امریکا اور مغرب یا ان کے چہیتے حکمرانوں کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کتنی حقیقی ہے اور کتنی خودساختہ، ان مفروضوں پر بحث سے قطع نظر ایک اور سخت اذیت ناک چیلنج درپیش ہے۔ اس چیلنج کو ’مغرب کی عریاں دہشت گردی‘ کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے!
ایک زمانہ تھا کہ مسلم خواتین مکمل حجاب کااہتمام کرتیں، اور اس مقصد کے لیے برقعہ پہنتیں۔ مگر آج کا ’مہذب مغرب‘ ان باحیا و پاک باز خواتین سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ برقعہ اتاریں، حجاب کو نوچ کر پرے پھینکیں، بلکہ ’دہشت گردی‘ کی نام نہاد جنگ میں مغرب کا خوف دُور کرنے کے لیے خود کو بے لباس کرکے تصویریں بنوائیں۔ جدید تعلیم اور ابلاغی یلغار کے زیراثر برقعہ و حجاب پر نرم رویہ اختیار کرنے کے لیے وہ بڑی حد تک تیار دکھائی دیتی ہیں، لیکن اس تیسرے حملے کو برداشت کرنے کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہیں ہوسکتیں، بلکہ اس کاتصور کرکے زندہ رہنے سے زیادہ وہ موت کے انتخاب کوترجیح دینے سے بھی گریز نہ کریں گی۔ یہ فیصلہ تو مسلم خواتین کا ہے___ مگر امریکا یہ کہتا ہے: ’’تم اپنی جگہ غیرت کو محفوظ رکھو، مگر ہم مشینوں کے ذریعے تمھیں بے لباس کرکے تصویریں بنائیں گے‘‘۔ صاحبو، آج امریکی فضائی اڈوں پر ایسی مشینوں (naked body scanners)کی تنصیب کر دی گئی ہے (اور تیزی سے اس تنصیباتی عمل کو وسعت دی جارہی ہے) تاکہ خوف زدہ مغربیوں کے ہاتھوں حیا کا پردہ تار تار ہوتا رہے، اور پھر دنیا کے مظلوم اور مسلم اُمہ کے مجبور عوام اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر برداشت کرلیں۔
اپنی سرزمین پر یہ بیہودہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ خودمسلم ممالک سے بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں سے امریکا جانے والے مسافروں کو ’مکمل جسمانی سکین‘ کر کے طیاروں میں بیٹھنے کی اجازت دیں۔ آخرکار منصوبہ یہ ہے کہ تمام ہوائی اڈوں پر فضائی مسافروں کی عریاں اسکیننگ کی مشینیں لگا دی جائیں۔ لوگ حیران و پریشان ہیں کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے؟
جواب میں امریکی حکام کہتے ہیں کہ: دسمبر ۲۰۰۹ء کے کرسمس کے موقع پر نائیجیریا کے ۲۳سالہ افریقی مسلمان عمرفاروق عبدالمطلب کو مبینہ طور پر آتش گیر پائوڈر کمر سے باندھے ہوئے ڈیٹرایٹ (مشی گن) کے ہوائی اڈے سے گرفتار کرنے کا واقعہ ہی اس جبر کا باعث بنا ہے۔ (یاد رہے یہ مسافر ایمسٹرڈم کے ہوائی اڈے سے طیارے (فلائٹ ۲۵۳) پر سوار ہوا تھا، اور سیکورٹی کی ذمہ داری اسی ہوائی اڈے کے حکام پر تھی)۔ جواب میں مسلم رہنما کہتے ہیں کہ یہ واقعہ محض ایک ڈراما تھا، جسے اسٹیج کر کے ایک بہانہ تراشا گیا تاکہ مذکورہ پروگرام کے نفاذ کا جواز پیدا کیاجاسکے اور اس شک کی بنیاد بڑی مضبوط ہے۔
مبینہ طور پر یہ واقعہ تو دسمبر ۲۰۰۹ء میں ہوتا ہے، مگر سی این این نے اب سے سات ماہ پیش تر ہی یہ خبر دے دی تھی کہ: ’’مسافروں کی عریاں تصویرکشی (naked pictures) کی جاری ہے‘‘ (۱۸ مئی ۲۰۰۹ء، cnn.com)۔ اسٹاف رپورٹر جرمی حسو نے اپنی خصوصی رپورٹ میں لکھا: ’’جسم کی مکمل تصویرکشی کی مشینوں سے، فرد کے کپڑوں کے نیچے سے ہر دھاتی اور غیردھاتی چیز دیکھی جاسکتی ہے بلکہ زیرجامہ نقوش تک نظر کے سامنے آجاتے ہیں اور یہ ۳ ڈی عکس بندی چند سیکنڈ میں کرلی جاتی ہے‘‘ (یکم اپریل ۲۰۰۹ء، livescience.com)۔ آگے چلیے، معروف صحافی جیفری لایب نے تو اس سے بھی ایک سال پہلے دی ڈینورپوسٹ میں بتایا تھا: ’’ڈینور بین الاقوامی ہوائی اڈے کے علاوہ امریکا کے دیگر پانچ ہوائی اڈوں پر مکمل جسمانی عریاں تصویر سازی کی مشینیں لگادی گئی ہیں‘‘۔(۲۹ مئی ۲۰۰۹ء، denverpost.com)
اسی طرح تھامس فرینک نے اب سے ڈیڑھ سال قبل ۶جون ۲۰۰۸ء کو امریکا کے مشہور جریدے یو ایس ٹوڈے میں رپورٹ دی تھی کہ: ’’انسانی بدن کو اسکین کرنے والی وہ مشینیں، جو لوگوں کے کپڑوں سے بھی نیچے کی تصویریں بنا سکتی ہیں، معروف ترین ہوائی اڈوں پر نصب کر دی گئی ہیں‘‘ (۶ جون ۲۰۰۸ء- USA Today)۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مغربی اور امریکی حکمرانوں کی بدنیتی اور قانون شکنی تو کب سے اپنا رنگ دکھا رہی تھی، مگر اس شیطانی سلسلے کو بڑے پیمانے پر روبہ عمل لانے کے لیے ’کرسمس ڈراما ۲۰۰۹ء‘ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے یہاں پر مسلم دنیا سے نہیں بلکہ خود امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ ہی سے چند تجزیاتی رپورٹوں کے اقتباسات اور بیانات پیش کیے جاتے ہیں:
پال ایڈورڈ پاکر کے مطابق: ’’یہ اسکینر مشینیں، کپڑے پہننے کے باوجود، مسافروں کی کپڑوں سے بے نیاز تصویر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں‘‘(۳۱دسمبر ۲۰۰۹ء، progo.com)۔ اس ضمن میں ٹیلی ویژن ایسی رپورٹیں پیش کر کے، کہ جن میں اسکینر سے گزرنے والے لوگوں کے چہروں اور تناسلی اعضا (genitals) کو دھندلا کردکھایا جا رہا ہے، عام ناظرین کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ پیچھے کمرے میں بیٹھ کر دیکھنے والے عملے کے لوگ، اس عکس کو ایک معمولی سے اُلٹ پلٹ (inversion) کے عمل سے بالکل اس طرح دیکھ سکتے ہیں، جیسے وہ بالکل عریاں کیفیت میں، اپنے حقیقی خدوخال اور رنگ و حالت میں ان کے سامنے ہوں۔ اور ان کی یہ تصویریں، اسی حالت میں ہوبہو ریکارڈ کا مستقل حصہ بھی بن جاتی ہیں‘‘۔ (۸ جنوری ۲۰۱۰ء، پال جوزف واٹسن، prisionplanet.com)
’’مکمل انسانی جسم کی اس خفیہ تصویرکشی کا ایک خوفناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہوائی اڈے سے سفر شروع کرنے یا سفر مکمل کر کے باہر نکلنے والا مسافر خطرناک ریڈیائی لہروں میں غسل کرکے نکلتا ہے۔ افسوس کہ اس انتہائی نقصان دہ عمل کے باوجود امریکی انتہاپسند (نیوکونز) اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ ایسی مشینیں بڑے پیمانے پر نصب کی جائیں‘‘۔ (۳۱ دسمبر ۲۰۰۹ء، infowars.com)
خود امریکا میں ’ٹکنالوجی اور آزادی‘کے عنوان سے شائع شدہ ایک فکرانگیز مضمون بتاتا ہے کہ:’’یہ ٹکنالوجی، انسان کی آزادی، خلوت اور پوشیدہ وجود پر براہِ راست حملہ ہے۔ جس کے ذریعے خواتین و حضرات کو ان کی مرضی کے بغیر اور ان کی سفری مجبوریوں سے ناجائز طور پر فائدہ اٹھاتے ہوئے، ان کی شرم گاہوں تک کی تصویرکشی کی جاتی ہے۔ عملی شکل یہ ہے کہ سفر کے دوران میں ایئرپورٹ کی چیک پوسٹ سے گزرتی سواری کو یہ مشینیں عریاں حالت میں چلتا دکھاتی ہیں۔ یہ انسانوں کی نجی زندگی اور وقار پر ایک بدترین جارحیت ہے۔ مانا کہ کچھ افراد دوسروں کے سامنے عریاں ہونے کو معیوب نہیں سمجھتے، مگر انسانوں کی عظیم ترین اکثریت، اس بے حیائی کو نفرت سے دیکھتی ہے۔ اس طرح یہ سارا قصہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ ایسے توہین آمیز عمل کو کوئی بھی مہذب انسان برداشت نہیں کرسکتا۔ یاد رہے کہ سفری حفاظت کے ادارے میں ۴۳ہزار افسران اور لاتعداد خفیہ ایجنٹ، صرف امریکا کے ۴۵۰ ہوائی اڈوں پر روزانہ ڈیوٹی دیتے ہیں، جب کہ امریکا ہوائی اڈوں پر روزانہ ۲۰ لاکھ مسافر، سفر کی غرض سے آتے ہیں‘‘۔ (۸جنوری ۲۰۱۰ء، aclu.org)
’’مانچسٹر ایئرپورٹ (برطانیہ) پر ایک سال سے تجرباتی طور پر عریاں تصویرکشی کرنے والی ان مشینوں پر یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ وہ بچوں کی ایسی تصویریں نہ بنائیں، کیونکہ اس طرح ’بچوں کی عریاں کشی کے قانون‘ کی خلاف ورزی ہوتی ہے‘‘ (mailonsunday.co.uk)۔ اسی خبر کو اخبار دی گارڈین، لندن (۴ جنوری ۲۰۱۰ء) نے زیادہ تفصیل سے پیش کیا۔
’’سفری حفاظت کی انتظامیہ (TSA) یہ بھی کہتی ہے کہ اس تصویری مواد میں دیگر جسمانی تفصیلات پر زور نہیں دیا جاتا، بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں کسی فرد نے جسم کے ساتھ اسلحہ تو نہیں باندھ رکھا، حالانکہ یہ بہانہ گمراہ کن ہے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ وہ یہ تصویریں سامنے سے اور عقب سے بناتے ہیں اور ان تصویروں کو جتنا چاہیں بڑا کر کے دیکھا جاسکتا ہے‘‘۔ (۸؍اپریل ۲۰۰۹ء، ولیم سیلٹن، slate.com)
جینی میسریو اور مائیک اہلرز کی رپورٹ کے مطابق: ’’سفری حفاظتی انتظامیہ (TSA) لوگوں کو جتنا چاہے دھوکا دے لے، لیکن امرواقعہ یہی ہے کہ انسانی شرف اور احترام کی تذلیل کا یہ پورا بندوبست ہے۔ خود ٹی ایس اے کی دستاویزات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان اسکینر مشینوں میں یہ بھرپور صلاحیت ہے کہ وہ مسافروں کی [عریاں] تصویریں بناکر محفوظ رکھیں اور دوسری جگہ منتقل کریں۔ ایسی تصویریں جو زیب تن کپڑوں کے نیچے کی عکس بندی کرلیتی ہیں۔ کمپیوٹر ہیکروں یا دوسرے کارکنوں کے ہاتھوں ان تصویروں کے غلط طور پر استعمال ہونے کا ہرآن خدشہ موجود رہے گا‘‘۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)
یہ امرواقعہ ہے کہ انتظامیہ اپنے شہریوں کے ساتھ دھوکا دہی کا ثبوت دیتے ہوئے دوسری بات کہہ رہی ہے، حالانکہ یہ بات ایک معلوم حقیقت کا درجہ رکھتی ہے کہ ’جسمانی جائزے‘ کے ان اسکینروں سے بنے ہوئے عکس آپ کی عریاں حالت میں تصویر بناکر، آپ کے تناسلی اعضا تک کی باریک سے باریک تفصیل کو ریکارڈ کرلیتے ہیں۔ (godlikeproductions.com)
’’ایسے بہت سے منصوبوں کے طرف دار یہودی تک اس صورتِ واقعہ پر تڑپ اُٹھے ہیں۔ مثلاً صہیونی اخبار دی یروشلم پوسٹ کے نمایندہ میتھیو ویگز نے رپورٹ کیا: ’’یہودی مذہبی رہنمائوں کے مطابق مکمل جسمانی اسکیننگ سے عورتوں کی حیا اور احترام پر بہت منفی اثر پڑے گا‘‘ (۷جنوری ۲۰۱۰ء، jpost.com)۔ اسی طرح جرمنی کی ’پائی ریٹ پارٹی‘ نے بھی عریاں اسکینروں کے خلاف مظاہرہ کیا‘‘۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، thelocal.de)
’’ہالینڈ میں سلامتی کے مشیر نے حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ جلد از جلد فنڈز جاری کرے تاکہ ’عریاں جسمانی‘ تصویرکشی کے ایسے سفری (موبائل) اسکینرز استعمال میں لائے جائیں کہ جن کے ذریعے بازاروں میں چلنے، فٹ بال کھیلنے اور اسٹیڈیم وغیرہ میں کھیلوں سے لطف اندوز ہونے والے تماشائیوں وغیرہ تک کو عریاں حالت میں دیکھا، پرکھا اور ریکارڈ کیا جاسکے۔ (۲۰جنوری ۲۰۱۰ء، dutchnews.nl)
ایک اسکینر جو ایک لاکھ ۳۰ ہزار ڈالر سے ایک لاکھ ۷۰ ہزار ڈالر کی قیمت رکھتا ہے، امریکا کے ۱۹ ہوائی اڈوں پر ۴۰ کی تعداد میں نصب اور زیراستعمال ہیں۔ ۱۵۰ مزید نصب کیے جارہے ہیں، جب کہ امریکا کے ۴۵۰ ہوائی اڈے ہیں (۳۱ دسمبر ۲۰۰۹ء، progo.com)۔ اسی طرح سی این این نے ان تفصیلات کی تائید کرنے کے ساتھ یہ خبر دی ہے: ’’۲۰۱۱ء تک پورے امریکا میں یہ مشین لگا دی جائیں گی۔ (۱۱ جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)
ایک جانب ’سفری حفاظت کی انتظامیہ‘ کے ترجمان کرسٹن لی نے یہ کہا ہے: ’’ہم یہ اقدامات سلامتی کی غرض سے کر رہے ہیں، ہمیں کسی مذہب یا قومیت سے کچھ نہیں لینا دینا‘‘ (۴جنوری ۲۰۱۰ء،cnn.com)۔ دوسری طرف دنیا کی معروف اخباری ایجنسی اے ایف پی کے مطابق: ’’جن ممالک کے باشندوں کو خاص طور پر ان مشینوں کے ذریعے دیکھا، پرکھا اور ریکارڈ کیا جارہا ہے، ان میں شامل ہیں: سعودی عرب، پاکستان، ایران، سوڈان، شام، افغانستان، الجزائر، عراق، لبنان، لیبیا، صومالیہ، یمن، نائیجیریا اور کیوبا‘‘ (france24.com)۔ امریکی ٹیلی ویژن سی این این نے ۴ جنوری ۲۰۱۰ء کو انھی ممالک کے نام ایک اعلیٰ امریکی افسر کے حوالے سے دہراے ہیں۔ [یاد رہے کہ ان میں۱۳ مسلم ممالک کی کل آبادی ۷۰ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے]
امریکی مسلمانوں کی تنظیم ’کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز‘ (CAIR) کے نیشنل ایگزیکٹو نہاد عواد (Nihad Awad) نے اس صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سی این این کو بتایا: ’’ان اسکینروں کی تنصیب کے تحت مسلم اکثریتی آبادی رکھنے والے ۱۳ممالک کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر ان میں سے بھی خصوصی ہدف وہ لوگ ہیں، جو اَب امریکی قومیت اختیار کرچکے ہیں، مگر ان کی پیدایشی اور نسلی شناخت ان ۱۳ ملکوں سے منسوب ہے۔ یوں نسلی اور اعتقادی سطح پر وہ بجاطور پر مسلم دنیا سے فطری اور روحانی وابستگی رکھتے ہیں۔ اس بندوبست کے بعد یہ امریکی مسلمان جب کبھی کبھار اپنے پیدایشی ملک میں عزیزوں سے ملنے جائیں گے تو ایسی تضحیک کا ہدف بنیں گے، اور وہ بھی خودبخود مذکورہ تذلیل کا نشانہ بنیں گے جو حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب کا سفر کرتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچیں گے‘‘ (۴جنوری ۲۰۱۰ء، cnn.com)
مغرب کے خوف زدہ حکمرانوں نے دنیا بھر میں ایک ہسٹیریائی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ اسی کیفیت میں وہ اپنے مذموم سیاسی و معاشی مفادات کا تحفظ کرتے اور اعلیٰ انسانی اور تہذیبی اقدار کو کچلے جارہے ہیں۔ اُوپر مذکورہ اسکیننگ مشینوں کے اس استعمال کا مطلب یہ ہے کہ:
۱- اہلِ مغرب کے خیال میں حیا اور انسانی حق خلوت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
۲- خاص علاقے اور نشان زدہ مذہب کے لوگ اہلِ مغرب کی نظر میں ملزم کا درجہ رکھتے ہیں۔
۳- مغربی حکمرانوں کو بلاروک ٹوک یہ حق حاصل ہے کہ وہ اقتدار اور قوت پر قابض ہونے کی بنیاد پر، جب، جس طرح اور جس پیمانے پر چاہیں___ انسانی جان، مال اور آبرو پر حملہ کرسکتے ہیں۔
۴- اپنے اقتدار کی بھیک مانگنے والے مسلم حکمران، مغرب کی ظالم حکومتوں کے اندھے، بہرے اور وحشی قوانین کے نفاذ ہی کو ’روشن خیالی‘ تصور کرتے ہیں۔
کیاانسانی تاریخ نے کبھی پہلے بھی یہ منظر دیکھا تھا؟ کیا جنگل میں درندوں نے بھی کبھی ایسے ظالمانہ اختیار کو استعمال کیا تھا؟ کیا اکیسویں صدی کا انسان اتنا بے بس، مجبور اور مقہور ہے کہ چند انسان، چند ادارے اور چند مشینیں انھیں مَسل کر رکھ دیں۔ اور اگروہ اُف بھی کریں تو انھیں وحشی، غیرمہذب، تہذیب دشمن، تنگ نظر اور دہشت گرد کہہ کر، ان کا منہ بند کردیں؟ کیا ایسے توہین آمیز اقدامات کے نتیجے میں دنیا کو امن کی فضا مل جائے گی؟ معمولی سی بھی عقل رکھنے والے انسان کا جواب ہوگا: ’نہیں‘___ یہ انسانی تاریخ کا سبق ہے کہ ذلت، جبر اور ظلم کرنے والے اگر ایک دروازہ بند کرتے ہیں توردعمل کے لیے مظلوم دس مزید دروازے کھول لیتے ہیں۔ اس لیے اگراصلاح اور انسانیت کی فلاح مطلوب ہے تو پھر قوموں کے حق حکمرانی کا احترام کیا جائے، ان پر جارحیت و استعماریت ختم کی جائے تو خود بخود ’خوف‘ کے یہ بادل چھٹ جائیں گے۔
اندریں حالات بے حیائی، تذلیل اور ظلم کے اس بندوبست کو مسلم دنیا کا شدید ترین احتجاج ہی روک سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ مسلم دنیا میں اس حوالے سے لاتعلقی،بے بسی، یا چشم پوشی کا رویہ ایک عذاب کی صورت مسلط ہے۔ ہاں، البتہ امریکا کے بالکل قریب ایک چھوٹے سے کمیونسٹ ملک کیوبا نے ۶جنوری ۲۰۱۰ء کو ضرور امریکا سے احتجاج کیا ہے، یا پھر ایک بے بس عراقی مسلمان خاتون نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ اس تقابلی صورت حال کا تقاضا ہے کہ مسلم دنیا میں مذکورہ مسئلے پر باخبر کرنے کی مہم چلائی جائے۔ احتجاج منظم کیا جائے اور علمی وفکری سطح پر شرفِ انسانیت کے بھولے سبق کو یاد دلایا جائے، کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، جانور نہیں!