مطالب الفرقان جناب غلام احمد پرویز کی تالیف ہے، جنھوںنے فتنۂ انکارِ حدیث کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا، اور قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے صاحب ِ قرآن کی قولی وعملی تفسیر سے آنکھیں بند کرلیں۔ زیرتبصرہ کتاب اسی فکر کے محاکمے پر مشتمل ہے۔
قاسمی صاحب نے پرویز صاحب کے اس قول کو پیش نظر رکھ کر ان کی فکر کا جائزہ لیا ہے کہ ’’جو کچھ میں نے لکھا ہے اس پر آپ قرآن کی روشنی میں غور کریں اور آپ کو جہاں سقم نظر آئے، اسے مجھ پر ہی قرآن ہی کی تائید سے واضح کریں‘‘ (نظامِ ربوبیت، ص ۲۳)۔ چنانچہ مؤلف لکھتے ہیں: ’’اس مقالے میں ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ پرویز صاحب کے جملہ افکار و نظریات کا جائزہ صرف اور صرف قرآن ہی کی بنیاد پر لیا جائے۔ لیکن چونکہ قرآن عربی زبان میں ہے اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ کتب لغات سے بھی صرفِ نظر نہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی پرویز صاحب کی جملہ کتب سے استفادے کو بھی اس جائزے میں شامل رکھا جائے‘‘۔ (ج ۱، ص ۲۶)
پرویز صاحب اپنے ناقدین کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اپنی طرف سے ایک غلط بات وضع کرکے ہمیں گالیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح پرویز صاحب کو یہ بھی شکایت ہے کہ لوگ اس بات کی تحقیق نہیں کرتے کہ جو کچھ ہماری طرف منسوب کیا جاتا ہے، وہ ہم نے کہا بھی ہے یا نہیں۔ مؤلف پرویز صاحب کی ان شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ہم نے امکان بھر اس امر کی کوشش کی ہے کہ طلوعِ اسلام یا جناب پرویز کے موقف کو خود انھی کے الفاظ میں پیش کرکے اس کا جائزہ لیا جائے‘‘۔ (ج۱، ص ۲۷)
فکرِ پرویز پر مؤلف گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے ابتدا سے لے کر پرویز صاحب کی وفات تک طلوعِ اسلام کے تمام شمارے اور ان کی تمام کتب لفظ بہ لفظ پڑھی ہیں اور ان کا ایک تفصیلی اشاریہ بھی ترتیب دیا ہے۔ تفسیرمطالب الفرقان کا زیرنظر تحقیقی جائزہ دوجلدوں میں ۱۳ ابواب پر مشتمل ہے۔ مضامین کے عنوانات سے کتاب کے پھیلائو کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پہلی جلد میں مذکورہ تفسیر کے علمی محاکمے کے ساتھ ساتھ اصولی مباحث زیربحث آئے ہیں، جب کہ دوسری جلد میں قصص الانبیا، معجزات انبیا، معاشی نظریات اور عائلی قوانین وغیرہ کا جائزہ لیاگیا ہے۔ آخر میں مقالہ کے ماحصل کے علاوہ ’علما کے ہاں پرویز کی قدروقیمت‘، ’علماے عرب کی طرف سے فتاویٰ‘ اور ’مغربی اسکالروں کی تحسینِ پرویز‘ کے عنوانات سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اس تحریک کی اصل بنیاد کیا ہے اور یہ کس کے فائدے یا کس کے نقصان کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ کتاب فکرِ پرویز کی تردید وابطال پر ایک تحقیقی و تجزیاتی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ (گل زادہ شیرپاؤ)
سیرتؐ سیدالمرسلین عظیم مفکر و ادیب جامعۃ الازہر کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد الطیب النجار کی معرکہ آرا تصنیف القول المبین فی سیرت سیدالمرسلین کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب کی بنیاد اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا قول: کَانَ خُلُقْہٗ الْقُراٰن ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآنِ مجید ہے۔ اس لیے کتاب میں قرآنِ مجید کی آیات کے ساتھ سیرت سیدالمرسلینؐ کو بیان کر کے قاری میں فہم قرآن کا ذوق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر محمد الطیب دورِحاضر کے چیلنجوں سے بخوبی واقف ہیں اور مغربی مستشرقین کی جانب سے ذاتِ مصطفیؐ پر اٹھائے جانے والے اعتراضات سے بھی مکمل آگہی رکھتے ہیں، اس لیے سیرت کا یہ بیان کتاب کو سیرت کی قدیم کتب سے ممتاز کرتا ہے۔
تاریخِ سیرت کے علمی موضوعات پر مصنف نے استدلال و حوالہ جات کے ذریعے روشنی ڈالی ہے۔ خانۂ کعبہ کی تعمیر، اصحابِ فیل پر پتھر برسنا، حجراسود کی تاریخ، واقعۂ معراج، واقعۂ شق قمر، جہاد کے اغراض و مقاصد، بنی اسرائیل کی بدعہدیاں، تعددِ ازواج کی حکمت سمیت غزوات پر گراں قدر تفصیلات بھی کتاب میں موجود ہیں۔ آج نہ صرف اُمت مسلمہ یہودی سازش کی لپیٹ میں ہے بلکہ پوری دنیا ان کے چنگل میں پھنسی نظرآتی ہے۔ ایک باب میں یہودیوں کے اس کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہودیوں نے توریت کی ربانی ہدایات سے منہ موڑ کر تلمود وضع کی اور اس کو اللہ کے احکامات پر ترجیح دی۔ تلمود کی تعلیمات کا تفصیلی تذکرہ کرنے کے بعد بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہودیوں نے کس طرح مکر، سازش اور دشمنی کا نشانہ بنایا، پھر اللہ کے رسولؐ نے بالآخر مدینہ منورہ کو یہودیوں سے پاک کیا۔
بقول ڈاکٹر خالد علوی: ’’یہ سہل، شُستہ اور آسان ترجمہ ہے بلکہ ترجمہ نگار نے نصوص کی تخریج بھی کی ہے اور جملہ معلومات اصل مصادر سے اخذ کی ہیں۔ حدیث، سیرت اور تاریخ کے بنیادی مصادر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ ادبِ سیرت میں یہ کتاب شان دار اضافہ ہے‘‘۔
کتاب کا حرف حرف محبت کی مٹھاس سے لبریز ہے اور تحریر میں وارفتگی و سپردگی کی وہ چاشنی ہے جو پڑھنے والے کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری سکھاتی ہے اور چراغِ مصطفویؐ کا پروانہ بننے پر تیار کرتی ہے۔ پاکستان نیشنل سیرت کانفرنس میں کتاب کو خصوصی انعام کا حق دار ٹھیرایا گیا ہے۔ (معراج الھدیٰ صدیقی)
زیرنظر کتاب مختلف اور متنوع مسائل و موضوعات پر فاضل مؤلف کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ موصوف علومِ اسلامیہ میں مہارت، جدید علوم سے واقفیت اور دورِ جدید کی سیاسی و تہذیبی کشاکش کا اِدراک رکھتے ہیں۔ بظاہر ان شذرات یا مختصر مضامین میں وقتی مسائل سے بحث کی گئی ہے لیکن بیش تر تحریروں کی مستقل قدروقیمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
جلداول تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے ’نقوشِ موعظت‘ کے موضوعات دینی اور اسلامی ہیں۔ اسلامی تہوار، شب قدر، انٹرنیٹ کے ذریعے تحریفِ قرآن کی سازش، ہجری کیلنڈر، خشک سالی، نسل پرستی، تہذیبی ارتداد وغیرہ کے حوالے سے افرادِ اُمت کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے حصے بہ عنوان: ’حقائق اور غلط فہمیاں‘ میں اسلام اور شریعت ِ اسلام سے متعلق غلط فہمیوںاور پروپیگنڈوں (مسلم پرسنل لا، یونیفارم سول کوڈ، عورت اور اسلام، مجسمے کا انہدام، کم عمری کی شادی، طلاق، پردہ، زنا کی سزا، تعدد ازواج وغیرہ) کا سنجیدہ جائزہ لیتے ہوئے عقل و فطرت اور حکمت و مصلحت سے اسلام کی ہم آہنگی کو واضح کیا گیا ہے۔ تیسرے حصے میں نئے مسائل (نیوکلیر اسلحہ، ماحولیاتی آلودگی، ہڑتال، ایڈز، ووٹ، کلوننگ، تمباکونوشی، سرمایہ کاری، میچ فکسنگ وغیرہ) پر اسلامی نقطۂ نظر سے اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔
چوتھے حصے میں مغربی ثقافت کے غلبے سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل (اہانتِ رسولؐ، وندے ماترم، جرائم، گداگری، رشوت، منشیات، خودکشی، سِتی، جہیز وغیرہ) پر تبصرہ کرتے ہوئے مناسب رہنمائی دی گئی ہے۔ پانچویں حصے کا موضوع دینی تعلیم اور درس گاہیں ہے۔ یہ مباحث دینی مدارس کی ضرورت و اہمیت، ان کے نصابِ تعلیم، اسلام کی حفاظت و اشاعت اور ملک و قوم کی تعمیر میں ان کا حصہ، تعلیم نسواں، مخلوط تعلیم، مادری زبان میں تعلیم، اساتذہ کے مقام اور ان کی ذمہ داریوں سے متعلق ہیں۔
مجموعی حیثیت سے اس ضخیم مجموعۂ مضامین کی افادیت میں کلام نہیں۔ مصنف کا نقطۂ نظر مثبت، تعمیری اور اسلامی ہے۔ سوچ کی سمت بھی صحیح ہے۔ مولانا رحمانی کو اپنی بات مؤثر اسلوب میں پیش کرنے کا ڈھنگ بھی آتا ہے۔ زیادہ تر مضامین بھارتی معاشرے کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں، اس لیے مثالیں بھی اسی معاشرے اور نظمِ حکومت سے دی گئی ہیں لیکن بیش تر صورتوں میں پاکستان اور بھارت کی صورت حال یکساں ہے، اس لیے پاکستانی قارئین بھی ان مضامین کو دل چسپ پائیں گے۔ امید ہے بقول مصنف: ’’یہ کم سواد تحریریں [بلاشبہہ] سوئے ہوئے دلوں کو جگانے اور غافل اذہان میں فکر کی چنگاری سلگانے میں کچھ کامیابی حاصل کرسکیں گی‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی)
عصرِجدید میں نئی نئی ایجادات اور جدید مسائل کی بنا پر دین کے احکامات جاننے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ ایسے میں علما کے بعض حلقوں کی طرف سے انتہاپسندانہ رویہ بھی سامنے آتاہے۔ اس کی ایک مثال ٹیلی وژن سیٹ کو توڑ دینا بھی ہے۔ زیرنظر کتاب میں ٹیلی وژن پر آنے والی تصویر، وڈیو، ڈیجیٹل تصویر، ٹی وی چینلوں کے قیام کے بارے میں شرعی نقطۂ نظر واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک نقطۂ نظر تو یہ ہے کہ ٹی وی کی تصویر بھی تصویر کی طرح ہے، لہٰذا حرام ہے۔ ٹیلی ویژن چینل چونکہ گمراہی اور خرافات پھیلانے کا ذریعہ ہیں، لہٰذا ان سے بھی اجتناب کیا جائے۔ مؤلف کتاب نے علماے دیوبند، عرب ممالک کے علما اور پاکستان کے مختلف مکاتب ِ فکر سے تعلق رکھنے والے علما کی آرا اور فتاویٰ کو جمع کر کے اس نقطۂ نظر کو بہ استدلال ثابت کیا ہے کہ ٹیلی ویژن کی تصویر چونکہ عکس ہے، لہٰذا جائز ہے۔ اسی طرح وِڈیو اور ڈیجیٹل تصویر کا معاملہ بھی ہے۔ یہ عکس ہے جو شعاعوں اور لہروں کے ذریعے جدید تکنیک سے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ اشباہ بالعکس ہیں (یعنی ان مناظر کی شباہت عکس سے زیادہ ہے)۔ (ص ۱۹۲)
مفتی رفیع عثمانی، مفتی تقی عثمانی اور دیگر مفتیانِ کرام کے تفصیلی فتاویٰ میں جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں جس طرح سے موضوع پر بحث کی گئی ہے وہ بذاتِ خود بہت جامع اور قیمتی بحث ہے، نیز علما کے بارے میں اس تاثر کی بھی نفی کرتی ہے کہ جدید علوم پر ان کی نگاہ نہیں ہوتی۔ آخر میں مختلف شبہات کا تذکرہ اور ان کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے عصری مسائل پر شرعی استدلال اور علمی بحث کا عمدہ اسلوب بھی سامنے آتا ہے۔ یقینا اپنے موضوع پر یہ ایک جامع کتاب ہے۔ (امجد عباسی)
ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا تعلق پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور کے شعبۂ اُردو سے ہے۔ اِن دنوں جامعہ الازہر قاہرہ کے شعبۂ اُردو میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ میٹرک کے زمانے میں مولانا ظفر علی خاں پر تالیفی کام کا آغاز کیا اور آج متعدد کتابیں اور سیکڑوں مقالات ضبطِ تحریر میں لاچکے ہیں۔ مصر جانے کا فائدہ یہ ہواکہ انھیں شام و لبنان کا سفر کرنے کا اتفاق ہوا جس کے نتیجے میں زیرنظر سفرنامہ وجود میں آیا۔
آج کل سفرنامے بہ کثرت لکھے جا رہے ہیں اور سب ایک جیسے نظر آتے ہیں مگر زیرنظر سفرنامے کی نوعیت قدرے مختلف ہے۔ دمشق اور بیروت کے اسفار کی یہ روداد آٹھ خطوط پر مشتمل ہے جن میں ’برقی لاسلکی تکلم‘ کے ذریعے مصنف کا رابطہ ڈاکٹر معین نظامی سے قائم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ سفر اگرچہ ایک علمی کانفرنس کے سلسلے میں تھا لیکن انھوں نے دمشق میں اپنی مصروفیات اور سرگرمیوں کو محض کانفرنس تک محدود نہیں رکھا بلکہ قدیم دمشق کے آثار و مقابر وغیرہ کی زیارت کی اور اپنے مشاہدات قلم بند کرکے قارئین تک پہنچائے ہیں۔ امام ابن تیمیہ اور ابن کثیر جیسے عظیم مفسر اسی شہر میں آسودۂ خاک ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کے مزارات پر حاضری دی اور ان کے علمی کارناموں سے بھی اجمالاً تعارف کرایا ہے۔ دمشق کانفرنس میں انھوں نے Religious Tolerance and Muhammad Iqbal's Philosophyکے عنوان سے جو انگریزی مقالہ پڑھا، اس کا متن بھی سفرنامے میں شامل ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ شام و لبنان کی سرزمین پر انبیا و صلحا کے بے شمار آثار موجود ہیں لیکن ان پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے، البتہ جدید زندگی اور اس کے مظاہر جگہ جگہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ میکڈونلڈ وغیرہ ان ممالک میں بھی افراط سے موجود ہیں اور ان میں حرام و حلال کی تمیز نہیں ہے۔
علامہ اقبال ۱۹۳۲ء میں یورپ سے واپسی پر مولانا غلام رسول مہر کے ہمراہ اسکندریہ پہنچے تو غلط فہمی کی بنا پر بعض اخبارات مولانا مہر کی تصویر کو اقبال کے نام کے ساتھ شائع کرتے رہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ لبنان سے شائع شدہ ایک کتاب علامہ اقبال کے بارے میں ہے مگر اس پر تصویر قائداعظم کی بنی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیرونِ ملک ہمارے سفیر ملک کی نمایندگی کا فرض احسن طریقے سے پورا نہیں کرتے۔ طباعت و اشاعت عمدہ، سرورق جاذبِ نظر ہے۔ کتاب بہت سی تصاویر سے مزین ہے۔ (محمدایوب لِلّٰہ)
پاکستان میں مسئلۂ افغان مہاجرین کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کتاب میں اِس امر کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔سابق سفیر پاکستان رستم شاہ مُہمند کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۱ء میں امریکا اور ناٹو کی افواج کے قبضے کے باوجود افغانستان میں قیامِ امن کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی عدم دستیاب ہیں۔
اعظم شاہ سواتی نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ امریکی انتظامیہ افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کی تیاری کرر ہی ہے (۳۰ ہزار نئے فوجیوں کا باقاعدہ اعلان ہوچکا ہے)۔ پیپلزپارٹی کے راہنما رضا ربانی کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین، ضیاء الحق کی افغانستان میں مداخلت پالیسی کا تسلسل ہے۔ سابق سیکرٹری خارجہ محمد اکرم ذکی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اُس وقت ختم ہوگی جب دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرنے والے ممالک عقل کے ناخن لیں گے۔ پروفیسر خورشیداحمد کے مطابق پاکستان کی سلامتی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اِس وقت جو افغان مہاجرین ہیں، ان کی نصف تعداد پاکستان ہی میں پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ تمام کے تمام مہاجرین واپس چلے جائیںگے۔ خصوصاً ایسی صورت حال میں کہ جب جارج بش سینیر و جونیئر کے بعد اب اوباما افغانستان میں مزید فوج کشی کی تیاری کرر ہے ہیں، جو حقیقتاً تباہی و بربادی کے نئے دور کا آغاز ہے۔ (محمد ایوب منیر)