انسان کے لیے دنیا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت بچے ہیں۔ وہ انسان خوش قسمت اور سعادت مند ہے جو اولاد کی نعمت سے بہرہ ور ہے۔ یہ وہ شگفتہ پھول ہیں جو گلشنِ حیات میں ہمارے لیے مستقبل کی روشن اُمید ہیں۔ یہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک، گھر کی رونق اور مستقبل کے معمار ہیں۔
ہر انسان میں طویل عرصے تک جینے، اس کا نام باقی رہنے اور اس کی کمائی ہوئی جایداد خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس کا وارث ہونے اور سنبھال کر رکھنے کی فطری خواہش ہوتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل، اس کی نیک اولاد کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ نیک بچے ہمارے وارث، قوم و ملک کے مستقبل کے سنبھالنے والے اور ملت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن و حدیث میں بچوںکی تعلیم و تربیت، اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے کے لیے رہنمائی کی گئی ہے۔ نیک، پرہیزگار اور اطاعت گزار اولاد کے لیے دعا مانگنا مومنین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے:
وَالَّـذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ رَبَّـنَا ھَـبْ لَـنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰـتِنَا قُـرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴) اور جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنادے۔
ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ایک کورے کاغذ کی طرح پاک و صاف اور تحت الشعور میں اپنے خالق کی خالقیت، توحید اور فطرتِ سلیمہ لیے ہوئے ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور قائم ہوجائو اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی‘‘ (الروم ۳۰:۳۰)۔ اس حقیقت کو سرور دوجہاں رحمۃ للعالمینؐ نے اس طرح بیان فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت (سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں‘‘۔ (بخاری، مسلم)
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سب سے مشکل کام بچے کی تربیت و تعلیم ہے۔ یہ کام کسی مختصر مدت کا کام نہیں، بلکہ برسہا برس کی محنت، کاوش اور جدوجہد پر محیط ہے۔ جس طرح برسوں کی مدت سے ایک موتی سیپ میں بنتا ہے، اسی طرح برسوں کی مسلسل کاوش سے ایک کامل انسان بنتا ہے۔
ایک بچہ اسکول سے واپس آنے کے بعد دن رات کا تقریباً تین چوتھائی کا حصہ گھر میں گزارتا ہے۔ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب کے درمیان رہتا ہے، اور ایک حصہ گھر سے باہر اپنے ہم جولیوں کے ساتھ بھی گزارتا ہے۔ اس لیے تربیت کی بڑی ذمہ داری بچے کے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ذمے ہے، البتہ ایک حصہ (اوقات اسکول) تعلیمی ادارے اور اساتذہ کے ذمے ہے۔ بچہ اپنے ماحول سے بہت اثر لیتا ہے بلکہ اسے اپنے ذہن میں بٹھا لیتا ہے۔ اس لیے بچے کو اچھا ماحول دینا اور خراب ماحول سے بچانا ضروری ہے۔ لیکن یہ کام جتنا ضروری ہے اتنا مشکل بھی، اور ایک طویل عرصے تک جاری رہنے والا عمل ہے۔ یہاں بچے کی تربیت کے حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:
بچہ چونکہ بیش تر وقت گھر میں گزارتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی تربیت کی ذمہ داری بنیادی طور پر والدین پر رکھی ہے۔ مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ واضح ہیں کہ ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ اس حدیث کی گہرائی میں جائیں تو ماں باپ پر تربیت کی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے سے وہ دنیا اور آخرت کی خوشی، راحت و شادمانی اور مسرت کے مستحق بنتے ہیں۔
بچے کی تربیت عام طور پر تین ذریعوں سے ہوتی ہے۔ ان میں سے دو کے ذمہ دار خاص طور پر ماں باپ ہوتے ہیں: (۱) تقلید (۲) رہنمائی (۳) تجربہ۔ ماں باپ کے ہرعمل کا مشاہدہ بچے کے ذہن پر نقش ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی کی وہ پیروی کرتا ہے اور اسی سے رہنمائی لیتا ہے، اور بتدریج تجرباتِ زندگی سے سیکھتا چلا جاتا ہے۔
بچوں کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ وہ ناسمجھ اور نادان ہوتے ہیں اور سمجھتے نہیں، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام ضروری صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ بنیادی طور پر یہ صلاحیتیں آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں، اور بچہ جو بھی دیکھتا ہے اسے کسی قدر اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتا ہے۔ تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ابتدائی عمر میں بچے کی شخصیت پر سب سے زیادہ اثرانداز دو ہی افراد ہوتے ہیں، یعنی ماں باپ۔ والدین کی فطری توجہ اور شفقت اسے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے سبب وہ ان کی شخصیت کے ہر پہلو کو قابلِ تقلید خیال کرتا ہے۔
اس معصومانہ عمر اور ذہن میں جب وہ غلط اور صحیح کا علم نہیں رکھتا اور ابھی اس کی قوتِ فیصلہ نہیں بن پاتی، اس کے نزدیک ہر وہ بات جسے اس کے والدین نے صحیح بتایا ہو، صحیح اور جسے وہ غلط کہیں، غلط ہوتی ہے۔ جو کام والدین کریں گے بچہ بھی وہی کرے گا۔ والدین اشارے کریںگے تو وہ بھی کرے گا، جیسے وہ بیٹھیں گے، ویسے ہی وہ بھی بیٹھے گا۔ لہٰذا والدین، بڑے بھائی، بہنیں اور گھر کے دیگر افراد بچے کے لیے پہلا ماڈل ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ماں باپ پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اور اس ذمہ داری سے عہدبرآ ہونا کتنا کٹھن کام ہے۔
lگفتگو کا سلیقہ: بچے سے گفتگو کرتے ہوئے ان تمام باتوں کو لحاظ رکھیں، جنھیں بڑوں سے گفتگو کرنے میں ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان سے تو تڑاک اور گھٹیا لفظوں سے گریز کریں ورنہ وہ بھی ایسے ہی الفاظ بولیں گے۔ ہم ان سے تعظیم کے کلمات سے بات کریں گے تو وہ بھی ایسے ہی کلمات سیکھیں گے اور گفتگو کریں گے۔ لہٰذا بچے سے گفتگو کے دوران محتاط رویہ اپنایئے۔ ان کے سامنے بیہودہ، مذاق، گالی گلوچ، تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ ہرگز نہ بولے جائیں۔ ان سے گفتگو نرمی سے کریں، اور ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ بھی مناسب نہیں۔ اس سے بچے کے دل سے رعب جاتا رہتا ہے اور اس کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آپ گھر کے مدرس و معلم ہیں، کوئی تھانیدار اور صوبیدار نہیں۔ مناسب رویہ یہی ہے کہ بچے کو حکمت سے صحیح اور غلط کی تمیز سکھائی جائے۔ جہاں ضرورت ہو سرزنش بھی کریں اور بچے کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ میری کیا کوتاہی تھی جس کی بناپر سرزنش کی گئی۔ اس سے بچے کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہوگا اور اس میں احساسِ ذمہ داری بھی بیدار ہوگا۔
کتب بینی اور رسائل کا مطالعہ بچوں کی ضرورت بنا دیں۔ وہ اس طرح کہ بچوں کو ’بزمِ ادب‘ کی طرز پر پروگرام میں شریک کروائیں۔ بچہ اپنی صلاحیت اور رجحان کے مطابق قصہ کہانی، تقریر، قرآن و حدیث سے انتخاب،اقوالِ زریں، پہیلیاں اور کوئز مقابلے کے لیے سوالات کی تیاری کے لیے کتب کی طرف رجوع کرے گا۔ اس سے کتب بینی کا شوق بھی بڑھے گا اور تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بچے کی شخصیت کے پوشیدہ جوہر بھی کھلیں گے۔ اگر خود کتاب دوستی کا مظاہرہ کریں، کتب خریدیں، لٹریچر پڑھیں اور دوسروں کو پڑھنے کو دیں، خدمتِ خلق کا کام کریں تو فطری انداز میں بچہ ان کاموں سے وابستہ ہوجائے گا۔ تحریکی نظم سے وابستہ ہونے سے یہ کام ایک تسلسل سے ہوسکتے ہیں۔
بچے کی تعلیمی، دینی، اخلاقی اور معاشرتی تربیت کریں، اس کا دین و ایمان پختہ کریں تو وہ آپ کے لیے دنیا اور آخرت کی راحت کا سبب بنے گا۔ اس کی نیکیوں سے ایک حصہ آپ کو قبر کے اندھیرے اور تنہائی میں پہنچے گا، اور حساب کے دن اس کی شفاعت نصیب ہوگی۔ بچے کو درس گاہ اس طرح بھیجیں کہ وہ تعلیم کے وقت پر ادارے میں موجود ہو۔ بچہ مکمل تیاری کے ساتھ مقررہ لباس (یونیفارم) میں ملبوس ہو اور صفائی ستھرائی کا انتظام کر کے آئے۔
یہ چند باتیں، اسکول،مدرسہ اور کسی ادارے میں جانے والے بچے کے بارے میں عرض کی گئی ہیں۔ ان میں اولاد کے تمام حقوق بیان نہیں کیے گئے۔ ایک گزارش یہ ہے کہ بچوں کے والدین نفسیات کی دو تین کتابیں خاص طور پر بچوں کی نفسیات، تعلیمی نفسیات، عمومی نفسیات ضرور ملاحظہ کریں اور انھیں عمل میں لانے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے بچوں کو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور اچھے وارث بنائے، نیک صالح کرے اور دینی و دنیوی ترقی سے نوازے اور پاکستان کے اچھے شہری بنائے، آمین!