جولائی ۲۰۰۱

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| جولائی ۲۰۰۱ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

سلیم منصور خالد  ‘ گوجرانوالہ

’’پرندوں کی نقل مکانی‘‘ (جون ۲۰۰۱ء) ایمان اور تحقیق کا مرقع ہے۔ اللہ کی نشانیوں سے‘ پروردگار کی صناعی اور حکمت کا جو درس ملتا ہے--- افسوس کہ انسانی ذہن اور انسانی آنکھیں ان سے بے خبر رہتے ہیں۔ عبدالرشید صدیقی نے اس مضمون کے ذریعے قدرت حق کی تخلیقی رمزوں سے قارئین کو لذت آشنا کیا۔ اپنی نوعیت کے اس منفرد مضمون میں سائنس کے مجرد اعداد و شمار اور تفصیلات کو انھوں نے جس طرح اسلامی تعلیمات سے مربوط کیا ہے‘ وہ ایک مثالی نمونہ ہے۔

ڈاکٹر طاہر احمد چودھری‘  لودھراں

مجھے دو بڑے ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) میں کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس وقت بھی ذہن میں یہ سوال اٹھتا تھا اور اب پھر ’’مرنے کا قانونی حق‘‘ (مئی/جون ۲۰۰۱ء) پڑھ کر تازہ ہو گیا ہے کہ ایک ایسا مریض جسے مصنوعی تنفس اور دل کی حرکت کو جاری رکھنے والی ادویات کے ذریعے زندہ رکھا جا رہا ہو اس کے علاج کے اخراجات برداشت کرنا ایک عام آدمی تو کیا ایک اعلیٰ متوسط درجے کے انسان کے لیے بھی تقریباً ناممکن ہے--- کیا ایسے شخض کو زندہ رکھنے کے لیے لواحقین کو بھاری رقم قرض پر لینی چاہیے جسے اس کی نسلیں بھی ادا کرتی رہیں؟

یہاں یہ تلخ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں میں بھی علاج کے جملہ اخراجات مریض کو برداشت کرنے پڑتے ہیں (سرکاری خرچ بھی دراصل معاشرے کے افراد کا ہی ہوتا ہے)۔ ایسے مریض سے مصنوعی آلات ہٹا لینے سے جو موت واقع ہو گی کیا وہ قتل کے زمرے میں آئے گی؟ ایسا مریض خود تودنیا و مافیہا سے بیگانہ ہوتا ہے البتہ ساری جسمانی و ذہنی اذیت اس کے لواحقین کو سہنی پڑتی ہے۔

اسی طرح ایسے دائمی مریض کے متعلق کیا حکم ہوگا جو ہوش میں ہے‘دل و دماغ کام کر رہے ہیں مگر سارا دھڑ فالج زدہ اور بے جان ہے اور بحالی کی کوئی امید نہیں۔ ہمیں درپیش معاشی اور معاشرتی حالات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔

درجہ بالا اور اس سے ملتے جلتے حالات میں ہمارا ردّعمل کیا ہونا چاہیے۔ قابل عمل حل کی طرف رہنمائی اہل علم ہی کر سکتے ہیں۔

ابوطلحہ  ‘  لاہور

پیٹر مارسڈن کی کتاب ’’طالبان ……‘‘ پر تبصرے (جون ۲۰۰۱ء) میں تبصرہ نگار نے لکھا ہے کہ ’’غیر ملکی ناشر نے کتاب اتنے اچھے معیار پر شائع کی ہے (گو قیمتاًگراں ہے) کہ ملکی ناشرین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے‘‘۔ یہ کتاب ۱۱۶ صفحات کی ہے‘ قیمت ۲۲۵ روپے ہے‘ یعنی ایک ورق کی قیمت تقریباً چار روپے۔ ہمارے ملک میں بھی نہایت اچھے معیار پر کتب شائع ہو رہی ہیں اور قیمت اس سے ۷/۱ یا ۸/۱ رکھی جاتی ہے۔ یہ بھی لمحۂ فکریہ ہے!