ترجیحاتِ دین کا سوال بہت اہم ہے۔ دین کی بعض اساسات ہیں اور بعض کی حیثیت فروع کی ہے۔ جو اہمیت اصول کی ہے وہ فروع کی نہیں ہے، اس لیے کہ فروع اصول کی تابع ہیں اور ان ہی سے نکلتی ہیں۔ ان اساسات ہی کے ذریعے دین کی ترجیحات متعین ہوتی ہیں۔ یہ ترجیحات بدل جائیں تو اس کا امکان ہے کہ اصولِ دین کی طرف تو توجہ کم ہو یا بالکل نہ ہو اور فروعِ دین کی جو حیثیت ہے، اس سے زیادہ ان کو اہمیت دی جانے لگے۔ اس سے دین کا پورا نظام اور اس کا مزاج لازماً متاثر ہو کر رہے گا۔
دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کے سلسلے میں بھی اصول وفروع کی رعایت نہایت ضروری ہے۔ ورنہ ہوسکتا ہے کہ جو قدم پہلے اٹھنا چاہیے، وہ بعد میں اُٹھے اور جو قدم بعد میں اٹھنا چاہیے، وہ پہلا قدم ہوجائے۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ ہماری ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ دین میں جس بات کو اصل اور اساس کی حیثیت حاصل ہے اس کو مضبوط کرنے سے پہلے فروعِ دین پر سارا زورصرف ہونے لگتا ہے اور ساری بحثیں ان ہی کے گرد گردش کرنے لگتی ہیں۔ یہ ایک غیرفطری طریقہ ہے۔ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔
یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍo (اعراف ۷:۵۹) اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے علاوہ تمھارا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ (اس سے انحراف کے نتیجے میں) کہیں تم بڑے دن کے عذاب میں نہ پکڑے جائو۔
یہی ہر پیغمبر کی تعلیم کا بنیادی نکتہ رہا ہے۔ (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، الاعراف ۷:۶۵، ۷۴، ۸۵)
عبادت دراصل اس بات کا اظہار و اعتراف ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسان اپنا معبود برحق تسلیم کرتا ہے اور اس کے سامنے پوری طرح سر نگوں ہو رہا ہے۔ اس کے ہر حکم کو تسلیم کرنا اور اس کی نافرمانی کو اپنے لیے جائز نہیں تصور کرتا ہے۔ یہ اللہ کے نازل کردہ پورے نظامِ شریعت کو قبول کرنے کا اعلان ہے۔ اگر صحیح معنی میں جذبۂ عبادت پیدا ہوجائے تو احکامِ شریعت کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ اسلام نے دورِ اوّل میں جذبۂ عبادت کو اس قدر اُبھارا اور مضبوط کیا کہ نظامِ شریعت پر عمل مشکل نہیں رہا۔ دل و جان سے اس کی پابندی ہوتی رہی۔
قرآن مجید کی مکی سورتوں میں ایک مختصر سورت ’البلد‘ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی بعض نعمتوں کا ذکر ہے کہ اس نے اسے آنکھیں عطا کیں، زبان دی، ہونٹ دیے، بھلائی اور برائی کے راستے بتا دیے۔ اس کے بعد ارشاد ہے:
فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ o وَمَآ اَدْرٰکَ مَا الْعَقَبَۃُ o فَکُّ رَقَبَۃٍ o اَوْ اِِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ o یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o اَوْمِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ o ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ o اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ o وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا ھُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ oعَلَیْھِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ o (البلد ۹۰: ۱۱- ۲۰) پس وہ گھاٹی میں داخل نہیں ہوا۔ تمھیں کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ وہ ہے گردن کو چھڑانا (غلام کو آزاد کرنا) یا بھوک کے دنوں میں کھانا کھلانا قرابت دار یتیم کو یا مسکین کو جو (فاقے کی وجہ سے) خاکِ زمین پر پڑا ہوا ہے۔ پھر ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنھوں نے صبر اور رحم کی ایک دوسرے کوتاکید کی۔ یہی لوگ دائیں جانب والے ہیں (جن کے دائیں ہاتھ میں ان کا نامۂ اعمال ہوگا) اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ بائیں جانب والے ہیں (جن کا نامۂ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں ہوگا)۔ ان پر آگ ہر طرف سے ہوگی۔
اس مضمون کی آیات قرآنِ مجید میں بہ کثرت موجود ہیں جن سے انسانی حقوق کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے حقوق العباد کو جو مقام دیا ہے، ہماری ترجیحات میں اسے وہ مقام حاصل ہونا چاہیے ورنہ دین کا ناقص تصور اُبھرے گا اور سماج کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت واضح نہ ہوسکے گی۔
اُمت مسلمہ کو بھی یہ دونوں ہی کام انجام دینے ہیں۔ جہاں تک اہلِ ایمان یا اُمت ِمسلمہ کی اصلاح کا تعلق ہے، اس کی طرف علما، صلحا اور مصلحینِ اُمت کی توجہ رہی ہے۔ انھوں نے تذکیر و تفہیم، وعظ و نصیحت اور تصنیف و تالیف کے ذریعے اسے بگاڑ سے بچانے اور راہِ راست پر قائم رکھنے کی قابلِ قدر کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں۔ مدارس و مکاتب اور جامعات کے قیام کے ذریعے بھی یہ مقصد حاصل ہوتا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ اُمت کی علمی، معاشی اور سیاسی فلاح کے لیے بھی مسلسل کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ اس سلسلے کے بعض اقدامات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ کوششیں بہرحال اُمت کی مادی اور دنیوی ترقی ہی کے لیے رہی ہیں۔
دعوت و تبلیغ کا میدان بھی بالکل خالی نہیں رہا۔ اس میں کوششیں ہوتی رہی ہیں اور بعض بہت قابلِ قدر بھی ہیں ، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کارِ دعوت ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہاہے۔ اس کے بعض پہلوئوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس سے اس کی اہمیت اور نزاکت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید نے اُمت کے مقصدِ وجود کو ایک جگہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) تم خیرِ اُمت ہو جسے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
آیت میں اُخْرِجَتْ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ اَلنَّاسِ کے اندر ہر دور اور ہر خطۂ ارض کے تمام انسان آتے ہیں۔ اس پر ’ل‘ حرفِ جار آیا ہے۔ اس میں جیساکہ اہلِ علم نے بیان کیا ہے، نفع پہنچانے کا تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اُمت کا وجود اس لیے ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کو اس سے فائدہ پہنچے۔ اس فائدے کی شکل بھی آیت میں بتا دی گئی ہے کہ وہ تمام عالم میں ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ کا فرض انجام دے۔ معروف و منکر کے الفاظ وسیع معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ علما نے لکھا ہے کہ سب سے بڑا منکر شرک ہے۔ اسلام نے جن نیکیوں کی تعلیم دی ہے، وہ سب معروفات ہیں اور جن برائیوں سے منع کیا ہے، وہ سب منکرات میں آتے ہیں۔ اس طرح دین کے پورے نظام فکروعمل کی دعوت دینا امربالمعروف ہے، اور مخالف دین افکار و نظریات اور ان پر مبنی طرز ہاے حیات کی کمزوریاں اور خامیاں واضح کرنا اور ان سے بچانے کی کوشش کرنا نہی عن المنکر ہے۔
وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (البقرہ ۲:۱۴۳) اسی طرح ہم نے تم کو ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو، اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔
’اُمتِ وسط‘ کے معنی ہیں اعلیٰ و ارفع اُمت یا وہ اُمت جو راہِ اعتدال پر قائم ہے۔ اس کی ذمہ داری یہ بتائی گئی ہے کہ وہ ’شہادت علی الناس‘ کا فرض انجام دے، یعنی انسانوں کے سامنے اسلام کے دینِ حق ہونے کی شہادت دے اور دلائل سے ثابت کرے کہ دنیا و آخرت میں نجات و فلاح کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ فرض اللہ کے پیغمبر ہر دور میں کماحقہٗ ادا کرتے رہے ہیں۔ آخری رسول حضرت محمدؐ نے بھی اس فرض کو بدرجۂ کمال ادا فرمایا، جس کے نتیجے میں یہ اُمتِ وسط وجود میں آئی۔ اب یہی فرض اس اُمتِ وسط کو تاقیامت انجام دیتے رہنا ہے۔
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّـآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ فَھُمْ غٰفِلُوْنo (یٰسٓ ۳۶:۶) تاکہ تم اس قوم کو (انجامِ بد) سے ڈرائو جس کے باپ دادا کو ڈرایا نہیں گیا۔ اس لیے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
اس آیت میں خطاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور اہلِ عرب کے درمیان ’انذار‘ کا حکم ہے، جو زندگی کی غلط راہ پر دوڑے چلے جا رہے تھے اور جس کے بھیانک نتائج سے باخبر کرنے کے لیے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ یہ صورتِ حال آج بہت سی قوموں کی ہے، جن کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ صدیوں سے ان تک اللہ کا دین نہیں پہنچا ہے اور ان کے درمیان انذار کا فرض نہیں انجام پایا ہے۔ اب، جب کہ سلسلۂ رسالتؐ منقطع ہوچکا ہے اس اُمت ہی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو اس کی غلط روی کے انجام سے آگاہ کرے اور بتائے کہ اللہ کی کتاب اسی مقصد کے لیے نازل ہوئی ہے۔
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَـآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo (السبا ۳۴:۲۸) ہم نے تو آپ کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ اسے نہیں جانتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشیر اس معنی میں ہیں کہ اللہ کے نازل کردہ دین کو قبول کرنے پر آپ نے دنیا میں بہتر زندگی اور آخرت میں فلاح و کامرانی کی خوش خبری دی۔ آپ کو نذیر اس پہلو سے کہا گیا ہے کہ غلط فکروعمل اختیار کرنے اور اللہ کے دین کو رد کرنے پر دونوں جہاں کے خسارے سے آپ نے آگاہ کیا اور اس کے بھیانک انجام سے ڈرایا۔
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ o (انبیاء ۲۱:۱۰۷) ہم نے تو آپ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ کا وجود، آپؐ کی رسالت، آپؐ کا تصورِ حیات، آپؐ کا نظامِ فکروعمل اور آپؐ کی سعی و جہد دنیا کے لیے سراسر رحمت ہے۔ اسے رد کرنا اللہ کی رحمت سے خود کو محروم کرنا ہے۔ آج دنیا اس سے ناواقف ہے کہ آپؐ ساری دنیا کے لیے بشیرونذیر اور رحمۃ للعالمینؐ ہیں۔ اسے دلائل سے ثابت کرنا، اُمت کے فرائض میں سے ہے۔ اس فرض سے غفلت پر اس سے بازپرس ہوگی۔
اس طرح کے اور بھی اعتراضات ہیں، جن کے ذریعے اسلام کی تصویر مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس طرف دنیا کی توجہ ہی نہ ہو، لیکن اس میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ اس نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ جو اعتراضات کیے جارہے ہیں، ان کا جواب دیا جائے اور جن پہلوئوں سے اسلام سے بدظن کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ،ان پہلوئوں سے مطمئن کیا جائے اور اسلام کی حقانیت ثابت کی جائے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض اہلِ علم اس طرف متوجہ ہیں اور مفید خدمت انجام دے رہے ہیں، لیکن کام اتنا بڑا ہے کہ اس کا حق صحیح معنی میں اسی وقت ادا ہوسکتا ہے، جب کہ اس کے لیے پوری ایک جماعت کھڑی ہو، جس میں مختلف صلاحیت کے افراد ہوں، جو منصوبہ بند اور منظم طریقے سے اسلام کا دفاع ہی نہ کرے بلکہ دنیا کے تمام نظریات کے مقابلے میں اس کی برتری ثابت کرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ترجیحاتِ دین کو سمجھنے اور اس کے مطابق راہِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (مصنف کی نئی کتاب: دعوت و تربیت، اسلامی نقطۂ نظر سے ایک باب)