شمال مغربی افریقہ میں واقع عرب ممالک تیونس، الجزائر، مراکش، موریتانیا، لیبیا کو ایک ہی معاشرتی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ اِن ممالک کی سرحدیں ان کا استحصال کرنے والی بڑی مغربی اقوام سے گھری ہوئی ہیں۔ یہ استعماری طاقتیں ماضی میں ایک سے زیادہ بار انھیں ہڑپ کرکے اپنے اپنے ملک میں شامل کرنے کی مذموم کوششیں کرچکی ہیں۔
اس خطے میں اسلامی تحریک گذشتہ صدی کی ۷۰ کی دہائی میں اس وقت برپا ہوئی جب اسے ’سیکولر‘ یا ’مغربی بنانے‘ ، اس کی تہذیب کو کھوکھلا کرنے اور اسے دنیاے قدیم میں محصور کر دینے کی کوششیں کافی حد تک کامیاب ہوچکی تھیں۔ ان ممالک کے مسلم معاشرے، بالخصوص اسکولوں، یونی ورسٹیوں، کلبوں، انتظامی اور مالی امور کے شعبوں پر فرانسیسی چھاپ واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مراکش اور تیونس دونوں ایک مدت سے فرانسیسی زبان اپنائے ہوئے ہیں۔ گذشتہ صدی کے ۶۰ اور ۷۰ کے عشرے میں یونی ورسٹیوں میں تدریس کی زبان فرانسیسی تھی۔ تاہم، طاقت ور اسلامی رجحان کی بدولت ۷۰ کے عشرے کے اختتام میں عربی کو تدریسی زبان بنوانے میں کامیابی نصیب ہوئی۔ تحریکِ اسلامی اللہ کے فضل و کرم سے ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں اسلام کو نوجوان نسل کے قلب و دماغ میں ازسرِنو راسخ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ نتیجتاً نوجوان نسل انتہائی تیزی اور قوت کے ساتھ سیاسی، سماجی اور ثقافتی میدانوں میں اسلام کی سربلندی کے لیے کوشاں ہوگئی۔
اسلامی تحریک کو مختلف سطحوں پر مسلسل ایسی سازشوں کا ہدف بنایا گیا جو اسے مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کافی تھیں لیکن اس کے باوجود ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی تحریکوں نے ان ممالک کے اسلامی تشخص کا معرکہ جیت لیا، حتیٰ کہ تیونس پر مسلط سنگ دل و بدمزاج سیکولر نظام___ جو دینی شعائر اور اسلامی تعلیمات کا سخت مخالف تھا___ بھی اس بات پر مجبور ہوچکا ہے کہ وہ مسلمانوں میں اسلامی شناخت رکھنے والے اطلاعاتی و نشریاتی چینلوں کو کھولنے کی اجازت دے، اور سیاسی اسلام کے حقیقی نمایندوں، مثلاً شیخ القرضاوی اور الشیخ سلمان العودۃ کو تیونس کے تبلیغی ودعوتی دورے کرنے میں مزاحم نہ ہو۔
لیبیا کے ماسوا عالمِ عرب کے اس پورے مغربی خطے کے ممالک میں عربیت اور فرانسیسیت کے حامیوں کے مابین ثقافتی معرکہ آرائی اب تک جاری ہے۔ کسی فریق کو اگر ایک قدم کامیابی نصیب ہوتی ہے تو دوسرے قدم پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آزادی کی نصف صدی کے بعد بھی فرانسیسی زبان انتظامیہ، مالی امور، یونی ورسٹی کی تعلیم، میٹرک کی سطح کی تعلیم، بلکہ پرائمری تعلیم تک چھائی ہوئی ہے۔ الجزائر میں تعریب (Arabization) کا جو پروگرام شروع ہوا تھا، ۱۹۹۲ء میں اسلامی محاذ (الجبھۃ الاسلامیۃ) کو کچلنے کے بعد اسے مکمل طور پر ترک کر دیا گیا ہے۔
تیونس اب تک یہ انتخابی نتائج تبدیل کر دینے اورعوام کی راے سلب کرلینے کے بداثرات سے چھٹکارا نہیںپا سکا۔ برسرِاقتدار ٹولہ ملک پر اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کے لیے ہر جتن کررہا ہے۔ وہ اب تک اسلامی تحریک کی اس پیش رفت کو ہضم نہیں کرپایا۔ اس کی ہرممکن کوشش ہے کہ قوم کے دل و دماغ سے تحریکِ نہضت کی قربانیوں اور انتخابی کامیابی کو نام نہاد ترقی کے نعروں کے ذریعے محو کردے۔ حکمرانوں نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو کچلنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کریں گے۔ حکمران ٹولے کی تمام پالیسیوں میں یہی سوچ اور یہی خوف غالب ہے۔ اس پالیسی کو اپنانے اور جاری رکھنے میں حکمران ٹولے کو بیرونی سانحات و واقعات سے بھی خوب تقویت ملی ہے۔چنانچہ الجزائر کے اسلامی محاذ کے خلاف حکومتِ الجزائر کے اقدام سے شہ پاکر تیونسی حکومت نے بھی اسلامی تحریک کو مزید کچلنا شروع کر دیا اور ۱۱ستمبر کے سانحے کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر شروع ہونے والی عالمی امریکی یلغار کو بھی اپنے انھی مذموم مقاصد کی خاطر استعمال کیا۔
اس ہدف کے حصول کے لیے حکمران ٹولہ ہر حربہ آزما چکا ہے، کئی صدر تبدیل کیے جاچکے ہیں، کئی بار انتخابات کا ڈھونگ بھی رچایا گیا ہے۔ انھوں نے تمام سیاسی حتیٰ کہ مسلح گروہوں سے بھی مصالحت کے متعدد دَور کیے ہیں، لیکن وہ کسی بھی صورت میں اسلامی محاذ اور اس کی اہم شخصیات کو میدانِ سیاست میں واپسی کا راستہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس صورت حال کو اسلامی فرنٹ کی قیادت کو ہمیشہ کے لیے سیاست بدر کرنا قرار دیا جاسکتا ہے، نیز اس سے ملک پر مسلط ایجنسیوں کی طاقت کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے، جو عوام کے حقیقی عوامی نمایندوں کو ہر حالت میں اقتدار سے دُور رکھنے پر مُصر ہیں۔
۹۰ کے عشرے سے لے کر اب تک الجزائر میں پانچ صدر برسرِاقتدار آچکے ہیں، بیسیوں وزرا آئے اور چلے گئے مگر ایک شخصیت ایسی ہے جو اب تک اپنے منصب پر قائم ہے اور وہ ہے عسکری انٹیلی جنس کے محکمے کا سربراہ۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ اقتدار کے سرچشمے کا اصل مالک کون ہے؟
سیاسی ڈرامے میں شریک سبھی لوگوں نے اسلامی فرنٹ سے عوام کی وابستگی کھرچنے کے لیے باہم تعاون کیا ہے، مگر اس سال کے آغاز میں فلسطین میں غزہ کے واقعات نے گھڑی کی سوئیوں کو واپس ۷۰ کی دہائی میں پہنچا دیا ہے۔ اسرائیلی مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے اسلامی فرنٹ کے اہم رہنما علی بلحاج اور ان کے ساتھیوں نے ۱۰ لاکھ افراد پر مشتمل جلوس کی قیادت کی، جس میں ۷۰کی دہائی میں لگنے والے نعرے پھر دہرائے گئے۔ قومیں زود فراموش نہیں ہوا کرتیں بالخصوص الجزائری قوم جیسی مضبوط اعصاب کی مالک قوم کا حافظہ کمزور نہیں ہوا کرتا۔ لیکن اس قوم کو سیاسی اور سماجی بحرانوں کا سامنا ہے۔ الجزائر کے موجودہ سیاسی نظام کا ڈھانچا اور مزاج بالکل اپنے برادر ملک تیونس جیسا ہے۔
مراکش میں اسلامی تحریک کی سیاسی جماعت العدالۃ والتنمیۃ (انصاف و ترقی پارٹی) کو ایک ایسی پوزیشن حاصل ہے جس نے اُسے حکومت مخالف پارٹیوں کی صف اوّل میں شامل کر دیا ہے۔ اس پارٹی نے یہ مقام ریڈیکل سے اعتدال پسند ہونے کا ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد حاصل کیا ہے۔
مراکش میں بھی سماجی اور معاشی مسائل دیگر مسلمان ممالک کی طرح سنگین ہیں۔ اقتدار اور سرمایے سے وابستہ حکمران طبقے اور عوام الناس کے مابین بہت زیادہ فرق ہے۔ا س وجہ سے فساد، غربت، بے روزگاری اور قومی غیظ و غضب میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مراکش کے حکمرانوں اور سیاسی عمل میں شریک پارٹیوں کے لیے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے۔یہی چیلنج ___ لیبیا کے استثنا کے ساتھ___ خطے کے باقی ممالک کے حکمرانوں کو بھی درپیش ہے۔ تغیر اور تبدیلی کی تحریکوں کے لیے یہی چیلنج ایندھن کا کام دیا کرتا ہے۔
تعلیمی و ثقافتی منظر پر سیکولر طاقتوں اور اسلام چاہنے والوں، فرانسیسی بولنے والے اور عربی بولنے والوں کے مابین ایک تصادم اور کش مکش برپا ہے، جس میں اسلام اور عربیت کا پلّہ بھاری ہے۔
دوسری صورتِ حال کا نمونہ تیونس ہے۔ تیونس پر اپنے بانی صدر بورقیبہ کی گہری چھاپ ہے۔ جس نے کچھ اپنی کوشش اور کچھ بیرونی استعماری طاقتوں کی مدد سے ’قومی تحریک‘ کی قیادت پر قبضہ کر لیا۔ صدر بورقیبہ کچھ زیادہ ہی مغرب زدہ تھے۔ اتاترک اس کی پسندیدہ شخصیت تھی۔ ان دونوں باتوں نے اس کی شخصیت و ذہنیت کو ایک خاص نہج پر ڈھال دیا۔
الجزائر، مراکش اور موریتانیا میں بھی کم و بیش تیونس جیسے گروہ کو اقتدار سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملا ہے، مگر یہ لوگ اقتدار کی بنا پر وہ کچھ نہیں کرسکے جو تیونس میں ہوا۔ ان تینوں ممالک میں حکمران ٹولے کو تیونس کی طرح کا مغرب زدہ معاشرہ ورثے میں نہیں ملا۔ تیونس میں حبیب بورقیبہ نے ملک کا سربراہ مقرر ہوتے ہی اسلام کے عقائد، شریعت اور شعائر پر حملوں کا آغاز کر دیا، جس کے نتیجے میں ملک میں ایک انتہاپسند سیکولر اور مخالفِ اسلام ٹولہ وجود میںآگیا۔ اس گروہ نے اسلام کو ختم کر دینے یا پھر اسے مغربی نمونے کے مطابق ڈھالنے کا مشن سنبھال لیا۔ اس طرح تیونس میں عوام الناس سے الگ اتھلگ ایک اعلیٰ طبقہ قائم ہوگیا جو عوام کو حقیروکمتر سمجھتا تھا۔ رنگ و نسل پر مبنی ایک سخت متعصبانہ نظام میں جو تعلق گوروں کا سیاہ فاموں سے ہوتا ہے وہی اس طبقے کا عوام سے تھا۔ عصرِحاضر کے مشہور مؤرخ پروفیسر محمدالطالبی نے اپنی کتاب الانسلاخیّوں میں اس طبقے کے حالات کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ تحریکِ اسلامی کے لیے اس قسم کے طبقۂ اشرافیہ کے ساتھ معاملہ کرنا بہت مشکل تھا۔
تیونس کے موجودہ صدر زین العابدین بن علی کے دورِ حکومت میں اس سیکولر انتہاپسندی میں کسی قدر کمی ہوئی ہے، کیونکہ عوام نے اس انتہاپسندی کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ بن علی کا تعلق بھی اِس مخصوص سیکولرلابی سے تھا، اقتدار پر ذاتی تسلط رکھنے کی اس کی حرص، نیز سیکورٹی کے بارے میں اس کے مخصوص مزاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اقتدار پر اپنے شخصی تسلّط کے لیے تحریکِ اسلامی کو سب سے بڑا خطرہ سمجھا اور اسے کچلنے کا تہیہ کرلیا۔ ۱۹۸۹ء کے انتخابات میں تحریکِ نہضت کی کامیابی نے اس کے ارادوں کو مزید پختہ کیا۔ یہ نتائج خود تحریک کے لیے بھی حیران کن تھے، چنانچہ صدر بن علی نے نہضت کو مکمل طور پر میدان سے باہر دھکیلنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے تمام سیاسی اور نظریاتی مخالفین سے بھی مدد لی۔ ان سب لوگوں نے اسلام عربیت اور اسلامی ثقافت پر یلغار کی خاطر صدر بن علی کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ تاہم ، گذشتہ برسوں میں سیکولر اتحاد میںقدرے کمی آئی ہے، اسلامی تحریک کو کچلنے کے جامع سیاسی منصوبے پر اب بھی اسی طرح عمل کیا جا رہا ہے۔ جیلوں سے نہضت کے تقریباً ۳۰ ہزار قیدی رہا ہوچکے ہیں۔ اب صرف اسلامی تحریک کے سابق سربراہ ڈاکٹر صادق شورو اور ان کا بھائی جیل میں رہ گئے ہیں۔ جیلوں سے رہا ہونے والے یہ ہزاروں شیدائیانِ اسلام اپنے دین پر استقامت سے قائم رہے ہیں۔ انھوں نے اذیت رسانی کا ہر مرحلہ بڑی پامردی سے طے کیا ہے۔ ان میں سے کئی ایک نے شہادت کے منصب پر فائز ہوکر یا بتدریج موت کے منہ میں جاکر اپنے پیچھے عظیم یادیں چھوڑی ہیں۔ ہزاروں نوجوان تنگ و تاریک جیلوں سے باہر آکر اب ملک کی کھلی اور متحرک جیل میں آچکے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں ہیں، ملک سے باہر جاسکتے ہیں، نہ ملک کے اندر سفروحرکت میں آزاد ہیں۔ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند ہیں۔ علاج معالجے کے حق سے بھی محروم ہیں۔ سیاسی اور سماجی تنہائی کا شکار ہیں۔ گویا وہ غزہ میں محصور ہیں۔ ان کی اس حالت کو بجا طور پر قسط وار موت کہا جاسکتا ہے۔
یہ نہ سمجھا جائے کہ ملک کی جیلیں اب خالی پڑی ہیں۔ بدقسمتی سے ان جیلوں کو ملک کی آزادی کے بعد کبھی ایک لمحے کے لیے بھی خالی نہیں رکھا گیا۔ ایک گروپ رہا ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ پہلے بائیں بازو والوں کی جگہ اسلام پسند بند رہے۔ آج کل نہضت کے کارکنوں کی جگہ الصحوۃ ’بیداری‘ کے نوجوانوں کا اسلامی گروپ بند ہے۔
تیونس کے ماضی قریب کے حالات کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اسلام کے سرچشموں کو خشک کرنے کا سرکاری منصوبہ بیداری کی نئی لہر کے سامنے بالکل ناکام ہوگیا ہے، اسی طرح برسرِاقتدار طبقے کا تحریکِ نہضت کو کچلنے اوراسے الگ تھلگ کرنے کے منصوبے کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ چنانچہ نہضت حزبِ مخالف کی مختلف الجہات جمہوری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے دوبارہ میدانِ سیاست میں آچکی ہے۔ نہضت نے اپنی کارکردگی پر نظرثانی کی ہے اور حالات و مواقع کا اندازہ لگانے میں اس سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں ان کا برملا اعتراف کیا ہے۔
بیداری کی اس تازہ لہر کی وجہ سے حکومت نے بھی، اسلام کے سرچشموں کو خشک کرنے کے اپنے منصوبے سے پسپائی اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ چنانچہ حکومت نے ریڈیو الزیتونۃ کو قرآن کریم کی تلاوت و تشریح اور دینی مواعظ کی اجازت دے دی ہے۔ اس ریڈیو اسٹیشن نے بہت تھوڑی مدت میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ مخالفوں کو کچلنے کی سیاست سے یہ تدریجی پسپائی کمیونسٹوں اور بورقیبوںکے لیے باعثِ تشویش ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طور آمریت کے سہارے پھر سے تحریک نہضت کو اپنا سیاسی ہدف بنائیں۔
فی الوقت کوئی ایسی علامات سامنے نہیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہو کہ برسرِاقتدار طبقہ تحریکِ نہضت ___ یا کسی بھی سخت جان حزبِ مخالف کو مٹانے کے اپنے پروگرام سے دست بردار ہوجائے گا۔ تیونس کے ماضی کے ورثے میں استبداد اور شخصی حکمرانی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ یہ خیال کہ تیونسی حکمران اپنی روش بدل لیں گے محض ایک دل فریب آرزو ہے، تاہم پیش رفت ضرور ہے جو خوش آیند بات ہے۔
جب حقوقِ انسانی کے تحفظ کی خاطر تیونسین لیگ کے نام سے ایک اتحاد وجود میں آیا تو مارکسی طاقتوں نے اس تنظیم سے حامیانِ اسلام کو دُور کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، مگر اب حقوقِ انسانی کی ان تنظیموں کی کامیابی سب کو دکھائی دے رہی ہے جو اسلام پسندوں کے قریب تر ہیں۔ پہلے یہ تنظیمیں بائیں بازو کے کسی شخص کا پاسپورٹ ضبط کروانے کی تو مذمت کرتی تھیں مگر اسے ان ہزاروں سیاسی قیدیوں کے بارے میں لب کشائی کی جرأت نہیں ہوتی تھی جن کی کھالیںادھیڑی جارہی تھیں۔ وہ ان مظلوموں کے بارے میں چپ سادھے رکھتی تھیں، جو صرف حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کے باعث جیلوں میں ٹھونس دیے گئے تھے۔ یہ تنظیمیں حقوقِ انسانی کے یورپی اداروں کے توسط سے تیونس کے حکمرانوں کے لیے حسنِ کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں لگی رہتی تھیں۔ آج حقوقِ انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی اکثریت اسلام پسندوں کے قریب ہے۔
غرضیکہ تحریکِ اسلامی نے اسلام کی طرف سفر کا ایک مرحلہ بحسن و خوبی طے کر لیا ہے۔ مسلمان معاشرے تمام تر سختیوں، رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود اسلام ہی سے اظہار محبت کرتے ہیں۔ اپنے درخشندہ مستقبل کے لیے ان کی واحد اُمید اسلام ہی ہے۔
تحریک اسلامی کا ایک اور شان دار کارنامہ نوجوان نسل کو منشیات، جرائم اور بے کاری کے مشاغل سے بچانا ہے۔ وہ احیاے اسلام کی مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہے، نیز اپنے اپنے ملکوں کی خودمختاری، تحفظ اور استحکام کے لیے بھی کوشاں ہے۔ اُسے عالمِ اسلام کے مسائل، جیسے فلسطین، عراق اور افغانستان سے بھی گہری دل چسپی ہے۔
تحریکِ اسلامی کو جب بھی آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ غریبوں، یتیموں،بے سہارا افراد کی نگہداشت اور مستحق جوڑوں کی شادی کرانے جیسے سماجی کاموں میں بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ تحریکِ اسلامی بالعموم حزبِ اختلاف میں رہی ہے___ خواہ اسے حزبِ مخالف تسلیم کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ اس کے ساتھ ان کی حکومتوں کا رویہ یا تو احتیاط کا ہے، یا پھر سرکاری مشینری کھلم کھلا اس کے خلاف کام کر رہی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پورے خطے میں طاقت ور ترین حزبِ اختلاف تحریکِ اسلامی ہی ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان ممالک میں تحریکِ اسلامی نے راے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا معرکہ سر کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر غیرجانب دارانہ شفاف انتخابات میں اس کا پلڑا بھاری رہتا ہے، خواہ یہ ملک کے عام سیاسی انتخابات ہوں یا طلبہ یا کسی مزدور یونین وغیرہ کے۔ لہٰذا اب ان تحریکوں کا حکومت کے ایوانوں تک پہنچنا محض وقت کا مسئلہ رہ گیا ہے۔
تفصیلی تجزیے کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ موجودہ حالات میں کسی بھی ملک میں تحریکِ اسلامی کا تنہا اقتدار سنبھالنا نہ صرف اس کے لیے، بلکہ متعلقہ ملک کے مفاد میں بھی نہیں، خواہ ووٹوں کی اکثریت کی بنا پر تنہا حکومت کرنا اس کا حق ہی کیوں نہ ہو۔ تحریکِ اسلامی کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ مختلف معاہدوں کے ذریعے اقتدار میں شریک ہوکر معاشرے میں بنیادی تبدیلی لائے اور دیگر حکومتی امور سرانجام دے۔ بتدریج تبدیلی ہی زیادہ مؤثر اور دیرپا انقلاب کا باعث ہوتی ہے۔ بتدریج عمل کائناتی اور عمرانی حقیقت ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
مَا لَکُمْ لاَ تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا o وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا o (نوح ۷۱:۱۳-۱۴) تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے، حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمھیں بنایا ہے۔
(یعنی وہ تمھیں تخلیق کے مختلف مدارج اور اطوار سے گزارتا ہوا موجودہ حالت پر لایا ہے۔)
(بہ شکریہ الجزیرہ نیٹ، ۷؍اپریل ۲۰۰۹ئ)
(راشد الغنوشی تحریک نہضت اسلامی تیونس کے سربراہ اور معروف دانش ور ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں ملک بدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔)