۲۰۱۰ فروری

فہرست مضامین

محمدیؐ انقلاب

نعیم صدیقی | ۲۰۱۰ فروری | اسوۂ حسنہ

Responsive image Responsive image

حضور نبی پاک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کوئی قصہ کہانی نہیں ہے،وہ محض ایک فرد کی داستان بھی نہیں ہے، بلکہ وہ فی الحقیقت ایک ایسے عظیم اور پاکیزہ انقلاب کی کہانی ہے جس کی کوئی مثال تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ اس انقلاب کی روداد کا مرکزی کردار نبی اکرمؐ کی شخصیت ہے۔ باقی تمام کردار، خواہ وہ ابوبکرؓ و عمرؓ ہوں یا عثمانؓ و علیؓ، جعفرؓ طیار ہوں یا سیدالشہدا جنابِ حمزہؓ،   وہ حضرت بلالؓ ہوں یا یاسرؓو عمارؓ، اور اسی طرح دوسرے محاذ پر ابوجہل ہو یا ابولہب، عبداللہ بن اُبی ہو یا کعب بن اشرف، خواتین میں سے حضرت خدیجہؓ ہوں یا جنابِ فاطمہؓ، حضرت عائشہؓ ہوں یا جنابِ اُم المساکین اور ان کے مقابل میں زوجۂ ابولہب ہو یا ہندہ جگرخوار___ یہ سب کے سب مرکزی کردار کے یا تو معاون کردار ہیں، یا مخالف۔ ان مختلف کرداروں کے تعاون اور کش مکش کے نتیجے میں تاریخ کا وہ سنہری باب لکھا گیا جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آنحضوؐر کی سیرتِ پاک رچی بسی ہوئی ہے اور مہاجرین و انصار میں اسی کا انعکاس دکھائی دیتا ہے۔ حضوؐر کی سیرت کو اس  کش مکش سے الگ کر کے سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔

نعوذ باللہ حضوؐر نہ تو تارک الدنیا راہب تھے اور نہ ایک محدود اور بے ضرر سا دھرم یا مَت سکھانے آئے تھے۔ آپؐ کے ذمّے محض پوجا پاٹ کے طریقے بتانے اور چند اخلاقی نصیحتیں اور سفارشیں کرنے کا کام نہ تھا، بلکہ قرآن کی توضیحات کے مطابق آپ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ خداپرستانہ حکمت اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کرکے آپؐ ایک ایسی جماعت کھڑی کریں جو آپ ؐ کی قیادت میں بھرپور جدوجہد کر کے دینِ برحق کو ہر دوسرے نظریے اور فلسفے اور مذہب کے مقابلے میں پوری انسانی زندگی پر غالب کردے: ویکون الدّین کلہٗ للّٰہِ!

بات کو سمجھنے کے لیے دو تین مواقع پر رسولِؐ برحق کے فرمائے ہوئے کلمات پر ہم نگاہ ڈالتے ہیں۔ ان کلمات کی شہادت یہ ہے کہ حضوؐر کو اپنے کام کے حوصلہ شکن ابتدائی دور میں پورا شعور تھا کہ کیا کرنے چلے ہیں۔ دعوت کا کام شروع کرنے کے جلد ہی بعد خاندانِ بنوہاشم کو کھانے پر جمع کیا اور اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا: جو پیغام میں تم تک لایا ہوں اسے اگر تم قبول کرلو تو اس میں تمھاری دنیا کی بہتری بھی ہے اور آخرت کی بھلائی بھی‘‘۔ پھر ابتدائی دورِ کش مکش میں مخالفین سے آپؐ نے فرمایا کہ ’’بس یہ ایک کلمہ ہے‘‘، اسے اگر مجھ سے قبول کرلو تو اس کے ذریعے تم سارے عرب کو زیرنگین کرلو گے اور سارے عجم تمھارے پیچھے چلے گا‘‘۔ پھر ایک موقع پر رسولِ بشیرونذیر کعبے کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، خباب ابن الارتؓ نے جو قریش کے تشدد کا نشانہ بن رہے تھے، عرض کیا: حضوؐر، ہمارے لیے خدا کی مدد کی دعا نہیں فرمائیں گے؟ حضوؐر نے جواب دیا کہ تم سے پہلے ایسے لوگ ہو گزرے ہیں کہ گڑھے کھود کر ان کے دھڑ مٹی میں داب دیے جاتے اور پھر ان کے سروں پر آرے چلا کر ان کو دوٹکڑے کر دیا جاتا۔ تیز لوہے کی بڑی بڑی کنگھیوں سے بحالت ِ زندگی ان کے گوشت اور کھالوں کی کترنیں ہڈیوں سے نوچ لی جاتیں لیکن یہ چیزیں ان کو دین و ایمان سے نہ پھیر سکیں۔ پھر فرمایا کہ ’’خدا کی قسم! اس کام کو اللہ تعالیٰ ایسی تکمیلِ منزل تک پہنچائے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا، اور اسے سواے خدا کے کسی کا خوف لاحق نہیں ہوگا‘‘۔ مدنی دور میں عدی بن حاتم سے فرمایا کہ ’’بخدا وہ وقت قریب آرہا ہے جب تو سن لے گا کہ اکیلی عورت قادسیہ سے چلے گی اور مکہ کا حج کرے گی اور اسے کسی کا خوف ڈر نہ ہوگا‘‘۔ ان کلمات سے صاف ظاہر ہے کہ آپؐ کے سامنے اخوت و مساوات، عدل و انصاف اور امن وسلامتی کے ایک ایسے نظام کا نقشہ تھا جس میں کمزور اور تنہا فرد بھی ہر ضرر اور ظلم سے محفوظ ہوگا۔

یہ تھی منزل جہاں تک پوری انسانیت کے قائد صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے اس معاشرے کو پہنچانے کے لیے عمربھر جان ماری کی جو جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا، نظم سے محروم تھا، جرائم کی جولاں گاہ تھا، اور جس کے اُجڈ اور اکھڑ لوگ آپس میں لڑبھڑ کر قوتیں برباد کررہے تھے۔

محمدیؐ انقلاب کی اساس کلمہ طیبہ پر تھی، یعنی اس کائنات کا اور تمام نوعِ انسانی کا ایک ہی الٰہ ہے(البقرہ ۲:۱۶۳) اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ پوجا صرف اُس کی ہوگی، حکم اور قانون صرف اس کا چلے گا (البقرہ ۲:۱۲۹)۔ حاجات اس سے مانگی جائیں گی، دعائیں اس سے کی جائیں گی، نذریں اس کے سامنے پیش کی جائیں گی، اعمال کا حساب کتاب لینے والا اور جزا سزا دینے والا وہ ہے۔ زندگی، موت اور صحت اور رزق اور امن اور عزت، سب کچھ اس کی طرف سے ہے۔ زندگی میں اور کوئی اِلٰہ نہیں ہوگا، کسی بادشاہ کی، کسی حکمران کی، کسی خاندان کی، کسی دولت مند کی، کسی پروہت اور پادری کی، کسی نمبردار اور چودھری کی اور خود کسی شخص کے اپنے نفس کی خدائی بھی نہ چلے گی۔ اللہ کے سوا دوسرا جو کوئی بھی خدا بنتا ہے یا اپنی مرضی ٹھونستا اور اپنا قانون چلاتا ہے، یا دوسروں کے سر اپنے سامنے یا کسی اور کے سامنے جھکواتا ہے، یا جو لوگوں کی حاجات پوری کرنے کا مدعی بنتا ہے، وہ طاغوت کا پارٹ ادا کرتا ہے۔

اس انقلابی کلمے کا دوسرا جز یہ بتاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے اپنا رسول مقرر کیا ہے۔ ان کو وحی کے ذریعے ہدایت اور ضلالت، نیکی اور بدی، حلال اور حرام کا علم عطا کیا ہے۔ آپؐ خدا کی طرف سے قیامت تک تمام مسلمانوں کے پیشوا اور قائد، معلم اور مزکّی اور اسوہ اور نمونہ قرار دیے گئے ہیں۔

اس انقلابی کلمے کے بیج سے نظامِ عدل و رحمت کا وہ شجرۂ طیبہ ظہور میں آیا جس کی شاخیں فضائوں میں پھیل گئیں اور جڑیں زمین میں اُتر گئیں۔ جس کی چھائوں دُور دُور تک پھیل گئی اور جس کے فکری، تہذیبی اور اخلاقی برگ و بار کا کچھ حصہ ہرقوم اور معاشرے تک پہنچا۔

محمدی انقلاب کے حیرت انگیز پہلوئوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس نے آپؐ کے پیغام کو قبول کیا اس کی ساری ہستی بدل گئی۔ اس کے ذہن کی ساخت، اس کے افکاروجذبات، اس کے ذوق اور دل چسپیاں، اس کی دوستیاں اور دُشمنیاں، اس کے اخلاقی معیارات سب کے سب بدل گئے۔ چور اور ڈاکو آئے اور دوسرے لوگوں کے اموال کے نگہبان بن گئے۔ زانی آئے اور دوسروں کی عصمتوں کے رکھوالے بن گئے۔ سود کھانے والے آئے اور وہ اپنی کمائیاں خدا کے دین اور بندوں کی خدمت کے لیے لٹانے لگ گئے۔ کبِر کے مجسمّے آئے اور عاجزی کا نمونہ بن گئے۔ خواہشوں کے غلام آئے اور پَل بھر میں دنیا نے دیکھا کہ وہ اپنی خواہشوں کو روندتے ہوئے ایک اعلیٰ نصب العین کی طرف لپکے جا رہے ہیں۔ جاہل آئے اور آسمانِ علم پر اُنھوں نے اس طرح کمندیں ڈالیں کہ دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ اُونٹوں کے چرواہے انسانوں کے شفیق گلّہ بان بن گئے۔ لونڈیوں، غلاموں کے پسے ہوئے طبقے سے وہ شجاع اور غیور ہستیاں نمودار ہوئیں جن پر دشمنوں نے ظلم و ستم کے سارے حربے آزما ڈالے، مگر ان کے ضمیروں کو بدلنے اور ان کے ایمان کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوئے۔

محمدیؐ انقلاب کے ان رضاکار سپاہیوں میں ڈسپلن اور ضبط و نظم ایسا بے مثال تھا کہ  حالتِ نماز میں اُن کو تحویلِ قبلہ کا حکم ملا تو اُنھوں نے فوراً اپنے رُخ بیت المقدس سے کعبے کی طرف پھیر لیے، اُن کے لیے شراب حرام کی گئی تواُنھوں نے منہ کے ساتھ لگے ہوئے پیالے تک الگ کرکے پھینک دیے، ان کی خواتین نے جب رسولِ پاکؐ کی زبان سے حکمِ حجاب سنا تو اس میں مین میخ نکالنے کے بجاے فوراً اپنے سروں اور سینوں اور زینتوں کو ڈھانپ لیا۔ ان میں سے اگرکسی مرد یا عورت سے خدا ورسولؐ کے احکام کے خلاف کوئی جرم سرزد ہوگیا تو اپنے جرم کے اقراری بن کر خود پیش ہوئے اور اصرار کیا کہ ان پر سزا نافذ کر کے انھیں حضوؐر پاک کر دیں۔ اُن سے چندہ طلب کیا گیا تو کسی نے گھر کا سارا سامان لا کے مسجد میں ڈھیر کر دیا، کسی نے سامان سے لدے ہوئے اُونٹوں کی قطاریں کھڑی کر دیں، اور کسی مزدور نے دن بھر کی محنت کی کمائی ہوئی چند کھجوریں پیش کردیں۔

پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا احسان تہذیب ِ انسانی پر یہ ہے کہ آپؐ نے انسانوں کے تمام رشتوں اور رابطوں کو محکم بنیادوں پر استوار کیا، ایک دوسرے کی باہمی ذمہ داریاں واضح کیں، سب کے حقوق و فرائض متعین کیے، اور اپنے نمونے کے معاشرے میں والدین اور اولاد، بھائی بہنوں، میاں بیوی، استاد اور شاگرد، امیر اور غریب، پڑوسی اور ہم سفر، حاکم اور رعیت کے ربط و تعلق کو احسن شکل دی۔

افراد کے اندر واقع ہونے والے اس انقلاب کے نتیجے میں عرب کے معاشرے میں جو انقلاب واقع ہوا، وہ حیرت انگیز ہے۔ حضوؐر نے اسلامی ریاست کی بنیاد جب مدینہ میں رکھی تو زیادہ سے زیادہ وہ علاقہ ۱۰۰ مربع میل ہوگا۔ آٹھ نو سال کے قلیل عرصے میں یہ ریاست پھیل کر ۱۰،۱۲ لاکھ مربع میل تک وسیع ہوگئی جس میں کوئی طبقاتی کش مکش نہ تھی، جس میں نسب کے فخر اور نسل کی عصبیت کا خاتمہ ہوگیا، جس میں امیروغریب اور عالم اور اَن پڑھ بھائی بھائی بن گئے، جس میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے، جس میں لوگ ایک دوسرے پر ظلم کرنے والے، سرکاری مال اور فرائض میں خیانت کرنے والے اور رشوتیں سمیٹنے والے نہ تھے، جس میں ہر کوئی دوسرے کے کام آتا تھا اور اپنے بھائی کو سہارا دیتا تھا۔ یہ بالکل ایک نئی دنیا کی تعمیر کی مہم تھی۔

یہ پاک اور پیارا محمدیؐ انقلاب اس طرح نہیں آیا کہ لوگوں پر جبروتشدد کیا جا رہا ہو۔   اس انقلاب کا پیغام قبول کرانے کے لیے کسی کوقتل نہیں کیا گیا۔ کسی کو جیل میں نہیں ڈالا گیا۔ کسی کی  پیٹھ پر تازیانے نہیں برسائے گئے۔ اس کے لیے دہشت نہیں پھیلائی گئی بلکہ اس انقلاب کی روح محبت ِ انسانیت تھی اور حضوؐر نے بڑی شفقت سے معلّمانہ انداز پر پہلے مکہ میں ۱۳ سال تک اور پھر مدینہ میں ۱۰ برس تک کام کیا۔

مکہ کے دور میں آپؐ نے گالیاں سن کر، طعن و طنز کا ہدف بن کر، مارکھا کر اور تین سال تک شعب ِابی طالب میں خاندان سمیت نظربند رہنے کے باوجود نرمی اور پیار سے دعوت دی۔ آپؐ کے رفیق تپتی ریت پر لٹائے گئے، ان کے سینوں پر پتھر رکھے گئے، ان کی پیٹھوں کے نیچے دہکتے انگارے ٹھنڈے ہوگئے، کسی کے گلے میں رسّی ڈال کر گلیوں میں گھسیٹا گیا، کسی کو تازیانے مارمار کر ادھ موا کر دیا گیا اور کسی کو عذاب دے دے کر جان ہی لے لی گئی۔

پھر مدینہ میں آکر یہودیوں کی شرارتوں اور منافقین کی غداریوں کا سامنا کیا۔ یہاں تک کہ بار بار آپؐ کے قتل کی سازشیں کی گئیں جن سے حضوؐر بال بال بچ نکلے، مگر یہودیوں اور منافقوں کی ایک بڑی تعداد پوری آزادی کے ساتھ موجود رہی اور شرانگیزی کرتی رہی۔

میدانِ جنگ میں حضوؐر اگر مسلم قوت کو اُتارنے پر مجبور ہوئے تو اس وجہ سے کہ مخالف جاہلی قوت کے علَم بردار خود بار بار چڑھ کر آئے۔ بدر اور احزاب کی تین بڑی بڑی جنگیں مدینے کے دروازے پر لڑی گئیں۔ صرف ایک آخری جنگ جس کے پہلے مرحلے پر مکہ اور دوسرے میں حنین و طائف مفتوح ہوئے، اس وجہ سے ناگزیر تھی کہ دشمن کی جنگی قوت اور کارروائیوں کے یہ مراکز تھے۔ اگر انھیں قائم رہنے دیا جاتا، تو جنگوں کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک چلتا۔ اسی طرح غزوئہ بنومصطلق اور غزوئہ خیبر کا مقصد خوفناک قسم کی غدارانہ اور سازشی کارروائیوں کا سدِّباب کرنا تھا۔ باقی چھوٹے موٹے معرکے یا تو ڈاکوئوں کی سرکوبی کے لیے تھے یا سرحدی جھڑپوں کی نوعیت رکھتے تھے۔ کمال یہ ہے کہ جنگوں میں نبی ِؐ امن و رحمت نے ایک طرف ایسی تدبیریں اختیار کیں کہ دشمنوں کے کم سے کم افراد کو ہلاک کرنا پڑے، دوسرے عرصۂ پیکار کے لیے بھی اعلیٰ درجے کے ضابطے نافذ کرکے دکھایا کہ خدا پرستوں کے انداز کیا ہوتے ہیں۔ نو سال کی تمام جنگی کارروائیوں میں دشمن کے ۷۵۹افراد ہلاک ہوئے یعنی ۸۴ افراد فی سال،اور جنگوں میں مسلمانوں کا کل جانی نقصان ۲۵۹ ہے۔ ۸، ۹ سال کی مدت میں دو طرفہ جنگی اموات کی میزان ۱۰۱۸ ہے۔

کیا دنیا کا، اور خصوصاً آج کی مہذب دنیا کا کوئی انقلاب اتنے کم جانی نقصان کے ساتھ اتنے بڑے تغیر کی مثال پیش کرسکتا ہے؟ اس نام نہاد مہذب دنیا میں تو انقلاب ایک عفریت کی طرح آتا ہے اور ہزارہا انسانوں کو لقمہ بناتا ہے۔ پھر انقلابی حکومتیں جبریت کے تخت پر بیٹھ کر لوگوں کو مسلسل قتل کرتی رہتی ہیں، جیلوں میں ڈالتی ہیں، ان کو عذاب دیتی ہیں اور برسوں خوف اور دہشت کی فضا طاری رہتی ہے۔ ان جبری اور خون ریز انقلابوں نے تو انسان کی فطرت کو بالکل مسخ کردیا ہے۔

محمدیؐ انقلاب کی رحمت و برکت کو سامنے رکھ کر جب ہم دوسرے انقلابی نظریوں اور فلسفوں کو دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ باطل کے مختلف روپ ہیں۔

پس مطالعۂ سیرتِ نبویؐ سے ہمارا مقصود یہ ہونا چاہیے کہ ہم حضوؐر کے پیغام، حضوؐر کے ذکروعبادت، حضوؐر کے اخلاق، حضوؐر کی تنظیم، حضوؐر کے کارنامے، حضوؐر کے طریق کار اور حضوؐر کی حکمت عملی کو سمجھ کر اپنے آپ کو اس امر کے لیے تیار کریں کہ پہلے ہمارے اپنے اندر محمدیؐ انقلاب کا آغاز ہو اور پھر ہم نہ صرف اپنے ملک اور معاشرے کو، بلکہ پوری نوعِ انسانی کو محمدیؐ انقلاب کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرہ مند کریں۔ ہمارے لیے حق کی راہ صرف یہ ہے کہ حضوؐر کو اپنی   ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے پیشوا، قائد اور اسوہ اور نمونہ تسلیم کریں اور کسی دوسرے فلسفی یا انقلابی یا مصلح یا سیاست کار یا قانون ساز کو اپنا مستقل رہنما بناکر اس کی پیروی نہ کرنے لگیں،  ورنہ تمام زندگی خدا کے ہاں رائیگاں شمار ہوگی۔(سید ِ انسانیتؐ، ص ۷-۱۳)