۲۰۱۰ فروری

فہرست مضامین

امریکا اور افغانستان بحران سے نکلنے کا راستہ

پروفیسر خورشید احمد | ۲۰۱۰ فروری | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

افغانستان بلاشبہہ آج دنیا کے پس ماندہ اور غریب ترین ممالک کی فہرست میں بھی   پست ترین مقام پر آتا ہے، اور کم از کم ۳۰ سال سے جنگ اور خانہ جنگی کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ حکمرانی کے آداب کی زبوں حالی، کرپشن اور بدعنوانی کی فراوانی میں بھی سرفہرست ہے۔ برطانوی استعمار کی ۱۰۰سالہ خون آشام عسکری جولانیاں اور دخل اندازیاں، روس کا ۱۰سالہ قبضہ اور پسپائی، اور امریکا اور ناٹو اقوام کی نوسالہ بے نتیجہ فوج کشی اور بالآخر افغان دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے کی سعی و جہد تاریخ کے اس ناقابلِ انکار سبق کی یاد تازہ کرتے ہیں کہ افغانستان کے غیور عوام کو ان کی تمام بے سروسامانی کے باوجود کوئی طاقت ور طالع آزما غلامی اور محکومی کے طوق نہیں پہنا سکا۔

یہ تاریخ کا ایک عجوبہ نہیں تو کیا ہے کہ یہ پس ماندہ ترین ملک گذشتہ صدی کی دو عالمی طاقتوں کے ناپاک عزائم کا قبرستان بنا، اور آج تیسری اور بظاہر دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا کی بالادستی کا ۵۰۰ سالہ دور اپنے انجام کی طرف جا رہا ہے اور افغانستان جیسے ایشیا کے کمزور، چین جیسے طاقت ور ملک ایک بار پھر اپنے اپنے انداز میں تاریخ کے نئے باب کے آغاز کے لیے ورق گردانی کر رہے ہیں۔ تقریباً ۸۰سال پہلے    اقبال نے اپنی خداداد بصیرت کی بناپر جاویدنامہ میں افغانستان کے ماضی اور حال کی جھلک دکھائی تھی:

آسیا یک پیکرِ آب و گل است

ملّتِ افغاں درآں پیکر دل است

از فسادِ او فسادِ آسیا

در کشادِ او کشادِ آسیا

اقبال کے یہ اشعار، افغانستان کی موجودہ صورت حال کی روشنی میں اس کے مستقبل کے امکانات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے ’دہشت گردی‘ کے واقعات کو امریکا کی قیادت نے اپنے عالمی عزائم کے حصول کے لیے کامل عیاری کے ساتھ استعمال کیا۔ القاعدہ اور اسامہ بن لادن ایک گھنائونی استعماری جنگ کا عنوان بن گئے۔ جس فوجداری جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں افغانستان سے کوئی ایک فرد بھی شریک نہ تھا اور جس کی منصوبہ بندی جرمنی کے شہر ہیمبرگ اور خود امریکا میں ہوئی، اس کو بہانہ بناکر افغانستان پر حملہ کیا گیا، پاکستان کو دھمکیاں دے کر اپنا آلۂ کار بنایا گیا، اور پھر عراق پر فوج کشی کی گئی اور پوری دنیا کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر ایک عالمی ہیجان اور لاقانونیت میں مبتلا کر کے عملاً میدانِ جنگ بنادیا گیا۔

صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں عراق کی جنگ کو نشانہ بنایا لیکن افغان جنگ کو  ’ضرورت کی جنگ‘ قرار دیتے ہوئے جاری رکھنے کا عندیہ دینے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا پیغام بھی دیا، لیکن مسندِ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد ان کی پالیسیاں تضادات کا شکار اور اپنے کیے ہوئے عہدوپیمان سے روگردانی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ حلف برداری کے فوراً بعد انھوں نے افغانستان میں ۱۷ہزار تازہ دم فوجی بھجوائے اور اب افغان پالیسی پر سال بھر کے نظرثانی کے عمل کے بعد مزید ۳۰ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے، مگر ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ ۱۸ مہینے کے بعد فوجوں کی واپسی کا آغاز کردیا جائے گا۔ گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کو ایک سال میں بند کرنے کا اعلان حلف برداری کے بعد ہی کیا تھا، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود اس طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ قیدی عدل و انصاف سے بدستور اسی طرح محروم ہیں جس طرح بش کے دور میں محروم تھے۔ تفتیش کے دوران معلومات حاصل کرنے کے لیے اذیت اور تشدد کے حربوں کو استعمال کرنے کا کاروبار یکسر ختم کرنے کے دعوے کیے گئے تھے مگر وہ بھی اسی طرح جاری ہے جس طرح پہلے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کی جو اُمید امریکا کے ووٹروں اور دنیا کے عوام کو تھی وہ دم توڑتی نظرآرہی ہے اور صدر اوباما کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرنا شروع ہوگیا ہے۔

ان حالات میں یکم دسمبر ۲۰۰۹ء کو مہینوں کی مشاورت اور بحث و مذاکرے کے بعد افغانستان کے بارے میں جس ’نئی پالیسی‘ کا اعلان کیا گیا ہے وہ نئی اور توقعات سے کہیں کم اور بش کی پالیسی کا تسلسل کہیں زیادہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف لابیوں کو مطمئن کرنے کے لیے  نئی پالیسی کے نام پر ایک ایسا ملغوبہ تیار کیا گیا ہے جو تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ اصول، قانون، انصاف اور حقیقی امن کے قیام کے امکانات ایک بار پھر دم توڑ گئے ہیں۔ زمینی حقائق سے صرفِ نظر کیا گیا ہے اور حق اور عدل کے تقاضوں کا خون کرتے ہوئے صرف مفادات کے کھیل کو آگے بڑھانے کی ایک اور کوشش کی گئی ہے۔ پالیسی کے مرکزی اجزا میں کسی تبدیلی کے بغیر جو بھی     ملمع سازی اور لفظی ہیرپھیر کیا گیا ہے، اس سے حالات میں کسی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اگر گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے تو اوباما کی تازہ افغان پالیسی نئی خرابیوں اور مشکلات کو جنم دے گی اور حالات کو مزید خراب کرنے کا باعث ہوگی، اس لیے ضروری ہے کہ اس پالیسی پر نقدواحتساب سے پہلے امریکا کی افغان جنگ کی اصل حقیقت، اس جنگ میں پاکستان کے کردار، اور افغانستان کے  اس وقت کے حالات کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے تاکہ اس دلدل سے نکلنے اور حقیقی راہِ نجات کے خدوخال کو سمجھنے اور ان پر عمل کے لیے نقشۂ کار تیار کرنے کا کام انجام دیا جاسکے۔

افغان جنگ کے حقائق

پہلی بات جسے اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ امریکا جو بھی دعوے کرے اور مغربی مفادات کا محافظ میڈیا جو بھی گل افشانیاں کرے، یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ افغانستان پر امریکا کی فوج کشی بین الاقوامی قانون، اصولِ سیاست اور اخلاقی اقدار و ضوابط ہر ایک کے اعتبار سے ایک استعماری اور جارحانہ اقدام تھا، ایک ایسا بین الاقوامی جرم جو بہراعتبار ناقابلِ قبول تھا اور رہے گا۔ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے اور ایشوز کو الجھانے کی منظم کوششوں کے باوجود، اب اس بات کا اعتراف کیا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں (بشمول امریکا) جنگ کے خلاف اہلِ علم ہی نہیں، سول سوسائٹی کے اہم عناصر کی طرف سے بھی آواز بلند ہو رہی ہے اور جنگ مخالف (anti war) تحریک  تقویت پکڑ رہی ہے۔ اوباما کے یکم دسمبر کے پالیسی خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی دانش ور سائمن جنکنز نے لندن کے روزنامے گارڈین میں اپنے مضمون میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ: ’’افغانستان پر حملہ سزا دینے کے لیے تھا لیکن یہ ایک قبضے میں بدل گیا۔ یہ کام نہ صرف بری طرح انجام دیا گیا بلکہ ابتدا ہی بغیر سوچے سمجھے کی گئی تھی‘‘۔ (۲ دسمبر ۲۰۰۹ء)

امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر ماتھیو ہوہ نے(جو سابق میرین بھی ہے)   افغان پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے اکتوبر ۲۰۰۹ء میں استعفا دے کر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ اس استعفے کو رکوانے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر ناکام رہی۔ اسے چھپوانے سے روکنے کی سعی بھی لاحاصل ثابت ہوئی۔ اب اس بات کا بھی اعتراف کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں امریکی سفیر کارل ایکنبری اور خود امریکی نائب صدر جوبیڈن اس استعفے پر فکرمند ہیں۔ (ملاحظہ ہو، گیلیز ڈورون سو کا مضمون دی گارڈین لندن میں، ۲۸؍ اکتوبر۲۰۰۹ء)

ماتھیو ہوہ کے استعفے کے یہ حصے بڑے قابلِ غور ہیں:

میرا افغانستان میں امریکا کی موجودگی کے مقاصد کے بارے میں اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ مجھے موجودہ حکمت عملی اور مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں شکوک وتحفظات ہیں لیکن میرا استعفا اس پر نہیں ہے کہ ہم کس طرح لڑ رہے ہیں بلکہ اس پر ہے کہ ہم کیوں اور کس لیے لڑ رہے ہیں؟

اس نے اپنے استعفے میں صاف الفاظ میں وہ بات بھی کہی ہے جسے کہنا اور سمجھنا تو چاہیے تھا پاکستان کی قیادت کو، جو امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’افغانستان میں ہماری موجودگی نے پاکستان میں عدم استحکام اور بغاوت میں اضافہ ہی کیا ہے‘‘۔

اس نے اس استعفے میں امریکا کی افغان پالیسی کے تباہ کن منطقی تقاضوں کو بیان کرنے کے بعد یہاں تک کہہ دیا ہے:

دیانت دارانہ طور پر اگر ہم القاعدہ کی بحالی یا تنظیمِ نو کو روکنا، اور افغانستان کو القاعدہ سے محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہماری حکمت عملی کا تقاضا یہ ہوگا کہ ہم اس کے بعد پاکستان، صومالیہ، سوڈان اور یمن وغیرہ پر بھی حملہ کریں اور قبضہ کرلیں۔ خطرہ جغرافیائی یا سیاسی سرحدوں کے اندر محدود نہیں ہے۔

ماتھیو ہوہ نے یہ بھی صاف لکھا ہے کہ اگر ہم نے اس جنگ کے بارے میں بنیادی سوچ نہ بدلی تو پھر یہ جنگ لامتناہی ہوسکتی ہے اور عشروں اور نسلوں تک جاری رہ سکتی ہے۔

دی گارڈین کے مضمون نگار گیلیز ڈورن سو، نے اس استعفے پر ایک جملے میں یوں تبصرہ کیا ہے: ’’افغانستان میں امریکی افسر کی حیثیت سے میتھیو ہوہ کا استعفا جنگ پر ایک واضح درست اور سخت تنقید ہے‘‘۔ وہ مزید کہتا ہے: ’’ہوہ کی بات درست ہے کہ ۱۱ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی زیادہ تر جرمنی میں کی گئی تھی اور افغانستان میں جنگ امریکا کو زیادہ محفوظ نہیں بناتی‘‘۔ (دی گارڈین، ۲۹؍اکتوبر ۲۰۰۹ء)

افغانستان پر امریکی فوج کشی اور قبضے کے غیرقانونی اور ناجائز ہونے کا کھلاکھلا اعتراف خود امریکا کے اعلیٰ قانونی حلقوں میں کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب    Rules of Disengagement ہے جو تھامس جیفرسن اسکول آف لا کی پروفیسر اور امریکا کی نیشنل لایرز گلڈ کی صدر پروفیسر مارجوری کوہن نے لکھی ہے اور ۲۰۰۹ء کے اواخر میں شائع ہوئی ہے۔ اپنی اس کتاب کے نتائج کو پروفیسر مارجوری کوہن نے اپنے ایک مضمون (Counter Punch ، ۲۱ دسمبر ۲۰۰۹ء)میں بیان کیا ہے اور پاکستان کے لیے اس میں ایک پیغام ہے کہ موصوفہ نے مضمون کا عنوان: Why Af/Pak war is illegal[افغان پاکستان جنگ کیوں غیرقانونی ہے؟]    رکھا ہے۔ ہم اس مضمون کے چند اقتباس پیش کرتے ہیں:

  • افغانستان پر امریکا کا حملہ عراق پر حملے کی طرح غیرقانونی تھا لیکن پھر بھی بہت سے امریکی اسے ۱۱ستمبر کے حملوں کا درست ردعمل سمجھتے تھے۔ ٹائم کے سرورق پر اس کو درست جنگ قرار دیا گیا۔ اوباما کی مہم یہ تھی کہ عراق میں جنگ ختم کریں گے لیکن افغانستان میں بڑھائیں گے، مگر اب امریکیوں کی اکثریت اس کی بھی مخالف ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہے کہ ریاستیں اپنے بین الاقوامی تنازعات پُرامن طریقے سے طے کریں گی اور کوئی قوم اپنے دفاع کے علاوہ فوجی قوت استعمال نہیں کرسکتی،     یا جب تک کہ سلامتی کونسل اس کی اجازت نہ دے۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد سلامتی کونسل نے دوقراردادیں منظور کیں مگر ان میں سے کسی ایک میں بھی افغانستان میں فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق حملے کے ثبوت نہیں ملے، لہٰذا طالبان نے بن لادن کو حوالے نہیں کیا لیکن   بش نے افغانستان پر بم باری شروع کر دی۔

  • افغانستان پر حملے کے لیے بش کا جواز بے بنیاد تھا۔ اسی بنیاد پر ایرانی امریکا پر حملہ کرسکتے تھے جب انھوں نے ۱۹۷۹ء میں رضاشاہ پہلوی کا تختہ اُلٹا اور امریکا نے اسے پناہ دی۔ اگر حکومتِ ایران نے مطالبہ کیا ہوتا کہ ہم شاہ کو اس کے حوالے کریں اور ہم نے انکار کیا ہوتا تو کیا ایران کے لیے قانونی طور پر جائز ہوتا کہ امریکا پر حملہ کر دیتا؟ یقینا نہیں۔
  • افغانستان میں اپنی افواج میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے اوباما نے نائن الیون کے حملوں کا ذکر کیا۔ افغانستان میں بش کی جنگ جاری رکھنے اور اسے بڑھاتے ہوئے اوباما بھی یو این چارٹر کی خلاف وزی کر رہا ہے۔ نوبل امن انعام وصول کرتے ہوئے اوباما نے اعلان کیا کہ اسے یک طرفہ طور پر جنگ کرنے کا حق حاصل ہے۔ [حالانکہ] یک طرفہ طور پر فوجی طاقت کا استعمال اپنے دفاع میں نہ ہو تو غیرقانونی ہے۔
  • جن لوگوں نے ۹ستمبر کو ہوائی جہاز اغوا کرنے اور ہزاروں آدمیوں کو مارنے کی سازش کی، انھوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کی شناخت ہونی چاہیے اور قانون کے مطابق انصاف ہونا چاہیے۔
  • لیکن افغانستان پر حملے کا جواز نہ تھا۔ اس سے امریکیوں اور افغانیوں کی ہلاکت میں اضافہ ہوا ہے،اور امریکا کے خلاف نفرت بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
  • قومی مباحثے میں یہ سیاسی تجزیہ غائب ہے کہ نائن الیون کا المیہ کیوں رونما ہوا؟ ہماری ضرورت ہے کہ یہ بحث ہو اور امریکی خارجہ پالیسی کو ازسرِنو تشکیل دینے کے لیے جامع حکمت عملی بنائی جائے تاکہ ہم امریکی استعمار سے نفرت کرنے والوں کے     غیظ و غضب سے محفوظ رہ سکیں۔ اس ملک میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو بغیر تنقید کے بیش تر لوگوں نے قبول کرلیا ہے۔ دہشت گردی دشمن نہیں، ایک تدبیر ہے۔ تدبیر کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی بنیادی وجوہات (بشمول غربت، تعلیم کی کمی اور بیرونی قبضہ) کو جانا جائے اور ان وجوہ کو دُور کرنے کو ہدف بنایا جائے۔
  • اوباما نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ وہ افغانستان میں ۳۰ہزار مزید امریکی فوج بھیجے گا، پاکستان کا براے نام تذکرہ کیا لیکن اس کی سی آئی اے نے پاکستان کے خلاف بش سے زیادہ ڈرون حملے کیے۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ ان حملوں میں ہزاروں شہری ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر پاکستانی اس کے مخالف ہیں۔ گیلپ کے گذشتہ جائزے میں ۶۷ فی صد مخالف تھے اور صرف ۹ فی صد حامی تھے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت نے طالبان یا پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے زیادہ امریکا کو پاکستان کے لیے خطرہ قرار دیا۔
  • پاکستان میں ڈرون کا استعمال یو این چارٹر اور جنیوا کنونشن دونوں کی خلاف ورزی ہے جن میں ارادے سے قتل کی ممانعت ہے۔ اس طرح کے ماوراے عدالت قتل کسی حکومت کے حکم پر یا اس کی مرضی سے کیے جاتے ہیں مگر ان کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا، حتیٰ کہ حالتِ جنگ میں بھی نہیں۔ یہ جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔

امریکی جارحیت اور عالمی ردعمل

اس جنگ کے نتیجے میں اگر ایک طرف بین الاقوامی اصولِ عدل وا نصاف،جنیوا کنونشن اور اخلاقی اقدار و ضوابط کا خون ہوا ہے، تو دوسری طرف ۳ہزار انسانوں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے افغانستان میں دسیوں ہزار اور عراق میں ۱۰ لاکھ افراد کو بے رحمی کے ساتھ ہلاک کیا جاچکاہے۔ لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں اور کم از کم دو ملک بالکل تباہ ہوگئے ہیں، جب کہ پوری دنیا میں   دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا ہے اور جو مصیبت ایک محدود علاقے میں محصور تھی، اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ صرف دہشت گردی نہیں بلکہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، وہ خود اصل مسئلہ ہے۔

امریکا کی اوہایو یونی ورسٹی کے علمِ سیاسیات کے پروفیسر جان موئیلر نے اپنی کتاب Overblown میں بڑے واضح الفاظ میں حکمت عملی کے اس تباہ کن رُخ کی نشان دہی کی ہے:

دہشت گردی یا اس کے خلاف ہمارا ردعمل___ زیادہ بڑا خطرہ کس میں ہے؟ ایک خطرہ جو حقیقی ہے لیکن اس کا دائرہ محدود ہے، اسے بڑے پیمانے پر بڑھاچڑھا کر پیش کر کے، بلاجواز پریشانی پیدا کردی گئی ہے۔ اس عمل سے غیرضروری اخراجات اور پالیسی میں ضرورت سے زیادہ ایسے ردعمل ہوئے ہیں جنھوں نے عام طور پر اس سے زیادہ نقصان اور اخراجات کروائے ہیں جو دہشت گرد پہنچا سکتے تھے۔

ایک دوسرے امریکی پروفیسر رابرٹ پاپ نے جو شکاگو یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں اور معروف کتاب Dying to Winکے مصنف ہیں، نیویارک ٹائمز (۱۵؍اکتوبر ۲۰۰۹ء) میں اپنے مضمون میں امریکا کی افغان پالیسی کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ چند پہلو قابلِ غور ہیں:

  • جنرل میک کرسٹل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی اور ناٹو کی فوجیں بذاتِ خود حالات کے بگاڑ کا ایک بڑا سبب ہیں۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ مغربی افواج کو   بیرونی قابض افواج سمجھا جاتا ہے۔ جنگی طاقت پر بہت زیادہ انحصار کی وجہ سے افغان عوام کی نظروں میں بین الاقوامی سلامتی کی فوج کے جواز کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ امریکا کے پسندیدہ حامد کرزئی کی قیادت میں کام کرنے والی مرکزی حکومت بہت زیادہ بدعنوان ہے اور اسے ناجائز سمجھا جاتا ہے۔
  • بدقسمتی سے یہ سیاسی حقائق گذشتہ برسوں کے میدانِ جنگ کے حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں اپنی چند سو افواج کے ساتھ امریکا نے طالبان کا تختہ اُلٹا اور القاعدہ کو افغانستان سے نکال باہر کیا۔ یہ امریکا کی فضائی طاقت اور شمالی اتحاد کی زمینی فوجوں کے اشتراک سے ہوا۔ پھر آیندہ برسوں میں امریکا اور ناٹو نے اپنی فوج کی تعداد ۲۰ہزار تک پہنچا دی، جب کہ ان کا اصل مشن صرف کابل کی حفاظت تھا۔ ۲۰۰۴ء تک افغانستان میں بہت کم دہشت گردی تھی اوربہت کم احساس تھا کہ حالات خراب ہو رہے ہیں۔

l ۲۰۰۵ء میں پورے افغانستان میں امریکا اور ناٹو نے اپنی افواج کو باقاعدہ بڑھایا۔ اس کے مقاصد اس وقت موجود معمولی سی بغاوت کو کچلنا، پوست کی فصلوں کو تباہ کرنا  اور مرکزی حکومت کے لیے مقامی حمایت بڑھانا تھا۔ یہ افواج جنوب اور مشرق کے پشتون علاقوں تک لگائی گئیں اور آج وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہیں۔

  • مغربی قبضے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دونوں شکلوں، خودکش حملے اور بم دھماکوں میں اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۱ء سے پہلے افغانستان میں خودکش حملے ریکارڈ پر نہیں ہیں۔ امریکا کی فتح کے فوراً بعد بہت کم ہوئے، ۲۰۰۲ء میں ایک بھی نہیں، ۲۰۰۳ء میں دو، ۲۰۰۴ء میں پانچ اور ۲۰۰۵ء میں نو۔  لیکن ۲۰۰۶ء سے خودکش حملوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۶ء میں ۹۷، ۲۰۰۷ء میں ۱۴۲، ۲۰۰۸ء میں ۱۴۸، اور ۲۰۰۹ء کے پہلے نصف میں ۶۰۔ ۸۰ فی صد سے زیادہ حملے امریکا اور اس کی اتحادی افواج پر ہوئے نہ کہ افغان شہریوں کے خلاف، اور کرنے والے ۹۵ فی صد افغان تھے۔
  • دہشت گرد حملوں کا انداز بیش تر ایک ہی ہے۔ سب سے خطرناک سڑک کے کنارے لگے بم ہوتے ہیں جو ریموٹ کنٹرول سے یا چھونے سے پھٹ جاتے ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں صرف ۷۸۲ حملے ہوئے تھے لیکن اس کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۶ء میں ۱۷۳۹، ۲۰۰۷ء میں ۲ہزار اور گذشتہ برس ۳ہزار ۲ سو۔ یہ حملے بھی زیادہ تر مغربی افواج کے خلاف ہوئے ہیں نہ کہ افغان اہداف پر۔
  • تصویر واضح ہے، افغانستان میں ہم نے جتنی زیادہ افواج بھیجی ہیں مقامی لوگوں نے اتنا ہی ملک کو بیرونی تسلط کے تحت تصور کیا ہے جس سے خودکش اوردوسرے دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جب کوئی بیرونی مسلح طاقت امن قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے، ہم یہی صورت دیکھتے ہیں مغربی کنارے سے کشمیر اور سری لنکا تک۔
  • جنرل میک کرسٹل افغانستان میں طرزِ عمل بدلنے کی توقع کرتے ہیں۔ ترجیح مزید فوجی بھیجنے کی نہیں بلکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بیرونی قابض افواج ہونے کا تاثر ختم کرنے کی ہے۔ افغانستان میں ہمارا مقصد مستقبل میں نائن الیون جیسے حملوں کو روکنا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ امریکا دشمن دہشت گردوں کی ایک نئی نسل کی پرورش کو روکا جائے۔ خاص طور پر خودکش دہشت گرد جو بڑی تعداد میں معصوم لوگوں کو ہلاک کرسکتے ہیں۔ خودکش دہشت گرد کو جو چیز تحریک دیتی ہے، وہ ان کے علاقے میں غیرملکی فوجوں کا وجود ہے۔

پروفیسر رابرٹ پاپ کا یہ تجزیہ کہ اصل مسئلہ غیرملکی افواج کی موجودگی اور قبضہ ہے جو دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں، پالیسی سازوں کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اس کی تجویز کردہ حکمت عملی سے اتفاق نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ افغانستان ہو یا عراق، فلسطین ہو یا کشمیر، جب تک بیرونی قوتیں ان ممالک پر قابض ہیں، مزاحمت اور ردعمل رونما ہوگا اور وہ خونی اور تباہ کن بھی ہوسکتا ہے، بلکہ ہوتا جا رہا ہے۔ مسئلے کا حل فوج کشی اور قوت کا بے محابا استعمال یا خانہ جنگی کو ہوا دینا نہیں۔ اگر افواج میں اضافہ ہوگا تو یہ چیز بذاتِ خود تصادم، خون خرابے اور ہلاکتوں میں اضافے کا باعث ہوگی، اصلاحِ احوال کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔

امریکا کی ناکام حکمت عملی

افغانستان کے زمینی حقائق کے معروضی مطالعے سے جو حقیقت سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا اور ناٹو کی فوجی حکمت عملی یکسر ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ ہے کہ افغانستان کی ۳۴ ولایات میں سے ۳۳ پر طالبان کا عملاً قبضہ ہے اور ان میں ان کے متبادل گورنر (shadow governor) تک موجود ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں امریکی، ناٹو اور خود افغان فوج کا وجود ہے مگر باقی تمام مضافات پر طالبان کی حکمرانی ہے اور شہروں میں بھی رات کو انھی کا حکم چلتا ہے۔ ناٹو کے کمانڈر، برطانیہ کے فوجی تجزیہ نگار، حتیٰ کہ خود امریکی فوجی قیادت اب کھل کر اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ افغانستان کی جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے    بی بی سی سے اپنے انٹرویو میں کھل کر اعتراف کیا ہے کہ یہ جنگ ہاری جاچکی ہے اور اخراج کی حکمت عملی ہی وقت کی ضرورت ہے۔ اب یہ بات امریکی کمانڈر اسٹنیلے میک کرسٹل بھی کہنے پر مجبور ہوا ہے اور ہالبروک، رابرٹ گیٹس اور ہیلری کلنٹن بھی اعتراف کر رہی ہیں کہ طالبان افغان حقیقت کا حصہ ہیں اور ان سے معاملہ کیے بغیر افغانستان سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود جو حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے وہ شیطنت کا ایک دوسرا مظہر ہے، یعنی ایک طرف فوج اور قوت کے استعمال کو بڑھا دیا جائے اور دوسری طرف تحریکِ مزاحمت کو تقسیم کرنے، طالبان میں پھوٹ ڈلوانے اور رشوت اور روزگار کا لالچ دے کر طالبان کے تمام سپاہیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی حکمت عملی اختیار کی جائے، اور افغان حکومت اور اس کا ساتھ دینے والوں کے ذریعے ملک کا نظم و نسق اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ حکمت عملی بدنیتی اور دھوکے پر مبنی ہے اور زمینی حقائق اور تاریخی تجربات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ حالات کو بگاڑنے کا نسخہ ہے، اصلاحِ احوال کی تدبیر نہیں۔

امریکا کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ حقائق کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں۔ اوباما کو اس طرح گھیر لیا گیا ہے کہ عملاً اس نے ’بش کی جنگ‘ کو اب ’اوباما کی جنگ‘ بنا لیا ہے۔ اوباما کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ اس نے حالات کا آزاد اور معروضی جائزہ نہیں لیا اور وہ بہت جلد امریکی نیوکونز اور بش انتظامیہ کے شاطر پالیسی سازوں کے نرغے میں آگیا ہے اور امریکا کا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اس پر حاوی ہوگیا ہے۔ اس کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی کے بااثر عناصر اس کی پالیسیوں سے پریشان ہیں کہ  ری پبلی کنز اور بش کے حواری پالیسیوں کا رُخ متعین کر رہے ہیں۔ امریکی محقق پیٹربیکر کا مضمون نیویارک ٹائمز کے بلاگ (blog)  پر Obama's War Over Terrorکے عنوان سے ۱۷جنوری ۲۰۱۰ء کو شائع ہوا ہے جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کس طرح پالیسی سازی پر بش کے دور کے لوگ چھا گئے ہیں۔ رابرٹ گیٹس جسے بش نے وزیردفاع بنایا تھا اور دو سال اس نے بش کی ٹیم میں کام کیا، اوباما کا وزیردفاع بھی وہی ہے۔ جان برینان جو بش کی ٹیم کا ایک اہم ستون تھا، اس کے بارے میں پیٹر بیکر کا یہ تبصرہ قابلِ غور ہے کہ صدر کے لیے اس کی راے اہم ترین ہوگئی ہے۔

چیف آف اسٹاف رہن ایمونیل صہیونی لابی کا ایک فرد ہے جو اسرائیل میں جنگی خدمات تک ادا کرچکا ہے۔ فوجی قیادت وہی ہے جو بش کے زمانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی تھیں، یعنی ایڈمرل مولن، جنرل اسٹینلے میک کرسٹل۔ بیکر نے تقریباً ایک درجن سول، خفیہ سروس اور فوج کے شعبوں کے متعلق کلیدی شخصیات کی نشان دہی کی ہے جو اوباما کی ٹیم کا حصہ اور پالیسی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ بش کے دور کے سی آئی اے کے ڈائرکٹر مائیل ہائیڈن کے الفاظ میں:

یہ بش انتظامیہ کا تسلسل ہے۔ میرے خیال میں اسے ’بش کی طرح‘ کہنا بھی درست نہیں، یہ بش ہی ہے۔ دونوں میں کوئی بامعنی فرق نظر نہیں آتا۔کافی محنت نظر آتی ہے کہ معاملات کو نئی طرح پیش کیا جائے مگر اس سے خاص فرق نہیں پڑتا۔

یہی وجہ ہے کہ اوباما کی صدارت سے پالیسی کی تبدیلی کے باب میں جو توقعات مختلف حلقوں نے وابستہ کر لی تھیں وہ بُری طرح مجروح ہوئی ہیں، اور امریکا اسی طرح دہشت گردی کی دلدل میں مزید پھنستا چلا جا رہا ہے جس طرح بش کے دور میں یہ سلسلہ شروع ہوا تھا۔

امریکی اور یورپی تجزیہ نگار تو یہ بات کہہ ہی رہے ہیں مگر خود افغانستان سے وہ خاتون  رکن پارلیمنٹ جسے ہیرو بناکر پیش کیا گیا تھا، یعنی مالائی جویا، اوباما کی یکم دسمبر کی تقریر سے صرف ایک دن پہلے اپنے ۳۰نومبر ۲۰۰۹ء کے ایک مضمون میں جو گارڈین لندن میں شائع ہوا ہے، کہتی ہیں:

کئی مہینوں کے انتظار کے بعد اوباما افغانستان کے لیے نئی حکمت عملی کا اعلان کرنے والے ہیں۔ تقریر کا طویل عرصے سے انتظار ہے لیکن کم ہی لوگوں کو کسی حیران کن بات کی توقع ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ وہ جنگ میں کسی بڑے اضافے کا اعلان کریں گے۔ یہ کرتے ہوئے وہ ’غلطی‘ سے بہت زیادہ کریں گے۔ یہ میرے ملک کے تکلیف اٹھانے والے عوام کے خلاف جنگ کے جرم کا تسلسل ہے۔ اس سال ہم نے افواج میں اضافے کا اثر دیکھا ہے، یعنی زیادہ تشدد اور زیادہ شہری ہلاکتیں۔ جنگ کے آٹھ سالوں کے بعد صورت حال عام افغانوں کے لیے خاص طور پر عورتوں کے لیے ہمیشہ کی طرح خراب ہے۔

محترمہ جویا امریکی عوام کے جذبات کے بارے میں یہ تک کہتی ہیں:

راے عامہ کے جائزے تصدیق کرتے ہیں کہ امریکی عوام جنگ میں اضافہ نہیں، امن چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اوباما سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ بش اور اس کی انتظامیہ کو جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹھیرائیں۔ خارجہ پالیسی کے دائرے میں امید اور تبدیلی کے بجاے اوباما پہلی پالیسی پر پہلے سے سے زیادہ عمل پیرا ہیں۔ (دی گارڈین، ۳۰ نومبر ۲۰۰۹ء)

ورلڈ سوشلسٹ موومنٹ (International Committee of the Fourth International) نے اپنی ویب پر ۴ جنوری ۲۰۱۰ء کو امریکا کی افغان جنگ کے خلاف ایک تفصیلی چارج شیٹ شائع کی ہے جس میں ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں اس جنگ کے نتیجے میں افغانستان اور خود پاکستان میں جو تباہ کاریاں اور ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں ان کو اعداد وشمار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،  اور یہ اعدادو شمار اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ فوجی کارروائیوں کے اضافے سے تشدد اور   دہشت گردی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، بلکہ اس میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے اور ۲۰۰۹ء افغانستان کی تازہ تاریخ کا سب سے خونیں اور بدترین سال رہا ہے۔ بالعموم ۲۰۰۹ء میں ۲۰۰۸ء کے مقابلے میں اس جنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں اور دوسری تباہ کاریوں میں ۵۰ سے ۸۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ہم اس رپورٹ سے کچھ اقتباس دیتے ہیں:

  • اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ سال کے پہلے ۱۰ مہینوں میں ۲۰۳۸ شہری ہلاک ہوئے جس میں صوبہ فرح میں مئی میں امریکی حملے میں ۱۵۰، اور ستمبر میں صوبہ کندز میں جرمن افواج کے کروائے ہوئے حملے میں ۱۴۲ افراد شامل ہیں۔ بعد کے دو مہینے میں بھی سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں جس میں صوبہ کندز کے دُوردراز علاقوں میں ناٹو افواج نے ۱۰ افراد قتل کیے، ان میں آٹھ اسکول کے طالب علم تھے۔
  • اوباما کے دور میں امریکی فوج نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے طالبان اور القاعدہ کے مشتبہ قائدین کو مارنے کے لیے غیرقانونی قتل و غارت کی مہم میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے۔ اس عمل میں متعدد مرد و خواتین، بچے، راہ گزر ہلاک ہوتے ہیں جنھیں ایک معمول کے ضمنی نقصان کے طور پر بیان کر دیا جاتا ہے۔
  •  پاکستانی حکومت پر شمال مغربی علاقے میں فوجی آپریشن تیز کرنے کا امریکی دبائو ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ اسلامی دہشت گرد حملوں اور ردعمل کی دوسری کارروائیوں میں ۵۰۰ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں۔ پاکستان میں امریکی پالیسی کی مخالفت بہت عام اور بہت زیادہ ہے۔ واشنگٹن سے طویل مدت سے تعلقات کے باوجود پاکستانی فوج کے بعض عناصر میں سخت ناراضی اور مخالفت کے  آثار پائے جاتے ہیں۔
  •  یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے اور نہ پاکستان یا افغانستان کو مدد دینے کے لیے ہے بلکہ یہ آس پاس کے توانائی سے بھرپور علاقوں پر امریکی بالادستی قائم کرنے کی کوشش ہے۔ امریکا کے حکمران طبقے کی طرف سے اوباما افغانستان کو ایک نوآبادیاتی امریکی علاقہ اور وسطی اور جنوبی ایشیا اور شرق اوسط میں مزید سازشوں کے لیے ایک مرکز بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہزاروں جانیں ضائع ہوتی رہیں گی۔

مذاکرات یا نیا جال

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکا کی افغان پالیسی ہر اعتبار سے ناکام رہی ہے اور افغانستان اور پاکستان خصوصیت سے اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ جس طرح اوباما بش کی پالیسیوں پر کارفرما ہے، اسی طرح پاکستان کی موجودہ قیادت (زرداری گیلانی حکومت) جنرل مشرف کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور ملک کو ہر روز نئی مصیبتوں اور ہلاکتوں میں جھونک رہی ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ نے اپنے مشترک اجلاس (اکتوبر ۲۰۰۸ء) میں ایک متفقہ قرارداد کے بعد خارجہ پالیسی کو آزاد بنیادوں پر ازسرِنو مرتب کرنے اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شرکت کی پالیسی کو تبدیل کرنے کی سفارش کی تھی۔ ڈرون حملوں کی مذمت ہی نہیں مزاحمت کا مطالبہ کیا تھا  اور فوجی حل کی جگہ سیاسی حل اور مذاکرات پر مبنی پالیسی کو ملک کے لیے تجویز کیا تھا، مگر حکومت نے ۱۵مہینے ضائع کردیے اور پالیسی اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور ملک تباہی کی دلدل میں مزید دھنستا چلا جارہا ہے۔

لندن کانفرنس میں جو حکمت عملی تجویز کی گئی ہے بظاہر اس میں طالبان سے مذاکرات کو اس کا مرکزی پیغام قرار دیا جا رہا ہے مگر یہ ایک دھوکا ہے۔ اس لیے کہ اس حکمت عملی کا اصل مقصد مذاکرات اور مفاہمت نہیں بلکہ طالبان میں پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو (divide and rule)کی سامراجی پالیسی پر عمل ہے۔ ایک طرف فوج کی تعداد کو بڑھایا جا رہا ہے اور دوسری طرف ۵۰۰ ملین ڈالر سے لے کر ڈیڑھ ارب ڈالر تک کے فنڈ کے قیام کی باتیں ہورہی ہیں، اور توقع کی جارہی ہے کہ ڈالروں کے ذریعے طالبان کے ایک بڑے حصے کی وفاداریاں خریدی جاسکیں گی۔ طالبان کی قیادت نے اس کا صاف الفاظ میں جواب دے دیا ہے کہ ہمارا ایمان اور ہماری وفاداریاں کوئی قابلِ خریدوفروخت شے نہیں۔ اگر ڈالر اور اقتدار ہماری منزل ہوتی تو بہت پہلے یہ کچھ حاصل کیا جاسکتا تھا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اصل ایشو امریکا اور ناٹو افوج کا قبضہ ہے اور جب تک افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا نہیں ہوتا اور اس کا واضح ٹائم ٹیبل طے نہیں ہوتا، کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ طالبان نے دوبڑے اہم بیانات دیے ہیں، ایک نومبر ۲۰۰۹ء میں عیدالاضحی کے موقع پر اور دوسرا لندن کانفرنس کے جواب میں۔ ان کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں کھلے الفاظ میں اور بین السطور طالبان کی تازہ سوچ کو اور آیندہ ان کی حکمت عملی کے رُخ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ تعجب ہے کہ طالبان کے ان بیانات کا پاکستان اور عالمی میڈیا نے قرار واقعی نوٹس  نہیں لیا اور ان میں نئی سوچ کے جوروشن اشارے ہیں ان سے صرفِ نظر کرلیاگیا ہے۔ صرف نیویارک ریویو آف بکس کے تازہ شمارے میں مُلا عبدالسلام ضعیف کی خودنوشت پر،جس کا ترجمہ حال ہی میں امریکا سے My Life with the Talibanکے نام سے شائع ہوا ہے، احمدرشید کے تبصرے میں نومبر۲۰۰۹ء والے بیان کا ذکر اس اعتراف کے ساتھ ہے کہ افغان طالبان اب ایک ایسی تحریک ہیں جس کا اثر ملک کے تمام علاقوں میں ہے اور صرف جنوبی افغانستان تک محدود نہیں۔

طالبان کے تصورِ حکمرانی کے بارے میں مضمون نگار کا یہ تبصرہ غوروفکر کا متقاضی ہے:

دریں اثنا طالبان نے لچک کا پہلا اشارہ دیا ہے جیساکہ نومبر ۲۰۰۹ء میں عید کے موقع پر ۱۰ صفحے کے بیان میں ظاہر ہوتا ہے۔ طالبان رہنما ملاعمر نے اپنے جنگجوئوں سے امریکا کے خلاف جہاد کی اپیل کے ساتھ یہ وعدہ کیا ہے کہ مستقبل کی طالبان حکومت امن قائم کرے گی، بیرونی افواج کی مداخلت ختم ہوگی اور پڑوسی ممالک کے لیے کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ اس میں یہ مضمر ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ القاعدہ واپس نہیں آئے گی۔ ملاعمر نے انتہاپسند سے زیادہ ایک مدبر کے طور پر کہا ہے کہ اسلامی امارت افغانستان تمام ملکوں کے ساتھ مل کر باہمی تعاون اور معاشی ترقی اور باہمی احترام کی بنیاد پر   اچھے مستقبل کے لیے تعمیری اقدام کرے گی۔

ایک ہفتے بعد اوباما کی تقریر کے ردعمل میں ایک بدلے ہوئے رویے کا اشارہ ملتا ہے۔ جہاد یا اسلامی قانون نافذ کرنے کا ذکر ہی نہ تھا۔ اس کے بجاے طالبان نے افغانستان کی آزادی کے لیے حب وطن اور قومیت کی بنیاد پر جدوجہد کی بات کی اور کہا کہ       اگر بیرونی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں تو وہ قانونی ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں۔ نئے سال کے پیغام میں طالبان نے امریکی فوج کے اضافے کی مذمت کی لیکن اوباما کے ساتھ یہ کہہ کر ہمدردی بھی کی کہ امریکی صدر کو اپنے ملک میں بہت سارے مسائل اور مخالفت کا سامنا ہے۔ (نیویارک ریویو آف بکس، جلد۵۷، نمبر۳، ۲۵، جنوری ۲۰۱۰ء)

سوچ کا یہی رُخ طالبان قیادت کے ۲۸ جنوری ۲۰۱۰ء کے بیان میں بھی واضح ہے جو لندن کانفرنس کے اعلامیے پر ان کا بروقت ردعمل ہے:

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امیرالمومنین ملاعمر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم اپنے ملک میں اسلامی قانون چاہتے ہیں۔ ہم پڑوسی ممالک اور دنیا کے ممالک کا نقصان نہیں چاہتے اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں نقصان پہنچائیں۔ ہم اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اسلامی امارت باہمی احترام کے ماحول میں پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے مثبت تعلقات چاہتی ہے، اور دو طرفہ تعاون، معاشی ترقی اور خوش حال مستقبل کے لیے دیرپا اقدامات کرنا چاہتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمارے ارادوں کے جواب میں ایسے ہی ارادے رکھیں۔ مزیدبرآں اسلامی امارت اسلامی بنیادوں اور عصرحاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنے عوام کی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کی پابند ہے۔ اسلامی امارت افغانستان کسی لسانی یا نسلی تعصب سے پاک خوش گوار ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے، تاکہ لوگ   اتحاد اور قوت کے جذبے سے مل کر کام کرسکیں۔ اس طرح وہ اسلامی حکومت کی حمایت کریں گے جو ہمارے شہدا کی تمنائوں کی عملی شکل ہوگی اور جان و مال، عزت و حیثیت اور قومی اور تاریخی اقدار کی محافظ ہوگی۔

یہ امر افسوس ناک ہے کہ امریکا کی قیادت میں حملہ آور مسئلے کے فوجی حل پر مصر ہیں۔ ہم وضاحت سے کہنا چاہتے ہیں کہ حملہ آور اپنے آپ کو مزید مالی اور جانی نقصان سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے عوام کو پُرفریب منصوبوں اور حکمت عملی سے دھوکا نہیں دینا چاہیے، ان پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے، اور ہمارے عوام کے لیے زیادہ تکلیف اور پریشانیوں کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ انھیں اسلامی امارت کا پیش کردہ حل قبول کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک سے حملہ آور فوجیں مکمل طور پر چلی جائیں۔ اس میں حملہ آوروں کے لیے نجات اور تحفظ ہے۔ اگر وہ واقعی مسئلے کے حل کے لیے اقدام کرنا چاہتے ہیں تو انھیں افغانستان، پاکستان، گوانتانامو اور دوسری جیلوں میں موجود لوگوں کو رہا کردینا چاہیے۔ تمام عالمی اصولوں کے خلاف انھیں اتنے برس جیل میں نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ انھیں اپنی بلیک لسٹ مکمل ختم کر دینا چاہیے تھی اور مزید فوج نہیں بھیجنا چاہیے تھی۔ جو وہ کہتے ہیں وہ کرنا چاہیے تھا۔

آخر میں ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ حملہ آوروں کی غارت گری اور سفاکیت کے خلاف ہمارے مسلمان اور غیور عوام کی مزاحمت اور جہاد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ دشمن مختلف ہتھکنڈوں سے ان کی قوت کو نہ کمزور کرسکا ہے اور نہ ختم کرسکا ہے۔ انھوں نے ماضی میں بھی کوشش کی ہے اور اب بھی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے بہادر مسلمان عوام اور ان کی قیادت اسلامی امارت کو الجھائیں۔ کبھی وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ جو مجاہدین جہاد کا راستہ ترک کرنے کے لیے تیار ہوں، وہ انھیں مال و دولت، روزگار اور ملک سے باہر ایک آرام دہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریںگے۔و ہ سمجھتے ہیں کہ مجاہدین نے رقم حاصل کرنے کے لیے، یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے ہتھیار اٹھائے ہیں یا انھیں مجبور کیا گیا ہے کہ ہتھیار اٹھائیں۔ یہ بے بنیاد اور مہمل بات ہے۔ اگر اسلامی امارت کے مجاہدین کا مقصد مادی مقاصد حاصل کرنا ہوتا تو وہ پہلے ہی حملہ آوروں کے غلبے کو تسلیم کرلیتے اور ان کی حمایت کرتے۔ ہر چیز ان کی پہنچ میں تھی، آرام دہ زندگی، مال و دولت اور اقتدار۔ لیکن اسلامی امارت، عقیدے، ضمیر اور اپنی سرزمین کا مادی مفادات کے لیے سودا نہیں کرے گی اور نہ ذاتی مراعات اور دھمکیوں کی بنیاد پر ان کو دبایا جاسکے گا۔ افغانستان کے غیور عوام کی تاریخ میں اس طرح کا گھنائونا کھیل کبھی کامیاب نہیں ہوا۔

مجوزہ افغان پالیسی: بنیادی خطوط

طالبان قیادت کے یہ بیانات غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں اور بحران سے نکلنے کے لیے ابتدائی خطوطِ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکا اور پاکستان دونوں کے لیے صحیح افغان پالیسی وہی ہوسکتی ہے جس میں مندرجہ ذیل امور کو مرکزی حیثیت حاصل ہو:

                ۱-            فوری جنگ بندی اور افغانستان سے تمام غیرملکی فوجیوں کا ایک طے شدہ نظامِ کار کے مطابق مکمل انخلا۔

                ۲-            افغانستان میں قومی مفاہمت کا آغاز جس میں ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی مذاکرات میں شرکت اور قومی جرگے کے ذریعے نئے نقشۂ کار پر اتفاق کا حصول۔

                ۳-            بیرونی افواج کے ساتھ دوسری بیرونی قوتوں کے بارے میں واضح پالیسی اور افہام و تفہیم کے ذریعے اور مہمان داری کی اسلامی اور افغان روایات کے مطابق، اور ان مقاصد اور حدود کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے جو حالات کا تقاضا ہے، مناسب کارروائی۔

                ۴-            افغانستان کے معاملات میں بھارت کے کردار پر نظرثانی اور امریکا اور بھارت کی ملی بھگت سے جو کھیل وہاں تعمیروترقی اور تربیت کے نام پر کھیلا جارہا ہے، اس کا مکمل سدّباب۔

                ۵-            قومی مفاہمت اور علاقائی امن کے حصول کے عمل میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا مشورہ اور شراکت، اور ایک دوسرے کے معاملات میں مکمل عدم مداخلت اور شفاف تعلقات کے نظامِ کار پر اتفاق، نیز باہم رضامندی سے تاریخی تعلقات اور روایات کی روشنی میں تعاون اور امداد باہمی کے نظام کا قیام۔

                ۶-            افغانستان کی معاشی، تعلیمی اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے فوری اور لمبے عرصے کی  منصوبہ بندی، وسائل کی فراہمی اور عملی نقشۂ کار اور تقسیمِ کار کا اہتمام۔

                ۷-            عالمی سامراجی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور عالمی سطح پر حقیقی دوستی اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے مناسب منصوبہ بندی اور نقشۂ کار۔

                ۸-            افغانستان نے گذشتہ ۳۰ سال میں اور خصوصیت سے گذشتہ ۱۰ سال میں جو نقصانات اُٹھائے ہیں ان کا سائنسی بنیادوں پر تخمینہ اور تعین اور ان کی تلافی اور آیندہ کی ترقی    کے لیے وسائل کی فراہمی کے لیے اُمت مسلمہ اور عالمی سطح پر قابلِ عمل منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے نظام کا قیام۔