مولانا امیرالدین مہر


وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۸ۧ  (البقرہ۲:۱۸۸) اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال نارواطر یقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمھیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصد اً ظالمانہ طریقے سے کھانے کومل جائے۔

عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍ وَ قَالَ ، قَالَ النَّبِیُ لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ وَفِیْ  رِوَایَۃٍ عَلَی الرَّائِشِ (بخاری، مسلم) حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رشوت دینے والے اور لینے والے پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔ایک روایت میں ہے کہ ان کے درمیان ’’دلالی کر نے والے پر بھی لعنت ہے‘‘۔

حرام کی کمائی کھانے والے دونوں جہانوں میں نقصان میں ہیں۔ آخرت کا نقصان تو آخرت میں ملے گا، لیکن اس دنیا میں بھی بجاطور پر نقصان ہوتا ہے۔اس کا کبھی انسان کو احساس ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ جیسے عوامی کہاوت ہے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ سب سے بڑا نقصان تو بے اطمینانی اور بے چینی کی صورت میں دامن گیر ہوتا ہے۔ کبھی مالی نقصان اورجانی نقصان ہوتا ہے اور کبھی اس دنیا میں انسان چھوٹ جا تا ہے، لیکن آخرت کی پکڑ باقی رہتی ہے۔

یہاں دو برائیوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے:ایک رشوت، دوسری ناجائز اور غلط سفارش۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے لفظ ’باطل‘ بیان کر کے تمام ناجائز طریقوں سے حاصل کیے ہوئے مالوں کو حرام قرار دیا ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (النساء۴:۲۹)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ۔

lرشوت:معاشرے میں ایک دوسرے کے مال نا جائز اور حرام طریقے سے کھانے، لوگوں کے حقوق مارنے اور ایک دوسرے پر ظلم کرنے کا ایک عام طریقہ رشوت دینا اور رشوت لیناہے۔ ’رشوت‘ اس مال کو کہتے ہیں، جس کو کوئی شخص اپنی باطل غرض اور ناحق مطالبہ پورا کرنے کے لیے، کسی بااختیار شخص یا حاکم کو دے، تا کہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کرے۔ اس طرح جو شخص کسی خدمت کا معاوضہ اور تنخواہ پا تا ہو وہ اس خدمت کے سلسلے میں لوگوں سے کسی نوعیت کا فائدہ حاصل کرے، جو اس خدمت سے متعلق ہو خواہ وہ لوگ برضاورغبت ہی اسے فائدہ پہنچائیں، بہرحال یہ بھی رشوت کے ضمن میں آتا ہے۔ اسی طرح اپنے عہدے اور ملازمت میں ہوتے ہوئے لوگوں سے ہدیے اور تحفے قبول کرنا، غیر معمولی اور غیر روایتی دعوتیں قبول کرنا یا دیگر غیر معمولی مراعات حاصل کرنا وغیرہ بھی رشوت ہی کی ایک قسم ہے۔

جس طرح رشوت لینا گناہ ہے، اسی طرح رشوت دینا بلکہ اس کام میں دلالی کرنا،رشوت لینے اور دینے میں مدد کرنا اور راشی ومرتشی کا کام آگے بڑھانا بھی گناہ ہے۔

رشوت کی ممانعت کے ساتھ ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکام کو تحفے تحائف اور ہدیے (Gifts) پیش کرنے اور حکام کو ان کے قبول کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:

 ہَدَایَا الْعُمَّالِ غُلُوْلٌ، حکام جو ہدیے وصول کرتے ہیں یہ خیانت ہے۔

حدیث مبارک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن اللتیہ نامی ایک شخص کو ’قبیلہ ازد‘ پر عامل بنا کر بھیجا۔ جب وہ وہاں سے سرکاری مال لے کر پلٹا تو اسے بیت المال میں داخل کرتے وقت اس نے کہا کہ ’’یہ تو ہے بیت المال کا اور یہ ہد یہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے‘‘۔ اس پر حضورؐنے ایک خطبہ ارشادفرمایا :

 تم میں سے ایک شخص کو اس حکومت کے کام میں جو اللہ نے میرے سپرد کی ہے عامل بناکر بھیجتا ہوں، تو وہ آ کر مجھ سے کہتا ہے کہ یہ تو ہے سرکاری مال اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ لوگ خود ہدیے دیتے ہیں تو کیوں نہ وہ اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھا کہ اس کے ہدیے وہیں پہنچتے رہتے؟(بخاری)

 ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو ہم کسی سرکاری خدمت پر مقرر کریں اور اسے اس کام کی تنخواہ دیں، وہ اگر اس تنخواہ کے بعد اور کچھ وصول کرے تو یہ خیانت ہے۔ رشوت لینے اور دینے والے دونوں کے لیے رشوت کی سزا جہنم بتائی گئی ہے۔ فرمایا:

 الرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ کِلَاہُمَا فِی النَّارِ (الحدیث)رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنم میں ہوں گے۔

حرام مال کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حرام مال کھا تا ہے اس میں برکت نہیں دی جاتی، اس کا صدقہ قبول نہیں کیا جا تا اور جو کچھ وہ پیچھے چھوڑ تا ہے، وہ اس کے لیے دوزخ کا ایندھن بنادیا جا تا ہے۔

ایک اور حدیث میں حضورؐ نے فرمایا: جس قوم میں سود پھیل جائے وہ قحط اور گرانی کی مصیبت میں ڈال دی جاتی ہے اور جس قوم میں رشوت پھیل جائے، اس پر رعب ڈالا جا تا ہے، یعنی ایسی قوم بز دل ہو جاتی ہے___ اپنے کسی ذاتی کام کے لیے بطور رشوت کوئی ہدیہ کسی کو دینا بھی اکلِ حرام میں شمار ہوتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ کسی آدمی نے کسی سے اپنی حاجت پوری کرنے کو کہا اور اس نے اس کی حاجت پوری کر دی، اور اُس نے ہد یہ بھیجا اور اس نے قبول کرلیا، تو یہ حرام ہے۔

رشوت اور ہد یہ وصول نہ کرنے کے بارے میں اسلام کا ایک ضابطہ ہے، اور اس کے تحت وہ کسی کو یہ وصول کرنے کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دیتا۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ہمارا عامل ہے، وہ شادی کے اخراجات بیت المال سے حاصل کرے اور اگر اس کا نوکر نہ ہوتو اس کے لیے بھی وہ بیت المال سے رجوع کرے۔اگر رہنے کے لیے اس کا گھر نہ ہو تو اس کا انتظام بھی حکومت کے ذمے ہے۔اس کے علاوہ اگر وہ کچھ بھی حاصل کرے، تو خائن ہے یا چور ہے‘‘۔ یہی حکم ان حکام کا ہے جو معاملات میں ہدیہ اور تحفے لے کر کسی کی امداد یا اعانت کر یں، مثلاً بیع وشراء، اجارہ، مضاربت، مساقات اور مزارعت وغیرہ۔ اس قسم کے معاملات میں کسی قسم کا بھی ہدیہ اورتحفہ لے کر کام کریں تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ رشوت کا لین دین ہر حالت میں حرام ہے۔حتیٰ کہ کافر، مشرک، یہودی، ہندو کوئی شخص چاہے اپنا ہو یا پرایا، اس سے رشوت لینا یا اس کے ساتھ بے انصافی کرنا حرام ہے۔ اس سلسلے میں ایک ایمان افروز واقعہ سنیے:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جنگ خیبر کے بعد وہاں کے یہودیوں سے زمین کی آدھی آدھی پیداوار پر مصالحت ہوئی تھی۔ جب پیداوار کی تقسیم کا وقت آتا تو آپ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو بھیجتے، وہ ایمان داری سے پیداوار کے دو حصے کر دیتے تھے اور کہہ دیتے تھے کہ ان دو میں سے جو چاہو لے لو۔ یہودیوں نے اپنی عادت یا قومی رواج کے مطابق ان کو بھی رشوت دینی چاہی۔ چنانچہ آپس میں چندہ کر کے اور اپنی عورتوں کے کچھ زیور جمع کیے اور کہا کہ یہ قبول کرو اور اس کے بدلے تقسیم میں ہمارا حصہ بڑھادو۔ یہ سُن کرعبداللہ بن رواحہؓ نے فرمایا: ’’اے یہودیو،خدا کی قسم! تم خدا کی ساری مخلوق میں مجھے مبغوض ہو۔ لیکن یہ مجھے تم پر ظلم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتا اور جوتم نے رشوت پیش کی ہے وہ حرام ہے، ہم (مسلمان) اس کو نہیں کھاتے‘‘۔ یہودیوں نے ان کی تقریر سُن کر کہا کہ یہی وہ (انصاف) ہے، جس سے آسمان وزمین قائم ہیں۔ (مؤطا امام مالک)

حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں رشوت خوری کے لیے سخت سزا مقرر کر رکھی تھی، تاکہ اس بیماری کا پوری طرح سد باب ہو جائے۔اسی طرح رشوت کی روک تھام کے لیے انھوں نے دوسرے انتظامی ملازمین کی بڑی بڑی تنخواہیں مقرر کیں۔

lسفارش:دوسروں کے حقوق غصب کرنے کا ایک طریقہ سفارش ہے، جس کے لیے قرآن میں شفاعت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے:’’جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا‘‘۔ (النساء۴:۵۸)

اس آیت کریمہ میں شفاعت کی قسمیں بیان کی گئی ہیں:ایک یہ کہ جائز اور اپنے حق کے مطالبے کے لیے سفارش کی جائے۔ جب مطالبہ کرنے والا مجبوری کی وجہ سے خود بڑے بااثر لوگوں تک نہیں پہنچ سکتا تو یہ ایک جائز کام ہے۔لیکن اگر خلاف حق کے لیے سفارش کی جائے یا دوسروں کو اس کے قبول کرنے پر مجبور کیا جائے، تو یہ نا جائز سفارش ہے۔اس لیے جو شخص کسی کے جائز حق اور جائز کام کے لیے سفارش کرے گا، تو اسے اس کا ثواب ملے گا، اور جوکسی ناجائز کام کے لیے سفارش کرے گا، تو اسے اس کا عذاب ملے گا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی کی سفارش کی اور اس پر اسے کوئی ہدیہ دیا، اور اس نے قبول کر لیا تو وہ سود کامرتکب ہوا‘‘۔

 ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: جو شخص اپنی سفارش کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حدود (سزاؤں) میں سے کسی حد کے نفاذ کو روک دیتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کے قانون کی مخالفت کرتا ہے۔

بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ قریش کو ایک مخدومی عورت کا بہت خیال تھا، اس نے چوری کی تھی۔ لوگوں نے کہا کہ کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی سفارش کرے گا؟ بالآخر حضرت اسامہ بن زیدؓ نے رسولؐ اللہ سے اس بارے میں گفتگو کی۔ آپ ؐنے فر مایا:’’تم اللہ کی حدود میں سفارش کر تے ہو؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اے لوگو، تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو وہ لوگ اسے چھوڑ دیتے تھے، اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ اور قسم ہے خدا کی کہ اگر فاطمہؓ بنت محمدؐ بھی چوری کرتیں تو محمدؐ ان کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالتے‘‘۔

حضرت امام مالکؒ اپنی موطا میں روایت کرتے ہیں کہ ایک جماعت نے ایک چور کو پکڑلیا، تا کہ اسے حضرت عثمانؓ تک پہنچا دیں۔ راستے میں حضرت زبیرؓ ملے۔ لوگوں نے ان سے درخواست کی کہ حضرت عثمانؓ سے آپ اس کی سفارش کر دیں۔ حضرت زبیرؓ نے فرمایا: ’’جب حدود کا معاملہ سلطان تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ سفارش کرنے والے پر اور جس کے لیے سفارش کی جائے اس پر لعنت بھیجتا ہے۔ الغرض آج کی دنیا میں سارے فسادات کی جڑ رشوت خوری اور سفارش ہیں۔ جب تک حرام مال سے مسلمان اپنے آپ کو نہ بچائیں، ان کی باقی عبادات اور معاملات قابلِ قبول نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پرائے مال اور پرائے حق کی مغفرت اور بخشش نہیں ہوسکتی، جب تک صاحبِ مال اور صاحبِ حق خود معاف نہ کر دے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہر گناہ بالخصوص رشوت خوری اور نا جا ئز سفارش کی برائی سے نجات دلائے۔

قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ۝۱ۚ اَللہُ الصَّمَدُ۝۲ۚ لَمْ يَلِدْ۝۰ۥۙ وَلَمْ يُوْلَدْ۝۳ۙ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۝۴ۧ  (اخلاص۱۱۲:۱-۴ ) کہو وہ اللہ ہے یکتا، اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں، نہ اس کو کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ رکھنا، اسلام میں داخل ہونے، اور اللہ تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق جوڑنے کے لیے ضروری ہے۔ اسے ایمان لانا اور عقیدہ کہتے ہیں۔ عقیدہ کا لفظ ’عقد‘ (گرہ) لگانے اور تعلق جوڑنے کو کہتے ہیں۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا!آپ ؐ نے فرمایا: قُلْ اٰمَنْتُ بِاللہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ (مسلم، کتاب الایمان، حدیث: ۱۳)’’کہو کہ میں ایمان لایا اللہ پر، پھر اس پر جم جائو‘‘، یعنی اس پر یکسو ہو کر کھڑے ہو جائو اور دوسروں کی طرف نہ دیکھو۔

حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جس بندے نے بھی کہا کہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے۔ پھر اس پر موت آنے تک قائم رہا، تو وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘(مسلم)۔یعنی اپنے اس اقرار اور عہد پر قائم رہا اور اللہ کی بندگی اور غلامی میں زندگی گزاردی تو وہ پکا مومن ہے اور آخرت میں جنت کا حق دار ہوگا۔توحید پر صحیح عقیدے کا اہم اور بڑا فائدہ آخرت میں اجر اور اللہ کی رضا اور رضا مندی سے جنّت میں داخل ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے مومن اللہ کی ناراضی اوردوزخ سے بچ جائے گا۔ یہ دراصل بڑی کامیابی اور فلاح ہے، جو ایک مومن کو نصیب ہو گی۔

دنیا میں توحید اختیار کرنے اور صحیح عقیدے پر رہنے سے کئی فائدے اور بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں۔ اتنی بھلائیاں اور فائدے ملتے ہیں کہ بندہ ان کا شمار نہیں کر سکتا۔ایسی چند باتیں یہ ہیں:

  • توحید فطری پکار: انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے توحید اس کی فطرت میں  رکھ دی گئی ہے۔ لہٰذا، جو شخص توحید اختیار کرتا ہے ، وہ اپنی فطرت کو اختیار کرتا ہے۔
  • کامل شکر گزاری: قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں شکر کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور نا شکری کے بہت سے نقصانات بتائے گئے ہیں۔

لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ۝۷ (ابراھیم ۱۴:۷) اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔

شکر کرنا صرف زبان سے شکر شکر کا اظہار نہیں ہے، بلکہ دل اور اپنے عمل سے شکر کرنا احسن تر ہے۔ انسان تھوڑا سا غور کرے تو اس کے وجود پر اللہ کے لاکھوں احسانات ہیں۔ ایک ایک عضو پر ایک ایک بال پر اللہ کے احسانات ہیں۔ بزرگ کہتے ہیں کہ انسان سانس لیتا ہے، اس کا سانس لینا بھی اللہ کا احسان ہے کہ وہ اسے سانس لینے کی توفیق اور سہولت دیتا ہے۔ اگر وہ سانس کو روک دے تو چند سیکنڈوں میں انسان کا دم گھٹ کر دمِ آخر ہو جائے۔

l اللہ کی نعمت کی قدرشناسی : تھوڑی دیر کے لیے غور کیجیے کہ کسی غریب آدمی سے کوئی مال دار آدمی کہے کہ: ’’اپنے ایک ہاتھ کی انگلی مجھے دے دو، میں اسے علیحدہ کرا کے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں لگا لوں گا کیوںکہ میرے بیٹے کی ایک انگلی ضائع ہو گئی ہے‘‘، تو وہ کسی صورت میں بھی اسے بیچنے پر تیار نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ کہ انسان کا ہاتھ اَنمول ہے جسے روپوں میں نہیں تولا جاسکتا۔

کچھ باتیں ایسی ہیں جو اللہ نے اپنے اختیار اور علم میں رکھی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اُس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتاہے، وہی جانتا ہے کہ مائوں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے، اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔(لقمٰن ۳۱:۳۴)

قیامت کس وقت اور کب واقع ہوگی؟ جِنّ وانس کو خبر نہیں ہوتی کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟ وہ پیدا ہونے والا عالم ہو گا یا جاہل ، سائنس دان ہو گا یا اَن پڑھ، کتنا وقت زندہ رہے گا یا پیدا ہوتے ہی مرجائے گا، بیمار ہوگا یا تندرست ہو گا؟ اسی طرح کسی کو خبر نہیں کہ اس کی موت کہاں آئے گی؟___ یہ سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں اور وہی ان کی پوری حقیقت کو جانتا ہے۔

  • توحید باری تعالٰی پر غور: انسان اگر تھوڑا سا غور کرے تو ہزاروں اور لاکھوں نعمتیں اسے گھیرے ہوئے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات میں سے خاص طور پر تخلیق کو بیان کیا ہے۔ قرآن شریف میں تین سو کے قریب یہ کلمہ مختلف شکلوں میں اسم اور فعل کی صورتوں میں آیا ہے۔ پھر بہت سی نعمتیں گنا کر پوچھا گیا ہے اور انسان نے ہر نعمت کی تخلیق کے متعلق یہی بتایا ہے کہ اللہ نے پیدا کی ہیں۔پھر بغیر سوال کے کئی مقامات پر بتایا کہ اللہ نے یہ نعمتیں تمھارے اوردوسرے جان داروں کے لیے پیدا کی ہیں۔ اگر انسان سے پوچھا یا کہا جائے کہ زمین وآسمان اور جو کچھ ان میں ہے اسے کس نے پیدا کیا؟ تو ضرور یہی جواب دے گا کہ اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ انسان کو کس نے پیدا کیا؟ تو ضرور یہی جواب دے گا اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ دن، رات، سورج اور چاند کس نے پیدا کیے؟ تو جواب یہی دے گا کہ اللہ نے   یہ سب پیدا کیا ہے۔ اگر انسان سے پوچھا جائے کہ بارش کون برساتا ہے؟ اور اس سے یہ پوچھا جائے کہ کھیتیاں کون اُگاتا ہے؟ تو ضرور یہی جواب دے گا کہ اللہ تعالیٰ ۔

اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ہزاروں لاکھوں برسوں سے انسانوں کو پیدا کیے جا رہا ہے۔ البتہ اس تناسب میں کبھی کبھار معمولی سی کمی کر دیتا ہے کہ کسی صدی میں لڑکیاں معمول سے زیادہ پیدا ہوجائیں ۔ یہ کون ہے جو انسانوں کے تناسب میں کمی بیشی کر رہا ہے؟ سب کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے بس میں ہے جو وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان سے یہ پوچھا جائے کہ موت اور حیات کس کے اختیار میں ہے؟تو یہی کہے گا کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جب کائنات میں سب کچھ وہی پیدا کرتا ہے تو پھر حکم اور امر بھی اس کا چلنا چاہیے:

اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ۝۰ۭ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (اعراف ۷:۵۴) خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے۔ بڑا بابرکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔

یہ صفات رکھنے والا مالک الملک ہے، لہٰذا عبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے۔اس بات کو قرآن مجید میں یوں فرمایا گیا ہے کہ:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶ مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۝۵۷ (الذاریات ۵۱:۵۶-۵۷) میں نے جِنّ اور انسانوں کو پیدا ہی اسی لیے کیا ہے کہ وہ میری (اللہ کی ) بندگی کریں ۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ کہ وہ مجھے (اللہ کو ) کھلائیں پلائیں۔

  • مومن کا اللہ سے تعلق:اللہ تعالیٰ سے ایک مومن کا جو تعلق ہونا چاہیے اس کے نکات ذیل میں دیے جا رہے ہیں:

  •                 مو من اللہ کی ہی بندگی کرے ، اسی کو سجدہ کرے اور اسی کی پرستش کرے۔
  •                 اللہ کو ہی غیب دان، نفع ونقصان پہنچانے والا سمجھے۔ اللہ کا دل میں خوف رکھے اور اس پر توکّل کرے۔ اس سے ہی دُعا مانگے، اس سے ہی پناہ مانگے، اور کسی کو اللہ کی باد شاہی میں دخل دینے والا نہ سمجھے کہ جس کی فرمایش اور سفارش سے کوئی حکم یا قضا ٹل سکتی ہو۔   
  •                 اللہ تعالیٰ ہی کو حقیقی باد شاہ ، ملک کا حقیقی مقتدر اعلیٰ سمجھے اور حقیقی حاکم صرف اللہ کو جانے۔
  •                 اپنے حاکم کو کسی چیز کا حقیقی مالک اور مختار نہ سمجھے بلکہ ہر چیز، حتیٰ کہ جان ومال اور اپنی  ذہنی وجسمانی صلاحیتوں کو اللہ کی امانت سمجھے۔
  •                 اپنے نفس اور خواہشات کو چھوڑ کر صرف اللہ کا بندہ بن کر اپنی پسند اور ناپسند کا معیار اللہ کو سمجھے۔ 
  •                 اللہ کی رضا ،خوشی اور اس کے قرب کو اپنی تمام کوششوں اور محنتوں کا مقصد بنائے۔ 
  •                 اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ اور ذمہ دار سمجھے اور ہر وقت یہ خیال رکھے کہ قیامت کے دن اللہ کو زندگی کے تمام معاملات کا حساب دینا ہے۔ 
  •                 انسان اپنے اخلاق ،چال چلن، رہن سہن (تمدن )، روزی کمانے اور سیاست وغیرہ، الغرض زندگی کے ہر معاملے میں اللہ کی ہدایت کو تسلیم کرے، اور اُس طریقے وضابطے کو رد کردے جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو۔ 

آئیے ! اللہ پر صحیح عقیدہ رکھیں اور اس سے تعلق جوڑیں تا کہ دونوں جہانوں کی خیر و بھلائی نصیب ہو، اور اللہ کے نیک بندوں کی طرح زندگی گزار کر اس جہان سے رخصت ہوں۔

انسان کے لیے دنیا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت بچے ہیں۔ وہ انسان    خوش قسمت اور سعادت مند ہے جو اولاد کی نعمت سے بہرہ ور ہے۔ یہ وہ شگفتہ پھول ہیں جو گلشنِ حیات میں ہمارے لیے مستقبل کی روشن اُمید ہیں۔ یہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک، گھر کی رونق اور مستقبل کے معمار ہیں۔

ہر انسان میں طویل عرصے تک جینے، اس کا نام باقی رہنے اور اس کی کمائی ہوئی جایداد  خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس کا وارث ہونے اور سنبھال کر رکھنے کی فطری خواہش ہوتی ہے۔      اس خواہش کی تکمیل، اس کی نیک اولاد کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ نیک بچے ہمارے وارث، قوم و ملک کے مستقبل کے سنبھالنے والے اور ملت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن و حدیث میں بچوںکی تعلیم و تربیت، اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے کے لیے رہنمائی کی گئی ہے۔ نیک، پرہیزگار اور اطاعت گزار اولاد کے لیے دعا مانگنا مومنین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے:

وَالَّـذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ رَبَّـنَا ھَـبْ لَـنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰـتِنَا قُـرَّۃَ اَعْیُنٍ        وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا o (الفرقان ۲۵:۷۴) اور جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ     ’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنادے۔

اسی نوع کی دوسری دعائیں ہیں جنھیں بندہ خود مانگتا ہے اور دوسروں سے بھی درخواست کرتا ہے۔

ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ایک کورے کاغذ کی طرح پاک و صاف اور تحت الشعور میں اپنے خالق کی خالقیت، توحید اور فطرتِ سلیمہ لیے ہوئے ہوتا ہے۔       ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور قائم ہوجائو اس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی‘‘ (الروم ۳۰:۳۰)۔ اس حقیقت کو سرور دوجہاں رحمۃ للعالمینؐ نے اس طرح بیان فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت (سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں‘‘۔ (بخاری، مسلم)

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سب سے مشکل کام بچے کی تربیت و تعلیم ہے۔ یہ کام کسی مختصر مدت کا کام نہیں، بلکہ برسہا برس کی محنت، کاوش اور جدوجہد پر محیط ہے۔ جس طرح برسوں کی مدت سے ایک موتی سیپ میں بنتا ہے، اسی طرح برسوں کی مسلسل کاوش سے ایک کامل انسان بنتا ہے۔

ایک بچہ اسکول سے واپس آنے کے بعد دن رات کا تقریباً تین چوتھائی کا حصہ گھر میں گزارتا ہے۔ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب کے درمیان رہتا ہے، اور ایک حصہ  گھر سے باہر اپنے ہم جولیوں کے ساتھ بھی گزارتا ہے۔ اس لیے تربیت کی بڑی ذمہ داری بچے کے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ذمے ہے، البتہ ایک حصہ (اوقات اسکول) تعلیمی ادارے اور اساتذہ کے ذمے ہے۔ بچہ اپنے ماحول سے بہت اثر لیتا ہے بلکہ اسے اپنے ذہن میں بٹھا لیتا ہے۔ اس لیے بچے کو اچھا ماحول دینا اور خراب ماحول سے بچانا ضروری ہے۔ لیکن یہ کام جتنا ضروری ہے اتنا مشکل بھی، اور ایک طویل عرصے تک جاری رہنے والا عمل ہے۔ یہاں بچے کی تربیت کے حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں:

  •  پھلا مدرسہ: بچے کا سب سے پہلا مدرسہ اس کا گھر اور گھر میں خاص طور پر اس کی ماں ہے۔ جس طرح اپنی ماں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے ویسے ہی کرتا ہے۔ جس طرح وہ بولتی ہے ویسے ہی وہ بولتا ہے۔ غرض کہ جو کام وہ کرتی ہے بچہ بھی اس کی طرح کرتا ہے۔ گھر کے بعد دوسرا تربیتی مرکز اس کا مدرسہ اور اسکول ہوتا ہے اور ان میں استاد اس کا ماڈل ہوتا ہے۔ بعض اوقات اسے اپنے استاد کی بات پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ کسی اور کی بات کسی صورت میں قبول نہیں کرتا، اور کہتا ہے کہ میرے استاد نے مجھے ایسے ہی بتایا ہے۔ اس لیے اساتذہ کو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے۔

بچہ چونکہ بیش تر وقت گھر میں گزارتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی تربیت کی ذمہ داری بنیادی طور پر والدین پر رکھی ہے۔ مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ واضح ہیں کہ ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ اس حدیث کی گہرائی میں جائیں تو ماں باپ پر تربیت کی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے سے وہ دنیا اور آخرت کی خوشی، راحت و شادمانی اور مسرت کے مستحق بنتے ہیں۔

بچے کی تربیت عام طور پر تین ذریعوں سے ہوتی ہے۔ ان میں سے دو کے ذمہ دار خاص طور پر ماں باپ ہوتے ہیں: (۱) تقلید (۲) رہنمائی (۳) تجربہ۔ ماں باپ کے ہرعمل کا مشاہدہ بچے کے ذہن پر نقش ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی کی وہ پیروی کرتا ہے اور اسی سے رہنمائی لیتا ہے، اور بتدریج تجرباتِ زندگی سے سیکھتا چلا جاتا ہے۔

بچوں کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ وہ ناسمجھ اور نادان ہوتے ہیں اور سمجھتے نہیں، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام ضروری صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ بنیادی طور پر یہ صلاحیتیں آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں، اور بچہ جو بھی دیکھتا ہے اسے کسی قدر اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتا ہے۔ تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ابتدائی عمر میں بچے کی شخصیت پر سب سے زیادہ اثرانداز دو ہی افراد ہوتے ہیں، یعنی ماں باپ۔ والدین کی فطری توجہ اور شفقت اسے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے سبب وہ ان کی شخصیت کے ہر پہلو کو قابلِ تقلید خیال کرتا ہے۔

اس معصومانہ عمر اور ذہن میں جب وہ غلط اور صحیح کا علم نہیں رکھتا اور ابھی اس کی قوتِ فیصلہ نہیں بن پاتی، اس کے نزدیک ہر وہ بات جسے اس کے والدین نے صحیح بتایا ہو، صحیح اور جسے وہ    غلط کہیں، غلط ہوتی ہے۔ جو کام والدین کریں گے بچہ بھی وہی کرے گا۔ والدین اشارے کریںگے تو وہ بھی کرے گا، جیسے وہ بیٹھیں گے، ویسے ہی وہ بھی بیٹھے گا۔ لہٰذا والدین، بڑے بھائی، بہنیں اور گھر کے دیگر افراد بچے کے لیے پہلا ماڈل ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ماں باپ پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اور اس ذمہ داری سے عہدبرآ ہونا کتنا کٹھن کام ہے۔

lگفتگو کا سلیقہ: بچے سے گفتگو کرتے ہوئے ان تمام باتوں کو لحاظ رکھیں، جنھیں بڑوں سے گفتگو کرنے میں ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان سے تو تڑاک اور گھٹیا لفظوں سے گریز کریں ورنہ وہ بھی ایسے ہی الفاظ بولیں گے۔ ہم ان سے تعظیم کے کلمات سے بات کریں گے تو وہ بھی ایسے ہی کلمات سیکھیں گے اور گفتگو کریں گے۔ لہٰذا بچے سے گفتگو کے دوران محتاط رویہ اپنایئے۔ ان کے سامنے بیہودہ، مذاق، گالی گلوچ، تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ ہرگز نہ بولے جائیں۔ ان سے گفتگو نرمی سے کریں، اور ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ بھی مناسب نہیں۔ اس سے بچے کے دل سے رعب جاتا رہتا ہے اور اس کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آپ گھر کے مدرس و معلم ہیں، کوئی تھانیدار اور صوبیدار نہیں۔ مناسب رویہ یہی ہے کہ بچے کو حکمت سے صحیح اور غلط کی تمیز سکھائی جائے۔ جہاں ضرورت ہو سرزنش بھی کریں اور بچے کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ میری کیا کوتاہی تھی جس کی بناپر سرزنش کی گئی۔ اس سے بچے کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہوگا اور اس میں احساسِ ذمہ داری بھی بیدار ہوگا۔

  •  بچوں کی گفتگو پر نظر: بچے کی گفتگو پاکیزہ، مہذب اور عمدہ اخلاق پر مبنی ہونی چاہیے۔ اس کام میں اس کی رہنمائی کرتے رہنا چاہیے، تاکہ آج کا بچہ کل بڑا ہوکر عمدہ گفتگو کرنے پر قادر ہوسکے اور اپنی عمدہ گفتگو سے دوسروں کو متاثر کرسکے۔ ہمارے معاشرے میںگالیوں اور بُری زبان بولنے اور گھٹیا الفاظ استعمال کرنے کارواج ہے۔ انسان کی تعلیم و تربیت میں زبان کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس لیے بچے کی گفتگو کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور کوئی گالی زبان پر چڑھ گئی ہو تو اسے بھی چھڑوانا چاہیے۔ بعض گالیاں، کفریہ کلمے، گناہ ہوتے ہیں، جیسے کسی پر لعنت کرنا، جھوٹی قسم کھانا۔ ان گناہوں سے بچانا چاہیے۔ بچے کے سامنے اچھا نمونہ اور معیار رکھنا ضروری ہے۔ بچے کو افراد اور اشخاص کی مثال دی جائے تو دینی، اخلاقی، سماجی، معاشرتی اور علمی لحاظ سے اُونچے اور بڑے لوگوں کی مثالیں دینا چاہیے۔ یہ سنت ِ نبویؐ ہے۔
  • جہوٹ سے اجتناب : بچے کے سامنے دھوکا، ٹھگی اور بے ایمانی کی بات نہیں کرنا چاہیے اور نہ بچے سے کہیں کہ دروازے پر جاکر پوچھنے والوں سے کہہ دو کہ ابا گھر پر نہیں ہیں۔     یہ جھوٹ اور بُری تعلیم ہے۔ بچے کی شخصیت کی اُٹھان سچ پر ہونی چاہیے۔ اسلام میں جھوٹ کی  کس شدت سے مذمت کی گئی ہے کہ اس کا اندازہ رسول اکرمؐ کے اس فرمان سے لگایا جاسکتا ہے کہ مومن جھوٹا اور خائن نہیں ہوسکتا۔
  •  تھذیب و اخلاق:کوشش کریں کہ ایک کھانا تمام گھر کے افراد ضرور مل کر کھائیں۔    اس سے محبت بڑھتی ہے، بے تکلفی پیدا ہوتی ہے اور کھانے کا سلیقہ آتا ہے۔ کھانے میں برکت بھی ہوتی ہے۔ چھوٹوں، بڑوں کی تربیت ہوتی ہے، اور کمتری و برتری کا احساس ختم ہوتا ہے۔ باہمی محبت پرورش پاتی ہے، اور ہلکی پھلکی دین و دنیا کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ آج کل جنریشن گیپ اور باہمی دُوری کی ایک وجہ یہ ہے کہ چھوٹے، بڑے مل کر نہیں بیٹھتے، بلکہ ایک دوسرے سے دُور دُور اور  کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ اجتماعی کھانے کے اور بہت سے فائدے اور مصلحتیں بھی ہیں۔ باہم مل جل کر بیٹھنے سے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ بچے بڑوں کا ادب کرنا اور سلیقے سے گفتگو کرنا سیکھتے ہیں۔ اسلامی تہذیب اور آداب سیکھتے ہیں۔
  •  صفائی و طھارت کی تربیت: ماں باپ کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اپنی اولاد کو صفائی اور طہارت کی تعلیم و تربیت دینا ہے۔ ان میں حرام و حلال، پاک و پلید، جائز و ناجائز، صفائی و گندگی کی تمیز پیدا کرنا ہے۔ ان کو شعور دینا چاہیے کہ پیشاب یا گندگی سے ہاتھ آلودہ ہوجائے تو اسے صاف کرنا اور ہاتھ صابن سے دھونا اور تولیہ استعمال کرنا چاہیے۔ ہرشخص کا علیحدہ تولیہ ہونا اور بچے کو بھی اپنا تولیہ دینا چاہیے۔ اس سے اس میں اپنی چیز ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اسی طرح کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کی تعلیم دینا اور اس کی حکمت اُجاگر کرنی چاہیے۔
  • ماحول کے بگاڑ سے محفوظ رکہنا: گھروں سے باہر کے ماحول کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو اور بچے کو اس سے بچانے کے لیے اسے گھر میں رکھیں لیکن صرف گھر میں بٹھادینا اور کوئی مصروفیت و مشغولیت نہ دینا ان کے ساتھ زیادتی اور غیرفطری کام ہے۔ اس لیے اس کی مصروفیت کی ایک لمبی فہرست سامنے ہونی چاہیے، جیسے کلاس کا ہوم ورک، چھوٹے بچوں کے لیے کھلونے، اِن ڈور کھیل، ڈرائنگ اور رنگ بھرنا، اخلاقی اور معلوماتی کہانیاں پڑھنا، لڑکوں کو والد یا بڑے بھائی کے ساتھ مسجد لے جانا اور نماز پڑھانا، تفریحی پارک میں لے جانا، ٹی وی کے معلوماتی و تفریحی پروگرام (جیسے کارٹون دکھانا) وغیرہ۔ بچے کو بااخلاق اور اچھے پڑوسی کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی محدود اجازت دینا بھی چاہیے۔ رات کو بلکہ سورج غروب ہونے کے بعد بچے کو گھر سے نکلنے نہ دیں۔ حدیث شریف میں اس کی ممانعت بھی ہے۔ بچے کو جیب خرچ کم دینا چاہیے اور اگر زیادہ دیا جائے تو اسے کسی طریقے سے جمع کرنے کی عادت ڈالنا چاہیے۔ اس سے بچے کو ذمہ داری کے ساتھ پیسے کو خرچ کرنے اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے بچت کی تربیت ہوتی ہے۔
  •  روز مرہ دعائیں سکہانا: بچوں کو روز مرہ کی دعائیں صحیح تلفظ سے یاد کرائیں، ان کی معنی بھی بتائیں اور موقع پر پڑھنے کی عادت ڈالیں، جیسے صبح اُٹھنے کی دعا، سلام کرنا، بیت الخلا میں جانے اور واپس آنے کی دعا، وضو کے بعد کی دعا، بسم اللہ صحیح پڑھنا، کھانا ختم کرنے کے بعد کی دعا، سبق پڑھنے اور علم میں اضافے کی دعا، الحمدللہ کہنا، شکرادا کرنے کی دعا اور سونے وغیرہ کی دعا۔
  •  برابری کا برتاؤ: بچے چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں ان سے برابر کا سلوک اور ایک سا برتائو کرنا چاہیے۔ یہ برتائو کھانے پینے، لباس، بول چال اور لین دین میں کرنا اسلام کی تعلیم و تہذیب اور روح ہے۔ بیٹیوں اور بیٹوں میں برابری کا سلوک نہ کرنا جاگیردارانہ اور جاہلانہ طریقہ ہے، اور دورِ جاہلیت کی نشانی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح ہدایات دی ہیں۔
  • بچوں کی حفاظت: بچوں کی صحت کے تحفظ کی ذمہ داری والدین پر ہے۔ اس لیے بیماری کے وقت خود ہی علاج نہ کرنا چاہیے، خواہ مخواہ بیماری کو بڑھانا نہیں چاہیے، بلکہ کسی لائق ڈاکٹر یا حکیم کو دکھانا چاہیے۔ کھانے پینے کی اشیا میں ان کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مضرصحت غذا ہرگز نہ دینا چاہیے۔ حفظانِ صحت کے اصولوں کو پیش نظر رکھیے اور بچوں کو بھی ان سے آگاہ کریں۔
  • کتاب دوستی اور تعمیری سرگرمیاں: بچے کی تربیت کے حوالے سے ایک اہم پہلو ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھانا ہے۔ گھر چونکہ ابتدائی مدرسہ ہے، لہٰذا کتاب دوستی کی بنیاد گھر سے پڑنی چاہیے۔ آغاز میں ماں یا والد بچوں کو سوتے وقت قصے کہانیاں، انبیا کے قصص، حکایات اور دلچسپ کہانیاں سنا کر اس رجحان کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ بچوں کے ذوق اور سمجھ کے مطابق کتب سے کہانیاں پڑھ کر بھی سنائی جاسکتی ہیں۔ گھر میں بچوں کے رسائل بھی اس ذوق کو بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔ کبھی کبھی بچوں کو کسی کتاب کی دکان پر لے جاکر کتب بھی خرید کر دیں۔ امتحانات یا کسی کامیابی کے موقع پر کتاب بطور انعام دیں۔ بچے کا لائبریری سے تعلق پیدا کریں۔ کسی قریبی لائبریری میں بچوں کو ساتھ لے کر جائیں۔ اسی طرح اسکول لائبریری سے تعلق پیدا کریں، اور اساتذہ بھی اس کا اہتمام کریں۔ اس سے بچے کی کتاب دوستی بتدریج مضبوط ہوتی چلی جائے گی۔

کتب بینی اور رسائل کا مطالعہ بچوں کی ضرورت بنا دیں۔ وہ اس طرح کہ بچوں کو ’بزمِ ادب‘ کی طرز پر پروگرام میں شریک کروائیں۔ بچہ اپنی صلاحیت اور رجحان کے مطابق قصہ کہانی،   تقریر، قرآن و حدیث سے انتخاب،اقوالِ زریں، پہیلیاں اور کوئز مقابلے کے لیے سوالات کی تیاری     کے لیے کتب کی طرف رجوع کرے گا۔ اس سے کتب بینی کا شوق بھی بڑھے گا اور تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بچے کی شخصیت کے پوشیدہ جوہر بھی کھلیں گے۔ اگر خود کتاب دوستی کا مظاہرہ کریں، کتب خریدیں، لٹریچر پڑھیں اور دوسروں کو پڑھنے کو دیں، خدمتِ خلق کا کام کریں تو فطری انداز میں بچہ ان کاموں سے وابستہ ہوجائے گا۔ تحریکی نظم سے وابستہ ہونے سے یہ کام ایک تسلسل سے  ہوسکتے ہیں۔

  • تعلیمی ادارے سے ربط رکہنا: جہاں آپ کا بچہ پڑھ رہا ہے، کوئی ہنر سیکھ رہا ہے،وہاں کے پرنسپل اور ذمہ دار یا استاد سے کبھی کبھار مل لیا کریں، حال احوال لے لیا کریں۔  کبھی فون کریں، کبھی خود چلے جائیں، کبھی گھروالوں میں سے کسی کو بھیج دیں اور رابطے میں رہیں۔ بچے کو باقاعدہ اسکول بھیجیں اور چھٹی کی صورت میں ادارے کی انتظامیہ کو اطلاع دیں۔

بچے کی تعلیمی، دینی، اخلاقی اور معاشرتی تربیت کریں، اس کا دین و ایمان پختہ کریں تو وہ آپ کے لیے دنیا اور آخرت کی راحت کا سبب بنے گا۔ اس کی نیکیوں سے ایک حصہ آپ کو قبر کے اندھیرے اور تنہائی میں پہنچے گا، اور حساب کے دن اس کی شفاعت نصیب ہوگی۔ بچے کو درس گاہ  اس طرح بھیجیں کہ وہ تعلیم کے وقت پر ادارے میں موجود ہو۔ بچہ مکمل تیاری کے ساتھ مقررہ لباس (یونیفارم) میں ملبوس ہو اور صفائی ستھرائی کا انتظام کر کے آئے۔

یہ چند باتیں، اسکول،مدرسہ اور کسی ادارے میں جانے والے بچے کے بارے میں عرض کی گئی ہیں۔ ان میں اولاد کے تمام حقوق بیان نہیں کیے گئے۔ ایک گزارش یہ ہے کہ بچوں کے والدین نفسیات کی دو تین کتابیں خاص طور پر بچوں کی نفسیات، تعلیمی نفسیات، عمومی نفسیات ضرور ملاحظہ کریں اور انھیں عمل میں لانے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے بچوں کو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور اچھے وارث بنائے، نیک صالح کرے اور دینی و دنیوی ترقی سے نوازے اور پاکستان کے اچھے شہری بنائے، آمین!

اسلام نے مسلمانوں کو باہمی سلام کرنے‘ دعا دینے اور خیرو بھلائی چاہنے کے لیے‘ جن کلمات کی تعلیم دی ہے ان میں ایک کلمہ برکت ہے۔ یہ کلمہ بھی سلام کی طرح مسلم معاشرے کا شعار‘ ثقافت اور عام دعائیہ کلمہ ہے۔ لہٰذا ہر خوشی و شادمانی اور کامیابی و کامرانی کے موقعے پر اور عام سلام کرتے وقت یہ لفظ کثرت سے بولا جاتا ہے۔ اس کلمے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ہر نمازی دو رکعت کی نماز میں اسے کم از کم چار مرتبہ ادا کرتا ہے۔ ثنا میں تَبَارَکَ اسْمُکَ تشہد (التحیات) میں اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اور درود ابراہیمی میں اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّک حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ میں دو مرتبہ کہتا ہے۔

پھردعائیہ جملوںاور فقروں میں اسے روزانہ متعدد مرتبہ بولا جاتاہے۔ سلام کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا جاتا ہے۔ کوئی خوشی کا موقع اور تقریب ہوتی ہے تو اپنے بھائی بہن کو اور دوست و احباب کو مبارک باد کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے۔ کوئی کھانے کی دعوت دیتا ہے تو مخاطب بارک اللہ‘ یا اللہ برکت دے کا جملہ بول کر ما فی الضمیرکا اظہار کرتا ہے۔ کسی بچے کی صلاحیت‘لیاقت اور ذہانت ظاہر ہوتی ہے تو برکت کا کلمہ کہہ کر دعا دی جاتی ہے‘ کسی کاروبار میں نفع ہوتا ہے‘ فصل کی پیداوار میں کثرت ہوتی ہے‘ تعلیم میں کامیابی ہوتی ہے‘ ملازمت ملتی ہے یا اس میں ترقی ہوتی ہے‘ نکاح و شادی ہوتی ہے‘ بیٹا تولد ہوتا ہے‘ ختم قرآن ہوتا ہے‘ حج و عمرے کی ادایگی ہوتی ہے یا کوئی اور خیروبھلائی نصیب ہوتی ہے‘ تو ہدیہ تبریک پیش کرکے دعا دی جاتی ہے۔

مسلم معاشرے میں عموماً بہت سی دعائیںاور دعائیہ کلمات غیرشعوری اور غیرارادی طور پر کہے جاتے ہیں اور کہتے وقت ان کے معانی و مفاہیم کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ ایسے ہی یہ کلمہ بھی بول دیا جاتا ہے۔ پھر شکوہ یہ کیا جاتاہے کہ آج کل ہمارے ہاں سے برکت اٹھ گئی ہے۔ اشیا سے برکت نکل گئی ہے اور بے برکتی رہ گئی ہے۔ اتنے اسباب‘ وسائل‘ مال و متاع اور دھن  دولت ہونے کے باوجود برکت نہیں رہی ہے۔

برکت کا نزول کیسے ہو‘ اس دعا کے اثرات کیسے ظاہر ہوں‘ جب کہ اس دعائیہ کلمے کے نہ معنی معلوم ہیں اور نہ مفہوم ذہن میں آتا ہے اور نہ اس کا دائرۂ اثر اور ہمہ گیریت پیش نظر ہوتی ہے۔ صرف رسم کے طور پر کہہ دیا جاتا ہے‘ نیز یہ دعائیہ کلمہ کہتے وقت دل کا شعور و احساس بھی ناپید ہوتا ہے‘ جب کہ دعا کے لیے ضروری ہے کہ وہ شعور و احساس اور توجہ سے کی جائے۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غافل دل سے دعا قبول نہیں فرماتے۔

یہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس اہم دعائیہ کلمے کے معنی‘ مفہوم‘دائرۂ اثر اور اس کی اہمیت اور لغت میں اس کے استعمال کے بارے میں مختصر سا تذکرہ کیا جاتاہے تاکہ ہر مسلمان اسے شعور و احساس کے ساتھ بولے اور اس کے مفہوم کو سامنے رکھ کر دعا کے طور پر ادا کرے۔

برکت کے لغوی معنی اور استعمال

برکت کے معنی اور استعمال کے بارے میں لغت کی ضخیم ترین اور اساسی کتاب  لسان العرب میں اس کلمے پر چار صفحات میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

یہ کلمہ ثلاثی مجرد باب‘ ن سے ہے جیسے بَرَکَ یَبْرُکُ جم کر بیٹھنا۔البتہ اس باب سے بہت کم استعمال ہوا ہے لیکن باب مفاعلہ (مبارکۃ) سے کسی قدر زیادہ‘ باب تفاعل سے اور زیادہ آیا ہے اور باب تفعیل اور افتعال سے بھی استعمال ہوا ہے۔ باب تفعیل سے تبریک کے معنی ہیں انسان وغیرہ کے لیے برکت کی دعا کرنا‘ جیسے بَرَّکْتُ علیہ تبریکًا اے قلتُ لہ بارک اللّٰہ علیک وبارک اللّٰہ الشی ٔ وبارک فیہ وعلیہ، یعنی اس میں اللہ تعالیٰ برکت کرے۔

یہ کلمہ جب جملے میںفعل بن کر استعمال ہو تو صلے کے بغیر بھی آتا ہے اور عَلٰی فِیْ،اور لِ کے صلے سے بھی آتا ہے جیسے اللھم بارک علی محمد، ابترک الفرس فی عدوہ، گھوڑا اعتماد سے اور جم کر چلتا رہا۔ ابترکوا فی الحرب یعنی جنگ میں سواریوں پر جم کر بیٹھے۔ باب مفاعلۃ اور تفاعل سے بھی آتا ہے جیسے بارکنا حولہ ہم نے اس کے ارد گرد برکت کی۔ تَبٰرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآئِ بُرُوْجًا (الفرقان ۲۵:۶۱) بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔

اصحابِ لغت جیسے ابن منظور نے لسان العرب میں‘ زمخشری نے اساس البلاغہ میں اور عبدالرحمن کیلانی نے اپنی مشہور کتاب مترادفات القرآن میں مثالیں دے کر اس کے پانچ معنی لکھے ہیں۔

۱-  نمو، افزایش اور بڑہوتری: وَقَالَ الزُّجَاجُ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَھٰذَا کِتَابٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبَارَکٌ (الانعام ۶:۱۵۵) قال المبارک ما یأتی من قبلہ الخیر الکثیر۔ زراعت میں فصلوں‘ پھلوں کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ اس سے مراد اُن کا بڑھنا‘ پھلنا پھولنا اور زیادہ اناج دینا ہے۔

۲- عُلو، رفعت اور بلندی: قال الازہری معنی برکۃ اللّٰہ، علوہٗ علی کل شی ئٍ وقال ابوطالب ابن عبدالمطلب: بورک المیت الغریب کما بورک نضح الرُّمان والزیتون۔ ’’مسافر میت کے درجات بلند ہوں جیسے زیتون اور انار کے درخت مناسب برسات سے بلند ہوتے ہیں‘‘۔

۳- ثبات‘ دوام اور بقا: فی الحدیث الصلاۃ علی النبی علیہ السلام وبارک علی محمد وعلٰی آلِ محمد اے ۔۔۔۔۔۔ اَثبت واَدِم ما اعطیتہ من التشریف والکرامۃ، یعنی جو شرف و بزرگی تو نے ابراہیم اور آلِ ابراہیم کو عطا کی ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل کو ہمیشہ کے لیے اور دائمی عطا کر۔ یہ معنی اور استعمال اس عوامی عربی محاورے سے ماخوذ ہے بَرَکَ الْبَعِیْرُ۔ جب اونٹ باڑے میں اپنی جگہ پر جم کر بیٹھ جائے۔

۴- خیر و بہلائی میں کثرت و زیادتی:  قال ابن عباس معنی البرکۃ الکثرۃ فی کل خیر۔ ہر قسم کی خیر میں کثرت ہو یعنی مادی اور معنوی خیر و بھلائی کی کثرت ہو۔

حدیث ام سلیم میں ہے: فحنکہ وبرک علیہ اے دعا لہ بالبرکۃ، اس برکت سے مادی و روحانی اورظاہری اور معنوی دونوں قسم کی برکتیں شامل ہیں۔

۵-  سعادت و خوش بختی:  فرّاء مشھور نحوی ولغوی نے رحمتہٗ وبرکاتہٗ سے مراد سعادت و نیک بختی لی ہے۔ ابومنصور نے تشہد کے کلمات اوردعا پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے: ایُّھَا النبی ورحمۃ اللّٰہِ وبرکاتہ لان من اسعدہُ اللّٰہُ بمَا اسعد بہ النبی فقد نال السعادۃ المبارکۃ الدائمۃ یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ وہ سعادت بخشے جو اپنے نبی کو بخشی ہے تو اس نے دائمی نیک بختی پالی۔

ان تمام معانی کا مجموعہ رمضان کے مہینے کوحدیث سلمان فارسی میں شھرمبارک قرار دینے میں پایا جاتا ہے۔ ایک بزرگ تحریر کرتے ہیں: آدمی کا وقت‘ پیسہ‘ محنت اور عبادات ضائع ہونے سے بچ جائیں۔ تھوڑے وقت میں زیادہ کام ہو جائے‘ تھوڑے پیسوں میں زیادہ ضروریات پوری ہو جائیں‘ تھوڑی محنت سے کامیابی حاصل ہو جائے‘ تھوڑی عبادت سے اللہ تعالیٰ زیادہ ثواب عطا فرما دیں اور اللہ تعالیٰ ایسے کام کروا لیں جس سے اللہ کی مخلوق کو یا اس کے دین کو زیادہ نفع پہنچ جائے۔

کتاب اللّٰہ اور برکت کا کلمہ

قرآن مجید میں بَرَکَ کے مادے اور مصدر سے یہ کلمہ اسم و فعل کی صورت میں ۳۲ مرتبہ آیا ہے۔ ان میں اسم کی صورت میں ۱۷ مرتبہ اور فعل کی شکل میں ۱۵ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ افعال میں باب نصر‘ ینصر‘ باب مفاعلہ (مبارکۃ) اور باب تفاعل تبارک سے صیغے آئے ہیں۔

قرآن مجید میں آمدہ کلمات کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں یہ پانچوں معانی پائے جاتے ہیں تاہم روحانی اور معنوی معانی کا غلبہ ہے اور دو تہائی کلمات میں دونوں مفاہیم (روحانی و مادی‘ ظاہری و معنوی) موجود ہیں یعنی حسی و مادی برکہ اور روحانی و معانی برکہ۔ صرف دو کلمے ایسے ہیں جن میں مادی و حسی معانی کا مفہوم واضح ہے۔ اور ایک تہائی کے قریب ایسے کلمات ہیں جن میں صرف روحانی اور معنوی معنی ہی پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ صیغے اور کلمات ہیں جن کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صفات کی طرف کی گئی ہے۔ نوصیغے باب تفاعل سے آئے ہیں‘ جیسے اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo (اعراف ۷:۵۴) یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام برکات کا منبع ہے اور دوسروں کو برکت عطا کرنے والی ہے۔ اس کے بعد باب مفاعلہ سے آٹھ صیغے آئے ہیں جیسے سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّن الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ  الْاَقْصٰی الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱) ان تمام صیغوں میں برکت عطا کرنے کی نسبت اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات برکت عطا کرنے والی ہے اس کے علاوہ کوئی برکت عطا کرنے والا نہیں ہے۔ اس باب سے اسم اور مفعول کے ۱۲ صیغے آئے ہیں جیسے مبارک‘ مبارکۃ ان تمام میں برکت عطا کرنے‘ ان میں برکت رکھنے اور ان کو مبارک بنانے والی اللہ ہی کی ذات ہے۔ باقی تین صیغے برکۃ کی اسم جمع برکات کے ہیں۔

برکت کے تمام کے تمام کلمات یہ ظاہر اور واضح کرتے ہیں کہ برکت عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے سوائے کوئی ہستی ایسی نہیں ہے کہ برکت عطا کرے۔ اس لیے اس دعائیہ کلمے کی نسبت اللہ کی طرف ہی کرنی چاہیے اور اسی سے برکت طلب کرنی چاہیے۔ لہٰذا عام طور پر دعا میں برکاتہٗ (اللہ کی برکتیں) ہی کہا جاتا ہے ۔ اُردو میں ایسے موقعے پر اللہ برکت دے‘ برکتیں عطا کرے‘ مبارک ہو یعنی اللہ کی طرف سے برکتیں ہوں۔ کوئی شخص کھانے پینے کی دعوت دے تو جواب میں کہا جاتا ہے اللہ برکتیں دے اور برکتیں عطا کرے‘ اللہ بخش دے‘ اللہ بہت دے وغیرہ یا ایسے ہی دوسرے جملے اور فقرے کہے جاتے ہیں۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کامل بابرکت ہے۔ لہٰذا اللہ کی طرف اس کی نسبت کرنے کے معانی و مفاہم یہ ہوں گے کہ وہی ذات بلندو بالا اور قائم و دوائم ہے اور خیروبھلائی دیتی ہے۔ سعادت و بھلائی اس کی طرف سے آتی ہے۔

مختلف مفسرین کی نظر میں

ذیل میں نمونے کے طور پر چند متداول تفاسیر سے برکت کے معنی اور مفہوم پیش کیے جارہے ہیں۔ سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں آمدہ کلمہ وَبَارَکْنَا حَوْلَہٗ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے اس طرح بیان کیا ہے۔

  • تفسیر ابن کثیر: بَارَکْنَا حَوْلَہٗ ،’’اس مسجد کے ارد گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ پھل‘ پھول‘ کھیت اور باغات وغیرہ‘‘۔ (ج۳‘ ص ۱۶۶‘ ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑھی)
  • تفسیر معارف القرآن (مفتی محمد شفیع)ؒ، ’’بیت اللہ کی برکات: وہ مبارک ہے۔ لفظ مبارک برکت سے مشتق ہے۔ برکت کے معنی ہیں بڑھنا اور ثابت قدم رہنا۔ پھر کسی چیز کا بڑھنا اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا وجود کھلے طور پر مقدار میں بڑھ جائے اور اس طرح بھی کہ اگرچہ اس کی مقدار میں کوئی خاص اضافہ نہ ہو‘ لیکن اس سے کام اتنے نکلیں جتنے عادۃً اس سے زائد سے نکلا کرتے ہیں۔ اس کو بھی معنوی طور پر زیادتی کہاجا سکتا ہے۔

اس کے بعد مفتی محمد شفیعؒ نے اس کی ظاہری برکتیں گنوائی ہیں: ’’اس بے آب و گیاہ خطے میں پھلوں‘ سبزیوںاور دوسری خوراک کی ضروریات مہیا ہوتی ہیں اور لاکھوں انسانوں اور حج و عمرہ کرنے والوں کے لیے باافراط موجود ہوتی ہیں اور کسی صورت میں کم نہیں ہوتیں‘‘۔ قرآن مجید نے اس برکت کو یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْ ئٍ (جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں۔ القصص ۲۸:۵۷) سے بیان کیا ہے۔

معنوی اور باطنی برکات تو بے شمار ہیں جیسے حج و عمرہ اور دوسری عبادات کا اجر تعداد میں ایک لاکھ تک بڑھ جانا‘ مومن کا گناہوں سے پاک ہونا اور گناہوں سے محفوظ رہنا وغیرہ۔ (ج ۲‘ ص ۱۱۷)

مسجداقصیٰ اور ملک شام کی برکات بیان کرتے ہوئے مفتی صاحبؒ لکھتے ہیں: اس کی برکات دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی۔ دینی برکات تو یہ ہیں کہ وہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اور بہت سے انبیا کا مسکن و مدفن ہے‘ اور دنیاوی برکات میں اس کی سرزمین کا سرسبز ہونا اوراس میں عمدہ چشمے‘ نہریں اور باغات وغیرہ کا ہونا ہے‘‘۔ (ج ۵‘ ص ۴۴۳)

  • فی ظلال القرآن: اَلَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ، ’’جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد پر ہر وقت برکت اِلٰہیہ کا فیضان ہوتا رہتا ہے اور وہ اس میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے‘‘۔ (ج ۳‘ ص ۲۶۹‘ ترجمہ: معروف شاہ شیرازی)
  • تفھیم القرآن: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق اِسی کعبے کی یہ برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینے کے لیے پورے ملک کو اس کی بدولت امن میسرآجاتا تھا۔ پھر ابھی نصف صدی قبل ابرہہ کی فوج قہرِالٰہی کاشکار ہوئی۔ (اٰل عمران ۳:۹۶)
  • تدبر قرآن: مولانا امین احسن اصلاحی کے نزدیک یہ اسی زمین کی روحانی و مادی دونوں قسم کی زرخیزیوں کی طرف اشارہ ہے۔ قدیم صحیفوں میں اسے دودھ اور شہد کی سرزمین کہا گیا ہے‘ جو اس کی انتہائی زرخیزی کی تعبیر ہے۔ روحانی برکات کے اعتبار سے اس کا جو درجہ تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جتنے انبیا کا مولد و مدفن ہونے کا شرف اس سرزمین کو حاصل ہوا کسی دوسرے علاقے کو حاصل نہیں ہوا (ج ۳‘ ص ۴۷۴)
  • ضیاء القرآن: پیر کرم شاہؒ کی نظر میں اس کی برکتوںکا کیا کہنا‘ اس میں نماز پڑھی جائے تو لاکھ نماز کا ثواب ملتا ہے۔ ایک ختم قرآن کیا جائے تو لاکھ کا ثواب ملتا ہے۔ نیز اس کا حج و عمرہ کرنے والوں‘ اس کے گرد طواف کرنے والوں پر اللہ کی رحمت کی جو بارش برستی ہے اس کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے۔ (ج ۱‘ ص ۲۵۵)
  •  تفسیر عثمانی: (شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ و مولانا شبیراحمد عثمانیؒ) ۱- یعنی جس ملک میں مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) واقع ہے وہاں حق تعالیٰ نے بہت سی ظاہری و باطنی برکات رکھی ہیں۔ مادی حیثیت سے چشمے‘ نہریں‘ غلے‘ پھل اور میووں کی افراط اور روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو کتنے انبیا و رسل کا مسکن و مدفن اور ان کے فیوض و انوار کا سرچشمہ رہا ہے۔ (بنی اسرائیل ۱۷ حاشیہ۳)

۲- وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ (اعراف ۷:۹۶) ’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور پرہیزگاری کرتے تو ہم کھول دیتے ان پر نعمتیں آسماں اور زمین سے لیکن جھٹلایا انھوں نے۔ پس پکڑا ہم نے ان کو ان کے اعمال کے بدلے‘‘۔

مولانا اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اگر یہ لوگ ہمارے پیغمبروں کو مانتے اور حق کے سامنے گردن جھکاتے اورکفروتکذیب وغیرہ سے بچ کر تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو ہم ان کو آسمان و زمین کی برکات سے مالا مال کر دیتے۔ امام رازیؒ نے فرمایا کہ برکت کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ کبھی تو خیر باقی و دائم کو برکت سے تعبیر کرتے ہیں اور کبھی آثارِ فاضلہ پر اس لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ ایمان وتقویٰ اختیار کرنے پر ان آسمانی و زمینی نعمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے جو دائمی و غیرمنقطع ہوں یا جن کے آثار فاضلہ بہت کثرت سے ہوں۔ (تفسیر عثمانی ‘ الاعراف ۷‘ ص ۲۱۶‘ حاشیہ ۳)

برکت کا کلمہ اور احادیث

احادیث میں یہ کلمہ کثرت سے مذکورہ بالا اپنے معانی و مفاہیم میں دعا کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ نبی کریمؐ نے مختلف افراد و اشخاص‘ خاندانوںاور گھرانوں‘ اعمال و افعال اور باغات واشیا کے لیے دعا میں اسے استعمال فرمایا ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں ملاحظہ کریں۔

التحیات (تشہد) میں فرمایا گیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔ آپؐ نے سلامتی و رحمت اوربرکات کی سعادت کو نیک و صالح مومنوں کی طرف بڑھا دیا۔ چنانچہ ابومنصور نے کہا: مومن بندوں کی طرف سے آپؐ کے لیے دعا کا جواب آپؐ نے یہ دیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔’’وہی سلام و برکت ہم پر ہے وہ اللہ کے صالح بندوں پر بھی ہو‘‘۔ یہاں برکتوں سے مراد سعادت و خوش بختی اور دوام و ثبات ہے‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نمازی کو درود ابراہیمی میں آپؐ اور آپؐ کی آل اولاد کے لیے ایسی برکت کی دعا کی تلقین کی جیسی برکت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل و اولاد‘ ان کی دعوت و تبلیغ اوراللہ کی راہ میں قربانیوں میں اللہ تعالیٰ نے عطا کی۔ اس سے برکت کے دائرے‘ وسعت اور ہمہ گیریت کا اندازہ ہوتا ہے۔

آپؐ نے ماہِ رمضان کو شھرمبارک (برکتوں بھرا مہینہ) فرمایا۔ اس کا مفہوم ہم نے اوپر بیان کیا ہے‘ اسے ملاحظہ کرلیں۔

آپؐ نے حضرت عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہما کی کھجوروں کے کھلیان میں برکت کے لیے دعا کی تو ان میں اتنی برکت (خیروکثرت) آئی کہ اس سے ان کا قرض ادا ہوگیا اور ان کے کھانے کے لیے اتنی بچ گئیں جتنی ہر سال بچتی تھیں‘ جب کہ درخت وہی تھے اور پیداوار بھی ہرسال جتنی ہی تھی۔

ایسے سیکڑوں واقعات مروی ہیں کہ آپؐ  نے کسی کے مال‘ جان‘ صحت اور اولاد کے لیے برکت کی دعا دی اور اس سے ان میں معنوی و حسی اورمادی برکات شامل ہوگئی اور اشیا ظاہری و معنوی دونوں حیثیتوں سے بڑھ گئیں۔ ان میں ثبات آگیا اور درختوں و پھلوں میں نشوونما زیادہ ہوگئی۔ ایک مثال حضرت سلمان فارسیؓ کے باغ کی ہے جس میں آپؐ نے صحابہؓکے ساتھ مل کر کھجوروں کے ۳۰۰ پودے لگائے۔ حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ کھجور کا ایک پودا بھی ضائع نہیں ہوا۔ یہ آپؐ کی برکت تھی۔ آپؐ کی برکت کے اثرات وثمرات کے واقعات احادیث میں بہت زیادہ ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے جن دعائوں کی تعلیم دی اور جو دعائیہ کلمات سکھائے ان میں ایک کلمہ برکت کا ہے۔ چنانچہ کھانے کے بعد کی یہ دعا سکھائی: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَاَطْعِمْنَا خَیْرًا مِّنْـہُ۔(ترمذی)۔ میزبان کے لیے دعا: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَھُمْ فِیْمَا رَزَقْتَہُمْ وَاغْفِرْلَھُمُ وَارْحَمْھُمْ ، نیا پھل دیکھنے پر اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ ثَمَرِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ حَدِیْقَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مُدِّنَا اور دودھ یا دوسرا مشروب پیے تو یہ دعا کرے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَزِدْنَا مِنْـہُ (ترمذی)۔ کھانے میں عام طور پر دونوں پہلو پیشِ نظر ہوتے ہیں: ۱- کھانے میں مادی برکت‘ ۲-روحانی و معنوی برکت۔ اسی لیے  برکت کی دعا کی تعلیم دی گئی۔

برکت کے لیے چند آداب

برکت کا کلمہ دعائیہ کلمے اور دعا کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے تو ہمیں اپنی دعائوں میں اس کے معانی و مفاہیم کو دعا کرتے وقت سامنے رکھنا چاہیے اور دعا کی شرائط و آداب کا پوری طرح لحاظ رکھنا چاہیے‘ چاہے انسان خود اپنے لیے دعا مانگ رہا ہو یا کوئی دوسرا مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے دعا کر رہا ہو۔ ہر حالت میں دعا کے شرائط و آداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

آج عام تصور اور تاثر یہ ہے کہ ہمارے اعمال و افعال اور اشیا سے برکت اٹھ گئی ہے اور بے برکتی گھر کر آئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ برکت کا حقیقی تصور ہم سے اوجھل ہوگیا ہے اور یہ کلمہ صرف رسمی اور لفظی بول کے طور پر ہی بولا جاتا ہے۔ جسم اور تلفظ موجود ہے لیکن روح  معدوم و مفقود ہے۔ ایک رسم ہے جو مبارک باد یا برکت کے کلمات بول کر ادا کی جا رہی ہے۔ بقول شخصے ’مسلمان اندر کتاب و مسلمانان اندر گور‘ کے مطابق برکت کے معنی اور مفہوم کتابوں میں اور وہ بھی پرانی کتابوں میںاور حقیقی برکت کی دعا کرنے والے قبروں میں جاپہنچے اور     ہم بے برکتی کا شکوہ کرنے والے رہ گئے ہیں۔ برکت کی دعا کرتے وقت اس کے آداب میں درج ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے۔

  • ارادہ: دعا کرتے وقت دعا کا ارادہ اور اس کا تصور اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم‘ صحابہ کرام اور صلحاء اُمت کی دعا کی کیفیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
  • اخلاص: جس کام کے لیے دعا کر رہے ہیں‘ جس بھائی کے لیے دعا مانگ رہے ہیں اس میں اخلاص بنیادی شرط ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بیرونی حالت اور الفاظ تو دعائیہ ہوں اور دل میں اس شخص سے یا اس دعا سے اخلاص نہ ہو‘ اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ (دین خیرخواہی کا نام ہے)۔
  • معانی ومفھوم کا لحاظ: دعائیہ الفاظ کے معنی اور مفہوم کو سامنے رکھنا چاہیے۔ شعور واحساس کے ساتھ دعاہو۔ جب کسی کی برکت کے لیے دعا مانگ رہے ہوں یا مبارک باد دے رہے ہوں تو برکت کے مادی و حسی اور معنوی و روحانی تصور کو مستحضر کرنا چاہیے۔

آج ہماری دعائوں کے بے اثر ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے معانی و مفاہیم کا کوئی شعور نہیں ہوتا۔ صرف طوطے کی طرح چندبول بولے جاتے ہیں اور ان کے معانی پر دل و دماغ کو مرکوز نہیں کیا جاتا۔

  • دعا کی قبولیت کا یقین: ہر دعا کی قبولیت کے نتیجے میں چار میں سے کوئی ایک صورت ضرور سامنے آتی ہے‘ البتہ یہ ضروری ہے کہ دعا میں اوپر بیان کردہ شرائط لازماً موجود ہوں۔ اگر شرائط پوری نہ ہوں تو دعا رد کر دی جاتی ہے اور وہ صرف الفاظ کا مجموعہ ہوگا۔

چار صورتیں یہ ہیں: دعا اپنی اصل حالت میں قبول ہوجاتی ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگا جائے وہی مل جائے۔ دوم یہ کہ دعا کرنے والے سے‘ اس پر آنے والی کوئی مصیبت ٹل جاتی ہے۔ سوم یہ کہ اس دعا پر کوئی اور عطیہ مل جائے اور چہارم یہ کہ اسے آخرت کے لیے اس کے نامۂ اعمال میں نیکی کے طور پر ذخیرہ کر دیا جائے۔ ان پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہیے کیونکہ کوئی بھی دعا جو شرائط و آداب کے ساتھ کی جائے وہ ضائع نہیں جاتی۔ان چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں وہ دعائیں قبول ہوتی ہیں جو سنت رسولؐ کے مطابق اور اس کے دائرے میں رہ کر کی جائیں۔

  • دعا کے کلمات: یہ کلمے سادہ‘ صاف ہوں اور جس زبان میں کی جا رہی ہو اس کی فصاحت و سلاست اور شستہ زبان سے آدمی دعا کرے۔ تُک بندی‘ قافیہ بندی اور گفتگو میں تکلف نہیں ہونا چاہیے۔
  • دعا‘ کس کے لیے: دعا صرف جائز‘ حلال اور مباح چیزوں اور باتوں کے لیے کی جائے۔ حرام‘ ناجائز اور شرعاً ممنوع باتوں کے لیے نہ کی جائے اس لیے کہ حرام کی کمائی جو ناجائز طریقے سے کمائی جائے یا اس کے کمانے اور کاروبار کرنے میں ناجائز حربے اور حیلے اختیار کیے جائیں تو اس میں برکت نہیں آتی بلکہ جو برکت ہے وہ بھی اٹھ جاتی ہے۔

اکثر تاجر اور دکان دار‘ اشیا کی قیمت اور سامان کی اصلی قیمت بتانے میں جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تجّار کو اس سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے: ’’جھوٹی قسموں سے مال تو فروخت ہوجاتا ہے لیکن اس مال سے ہونے والی کمائی سے برکت اُٹھ جاتی ہے‘‘۔(صحیح بخاری‘ مسلم‘ ابوداؤد اور ترمذی)

حرام اور ناجائز طریقے سے کمائی ہوئی دولت سے روحانی برکت تو چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں سے خیروبھلائی ختم ہوجاتی ہے اور ڈھیروں دولت اور کروڑوں روپے موجود ہونے اورزندگی کے عیش و عشرت کے تمام اسباب مہیا ہونے کے باوجود زندگی میں سکون و اطمینان‘ سُکھ و راحت حاصل نہیں ہوتی‘ آل اولاد میں فرمانبرداری و اطاعت نہیں رہتی‘ نیکی کے کاموں کی توفیق نہیں ہوتی اور زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ اور آخرکار اس سے مادی و ظاہری برکت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی تشریح ایک حدیث مبارک میں اس طرح آئی ہے۔ حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجارت میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ اس سے پہلے تو کامیابی ہوتی ہے لیکن پھر بے برکتی ہوجاتی ہے (صحیح مسلم‘ نسائی اور ابن ماجہ)۔ اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کسی کے لیے برکت کی دعا اور مبارک باد صرف جائز‘ پاکیزہ اور مباح باتوں‘ کامیابیوں اور نعمتوں پر دی جائے گی۔

آج ہمارے معاشرے میں عام طور پر ان باتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا اور ہر جائز و ناجائز‘ کامیابی اور حلال و حرام طریقے اور ذریعے سے حاصل شدہ بات پر خیروبرکت کی دعائیں دی جاتی ہیں اور مبارک باد کے ڈونگرے برسا دیے جاتے ہیں۔ یہ بات شرعی‘ اخلاقی اور عقلی لحاظ سے غلط ہے۔ برکت‘ ہدیۂ تبریک اور مبارک باد کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی مدنظر رہے کہ یہ کلمہ اسلامی شعار اور مسلم ثقافت کی علامت ہے۔ لہٰذا اسے سنجیدگی اور وقار اور کسی قابلِ قدر بات‘ کامیابی اور حصولِ نعمت کے موقعے پر ہی بولنا چاہیے۔ اسے مذاق بنالینا‘ مذاق کے طور پر استعمال کرنا اور معمولی یا غیر اہم باتوں پر موقع بے موقع بولنا درست نہیں ہے۔

اگر ہم برکت کے اس تصور کو سامنے رکھیں اور یہ یقین ہو کہ برکت عطا کرنے والی ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے‘ اس لیے نسبت بھی اسی سے ہو‘ اسی کی رضا کو پیش نظر رکھا جائے‘ اور   دین و ایمان کے عملی تقاضے بھی پورے کیے جائیں تو جہاں انفرادی زندگی میں خدا کی برکات کو محسوس کیا جا سکے گا‘ وہاں اجتماعی زندگی میں اور اُمت کی سطح پر دیگر برکات و ثمرات کے علاوہ   غلبہ و سربلندی بھی میسرآسکے گی۔ ان شاء اللہ!