سید جلال الدین عمری


آج کل ’مذاہب کے درمیان مکالمہ‘ (dialogue) کا خاص چرچا ہے۔ اس کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان قربت بڑھے، غلط فہمیوں کا ازالہ ہو، ان کے درمیان جو اختلافات ہیں وہ دُور ہوں اور وہ ایک دوسرے سے قریب آئیں۔ اس سلسلے میں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تبادلۂ خیال ہو رہا ہے۔ مذاکرے اور سیمی نار ہورہے ہیں اور بھی مختلف سطحوں سے کوشش ہو رہی ہے۔ اس تگ و دو کے پیچھے جو ذہن کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ مذاہب کے درمیان اختلافات حقیقی نہیں ہیں، سب کی اصل ایک ہے، سب روح کی تسکین اور اپنے خالق و معبود کی رضا چاہتے ہیں۔ انسانوں کی بھلائی اور خیرخواہی ان میں سے ہرایک کے پیش نظر ہے۔  ظلم و زیادتی اور جبروتشدد کو سب ہی غلط باور کرتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، ان کے درمیان بناے اختلاف کم ہے اور اتحاد کی بنیادیں زیادہ ہیں۔ یہ بات جب بڑھتی ہے تو وحدتِ ادیان کے تصور تک پہنچتی ہے کہ منزل سب کی ایک ہے، البتہ راہیں جدا ہیں۔ اسی کی تبلیغ و اشاعت کے لیے یہ کوششیں ہورہی ہیں۔ یہ ایک مہمل اور بے بنیاد تصور ہے۔ جو لوگ وحدتِ ادیان کی بات کرتے ہیں وہ ان کی بنیادی تعلیمات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں۔

مذاھب کے درمیان اختلاف

یہ ایک حقیقت ہے کہ مذاہب کے درمیان اختلافات ہیں اور بنیادی اختلافات ہیں،  اس لیے ان کو ایک زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ یہ فرق اسلام اور دوسرے مذاہب کے مطالعے سے سمجھا جاسکتا ہے۔

اس معاملے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ اسلام ہی ہمیشہ سے اللہ کا دین رہا ہے، اسی کی تعلیم ہر دور میں ہر پیغمبر نے دی، لیکن ان کی تعلیم اصل شکل میں باقی نہیں رہی، زمانہ گزرنے کے ساتھ ان میں تحریف ہوتی چلی گئی۔ اللہ کا یہی دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری بار نازل ہوا۔    آپ سلسلۂ رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپؐ پر جوکتاب نازل ہوئی وہ قرآن مجید ہے اور وہ  پوری طرح محفوظ ہے۔ آپؐ  کی سیرت اور قول و عمل سے اس کی تشریح ہوتی ہے۔ اب دنیا و آخرت کی فوز وفلاح اسی کتاب سے وابستہ ہے، اس کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ باتیں قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ کہی گئی ہیں۔ ارشاد ہے:

قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا (الاعراف ۷:۱۵۸) (اے پیغمبرؐ!) کہہ دو کہ اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

ایک اور جگہ فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (السبا۳۴: ۲۸) ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے ’بشیر و نذیر‘ بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری رسول اور خاتم النبیینؐ ہونے کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِـیّٖنَ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا o (احزاب ۳۳:۴۰) محمد (ـصلی اللہ علیہ وسلم) تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور ’خاتم النبیین‘ ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

دنیا کے تمام انسانوں کو آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی اور کہا گیا کہ اسی میں ’خیر‘ ہے۔ کفر کا راستہ اختیار کر کے انسان اللہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، خود ہی نقصان میں رہے گا:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّکُمْط وَ اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِط  وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا o (النساء ۴:۱۷۰) اے لوگو! تمھارے پاس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تمھارے رب کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے۔ پس تم (اس پر) ایمان لے آئو، اسی میں تمھارے لیے خیر ہے لیکن اگر کفر کرو گے تو (یاد رکھو) کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

مذہب کے اساسی عقائد کا انسان کی پوری زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ اس سے پورا نظامِ عمل اور طریقۂ حیات وجود میں آتا ہے۔ ہر مذہب کی عبادات اس کے عقیدے کی تابع ہوتی ہیں۔ عقیدے کی بنیاد پر تہذیب ومعاشرت وجود میں آتی ہے۔اسی کے تحت شادی بیاہ، پیدایش اور موت تک کے رسوم انجام پاتے ہیں۔ کاروبار اور لین دین کے طریقے اور مختلف افراد اور طبقات کے حقوق و فرائض طے ہوتے ہیں۔ اسی طرح مذہب عقیدہ کے ساتھ اس سے ہم آہنگ اخلاقیات اور قانون بھی رکھتا ہے۔ اسے اس کا ’نظام شریعت‘ کہا جاسکتا ہے۔ اسی سے اس کی انفرادیت قائم ہوتی ہے اور وہ پہچانا جاتا ہے۔

قرآن مجید کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کواصولِ دین کے ساتھ حسبِ حال اور حسبِ ضرورت شریعت اور قانون بھی دیا تھا۔ اس نے مختلف مواقع پر توریت اور انجیل کے بعض قوانین کا ذکر بھی کیا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیے گئے تھے اور جن کی پابندی کا ان سے عہد لیا گیاتھا۔ اس نے بعض دوسرے پیغمبروں کی شریعتوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔ یہ شریعتیں اپنے وقت اور ماحول کے لیے تھیں۔ آخری رسول اور آخری شریعت کے آنے کے بعد وہ منسوخ ہوگئیں۔ مذاہب کے ماننے والوں کو وہ نجی زندگی میں اپنی شریعت پر عمل کی اجازت دیتا ہے، لیکن اپنے دائرۂ اختیار میں آخری شریعت کو نافذ کرتا ہے:

ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَo (الجاثیہ۴۵:۱۸) (اے نبیؐ!) ہم نے آپ کو دین کے معاملے میں ایک شریعت دے دی۔ اب آپ اس کی اتباع کریں اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں جو جانتے نہیں ہیں۔

احسن انداز میں مباحثہ

مذاکرہ یا مباحثہ دو مقاصد کے تحت ہوتا ہے۔ ایک مقصد ہے حق و صداقت کی تلاش،  بحث و تمحیص کے ذریعے ’حق‘ کو جاننے کی کوشش۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ نظریات اور عقائد کی  صحت و عدم صحت سے بحث نہ کی جائے، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ کون سی مشترک اقدار ہیں جن پر سب کو اتفاق ہوسکتا ہے۔ اسلام اس مجادلہ کا قائل نہیں ہے۔ وہ ایک دعوت ہے اور بحث و مباحثے کے ذریعے اس کی حقانیت واضح کرنا چاہتا ہے۔

قرآن مجید کا براہِ راست خطاب مشرکینِ عرب اور اہلِ کتاب سے تھا۔ سورئہ نحل میں مشرکین عرب کے سیاق میں حکم دیا گیا:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَo (النحل۱۶:۱۲۵) اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہِ راست پر ہے۔

اس آیت میں صاف الفاظ میں اللہ کے راستے کی طرف بلانے، یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی دعوت کا حکم ہے۔ اس کے لیے حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ ’ جدال احسن‘ کا طریقہ تجویز کیا گیا ہے۔ ’ حکمت‘ یہ ہے کہ عقلی دلائل کے ذریعے اللہ کے دین کی دعوت دی جائے۔ موعظۂ حسنہ میں تذکیر اور وعظ و نصیحت کا پہلو ہے۔ ’ جدال بہ طریق احسن‘ یہ ہے کہ بہتر طریقے سے گفتگو ہو، شکوک و شبہات رفع کیے جائیں اور اس کے موقف کو بہتر طریقے سے سمجھا جائے۔

مشرکینِ عرب سے اسلام کا اختلاف بنیادی عقائد میں تھا۔ اسلام توحید کا علم بردار ہے۔ کائنات او رانسان کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر اسی عقیدۂ توحید سے نکلتا ہے۔ مشرکین عرب کے ہاں خدا کا تصور تھا، لیکن وہ آلودۂ شرک تھا۔ وہ اسلام کے تصور توحید کو قبول کرنے کے لیے تیار    نہ تھے۔ اسلام وحی و رسالت کا قائل ہے، مشرکین کے لیے یہ تصور اجنبی سا ہو کر رہ گیاتھا، وہ  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ آخرت اور جزاے عمل کا ہے، لیکن وہ حیات بعد الموت کو کسی طرح قبول نہیں کررہے تھے اور    خدا کے قانونِ عدل کے مقابلے میں انھیں اپنے معبودان باطل کی سفارش پر تکیہ تھا۔

اس ماحول میں اسلام نے شرک کی ہر پہلو سے تردید کی اور ثابت کیا کہ اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ یہ انسان کی عقل اور اس کی نفسیات کے خلاف ہے۔ اس کے نتائج دنیا میں بھی    تباہ کن ہیں اور آخرت میں بھی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔ مشرکین عرب سے اس نے جس طرح گفتگو کی اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہاں پیش کی جارہی ہے:

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیْہِ شُرَکَآئُ مُتَشٰکِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ط ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَــلًا ط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (الزمر ۳۹:۲۹) اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کے مالک ہونے میں بہت سے کج خُلق آقا شریک ہیں جو اُسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کاغلام ہے ۔ کیا اِن دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟ ___ الحمدللہ ، مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔

قرآن مجید نے اپنے موقف پر تاریخ سے استدلال کیا۔ اس نے کہا: دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جتنے رسول آئے سب نے توحید کی تعلیم دی اور شرک کی تردید کی، رسالت اور آخرت پر ایمان کی دعوت دی، اس کے انکار کے نتائج سے آگاہ کیا۔ مشرک قوموں نے ان کی سخت مخالفت کی اور ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا، لیکن انھوں نے صبر و ثبات کے ساتھ اسے برداشت کیا۔ اللہ کے ان رسولوں کی اس سلسلے میں اپنی قوموں اور ان کے سرداروں سے جو گفتگوئیں ہوئیں اور جو مباحثے اور مکالمے ہوئے وہ بھی اس نے تفصیل سے پیش کیے۔ یہ مباحثے ’جدال احسن‘ کا بہترین نمونہ ہیں۔ یہ تلاش حقیقت کے لیے نہیں، بلکہ اثبات حق کے لیے تھے۔

مشرکین عرب کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسلی تعلق تھا ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد اور خانۂ کعبہ کے محافظ ہونے کی وجہ سے سارے عرب میں ان کو عزت اوروقار حاصل تھا۔ قرآن مجید نے بتایا کہ حضرت ابراہیم ؑ توحید کے علم بردار تھے، اسی کی دعوت لے کر وہ اُٹھے تھے۔ان کی مشرک قوم نے ان کی بدترین مخالفت کی اور دہکتی آگ میں انھیں ڈال دیا، لیکن اللہ نے انھیں صحیح سالم نکال لیا۔ انھوں نے اپنے وطن سے ہجرت کی اور مکہ میںخانۂ کعبہ کی تعمیر کی، اسے اللہ واحد کی عبادت کا مرکز قراردیا، جسے تم نے بت خانہ بنا رکھا ہے۔ تم ان کی اولاد ہو، پھر بھی دعوتِ توحید کی مخالفت کررہے ہو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے وقت کے بادشاہ، اپنے باپ اور اپنی قوم سے جو گفتگو یا مباحثے کیے ، قرآن مجید نے اسے بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس طرح اس ’جدال احسن‘ کی راہ دکھائی ہے جس کی اس نے اجازت دی ہے۔

قرآن مجید نے اہل کتاب سے بھی ’ مجادلہ‘ (بحث و مباحثہ)کی اجازت دی ہے۔ اس کے لیے بھی وہی شرط رکھی ہے جو مشرکین سے’مجادلہ‘ کے لیے ہے کہ یہ مجادلہ ’ بہ طریق احسن‘ ہونا چاہیے:

وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ وَ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ o (العنکبوت ۲۹: ۴۶) تم اہل کتاب سے مجادلہ نہ کرو، مگر مہذب طریقے سے، لیکن ان میں سے جو ظلم کی راہ اختیار کریں ان سے بحث سے اجتناب کرو اور کہو کہ ہم ایمان رکھتے ہیں ان (تعلیمات) پر جو ہم پر نازل ہوئی ہیں اور ان پر بھی جو تم پر نازل ہوئیں۔ ہمارا اور تمھارا معبود ایک ہے، ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔

اہل کتاب اصولی طور پر توحید، وحی و رسالت، آخرت اور وہاں کی جزا و سزا کے قائل تھے۔ اس سلسلے میں ان کے اور مسلمانوں کے عقائد میں اشتراک تھا، لیکن ایک دوسرے پہلو سے ان کے درمیان فرق پایا جاتا تھا۔ وہ توحید کے قائل ہونے کے باوجود گرفتارِ شرک ہوگئے تھے۔ وحی و رسالت پر ایمان کے دعویٰ کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہیں کررہے تھے۔

اس آیت میں اہل کتاب سے مجادلے کی اجازت کے ساتھ اس کی بنیادیں بھی فراہم کردی گئی ہیں۔ وہ بنیادیں ہیں اللہ کے تمام رسولوں اور ان کی تعلیمات پر ایمان۔ اس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپؐ کی تعلیمات بھی شامل ہیں۔ مسلمانوں کا یہی موقف ہے کہ وہ تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں،ان کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ اسی طرح تمھارا اور ہمارا خدا ایک ہی ہے،   اس لیے اس کے احکام کی اطاعت ہم سب کے لیے لازم ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم اس کے مطیعِ فرمان ہیں۔اس کے ہر حکم کو دل و جان سے قبول کرتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس میں اس بات کی ہدایت بھی ہے کہ اگر وہ اس کے لیے آمادہ نہیں ہیں تو تم اپنے ایمان و اسلام کااعلان کرکے الگ ہوجاؤ۔

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر میثاق بنی اسرائیل کا ذکر ہے اور بتایاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا تھا کہ وہ اللہ و احد کی عبادت کریں گے، ان کی زندگیوں میں نماز اورزکوٰۃ کا اہتمام ہوگا، اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں گے، والدین، رشتہ داروں اور معاشرے کے کم زور افراد ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کریں گے( اعلیٰ اخلاق کا ثبوت دیں گے)۔ گفتگو میں بدزبانی اور تلخ کلامی کا مظاہرہ نہ کریں گے( کسی کی دل آزاری نہ کریں گے)۔ ناحق کسی کا خون نہیں بہائیں گے، کسی کو اس کے گھر سے بے گھر نہیں کریں گے ، اللہ کے رسولوں پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت و حمایت کریںگے۔ (البقرہ ۲: ۸۳-۸۴، المائدہ ۵:۱۲)

قرآن مجید نے بتایاکہ بنی اسرائیل نے اس عہد و پیمان کی پابندی نہیں کی۔ قدم قدم پر اس کی مخالفت کرتے رہے۔ اس عہد کا لازمی تقاضا تھا کہ وہ اللہ کے رسولوں پر ایمان لاتے، مگر انھوں نے ان میں سے چند ایک کو مانا اور دوسروں کوماننے سے انکار کردیا۔ ان کے ہاتھ بعض رسولوں کے قتل تک سے رنگین رہے ہیں۔ (اٰل عمران۳: ۱۸۱-۱۸۲۔ النسائ۴: ۱۵۷)

ان سے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور ان کی نصرت و حمایت کا بھی عہد لیا گیا تھا، لیکن انھوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم اپنے پیغمبروں کے علاوہ کسی دوسرے پیغمبر کو نہیں مانیں گے۔ یہی نہیں، آپؐ سے عداوت ان کے سینوں میں پرورش پاتی رہی اور انھوں نے آپؐ کی مخالفت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ (البقرہ ۲: ۹۱، اٰل عمران ۳ :۸۱)

یہود و نصاریٰ حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا پیشوا اور مقتدیٰ مانتے اور ان سے اپنا دینی رشتہ جوڑتے تھے۔ قرآن مجید نے بہت تفصیل سے حضرت ابراہیم ؑ کی تعلیم پیش کی اور بتایا کہ وہ ’مسلم حنیف ‘تھے اور ہر طرف سے کٹ کر اللہ واحد کی عبادت کرتے تھے۔ان کی زندگی ہر شائبۂ شرک سے پاک تھی۔ وہ خدا ے واحد کی عبادت و اطاعت کا پیغام لے کر اٹھے تھے اور زندگی بھر اسی کے لیے جدوجہد کی اور بے مثال قربانیاں دیں۔ آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی دعوت کو لے کر اٹھے ہیں ، اس لیے وہ ان کے قریب ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ سے تمھارا تعلق روایتی او ران کا تعلق حقیقی ہے:

مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَ ھٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن۳: ۶۷-۶۸)

ابراہیم ؑنہ یہودی تھا نہ عیسائی، بلکہ وہ تو ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔ ابراہیم ؑسے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو اُن لوگوں کو پہنچتا ہے جنھوں نے اس کی پیروی کی اور اب یہ نبیؐ اور اس کے ماننے والے اِس نسبت کے زیادہ حق دار ہیں۔ اللہ صرف اُنھی کا حامی و مددگار ہے جو ایمان رکھتے ہوں۔

مذھبی رواداری کا غلط تصور

اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو لوگ آسمانی مذاہب کے ماننے والے ہیں انھیں ان کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایاجائے اور ان کے تقاضوں کی طرف انھیںتوجہ دلائی جائے اور دین حق ان پر واضح کیا ہے۔ یہ قرآنی طریقہ ہے۔ اس سے دعوت کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی پس منظر میں حسب ذیل آیت کو بھی دیکھنا چاہیے:

قُلْ یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط  فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o (اٰل عمرٰن۳: ۶۴) اے نبیؐ! کہو   اے اہلِ کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنالے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔

اس آیت کو اس بات کی دلیل سمجھا جاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان جو اقدار مشترک ہیں ان کی دعوت دی جائے۔ بناے اختلاف سے تعرض نہ کیا جائے، ہر ایک کو اس کے طریقہ پر عمل کی اجازت ہو، اس کے درست یا نا درست ہونے سے بحث نہ کی جائے۔ اسے مذاہب کے سلسلے میں ’رواداری‘ یا عدم تعصب جو بھی کہا جائے، اسلامی نقطۂ نظر نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اس سلسلے کی اسلامی تعلیمات او راس کے دعوتی مشن کے خلاف ہے۔ اس سے قطع نظر خود آیت سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ اس میں اہل کتاب کے غلط طرز عمل پر تنقید کی گئی ہے اور انھیں اسلام کی دعوت دی گئی ہے۔

اس میں اہل کتاب کو ’ کلمہ سوائ‘ کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ ’ کلمہ سوائ‘ توحید ہے، جو اہلِ کتاب اور مسلمانوں کے درمیان مشترک ہے اور جو تمام مذہبی کتابوں کی بنیاد ہے۔ لیکن توحید کے قائل ہوتے ہوئے بھی یہود نے حضرت عزیر کو ابن اللہ قرار دیا ۔ ہوسکتا ہے ان میں سے ایک طبقے کا    یہ عقیدہ ہو، لیکن یہود نے اس سے اپنی برأ ت ظاہر نہیں کی۔ اسی طرح نصاریٰ نے تثلیث کی راہ اختیار کی، جو توحید کے سراسر خلاف ہے۔

توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ خداے واحد کی عبادت ہو اور کسی دوسرے کو خدائی کا مقام نہ دیا جائے ، جب تمھیں اس سے انکار نہیں ہے تو تمھاری عبادت شرک سے پاک ہونی چاہیے۔

اللہ واحد پر ایمان کے بعد اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ کسی دوسرے کو اپنا رب اور فرماں روا تسلیم کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ قانون دینے والا ہے اور اسی کے قانون کو بالادستی حاصل ہے، لیکن تم نے اپنے احبار و رہبان کو قانون سازی کا حق دے رکھا ہے۔ وہ جس چیز کو حلال کہیں وہ تمھارے نزدیک حلال ہے اور جسے حرام قرار دیں وہ تمھارے لیے حرام ہے۔ اس طرح تم نے احبار و رہبان کو ارباب کا مقام دے رکھا ہے (التوبۃ ۹:۳۱)اپنے اس غلط رویّے کو ترک کرکے تمھیں   خداے واحدکے احکام کی اتباع کرنی چاہیے۔ اگر تم اس کے لیے تیار نہیں ہو تو گواہ رہو کہ ہم    اللہ کے فرماں بردار اور اس کے احکام کے تابع ہیں۔یہ در حقیقت اسلام کی دعوت ہے۔ ہرقل  (شاہ روم) کو آپ نے جو مکتوب اسلام کی دعوت قبول کرنے کے لیے لکھا تھا اس میں اسی آیت کا حوالہ تھا۔ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن:ج۲، جزء ۴،ص۶۸)

باھمی تعاون کا دائرہ

حقیقت یہ ہے کہ مذاہب کے اختلافات فروعی نہیں اصولی ہیں، انھیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی، لیکن اس کے باوجود بعض سماجی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے اہل مذاہب ہی نہیں، بلکہ تمام سماجی اور سیاسی گروہ مل جل کر کوشش کرسکتے ہیں۔

آج دنیا کے بیش تر ممالک میں مخلوط آبادیاں ہیں۔ ان کے درمیان مذہبی عقائد، مادی افکار و نظریات، تہذیب و معاشرت کا اختلاف ہے اور کہیں مادری زبان کا فرق بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ایک تکثیری سماج کا حصہ ہیں۔ اس پہلو سے ان کے مشترک مسائل بھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی ضرورت ہے کہ ملک میں امن وامان ہو، فکر و عمل کی آزادی ہو،ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کام کے مواقع حاصل ہوں، انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو، عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے، غربت اور جہالت ختم ہو، طبی سہولتیں حاصل ہوں، صفائی ستھرائی کا اہتمام ہو اور فضائی آلودگی پر قابو پایا جائے۔ اس نوعیت کے اور بھی مسائل ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لیے معاشرے میں بیداری لانے، ان کے حق میں فضا بنانے اور بسا اوقات قانونی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ان مسائل کا تعلق حکومت سے بھی ہے، اس کے لیے اسے متوجہ کرنا اور اس پر اثر انداز ہونا پڑتا ہے، اس کے لیے تکثیری معاشرے مشترکہ جدوجہد کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسی سے بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔

موجودہ مادہ پرست تہذیب نے اباحیت کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ انسان اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے کوئی بھی بندش گوارا نہیں کرنا چاہتا۔ ہر طرف بے حیائی اور عریانی کی فضا ہے، بدکاری عام ہورہی ہے اور نشہ آور چیزوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں خاندان انتشار اور تباہی کا شکار ہورہے ہیں اور طرح طرح کے امراض پھیل رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب بے حیائی، زنا اور منشیات کے استعمال کو صحیح نہیں سمجھتا۔ اس کے خاتمے کے لیے مشترک کوشش ہونی چاہیے۔

مذاہب کے درمیان ایک قدر مشترک اخلاقیات ہے۔ صداقت اور راست گوئی، عفت و عصمت، دیانت و امانت، باہم اُلفت و محبت ، رشتوں کا احترام، غریبوں، ناداروں، مریضوں اور معذروں کے ساتھ ہم دردی اور ان کی خبر گیری، تعصب او ر نفرت سے اجتناب، کسی کے حق پر  دست درازی اورظلم و زیادتی کا خاتمہ، اس طرح کی اخلاقیات کی اہمیت تمام مذاہب تسلیم کرتے ہیں اور ان کے مخالف رویّے کو صحیح نہیں سمجھتے۔ اس کے لیے کہیں کہیں کوشش بھی ہوتی ہے۔ اسلام معاشرے میں اخلاق کو فروغ دینا چاہتا ہے، اس کے لیے اس کا اپنا ایک طریقہ اور لائحۂ عمل بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ اخلاق کو عام کرنے کی جو کوشش ہو اس میں وہ اپنے اصول کے تحت شریک ہوسکتا ہے اور اس کے لیے مشترکہ جدوجہد بھی کرسکتاہے۔

گذشتہ ماہ سید جلال الدین عمری کی تصنیف : تحقیقاتِ اسلامی کے فقہی مباحث پر تبصرہ شائع کیا تھا۔ اس پر کتاب کے فاضل مصنف کی طرف سے موصولہ چند توضیحات افادئہ قارئین کے لیے ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔(ادارہ)

’’آج کے دور میں اجتہاد کی کیا اہمیت ہے؟‘‘___ تبصرے کے آغاز میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس مجموعے کے پہلے ہی مضمون ’اسلامی شریعت میں اجتہاد کا عمل‘ میں تفصیل سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اجتہاد کی کیا اہمیت ہے اور احکامِ شریعت میں اجتہاد کی کتنی اور کہاں گنجایش ہے؟ اجتہاد کی مختصر سی تاریخ، تقلید اور اس کی مخالفت، دورِ جدید کے تقاضوں اور اجتماعی غوروفکر کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مگر اس تبصرے میں اس کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے، حالانکہ یہ تبصرے کی تمہید کا تقاضا تھا۔

مبصر نے ایک مقام پر توجہ دلائی ہے کہ: ’’مولانا عمری اصولی مباحث میں ائمہ اور اکابر علما کی آرا اور قدیم علوم سے نظائر تو بڑی خوبی سے پیش کردیتے ہیں لیکن موجودہ (خصوصاً بھارت کی) صورت حال میں ان اصول و نظائر کا عملی اطلاق کیسے ہوگا، اس سلسلے میں وہ کوئی واضح اور دوٹوک فیصلہ نہیں دیتے‘‘۔ اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ ’’غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات کے ضمن میں بھارت میں ہندو مسلم شادیوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ عمری صاحب نے اہلِ کتاب سے شادی پر تو اظہارِ خیال کیا ہے مگر ہندو مسلم شادیوں کا تذکرہ نہیں چھیڑا ہے۔ غالباً اس لیے کہ بہت سی پیچیدگیاں ہونے کا احتمال تھا‘‘۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اس مضمون کا ابتدائی حصہ ہندستان (یا جہاں کہیں یہ صورت حال ہو) ہی کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’اس طرح کے تعلقات مسلم نوجوانوں میں بھی شاذونادر نہیں رہے بلکہ کثرت سے دیکھے جا رہے ہیں۔ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں غیرمسلم لڑکے اور لڑکیوں سے ازدواجی رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ کورٹ میرج کے ذریعے اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہوجاتا ہے‘‘۔ (ص ۱۰۷)

اس کے بعد کہا گیا ہے: ’’اسلام نے ازدواجی رشتوں کے سلسلے میں عقیدے کو بنیادی اہمیت دی ہے وہ توحید کا علَم بردار ہے، اس لیے اس نے اہلِ شرک سے ازدواجی رشتے کو حرام قرار دیا ہے، اس لیے کہ دونوں عقیدوں کے درمیان جوہری اور اساسی فرق ہے‘‘ (ص ۱۰۸)۔ اس کے ثبوت میں قرآن کا حوالہ دیا گیا ہے اور یہ بتایاگیا ہے کہ عہدِرسالتؐ میں مشرکین سے جورشتے قائم تھے وہ ختم کردیے گئے۔ اسی مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کا جواز ہے لیکن پسندیدہ نہیں ہے اور آخر میں عرض کیا گیا ہے کہ ’’جہاں تک بت پرست و آفتاب پرست، ستارہ پرست، آتش پرست اور اس طرح کی مشرک قوموں کا تعلق ہے، ان کی عورتیں مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہیں۔ یہ نص قرآن اور اجماع سے ثابت ہے‘‘ (ص ۱۳۵)۔ کیا اس کے بعد بھی مزید کسی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کیا یہ بات کہی جائے گی کہ ہندستان کے پس منظر میں اس پر گفتگو سے احتراز کیا گیا ہے۔ غالباً یہ پوری بحث کسی وجہ سے تبصرہ نگار کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکی ہے۔

اس کے علاوہ میں نے اپنی کتاب غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اس طرح کے رشتوں کی حمایت کرتے ہیں ان کے کیا دلائل ہیں اور ان دلائل کی کیا کمزوریاں ہیں؟اس طرح کے رشتوں کی قانونی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے : ’’اسلام جس ازدواجی تعلق کو صحیح نہیں تسلیم کرتا، اس کی بنیاد پر حقوق اور ذمہ داریوں کا سوال بھی اس کے نزدیک بے معنی ہے۔ جب کوئی عورت اسلامی قانون کی رُو سے کسی کی بیوی اور وہ اس کا شوہر نہیں ہے تو دونوں کے حقوق اور ذمہ داریاں ازخود ختم ہوجاتی ہیں۔ عورت نہ تو اپنے حقوق کا مطالبہ کرسکتی ہے اور نہ مرد کے مطالبات کی تعمیل اس کے لیے لازمی ہوگی۔ اس تعلق کے نتیجے میں جو اولاد ہوگی وہ بھی اپنے نان و نفقہ، تعلیم و تربیت جیسے قانونی حقوق سے محروم ہوگی۔ ان کے درمیان قانونِ وراثت نافذ نہیں ہوگا۔ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ اس ناجائز تعلق پر عورت اور مرددونوں پر اسلامی ریاست میں حدِ شرعی نافذ ہوگی‘‘۔(ص ۹۷-۹۸)

اس مجموعے کا دوسرا مضمون ہے: ’ہندستان کی شرعی و قانونی حیثیت‘۔ تبصرے کی روشنی میں یہ خیال ہوسکتا ہے کہ معاملہ ہندستان کا ہے، اس لیے اس سلسلے میں کوئی واضح بات نہیں کہی گئی ہوگی۔ چونکہ یہ ایک اہم موضوع اور ایک بڑے ملک اور اس کی سب سے بڑی اقلیت سے متعلق ہے، اس لیے اس بارے میں بھی اس مضمون کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

اس مضمون میں پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ فقہاے کرام نے ’دار‘ کی تین قسمیں بیان کی ہیں: دارالاسلام، دارالحرب اور دارالبغی۔ پھر اِس بات کا بھی امکان ہے کہ دارالاسلام اور دارالحرب کے درمیان معاہدئہ صلح ہو۔ جب تک صلح ہے دونوں کے درمیان جنگ نہیں ہوسکتی۔ اس اصولی بحث کے بعد ہندستان میں مسلمانوں کے دورِ اقتدار، انگریزوں کے دورِ حکومت، ملک کی آزادی اور بعد کی صورت حال کا ذکر ہے۔ اسی ذیل میں اس کے سیکولر دستور اور اس کے تسلیم کردہ حقوق بیان ہوئے ہیں۔ اس کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ہندستان گو دارالاسلام نہیں ہے، لیکن فقہا کی اصطلاح میں دارالحرب بھی نہیں ہے۔ فقہا کے نزدیک دارالہجرت سے ہجرت لازم ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے لکھا ہے کہ دارالحرب میں اگر ’’آدمی کو دین پر عمل اور دعوتِ دین کی آزادی حاصل ہو، وہ ظلم و زیادتی سے محفوظ ہو، ظلم ہو تو اسے دفاع کا حق حاصل ہو، اس کا قیام وہاں اُمت مسلمہ کے لیے مفید ہو تو اس کے لیے ہجرت صحیح نہیں ہے، وہاں قیام واجب ہے۔ یا کم از کم وہاں سے ہجرت کو فرض نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہ ظاہر ہندستان کا شمار اسی دوسری قسم میں ہوتا ہے‘‘۔ (ص ۴۹)

مسلمانانِ ہند کی دستوری حیثیت اور یہاں مسلمانوں (اقلیتوں) کو جو دستوری حقوق حاصل ہیں ان کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ ’’مسلمانوں کا اس ملک کو اپنا وطن بنانے اور یہاں رہنے، بسنے کا فیصلہ محض قانونی یا سیاسی مجبوری نہیں ہے بلکہ شرعی حکم اور دین کا تقاضا ہے‘‘ (ص ۵۱)۔ آگے عرض کیا گیا ہے کہ ’’جب ہندستان شرعاً و قانوناً مسلمانوں کا وطن ہے اور وہ یہاں اپنے مسلمہ حقوق کے ساتھ رہ رہے ہیں تو انھیں ممکنہ حد تک شرعی زندگی گزارنی لازم ہے۔ وہ شریعت کے ان تمام احکام کے مکلف ہیں جن کو وہ انجام دے سکتے اور جن کو وہ انجام نہیں دے سکتے، ان کے سلسلے میں کوئی کوشش کرنی ہوگی تاکہ اس کے مواقع انھیں حاصل ہوسکیں۔(ص ۵۱)

اس سلسلے میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ آج کے جمہوری ممالک یا ہندستان جیسے جمہوری ملک کی صورت حال ماضی میں نہیں تھی، اس لیے قدیم فقہا کے ہاں اس پر بحث نہیں ملتی، البتہ انھوں نے دارالاسلام اور دارالحرب پر جو بحثیں کی ہیں، ان سے اس سلسلے میں مدد اور رہنمائی ضرور ملتی ہے۔ پھر اس کی کچھ تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ بہرحال یہ ایک نازک بحث ہے۔ میں نے اس میں اپنی راے وضاحت سے پیش کی ہے۔ امید ہے اصحابِ علم اس پر غور کریں گے۔

اس مجموعے کے دوسرے مضامین ہیں: دارالاسلام اور دارالحرب کا تصور، اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر اسلامی قانون کا نفاذ، اسلامی ریاست میں غیرمسلموں پر حدود کا نفاذ، اسلام کا قانونِ قصاص، قذف اور لعان کے احکام۔ یہ عنوانات آج کے دور میں اسلامیات کے طالب علم کے لیے دل چسپی اور غوروفکر کا موضوع بن سکتے ہیں۔ ان موضوعات کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی ہے۔ اگر مختصراً ہی اظہارِ خیال فرماتے تو استفادہ کیا جاسکتا تھا۔

ترجیحاتِ دین کا سوال بہت اہم ہے۔ دین کی بعض اساسات ہیں اور بعض کی حیثیت فروع کی ہے۔ جو اہمیت اصول کی ہے وہ فروع کی نہیں ہے، اس لیے کہ فروع اصول کی تابع ہیں اور ان ہی سے نکلتی ہیں۔ ان اساسات ہی کے ذریعے دین کی ترجیحات متعین ہوتی ہیں۔        یہ ترجیحات بدل جائیں تو اس کا امکان ہے کہ اصولِ دین کی طرف تو توجہ کم ہو یا بالکل نہ ہو اور فروعِ دین کی جو حیثیت ہے، اس سے زیادہ ان کو اہمیت دی جانے لگے۔ اس سے دین کا پورا نظام اور اس کا مزاج لازماً متاثر ہو کر رہے گا۔

دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کے سلسلے میں بھی اصول وفروع کی رعایت نہایت ضروری ہے۔ ورنہ ہوسکتا ہے کہ جو قدم پہلے اٹھنا چاہیے، وہ بعد میں اُٹھے اور جو قدم بعد میں اٹھنا چاہیے،  وہ پہلا قدم ہوجائے۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ ہماری ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ دین میں جس بات کو اصل اور اساس کی حیثیت حاصل ہے اس کو مضبوط کرنے سے پہلے فروعِ دین پر سارا زورصرف ہونے لگتا ہے اور ساری بحثیں ان ہی کے گرد گردش کرنے لگتی ہیں۔ یہ ایک غیرفطری طریقہ ہے۔ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔

یہاں قرآنِ مجید کی روشنی میں ترجیحاتِ دین کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی:

  •  عقائدِ اسلام: مکہ میں قرآن مجید کا تقریباً دو تہائی حصہ نازل ہوا۔ اس میں اصل زور اسلام کے عقائد پر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت، رسالت اور اس کی ضرورت، آخرت اور اس کی تفصیلات زیربحث آئی ہیں۔ ان کے حق میں دلائل دیے گئے ہیں، ان پر جو اعتراضات ہورہے تھے، ان کی تردید کی گئی ہے، اور جو شکوک و شبہات پھیلائے جارہے تھے انھیں رفع کیا گیا ہے۔ یہی عقائد اسلام کی اساس ہیں۔ جب یہ مستحکم ہوگئی تو شریعت کی تفصیلات فراہم کی گئیں جو دراصل ان ہی عقائد کے لازمی تقاضوں کے طور پر سامنے آرہی تھیں۔
  • بندگیِ رب: قرآن مجید نے بتایا کہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے۔ اس پر اسی کا حکم چل رہا ہے۔ وہ ہر آن اس کی تسبیح و تحمید میں لگی ہوئی ہے اور اس کے احکام بجالارہی ہے۔ اس کے اقتدار میں کسی دوسرے کاکوئی دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کا خالق و مالک ہے۔ وہ اس کا بندہ اور مخلوق ہے۔ اس کے لیے زندگی کا صحیح ترین راستہ یہ ہے کہ وہ خداے واحد کی عبادت اختیار کرے اور اس کے احکام بجا لائے۔ وہ اگر اس سے انکار کرتا ہے یاعبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرتا ہے تو انتہائی غلط راہ پر چلتا ہے اور تباہی کو دعوت دیتا ہے۔ اس سے وہ بچ  نہیں سکتا۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں:

یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍo (اعراف ۷:۵۹) اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے علاوہ تمھارا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ (اس سے انحراف کے نتیجے میں) کہیں تم بڑے دن کے عذاب میں نہ پکڑے جائو۔

یہی ہر پیغمبر کی تعلیم کا بنیادی نکتہ رہا ہے۔ (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، الاعراف ۷:۶۵، ۷۴، ۸۵)

عبادت دراصل اس بات کا اظہار و اعتراف ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسان اپنا معبود برحق تسلیم کرتا ہے اور اس کے سامنے پوری طرح سر نگوں ہو رہا ہے۔ اس کے ہر حکم کو تسلیم کرنا اور اس کی نافرمانی کو اپنے لیے جائز نہیں تصور کرتا ہے۔ یہ اللہ کے نازل کردہ پورے نظامِ شریعت کو قبول کرنے کا اعلان ہے۔ اگر صحیح معنی میں جذبۂ عبادت پیدا ہوجائے تو احکامِ شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ اسلام نے دورِ اوّل میں جذبۂ عبادت کو اس قدر اُبھارا اور مضبوط کیا کہ نظامِ شریعت پر عمل مشکل نہیں رہا۔ دل و جان سے اس کی پابندی ہوتی رہی۔

  • اصلاحِ معاشرہ: قرآن مجید میں اللہ کے رسولوں کا اور ان کی دینی جدوجہد کا ذکر کہیں اختصار سے اور کہیں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس سے وضاحت کے ساتھ یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنے زمانے میں ان ہی اساسات پر اصلاً زور دیا اوران ہی کی روشنی میں فکری و عملی اصلاح کی کوشش کی۔ اللہ کے پیغمبر جن قوموں میں آئے ان میں بہت سی سماجی اور اخلاقی خرابیاں موجود تھیں۔ ظلم اور ناانصافی تھی، جان و مال محفوظ نہ تھے اور حقوق پامال ہو رہے تھے۔ اللہ کے پیغمبروں نے بتایا کہ یہ ساری خرابیاں اس لیے ہیں کہ ان فکری اساسات کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے جنھیں وہ پیش کر رہے ہیں۔ اگر فرد اور معاشرہ خدا کو اس طرح مانے جس طرح ماننا چاہیے، اس کی ہدایت کو قبول کرے اور آخرت کی بازپُرس کا یقین اُبھر آئے تو پوری زندگی کا رُخ صحیح ہوسکتا ہے اور انسان پر دنیا اور آخرت کی کامیابی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے کسی بھی فساد زدہ معاشرے کی اصلاح کا امکان ہے۔ جب تک اسلام کی اساسات پر ایمان نہ ہو اور وہ دل و دماغ میں پیوست نہ ہوجائیں، سماج میں کسی صالح انقلاب کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
  • حقوق العباد کی اھمیت: قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کے ساتھ انسانوں کے حقوق کو خاص اہمیت دی ہے۔ ان میں سے بعض حقوق کو قانونی درجہ حاصل ہے۔ یہ حقوق اگر ادا نہ ہوں تو انسان کی گرفت ہوگی۔ لیکن بعض حقوق کی حیثیت اخلاقی ہے۔   ان سے ہمدردی اور محبت کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور تعلقات خوش گوار ہوتے ہیں۔ اس سے قطع نظر قرآن کے نزدیک، خدا، رسولؐ اور آخرت پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان دُور و نزدیک کے حق داروں کے حقوق ادا کرے اور اس کے اندر نوعِ انسانی کی خدمت کا جذبہ پایا جائے۔    وہ غریبوں اور محتاجوں کے کام آئے اور ان کی ہر ممکن مدد کرے۔ یہ بات ایمان کے منافی ہے کہ ایک شخص کو تمام حقوق حاصل ہوں، وہ عیش کی زندگی گزارے اور اس کے آس پاس کے لوگ اپنی بنیادی ضروریات تک پوری نہ کرپا رہے ہوں۔ وہ مدد کے محتاج ہوں اور ان کی مدد نہ کی جائے۔ جس انسان کے اندر ہمدردی و غم خواری کے جذبات نہ ہوں اور جو ناداروں اور محتاجوں کے کام    نہ آئے اور ان کے حقوق نہ پہچانے اسے خدا پرست مشکل ہی سے کہا جاسکتا ہے۔

قرآن مجید کی مکی سورتوں میں ایک مختصر سورت ’البلد‘ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی بعض نعمتوں کا ذکر ہے کہ اس نے اسے آنکھیں عطا کیں، زبان دی، ہونٹ دیے، بھلائی اور برائی کے راستے بتا دیے۔ اس کے بعد ارشاد ہے:

فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ o اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ o وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا ھُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ oعَلَیْھِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ o (البلد ۹۰: ۱۱- ۲۰) پس وہ گھاٹی میں داخل نہیں ہوا۔ تمھیں کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ وہ ہے گردن کو چھڑانا (غلام کو آزاد کرنا) یا بھوک کے دنوں میں کھانا کھلانا قرابت دار یتیم کو یا مسکین کو جو (فاقے کی وجہ سے) خاکِ زمین پر پڑا ہوا ہے۔ پھر ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنھوں نے صبر اور رحم کی ایک دوسرے کوتاکید کی۔ یہی لوگ دائیں جانب والے ہیں (جن کے دائیں ہاتھ میں ان کا نامۂ اعمال ہوگا) اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ بائیں جانب والے ہیں (جن کا نامۂ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں ہوگا)۔ ان پر آگ ہر طرف سے ہوگی۔

اس مضمون کی آیات قرآنِ مجید میں بہ کثرت موجود ہیں جن سے انسانی حقوق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے حقوق العباد کو جو مقام دیا ہے، ہماری ترجیحات میں اسے وہ مقام حاصل ہونا چاہیے ورنہ دین کا ناقص تصور اُبھرے گا اور سماج کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت واضح نہ ہوسکے گی۔

  • اعلٰی اخلاق کی ترغیب: قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات میں اخلاق کی تعلیم بہت نمایاں ہے۔ اس نے آغاز ہی سے اعلیٰ اخلاق کی ترغیب دی۔ رذیل اخلاقیات کی شدید مذمت کی اور ان سے اجتناب کی تاکید کی ہے۔ اخلاق کا جذبہ اور پاکیزہ اخلاق کا رجحان انسان کی    فطرت میں ہے، لیکن اس پر بعض اوقات پردے پڑ جاتے ہیں۔ جب تک یہ پردے نہ ہٹائے جائیں بے غرض اخلاق کا ظہور نہیں ہوتا۔ قرآن کے نزدیک خدا اور آخرت پر یقین ہی سے صداقت و راست بازی، دیانت و امانت، احترامِ آدمیت، عفت و عصمت، محبت و رافت، تواضع اور خاکساری اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اخلاقیات اُبھرتی ہیں۔ اگر آدمی کو خداکی ذات پر یقین نہ ہو، اس کی ہدایت سے وہ محروم ہو، اور آخرت کی بازپرس کا اسے اندیشہ نہ ہو تو کسی نہ کسی رُخ سے اور کسی نہ کسی عنوان سے وہ اخلاقی پستی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اگر اس کے اندر کچھ اخلاقی خوبیاں پائی بھی جائیں تو ان سے زیادہ اخلاقی خرابیاں اسے دامن گیر رہتی ہیں، جن سے وہ محفوظ نہیں رہتا۔ افسوس کہ اخلاق کی عظمت اور اہمیت اُمت کی نگاہوں سے اوجھل ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کا کوئی اخلاقی امتیاز نہیں رہ گیا ہے، بلکہ دوسری قومیں اپنے اخلاق و کردار میں بعض پہلوئوں سے ممتاز ہیں۔ اُمت کو اخلاقی لحاظ سے اُوپر اٹھانے کی سنجیدہ کوشش بھی نہیں ہو رہی ہے۔ اسلام فرد کی جس طرح تربیت کرتا اور جو پاکیزہ معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے، اس کی اساس میں اخلاق شامل ہے۔ اس کے بغیر اسلامی سیرت اور اسلامی معاشرے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اخلاق کو اسی حیثیت سے اختیار کرنے اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
  • دعوت الی اللّٰہ کا فریضہ: اللہ کے رسولوں کی اوّلین ذمہ داری دعوت و تبلیغ اور اہلِ ایمان کی اصلاح و تربیت رہی ہے۔ دعوت کے ذریعے وہ دین کا ہمہ گیر اور انقلابی تصورِ حیات پیش کرتے ہیں اور جو لوگ اسے قبول کرتے ہیں، ان کے فکروعمل کی اس تصورِ حیات کے تحت تربیت کرتے ہیں۔

اُمت مسلمہ کو بھی یہ دونوں ہی کام انجام دینے ہیں۔ جہاں تک اہلِ ایمان یا اُمت ِمسلمہ کی اصلاح کا تعلق ہے، اس کی طرف علما، صلحا اور مصلحینِ اُمت کی توجہ رہی ہے۔ انھوں نے  تذکیر و تفہیم، وعظ و نصیحت اور تصنیف و تالیف کے ذریعے اسے بگاڑ سے بچانے اور راہِ راست پر قائم رکھنے کی قابلِ قدر کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں۔ مدارس و مکاتب اور جامعات کے قیام کے ذریعے بھی یہ مقصد حاصل ہوتا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ اُمت کی علمی، معاشی اور سیاسی فلاح کے لیے بھی مسلسل کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ اس سلسلے کے بعض اقدامات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کوششیں بہرحال اُمت کی مادی اور دنیوی ترقی ہی کے لیے رہی ہیں۔

دعوت و تبلیغ کا میدان بھی بالکل خالی نہیں رہا۔ اس میں کوششیں ہوتی رہی ہیں اور بعض بہت قابلِ قدر بھی ہیں ، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کارِ دعوت ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہاہے۔ اس کے بعض پہلوئوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس سے اس کی اہمیت اور نزاکت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید نے اُمت کے مقصدِ وجود کو ایک جگہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) تم خیرِ اُمت ہو جسے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

آیت میں اُخْرِجَتْ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ اَلنَّاسِ کے اندر ہر دور اور ہر خطۂ ارض کے تمام انسان آتے ہیں۔ اس پر ’ل‘ حرفِ جار آیا ہے۔ اس میں جیساکہ اہلِ علم نے بیان کیا ہے، نفع پہنچانے کا تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اُمت کا وجود اس لیے ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو اس سے فائدہ پہنچے۔ اس فائدے کی شکل بھی آیت میں بتا دی گئی ہے کہ وہ تمام عالم میں ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ کا فرض انجام دے۔ معروف و منکر کے الفاظ وسیع معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ علما نے لکھا ہے کہ سب سے بڑا منکر شرک ہے۔ اسلام نے جن نیکیوں کی تعلیم دی ہے، وہ سب معروفات ہیں اور جن برائیوں سے منع کیا ہے، وہ سب منکرات میں آتے ہیں۔ اس طرح دین کے پورے نظام فکروعمل کی دعوت دینا امربالمعروف ہے، اور مخالف دین افکار و نظریات    اور ان پر مبنی طرز ہاے حیات کی کمزوریاں اور خامیاں واضح کرنا اور ان سے بچانے کی کوشش کرنا نہی عن المنکر ہے۔

قرآن مجید میں اُمت کو ’اُمتِ وسط‘ بھی کہا گیا ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (البقرہ ۲:۱۴۳) اسی طرح ہم نے تم کو ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو، اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔

’اُمتِ وسط‘ کے معنی ہیں اعلیٰ و ارفع اُمت یا وہ اُمت جو راہِ اعتدال پر قائم ہے۔ اس کی ذمہ داری یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ’شہادت علی الناس‘ کا فرض انجام دے، یعنی انسانوں کے سامنے اسلام کے دینِ حق ہونے کی شہادت دے اور دلائل سے ثابت کرے کہ دنیا و آخرت میں    نجات و فلاح کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ فرض اللہ کے پیغمبر ہر دور میں کماحقہٗ ادا کرتے رہے ہیں۔ آخری رسول حضرت محمدؐ نے بھی اس فرض کو بدرجۂ کمال ادا فرمایا، جس کے نتیجے میں یہ  اُمتِ وسط وجود میں آئی۔ اب یہی فرض اس اُمتِ وسط کو تاقیامت انجام دیتے رہنا ہے۔

قرآن مجید کا حکم ہے کہ جو لوگ اللہ سے اور اس کے دین سے غافل ہیں، انھیں جگایا جائے اور ان تک اللہ کا دین پہنچایا جائے۔ اسی لیے اس کا نزول ہوا ہے:

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّـآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ فَھُمْ غٰفِلُوْنo (یٰسٓ ۳۶:۶) تاکہ تم اس قوم کو (انجامِ بد) سے ڈرائو جس کے باپ دادا کو ڈرایا نہیں گیا۔ اس لیے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

اس آیت میں خطاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور اہلِ عرب کے درمیان ’انذار‘ کا حکم ہے، جو زندگی کی غلط راہ پر دوڑے چلے جا رہے تھے اور جس کے بھیانک نتائج سے باخبر کرنے کے لیے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ یہ صورتِ حال آج بہت سی قوموں کی ہے، جن کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ صدیوں سے ان تک اللہ کا دین نہیں پہنچا ہے اور ان کے درمیان  انذار کا فرض نہیں انجام پایا ہے۔ اب، جب کہ سلسلۂ رسالتؐ منقطع ہوچکا ہے اس اُمت ہی کی   یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو اس کی غلط روی کے انجام سے آگاہ کرے اور بتائے کہ اللہ کی کتاب اسی مقصد کے لیے نازل ہوئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد فرمایا:

وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَـآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo (السبا ۳۴:۲۸) ہم نے تو آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اسے نہیں جانتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشیر اس معنی میں ہیں کہ اللہ کے نازل کردہ دین کو قبول کرنے پر آپ نے دنیا میں بہتر زندگی اور آخرت میں فلاح و کامرانی کی خوش خبری دی۔ آپ کو نذیر اس پہلو سے کہا گیا ہے کہ غلط فکروعمل اختیار کرنے اور اللہ کے دین کو رد کرنے پر دونوں جہاں کے خسارے سے آپ نے آگاہ کیا اور اس کے بھیانک انجام سے ڈرایا۔

اسی طرح آپؐ کو ساری دنیا کے لیے رحمت قرار دیا گیا ہے:

وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ o (انبیاء ۲۱:۱۰۷) ہم نے تو آپ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ  کا وجود، آپؐ  کی رسالت، آپؐ  کا تصورِ حیات، آپؐ  کا نظامِ فکروعمل اور آپؐ  کی سعی و جہد دنیا کے لیے سراسر رحمت ہے۔ اسے رد کرنا اللہ کی رحمت سے خود کو محروم کرنا ہے۔ آج دنیا اس سے ناواقف ہے کہ آپؐ  ساری دنیا کے لیے بشیرونذیر اور رحمۃ للعالمینؐ ہیں۔ اسے دلائل سے ثابت کرنا، اُمت کے فرائض میں سے ہے۔ اس فرض سے غفلت پر اس سے بازپرس ہوگی۔

  • جدید دور کے تقاضے: موجودہ دور میں تبلیغ دین کا فرض مطلوبہ معیار سے انجام دینے کے لیے اس کے ذہنی و فکری رجحان کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اس وقت پوری دنیا پر ایک طویل عرصے سے الحاد اور دہریت کی حکومت ہے۔ مغربی قوموں نے، جن کے ہاتھوں میں دنیا کی قیادت ہے، الحاد اور دہریت کو ایک فلسفۂ حیات کے طور پر اس طرح پیش کیا ہے کہ دین اور اس کی اساسی تعلیمات بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں۔ انسان کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں، کسی بھی میدان میں اور کسی بھی قدم پر ان کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ نرسری میں جو بچہ داخلہ لیتا ہے، وہ بڑا ہوکر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن تک تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اس سے آگے ریسرچ اور تحقیق کے مرحلے میں بھی پہنچ جاتا ہے، لیکن اس کے سامنے کبھی وحی و رسالت یا آسمانی ہدایت کا سوال نہیں اُبھرتا۔ آج تعلیم، تہذیب، تمدن، معیشت، قانون اور سیاست ہر شعبۂ حیات کا رُخ الحاد نے متعین کیا ہے، جس میں خدا، وحی و رسالت اور آخرت جیسے مابعد الطبیعیاتی نظریات کہیں زیربحث نہیں آتے اور کسی مسئلے کے حل کے لیے ان کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ جب تک اس کی ضرورت ثابت نہ کی جائے، موجودہ دور کا رُخ نہیں بدل سکتا۔
  • مکمل نظامِ حیات: دورِ جدید میں مذہب ایک انفرادی معاملہ ہوکر رہ گیاہے۔ اجتماعی امور و معاملات سے اسے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اسلام کو اگر کوئی شخص اپنے عقیدے کے طور پر اختیار کرے اور اپنی نجی زندگی میں اس پر عمل کرے تو شاید کسی کو اعتراض نہ ہو۔ لیکن یہ اجازت کسی کو نہیں ہے کہ اجتماعی امور میں اسلام کی تعلیمات کو اپنائے اور ان کے مطابق اپنے معاملات طے کرے۔ اب یہ ثابت کرنا اُمت کی ذمہ داری ہے کہ اسلام صحیح عقیدہ ہی فراہم نہیں کرتا، بلکہ اس کی بنیاد پرہر شعبۂ حیات کے لیے نہایت فطری اور معقول ہدایات بھی پیش کرتا ہے۔ اس سے زندگی اس بے راہ روی اور بے اعتدالی سے محفوظ رہ سکتی ہے جس میں وہ آج گرفتار ہے اور جس سے نکلنے کی کوئی سبیل اسے نہیں نظرآرہی ہے۔ یہ ایک طویل اور ہمہ جہت عمل ہے۔ اسلام کی سربلندی کے لیے بہرحال اسے انجام دینا ہوگا۔
  • اسلام پر اعتراضات اور اُن کی حقیقت: اسلام پر اعتراضات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آج تک بعض قدیم اعتراضات دہرائے جاتے ہیں۔ ان میں نئے اعتراضات کا اضافہ بھی ہوتا رہتاہے۔ ان میں بالعموم جارحیت اور اسلام دشمنی صاف نمایاں ہوتی ہے۔ کبھی غیر جانب داری کے انداز میں کہا جاتا ہے کہ اسلام نے اپنے وقت میں مفید خدمات ضرور انجام دی ہیں، لیکن اس کی بہت سی باتیں اصلاح طلب ہیں، وہ آج قابلِ قبول نہیں ہیں۔ اس نے مساوات کی بات تو کی ہے لیکن بعض انسانوں کو جو حقوق دیے ہیں، ان سے بعض دوسرے انسانوں کو محروم رکھا ہے۔ کسی وقت کہا جاتا تھا کہ اسلام اپنی فطری خوبیوں کی وجہ سے نہیں پھیلا، بلکہ تلوار کے زور سے اس کی اشاعت ہوتی رہی ہے۔ اب اسلام کے ساتھ تشدد اور تخریب کو بھی جوڑ دیا گیا ہے کہ اسلام غارت گر امن و امان ہے۔ وہ اپنی صداقت دلائل سے نہیں ثابت کرتا بلکہ طاقت کے ذریعے اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔

اس طرح کے اور بھی اعتراضات ہیں، جن کے ذریعے اسلام کی تصویر مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس طرف دنیا کی توجہ ہی نہ ہو، لیکن اس میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ اس نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ جو اعتراضات کیے جارہے ہیں، ان کا جواب دیا جائے اور جن پہلوئوں سے اسلام سے بدظن کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ،ان پہلوئوں سے مطمئن کیا جائے اور اسلام کی حقانیت ثابت کی جائے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض اہلِ علم اس طرف متوجہ ہیں اور مفید خدمت انجام دے رہے ہیں، لیکن کام اتنا بڑا ہے کہ اس کا حق صحیح معنی میں اسی وقت ادا ہوسکتا ہے، جب کہ اس کے لیے پوری ایک جماعت کھڑی ہو، جس میں مختلف صلاحیت کے افراد ہوں، جو منصوبہ بند اور منظم طریقے سے اسلام کا دفاع ہی نہ کرے بلکہ دنیا کے تمام نظریات کے مقابلے میں اس کی برتری ثابت کرے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ترجیحاتِ دین کو سمجھنے اور اس کے مطابق راہِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (مصنف کی نئی کتاب: دعوت و تربیت، اسلامی نقطۂ نظر سے ایک باب)

اس وقت ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس نے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں غیرمعمولی ترقی کی ہے۔ اتنی ترقی کہ ایک صدی قبل شاید اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل تھا۔ اس کے نتیجے میں بہت سی مادی دشواریوں پر قابو پالیا گیا ہے۔ مختلف قسم کی آسانیاں اور سہولتیں وجود میں آئی ہیں اور دنیا زیادہ پرکشش ہوگئی ہے۔ آمد و رفت کے تیز رفتار ذرائع کی وجہ سے مسافتیں کم ہوگئی ہیں، خیالات کی ترسیل اور ابلاغ آسان ہوگیا ہے، جو معلومات چھوٹے سے دائرے میں محصور ہوتی تھیں وہ عام ہو رہی ہیں۔ نشر و اشاعت ایک وسیع انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ جو چیز چھپتی ہے وہ گوشے گوشے میں پھیل جاتی ہے۔ میڈیا اتنا طاقت ور ہے کہ ہر چھوٹے بڑے واقعے کو دنیا کے سامنے لے آتا ہے اور اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ معیشت بہتر ہوئی ہے، پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، خوش حالی آئی ہے، معیار زندگی بلند ہوا ہے، صحت اور تندرستی کی طرف توجہ ہے۔ امراض کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ طبی سہولتیں فراہم ہیں، اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ ان سب باتوں کے مظاہر ہر طرف دیکھے جا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس ترقی کا پورا فائدہ اصلاً ایک چھوٹے سے طبقے ہی کو حاصل ہے، لیکن عام آدمی بھی کسی نہ کسی درجے میں اس سے فیض یاب ہو رہا ہے۔

یہ آج کی سائنسی ترقی اور اس کے فوائد اور ثمرات کا حال ہے۔ دوسری طرف سماجی، معاشرتی اور سیاسی سطح پر پوری دنیا زوال اور پستی کی شکار ہے۔ اس سے نکلنے کی کوئی راہ اسے دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ موجودہ دور انسان کے بعض بنیادی حقوق کو تسلیم کرتا ہے، ان میں زندہ رہنے، عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے، وسائل حیات سے بلاامتیاز فائدہ اٹھانے، عقیدہ اور مذہب پر عمل کرنے، اظہارِ خیال اور عمل کی آزادی جیسے حقوق شامل ہیں۔ یہ حقوق قانوناً تو حاصل ہیں لیکن عملاً پامال ہو رہے ہیں۔ عام آدمی ان کی حفاظت نہیں کر پا رہا ہے۔ عدل و انصاف اور قانون کی حکم رانی کا ہر طرف چرچا ہے، لیکن ظلم و زیادتی کی حکومت ہے اور عدل و انصاف کا حصول آسان نہیں رہ گیا ہے، انسان فطری طور پر چاہتا ہے کہ پُرسکون اور امن و امان کی زندگی گزارے، لیکن فتنہ و فساد اور اضطراب کی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہے، مساوات اور برابری کے دعوے ہیں لیکن کم زور افراد اور قومیں طاقت ور افراد اور قوموں کا ہدفِ ستم بنی ہوئی ہیں اور ان کا ہر سطح پر استحصال ہورہا ہے۔ انسان کے سامنے مال و دولت اور عیش و عشرت کے سوا اور کوئی مقصد نہیں    رہ گیا ہے، اس لیے کسی غلط سے غلط اقدام میں بھی اسے تامل نہیں ہوتا۔ اخلاق اور قانون پر خواہشاتِ نفس غالب آگئی ہیں اور ترقی کے نام پر بے حیائی اور جنسی آوارگی کو فروغ مل رہا ہے۔ انسان جنسی جذبے کی تسکین کے لیے سماج اور قانون کی بندشوں کو توڑ پھینکنا چاہتا ہے۔ خاندان سے انسان کا جو فطری اور جذباتی تعلق تھا وہ ٹوٹ رہا ہے، الفت و محبت، خدمت اور ایثار و قربانی کی جگہ خود غرضی کی فضا پرورش پا رہی ہے۔ اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود معاشرے کے رگ و ریشے میں فساد پوری طرح پھیل چکا ہے اور بسااوقات نہ چاہتے ہوئے بھی آدمی کو اس کے کڑوے کسیلے پھل کھانے پڑ رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ دورِ حاضر کے اس بگاڑ کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ صحیح نظریۂ حیات سے محروم ہے۔ اس نے انسان کو مادی لحاظ سے تو بہت کچھ دیا، لیکن اس کائنات اور خود انسان کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر نہیں فراہم کر سکا۔ اس کی فکری اساس غلط ہے اس لیے وہ ایک طرف پیش قدمی کر رہا ہے تو دوسری طرف پستی کا شکار ہے۔ متوازن اور ہمہ جہت ترقی اسی وقت ممکن ہے جب کہ اس کی بنیاد صحیح فکر پر ہو۔

بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اگر موجودہ دور کی فکری اساس غلط ہے تو اس نے اتنی ترقی کیسے کی ہے؟ کیا غلط فکر کے ساتھ اس طرح کی ترقی ممکن ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ مادی ترقی کے لیے نظریۂ حیات کا صحیح ہونا ضروری نہیں ہے۔   اس کے بغیر بھی اس ترقی کا امکان ہے۔ قرآنِ مجید نے اس معاملے میں ہماری راہ نمائی کی ہے۔ اس نے عبرت و نصیحت کے لیے بعض قدیم قوموں کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس نے بتایا کہ ان کا فلسفۂ حیات غلط تھا، لیکن مادی ترقی کی راہیں ان پر بند نہیں تھیں۔ ان کے سامنے صرف دنیا تھی اور وہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔ چناں چہ انھوں نے اپنی محنت اور صلاحیت کے مطابق اس سے فائدہ اٹھایا اور خوب ترقی کی۔ قومِ عاد جسمانی طور پر بڑی توانا اور تن درست قوم تھی۔ قوت و طاقت میں اس وقت اس جیسی کوئی دوسری قوم نہ تھی (الفجر: ۶،۷)۔ اس قوم نے تفریح اور عیش کی خاطر اور شان و شوکت کے مظاہرے کے لیے بڑی بڑی عمارتیں اور قلعے اس طرح تعمیر کیے جیسے اسے اسی دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ اس کے علاقے میں عمدہ زراعت تھی، سرسبز و شاداب باغات تھے اور چشمے رواں تھے۔ اسے افرادی قوت بھی حاصل تھی۔ طاقت کا یہ عالم تھا کہ کسی پر یہ قوم ہاتھ ڈالتی تو اس کے شکنجے سے نکلنا آسان نہ تھا۔ (الشعراء: ۱۲۳-۱۳۴)

قومِ ثمود کا بھی یہی حال تھا، اس کے علاقے میں زراعت کو بڑا عروج حاصل تھا، پھلوں کی خوب پیداوار تھی، اس کے کارناموں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ پہاڑوں کو تراش کر بڑی مہارت کے ساتھ مکانات تعمیر کیا کرتی تھی۔  (الفجر، الشعراء: ۱۴۷-۱۴۹)

مصر میں فرعون کا بڑا دبدبہ تھا، وہ بڑی فوجی طاقت کا مالک تھا، اس کے لیے جگہ جگہ خیمے لگتے تھے، ملک میں خوش حالی تھی، باغات تھے، چشمے تھے، دولت کے خزانے تھے اور شان دار مکانات تھے۔  (الفجر:۱۰، الشعراء: ۵۷،۵۸)

قرآن مجید بتاتا ہے کہ یہ اور ان جیسی دوسری قوموں کی نادانی یہ تھی کہ وہ مادی ترقی ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھی تھیں۔ اس سے آگے سوچنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ انھیں اپنے علم و فن پر بڑا ناز تھا اور کسی راہ نمائی کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہ تھیں۔ اللہ کے رسولوں نے انھیں راہِ ہدایت دکھائی لیکن انھوں نے اسے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دن پورے ہونے لگے، ان کی مادّی ترقی انھیں ہلاکت سے نہ بچا سکی اور وہ تباہ و برباد ہوگئیں۔

قریشِ مکہ نے اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی تو قرآن نے کہا کہ تم سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت ور قوموں نے اللہ کے رسولوں کی مخالفت کی اور ان کی ہدایت قبول کرنے سے انکار کیا تو صفحۂ زمین سے مٹا دی گئیں۔ ان کے مقابلے میں تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر تم اللہ کے رسولؐ کی مخالفت کر رہے ہو تو اپنے انجام پر غور کرلو۔

وَکَـذَّبَ الَّـذِیْنَ مِنْ قَبْـلِھِمْ وَمَا بَلَغُـوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَیْنٰـھُمْ فَکَذَّبُوْا رُسُلِیْقف فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ o (السبا ۳۴:۴۵) ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی تکذیب کی، حالانکہ جو کچھ ہم نے ان کو دیا تھا اس کے عشر عشیر کو بھی یہ نہیں پہنچے۔ انھوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو (دیکھو کہ) میرے انکار کا کیا انجام ہوا۔

قرآن مجید نے بعض قوموں کا نام لے کر بھی قریشِ مکہ کو تنبیہ کی ہے۔ ایک جگہ فرمایا:

کَذَّبَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّعَادٌ وَّ فِرْعَوْنَ ذُو الْاَوْتَادِ o اوَ ثَمُوْدُ وَ قَوْمُ لُوْطٍ وَّ اَصْحٰبُ لْئَیْکَــۃِ ط اُولٰٓئِکَ الْاَحْزَابُ o اِنْ کُلٌّ اِلاَّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ (صٓ ۳۸: ۱۲-۱۴) اُن سے پہلے جھٹلا چکی ہے قوم نوح (قوم) عاد اور فرعون جو میخوں والا تھا۔ (قوم) ثمود، قوم لوط اور ایکہ والے (حضرت شعیبؑ کی قوم) یہ سب بڑی طاقتیں۔ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب ان پر آکر رہا۔

اس طرح قرآن نے یہ حقیقت واضح کی کہ کائنات میں موجود طبعی قوانین کو دریافت کرنے اور ان کو کام میں لانے سے مادّی ترقی ممکن ہے۔ جو قوم اس پر عمل کرے گی، اس پر مادّی ترقی کی راہیں کھلتی چلی جائیں گی۔ لیکن اس ترقی کو کنٹرول کرنے اور پوری زندگی کو صحیح سمت دینے کے لیے صحیح نظریۂ حیات کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر انفرادی اور اجتماعی زندگی فساد سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔

اسلام اس معاملے میں ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔ وہ صحیح نظریۂ حیات پیش کرتا ہے۔ وہ ان تمام سوالات کا اطمینان بخش جواب دیتا ہے جو انسان کے ذہن میں اس وسیع کائنات اور خود اس کی اپنی ذات کے بارے میں ابھرتے ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا کیا ہے؟ کیسے وجود میں آئی، کیا یہ ہمیشہ رہے گی یا اس کی رونق کبھی ختم ہوجائے گی؟ انسان کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے، اسے جو مختلف صلاحیتیں دی گئی ہیں ان کا مقصد کیا ہے؟ اللہ نے اس کی ہدایت اور راہ نمائی کا کیا انتظام کیا ہے؟ اس کی آخری منزل کیا ہے؟ اس کا انجام کیا ہونے والا ہے؟

اسلام ان بنیادی سوالات کا صرف جواب ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ ان کی اساس پر زندگی کا ایک پورا نظام پیش کرتا ہے۔ اس سے ہر گوشۂ حیات میں متوازن ترقی کی راہیں کھلتی ہیں اور آدمی کو قلبی سکون اور راحت بھی حاصل ہوتی ہے۔

ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ مذہب کی تعلیمات سے آدمی کو چاہے روحانی سکون حاصل ہوجائے لیکن مادّی ترقی ممکن نہیں ہے۔ قرآن مجید نے جگہ جگہ اس خیال کی تردید کی ہے، اس لیے کہ یہ مادہ پرست ذہن کی پیداوار ہے۔ اس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہے۔

یہود اپنی دنیا داری میں مشہور ہیں۔ اس کے لیے انھیں کوئی بھی غلط اور ناجائز طریقہ اختیار کرنے میں کبھی تامل نہیں رہا۔ یہ ایمان کی کم زوری اور اس احساس کا نتیجہ تھا کہ دین کی راہ سے دنیا حاصل نہیں کی جاسکتی۔ قرآن نے کہا اگر وہ دین پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں تو دنیا ان کے قدم چومنے لگے گی، زمین اپنے خزانوں کے منہ کھول دے گی اور آسمان سے نعمتوں کی بارش شروع ہوجائے گی:

وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقـَامُوا التَّـوْرٰۃَ وَ اْلِانْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ ط مِنْھُمْ اّمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَ o (المآئدہ ۵:۶۶) اگر یہ توریت اور انجیل کو اور ان دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کے رب کی جانب سے ان کے لیے نازل کی گئی تھیں، تو رزق ان کے اوپر سے بھی اترتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی اُبلتا۔ لیکن ان میں سے ایک چھوٹی سی جماعت سیدھی راہ پر ہے اور ان میں کے زیادہ تر برے کام کر رہے ہیں۔

یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اسلام دین و دنیا کی فلاح کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کا مطالعہ اسی رخ سے ہونا چاہیے، لیکن مختلف اسباب کی بنا پر مغرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اسلام اس حیثیت سے دنیا کے سامنے نہ آنے پائے۔ اس نے اسلام کو سمجھنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس نے اسے دیکھا تو صرف اس نقطۂ نظر سے دیکھا کہ اسے کس طرح ناقابلِ قبول اور ناقابلِ عمل قرار دیا جائے۔ اس کے لیے اس نے اسلام کے عقاید اور اس کی تعلیمات پر اعتراضات کا جو سلسلہ اپنی تہذیب کے غلبہ کے بعد شروع کیا وہ اب تک جاری ہے بلکہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں بعض پہلوؤں سے شدت بھی آگئی ہے۔ اس کے خلاف علمی، سیاسی، تہذیبی ہر طرح کے محاذ کھول دیے گئے ہیں۔ اس کی تصویر اس طرح مسخ کی جا رہی ہے کہ اس کی طرف کسی کی توجہ نہ ہو اور اسلام کا نام آتے ہی لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں۔

مغرب کے خدشات اور عزائم

اسلام کے بارے میں مغرب کے اس رویے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام موجودہ فکر اور تہذیب کے لیے زبردست چیلنج ہے۔ اس کی نظریاتی اور عملی قوت کو مخالف طاقتیں پوری طرح محسوس کررہی ہیں اور اس سے خوف زدہ ہیں۔ یہاں بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔

۱- جو بھی شخص اسلام پر سنجیدگی سے غور کرتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اندر موجودہ تہذیب کا متبادل بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے، جس کا اس نے جواب نہ دیا اور اس کا حل نہ پیش کیا ہو۔ چاہے اس کا تعلق عقیدہ اور فکر سے ہو، عبادات و اخلاق سے ہو،  تہذیب و معاشرت سے ہو، معیشت و سیاست سے ہو یا مادیت و روحانیت سے۔ کسی معاملے میں اس کے نقطۂ نظر سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسلام نے اسے نظر انداز کیا ہے یا اس سلسلے میں راہ نمائی نہیں کی ہے۔

۲- آج قیادت کا منصب مغرب کو حاصل ہے۔ پوری دنیا پر عملاً اسی کی حکومت ہے اور ہر جگہ اسلام کے ماننے والوں کو بُری طرح دبایا اور کچلا بھی جا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقریباً ہر جگہ اسلام کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ خود مغرب میں اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ یقین بھی اسلام کے ماننے والوں میں عام ہے کہ اس کے پاس ایک بہتر اور برتر نظامِ فکر و عمل ہے، صحیح عقیدہ اور فکر ہے، بہتر اخلاقیات ہیں، اعلیٰ تہذیب و تمدن ہے اور سیاست کے ایسے اصول ہیں جو دنیا کو بے لاگ عدل و انصاف فراہم کرسکتے ہیں اور جن کے ذریعے ہر طرح کے ظلم کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کی برتری کا یہ یقین صرف ان لوگوں میں ہی نہیں ہے، جو دورِ جدید سے بے خبر اور ’قدامت پسند‘ سمجھے جاتے ہیں، بلکہ ان افراد میں بھی پرورش پا رہا ہے، جو مغرب میں پیدا ہوئے، اس کی گود میں پلے بڑھے اور جن کی تعلیم و تربیت ان کے اداروں میں ہوئی اور جن کی ذہن سازی میں وہ مستقل لگے ہوئے ہیں۔ مغرب کے لیے تشویش کا پہلو    یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں وہ مسلمانوں کے ذہن کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہے۔ وہ مغرب کے فکر کو برداشت تو کر رہے ہیں، قبول نہیں کر رہے ہیں۔

۳- اس وقت عالم اسلام میں، بلکہ پوری دنیا میں ایسی تحریکیں موجود ہیں جو اسلام کو ایک غالب قوت کی حیثیت سے دیکھنا چاہتی ہیں۔ وہ اس صورتِ حال پر قانع اور مطمئن نہیں ہیں کہ دنیا پر فرماں روائی غیر اسلامی افکار کی ہو اور اسلام محکوم بن کر رہے۔ ان تحریکات کے طریقۂ کار میں حالات کے لحاظ سے فرق ضرور ہے لیکن یہ سب اسلام کو سربلند اور غالب دیکھنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ مغرب کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ ان تحریکات کے اثرات پھیل رہے ہیں۔ یہ آج کم زور ہیں لیکن کل طاقت ور ہوسکتی ہیں۔ اس احساس کے تحت مسلم راہ نماؤں اور ان کی نمایاں شخصیتوں کی تصویر بگاڑی جا رہی ہے، مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو بدنام کیا جا رہا ہے، اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ اسلامی تحریکیں دستوری اور قانونی طریقے سے بھی کامیاب نہ ہونے پائیں اور کامیاب ہوں تو انھیں اقتدار میں آنے سے کسی نہ کسی طرح روک دیا جائے۔

۴- مغرب کو یہ فکر بھی پریشان کر رہی ہے کہ مسلم ممالک مادی لحاظ سے بھی اس حیثیت میں ہیں کہ وہ اس کے حریف بن سکتے ہیں۔ کسی فکر کو آگے بڑھانے اور اسے غالب کرنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ اسے حاصل ہیں۔ ان وسائل پر گو اس وقت عملاً قبضہ مغربی طاقتوں ہی کا ہے۔ وہ ہر قیمت پر اپنا یہ قبضہ باقی رکھنا چاہتی ہیں، اس لیے کہ یہ ان کی مادی ترقی، خوش حالی اور اقتدار کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے انھوں نے بیش تر ممالک کے سربراہوں کو قابو میں کر رکھا ہے۔ وہ ان کے اشاروں پر چل رہے ہیں اور ان کے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جو مسلم ملک ان کے خلاف جانے کا ارادہ کرتا ہے، اسے ختم کرنے کی ہزار تدبیریں ان کے پاس موجود ہیں۔ لیکن یہ صورتِ حال دائمی نہیں ہے، اسے آزادانہ فیصلوں اور اقدامات کے ذریعے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت غالب امکان اس کا ہے کہ ان کے وسائل اور ذرائع اسلام کی سربلندی کے لیے استعمال ہوں۔ یہ چیز مغرب کے لیے باعث تشویش ہے۔

مسلمانوں کی بعض کمزوریاں

اسلام، مسلم ممالک اور اسلامی تحریکوں کے بارے میں مغرب کے عزائم مخفی نہیں ہیں۔ ہرصاحبِ دانش انھیں سمجھ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کی فکری اور تہذیبی کم زوریاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام کو سمجھنے کا رجحان بھی ابھر رہا ہے اور وہ مغرب کے عین مراکز میں خاموشی سے پھیل رہا ہے۔ اس کی فطری خوبیاں لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ یہ    صورت حال بہ ظاہر اسلام کے حق میں ہے لیکن خود اسلام کے ماننے والوں کو مختلف قسم کی کم زوریوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جب تک وہ ان پر قابو نہ پالیں اور اسلام کا نمونہ نہ پیش کریں اسلام کی سربلندی کی تمنا پوری نہیں ہوسکتی۔ یہاں بعض کم زوریوں کا ذکر کیا جا رہا ہے:

۱- اللہ تعالیٰ کے دین کی اساس پر امتِ مسلمہ وجود میں آئی ہے۔ وہ اس پر اپنے ایمان و یقین کا آج بھی اظہار کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ دنیا اور آخرت کی فوز و فلاح اسی سے وابستہ ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس کی پوری زندگی دین کے تابع ہو اور اس کا ہر قدم دین کی راہ نمائی میں اٹھے، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس پر دین کی گرفت کم زور پڑ چکی ہے، جو شخص دین دار تصور کیا جاتا ہے، اس کی پہچان یہ تو ہے کہ وہ نماز روزے اور بعض اخلاقیات کا پابند ہے، باقی یہ کہ اس کی شخصیت اس حیثیت سے نمایاں نہیں ہے کہ وہ دوسرے کے لیے بھی درد مند دل رکھتا ہے اور ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس طرح پوری ملت کی کوئی مضبوط دینی پہچان نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو ایک محدود دائرے میں۔ سماجی یا معاشرتی سطح پر اس کا دینی کردار دنیا کے سامنے نہیں ہے۔

۲- آدمی کے اخلاق سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے اور اس کی عزت اور احترام پر وہ خود کو مجبور پاتا ہے۔ اس سے آگے اگر کوئی قوم اخلاق و کردار کا ثبوت فراہم کرنے لگے تو اس کا اعتبار قائم ہو جاتا ہے۔ دنیا اس پر بھروسا کرنے لگتی ہے اور اس کی ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سیرت و کردار کے لحاظ سے یہ امت کہیں بھی نمایاں نہیں ہے۔ اس کے متعلق یہ تصور نہیں ہے کہ وہ اخلاق کی پابند ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے راست باز اور قول و قرار کے پابند ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے، رشوت نہیں لے سکتے اور کسی غیر اخلاقی حرکت کا ارتکاب نہیں کرسکتے۔ اس میں شک نہیں کہ امت کبھی ایسے افراد سے خالی نہیں رہی اور آج بھی ایسے افراد دیکھے جاسکتے ہیں، جن کے اخلاق قابلِ رشک ہیں اور وہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھے بھی  جاتے ہیں، لیکن بہ حیثیت مجموعی امت کا کوئی اخلاقی امتیاز نہیں ہے، بلکہ اس کی اخلاقی کم زوریاں اس کی خوبیوں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہیں۔ اس میں جب تک تبدیلی نہ ہو امت کا اعتبار قائم نہیں ہوسکتا۔

۳- مغرب کے سیاسی اقتدار اور اس کی تعلیم و تہذیب کی بنیاد دین و دنیا کی تفریق پر قائم ہے۔ اس کے فروغ سے امت کو ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس کے اندر بھی دین و دنیا کی تقسیم   عمل میں آگئی۔ دینی اور دنیوی یا سیکولر تعلیم کے الگ الگ ادارے وجود میں آگئے اور دونوں کے  میدانِ کار بھی الگ ہوگئے۔ امت نے عملاً یہ تسلیم کرلیا کہ علماے دین انفرادی اور شخصی امور و معاملات میں دینی راہ نمائی فراہم کریں گے اور سیکولر تعلیم پائے ہوئے افراد کی قیادت اجتماعی اور سیاسی امور میں ہوگی۔ ان دونوں طبقات کے درمیان ربط و تعلق اور ایک دوسرے کے علم اور تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت نہیں رہی۔ اس وجہ سے امت ایک مدت سے سخت کش مکش میں مبتلا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قیادت تقسیم نہیں ہوسکتی۔ اگر تقسیم ہوگی تو اس کا ایک متعین رخ نہ ہوگا، بیشتر معاملات میں وہ تضاد کا شکار ہوگی اور کبھی ذہنی اور عملی یک سوئی اسے حاصل نہ ہوگی۔ اس امت کو زندگی کے ہر میدان میں اور ہر معاملے میں دینی قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت آج کے حالات میں اسی وقت پوری ہوسکتی ہے، جب کہ علماے دین اور سیکولر تعلیم یافتہ حضرات کے درمیان بہت ہی مضبوط ربط و تعلق ہو، دونوں ایک دوسرے کے علم و تجربے سے فائدہ اٹھائیں، جس طبقے میں جس پہلو سے کمی ہے اسے دور کرنے میں اسے تامل نہ ہو اور دونوں طبقات مل کر اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد کریں۔ کوئی دوسرا مقصد ان کے سامنے نہ ہو۔

۴-  مسلمان ایک امت ہیں۔ ان کے درمیان اصول اور اساساتِ دین پر اتفاق ہے۔ البتہ تفصیلی احکام و مسائل میں اختلافات ہیں۔ یہ اختلافات دورِ اول سے چلے آرہے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ ان اختلافات نے بہت ہی ناپسندیدہ شکل اختیار کرلی ہے۔ اس کا اثر شخصی، سماجی اور معاشرتی تعلقات پر بھی پڑ رہا ہے۔ آپس میں دوری پائی جاتی ہے اور ہر فریق دوسرے کو حریف کی حیثیت سے دیکھنے لگا ہے۔ دین و شریعت اور موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہمارے رویوں میں تبدیلی آئے، اس کے لیے بعض باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

یہ اختلافات اصول میں نہیں فروع میں ہیں، جو اہمیت اصول کی ہے وہ فروع کی نہیں ہے۔ ان اختلافات کی نوعیت زیادہ تر علمی ہے۔ اسے علمی موضوع ہی ہونا چاہیے۔ اسلامی اخوت کا تقاضا ہے کہ ان کا اثر آپس کے تعلقات پر نہ پڑنے پائے۔ بسا اوقات ہمارے نزدیک اپنے یا اپنے گروہ کے مفاد کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ ہم اسی کے لیے سوچتے اور تدبیر کرتے ہیں۔ ملت کا مفاد پیچھے چلا جاتا ہے۔ ملت کا وسیع تر مفاد پیش نظر ہو تو ہم اپنے اختلافات پر قابو پاسکتے ہیں اور اتحاد و اتفاق کی راہیں کھل سکتی ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ امت کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ اپنے حدود میں رہیں اور اُمت کے اندر انھیں برداشت کرنے کا مزاج پیدا ہوجائے تو وہ دنیا کی ایک بڑی طاقت ہوگی۔ اسی لیے اب مغرب کی بھی کوشش ہے کہ ان اختلافات کو ہوا دی جاتی رہے تاکہ یہ امت آپس ہی میں دست و گریباں رہے اور اصل حریف کی طرف سے اس کی توجہ ہٹ جائے۔ (بہ شکریہ سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ، اپریل- جون ۲۰۰۸ء)

 

۔

ہجرتِ حبشہ کی جو تفصیل اوپر بیان ہوئی ہے اس سے بعض اہم پہلو سامنے آتے ہیں:

۱- خصوصی حالات میں ہجرت: حبشہ ہجرت کرنے کی صحابہ کرامؓ کو اس وقت اجازت دی گئی‘ جب کہ مکّہ کی سرزمین ان کے لیے تنگ ہو گئی‘ دین پر قائم رہنا دشوار سے دشوار تر ہوگیا‘ اور دعوت کی راہیں مسدود ہو گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جس ملک میں رہتے ہیں‘ وہاں دین پر عمل کی اگر آزادی ہے ‘ دعوت کے مواقع حاصل ہیں اور اس کی راہیں کھلی ہیں تو اس ملک کو چھوڑنے یا اس سے ہجرت کا جواز ان کے لیے نہیں ہے۔ ان کی دینی ذمّہ داری ہے کہ وہ وہیں قیام کریں اور دین پر عمل کرتے ہوئے اس کی دعوت و تبلیغ اور سربلندی کی جدوجہد جاری رکھیں (تلاشِ معاش یا کسی دنیوی غرض سے کسی ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہونایا رہایش اختیار کر لینا ہجرت نہیں ہے)۔

۲- دین کی محبت کو فوقیت:  ہجرت کرنے والوں نے انتہائی بے بسی اور مجبوری کی حالت میں اپنا وطن چھوڑا‘ گھر بار چھوڑا اور اپنے خویش و اقارب سے قطعِ تعلق کیا اور اجنبیت کی زندگی اختیار کی۔ کوئی

تنِ تنہا تھا‘ کوئی جوان بیوی اور ننھے اور معصوم بچے کے ساتھ تھا‘ کسی کے پاس سواری تھی‘ زیادہ تر پیدل تھے۔ تن بہ تقدیر ایک نامعلوم مستقبل کی طرف چل پڑے۔ وہ قدم قدم پر اس بات کا ثبوت فراہم کرتے چلے جا رہے تھے کہ اللہ کا دین ان کے لیے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دے سکتے ہیں۔ اسی جذبے نے انھیں دُنیا اور آخرت کی کامیابی سے ہم کنار کیا۔

۳- دارالامن کی طرف: حبشہ ایک غیر اسلامی اور عیسائی سلطنت تھی لیکن وہاں مسلمانوں کو اسلامی عقیدے پر قائم رہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی آزادی تھی۔ تبلیغ کے مواقع بھی حاصل تھے۔ اس پہلو سے وہ مہاجرین کے لیے دارالامن بن گیا۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر کسی ملک میں اسلام پر قائم رہنا سخت دشوار ہو جائے اور کوئی دارالاسلام‘ جہاں مسلمان ہجرت کر سکے‘ موجود نہ ہو‘ تو وہ کسی غیر اسلامی ملک میں جہاں دین پر عمل اور اس کی دعوت و تبلیغ کی آزادی حاصل ہو‘ ہجرت کر سکتا ہے۔

۴- حلیف غیر مسلم سے ہمدردی:  نجاشی کا ایک حریف‘ سلطنت کا دعوے دار بن کر اس کے خلاف کھڑا ہوا۔ دونوں کے درمیان معرکہ آرائی کی نوبت آگئی‘ اس میں مسلمانوں کی ہمدردی نجاشی کے ساتھ تھی‘ اس لیے کہ نجاشی عدل و انصاف کا علم بردار تھا۔ ظلم و زیادتی کو صحیح نہیں سمجھتا تھا۔ اس نے مملکت میں یہ اعلان کر رکھا تھا کہ کسی شخص کو مسلمانوں پر دست درازی کی اجازت نہ ہوگی ورنہ اس پر جرمانہ عائد ہوگا۔ اس طرح نجاشی نے ان کے دین اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لیے تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس کے حریف کے بارے میں یہ بات قطعیت کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی تھی کہ وہ اسی طرح کا رویہ اختیار کرے گا۔ اس لیے مسلمانوں کی ہمدردی نجاشی کو حاصل تھی اور وہ اس کی کامیابی کے آرزومند تھے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو مسلمان کسی غیر اسلامی سلطنت میں رہتے ہیں انھیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کس فرد یا گروہ کا اقتدار اسلام کے لیے اور خود ان کے لیے بہتر اور مفید ثابت ہوگا اور جو اقتدار بہتر ہو اس کے حق میں ان کی ہمدردی ہونی چاہیے۔

۵- دعوت و تبلیغ کا نیا چیلنج: دعوت و تبلیغ کے معاملے میں ہجرتِ حبشہ ایک نیا تجربہ تھا۔ مکّہ میں مشرکین سے سابقہ تھا۔وہاں شرک کی نامعقولیت واضح کی جا رہی تھی اور توحید کے دلائل دیے جا رہے تھے۔ حبشہ میں مسلمان ایک نئی صورت حال سے دوچار تھے۔اس عیسائی مملکت میں چاروں طرف عیسائیت کا چرچا تھا اور مسیحی عقائد زیربحث تھے۔ ہجرت حبشہ سے پہلے مکّہ ہی میں سورہ مریم نازل ہو چکی تھی جس میں حضرت مریم اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی صحیح حیثیت واضح کی جا چکی تھی۔ ان کی تعلیمات بھی تفصیل سے بیان ہوئی تھیں۔  سورہ کہف میں ابن اللہ کے تصور کی تردید اور عیسائی تاریخ کے بعض واقعات‘ توحید کی دعوت اور اس پر استقامت کا ذکر تھا۔ اس طرح مہاجرین اس نئی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے پہلے سے علمی اور فکری طور پر تیار تھے۔ نجاشی کے دربار میں اس سے فائدہ اٹھایا اور اس کے مطالبے پر قرآن کی تعلیمات قرآن ہی کے الفاظ میں پیش کیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس دَور میں اور جس ماحول میں جو علمی و فکری سوالات اُبھریں اسلام کی دعوت کے لیے ان کا جواب فراہم کرنا ضروری ہے‘ ورنہ اسلام کی حقانیت ثابت نہ کی جا سکے گی اور دعوت کا حق ادا نہ ہوگا۔

۶- ایمان‘ عزم اور جرأت کی اہمیت: نجاشی اپنے دربار میں اعیانِ سلطنت اور مذہبی رہنمائوں کے ساتھ موجود تھا۔ وہ سب اسلام سے بے خبر اور عیسائیت کے ماننے والے اور اس کے علم بردار تھے۔ ان کے درمیان حضرت جعفرؓ نے ایمانی جرأت کا زبردست ثبوت دیا۔ اسلام کے عقائد‘ توحید ‘ رسالتؐ اور آخرت کے تصور اور اس کے اخلاقیات کی وضاحت کی اور حضرت عیسٰی ؑ کے بارے میں اسلام کے عقیدے کو

بے کم و کاست پیش کیا۔ اس طرح یہ ثابت کر دیا کہ نازک سے نازک حالات میں بھی دین کی ترجمانی اور اس کی تعبیر و تشریح میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے‘ حالات اور ماحول کے زیراثر اسلام کی ناقص اور نامکمل ترجمانی کی اجازت نہیں ہے۔ ان حضرات کا عزم و حوصلہ اور ایمانی جذبہ قیامت تک داعیانِ دین کے لیے نمونہ ہے۔

۷- حکمران کا قبولِ اسلام: روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی اسلام لے آئے تھے۔ متعدد واقعات سے ان کا اسلام پر ایمان و یقین‘ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور خیرخواہی کا ثبوت ملتا ہے۔ انھوں نے حضرت جعفرؓ کی تقریر سننے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنے دربار میں کہا کہ یہی وہ آخری پیغمبر ہیں جن کی بشارت انجیل میں دی گئی ہے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں آپؐ کی تعلیمات بالکل صحیح ہیں۔ آپؐ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے موقع ہوتا تو میں آپؐ کی خدمت میں پہنچتا اور آپؐ کے پیر دھوتا‘ لیکن مملکت پر ان کا اتنا مضبوط کنٹرول نہیں تھا کہ وہ کھل کر اسلام کا اظہار کرتے۔ حبشہ کے عوام اسے برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ جب وہاں کے لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ ان کا عقیدہ بدل گیا ہے تو وہ بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔ اس صورت حال کے پیش نظر نجاشی نے حضرت جعفر ؓ اور اُن کے ساتھیوں کو اپنے پاس بلایا۔ ان کے لیے کشتیوں کا انتظام کیا اور کہا کہ آپ حضرات ان کشتیوں پر سفر کے لیے تیار رہیں۔اگر مجھے شکست ہو جائے تو جہاں چاہیں چلے جائیں۔ لیکن اگر مجھے فتح حاصل ہو تو حسب سابق یہیں قیام کریں۔ پھر ایک تحریر لکھی جس میں کلمہ ء شہادت اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدًا عبدہ ورسولہ تھا اور یہ بھی تھا کہ نجاشی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ ابن مریم اللہ کے بندے ‘ اس کے رسول اور اس کی روح تھے اور اس کا کلمہ تھے جسے اس نے مریم کے اندر پھونکا تھا۔ اس تحریر کو نجاشی نے اپنی عبا کے نیچے دائیں جانب رکھ چھوڑا۔ اس کے بعد حبشہ کے باغی گروہ کے پاس پہنچا۔ وہ اس کے مقابلے کے لیے صف باندھے تیار تھے۔ اُن سے کہا: لوگو! کیا میں اس ملک پر حکومت کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں آپ ہی اس کے مستحق ہیں۔ نجاشی نے سوال کیا کہ: تم نے میرے اخلاق اور میری سیرت کیسی دیکھی؟ لوگوں نے جواب دیا: آپ بہتر سیرت کے مالک ہیں‘ لیکن آپ نے ہمارا دین ترک کر دیا ہے اور یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ اللہ کے بندے تھے۔ نجاشی نے ان سے سوال کیا کہ: حضرت عیسٰی ؑ کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ: ہم انھیں ابن اللہ سمجھتے ہیں۔ اس پر نجاشی نے عبا کے اوپر سے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا: عیسٰی ؑ ابن مریم اس سے زیادہ کچھ نہ تھے۔ (نجاشی کی مراد اس تحریر سے تھی جو ان کی عبا کے نیچے تھی لیکن مجمع نے سمجھا کہ وہ ان کے خیال کی تائید کر رہے ہیں)۔ وہ خوش اور مطمئن ہو گئے اور بغاوت ٹل گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی یہ بات پہنچی تھی۔ (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویۃ: ۱/۳۷۸-۳۷۹۔ ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۲۸-۲۹)

۸- باحیثیت افراد کی مجبوریاں: اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ایک عام آدمی ہی نہیں‘

صاحب حیثیت اور بااقتدار فرد بھی ایسے حالات میں گھر سکتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کا اعلان اور اظہار نہ کر سکے۔ شریعت پر نجاشی کس حد تک عمل کر رہے تھے‘ اس کی تفصیل نہیں ملتی۔ شریعت پر کھل کر عمل کرنا شاید اُن کے لیے ممکن نہ تھا۔ اتنی بات طے ہے کہ وہ حج‘ ہجرت اور جہاد جیسے احکام پر عمل نہیں کر سکے اور اپنی مملکت میں اسلامی احکام بھی نافذ نہ کر سکے۔ لیکن اس کے باوجود کفر و شرک کے ماحول میں اسلام اور مسلمانوں سے ان کی ہمدردی جاری رہی۔ مہاجرین کو اپنے ہاں جگہ دی۔ ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا۔ ان کی ہر طرح حفاظت کی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر حضرت ام حبیبہ ؓ کا آپ سے نکاح کیا اور بڑے اہتمام سے رخصت کیا۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۷۵۸-۷۵۹)

حضرت جعفرؓ کا قافلہ جب روانہ ہونے لگا تو کشتیاں فراہم کیں‘ سفر کا انتظام کیا اور پورے سازوسامان کے ساتھ روانہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے رویے اور سلوک کی اطلاع دیں‘ یہ میرا ایک ساتھی (عزیز) آپ حضرات کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا رہا ہے۔ کلمہ ء شہادت پڑھا اور کہا کہ آپ حضرات حضورؐ سے درخواست کریں کہ وہ میری مغفرت کی دعا فرمائیں۔ خیبر پہنچنے پر نجاشی کے روانہ کردہ شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضرت جعفرؓ یہاں موجود ہیں‘ آپؐ ان سے دریافت فرمائیں کہ نجاشی کا رویہّ ان کے ساتھ کیسا تھا اور ان کا عقیدہ کیا ہے؟ حضرت جعفرؓ نے تفصیل بتائی اور کہا کہ وہ آپؐ پر ایمان رکھتے ہیں اور آپؐ سے دعا کی درخواست کی ہے۔ آپؐ نے وضو کیا اور تین مرتبہ فرمایا: اے اللہ! نجاشی کی مغفرت فرما ۔ اس پر مسلمانوں نے آمین کہا۔ (ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۶)

نجاشی کا ۹ ہجری میں انتقال ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپؐ نے مدینہ میں منادی کرائی کہ حبشہ کے ایک صالح بندے کا انتقال ہو گیا ہے۔ لوگو‘ چلو اس کی نماز جنازہ پڑھو‘ اس کے لیے مغفرت کی دعا کرو۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: تمھارے بھائی اصحمہ (نجاشی کا نام) کا انتقال ہو گیا ہے‘ چلو اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے۔ چنانچہ آپؐ لوگوں کو لے کر عیدگاہ تشریف لے گئے اور نماز پڑھی۔

بعض حضرات کا خیال ہے کہ آپؐ نے نجاشی کی نمازِ جنازہ اس لیے پڑھی کہ حبشہ میں ان کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی۔ اُن کے قریب ایسے لوگ نہیں تھے جو اسلام پر ایمان رکھتے اور نمازِ جنازہ پڑھتے ہوں۔(۱)

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نجاشی کس طرح کے ماحول میں گھرے ہوئے تھے۔ اس طرح کے حالات اور ماحول میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے انھوں نے جو کچھ کیا شاید اس سے زیادہ وہ نہیں کر سکتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مجبوریوں اور معذوریوں کے ساتھ ان کے ایمان اور خلوص کی تصدیق فرمائی۔

ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اور مغفرت کی دعا فرمائی۔ ان کی کامیابی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے۔

 (بہ شکریہ سہ ماہی تحقیقات اسلامی‘ علی گڑھ‘ دسمبر ۲۰۰۰ء)


حواشی

۱-  ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۲۹-۳۰‘ غائبانہ نمازِ جنازہ پر فقہا کے درمیان اختلاف ہے ‘تفصیل کے لیے دیکھیے‘

                فتح الباری: ۳/۵۴۴-۵۴۵

مکّہ میں اسلام کی دعوتِ عام شروع ہوئے ابھی دو ہی سال گزرے تھے کہ فضائوں میں ارتعاش پیدا ہو گیا‘ ایک ہلچل سی مچ گئی اور دعوت کو جاری رکھنا دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا گیا۔ جو اصحابؓ اسلام قبول کر رہے تھے‘ ان کے لیے زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہونے لگی۔ ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اہم اور دُور رس اقدامات کیے ان میں ایک اہم قدم یہ تھا کہ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو حبشہ ہجرت کر جانے کا مشورہ دیا۔ یہ بعثت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے۔

ہجرت حبشہ اسلام کی دعوت کی راہ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے‘ اس لیے اسے کسی قدر تفصیل سے پیش کیا جا رہا ہے۔

ملکِ حبشہ: حبشہ ایک بڑی سلطنت تھی۔ اس کے حدود دُور تک پھیلے ہوئے تھے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ملکِ حبشہ یمن کے مغربی جانب واقع ہے۔ اس کی مسافت کافی طویل ہے۔ یہ کئی اجناس (قوموں) پر مشتمل ہے۔ سوڈان کے تمام فرقے حبشہ کے بادشاہ کی اطاعت کرتے ہیں۔ قدیم زمانہ میں وہاں کے بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا تھا۔ اب اسے حَطِی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حبش بن کوش بن حام کی اولاد ہیں۔(فتح الباری: ۷/۵۸۷)

ہجرت حبشہ کا پس منظر

ہجرت حبشہ جن حالات میں ہوئی اس کی تصویر کشی امام زہری نے اس طرح کی ہے: ’’جب مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی‘ ایمان کا برملا اظہار ہونے لگا‘ اس پر بحث و گفتگو کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تو قریش نے سخت رویہ اختیار کیا۔ قبائل قریش میں سے جس قبیلے کے بھی افراد ایمان لاتے‘ ان پر (بالعموم) پورا قبیلہ ٹوٹ پڑتا‘ انھیں شدید اذیتیں پہنچائی جاتیں‘ قیدوبند میں رکھا جاتا اور انھیں اسلام سے پھیرنے کی کوشش کی جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حالات میں صحابہ کرامؓ سے کہا کہ وہ مکہ سے کسی دوسری جگہ چلے جائیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم کہاں جائیں؟‘‘ آپؐ نے حبشہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ ہجرت کے لیے آپؐ دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اسے زیادہ پسند فرماتے تھے۔ اس کے بعد بہت سے مسلمانوں نے حبشہ ہجرت کی۔ (ابن سعد‘ الطبقات الکبریٰ: ۱/۲۰۳-۲۰۴)

مزید تفصیل ابن اسحٰق کے ہاں ملتی ہے۔ کہتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ ؐ کے اصحاب سخت مصائب اور مشکلات میں گرفتار ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپؐ کو جو مرتبہ و مقام حاصل تھا اس کے باعث اور آپ ؐکے چچا ابوطالب کو آپؐ سے جو قلبی تعلق تھا اور آپؐ کو جس عزت و احترام سے وہ دیکھ رہے تھے‘ اس کی وجہ سے آپؐ ان مشکلات سے (کسی قدر)محفوظ ہیں۔ آپؐ کے صحابہ جن حالات سے گزر رہے ہیں اور جس طرح کی شدید تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں‘ ان میں آپؐان کی مدد بھی نہیں کر پا رہے ہیں تو آپؐنے ان سے کہا کہ وہ حبشہ ہجرت کر جائیں۔ اس لیے کہ وہاں کا بادشاہ عدل پسند ہے‘ اس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ حبشہ ’ارض صدق‘ (سچائی کی زمین) ہے۔ وہ وہاں اس وقت تک رہیں جب تک اللہ تعالیٰ کو ئی سبیل نہ نکال دے۔ اس کے بعد مسلمان حبشہ ہجرت کرنے لگے۔یہ ہجرت‘ دین کی راہ میں فتنے کے خوف سے تھی‘ یہ اپنے دین کی خاطر اللہ کی طرف ہجرت تھی۔ یہ اسلام کے لیے سب سے پہلی ہجرت تھی‘‘۔ (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویہ: ۱ /۳۵۸-۳۵۹)

مہاجرینِ حبشہ کا پہلا قافلہ

ابن اسحٰق کا بیان ہے کہ حبشہ کے مہاجرین کا پہلا قافلہ دس افراد پر مشمل تھا۔ ان کے نام بھی اس نے دیے ہیں۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ یہ کل ۱۱ مرد اور ۴ خواتین تھیں۔(۱)

بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مبارک سفر پر سب سے پہلے حضرت عثمان ؓ اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی) کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی تو آپؐ کو تشویش ہوئی۔ پھر قریش کی ایک عورت نے جو اس طرف سے آرہی تھی‘ آپؐسے کہا کہ میں نے آپؐ کے داماد کو دیکھا کہ وہ اپنی بیوی کو ایک کم زور سے گدھے پر بٹھا کر خود اسے ہانکتے چلے جا رہے تھے۔ آپؐنے دعا کی‘ اللہ ان کے ساتھ ہو۔ فرمایا: حضرت لوط ؑ کے بعد عثمان پہلے شخص ہیں جنھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ خدا کی راہ میں ہجرت کی ہے۔(۲)

اس سفر پر لوگ خاموشی سے (غالباً یکے بعد دیگرے) نکلے تاکہ کسی کو خبر نہ ہو۔(۳) ان میں سے بعض تنہا تھے‘ بعض کے ساتھ ان کی بیویاں تھیں۔ زیادہ تر پیدل تھے۔ شعیبہ (یمن کے راستے میں ساحل پر واقع ایک وادی) کے پاس پہنچے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس وقت تاجروں کی دو کشتیاں لنگرانداز ہوئیں۔ نصف دینار کرایہ طے کر کے یہ ان میں سوار ہو گئے۔ قریش کو ان کے سفر کی اطلاع ملی تو انھوں نے اپنے آدمیوں کو دوڑایا‘ لیکن کشتیاں روانہ ہو چکی تھیں۔ (ابن سعد‘ طبقات: ۱/۲۰۴)

اس کے بعد حضرت جعفرؓ اور دوسرے اصحاب نے ہجرت کی۔ حبشہ ہجرت کرنے والوں کی کل تعداد ابن اسحٰق نے ۸۳ بتائی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس تعداد میںحضرت عمار بن یاسرؓ بھی شامل ہیںلیکن ان کے بارے میں شبہ ہے کہ انھوں نے حبشہ ہجرت کی تھی یا نہیں؟ اس میں کم سن اور گود کے بچوں کا اور ان بچوں کا جو حبشہ میں پیدا ہوئے‘ شمار نہیں کیا گیا ہے (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویہ: ۱/۳۶۷)۔ ان کے علاوہ خواتین تھیں جن کی تعداد اٹھارہ بتائی جاتی ہے۔(۴)

واقدی کا بیان ہے کہ جب حبشہ یہ خبر پہنچی کہ اہل مکّہ نے سجدہ کیا ہے اور وہ سب اسلا م لے آئے ہیں تو مہاجرین نے سوچا کہ اب مکّہ میں ان کا مخالف کون رہ گیا ہے؟ چنانچہ یہ مکّہ واپس لوٹنے لگے۔ یہ غلط فہمی کیسے ہوئی یا یہ افواہ کیسے پھیلی تو مورخین نے لکھا ہے کہ مشرکین کے سجدے کے واقعے کو جس کسی نے نقل کیا اس نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں مشرکین نے سجدہ کیا ہے تو اس نے سمجھا کہ وہ اسلام لے آئے ہیں اور آپؐ کے ساتھ ان کی صلح ہو گئی ہے اور کوئی نزاع باقی نہیں رہی۔

مہاجرین حبشہ کو جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے اسے صحیح سمجھ لیا‘ کچھ لوگ مکّہ واپس ہو گئے اور کچھ لوگ وہیں رہے۔ جو لوگ حبشہ سے مکّہ واپس ہوئے ان کی تعداد ۳۳ تھی۔ ابن ہشام نے فرداً فرداً اُن کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اُن میں سے کس کا کس قبیلے سے تعلق تھا۔ (السیرۃ النبویہ: ۱/۴۰۷)

دوسری ہجرتِ حبشہ اور کفّارِ مکّہ کا تعاقب

حبشہ سے جو اصحاب مکّہ واپس ہوئے قریش نے ان کے ساتھ پہلے سے زیادہ سختی شروع کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیںدوبارہ حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔(۵) جو اصحاب حبشہ سے واپس ہوئے اُن میں سے بیشتر پھر حبشہ روانہ ہو گئے‘ اُن کے ساتھ کچھ نئے اصحاب بھی تھے۔(۶)

مہاجرین حبشہ جن حالات سے گزرے‘ اس کی روداد ہمیں حضرت ام سلمہؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت جعفرؓ  اور حضرت عمرو بن العاصؓ کی روایتوں میں ملتی ہے۔ یہ وہ اصحاب ہیں جن کا براہِ راست اس ہجرت سے تعلق تھا۔ پہلے تین اصحاب مہاجرین حبشہ میں سے ہیں اور حضرت عمرو بن العاصؓ مشرکین کی طرف سے سفیر کی حیثیت سے نجاشی کے پاس گئے تھے۔

حبشہ ان مہاجرین کے لیے اچھی پناہ گاہ ثابت ہوا اور وہ وہاں اطمینان اور سکون سے رہنے لگے۔ حضرت ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب حبشہ پہنچے تو ہمارے ساتھ نجاشی کا سلوک بہت اچھا رہا‘ وہ ہمارے لیے بہترین پڑوسی تھے۔ دین کے معاملے میں ہم محفوظ و مامون ہو گئے۔ کوئی ہمیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچاتا تھا اور کوئی ناپسندیدہ بات ہمیں سننی نہیں پڑتی تھی۔

قریش کے علم میں جب یہ بات آئی تو ان کی عصبیتِ جاہلیہ بھڑک اٹھی‘ انھوں نے مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے؟ طے پایا کہ نجاشی کے پاس سفیر بھیج کر درخواست کی جائے کہ وہ ان لوگوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کرے اور ہمارے حوالے کر دے۔ سفارت کے لیے دو خوب مضبوط اور توانا افراد کا انتخاب کیا جائے۔ نجاشی کو مکّہ کی سب سے قیمتی چیزیں بطور تحفہ بھیجی جائیں۔ اس کے ایک ایک مذہبی رہنما کے لیے بھی تحائف کا انتظام کیا جائے۔ اہل حبشہ کو یہاں کے چمڑے بہت پسند تھے۔ عمدہ چمڑے جمع کیے گئے۔ اس کے ساتھ نجاشی کے لیے ایک گھوڑا اور ریشمی عبا (کرتا) بھی تھی۔ حبشہ کے مذہبی رہنمائوں کے لیے بھی تحفوں کا انتظام کیا گیا۔ ان تحائف کے ساتھ عبداللہ بن ابوربیعہ اور عمرو بن العاص کو سفارتی مہم پر روانہ کیا گیا ۔(۷)ان سفیروں نے حسب فیصلہ ہرسردار تک اس کا تحفہ پہنچایا اور اس سے کہا کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بادشاہ کی مملکت میں بھاگ آئے ہیں‘ اپنا دین چھوڑ دیا ہے‘ آپ کا دین (عیسائیت) بھی قبول نہیں کیا ہے‘ بلکہ ایک نیا ہی دین ایجاد کر رکھا ہے جس سے نہ ہم واقف ہیں نہ آپ حضرات۔ ہمارے اشراف اور سرداروں نے ہمیں بادشاہ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ وہ انھیں واپس کر دیں۔ جب بادشاہ سے ہماری بات ہو تو آپ حضرات بادشاہ کو مشورہ دیں کہ وہ انھیں ہمارے حوالے کر دیں اور اُن سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کریں‘ اس لیے کہ اُن کے سردار اور ان کے بزرگ ان کے حالات سے زیادہ باخبر ہیں۔ ان پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ حبشہ کے مذہبی سرداروں نے اس سے اتفاق کیا۔

اب دونوں سفیروں نے براہِ راست نجاشی سے ملاقات کی اور تحفے تحائف پیش کیے۔ نجاشی نے تحفے قبول کیے۔ اپنی نشست کے دائیں بائیں دونوں سفیروں کو جگہ دی۔ آمد کا مقصد دریافت کیا۔ انھوں نے وہی باتیں دہرائیں جو کہ پادریوں سے کی تھیں کہ ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان آپ کی مملکت میں بھاگ آئے ہیں‘ اپنی قوم کے دین کو ترک کر دیا ہے اور آپ کے دین کو بھی قبول نہیں کیا ہے‘ ایک نیا ہی دین اختیار کر رکھا ہے۔ ان کی قوم کے سرداروں نے‘ اُن کے خاندانوں کے بزرگوں نے‘ ان کے باپوں اور چچائوںنے‘ ان کا جن قبائل سے تعلق ہے‘ ان کے نمایاں افراد نے ہمیں آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تاکہ آپ انھیں ان کے وطن لوٹا دیں۔ سفیروں نے نجاشی کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس مسئلے میں وہ ان مہاجرین سے کوئی بات نہ کرے‘ اس لیے کہ ان کی قوم ان کے غلط فکروعمل سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ واقف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں سفیروں کو یہ سخت ناگوار تھا کہ نجاشی سے مہاجرین کی گفتگو ہو۔ انھیں اندیشہ تھا کہ اس سے نجاشی متاثر ہو سکتا ہے۔ مجلس میں جو سردار اور مذہبی رہنما موجود تھے انھوں نے بھی سفیروں کے اس خیال کی تائید کی کہ مہاجرین سے گفتگو کی چنداں حاجت نہیں ہے۔ نجاشی نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا:‘قسم خدا کی‘ میں  تحقیق حال کے بغیر انھیں اس طرح ان کے حوالے نہیں کروں گا۔ یہ بات سراسرناانصافی کی ہوگی کہ کچھ لوگوں نے میری ہم سائیگی اختیار کی‘ میرے ملک میں آئے‘ دوسروں کے مقابلے میں مجھے پسند کیا‘ میں ان سے بات چیت کیے بغیر ہی انھیں نکال باہر کروں۔ میں اُن سے معلومات حاصل کروں گا۔ اگر سفیروں کی بات درست نکلی تو انھیں ان کے حوالے کر دوں گا اور انھیں ان کی قوم کے پاس پہنچا دوں گا۔ لیکن اگر بات دوسری ہو تو میں انھیں ان سفیروں کے حوالے نہیں کروں گا۔ جب تک وہ میرے پاس ہیں ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا۔

مہاجرین سے گفتگو سے پہلے نجاشی نے مذہبی رہنمائوں (نصاریٰ کے علما و پادریوں) کو طلب کیا۔ وہ حاضر ہوئے تو اُن سے کہا کہ وہ اپنے صحیفے کھول لیں (غالباً اس خیال سے کہ دیکھیں ان مہاجرین کی باتوں کی ان صحیفوں سے تصدیق ہوتی ہے یا نہیں؟)۔

جعفرؓ بن طیّار کا کلمۂ حق

اب اس نے مہاجرین کو طلب کیا۔ قاصد اُن کے پاس پہنچا تو انھوں نے باہم مشورے سے طے کیا کہ بادشاہ کے سامنے وہی بات رکھی جائے جس کی تعلیم ہمارے پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے‘ چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ حضرت جعفرؓ نے کہا ‘نجاشی کے سامنے میں تم سب کی نمایندگی کروں گا۔ سب نے اس سے اتفاق کیا۔

مہاجرین روانہ ہوئے۔ دربار میں پہنچنے سے پہلے حضرت جعفرؓ نے باہر سے آواز دی کہ جعفر دروازے پر ہے۔ اس کے ساتھ حزب اللہ ہے‘ کیا حاضری کی اجازت ہے؟ نجاشی نے کہا: ہاں۔ تمھیں اللہ کی امان اور اس کی پناہ حاصل ہے‘ اندر آسکتے ہو۔ حضرت جعفرؓ داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے ان کے رفقا تھے‘ سلام کیا۔ دربار میں جو علما اور راہب موجود تھے‘ انھوں نے ان سے کہا کہ بادشاہ کو سجدہ کرو۔ حضرت جعفرؓ نے انکار کر دیا۔ (ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۲)

عمرو بن العاص نے کہا کہ یہ بڑے متکبر اور نخوت بھرے لوگ ہیں۔ خود کو حزب اللہ کہتے ہیں۔ جس طرح دوسرے لوگ آپ کی تعظیم بجا لاتے ہیںاس طرح انھوں نے تعظیم نہیں کی اور سجدئہ تعظیمی بھی نہیں کیا۔ نجاشی نے اُن سے اس کی وجہ دریافت کی تو حضرت جعفرؓ نے کہا کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں‘ اس کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ ہمارے پیغمبر نے ہمیں بتایا ہے کہ اہل جنت آپس میں سلام کریں گے۔ ہم بھی ایک دوسرے کو سلام ہی کرتے ہیں۔ چونکہ انجیل میں یہ بات موجود ہے‘ اس لیے نجاشی سمجھ گیا کہ یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۲۸)

نجاشی اورحضرت جعفرؓ کے درمیان حسب ذیل گفتگو ہوئی:

نجاشی: تمھارا دین کیا ہے؟ کیا تم نصاریٰ ہو؟

حضرت جعفرؓ: نہیں۔

نجاشی: کیا تم یہود ہو؟

حضرت جعفرؓ: نہیں‘ ہم یہود نہیں ہیں۔

نجاشی: کیا تمھارا دین وہی ہے جو تمھاری قوم کا ہے؟

حضرت جعفرؓ: نہیں۔

نجاشی: آخر تمھارا دین کیا ہے اور اس کا لانے والا کون ہے؟

اس پر حضرت جعفرؓ نے ایک طویل تقریر کی:

’’اے بادشاہ ! ہم ایسے لوگ تھے جو جاہلیت میں گرفتار تھے۔ بتوں کی پرستش کرتے تھے‘ بے حیائی کے کاموں میں ملوث تھے۔ قطع رحم کا ارتکاب کرتے تھے‘ رشتوں کے حقوق نہیں ادا کرتے تھے‘ پڑوسیوںکے ساتھ برا سلوک کرتے تھے‘ ہم میں جو قوی تھا وہ کم زور کو کھائے جا رہا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ہم ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا۔ ان کے حسب نسب‘ صداقت‘ امانت‘ عفت و عصمت سے ہم واقف تھے۔ انھوں نے ہمیں اللہ کی طرف دعوت دی کہ ہم اسے ایک مانیں‘ اسی کی عبادت کریں۔ ہمارے باپ دادا اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی اور پتھروں کی جو پوجا پرستش کرتے ہیں‘ اسے ترک کر دیں۔ انھوں نے ہمیں راست گفتاری‘ امانت کی ادایگی‘ صلۂ رحمی اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی۔ حرام چیزوں سے رک جانے کا حکم دیا‘ قتل و خوں ریزی سے‘ فواحش اور منکرات سے‘ دروغ گوئی سے‘ یتیم کا مال کھانے سے اور پاک باز عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا‘ نماز‘ زکوٰۃ (صدقہ و خیرات) اور روزے کا حکم دیا‘‘۔

حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت جعفرؓ نے اس طرح اسلام کی بہت سی تعلیمات کی وضاحت کی۔ اس کے بعد کہا: ’’ہم نے اللہ کے رسولؐ کی ان باتوں کی تصدیق کی‘ آپؐ پر ایمان لے آئے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ جو تعلیمات لائے ہیں‘ انھیں ہم برحق مانتے ہیں۔ اللہ واحد کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ اللہ کے رسولؐ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے‘ انھیں حرام اور جن چیزوں کو حلال کہا‘ انھیں حلال سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔ اس پر ہماری قوم نے ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ اس نے ہمیں سخت سزائیں دیں‘ ہمیں اپنے دین سے پھیرنے کی کوشش کی تاکہ ہمیں اللہ واحد کی عبادت سے پھیر کر بت پرستی کی طرف لے جائیں۔ ہم جن خبیث حرکتوں کا ارتکاب کرتے تھے‘ پھر ان کا ارتکاب کرنے لگیں۔ جب انھوں نے ہم پر قہر و غضب ڈھایا‘ ظلم کیا‘ زندگی ہمارے لیے تنگ کر دی‘ ہمارے اور ہمارے دین کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے‘ تو ہم نے دوسروں کے مقابلے میں آپ کے ملک کو ترجیح دی‘ آپ کے جوار میں رہنا پسند کیا‘ اس توقع پر کہ آپ کے ہاں‘ اے بادشاہ! ہم پر ظلم نہ ہوگا اور ہم زیادتیوں سے محفوظ رہیں گے‘‘۔

یہ بے مثال اور دل دہلا دینے والی تقریر سننے کے بعد نجاشی نے حضرت جعفرؓ سے دریافت کیا کہ تمھارے پیغمبر جو کلام خدا کی طرف سے پیش کرتے ہیں کیا اس کا کوئی حصہ تمھارے پاس ہے؟ حضرت جعفرؓ نے کہا: ہاں! نجاشی نے کہا: وہ مجھے سنائو۔ حضرت جعفرؓ نے سورہ مریم کا ابتدائی حصہ پڑھا۔ نجاشی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی۔ جو علما دربار میں موجود تھے ان کی آنکھیں بھی اشک بار ہو گئیں۔ ایک روایت میں ہے کہ نجاشی نے مزید کچھ سنانے کی درخواست کی تو حضرت جعفرؓ نے سورہ کہف سنائی۔ نجاشی نے کہا: یہ کلام اور حضرت عیسٰی ؑجو کلام لائے تھے دونوں ایک ہی چراغ سے نکلے ہیں۔ پھر عبداللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص سے کہا: آپ لوگ یہاں سے جائیں۔ میں انھیں تمھارے حوالے نہیں کروں گا۔ (ابن ہشام ‘  السیرۃ النبویۃ :  ۱ / ۳۷۳-۳۷۴۔ ابن اثیر‘  الکامل فی التاریخ: ۱/۵۹۹-۶۰۰)

عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ دربار سے باہر نکلے تو عمرو بن عاص نے کہا :کل ایک ایسی بات میں بادشاہ سے کہوں گا کہ وہ انھیںجڑ پیڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔ ان دونوں میں عبداللہ بن ربیعہ نسبتاً نرم تھے۔ انھوں نے کہا: ایسی کوئی بات نہ کرو۔ یہ لوگ چاہے ہمارے دین کے خلاف ہوں لیکن ان سے ہمارا خونی رشتہ ہے۔ عمرو بن عاص اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ چنانچہ وہ دوسرے دن بادشاہ کے پاس پہنچے اور کہا : اے بادشاہ! یہ لوگ عیسٰی ؑ بن مریم کے بارے میں بہت سخت بات کہتے ہیں۔ آپ ان سے اس سلسلے میں دریافت کریں۔ دوسرے دن اس نے پھر مہاجرین کو طلب کیا۔ حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ یہ ہمارے لیے بڑا نازک معاملہ تھا۔ لوگ جمع ہوئے اور مشورہ کیا کہ ہمیں اس سوال کا کیا جواب دینا چاہیے؟ پھر یہی طے پایا کہ ہم وہی کہیں گے جو اللہ اور اس کے رسول ؐنے کہا ہے‘ چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ چنانچہ یہ لوگ دربار میں پہنچے تو نجاشی نے سوال کیا کہ تم لوگ عیسٰی ؑبن مریم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ حضرت جعفرؓ نے جواب دیا: ہم ان کے بارے میں وہی کہتے ہیں جو ہمارے پیغمبر نے ہمیں خدا کی طرف سے بتایا ہے۔ وہ اللہ کے بندے‘ اس کے رسول‘ اس کی روح اور کلمہ تھے جو مریم عذرا بتول سے بغیر باپ کے اللہ کے کلمہ سے پیدا ہوئے۔

نجاشی پر اثر

نجاشی نے حضرت جعفر ؓکے اس بیان کو سننے کے بعد زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا: عیسٰی ؑبن مریم اس بیان سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہ تھے۔ (ابن ہشام‘ السیرۃ النبویۃ: ۱/۳۷۰-۳۷۵)

بعض روایات میں اس کی کچھ اور تفصیل ملتی ہے۔ حضرت جعفرؓ کی گفتگو کے ختم ہونے پر نجاشی نے دربار میں موجود عالموں اور راہبوں سے دریافت کیا کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟ اس پر تم کیا اضافہ کرنا چاہتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: آپ ہی فرمائیں‘ آپ کا علمی مرتبہ اور مقام ہم سے اونچا ہے۔(۸)

نجاشی نے کہا : میں شہادت دیتا ہوں کہ حضرت محمدؐ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ یہ وہی پیغمبر ہیں جن کی بشارت حضرت عیسٰی ؑ نے انجیل میں دی ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ نجاشی نے علما اور راہبوں سے کہا کہ خداے تعالیٰ‘ جس نے حضرت عیسٰیؑ پر انجیل نازل کی‘ میں اس کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں کہ حضرت عیسٰی ؑ کے بعد قیامت کے آنے سے پہلے کسی نبی کا ذکر تمھیں انجیل میں ملتا ہے یا نہیں؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں‘ ملتا ہے۔ حضرت عیسٰی ؑ نے اس کی بشارت دی ہے اور کہا ہے کہ جو اس پر ایمان لاتا ہے وہ مجھ پر ایمان لاتا ہے‘ اور جو اس کی رسالت کا انکار کرتا ہے وہ میرا انکار کرتا ہے۔ اس پر نجاشی نے کہا :اگر سلطنت کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہوتی تو میں بذاتِ خود اس کی جوتیاں اٹھاتا اور اس کے ہاتھ پیر دھلاتا۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۲۹)

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نجاشی سے گفتگو کے دوران میں حضرت جعفرؓ نے نجاشی سے کہا کہ آپ ان سفیروں سے دریافت فرمائیں کہ ہم غلام ہیں یا آزاد؟ اگر غلام ہیں تو بے شک ہم نے اپنے مالکوں سے فرار کی راہ اختیار کی ہے‘ آپ ہمیں لوٹا دیں۔ عمرو بن عاص نے کہا: نہیں! یہ آزاد لوگ ہیں۔ حضرت جعفرؓ نے فرمایا: ان سے پوچھیں کہ کیا ہم نے ناحق کسی کا خون بہایا ہے کہ ہم سے قصاص کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے ناروا کسی کا مال لے رکھا ہے اور اس کا ادا کرنا ہم پر ضروری ہو گیا ہے؟ عمرو بن عاص نے جواب دیا: ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ نجاشی نے سفیروں سے کہا: آپ حضرات واپس جائیں۔ میں کبھی انھیں آپ کے حوالے نہیں کروں گا۔ (حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۳۲۔ ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۵)

اس طرح نجاشی کو یقین ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعتا اللہ کے رسول ہیں۔ یہ مہاجرین ان کے اصحاب اور پیروکار ہیں۔ یہ کسی کے زرخرید غلام نہیں ہیں ‘بلکہ آزاد بندے ہیں۔ انھوں نے کسی کا حق نہیں مارا ہے‘ کسی کا مال نہیں کھایا ہے‘ بلکہ ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہوئی ہے اور وہ یہاں پناہ کے طالب ہیں۔ اس یقین نے اس کے جذبۂ ہمدردی کو بڑھا دیا۔ اس نے مہاجرین سے کہا: جائو تم لوگ میری سلطنت میں مامون اور محفوظ ہو۔ جو کوئی تمھیں برا بھلا کہے گا اس پر جرمانہ عائد ہوگا۔ تم میں سے کسی کو تکلیف پہنچا کر مجھے سونے کاپہاڑ بھی مل جائے تو میں اسے پسند نہ کروں گا۔ درباریوں سے کہا: ان سفیروں کے تحفے واپس کر دیے جائیں۔ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد مہاجرین حبشہ میں سکون سے رہنے لگے۔ (ابن ہشام‘  السیرۃ  النبویۃ: ۱/۳۷۰)

نجاشی نے مہاجرین سے پوچھا کہ کیا کوئی تمھیں تکلیف پہنچاتا ہے۔ انھوں نے جواب دیا: ہاں! (قریش کے سفیروں کے ورغلانے سے ہو سکتا ہے کچھ لوگوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہو) اس پر نجاشی کے حکم سے منادی نے اعلان کیا کہ جو کوئی انھیں تکلیف پہنچائے گا اس پر چار دینارجرمانہ ہوگا۔ مہاجرین سے دریافت کیا کہ کیا یہ کافی ہے؟ انھوں نے اسے ناکافی بتایا تو نجاشی نے اسے دگنا کر دیا۔ (ابن کثیر‘  السیرۃ  النبویۃ: ۲/۱۶۔ حلبی‘ السیرۃ الحلبیۃ: ۲/۲۹)

نجاشی نے بڑے نازک وقت میں مسلمانوں کو پناہ دی تھی۔ انھیں سکون اور اطمینان کے ساتھ دین پر عمل کے مواقع حاصل تھے۔ اس لیے اس کی سلطنت اور اقتدار کا باقی رہنا ان کے لیے فائدہ مند تھا۔ اس کے زوال اور خاتمے سے انھیں نقصان کا خطرہ تھا۔ چنانچہ اسی ہجرت کے دوران میں نجاشی کا ایک حریف سلطنت اٹھ کھڑا ہوا۔ دونوں کے درمیان جنگ کی نوبت آگئی۔ اس موقع پر مسلمانوں کی فطری خواہش تھی کہ نجاشی اس میں کامیاب ہو اور اس کا اقتدار قائم رہے۔

جنگ خیبر ۶ ہجری کے آخر میں یا بقول ابن اسحٰق محرم ۷ ہجری میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کو نجاشی کے پاس بھیجا کہ جو اصحاب حبشہ میں رہ گئے ہیں انھیں مدینہ بھیج دے۔ نجاشی نے دو کشتیوں میں انھیںروانہ کیا۔ یہ حضرات فتح خیبر کے دن پہنچے۔ ان میں حضرت جعفرؓ بھی تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے چمٹ گئے اور پیشانی کو بوسہ دیا۔ فرمایا: مجھے نہیں معلوم کہ آج فتح خیبر کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کی آمد کی! اس قافلہ میں ۱۶ آدمی تھے۔ بعض کے ساتھ ان کی بیویاں اور چھوٹے بچے بھی تھے۔(۹)  (جاری)

حوالے

۱-  اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ ابن سعد نے جن اصحاب کے اسماے گرامی دیے ہیں ان میں ابوسبرہ اور ابو حاطب بن عمرو بن عبدشمس بھی ہیں‘ لیکن ابن اسحٰق کہتے ہیں کہ ابوسبرہ اس سفر میں تھے‘ ان کی جگہ ابوحاطب کا بھی نام لیا گیا ہے۔ ان دونوں کا تعلق بنوعامر سے تھا۔ اس طرح ابن اسحٰق نے دونوں میں سے ایک کو شمار کیا ہے اور ابن سعد نے دونوں کو اس فہرست میں رکھا ہے۔ اسی طرح ابن ہشام نے خواتین کا الگ سے تذکرہ نہیں کیا ہے بلکہ جن مردوں کے ساتھ ان کا سفر ہوا تھا ان کے ذیل میں ان کا ذکر کر دیا ہے۔ ابن سعد نے ان کا الگ سے شمار کیا ہے۔ ابن ہشام ۱۰/۳۵۹-۳۶۰‘ ابن سعد‘ طبقات: ۱/۲۰۴‘ نیز ملاحظہ ہو ابن جریر طبری‘ تاریخ الطبری: ۱/۵۴۶۔

۲- ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۴-۵۔ذہبی‘ السیرۃ النبویۃ: ۱/۱۸۳۔ ابن حجر‘ فتح الباری: ۷/۵۸۴۔ابن اسحٰق کہتے ہیں کہ بعض حضرات کے بقول ابوحاطب سب سے پہلے حبشہ پہنچے تھے۔ اس سلسلے میں بعض اور اقوال بھی ملتے ہیں۔ ملاحظہ ہو‘ زرقانی علی المواہب: ۱/۵۰۵۔ ہو سکتا ہے حضرت عثمانؓ کو اپنی اہلیہ کے ساتھ سب سے پہلے ہجرت کا شرف حاصل ہوا ہو اور دوسرے اصحاب تنہا رہے ہوں‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۳-۴۔

۳- یہ ایک عمومی بات ہے ورنہ حضرت عمرؓ کے اسلام کے ذیل میں ذکر آچکا ہے کہ عامر بن ربیعہؓ کی بیوی لیلیٰ نے انھیں بتایا کہ ہم لوگ تم لوگوں کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے مکّہ چھوڑ رہے ہیں۔ ان دونوں نے حبشہ ہجرت کی۔ غالباً یہ وہ افراد تھے جن کو اس بات کا خدشہ نہیں تھا کہ وہ سفر سے روک دیے جائیں گے۔ ملاحظہ ہو: تحقیقات اسلامی‘ جنوری‘ مارچ ۲۰۰۰ء‘ ص۱۶-۱۷۔

۴-  ابن حجر‘ فتح الباری: ۷/۵۸۵۔ مورخین اور سیرت نگاروں کے درمیان یہ بحث رہی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ‘ جن کا تعلق یمن سے تھا‘ مہاجرین حبشہ میں ہیں یا نہیں۔ حافظ ابن حجر نے ان دونوں طرح کی روایات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا علم ہوا ہو اور وہ مکّہ پہنچ کر اسلام لے آئے ہوں۔ آپؐ نے انھیں مکہ سے حبشہ چلے جانے کا مشورہ دیا ہو۔ یمن حبشہ کے سامنے ہی پڑتا ہے اس لیے وہ اپنی قوم کے پاس چلے گئے ہوں۔ پھر جب مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مملکت قائم کر دی تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ (جو پچاس کے قریب تھے) ہجرت کے ارادے سے نکلے ہوں‘ لیکن ناموافق ہوائوں نے ان کی کشتی کو حبشہ پہنچا دیا ہو۔ یہاں ان کی ملاقات حضرت جعفر سے ہوئی ہوگی۔ ان سب کی مدینہ واپسی خیبر کے بعد ہوئی۔فتح الباری: ۷/۵۸۵۔ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بعثت کے ابتدائی دَور میں مکّہ پہنچے اور اسلام لے آئے۔ پھر وہ یمن واپس ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد وہ وہاں سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے لیکن ہوا کا رخ مختلف ہونے کی وجہ سے حبشہ پہنچ گئے۔حضرت جعفرؓ نے انھیں وہیں روک لیا۔ انھوں نے حضرت جعفرؓ ہی کے ساتھ فتح خیبر کے بعد مدینہ ہجرت کی۔ دونوں کی کشتیاں ایک ساتھ پہنچیں۔ حضرت ابوموسٰیؓ کے سفر کے لیے ملاحظہ ہو‘ الاستیعاب: ۴/۳۲۷۔ اسد الغابہ: ۳/۳۶۴-۳۶۶۔ نیز: ۶/۲۹۹-۳۰۰۔ ابن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ: ۲/۱۴۔

۵- سیرت حلبیہ میں ہے کہ حبشہ کی دوبارہ ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شعب ابی طالب میں محصور ہونے کے بعد شروع ہوئی  (السیرۃ الحلبیہ: ۲/۹)۔ مزید لکھتے ہیں ‘بعثت کے نویں سال محرم میں بنوہاشم شعب ابی طالب میں محصور ہوئے‘ اس وقت جو مسلمان مکّہ میں رہ رہے تھے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ ہجرت کر جانے کا حکم دیا (السیرۃ الحلبیہ: ۲/۲۶)۔ لیکن واقدی کا بیان ہے کہ جو  اصحاب حبشہ سے مکّہ واپس ہوئے اُن کے قبائل ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کو سخت قسم کی اذیتیںدینے لگے‘ تو انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ حبشہ ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی۔ (ابن سعد‘ الطبقات الکبریٰ: ۱/۲۰۷)

۶-  واقدی کا بیان ہے کہ اس بار ہجرت کرنے والوں میں مردوں کی کل تعداد ۸۳ تھی‘ عورتوں میں گیارہ قریشی اور سات غیرقریشی تھیں (ابن سعد‘ الطبقات الکبریٰ: ۱/۲۰۷)۔ اس طرح حبشہ ہجرت کرنے والے کل ۱۰۲ تھے۔ (زرقانی‘ شرح المواہب اللدنیۃ: ۲/۳۱-۳۲)۔ اس طرح مورخین کے نزدیک حبشہ ہجرت کرنے والوں اور واپس ہونے والوں کی تعداد متعین ہے۔ لیکن کس ترتیب سے یہ واقعہ پیش آیا‘ واضح نہیں ہے۔ تمام تفصیلات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی ہجرتِ حبشہ کے بعد کچھ لوگ مکّہ واپس ہوئے۔ مکّہ کی صورتِ حال دیکھنے کے بعد اُن میں سے بیشتر نے دوبارہ ہجرت کی اور بعض افراد مکّہ ہی میں رہ گئے‘ کچھ نئے افراد بھی دوسری ہجرت میں روانہ ہوئے۔ بنوہاشم کے شعب ابوطالب میں محصور ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد ہجرتِ مدینہ کا واقعہ پیش آیا۔ کچھ لوگ براہِ راست مدینہ منورہ پہنچے اور کچھ نے مکّہ کا راستہ اختیار کیا۔ مکّہ والوں نے بعض کو مدینہ ہجرت کرنے نہیں دی۔ زیادہ تر نے مدینہ ہجرت کی اور جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔

۷-            بعض روایات میں عبداللہ بن ربیعہ کی جگہ عمارہ بن ولید کا ذکر ہے اور اس سفر میں دونوں کے کردار سے متعلق بعض تفصیلات بھی ملتی ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ قریش نے دو مرتبہ سفارتی کوشش کی تھی۔ پہلے سفر میں عمرو بن العاص کے ساتھ عمارہ بن ولید تھا اور دوسرے میں عمرو بن العاص کے ساتھ عبداللہ بن ابی ربیعہ تھے۔ (تفصیل کے لیے‘ حلبی‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۳۲-۳۳)

۸-  نجاشی کے بارے میں آتا ہے: کان النجاشی اعلم النصاریٰ بما انزل علٰی عیسٰی وکان قیصر یرسل الیہ علماء النصارٰی لتاخذ عنہ‘ حلبی‘ السیرۃ الحلبیہ: ۲/۲۹ (حضرت عیسٰی ؑ پر جو تعلیمات نازل ہوئیں‘ نجاشی ان کے سب سے بڑے عالم تھے۔ قیصر روم ان کے پاس علما نصاریٰ کو بھیجتا تھا تاکہ وہ ان سے علم حاصل کریں)۔

۹-  مہاجرین حبشہ میں سے جو افراد بدر میں شریک نہیں ہو سکے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیامِ مکّہ کے زمانہ میں مکّہ واپس نہیں آئے اور ہجرتِ مدینہ کے بعد مدینہ پہنچے ان کی تعداد ابن اسحٰق نے ان ۱۶ کے علاوہ ۳۴ بتائی ہے۔ خواتین خالص عرب کی ۱۳ اور باہر کی ۵ تھیں۔ (ابن ہشام‘ ۴/۵-۱۵)