۲۰۱۰ فروری

فہرست مضامین

ترجیحاتِ دین

سید جلال الدین عمری | ۲۰۱۰ فروری | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

ترجیحاتِ دین کا سوال بہت اہم ہے۔ دین کی بعض اساسات ہیں اور بعض کی حیثیت فروع کی ہے۔ جو اہمیت اصول کی ہے وہ فروع کی نہیں ہے، اس لیے کہ فروع اصول کی تابع ہیں اور ان ہی سے نکلتی ہیں۔ ان اساسات ہی کے ذریعے دین کی ترجیحات متعین ہوتی ہیں۔        یہ ترجیحات بدل جائیں تو اس کا امکان ہے کہ اصولِ دین کی طرف تو توجہ کم ہو یا بالکل نہ ہو اور فروعِ دین کی جو حیثیت ہے، اس سے زیادہ ان کو اہمیت دی جانے لگے۔ اس سے دین کا پورا نظام اور اس کا مزاج لازماً متاثر ہو کر رہے گا۔

دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کے سلسلے میں بھی اصول وفروع کی رعایت نہایت ضروری ہے۔ ورنہ ہوسکتا ہے کہ جو قدم پہلے اٹھنا چاہیے، وہ بعد میں اُٹھے اور جو قدم بعد میں اٹھنا چاہیے،  وہ پہلا قدم ہوجائے۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ ہماری ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ دین میں جس بات کو اصل اور اساس کی حیثیت حاصل ہے اس کو مضبوط کرنے سے پہلے فروعِ دین پر سارا زورصرف ہونے لگتا ہے اور ساری بحثیں ان ہی کے گرد گردش کرنے لگتی ہیں۔ یہ ایک غیرفطری طریقہ ہے۔ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔

یہاں قرآنِ مجید کی روشنی میں ترجیحاتِ دین کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی:

  •  عقائدِ اسلام: مکہ میں قرآن مجید کا تقریباً دو تہائی حصہ نازل ہوا۔ اس میں اصل زور اسلام کے عقائد پر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت، رسالت اور اس کی ضرورت، آخرت اور اس کی تفصیلات زیربحث آئی ہیں۔ ان کے حق میں دلائل دیے گئے ہیں، ان پر جو اعتراضات ہورہے تھے، ان کی تردید کی گئی ہے، اور جو شکوک و شبہات پھیلائے جارہے تھے انھیں رفع کیا گیا ہے۔ یہی عقائد اسلام کی اساس ہیں۔ جب یہ مستحکم ہوگئی تو شریعت کی تفصیلات فراہم کی گئیں جو دراصل ان ہی عقائد کے لازمی تقاضوں کے طور پر سامنے آرہی تھیں۔
  • بندگیِ رب: قرآن مجید نے بتایا کہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے۔ اس پر اسی کا حکم چل رہا ہے۔ وہ ہر آن اس کی تسبیح و تحمید میں لگی ہوئی ہے اور اس کے احکام بجالارہی ہے۔ اس کے اقتدار میں کسی دوسرے کاکوئی دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کا خالق و مالک ہے۔ وہ اس کا بندہ اور مخلوق ہے۔ اس کے لیے زندگی کا صحیح ترین راستہ یہ ہے کہ وہ خداے واحد کی عبادت اختیار کرے اور اس کے احکام بجا لائے۔ وہ اگر اس سے انکار کرتا ہے یاعبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرتا ہے تو انتہائی غلط راہ پر چلتا ہے اور تباہی کو دعوت دیتا ہے۔ اس سے وہ بچ  نہیں سکتا۔ حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں:

یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍo (اعراف ۷:۵۹) اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے علاوہ تمھارا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ (اس سے انحراف کے نتیجے میں) کہیں تم بڑے دن کے عذاب میں نہ پکڑے جائو۔

یہی ہر پیغمبر کی تعلیم کا بنیادی نکتہ رہا ہے۔ (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، الاعراف ۷:۶۵، ۷۴، ۸۵)

عبادت دراصل اس بات کا اظہار و اعتراف ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسان اپنا معبود برحق تسلیم کرتا ہے اور اس کے سامنے پوری طرح سر نگوں ہو رہا ہے۔ اس کے ہر حکم کو تسلیم کرنا اور اس کی نافرمانی کو اپنے لیے جائز نہیں تصور کرتا ہے۔ یہ اللہ کے نازل کردہ پورے نظامِ شریعت کو قبول کرنے کا اعلان ہے۔ اگر صحیح معنی میں جذبۂ عبادت پیدا ہوجائے تو احکامِ شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ اسلام نے دورِ اوّل میں جذبۂ عبادت کو اس قدر اُبھارا اور مضبوط کیا کہ نظامِ شریعت پر عمل مشکل نہیں رہا۔ دل و جان سے اس کی پابندی ہوتی رہی۔

  • اصلاحِ معاشرہ: قرآن مجید میں اللہ کے رسولوں کا اور ان کی دینی جدوجہد کا ذکر کہیں اختصار سے اور کہیں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس سے وضاحت کے ساتھ یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنے زمانے میں ان ہی اساسات پر اصلاً زور دیا اوران ہی کی روشنی میں فکری و عملی اصلاح کی کوشش کی۔ اللہ کے پیغمبر جن قوموں میں آئے ان میں بہت سی سماجی اور اخلاقی خرابیاں موجود تھیں۔ ظلم اور ناانصافی تھی، جان و مال محفوظ نہ تھے اور حقوق پامال ہو رہے تھے۔ اللہ کے پیغمبروں نے بتایا کہ یہ ساری خرابیاں اس لیے ہیں کہ ان فکری اساسات کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے جنھیں وہ پیش کر رہے ہیں۔ اگر فرد اور معاشرہ خدا کو اس طرح مانے جس طرح ماننا چاہیے، اس کی ہدایت کو قبول کرے اور آخرت کی بازپُرس کا یقین اُبھر آئے تو پوری زندگی کا رُخ صحیح ہوسکتا ہے اور انسان پر دنیا اور آخرت کی کامیابی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے کسی بھی فساد زدہ معاشرے کی اصلاح کا امکان ہے۔ جب تک اسلام کی اساسات پر ایمان نہ ہو اور وہ دل و دماغ میں پیوست نہ ہوجائیں، سماج میں کسی صالح انقلاب کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
  • حقوق العباد کی اھمیت: قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کے ساتھ انسانوں کے حقوق کو خاص اہمیت دی ہے۔ ان میں سے بعض حقوق کو قانونی درجہ حاصل ہے۔ یہ حقوق اگر ادا نہ ہوں تو انسان کی گرفت ہوگی۔ لیکن بعض حقوق کی حیثیت اخلاقی ہے۔   ان سے ہمدردی اور محبت کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور تعلقات خوش گوار ہوتے ہیں۔ اس سے قطع نظر قرآن کے نزدیک، خدا، رسولؐ اور آخرت پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان دُور و نزدیک کے حق داروں کے حقوق ادا کرے اور اس کے اندر نوعِ انسانی کی خدمت کا جذبہ پایا جائے۔    وہ غریبوں اور محتاجوں کے کام آئے اور ان کی ہر ممکن مدد کرے۔ یہ بات ایمان کے منافی ہے کہ ایک شخص کو تمام حقوق حاصل ہوں، وہ عیش کی زندگی گزارے اور اس کے آس پاس کے لوگ اپنی بنیادی ضروریات تک پوری نہ کرپا رہے ہوں۔ وہ مدد کے محتاج ہوں اور ان کی مدد نہ کی جائے۔ جس انسان کے اندر ہمدردی و غم خواری کے جذبات نہ ہوں اور جو ناداروں اور محتاجوں کے کام    نہ آئے اور ان کے حقوق نہ پہچانے اسے خدا پرست مشکل ہی سے کہا جاسکتا ہے۔

قرآن مجید کی مکی سورتوں میں ایک مختصر سورت ’البلد‘ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی بعض نعمتوں کا ذکر ہے کہ اس نے اسے آنکھیں عطا کیں، زبان دی، ہونٹ دیے، بھلائی اور برائی کے راستے بتا دیے۔ اس کے بعد ارشاد ہے:

فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ o اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ o وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا ھُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ oعَلَیْھِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ o (البلد ۹۰: ۱۱- ۲۰) پس وہ گھاٹی میں داخل نہیں ہوا۔ تمھیں کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ وہ ہے گردن کو چھڑانا (غلام کو آزاد کرنا) یا بھوک کے دنوں میں کھانا کھلانا قرابت دار یتیم کو یا مسکین کو جو (فاقے کی وجہ سے) خاکِ زمین پر پڑا ہوا ہے۔ پھر ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنھوں نے صبر اور رحم کی ایک دوسرے کوتاکید کی۔ یہی لوگ دائیں جانب والے ہیں (جن کے دائیں ہاتھ میں ان کا نامۂ اعمال ہوگا) اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ بائیں جانب والے ہیں (جن کا نامۂ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں ہوگا)۔ ان پر آگ ہر طرف سے ہوگی۔

اس مضمون کی آیات قرآنِ مجید میں بہ کثرت موجود ہیں جن سے انسانی حقوق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے حقوق العباد کو جو مقام دیا ہے، ہماری ترجیحات میں اسے وہ مقام حاصل ہونا چاہیے ورنہ دین کا ناقص تصور اُبھرے گا اور سماج کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت واضح نہ ہوسکے گی۔

  • اعلٰی اخلاق کی ترغیب: قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات میں اخلاق کی تعلیم بہت نمایاں ہے۔ اس نے آغاز ہی سے اعلیٰ اخلاق کی ترغیب دی۔ رذیل اخلاقیات کی شدید مذمت کی اور ان سے اجتناب کی تاکید کی ہے۔ اخلاق کا جذبہ اور پاکیزہ اخلاق کا رجحان انسان کی    فطرت میں ہے، لیکن اس پر بعض اوقات پردے پڑ جاتے ہیں۔ جب تک یہ پردے نہ ہٹائے جائیں بے غرض اخلاق کا ظہور نہیں ہوتا۔ قرآن کے نزدیک خدا اور آخرت پر یقین ہی سے صداقت و راست بازی، دیانت و امانت، احترامِ آدمیت، عفت و عصمت، محبت و رافت، تواضع اور خاکساری اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اخلاقیات اُبھرتی ہیں۔ اگر آدمی کو خداکی ذات پر یقین نہ ہو، اس کی ہدایت سے وہ محروم ہو، اور آخرت کی بازپرس کا اسے اندیشہ نہ ہو تو کسی نہ کسی رُخ سے اور کسی نہ کسی عنوان سے وہ اخلاقی پستی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اگر اس کے اندر کچھ اخلاقی خوبیاں پائی بھی جائیں تو ان سے زیادہ اخلاقی خرابیاں اسے دامن گیر رہتی ہیں، جن سے وہ محفوظ نہیں رہتا۔ افسوس کہ اخلاق کی عظمت اور اہمیت اُمت کی نگاہوں سے اوجھل ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کا کوئی اخلاقی امتیاز نہیں رہ گیا ہے، بلکہ دوسری قومیں اپنے اخلاق و کردار میں بعض پہلوئوں سے ممتاز ہیں۔ اُمت کو اخلاقی لحاظ سے اُوپر اٹھانے کی سنجیدہ کوشش بھی نہیں ہو رہی ہے۔ اسلام فرد کی جس طرح تربیت کرتا اور جو پاکیزہ معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے، اس کی اساس میں اخلاق شامل ہے۔ اس کے بغیر اسلامی سیرت اور اسلامی معاشرے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اخلاق کو اسی حیثیت سے اختیار کرنے اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
  • دعوت الی اللّٰہ کا فریضہ: اللہ کے رسولوں کی اوّلین ذمہ داری دعوت و تبلیغ اور اہلِ ایمان کی اصلاح و تربیت رہی ہے۔ دعوت کے ذریعے وہ دین کا ہمہ گیر اور انقلابی تصورِ حیات پیش کرتے ہیں اور جو لوگ اسے قبول کرتے ہیں، ان کے فکروعمل کی اس تصورِ حیات کے تحت تربیت کرتے ہیں۔

اُمت مسلمہ کو بھی یہ دونوں ہی کام انجام دینے ہیں۔ جہاں تک اہلِ ایمان یا اُمت ِمسلمہ کی اصلاح کا تعلق ہے، اس کی طرف علما، صلحا اور مصلحینِ اُمت کی توجہ رہی ہے۔ انھوں نے  تذکیر و تفہیم، وعظ و نصیحت اور تصنیف و تالیف کے ذریعے اسے بگاڑ سے بچانے اور راہِ راست پر قائم رکھنے کی قابلِ قدر کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں۔ مدارس و مکاتب اور جامعات کے قیام کے ذریعے بھی یہ مقصد حاصل ہوتا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ اُمت کی علمی، معاشی اور سیاسی فلاح کے لیے بھی مسلسل کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ اس سلسلے کے بعض اقدامات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کوششیں بہرحال اُمت کی مادی اور دنیوی ترقی ہی کے لیے رہی ہیں۔

دعوت و تبلیغ کا میدان بھی بالکل خالی نہیں رہا۔ اس میں کوششیں ہوتی رہی ہیں اور بعض بہت قابلِ قدر بھی ہیں ، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کارِ دعوت ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہاہے۔ اس کے بعض پہلوئوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس سے اس کی اہمیت اور نزاکت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید نے اُمت کے مقصدِ وجود کو ایک جگہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) تم خیرِ اُمت ہو جسے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

آیت میں اُخْرِجَتْ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ اَلنَّاسِ کے اندر ہر دور اور ہر خطۂ ارض کے تمام انسان آتے ہیں۔ اس پر ’ل‘ حرفِ جار آیا ہے۔ اس میں جیساکہ اہلِ علم نے بیان کیا ہے، نفع پہنچانے کا تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اُمت کا وجود اس لیے ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو اس سے فائدہ پہنچے۔ اس فائدے کی شکل بھی آیت میں بتا دی گئی ہے کہ وہ تمام عالم میں ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ کا فرض انجام دے۔ معروف و منکر کے الفاظ وسیع معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ علما نے لکھا ہے کہ سب سے بڑا منکر شرک ہے۔ اسلام نے جن نیکیوں کی تعلیم دی ہے، وہ سب معروفات ہیں اور جن برائیوں سے منع کیا ہے، وہ سب منکرات میں آتے ہیں۔ اس طرح دین کے پورے نظام فکروعمل کی دعوت دینا امربالمعروف ہے، اور مخالف دین افکار و نظریات    اور ان پر مبنی طرز ہاے حیات کی کمزوریاں اور خامیاں واضح کرنا اور ان سے بچانے کی کوشش کرنا نہی عن المنکر ہے۔

قرآن مجید میں اُمت کو ’اُمتِ وسط‘ بھی کہا گیا ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (البقرہ ۲:۱۴۳) اسی طرح ہم نے تم کو ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو، اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔

’اُمتِ وسط‘ کے معنی ہیں اعلیٰ و ارفع اُمت یا وہ اُمت جو راہِ اعتدال پر قائم ہے۔ اس کی ذمہ داری یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ’شہادت علی الناس‘ کا فرض انجام دے، یعنی انسانوں کے سامنے اسلام کے دینِ حق ہونے کی شہادت دے اور دلائل سے ثابت کرے کہ دنیا و آخرت میں    نجات و فلاح کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ فرض اللہ کے پیغمبر ہر دور میں کماحقہٗ ادا کرتے رہے ہیں۔ آخری رسول حضرت محمدؐ نے بھی اس فرض کو بدرجۂ کمال ادا فرمایا، جس کے نتیجے میں یہ  اُمتِ وسط وجود میں آئی۔ اب یہی فرض اس اُمتِ وسط کو تاقیامت انجام دیتے رہنا ہے۔

قرآن مجید کا حکم ہے کہ جو لوگ اللہ سے اور اس کے دین سے غافل ہیں، انھیں جگایا جائے اور ان تک اللہ کا دین پہنچایا جائے۔ اسی لیے اس کا نزول ہوا ہے:

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّـآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ فَھُمْ غٰفِلُوْنo (یٰسٓ ۳۶:۶) تاکہ تم اس قوم کو (انجامِ بد) سے ڈرائو جس کے باپ دادا کو ڈرایا نہیں گیا۔ اس لیے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

اس آیت میں خطاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور اہلِ عرب کے درمیان ’انذار‘ کا حکم ہے، جو زندگی کی غلط راہ پر دوڑے چلے جا رہے تھے اور جس کے بھیانک نتائج سے باخبر کرنے کے لیے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ یہ صورتِ حال آج بہت سی قوموں کی ہے، جن کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ صدیوں سے ان تک اللہ کا دین نہیں پہنچا ہے اور ان کے درمیان  انذار کا فرض نہیں انجام پایا ہے۔ اب، جب کہ سلسلۂ رسالتؐ منقطع ہوچکا ہے اس اُمت ہی کی   یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو اس کی غلط روی کے انجام سے آگاہ کرے اور بتائے کہ اللہ کی کتاب اسی مقصد کے لیے نازل ہوئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ارشاد فرمایا:

وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَـآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo (السبا ۳۴:۲۸) ہم نے تو آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اسے نہیں جانتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشیر اس معنی میں ہیں کہ اللہ کے نازل کردہ دین کو قبول کرنے پر آپ نے دنیا میں بہتر زندگی اور آخرت میں فلاح و کامرانی کی خوش خبری دی۔ آپ کو نذیر اس پہلو سے کہا گیا ہے کہ غلط فکروعمل اختیار کرنے اور اللہ کے دین کو رد کرنے پر دونوں جہاں کے خسارے سے آپ نے آگاہ کیا اور اس کے بھیانک انجام سے ڈرایا۔

اسی طرح آپؐ کو ساری دنیا کے لیے رحمت قرار دیا گیا ہے:

وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ o (انبیاء ۲۱:۱۰۷) ہم نے تو آپ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ  کا وجود، آپؐ  کی رسالت، آپؐ  کا تصورِ حیات، آپؐ  کا نظامِ فکروعمل اور آپؐ  کی سعی و جہد دنیا کے لیے سراسر رحمت ہے۔ اسے رد کرنا اللہ کی رحمت سے خود کو محروم کرنا ہے۔ آج دنیا اس سے ناواقف ہے کہ آپؐ  ساری دنیا کے لیے بشیرونذیر اور رحمۃ للعالمینؐ ہیں۔ اسے دلائل سے ثابت کرنا، اُمت کے فرائض میں سے ہے۔ اس فرض سے غفلت پر اس سے بازپرس ہوگی۔

  • جدید دور کے تقاضے: موجودہ دور میں تبلیغ دین کا فرض مطلوبہ معیار سے انجام دینے کے لیے اس کے ذہنی و فکری رجحان کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اس وقت پوری دنیا پر ایک طویل عرصے سے الحاد اور دہریت کی حکومت ہے۔ مغربی قوموں نے، جن کے ہاتھوں میں دنیا کی قیادت ہے، الحاد اور دہریت کو ایک فلسفۂ حیات کے طور پر اس طرح پیش کیا ہے کہ دین اور اس کی اساسی تعلیمات بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں۔ انسان کو زندگی کے کسی بھی مرحلے میں، کسی بھی میدان میں اور کسی بھی قدم پر ان کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ نرسری میں جو بچہ داخلہ لیتا ہے، وہ بڑا ہوکر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن تک تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اس سے آگے ریسرچ اور تحقیق کے مرحلے میں بھی پہنچ جاتا ہے، لیکن اس کے سامنے کبھی وحی و رسالت یا آسمانی ہدایت کا سوال نہیں اُبھرتا۔ آج تعلیم، تہذیب، تمدن، معیشت، قانون اور سیاست ہر شعبۂ حیات کا رُخ الحاد نے متعین کیا ہے، جس میں خدا، وحی و رسالت اور آخرت جیسے مابعد الطبیعیاتی نظریات کہیں زیربحث نہیں آتے اور کسی مسئلے کے حل کے لیے ان کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ جب تک اس کی ضرورت ثابت نہ کی جائے، موجودہ دور کا رُخ نہیں بدل سکتا۔
  • مکمل نظامِ حیات: دورِ جدید میں مذہب ایک انفرادی معاملہ ہوکر رہ گیاہے۔ اجتماعی امور و معاملات سے اسے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ اسلام کو اگر کوئی شخص اپنے عقیدے کے طور پر اختیار کرے اور اپنی نجی زندگی میں اس پر عمل کرے تو شاید کسی کو اعتراض نہ ہو۔ لیکن یہ اجازت کسی کو نہیں ہے کہ اجتماعی امور میں اسلام کی تعلیمات کو اپنائے اور ان کے مطابق اپنے معاملات طے کرے۔ اب یہ ثابت کرنا اُمت کی ذمہ داری ہے کہ اسلام صحیح عقیدہ ہی فراہم نہیں کرتا، بلکہ اس کی بنیاد پرہر شعبۂ حیات کے لیے نہایت فطری اور معقول ہدایات بھی پیش کرتا ہے۔ اس سے زندگی اس بے راہ روی اور بے اعتدالی سے محفوظ رہ سکتی ہے جس میں وہ آج گرفتار ہے اور جس سے نکلنے کی کوئی سبیل اسے نہیں نظرآرہی ہے۔ یہ ایک طویل اور ہمہ جہت عمل ہے۔ اسلام کی سربلندی کے لیے بہرحال اسے انجام دینا ہوگا۔
  • اسلام پر اعتراضات اور اُن کی حقیقت: اسلام پر اعتراضات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آج تک بعض قدیم اعتراضات دہرائے جاتے ہیں۔ ان میں نئے اعتراضات کا اضافہ بھی ہوتا رہتاہے۔ ان میں بالعموم جارحیت اور اسلام دشمنی صاف نمایاں ہوتی ہے۔ کبھی غیر جانب داری کے انداز میں کہا جاتا ہے کہ اسلام نے اپنے وقت میں مفید خدمات ضرور انجام دی ہیں، لیکن اس کی بہت سی باتیں اصلاح طلب ہیں، وہ آج قابلِ قبول نہیں ہیں۔ اس نے مساوات کی بات تو کی ہے لیکن بعض انسانوں کو جو حقوق دیے ہیں، ان سے بعض دوسرے انسانوں کو محروم رکھا ہے۔ کسی وقت کہا جاتا تھا کہ اسلام اپنی فطری خوبیوں کی وجہ سے نہیں پھیلا، بلکہ تلوار کے زور سے اس کی اشاعت ہوتی رہی ہے۔ اب اسلام کے ساتھ تشدد اور تخریب کو بھی جوڑ دیا گیا ہے کہ اسلام غارت گر امن و امان ہے۔ وہ اپنی صداقت دلائل سے نہیں ثابت کرتا بلکہ طاقت کے ذریعے اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔

اس طرح کے اور بھی اعتراضات ہیں، جن کے ذریعے اسلام کی تصویر مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس طرف دنیا کی توجہ ہی نہ ہو، لیکن اس میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ اس نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ جو اعتراضات کیے جارہے ہیں، ان کا جواب دیا جائے اور جن پہلوئوں سے اسلام سے بدظن کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ،ان پہلوئوں سے مطمئن کیا جائے اور اسلام کی حقانیت ثابت کی جائے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض اہلِ علم اس طرف متوجہ ہیں اور مفید خدمت انجام دے رہے ہیں، لیکن کام اتنا بڑا ہے کہ اس کا حق صحیح معنی میں اسی وقت ادا ہوسکتا ہے، جب کہ اس کے لیے پوری ایک جماعت کھڑی ہو، جس میں مختلف صلاحیت کے افراد ہوں، جو منصوبہ بند اور منظم طریقے سے اسلام کا دفاع ہی نہ کرے بلکہ دنیا کے تمام نظریات کے مقابلے میں اس کی برتری ثابت کرے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ترجیحاتِ دین کو سمجھنے اور اس کے مطابق راہِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (مصنف کی نئی کتاب: دعوت و تربیت، اسلامی نقطۂ نظر سے ایک باب)