امام حسن البناؒ کو’ قرآنی شخصیت ‘کے لقب سے نوازا گیا ہے۔انھوں نے نہ صرف اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے مثالی مردانِ کار تیار کیے بلکہ تفسیر ،حدیث ،فقہ ، سیرت اور بہت سے دیگر موضوعات پر قلم اٹھایا اور ایک قابلِ قدر علمی ذخیرہ چھوڑا۔
امام حسن البنا شہید ؒاگرچہ پورے قرآن مجید کی تفسیر تو نہ لکھ پائے ، لیکن تقریباً ۱۵برس تک مختلف جرائد میں قرآنی آیات کی تفسیر و توضیح کرتے رہے۔ یہ تفسیری لوازمہ تین ضخیم کتابوں کی صورت میں مرتب ہو کر شائع ہوچکا ہے۔ ان میں سے ۴۶۶ صفحات پر مشتمل ایک مجموعہ مقاصد القرآن الکریم ان کے بیٹے احمد سیف الاسلام البنا کا مرتب کردہ ہے، جب کہ باقی دو مجموعے التفسیر اور خواطر من وحی القرآن استاذ جمعہ امین نے مرتب کیے ہیں۔
اس امر کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ امام حسن البناؒکی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے تحریکی ساتھیوں کی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ کے عمومی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن مجید کی ایک عام فہم تفسیر لکھیں۔
اخوانی مجلہ الشھاب کے پہلے شمارے میں انھوں نے اپنی تفسیری کاوشوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا: ’’قرآن مجید اسلام کا اولین اور اہم ترین ماخذہے۔ اس ناتے سے اس مجلے کے صفحات کا تفسیر قرآن اور علوم قرآن سے آراستہ ہونا ایک لازمی امر ہے۔ میں ایک طویل عرصے تک سوچتا رہا کہ تفسیر قرآن کے وسیع میدان میں کس دروازے سے داخل ہوا جائے؟ آخر کار یہ طے کیاکہ سید رشید رضامرحوم کی تفسیرالمنار کی تکمیل کی جائے۔ چنانچہ ۱۸مئی ۱۹۳۹ء سے، جب علامہ رشید رضا کا مجلہ المنار اخوان کے سپرد کیاگیا ،میں نے سورۂ رعد کی تفسیر لکھنے سے اس سمت قلم اٹھایا۔ لیکن اخوان کے زیر انتظام اس وقیع علمی و دینی مجلے کے صرف چھے شمارے شائع ہوپائے تھے کہ حکومت نے اس کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔ یوں تفسیر کا یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اس موقع پر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ تفسیر المنار کی تکمیل بہت وقت چاہتی ہے، اس لیے اس کی تکمیل ان علماے کرام پر چھوڑ دینی چاہیے‘ جن کے پاس نسبتاً زیادہ وقت ہے اور جو اس کام کی تکمیل کے لیے مناسب قدرت و اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ اب میں نے اپنے ذاتی اسلوب میں قرآنی آیات کی تشریح وتوضیح کاآغاز کیا ہے۔ میرا عزم ہے کہ سورئہ فاتحہ سے شروع کرکے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ فہم کے مطابق ، درجہ بدرجہ آخر تک مکمل قرآن مجید کی تفسیر لکھوں۔ ارادہ ہے اس تفسیر میں قرآن کے عمومی مقاصد کو مسلسل پیش نظر رکھا جائے۔ ترتیب آیات کی حکمت ، موضوع کی وحدت اور عمومی فوائد ساتھ ساتھ واضح کیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل حال رہی تو اس تفسیری مجموعے کا عنوان مقاصد القرآن الکریم ہوگا‘‘۔
ہفت روزہ الاخوان المسلمین کے پہلے شمارے، ۱۵جون ۱۹۳۳ء سے انھوں نے اس تفسیر کے لکھنے کا باقاعدہ آغاز کیا اور یہ بابرکت سلسلہ ۱۲مارچ ۱۹۴۸ء تک برابر جاری رہا۔ مجلہ الاخوان المسلمین کے علاوہ دیگر مجلات النضال، النذیر اور الشھاب میں بھی یہ تفسیری دروس شائع ہوتے رہے۔
مفسرین قرآن کے ہاں ہمیں مختلف مکاتب فکرملتے ہیں۔ بعض مفسرین نے صرف احکام القرآن کو بنیاد بنایا ہے۔ بعض نے لغوی ، صرفی اور نحوی مباحث کو ترجیح دی ہے۔ بعض تفاسیر کلامی انداز کی ہیں اور بعض متصوفانہ رنگ میں لکھی گئی ہیں۔ بعض تفاسیر قرآن کے علمی اعجاز کو واضح کرتی ہیں اور بعض قرآن کی ادبی شان کو اُجاگر کرتی ہیں۔ ہر مفسر کا اپنا رنگ ہے اور ہر تفسیر کا اپنا دائرہ۔ ان سب کے پہلو بہ پہلو ایسے مفسرین بھی نظر آتے ہیں ، جنھوں نے قرآن مجید کو ایک زندہ، تحریکی اور انقلابی کتاب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ قرآن کو رہنماے زندگی کے طور پر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس کی تعلیمات ایک جیتے جاگتے معاشرے کی عملی تصویر پیش کر دیتی ہیں۔ امام حسن البناؒ بھی انھی مفسرین کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ خود ان کے اپنے الفاظ میں: میری نظر میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تفسیر کا مقصد یہ ہے کہ آیات قرآنی کے مطالب کو اس انداز سے واضح کیا جائے کہ قاری کو آیت کا درست مفہوم اور صحیح مراد سمجھ میںآجائے ،اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کا درست طور پر ایسا اثر قبول کرے کہ جس کے نتیجے میں اس کی زندگی بدل جائے۔ مزید یہ کہ اس آیت میں جو احکام بیان ہوئے ہیں، یا اس میں جو عبرت اور نصیحت کے پہلو ہیں ، ان سے خوب واقف ہوجائے۔ (ہفت روزہ الاخوان المسلمین‘۱۵جون ۱۹۳۳ئ)
الاخوان المسلمین کے پہلے شمارے میں انھوں نے درج ذیل ۱۰ بنیادی اصولوں کا ذکر کیا جو ان کے مطابق تفسیر کرتے ہوئے ان کے پیش نظر رہیں گے۔ ان کے نزدیک ان اصولوں پر عمل،مختصر وقت اورکم محنت سے تفسیرقرآن کے حقیقی مقصد کے حصول میں معاون ہوگا:
۱- مفردات قرآنی ( الفاظ و کلمات ) کی مختصر لغوی توضیح اور تراکیب (نحوی )کا اجمالی بیان۔
۲- مطالب کی وضاحت کے لیے آسان اور سلیس زبان کا استعمال، اور معانی و مطالب کے بیان میں توازن و اعتدال۔
۳- (قرآن مجید میں مذکور ) واقعات اور قصص سے متعلقہ لوازمے کی مناسب چھان بین، یعنی صرف انھی تفصیلات کا ذکر جن کا آیاتِ قرآنی سے کوئی نہ کوئی تعلق ہو اور جس کی تائید میں دلیل اور ثبوت موجود ہو۔
۴- قرآن مجید کے معانی کو انسان کی روز مرہ زندگی کے مختلف علمی، اجتماعی اور اخلاقی پہلوئوں سے جوڑنا۔
۵- اسباب نزول کا ذکر اور آیات کے ساتھ ان کا ربط واضح کرنا۔
۶- زیر تفسیر آیت سے متعلقہ احادیث کا ذکر جن سے ان کی صحیح مراد اور مفہوم واضح ہوتا ہو۔
۷- زیر تفسیرآیت قرآنی سے عبرت اور نصیحت کے پہلو اور فقہی احکام کا استنباط۔
۸- اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا ، تاویلات، بے جا بحث اور کٹ حجتی سے مکمل احتراز کرنا اور مختلف آرا میں سے کسی ایک راے کے حق میں بے جا تعصب کا مظاہرہ نہ کرنا۔
۹-تفسیر کے اختتام پر بعض لغوی اور اصولی مباحث کا اضافہ کرنا ، تاکہ اس میں مزید بحث کے متمنی افراد کو تحقیقی موادمل سکے۔
۱۰- بعض مفسرین جن مغالطوں کا شکار ہوئے ہیں، ان سے خبر دار کرنا اور مختلف شبہات کا ازالہ کرنا تاکہ مخصوص اغراض رکھنے والے انھیں کسی آیت قرآنی پر اعتراض کا ذریعہ نہ بنالیں۔
امام حسن البناؒ ایک بلند پایہ عارف ربانی اورصاحب ِنظر محقق تھے۔ آپ قرآن کو سمجھنے کے طریقے کی نشان دہی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ایک دفعہ مجھ سے میرے ایک ساتھی نے دریافت کیا کہ قرآن کریم کی سب سے اچھی اور بہترین تفسیر کون سی ہے،اور قرآن فہمی کا آسان ترین طریقہ کیا ہے ؟ مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس سوال کا جواب ایک لفظ میں سمجھا دیا اور میںنے کہا: قلبک، یعنی قرآن پاک کی بہترین تفسیر اور قرآن کریم سمجھنے کا بہترین طریقہ ’آپ کا دل‘ ہے۔
بلاشبہہ مومن کا دل ہی اللہ تعالیٰ کی کتاب کی عمدہ ترین تفسیر اور اس کو سمجھنے کا کامیاب ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ جب ایک بندہ مومن تدبر و انہماک اور نہایت عاجزی اور خشوع کے ساتھ اپنے دل کی پراگندگی کو دور کرتے ہوئے انتہائی یکسوئی کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے رشد و ہدایت کی درخواست کرتے ہوئے دست بہ دُعا ہوتا ہے، اورساتھ ہی ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کو پیش نظر رکھتے ہوئے شانِ نزول کو اس کے ساتھ جوڑ دیتا ہے تو لامحالہ اس وقت وہ قرآن کریم کے حقیقی فہم کو پالیتا ہے۔ اس کے بعد اگروہ تفسیر کی کسی خاص کتاب کا مطالعہ کرتا بھی ہے تو وہ صرف اور صرف اس لیے ہوتا ہے کہ کسی مشکل لفظ کے معنی یا کسی مبہم ترکیب کو سمجھے یا پھر قرآن کے فہم اور اس کے معانی کے ادراک کے لیے اپنی علمی صلاحیت وثقاہت کو بڑھائے۔ گویا کہ قرآن فہمی کے مذکورہ طریقے کو اختیار کرنے کے بعد کتب ِتفسیر کا مطالعہ فہم قرآن میں ممدو معاون کے طور پر ہوتا ہے۔ ایسی قرآن فہمی پھر اس شخص کے لیے اس نور کی مانند بن جاتی ہے جو کہ ہمیشہ اس کے دل کی دنیا کو منور کیے رکھتا ہے، اور اس کی کرنوں کی بدولت اس کو دنیا اور آخرت دونوں میں روشنی نصیب ہوجاتی ہے۔
حسن البناؒ اکثر محمد عبدہٗ کی اس وصیت کا حوالہ دیا کرتے تھے جس میں انھوں نے کہا تھا: ’’قرآن پاک کی تلاوت مسلسل اور مداومت کے ساتھ کیا کرو۔ اس کے اوامر اور نواہی کو اسی طرح سمجھنے کی کوشش کرو، اوراس مبارک کتاب سے نصائح اوردروس اسی طریق پر تلاش کرو جس طرح کہ نزول وحی کے ایام میں صحابہ کرامؓ سمجھا کرتے تھے۔ کسی مشکل لفظ کو سمجھنے یا کسی مبہم ترکیب کے حل کے علاوہ تفسیر کی متعدد وجوہ کے پیچھے نہ پڑو، بلکہ اس کے بنیادی و حقیقی معنی اور مراد کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلو، جس کی طرف قرآن تمھیں دعوت دیتا ہے اور اُسی راے کی اتباع کرو جس کا تم سے قرآن مجید مطالبہ کرتا ہے‘‘۔
امام البنا ؒنے اپنے اس طرز تفسیر او راسلوب قرآن فہمی میں دسیوں بار علماے کرام اور مفسرین عظام کی عظمت اور ان کی علمی کاوشوں کا اعتراف کیا ہے۔ ان کے اس اسلوب تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان تب ہی قرآن میں سے قیمتی جواہرات کو حاصل کرسکے گا جب وہ مختلف تفسیری بحثوں میں الجھنے کے بجاے، ان قیل و قال کو چھوڑ کر آزاد اور صاف ستھرے ذہن کے ساتھ قرآنی علوم و معارف کے بحر زخار میں غوطہ زن ہوجائے۔ اگر ہم اس اسلوب تفسیر اور قرآن فہمی کے وہ ۱۰اصول مدنظر رکھیںجنھیں امام حسن البناؒ نے پیش کیا ہے اور پھران کے تفسیری دروس کا مطالعہ کریں تو ان کی تفسیری کاوشوں کو ان کا عملی نمونہ پائیں گے۔
آسان اور سلیس عبارت کا استعمال ، واقعات اور قصص کے حوالے سے تحقیقی انداز بیان، مفردات قرآن کی لغوی تحقیق ، عملی زندگی سے معانی قرآن کا ربط و تعلق،آیات کے متعلق احادیث نبویؐکا بیان ، آیات کریمہ سے دروس و نصیحت کا استنباط، فقہی اور فروعی مسائل میں متوازن اور معتدل منہج، اغلاط اور شبہات پر تنبیہ اور ان کا مدلل جواب، اور تحریر میں وہ ساحرانہ اثر اور مٹھاس جوکہ عقل ،جسم اور روح کو بیک وقت اپیل کرتی ہے اور جس کا پایا جانا ایک ولی اللہ اور ایک بلندوبالا روحانی مقام پر فائز شخصیت ہی کی تحریروں میں ممکن ہے___ امام حسن البناؒ کا اسلوبِ تفسیر ان تمام خوبیوں کا مجموعہ ہے۔