے صفحات پر بکھرے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے عملی زندگی کے آغاز ہی سے اجتماعی زندگی کے معاملات میں دلچسپی لی اور سیاسی و قومی جدوجہد میں حصہ لیا۔ ظاہر ہے کہ ان کاموں میں وہی فرد حصہ لے سکتا ہے‘ جو دل دردمند رکھتا ہو۔ ہمارے خیال میں یہ کتاب اہل سیاست ‘ اہل دانش اور ان سے بڑھ کر فوجی قیادت کے لیے بصیرت کے باب وا کرتی ہے۔ سچائی کے اظہار‘ اسلوب بیان کی سادگی اور مقصدیت کے احساس نے کتاب کو دل چسپ بنا دیا ہے۔ (سلیم منصور خالد)
رام پور یوپی سے شائع ہونے والے‘ خواتین اور طالبات کے رسالے حجاب کا تعارف’’کتاب نما‘‘ میں پہلے بھی آچکا ہے (مثلاً: اگست ۲۰۰۰ء)۔ بھارت کے معروف ادیب‘ نقاد اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر ابن فرید اور ان کی اہلیہ امّ صہیب رسالے کو نہایت نامساعد حالات اور اپنی پیرانہ سالی کے باوجود‘ نیز مالی خسارہ اٹھاتے ہوئے بھی‘ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ ’’ایک بھرپور گھریلو رسالہ ‘‘ ہے جس میں ہر ماہ حمد و نعت کے ساتھ سیرت اور دینی تعلیمات پر مضامین اور خواتین کے فقہی مسائل‘ صحت اور طعام کے مستقل صفحات کے علاوہ ادبی و شعری حصہ بھی شامل ہوتا ہے (اصلاحی افسانے اور غزلیں وغیرہ)۔ حجاب نے وقتاً فوقتاً خاص نمبر بھی شائع کیے ہیں۔
حال ہی میں حجاب نے ’’ارشادات رسولؐ نمبر‘ خواتین سے متعلق‘‘ شائع کیا ہے۔ خواتین سے متعلق احادیث کے عنوانات کے ساتھ ایک ایک‘ ڈیڑھ ڈیڑھ صفحے میں تشریح کی گئی ہے۔خواتین کے جملہ مسائل کے بارے میں ان احادیث سے بڑی جامع ہدایات ملتی ہیں۔ ۱۰ تشریحات امّ صہیب کی اور باقی تشریحات ڈاکٹر ابن فرید کے قلم سے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ادیب ہیں‘ علم نفسیات سے بھی بخوبی واقف ہیں اور دین کا فہم بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کی تشریحات مختصر ہونے کے باوجود نپی تلی جامع اور موثر ہیں۔ زیادہ تر انھوں نے عصر حاضر کے تناظر میں بات کی ہے۔ حجاب‘ جو خدمت انجام دے رہا ہے اس کے پیش نظر ‘ اس کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
حکیم محمد سعید ؒکی ذات محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ وہ پاکستان کی اُن گنی چنی شخصیات میں سے ہیں جنھوں نے اپنے وسائل اور اختیارات کو ذاتی خواہشات کی تکمیل کے بجائے قومی اور ملّی مقاصد کے حصول اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا‘ اور عمر بھر ’’خدمت‘‘ کو اپنا شعار بنایا‘ چنانچہ وہ نیک نام کے ساتھ رخصت ہوئے اور شہادت کے مرتبۂ بلند پر فائز ہوئے۔
زیرنظر کتاب شہید حکیم ؒکے ان مصاحبوں (انٹرویوز) پر مشتمل ہے جو اخبارات اور رسائل میں چھپے۔ پہلا مصاحبہ پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہوا۔ ان مصاحبوں سے حکیم صاحب کی شخصی اور نجی زندگی اور اُن کی شخصیت اور ذہن و فکر کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ ساتھ ملکی‘ قومی‘ ملّی ‘ تعلیمی‘ طبّی اور انتظامی امور و مسائل پر ان کے طرزِعمل اور رویوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
حکیم صاحب نے نہایت صاف گوئی کے ساتھ اور کھرے انداز میں اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں‘ اُن کی دلچسپی بنیادی طور پر دو شعبوں سے رہی۔ ایک: طب‘ اور دوسرے: تعلیم۔ صحت کو وہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ سمجھتے تھے لیکن وہ یونانی یا مشرقی طب کی اہمیت کے ساتھ ساتھ ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھک کے بارے میں کسی تعصّب میں مبتلا نہیں تھے۔ ہاں‘ وہ یہ چاہتے تھے کہ طّب کا بڑا انحصار نباتات پر ہونا چاہیے اور ہمیں synthetic دوائیں استعمال نہیں کرنی چاہییں کیونکہ انسانی جسم پر ان کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس بات سے شاید ہی کوئی طبیب ‘ ڈاکٹر یا ہومیوپیتھ اختلاف کرے گا۔
حکیم صاحب کو اس بات کا بھی بڑا قلق تھا کہ پاکستان میں تعلیم کو نظرانداز کر کے قوم کو جاہل رکھا گیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان اور صاحبانِ اقتدار اگر پاکستان کے دوست ہوتے تو پاکستان میں اولیّت تعلیم کو حاصل ہوتی (ص ۱۰۵)۔ اسی طرح اُن کے خیال میں علماے کرام کو نفاذِ اسلام کے ساتھ تعلیمی نفاذ کی بات بھی کرنی چاہیے۔ کیونکہ ’’جب تک تعلیمی انقلاب اسلامی برپا نہیں کیا جائے گا‘ اسلامی انقلاب نہیں آئے گا‘‘ (ص ۱۰۶)۔ ان کی زندگی کی اوّلین و آخرین خواہش یہ تھی کہ وطن کے ہر انسان کو صحت اور تعلیم کی سہولت میسر ہو۔ انھیں افسوس تھا کہ ہم نے اپنے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں لوگوں کو پاکستان سے محبت کرنے کا کوئی درس نہیں دیا (ص ۱۷)۔ مرحوم کو اپنی زندگی ہی میں جو شہرت اور عزت حاصل ہوئی‘ وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے‘ کیوں؟
اشاعتی پیش کش ‘ ہمدرد کے عمدہ معیار کے مطابق ہے۔ (ر - ہ)
گذشتہ نصف صدی میں ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں نے پاکستان سے بھارت کا سفر کیا اور سیکڑوں افراد نے اس وسیع و عریض ملک کے جس حصے کا بھی سفر کیا اس کے بارے میں اپنے مشاہدات‘ تجربات اور تاثرات قلم بند کیے۔ زیرنظر سفرنامہ بھارت میں چار ہفتے اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
ہر سفرنامے کے مصنف کا میدانِ عمل ‘ اسلوب تحریر‘ زاویہ نگاہ اور اندازِ بیان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اسی لیے یہ صنف ادب زیادہ دل چسپی سے پڑھی جاتی ہے۔ سید علی اکبر‘ اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے‘ اور بنارس یونی ورسٹی ان کی مادرِ علمی رہی۔ اب بھی ان کے بعض اعزہ و اقارب وہیں مقیم ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ بھارت کے بارے میں ان کی معلومات کا دائرہ خاصا وسیع ہے‘ چنانچہ ان کے مشاہدات میں گہرائی ہے۔ لکھنؤ‘ بنارس‘ اعظم گڑھ‘ علی گڑھ‘ کلکتہ اور دہلی کے سفر کی یہ داستان دل چسپ ہے۔ اس سفرنامے کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جو بھارت کے دیگر سفرناموں میں نہیں ملتا اور وہ یہ کہ اس سفر میں علی اکبر صاحب بیسیوں مذہبی (خصوصاً شیعی تعلیمی) اداروں میں گئے (زیادہ تر لکھنؤ میں) جن سے متعلق کتاب میں نادر معلومات درج ہیں۔ کتاب میں ۶۰ سے زائد تصاویر بھی شامل ہیں۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)