ہجرتِ حبشہ کی جو تفصیل اوپر بیان ہوئی ہے اس سے بعض اہم پہلو سامنے آتے ہیں:
۱- خصوصی حالات میں ہجرت: حبشہ ہجرت کرنے کی صحابہ کرامؓ کو اس وقت اجازت دی گئی‘ جب کہ مکّہ کی سرزمین ان کے لیے تنگ ہو گئی‘ دین پر قائم رہنا دشوار سے دشوار تر ہوگیا‘ اور دعوت کی راہیں مسدود ہو گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جس ملک میں رہتے ہیں‘ وہاں دین پر عمل کی اگر آزادی ہے ‘ دعوت کے مواقع حاصل ہیں اور اس کی راہیں کھلی ہیں تو اس ملک کو چھوڑنے یا اس سے ہجرت کا جواز ان کے لیے نہیں ہے۔ ان کی دینی ذمّہ داری ہے کہ وہ وہیں قیام کریں اور دین پر عمل کرتے ہوئے اس کی دعوت و تبلیغ اور سربلندی کی جدوجہد جاری رکھیں (تلاشِ معاش یا کسی دنیوی غرض سے کسی ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہونایا رہایش اختیار کر لینا ہجرت نہیں ہے)۔
۲- دین کی محبت کو فوقیت: ہجرت کرنے والوں نے انتہائی بے بسی اور مجبوری کی حالت میں اپنا وطن چھوڑا‘ گھر بار چھوڑا اور اپنے خویش و اقارب سے قطعِ تعلق کیا اور اجنبیت کی زندگی اختیار کی۔ کوئی
تنِ تنہا تھا‘ کوئی جوان بیوی اور ننھے اور معصوم بچے کے ساتھ تھا‘ کسی کے پاس سواری تھی‘ زیادہ تر پیدل تھے۔ تن بہ تقدیر ایک نامعلوم مستقبل کی طرف چل پڑے۔ وہ قدم قدم پر اس بات کا ثبوت فراہم کرتے چلے جا رہے تھے کہ اللہ کا دین ان کے لیے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دے سکتے ہیں۔ اسی جذبے نے انھیں دُنیا اور آخرت کی کامیابی سے ہم کنار کیا۔
۳- دارالامن کی طرف: حبشہ ایک غیر اسلامی اور عیسائی سلطنت تھی لیکن وہاں مسلمانوں کو اسلامی عقیدے پر قائم رہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی آزادی تھی۔ تبلیغ کے مواقع بھی حاصل تھے۔ اس پہلو سے وہ مہاجرین کے لیے دارالامن بن گیا۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر کسی ملک میں اسلام پر قائم رہنا سخت دشوار ہو جائے اور کوئی دارالاسلام‘ جہاں مسلمان ہجرت کر سکے‘ موجود نہ ہو‘ تو وہ کسی غیر اسلامی ملک میں جہاں دین پر عمل اور اس کی دعوت و تبلیغ کی آزادی حاصل ہو‘ ہجرت کر سکتا ہے۔
۴- حلیف غیر مسلم سے ہمدردی: نجاشی کا ایک حریف‘ سلطنت کا دعوے دار بن کر اس کے خلاف کھڑا ہوا۔ دونوں کے درمیان معرکہ آرائی کی نوبت آگئی‘ اس میں مسلمانوں کی ہمدردی نجاشی کے ساتھ تھی‘ اس لیے کہ نجاشی عدل و انصاف کا علم بردار تھا۔ ظلم و زیادتی کو صحیح نہیں سمجھتا تھا۔ اس نے مملکت میں یہ اعلان کر رکھا تھا کہ کسی شخص کو مسلمانوں پر دست درازی کی اجازت نہ ہوگی ورنہ اس پر جرمانہ عائد ہوگا۔ اس طرح نجاشی نے ان کے دین اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لیے تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس کے حریف کے بارے میں یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی تھی کہ وہ اسی طرح کا رویہ اختیار کرے گا۔ اس لیے مسلمانوں کی ہمدردی نجاشی کو حاصل تھی اور وہ اس کی کامیابی کے آرزومند تھے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو مسلمان کسی غیر اسلامی سلطنت میں رہتے ہیں انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کس فرد یا گروہ کا اقتدار اسلام کے لیے اور خود ان کے لیے بہتر اور مفید ثابت ہوگا اور جو اقتدار بہتر ہو اس کے حق میں ان کی ہمدردی ہونی چاہیے۔
۵- دعوت و تبلیغ کا نیا چیلنج: دعوت و تبلیغ کے معاملے میں ہجرتِ حبشہ ایک نیا تجربہ تھا۔ مکّہ میں مشرکین سے سابقہ تھا۔وہاں شرک کی نامعقولیت واضح کی جا رہی تھی اور توحید کے دلائل دیے جا رہے تھے۔ حبشہ میں مسلمان ایک نئی صورت حال سے دوچار تھے۔اس عیسائی مملکت میں چاروں طرف عیسائیت کا چرچا تھا اور مسیحی عقائد زیربحث تھے۔ ہجرت حبشہ سے پہلے مکّہ ہی میں سورہ مریم نازل ہو چکی تھی جس میں حضرت مریم اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی صحیح حیثیت واضح کی جا چکی تھی۔ ان کی تعلیمات بھی تفصیل سے بیان ہوئی تھیں۔ سورہ کہف میں ابن اللہ کے تصور کی تردید اور عیسائی تاریخ کے بعض واقعات‘ توحید کی دعوت اور اس پر استقامت کا ذکر تھا۔ اس طرح مہاجرین اس نئی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے پہلے سے علمی اور فکری طور پر تیار تھے۔ نجاشی کے دربار میں اس سے فائدہ اٹھایا اور اس کے مطالبے پر قرآن کی تعلیمات قرآن ہی کے الفاظ میں پیش کیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس دَور میں اور جس ماحول میں جو علمی و فکری سوالات اُبھریں اسلام کی دعوت کے لیے ان کا جواب فراہم کرنا ضروری ہے‘ ورنہ اسلام کی حقانیت ثابت نہ کی جا سکے گی اور دعوت کا حق ادا نہ ہوگا۔
۶- ایمان‘ عزم اور جرأت کی اہمیت: نجاشی اپنے دربار میں اعیانِ سلطنت اور مذہبی رہنمائوں کے ساتھ موجود تھا۔ وہ سب اسلام سے بے خبر اور عیسائیت کے ماننے والے اور اس کے علم بردار تھے۔ ان کے درمیان حضرت جعفرؓ نے ایمانی جرأت کا زبردست ثبوت دیا۔ اسلام کے عقائد‘ توحید ‘ رسالتؐ اور آخرت کے تصور اور اس کے اخلاقیات کی وضاحت کی اور حضرت عیسٰی ؑ کے بارے میں اسلام کے عقیدے کو
بے کم و کاست پیش کیا۔ اس طرح یہ ثابت کر دیا کہ نازک سے نازک حالات میں بھی دین کی ترجمانی اور اس کی تعبیر و تشریح میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے‘ حالات اور ماحول کے زیراثر اسلام کی ناقص اور نامکمل ترجمانی کی اجازت نہیں ہے۔ ان حضرات کا عزم و حوصلہ اور ایمانی جذبہ قیامت تک داعیانِ دین کے لیے نمونہ ہے۔
۷- حکمران کا قبولِ اسلام: روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی اسلام لے آئے تھے۔ متعدد واقعات سے ان کا اسلام پر ایمان و یقین‘ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور خیرخواہی کا ثبوت ملتا ہے۔ انھوں نے حضرت جعفرؓ کی تقریر سننے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنے دربار میں کہا کہ یہی وہ آخری پیغمبر ہیں جن کی بشارت انجیل میں دی گئی ہے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں آپؐ کی تعلیمات بالکل صحیح ہیں۔ آپؐ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے موقع ہوتا تو میں آپؐ کی خدمت میں پہنچتا اور آپؐ کے پیر دھوتا‘ لیکن مملکت پر ان کا اتنا مضبوط کنٹرول نہیں تھا کہ وہ کھل کر اسلام کا اظہار کرتے۔ حبشہ کے عوام اسے برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ جب وہاں کے لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ ان کا عقیدہ بدل گیا ہے تو وہ بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔ اس صورت حال کے پیش نظر نجاشی نے حضرت جعفر ؓ اور اُن کے ساتھیوں کو اپنے پاس بلایا۔ ان کے لیے کشتیوں کا انتظام کیا اور کہا کہ آپ حضرات ان کشتیوں پر سفر کے لیے تیار رہیں۔اگر مجھے شکست ہو جائے تو جہاں چاہیں چلے جائیں۔ لیکن اگر مجھے فتح حاصل ہو تو حسب سابق یہیں قیام کریں۔ پھر ایک تحریر لکھی جس میں کلمہ ء شہادت اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ تھا اور یہ بھی تھا کہ نجاشی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ ابن مریم اللہ کے بندے ‘ اس کے رسول اور اس کی روح تھے اور اس کا کلمہ تھے جسے اس نے مریم کے اندر پھونکا تھا۔ اس تحریر کو نجاشی نے اپنی عبا کے نیچے دائیں جانب رکھ چھوڑا۔ اس کے بعد حبشہ کے باغی گروہ کے پاس پہنچا۔ وہ اس کے مقابلے کے لیے صف باندھے تیار تھے۔ اُن سے کہا: لوگو! کیا میں اس ملک پر حکومت کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں آپ ہی اس کے مستحق ہیں۔ نجاشی نے سوال کیا کہ: تم نے میرے اخلاق اور میری سیرت کیسی دیکھی؟ لوگوں نے جواب دیا: آپ بہتر سیرت کے مالک ہیں‘ لیکن آپ نے ہمارا دین ترک کر دیا ہے اور یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ اللہ کے بندے تھے۔ نجاشی نے ان سے سوال کیا کہ: حضرت عیسٰی ؑ کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ: ہم انھیں ابن اللہ سمجھتے ہیں۔ اس پر نجاشی نے عبا کے اوپر سے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا: عیسٰی ؑ ابن مریم اس سے زیادہ کچھ نہ تھے۔ (نجاشی کی مراد اس تحریر سے تھی جو ان کی عبا کے نیچے تھی لیکن مجمع نے سمجھا کہ وہ ان کے خیال کی تائید کر رہے ہیں)۔ وہ خوش اور مطمئن ہو گئے اور بغاوت ٹل گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی یہ بات پہنچی تھی۔ (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویۃ: ۱/۳۷۸-۳۷۹۔ ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۲۸-۲۹)
۸- باحیثیت افراد کی مجبوریاں: اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایک عام آدمی ہی نہیں‘
صاحب حیثیت اور بااقتدار فرد بھی ایسے حالات میں گھر سکتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کا اعلان اور اظہار نہ کر سکے۔ شریعت پر نجاشی کس حد تک عمل کر رہے تھے‘ اس کی تفصیل نہیں ملتی۔ شریعت پر کھل کر عمل کرنا شاید اُن کے لیے ممکن نہ تھا۔ اتنی بات طے ہے کہ وہ حج‘ ہجرت اور جہاد جیسے احکام پر عمل نہیں کر سکے اور اپنی مملکت میں اسلامی احکام بھی نافذ نہ کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود کفر و شرک کے ماحول میں اسلام اور مسلمانوں سے ان کی ہمدردی جاری رہی۔ مہاجرین کو اپنے ہاں جگہ دی۔ ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا۔ ان کی ہر طرح حفاظت کی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر حضرت ام حبیبہ ؓ کا آپ سے نکاح کیا اور بڑے اہتمام سے رخصت کیا۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۷۵۸-۷۵۹)
حضرت جعفرؓ کا قافلہ جب روانہ ہونے لگا تو کشتیاں فراہم کیں‘ سفر کا انتظام کیا اور پورے سازوسامان کے ساتھ روانہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے رویے اور سلوک کی اطلاع دیں‘ یہ میرا ایک ساتھی (عزیز) آپ حضرات کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا رہا ہے۔ کلمہ ء شہادت پڑھا اور کہا کہ آپ حضرات حضورؐ سے درخواست کریں کہ وہ میری مغفرت کی دعا فرمائیں۔ خیبر پہنچنے پر نجاشی کے روانہ کردہ شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضرت جعفرؓ یہاں موجود ہیں‘ آپؐ ان سے دریافت فرمائیں کہ نجاشی کا رویہّ ان کے ساتھ کیسا تھا اور ان کا عقیدہ کیا ہے؟ حضرت جعفرؓ نے تفصیل بتائی اور کہا کہ وہ آپؐ پر ایمان رکھتے ہیں اور آپؐ سے دعا کی درخواست کی ہے۔ آپؐ نے وضو کیا اور تین مرتبہ فرمایا: اے اللہ! نجاشی کی مغفرت فرما ۔ اس پر مسلمانوں نے آمین کہا۔ (ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۶)
نجاشی کا ۹ ہجری میں انتقال ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپؐ نے مدینہ میں منادی کرائی کہ حبشہ کے ایک صالح بندے کا انتقال ہو گیا ہے۔ لوگو‘ چلو اس کی نماز جنازہ پڑھو‘ اس کے لیے مغفرت کی دعا کرو۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: تمھارے بھائی اصحمہ (نجاشی کا نام) کا انتقال ہو گیا ہے‘ چلو اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے۔ چنانچہ آپؐ لوگوں کو لے کر عیدگاہ تشریف لے گئے اور نماز پڑھی۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ آپؐ نے نجاشی کی نمازِ جنازہ اس لیے پڑھی کہ حبشہ میں ان کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی۔ اُن کے قریب ایسے لوگ نہیں تھے جو اسلام پر ایمان رکھتے اور نمازِ جنازہ پڑھتے ہوں۔(۱)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نجاشی کس طرح کے ماحول میں گھرے ہوئے تھے۔ اس طرح کے حالات اور ماحول میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے انھوں نے جو کچھ کیا شاید اس سے زیادہ وہ نہیں کر سکتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مجبوریوں اور معذوریوں کے ساتھ ان کے ایمان اور خلوص کی تصدیق فرمائی۔
ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اور مغفرت کی دعا فرمائی۔ ان کی کامیابی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے۔
(بہ شکریہ سہ ماہی تحقیقات اسلامی‘ علی گڑھ‘ دسمبر ۲۰۰۰ء)
۱- ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۲۹-۳۰‘ غائبانہ نمازِ جنازہ پر فقہا کے درمیان اختلاف ہے ‘تفصیل کے لیے دیکھیے‘
فتح الباری: ۳/۵۴۴-۵۴۵