۲۰۱۰ فروری

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کے سایے میں

عبد الغفار عزیز | ۲۰۱۰ فروری | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنی امت کے ان لوگوں کو جانتا ہوں کہ جن کی نیکیاں قیامت کے دن کوہِ تہامہ جتنی بلند ہوں گی اور خوب چمک رہی ہوں گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو راکھ کے ڈھیر کی طرح اڑا دے گا۔ میں نے عرض کی یارسولؐ اللہ ! ذرا ان لوگوں کی صفات بیان فرمادیں، ہمیں ان لوگوں کے بارے میں واضح طور پر بتادیں، کہیں یہ نہ ہو کہ ہم بھی لاعلمی میں انھی لوگوں میں شمار ہوجائیں؟ آپؐ نے فرمایا: وہ لوگ تمھارے ہی بھائی ہیں، تم ہی میں سے ہیں، تمھاری ہی طرح قیام اللیل کرتے ہیں، لیکن جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو انھیں اللہ کی حدود پھلانگنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ (ابن ماجہ ، حدیث ۴۲۴۵)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی صفات کی روشنی میں دیکھیں تو بظاہر نیک بندے کی     تصویر ذہن میں آتی ہے۔ مسلمانوں ہی میں سے، انھی ہی کی طرح عبادات کا خوگر، فرائض سے بڑھ کر نوافل و تہجد تک کا اہتمام کرنے والا، روشن و چمک دار نیکیوں کے بلند پہاڑ اپنے ساتھ لے کر جانے والا، لیکن ایسا بدنصیب کہ بالآخر ساری محنت پر پانی پھیردینے والا۔

اس بُرے انجام کا سبب؟۔ لوگوں کے سامنے تو برائی اور گناہوں سے اجتناب، لیکن تنہائی میں اللہ کے حرام کردہ اُمور کا ارتکاب۔ پارسائی کا دعویٰ اور غلط فہمی، لیکن اس دعوے کی اصل جانچ میں ناکامی۔ آج شیطانی دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار فحاشی و عریانی اور مالی و اخلاقی کرپشن ہے، فرمان نبویؐ میں اس ابلیسی وار سے بچنے کے لیے اصل ڈھال فراہم کردی گئی ہے: کھلے اور چھپے ہرحال میں اللہ کا خوف، ہر دم اللہ کی یاد۔ صحابہ کرامؓ کی حرص آخرت بھی دیکھیے کہ فوراً دھڑکا لگ گیا، یہ نہ ہو کہ پتا ہی نہ چلے اور ہم بھی انھی میں شمار ہوجائیں۔

o

حضرت معاویہ بن حَیدَہؓ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طرح کے لوگ ہیں جن کی آنکھیں (جہنم کی) آگ نہیں دیکھیں گی۔ ایک وہ کہ جن کی آنکھ اللہ کی راہ میں پہرہ دیتی رہی، دوسرے وہ کہ جن کی آنکھ اللہ کے خوف سے رو دی، اور تیسرے وہ کہ جس نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے نگاہوں کو بچالیا (بروایت طبرانی جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا)

اسلامی ریاست اور اہل اسلام کی حفاظت، رضاے ربانی کا ذریعہ بنتی ہے، بشرطیکہ یہ کام صرف اللہ کی رضا کی خاطر کیا جائے۔ ترقی و کمال بھی اس اخلاص و محنت کا ایک طبعی نتیجہ ہے، لیکن اصل قوت محرکہ نہیں۔ یہاں اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر صرف جاگنے کا اجر یہ ہے، تو مسلمانوں کے خلاف جنگ کا حصہ بننا، جابجا دھماکے، فائرنگ اور آتش زنی سے تباہی پھیلانا،  لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو کو برباد کرنا، رب کی کتنی ناراضی اور مجرموں کے لیے کتنے عذاب کا سبب بنے گا۔

اللہ کے خوف سے آنکھیں نم ہوجانا، سوزِ دل اور اللہ سے تعلق کا سب سے اہم مظہر ہے۔ وہ نارِجہنم کہ جس سے دنیا کی شدید سے شدید آگ بھی پناہ مانگتی ہے، بندے کی چشم نم سے بجھائی جاسکتی ہے۔ پھر وہ آنکھ جس نے اللہ کی محرمات سے آنکھیں پھیر لیں، جہنم سے چھٹکارا پاگئی___ آج جب قدم قدم پر فحاشی، اخلاقی غلاظت اور شیطانی ثقافت کا بازار گرم کیا جارہا ہے، اس حدیث کو یاد رکھنے کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔

آئیے ذرا خوب دھیان سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات دوبارہ سنتے ہیں: یہ تینوں ’’آنکھیں جہنم کی آگ نہیں دیکھیں گی‘‘۔ سبحان اللہ! یہ نہیں فرمایا کہ جہنم میں نہیں جائیں گی، بلکہ فرمایا جہنم کی جھلک تک نہیں دیکھیں گی۔ اَللّٰھُمْ أجِرنَا مِنَ النَّارِ، پروردگار ہمیں جہنم کی آگ سے بچا۔ آمین!

o

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو یا خاتون کو نہیں مارا تھا، بلکہ آپؐ نے میدان جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا۔ اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑا ہو اور آپؐ نے دونوں میں سے آسان تر کو پسند نہ کیا ہو،الا یہ کہ اس میں اللہ کی ناراضی کا کوئی پہلو ہو۔ اگر کسی کام میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا، تو آپؐ اس کام سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ آپؐ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ ہاں، اگر اللہ کی حدیں پامال ہورہی ہوتیں، تو پھر آپؐ اللہ کی خاطر انتقام لیتے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، حدیث ۱۹۸۴)

ربیع الاول میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت و عقیدت نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔  عشق و احترامِ نبیؐ کے روشن تر ان لمحات میں، سیرت اطہر کا مطالعہ ایمان میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اُم المومنین رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تین اہم صفات و عادات ہر اُمتی کو دعوتِ فکر دے رہی ہیں۔

پہلی یہ کہ آپؐ نے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائی، میدان جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہ مارا۔ ہتھیار تو دور کی بات ہے کہ اس سے کسی کی طرف مزاحاً اشارہ کرنا بھی جہنم میں جگہ بنانا ہے، ہاتھ سے بھی کسی کو نہ مارا، کسی کمزور سے کمزور کو بھی نہیں۔ انسانی خون کی ہولی کھیلنے والے اگر مسلمان ہیں تو کس منہ سے   عشق و محبت کا دعویٰ کرسکیں گے۔

دوسری یہ کہ اگر گناہ کے زمرے میں نہ آتی ہو تو ہمیشہ آسانی کو پسند کیا۔ دوسروں کو بھی یہی تعلیم دی کہ ’’یَسِّرُوا ، آسانیاں پیدا کرو‘‘۔ اس سنہری اور جامع اصول کا اطلاق بھی، زندگی کے ہر گوشے پر ہوتا ہے، دین و مذہب سے لے کر حکومت و اقتدار تک۔ تحریک و جماعت سے لے کر ملازمت و بیوپار تک۔ خود پر وہ بوجھ مت ڈالو جو خالق نے نہیں ڈالا، اور اگر کسی معاملے میں دو راستے میسر ہیں اور کسی میں بھی اللہ کی نافرمانی نہیں، تو آسان کو مشکل پر ترجیح دو۔

تیسری یہ کہ اپنی ذات کے لیے انتقام، نبیؐ کا شیوہ نہیں۔ ہاں، اگر کوئی خالق ہی کو ناراض کرنے پر تل جائے، تو آیندہ اسے اور دوسروں کو اس کارِ بد سے باز رکھنے کے لیے سزا بھی ناگزیر ہوجاتی ہے۔

o

حضرت جابر بن عبد اللہؓ اور ابو طلحہ بن سہل انصاریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہورہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے جب و ہ خود اللہ کی نصرت کا محتاج ہوتا ہے۔ اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو ایسے وقت میں اپنے بھائی کی نصرت کرے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہورہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی نصرت ایسے وقت میں نہ کرے کہ جب وہ اللہ کی نصرت کا محتاج و طالب ہوتا ہے۔ (ابوداؤد، حدیث ۴۸۸۴)

بندہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کر رہا ہے حالانکہ درحقیقت وہ اپنی ہی مد د کررہا ہوتا ہے۔ بندہ اپنے بھائی کے کام آتا ہے تو رب کائنات خود اس بندے کا نگہبان بن جاتا ہے۔ مسلم کی طویل حدیث کے مطابق ’’اللہ تب تک خود بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے‘‘۔

رب کا انصاف ہر شے سے بالاتر ہے، جس نوع کی نیکی، اسی طرح کا اس کا اجر، اور جس طرح کا جرم، اسی نوع کی سزا و عذاب۔ افراد ہی نہیں اقوام و ممالک بھی اس حدیث کی روشنی میں اپنے حال و مستقبل کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔ روزمرہ کے معمولات سے لے کر بین الاقوامی مسائل تک، اللہ نے یہ فیصلہ بندے پر چھوڑ دیا کہ وہ رب کی نصرت چاہتا ہے یا اس کی سزا و عذاب!

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پر دوست بننے والے دو افراد میں اگر کبھی کوئی اختلاف و رنجش پیدا ہوجاتی ہے، تو اس کی اصل وجہ، دونوں میں سے کسی ایک سے گناہ کا سرزد ہوجانا ہے۔ (بخاری)

نیک و پُرخلوص دوست اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اور اگر دوستی اللہ کی خاطر ہو تو دوجہاں میں اللہ کی محبت عطا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام کی خاطر دوست دو افراد کو، خالقِ کائنات  اس روز اپنے عرش کے سایے تلے جگہ دے گا جب کوئی اور سایہ میسر نہ ہوگا۔

دیگر نعمتوں کی طرح اس نعمت کے زوال کا اصل سبب بھی اللہ کی نافرمانی ہے۔ اگر اتنی عظیم نعمت کے چھن جانے کا سانحہ روپذیر ہوجائے، تو جائزہ لیں کہ کیا گناہ سرزد ہوا ہے۔ یہ کافی نہیں کہ جب کوئی غلطی اور گناہ تلاش کریں تو وہ بھی صرف دوسروں میں۔ اگر ہر بندہ دیکھے کہ مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا  تو پھر اس کا مداوا و استغفار ان شاء اللہ نعمت کی بحالی و دوام کا سبب بنے گی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ  غلطی و گناہ اس فرد سے درپیش معاملات ہی میں تلاش کیا جائے۔ کوئی بھی گناہ، زوالِ نعمت کا سبب بن سکتا ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل دُعا میں اللہ تعالیٰ سے یہ بھی درخواست ہوئی: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ، پروردگار میں تیری نعمتوں کے زوال سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔